Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

ام المومنین حضرت ام سلمیٰ
ARI Id

1689956726155_56117757

Access

Open/Free Access

Pages

۴۴۰

ام المومنین حضرت ام سلمیٰ ؓ
ہند بنت ابی امیہ سہیل بن المغیر ہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم کے شوہر نے ہجرت مدینہ کی ، تو ہند ان کے ( شوہر ابو سلمہٰ) ہمراہ نہ تھے ۔
کیونکہ ام سلمہؓ کے میکہ والے مزاحم ہوئے اور انہوں نے اسے روک لیا ،ام سلمہ ؓ اپنے گھر واپس آئیں تو ان کے شوہر ابو سلمہ ؓ کے گھر والوں نے اس سے بچہ چھین لیا ، جس کا نام سلمہ تھا ۔وہ اپنے بچہ سے بچھڑ گئیں ۔ وہ روزانہ گھر سے نکل پڑتی اور ابطع میں بیٹھ کر رویا کرتی تھی ۔ سات آٹھ دن بعد ابطع سے ان کے خاندان کا ایک شخص نکلا ۔ اس نے ام سلمہ کوروتے دیکھا تو اس کا دل جذبہ ترحم سے بھر آیا ۔ گھر آکر لوگوں کو جمع کر کے کہا کہ اس پر ظلم کیوں کرتے ہو ؟ اسے جانے دو : اور ساتھ ہی اسے بچہ دے دو ۔ لوگوں نے بات مان لی اور بچہ ام سلمہ ؓ کے سپرد کر دیا اور مدینہ جانے کی بھی اجازت دے دی ۔ وہ تنہا سفر کر رہی تھی ۔ تنعیم کے مقام پر کلید بردار کعبہ عثمان بن طلحہ جو ابھی مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے ، انہوں نے سیدہ سلمہ ؓ سے پوچھا ، کہاں کا ارادہ ہے ؟ انہوں نے کہا ۔مدینہ ۔ انہوں نے پوچھا : کوئی ساتھ ہے ؟ آپ نے فرمایا ’’ خدا اور یہ بچہ ‘‘ ۔انہوں نے اونٹ پر سوار کر لیا اور خود مہار پکڑ لی ۔ جب قباء کی آبادی پر نظر پڑی تو عثمان نے کہا ’’ اب تم اپنے شوہر کے پاس چلی جائو، وہ یہیں قیام پذیر ہیں ‘‘ ۔ سیدہ سلمہ ؓ قباء کو اور عثمان مکہ کو روانہ ہو گئے ۔
واقعی لوگ حیران تھے کہ اتنے بڑے باپ کی بیٹی کیسے تنہا سفر کر سکتی تھی ۔ شرفاء عورتوں کو نکلنے کی جرائت نہیںہوتی تھی ۔ سیدہ مجبوراََ خاموش ہو جاتیں ۔ انہیں لوگوں کی حیرت کا پورا پورا اندازہ تھا لیکن وہ آتش ایمان جو قلب میں موجزن تھی جس نے دلیری بخشی ۔ سیدہ قباء پہنچی تو لوگ ان سے پوچھتے تم کس کی بیٹی ہو ؟ ۔۔۔ جب آپ بتاتی کہ ابو امیہ کی بیٹی ہوں تو وہ یقین نہیں کرتے تھے ۔ کچھ عرصہ بعد جب کچھ لوگ حج کے ارادہ سے نکلے اور عازم مکہ ہوئے تو سیدہ سلمہ ؓنے ان کے ہاتھ اپنے گھر والوں کو ایک خط بھجوایا ، انہیں یقین ہوا کہ وہ واقعی ابو امیہ کی بیٹی ہیں ۔ وہ نہایت سخاوت کی پیکر تھیں اور اجواد العرب میں سے تھیں ۔ ( امہات المومنین ۔۲۱۵۔۲۱۴)
اہم نکتہ: سیدہ ام سلمہ ؓ نے اپنے بیٹے عمر سے کہا کہ اٹھو اور حضور ﷺ سے میرا نکاح کردو ۔ نسائی کی روایت میں لابنھا ( اپنے بیٹے عمر سے کہا ) کے الفاظ ہیں ۔ اگرچہ حافظ نے اس کی روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے اور حافظ المزنی نے کہا کہ صحیح الفاظ یہ ہیں ’’ قم یا عمر ‘‘ مسند احمد کی کئی روایتوں میں یہ لفظ منقو ل ہیں اور جو لابنھا کا لفظ ہے وہ راوی کا سہو ہے ، یا اپنے گمان و ظن سے لکھ دیا ہے کیونکہ ان کے لڑکے کا نام بھی عمر تھا لیکن یہاں عمر سے مراد حضرت عمر بن الخطاب ؓ ہیں ، ان کا لڑکا مراد نہیں کیونکہ وہ اس زمانہ میں صغیر السن تھا ۔ نیز بعض روایات میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نکاح کا پیغا م لے کر آئے تھے ،لیکن مسلم کی روایت میں ہے کہ حضور ﷺ کی طرف سے نکاح کا پیغام سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ لے کے آئے تھے ۔
اہم نکتہ : سیدہ ام سلمہ ؓ کا نکاح شوال چار ہجری کی آخری تاریخوں میں ہوا ۔ ابو عبیدہ معمر بن المثنیٰ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے واقعہ کے بعد شوال دو ہجری میں سیدہ ام سلمہ ؓ نے حضور سے نکاح کیا ، لیکن یہ روایت غیر معتبر ہے کیونکہ ابو سلمہ کی وفات کے بعد اور عدت گزرنے پر آپ نے سیدہ ؓ سے نکاح کیا اور ابو سلمہ ؓ کی وفات جمادی الآخر چار ہجری میں ہوئی تھی ۔
اہم نکتہ: ابو امیہ سے رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی عاتکہ بیاہی ہوئی تھی ۔ عبداللہ بن ابو امیہ ام زبیر اور قریبہ ان کی اولادیں تھیں لیکن ام سلمہ ؓ کی ماں یہ عاتکہ نہیں تھیں ۔ ارباب سیرّ کہتے ہیں کہ ام سلمہ ؓ کی ماں عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ بن مالک کنانیہ تھیں ۔ یہاں پر صاحب روضۃ الاحبا ب کو نام کی وجہ سے دھوکہ ہوا ہے ۔ ( اصح السیرّ ۔۵۷۷)
اہم نکتہ : سیدنا ام سلمہ ؓ کے بارہ میں مسند احمد اور دوسری کتب میں کچھ روایات واقعہ کربلا اور سید نا عبداللہ بن زبیر ؓ کے بارے میں ہیں جب وہ بیت اللہ میں پناہ گزین ہوئے تھے ۔ یہ سب روایات پایہ ثبوت تک نہیں پہنچتیں کیونکہ واقعہ کربلا سن اکسٹھ ہجری میں پیش آیا اور حضرت عبداللہ ؓ تریسٹھ ہجری کو بیت اللہ میں پناہ گزین ہوئے اور سیدہ ام سلمہ ؓ کا انتقال انسٹھ ہجری میں ہو گیا تھا ۔( حوالہ بالا۔۲۴۲)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی (مدارج النبوہ ۔۲۔۵۰۰) فرماتے ہیں کہ یہی قول اصحٰ ہے یعنی سیدہ سلمہ ؓ کا انتقال انسٹھ ہجری میں ہوا کیونکہ بعض نے باسٹھ ہجری قرار دیا ہے جس سے وہ کر بلا کی روایات کی تطبیق کرتے ہیں ۔
اعتراض نمبر ۱۲۲
آیت تطہیر ’’انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت ویطھرکم تطہیرا‘‘(الاحزاب ۳۳،پارہ ۲۲) میں ازواج مطہرات شامل نہیں ہیں ۔
اول: اہل سنت و جماعت کے نزدیک یہ آیت کریمہ بالا جماع صحابہ کرام ، ازواج مطہرات کے بارے میں نازل ہوئی اور اہل بیت سے مراد اس آیت میں آپ ﷺ کی ازواج مطہرات مراد ہیں اور تطہیر سے مراد تزکیہ نفس ، تہذیب باطن اور تصفیہ قلب ہے جس سے بعد میں انسان گناہوں سے محفوظ ہو جاتا ہے ، لیکن شیعہ حضرات اس آیت سے مراد حضرت علی ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ و حسن و حسین ؓ لیتے ہیں اور اس کی دلیل یہ لاتے ہیں کہ اہل سنت کی صحیح احادیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے ان چار حضرات کو اپنی کملی میں لے کر فرمایا ’’ اے اللہ ! یہ چاروں میرے اہل بیت ہیں تو ان سے ناپاکی کو دور کر دے اور تو پاک کر دے ‘‘۔ اس آیت لفظ منکم اور یطھرکم ‘‘ میں جو ضمیریں ہیں مذکر کی ہیں ،ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس آیت میں ازاوج النبی مراد نہیں ہیں ۔
دوم: اہل تشیع یہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں اذہاب رجس اور تطہیر گناہوں سے پاک کر دینا ہے یعنی معصوم بنا دینا مراد ہے ، جس سے ان چاروں کی عصمت ثابت ہوتی ہے۔ اہل بیت کی عصمت کو ثابت کرنے کے لیے مذکور آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہیں ۔
جواب: اول اعتراض کا جواب یہ ہے کہ لفظ اہل بیت اور لفظ آل عربی زبان میں دونوں ہم معنی ہیں ۔ عربی لغت میں آل کے معنی اہل خانہ کے ہیں ، جو مستقل گھر میں رہتے ہیں ، جس میں امہات المومنین اصالتاََ داخل ہیں اور اولاد اور ذریت تبعاََ داخل ہیں ۔ نیز غلاموں اور لونڈیوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جب لفظ اہل خانہ یا اہل بیت بولا جاتا ہے ، عرفاََ اور محاورۃََ ہر شخص اس کا یہی مطلب لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جو لوگ گھر میں رہتے ہیں ، ظاہر ہے کہ اس وصف میں اصل ازواج ہیں جو ہمیشہ گھر میں رہتی ہیں ۔ بیٹوں اور بیٹیوں کا ہمیشہ گھر میں رہنا خلاف عادت ہے ۔ خاص طور پر آنحضرت ﷺ کے حجروں اور گھروں میں تو سوائے آپ ﷺ کی ازواج کے اور کوئی نہیں رہتا تھا ۔
قرآن کریم میں بھی اس مفہوم کا ذکر آتا ہے ۔’’اتعجبین من امر اللہ رحمۃ اللہ و برکاتہ علیکم اھل البیت انہ حمید مجید‘‘ سیدنا ابراہیم ؑ کے واقعہ میں فرزند کی بشارت دی تو بڑھاپے کی وجہ سے بشارت پر تعجب ہوا ۔ اہل بیت کی کتاب میں حضرت سارہ ؓ داخل ہیں اور اصل خطاب انہی سے ہے ۔ فرشتوں نے حضرت سارہ کو اہل بیت سے خطاب کر کے ان کو خدا کی رحمتوں اور برکتوں کی دعائیں دیں ۔
۲۔ دوسرے اعتراض یعنی ضمیریں مذکر ہیں ۔ شیعہ حضرات اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اعتراض وارد کرتے ہیں اور تنقید کرتے ہیں کہ تم نے نبی کی زوجہ سارہ پر لفظ اہل بیت کا اطلاق کیسے کیا اور تم نے مونث کے لیے مذکر کی ضمیر کیسے استعمال کی اور نبی کی زوجہ مطہرہ کو تم نے رحمۃ اللہ برکاتہ علیکم ضمیر مذکر کر کے کیوں خطاب کیا ، تم کو چاہیے کہ علیکم کی بجائے علیکن کہتے ۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اہل بیت میں ازواج داخل ہیں اور تعجبین کا اصل خطاب سیدہ سارہ ؓ کو ہے جو صیغہ مونث ہے اور اس کے بعد رحمۃاللہ برکاتہ علیکم ، اہل بیت ہیں ۔ اہل بیت کو بلفظ مذکر ’’علیکم ‘‘ خطاب کیا ۔ علامہ زمحشری نے لکھا ’’ خود قرآن کریم میں سیدنا موسیٰ ؑ کے قصہ میں ہے ’’ قال لاھلہ امکثو ‘‘ انہوں نے اپنی بی بی سے کہا ذرا ٹھہر جائو۔ ظاہر کے مطابق یہاں امکثی یا الکثن ہونا چاہیے تھا ، اس قسم کے مواقع میں صیغہ مذکر اور خطاب مذکر لفظ اہل کی رعایت سے لایا گیا ہے کہ وہ اصل میں مذکر ہے ۔ ‘‘
مذکورہ آیت میں اول تا آخر ازواج سے خطاب ہے اور اس قدر صریح ہے کہ تاویل کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یا نساء النبی ۔۔ آخر خطاب تک ازواج مطہرات کو ہے مگر درمیان میں کچھ صیغے مونث کے استعمال ہوئے جیسے الطعن اللہ ، تسنن اور فی بیوتکن وغیرہ لہٰذا شیعہ حضرات کا اعتراض باطل ہوا کہ کلام عرب میں اظہار محبت کے لیے مونث کے لیے تو مذکر کا صیغہ استعمال ہو سکتا ہے مگر مذکر کے لیے مونث کا صیغہ اور مونث کی ضمیر کا استعمال کہیں سننے اور دیکھنے میں نہیں آیا ۔
حضرت ابو اسید ساعدی بدری سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب ؓ کو فرمایا : اے ابو الفضل ! کل تم اور تمہاری اولاد اپنے گھر میں ہی رہنا ‘ باہر کہیں بھی نہیں جانا ‘ مجھے تمہارے ساتھ کام ہے ۔ وہ اپنے گھر میں سرکار دو عالم ﷺ کی تشریف آوری کے منتظر رہے ۔ آ پ ﷺ قدم رنجہ فرما ہوئے اور فرمایا اسلام علیکم ! انہوں نے جواب میں وعلیکم اسلام و رحمۃ اللہ و بر کاۃ عرض کیا ‘ صبح کس حال میں کی ہے آ پ ﷺ نے دریافت فرمایا؟ الحمد اللہ خیر و عافیت کے ساتھ پھر آ پ ﷺ نے فرمایا ذرا ذرا قریب قریب ہو جائو اور ایک دوسرے کی طرف کھسک کر نزدیک ہو جائو ‘ تین مرتبہ آپ ﷺ نے یہ کلمات دہرائے ‘ جب وہ اس قدر اکٹھے ہو گئے کہ آ پ ﷺ کا ان کو ایک کپڑے میں لپیٹ لینا ممکن ہو گیا تو آ پ ﷺ نے اپنی چادر مبارک ان کے ارد گرد پھیلادی اور اس کے گھیرے میںلے کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا فرمائی ’’ ھذا العباس عمی و ضو ابی و ھو لا ء اھل بیتی اللھم استر ھم منالنار کستری ایا ھم بملا نی ھذاہ ( یہ عباس ہیں جو کہ میرے چچا ہیں اور میرے باپ کے ساتھ والی شاخ ( جو ایک تنے سے نمودار ہونے والی ہے )اور یہ میرے اہل بیت ہیں ۔ اے اللہ ان کو آگ سے پوشیدہ رکھ ( اور دور ) جیسے کہ میں نے ان کو اپنی اس چادر میں چھپایا ہوا ہے اور نگاہ اغیار سے پوشیدہ اور دور کر رکھا ہے ۔ آ پﷺ کے دہن مبارک سے یہ کلمات نکلنے ہی تھے کہ دروازے کی دہلیز اور اس منزل کے سبھی در ودیوار نے تین مرتبہ آ مین کہی ۔(الوفا:۳۸۴)
(مترجم)اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ سرور عالم ﷺ نے حضرت عباس ؓ اور ان کی اولاد کو بھی اپنے اہل بیت قرار دیا ہے اور جس طرح حسنین کریمین اور سیدہ فاطمہ زہراء ؓ اور علی المرتضی ؓ کو چادر میں لے کر دعا فرمائی اسی طرح ان کے لیے بھی دعا فرمائی لہٰذا اہل بیت کا صرف پنجتن میں حصر درست نہیں ہے بلکہ اہل بیت عام ہیں جن میں نسبی لحاظ سے بنو ہاشم و بنو عبدالمطلب داخل ہیں ۔ ولادت کے لحاظ سے سرورعالم ﷺ کی اولاد صلبی بیٹے اور بیٹیاں اور حضرات حسنین اور ان کی بہنیں داخل ہیں اور سکونت کے لحاظ سے جملہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنھم داخل ہیں ۔ ( اشعتہ اللمعات )
اعتراض نمبر۱۲۳
حدیث میں اہل بیت نبوت میں ازواج کو داخل نہیں فرمایا گیا ۔
جواب : حدیث پاک میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے چاروں حضرات کو فرمایا ’’ اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ‘‘ ۔ اس سے بعض میں اہل بیت نبوت میں ازواج کو داخل نہیں کیا جب کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ! یہ بھی میرے اہل بیت ہیں ، ان کو بھی آیت تطہیر کی فضلیت میں داخل ہونا ہے اور ان کو بھی اس کرامت میں شامل فرما ۔ آپ ﷺ کا مقصود اس سے حصر نہیں کہ بس اہل بیت ہیں اور ازواج مطہرات اہل بیت نہیں ہیں ۔ یوں بھی ذکر ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جب ان چاروں کو عبا میں داخل فرمایا تو سیدہ ام سلمہ ؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے بھی ان کے ساتھ شامل فرما لیجئے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنی جگہ ہو ۔۔۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ تمہیں عبا میں داخل کرنے کی ضرورت نہیں ، تم تو پہلے ہی سے اہل بیت میں داخل ہو ۔
دوم: علماء کرام نے لکھا ہے کہ لفظ اہل بیت کے عموم میں اپنے ان خاص عزیزوں کو بھی داخل کرنا مقصود تھا اس وجہ سے ان چاروں کے لیے دعا فرمائی اور بعض روایات میں سید نا عباس ؓ اور ان کی اولاد کو بھی عبا میں لے کر اہل بیت میں داخل فرما کر دعا کی ۔
سوم : سیدہ ام سلمہؓ کو اہل بیت میں شمار کیا ۔آپ ﷺ نے فرمایا’’ تو اہل بیت میں سے ہے ‘‘ ۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں ’’ اور تیری بیٹی بھی ‘‘ ۔
چہارم: بعض روایات میں ہے کہ سید نا علی ؓ اور آپ کے دوسرے افراد کے لیے یہ آیت نازل ہوئی تھی ، تو دوسرے افراد کو شامل کر کے دعا فرمانا چہ معنی دارد؟
پنجم : بعض روایات میں ہے کہ سیدنا علی ؓ اور ان کے اہل خانہ سے فارغ ہو کر آپ ﷺ نے ام سلمہ ؓ کو بلایا اور اپنی عبا میں داخل کر کے ان کے لیے بھی دعا فرمائی ۔ اس حدیث کو جیسے بعض حضرات کا خیال ہے صحیح نہیں ہے ۔اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ پانچ ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی ایک بیٹی اور اس کے دو بچوں اور داماد کو عبا میں لے کر دعا فرمائی اور دوسری بیٹی جو گھر میں موجود ہے ، اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی تمام رحمتوں سے دور کیوں رکھا جبکہ یہ آپ ﷺکی شان رحمۃ العالمینی سے دور ہے ۔
اعتراض نمبر ۱۲۴
بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس وقت آپ ﷺ کی کوئی اور بیٹی زندہ نہ تھی سوائے حضرت فاطمہ ؓ کے۔
جواب: آپ ﷺ کی بیٹی حضرت زینب ؓ اپنے بچوں کے ساتھ زندہ تھیں کیونکہ حضرت زنیب ؓ کی وفات آٹھ ہجری کو مدینہ میں ہوئی اور ان کی تجہیز وتکفین اور غسل میں سیدہ سودہ ؓ ، سیدہ ام سلمہ ؓ اور سیدہ ام ایمن ؓ نے حصہ لیا تھا ۔ ان کے خاوند ابو العاص اسیران بدر میں سے تھے ۔ شادی جمادی الاول چھ ہجری میں ہوئی ۔ان کے قافلہ کو مسلمانوں نے پکڑ لیا لیکن ابو العاص قافلہ سے پہلے مدینہ پہنچ گئے اور اپنی بیوی حضرت زینب ؓ کے ہاں پناہ لی ۔ حضرت زینب ؓ کی سفارش پر ابو العاص کو چھوڑ دیا اور ساتھ ہی سارا سامان تجارت واپس کر دیا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت زینب ؓ اپنے بچوں کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کے ہاں تھیں لیکن آپ نے ان تینوں یعنی حضرت زینب بنت رسول ؓ ، ان کی بیٹی اور بیٹے کو ( امامہ ۔علی ) جو بیت نبوت میں مقیم تھے ، ان کو اپنی عبا میں نہ لے کر اہل بیت سے خارج کر دیا اور دوسرے گھر کے چار افراد کو بلا کر اہل بیت میں شمار کر لیا ۔ یہ بات بعید از قیاس ہے ۔ اندازہ لگائیے کہ جو بیٹی اپنے بچوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے ہاں رہ رہی ہے اور وہ بیٹی جو دوسرے گھر میں اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہے ان میں سے گھر میں رہنے والی کو چھوڑ دیں اور دوسرے گھر میں رہنے والی کو اہل بیت میں شمار کریں سوء ادبی ہے ۔ مختصر یہ کہ اہل بیت سے مراد تو ازواج مطہرات ہیں ہی ، ان کے علاوہ اگر کسی صحیح روایت میں دیگر حضرات کا شامل ہونا ثابت ہوتا ہے تو وہ ازواج مطہرات کے طفیل ہے ، بالذات نہیں کیونکہ قرآن کریم نے ازواج مطہرات کو اہل بیت کہا ہے ۔
(امہات المومنین ۔ ۲۳۸۔۲۳۷)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...