Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

ام المومنین حضرت امِ حبیبہؓ
ARI Id

1689956726155_56117758

Access

Open/Free Access

Pages

۴۷۷

ام المومنین سیدہ ام حبیبہ ؓ
ام المومنین حضرت ام حبیبہ ؓ ، ابو سفیان بن حرب کی بیٹی تھیں ان کی والدہ صفیہ بنت ابو العاس تھی جو حضرت عثمان ؓ کی پھوپھی تھیں ۔ ابو سفیان اور صفیہ سے ایک بیٹی ہوئی جس کا نام رملہ رکھا ۔ ام حبیبہ ؓ عبیداللہ بن جحش کی زوجہ تھیں ان کے ساتھ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی ۔ دوسری ہجرت حبشہ میں بھی دونوں میاں بیوی شریک تھے ۔ حبشہ میں قیام کے دوران ان کے ہاں ایک بیٹی نے جنم لیا جس کا نام باپ نے حبیبہ رکھا ۔ اس کے بعد رملہ کو سب لوگ ام حبیبہ ؓ کے نام سے منسوب کرنے لگے پھر یہی نام بہ زبان زد عام ہو گیا ۔ عبیداللہ بن جحش مرتد ہو گئے اور وہ دین اسلام چھوڑ کر عیسائی بن گئے لیکن سیدہ ام حبیبہ ؓ دین اسلام پر قائم رہیں ۔
ایک شبہ کا ازالہ : ابن حبان نے سیدہ عائشہ ؓ سے یہ روایت بیان کی ہے کہ عبداللہ بن جحشؓ نے ام حبیبہ ؓکے ساتھ حبشہ کو ہجرت کی ، جب وہ حبشہ پہنچے تو عبداللہ بیمار ہوگئے اور وفات پا گئے ۔ جب اس کے انتقال کا وقت آیا تو اس نے رسول اللہ ﷺ کے لیے ایک وصیت چھوڑی ، پس آپ نے وصیت کے پیش نظر ام حبیبہ ؓ سے نکاح کیا اور نجاشی بادشاہ نے سیدہ ؓ کو شرجیل بن حسنہؓ کی معیت میں حبشہ سے مدینہ روانہ کر دیا ۔ ( امہات المو منین ۔۲۶۸) اس روایت میں دو باتیں قابل غور ہیں ۔ اول تو نام ہے جو اس روایت میں عبداللہ آیا ہے حالانکہ صحیح نام عبیداللہ ہے ۔ ابن حبان کو سہو ہوا ہے نیز یہ درست ہے کہ عبداللہ بن جحش نے پہلی ہجرت حبشہ کی طرف کی لیکن ام حبیبہ ؓ سے اس کا نکاح نہیں تھا بلکہ ام حبیبہ ؓ عبیداللہ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک تھیں اور یہی عبیداللہ بعد میں عیسائی ہو گیا تھا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ عبداللہ بن جحش اسلام پر قائم رہے تھے ۔ غزوہ احد میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک تھے اور جام شہادت نوش کیا جبکہ عبیداللہ نے مرتد ہو کر عیسائیت کو قبول کر لیا تھا ۔ اس طرح ابن حبان کی روایت میں عبداللہ بن جحش کا نام غلطی سے درج ہوا ہے یا کتابت کی غلطی سے ہوا یا ابن حبان کو سہو ہوا ہے ۔ ایک
اور شبہ کا ازالہ : صحیح مسلم میں ہے کہ لوگ ابو سفیان کو نظر اٹھا کر دیکھتے اور ان کے پاس بیٹھنا نا پسند کرتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے نبی مکرم ﷺ سے تین چیزوں کی درخواست کی ، جن میں ایک یہ تھی کہ آپ میری بیٹی ام حبیبہ ؓ سے شادی فرما لیں ۔ آپ ﷺ نے ان کی یہ درخواست منظور فرما لی ۔ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو سفیان کے مشرف با اسلام ہونے تک ام حبیبہ ؓ ، رسول اللہ ﷺ کے عقد میں نہیں آئی تھیں لیکن یہ راوی کا وہم ہے ۔ ام حبیبہ ؓ حرم نبوی میں داخل ہو چکی تھیں ، اس میں ابو سفیان ؓ کا کوئی عمل دخل نہ تھا اور نہ ہی انہوں نے آپ ﷺ سے ام حبیبہ ؓ کو بیاہنے کی درخواست کی تھی چنانچہ ابن سعد، ابن حزم ، ابن الجوزی ، ابن اثیر ، بیہقی اور امام منذری نے اس کے خلاف روایتیں کی ہیں اور سب نے اس روایت کی تردید کی ہے ۔ جمہور کی آراء کے مطابق ام حبیبہ ؓ کا نکاح حبشہ یا مدینہ میںہوا ۔ ان ہر دو صورتوں میں ان کے باپ کے اسلام لانے سے قبل یہ نبی مکرم ﷺ کے عقد میں آ چکی تھیں اور مسلم کی حدیث ’’ میں اپنی بیٹی کا نکاح آپ سے کرنا چاہتا ہوں کیسے درست ہو سکتی ہے ؟ اس وجہ سے ابن حزم نے اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے دوسروں نے اس کو راوی کا وہم قرار دیا ہے ۔ اگر چہ امام نووی نے ان چیزوں کا رد کر کے بہت سی تاویلیں کی ہیں لیکن وہ بعید از قیاس ہیں ۔ علامہ ابن القیم ان سب اقوال کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ درست بات یہ ہے کہ حدیث غیر محفوظ ہے اور اس میں تخلیط واقع ہوئی ہے۔ ابن خیثمہ نے مصعب بن عبداللہ الزبیری سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ام حبیبہ ؓ سے نکاح کیا تو اس زمانہ میں ابو سفیان مشرک تھے اور آپ سے بر سر پیکار تھے ، ان سے کہا گیا کہ محمد ﷺ نے آپ کی بیٹی سے نکاح کر لیا ہے ، یہ سن کر ابو سفیان نے کہا ’’ جواں مرد ہیں ، ان کی ناک نہیں کاٹی جا سکتی یعنی وہ بلند ناک والے معزز ہیں ، ان کو ذلیل کر نا آسان نہیں اور ادھر ہماری لڑکی ان کے نکاح میں چلی گئی ۔ (امہات المومنین ۔۲۷۲)
کفار نے معاہدہ حدیبیہ کو توڑ ڈالا تھا جس کی بناء پر حالات بہت کشیدہ ہو گئے تھے ۔ ان حالات کی سنگینی کو کم کرنے کے لیے کفار نے معاہدہ کی تجدید کی ترکیب سوچی اور فتح مکہ سے قبل ابو سفیان جو ابھی مشرف با اسلام نہیں ہوئے تھے ۔ تجدید معاہدہ کے لیے مکہ سے مدینہ گئے اور آپ ﷺ نے صحابہ کو خبر دی کہ ابو سفیان مکہ سے مدینہ مدت صلح کو بڑھانے اور عہد کو مضبوط کرنے کے لیے آ رہا ہے چنانچہ وہ مدینہ پہنچا اور سب سے پہلے اپنی بیٹی کے گھر گیا ۔ ابو سفیان ، آنحضرت ﷺ کے بستر پر بیٹھنے لگا تو ام حبیبہ ؓ نے بستر لپیٹ دیا تو ابو سفیان نے ناراض ہو کر پوچھا: بیٹی ! تو نے بستر کیوں لپیٹ دیا ؟ کیا تو نے بستر کو میرے قابل نہیں سمجھا یا مجھے بستر کے قابل نہیں سمجھا ؟ سیدہ ؓ نے جواب دیا یہ آنحضرت ﷺ کا بستر ہے ، اس پر ایک مشرک جو شرک کی نجاست سے ملوث اور آلودہ ہو، نہیں بیٹھ سکتا۔ ابو سفیان جھلا کر بولا خدا کی قسم ! تو میرے بعد شر میں مبتلا ہو گئی ہو ۔ سیدہ ؓ نے جواب دیا : شر میں نہیں بلکہ کفر و ظلمت سے نکل کر دائرہ اسلام کے نور و ہدایت کی روشنی میں داخل ہو گئی ہوں اور تعجب ہے کہ آپ سردار قریش ہو کر پتھروں کو پوجتے ہیں جو نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں ۔ اس واقعہ سے صریحاََ ظاہر ہوتا ہے کہ ابو سفیان نے سیدہ ام ؓحبیبہ ؓ سے نکاح کے لیے آپ ﷺ سے کسی قسم کی درخواست نہیں کی تھی اور ان کا نکاح حبشہ یا مدینہ میں فتح مکہ سے پہلے ہوا جبکہ ابو سفیان فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کرتے ہیں ۔ حبشہ کی سر زمین پر ام حبیبہ ؓ سے آپ ﷺ کے نکاح پر تاریخ شاہد ہے ۔ نجاشی نے خود خطبہ نکاح پڑھا وہ خطبہ یہ تھا ۔ ترجمہ ’’ حمد و ستائش ہے خدا وند تعالیٰ اور خدائے غالب اور عزیز و جبار کی ، میں گواہی دیتا ہو ں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اور رسول برحق ہیں اور آپ وہی نبی ہیں جن کی عیسٰیؑ ابن مریم نے بشارت دی ہے ۔ اما بعد رسول اللہ ﷺ نے مجھے تحریر فرمایا ہے کہ میں آپ ﷺ کا نکاح ام حبیبہ بنت ابو سفیان سے کر دوں ۔ میں نے آپ ﷺ کے ارشاد کے مطابق آپ کا نکاح ام حبیبہ ؓ سے کردیا اور چار سو دینار مہر مقرر کیا ۔ اس وقت چار سو دینار خالد بن سعید اموی کے حوالے کر دئیے گئے ، اس کے بعد خالد ؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا ’’ میں اللہ کی حمد و ثناء کرتا ہوں اور اس سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ ایک ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اور اس کے رسول برحق ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کر دے ، اگرچہ مشرکین کو ناگوار ہو ۔ امابعد! میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیام کو قبول کیا اور آپ ﷺ سے ام حبیبہ ؓ کا نکاح کر دیا ، اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے ۔ ( امہات المومنین ۔۲۷۰) بعد میں نجاشی کی طرف سے ولیمہ کیا گیا ۔ نکاح کے بعد سیدہ ام حبیبہ ؓ مدینہ چلی آئیں اس وقت آپ خیبر میں تھے ، یہ سن چھ یا سات ہجری کا واقعہ ہے ۔
اعتراض نمبر۱۳۴
۱۔’’ جناب پیغمبر ﷺ کو یہ امید تھی کہ ام حبیبہ ؓ کے وارث ابو سفیان کو وہ اپنے مشن کی کامیابی کے لیے مد دگار بنانے کی توقع کر سکتے تھے ‘‘(ولیم میور)
۲۔بیوہ ام حبیبہ ؓ ، رسول اللہ ﷺ کے کٹڑ دشمن کی بیٹی تھیں ، پیغمبر خدا کی سیاسی سوچ یہ تھی کہ ام حبیبہ ؓ سے شادی کر لینے سے اس کے باپ کی دشمنی کو کم کیا جا سکے گا ۔ (ارونگ)
۳۔حضرت حفصہ کی شادی کے باب میں واٹ کہتا ہے کہ اس شادی یا دیگر شادیوں کا جناب پیغمبر ﷺ نے اپنے لیے یا اپنے پیروئوں کے لیے خود اہتمام کیا ، ان میں سیاسی مقاصد یقیناََ پیش نظر تھے کوئی دیگر وجوہات نہیں تھیں ۔
جواب : سیاسی مقاصد کو مستشرقین پیش نظر رکھتے ہیں لیکن سوائے اس کے امہات المومنین کی شادیوں کی حکمتوں اور مصلحتوں اور دیگر مقاصدکو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ حضرت ام حبیبہ ؓ کو ہی لیجئے کہ ماں باپ دشمن ہیں ، انہیں اسلام ایک آنکھ نہیں بھاتا ۔ ام حبیبہ ؓ ہجرت کر جاتی ہیں ، وہاں ان کا شوہر فوت ہو جاتا ہے، اس اندوہناک صورت میں انہیں بے یارو مدد گار چھوڑا نہیں جا سکتا کیوں کہ اس کا عارضی سہارا شوہر بھی چل بسا ، اب وہ جائے تو جائے کہاں ، ماں باپ کے گھر بھی آنے سے رہی اس لیے ان غموں کا ازالہ کرنے کے لیے آپ نے ان سے شادی کی ۔ اس کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اگر اس جیسی غموں سے نڈھال بیوائوں کو بے سہارا چھوڑ دیا جاتا تو دوسرے اسلام قبول کرنے والے نو وارد افراد بھی اسلام کے متعلق کوئی اچھی رائے نہ رکھتے اور کہہ دیتے کہ اتنی مصیبتیں جھیلیں اور پھر بھی ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ہے اس لحاظ سے اسلامی ساکھ کو دھچکا لگتا اور کفار طعنہ دیتے کہ یہی دین اسلام ہے جس کی تعلیمات میں ہے کہ دکھیوں کی مدد کی جائے ، اور اب تم پر آزمائش پڑی تو کسی نے دھیان نہ دیا ، بس یہ ان کی مفاد پرستی تھی نہ کہ غریب بیوائوں سے ہمدردی تھی تو ایسے دین کو گلے لگا نے سے کیا فائدہ ! مرد وزن میں سے جس نے بھی اسلام کو گلے لگایا وہ اسلام ہی ہو کے رہ گیا ‘ ایسا نہیں کہ آزمائش وابتلا میں گھر کے اسلام کو خیر باد کہہ دیا ہو بلکہ پہاڑوں جیسی سامنے کھڑی مصیبتوں سے نہیں گھبراتے تھے اور سینہ سپر مرادنہ وار مقابلہ کرتے ہیں حتیٰ کہ اس راہ میں جان قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے بلکہ اسے زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں ۔
ام المومنین سیدہ صفیہ ؓبنت حییؓ
آپ یہودی قبیلہ بنی نضر کے سردار حیی ابن اخطب کی بیٹی تھیں ۔ والدہ کا نام خرد تھا ۔ وہ شوال ، قریضہ کے سردار کی بیٹی تھیں ۔ سیدہ صفیہ ؓ کا پہلا نکاح مسلم بن مشکم سے ہوا ۔ انہوں نے طلاق دے دی ، تب کنانہ ابن الحقیق کے نکاح میں آئیں ، یہ چھٹا یا ساتواں سن ہجری کا ا ٓغاز تھا ۔کنانہ کو محمد بن مسلمہ نے قتل کر دیا کیونکہ اس کے بھائی محمود کو یہودیوں نے کنانہ کے اشارے پر زندہ جلا دیا تھا ۔
پیغمبر اسلام ﷺ نے یہودیوں کی خفیہ سازش کو ناکام بنانے کے لیے خیبر پر چڑھائی کی ، خیبر فتح ہوا ، مال غنیمت ہاتھ آیا نیز قیدی بھی ہوئے ، ان قیدیوں میں صفیہ نامی خاتون بھی تھی ۔ صفیہ دحیہ الکلبی کے قرعہ میں پڑی مگر پیغمبر اسلامﷺ نے انہیں آٹھ عدد جانوروں کے بدلے میں آزاد کرایا جو بعد میں ان کا حق مہر قرار پایا ۔ آپ ﷺ نے شادی کا کہا تو وہ مان گئیں اور مسلمان بھی ہو گئیں ۔ دحیہ الکلبی کو ایک یا سات لونڈیا ں دے کر آپ ﷺ نے آزاد کرایا پھر ان سے نکاح کر کے حرم نبوی میں داخل فرمایا ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ صفیہ ؓ کو آپ ﷺ نے دحیہ الکلبی سے سات انسان کے بدلے میں خریدا تھا لیکن علامہ زرقانی کہتے ہیں کہ خریدنا مجازاََ کہا گیا ہے ۔ ( الصح السیرّ ۔۶۰۲)
(۲) بعض روایات میں ہے کہ آپ ﷺ نے خیبر کی فتح کے بعد غنیمت میں صفیہ قیدی ہو کر آئیںاور دحیہ الکلبی کے حصہ میں آئیں ، ان کا خاوند جنگ میں مارا جا چکا تھا ۔ صحابہ کرام ؓ نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے حسن و جمال کی تعریف کی اور کہا ہم نے قیدیوں میں اس جیسا کسی کو نہیں دیکھا چنانچہ آپﷺ نے دحیہ کو دوسری لونڈی عنایت کر دی اور صفیہ ؓ کو آزاد کر کے اس سے خود نکاح کر لیا اور تین دن ولیمہ کیا ، یہی ان کا مہر تھا ۔ ( امہات المومنین اور مستشرقین ۔ ۱۵۲)
ابن ہشام کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے صفیہ ؓ کو لانے کا حکم دیا ۔ صفیہ ؓ سمٹتی ہوئی رسول اللہ ﷺ کے پیچھے آگئیں ، آپ ﷺ نے ان پر اپنی چادر ڈال دی ، مسلمانوں نے سمجھ لیا کہ آپ ﷺ نے انہیں منتخب فرمالیا ہے ۔ ( ابن ہشام ۔جلد ۲۔ص۔۴۰۲)
اعتراض نمبر۱۳۵
بعض کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے حضرت صفیہ ؓ کے حسن و جمال کی خاطر نکاح کیا تھا ۔
جواب: حضرت انس ؓ سے متعدد روایتیں ہیں جو باہم مختلف ہیں ۔ بخاری کی غزوہ خیبر کے ذکر میں روایت ہے جس میں تصریح ہے ’’ جب قلعہ فتح ہوا تو لوگوں نے آپ کے سامنے صفیہ ؓ کے حسن کا ذکر کیا ان کو اپنے لیے لے لیا ‘‘ الفاظ یہ ہیں ’’ جب خدا نے قلعہ کو فتح کرا دیا تو لوگوں میں سے کسی نے صفیہ بنت حیی کے حسن وجمال کی تعریف کی ، اس کا شوہر اس جنگ میں مارا گیا وہ ابھی دلہن تھیں ۔ آنحضرت ﷺ نے اس کو اپنے لیے پسند فرمایا ‘‘ ۔ ( صحیح بخاری جلد اول ۔ص ۶۶۰کتاب المغازی ) مگر بخاری شریف کتاب الصلوۃ۔۱۔۱۲۶‘ اور مسلم شریف باب فضل عتق الامتہ میں خود انسؓ کی یہی روایت یوں نقل کی گئی ہے کہ لڑائی کے بعد قیدی اکٹھے کیے گئے تو دحیہ کلبی نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ ان میں سے ایک لونڈی مجھ کو عنایت ہو ۔ آپ نے انہیں اختیار دیا کہ خود جا کر کوئی لونڈی لے لو ، انہوں نے صفیہ ؓ کا انتخاب کیا ۔ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے آ کر کہا اے پیغمبر خدا ! آپ نے صفیہ کو دحیہ کلبی کے حوالے کیا وہ قریظہ اور بنی نضیر کی ریئسہ ہے اور آپ کے سوا اور کوئی اس کے لائق نہیں ۔ آپ نے فرمایا ، ان کو مع صفیہ کے لے آئو جب نبی ﷺ نے صفیہ ؓ کی طرف نظر کی تو فرمایا کہ ان کے علاوہ کوئی اور لونڈی قیدیوں میں سے لے لو ، انس ؓ کہتے ہیں پھر نبی ﷺ نے صفیہ ؓ کو آزاد کر دیا اور ان سے نکاح کر لیا ۔ابو دائود کی روایت میں ہے ’’ پیغمبر خدا آپ ﷺ نے صفیہ ؓ کو دحیہ کے حوالے کیا وہ قریضہ اور نضیر کی رئیسہ ہے اور آپ کے سوا اور کوئی اس کے لائق نہیں ‘‘ ابو دائود کی شرح میں مازری کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے صفیہ ؓ کو اس لیے حضرت دحیہ سے لے کر ان سے عقد کیا کہ ’’ چونکہ وہ عالی مرتبہ اور رئیس یہود کی صاحبزادی تھیں ۔ اس لیے ان کا کسی اور کے ساتھ جانا ان کی توہین تھی ۔‘‘ یہ بات نہیں کیونکہ اسلام خاندانی تفاخر اور چھوٹے بڑے کے فرق کو مٹاتا ہے لیکن یہ گمان غالب ہے کہ خود حضرت صفیہ ؓ دوسروں کے پاس جانے کو اچھا نہ سمجھتی ہوں اور اگر لحاظ مراتب نہ رکھتے ہوئے کسی اور کے ہاں اسے رخصت کر دیا جاتا تو بی بی صفیہؓ آپ ﷺ کی عدل گستری پر افسوس کناں ہوتی کیونکہ اسے ابھی اسلام کے قواعدو ضوابط کا علم نہ تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ حضرت صفیہ ؓ خاندان کے تباہ ہونے کے بعد خاندان سے باہر یا بیوی یا کنیز بن کر رہتی ۔ وہ رئیس خیبر کی بیٹی تھی اور ان کا شوہر نضیر کے قبیلہ کا سردار تھا باپ اور شوہر دونوں قتل کیے جا چکے تھے اس حالت میں ان کے پاس خاطر ، حفظ مراتب اور رفع غم کے لیے اس کے سوا اور کوئی تدبیر نہ تھی کہ آنحضرت ﷺ ان کو اپنے عقد میں لے لیں ۔ وہ کنیز ہو کر بھی رہ سکتی تھیں لیکن آنحضرت ﷺ نے ان کی خاندانی عزت کے لحاظ سے ان کو آزاد کر دیا اور پھر نکاح پڑھایا ( بلکہ مسند احمد بن حنبل میں ہے کہ آپ ﷺ نے ان کو اختیا ردیا کہ وہ آزاد ہو کر اپنے گھر چلی جائیں یا آپ ﷺکے نکاح میں آنا قبول کریں ، انہوں نے دوسری صورت پسند فرمائی) ۔
ف: آپ ﷺ نے اس کے رنج و غم کو غلط کرنے کے لیے پہلے آزاد کیا پھر نکاح کیا انہیں یہ اختیار بھی دیا کہ وہ آزاد ہے اپنے گھر چلی جائے مگر انہوں نے آپﷺ کے ہاں رہنے کو ترجیح دی ۔ (۲) دحیہ ؓ سے بی بی صفیہ ؓ کے حسن و جمال کی وجہ سے نہیں لیا تھا بلکہ صحابہ کی تجویز پر اپنے حرم میں داخل کیا ۔(۳) حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ صفی سے صفیہ ہے ۔ ابو دائود نے صحیح اسناد کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے لیے مسلمانوں کے ساتھ سہم ( حصہ ) مقرر کیا جاتا تھا ۔ جس کو صفی کہا جاتا ہے ۔ صفی وہ ہے جو نبی کریم ﷺ کے لیے ہر شے سے پہلے ہی علیحدہ کر دیا جاتا تھا ۔ شعبی کے طریق سے بیان کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ کا سہم ہوتا تھا جس کو صفی کہا جاتا تھا ، وہ لونڈی ہو یا گھوڑا ہو ، آپ ﷺ خمس سے وہ اپنے لیے منتخب فرما لیتے تھے ۔ قتادہ ؓ کے طریق سے ذکر کیا کہ آپ ﷺ غزوہ فرماتے تو آپ ﷺ کا ایک خاص سہم ہوتا تھا جسے آپ جہاں سے چاہیں لے لیتے تھے اور صفیہ اس میں سے تھیں ، اس لیے انہیں صفیہ کہا جاتا ہے جب کہ ان کا اصل نام ’’زینب‘‘ تھا ۔ قیدی ہونے پر جب صفی سے چن لی گئیں تو ان کا نام صفیہ ہو گیا یعنی آپ ﷺ کے مقرر کر دہ حصہ سے یہ امر ہے جیسے اوپر ذکر ہوا کہ آپ جہاں سے چاہیں سہم لے سکتے تھے اس طرح صفیہ ؓ کو لے لیا ۔ ( تفہیم البخاری ۔ ۶۔۳۱۲۔۳۱۱)
ایک شبہ کا ازالہ : بی بی صفیہ ؓ دحیہ ؓ کے قرعہ میں آئی تھیں ، یہ بات درست نہیں ہے کہ بی بی صفیہ ؓ دحیہ کے قرعہ میں پڑی تھی بلکہ دحیہ ؓ نے خود لونڈی عنایت کیے جانے کی بارگاہ نبوی ﷺ میں درخواست کی تھی ، جس پر آپ نے فرمایا: خود جا کر لے لو ۔ یہ انہوں نے خود لی تھی ، انہیں دی نہیں گئی تھی اور نہ ہی ان کے فال میں نکلی تھی نیز دحیہ ؓ کو اجازت نہ مرحمت فرماتے اگر آپ نے صفیہ ؓ کو حرم نبوی میں داخل فرمانا ہوتا ۔ صحابہ کی رائے صائب تھی اور صفیہ ؓ کی تالیف قلب اسی طرح ممکن تھی کہ آپ ﷺ بی بی ؓ کو اپنے حرم میں داخل فرمائیں چونکہ بی بی ؓ کا باپ اور شوہر ہلاک ہو چکے تھے اوروہ اپنے قبیلوں کے سردار تھے ۔ صفیہ ؓ بیوہ ہو گئیں سر کا تاج چل بسا بادشاہی جاتی رہی غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تو ان حالات میں ایسے سہارے کی ضرورت تھی جس سے ان کے دکھوں کا مداواہو سکے لہٰذا آپ ﷺ کی کرم نوازی سے سارے دکھ حرف مکرر کی طرح مٹ گئے ۔
اعتراض نمبر ۱۳۶
۱۔بعض روایات میں ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے بی بی صفیہ ؓ کو اپنے لیے منتخب فرمایا اور غنیمت کی تقسیم سے پہلے ان کو الگ کر لیا۔ ۱۱۔ بعض روایات میں ہے کہ آپ ﷺ نے دحیہ ؓ سے انہیں خرید لیا تھا کیونکہ یہ تقسیم میں دحیہ ؓ کے حصہ میں آئی تھیں ۔ ( امہات المومنین ۔۲۸۰) ۱۱۱۔ بعض نے کہا ہے کہ ان کے حسن و جمال کی تعریف سنی تو دحیہ ؓ کو معاوضہ دے کر خود نکاح کر لیا ( انسان کامل و نبی اکمل ۔۱۲۴)
جواب : (۱) آپ ﷺ نے اپنے لیے سیدہ صفیہ ؓ کو منتخب فرمایا ، درست ہے کیونکہ آپ ﷺ اپنا حصہ غنیمت سے جہاں سے اور جس سے چاہیں لے سکتے تھے یہ سہم مقرر کیا جاتا تھا اور ہر شے سے پہلے آپ ﷺ کے لیے الگ کر دیا جاتا تھا یہ قانون اور ضابطہ کے عین مطابق ہے ، اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ۔
(۲) دوسری روایت میں بھی کوئی ایسی بات پائی نہیں جاتی جس کے سبب اس سے انکار ممکن ہو وہ یوں کہ تقسیم سے قبل دحیہ ؓ سے انہیں حاصل کیا تھا اور انہیں جو رقم عطا کی تھی ، وہ قیمت خرید نہ تھی بلکہ انعام اور ہبہ کے طور پر تھی۔ ( امہات المومنین ۔۲۷۹) اگر آپ ﷺ نے رقم دی تو لونڈیاں دحیہ ؓ کو کیونکر عطا کی گئیں نیز یہ بھی بعید از قیاس ہے کہ حضرت صفیہ ؓ کے بدلہ میں سات لونڈیاں دیں ۔ امام شافعی ؒ کتاب الام میں واقدی کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں کہ دحیہ کلبی ؓ کو آنحضرت ﷺ نے بلوایا اور صفیہ ؓ کے بدلہ میں ان کے شوہر کنانہ کی بہن کو دیا ۔ ( اصح السیر ۔۶۰۲) بی بی صفیہ ؓ دحیہ کو نہیں دی گئی تھیں البتہ اس کی درخواست پر انہوں نے خود انتخاب کیا جس پر صحابہ کرام نے اصرار کیاتو صفیہ ؓ ان سے لے لی ، اس میں بھی کوئی قباحت اور حرج نہیں ،کیونکہ اول تو آپ ﷺ کا سہم تھا ، دوم دحیہ کا خود انتخاب تھا اور آپ ﷺ نے انہیں صفیہ ؓ عطا نہیں کی تھی اور نہ ہی عطا کرنے کے بعد واپس لی تھی بلکہ ان کی خاندانی وجاہت اور صحابہ کرام کی رائے کو قبول کیا اور ان پر ٹوٹے غموں کے پہاڑ کے سبب آپ ﷺ نے ان کی دل جوئی کی خاطر حر م میں داخل فرمایا ۔
( ۳) جہاں تک حسن و جمال کا تعلق ہے ، ساٹھ سال کی عمر میں اس قسم کی پسند کے جذبات نہیں ابھرتے اور ایسے کریم النفس ہستی سے یہ امید رکھنا نادانی ہے کیونکہ آپﷺ نے جوانی کے ایام میں خدیجہ الکبریٰؓ کے ساتھ شادی کر کے پچیس سال گزارے اور کسی عورت سے شادی نہیں کی حالانکہ کفار مکہ نے آپ کو حسین و جمیل دوشیزائوں کی پیشکش کی تھی کہ ان کے آبائو اجداد کے مذہب کو برا بھلا کہنے سے باز رہیں مگر آپ ﷺنے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا حالانکہ اگر وہ حسین و جمیل عورتوں کو اپنے حرم نبوی میں داخل کرنے کے خواہاں ہوتے تو یہ سنہری موقع تھا ۔لیکن
اتنا کہاں بہار کی رنگینیوں کا شوق
شامل کسی کا خونِ تمنا ضرور تھا
حضرت صفیہ ؓ نے خواب میں دیکھا کہ چاند آسمان سے اتر کر میری جھولی میں آگیا ہے ۔ یہودی کاہنوں نے اسے بتایا تھا کہ اس کی شادی عرب کے حکمرا ن سے ہو گی ۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ ( محمد رسول اللہ ۔۱۸۰) بتاتا ہے کہ رحمت اللعالمین نے شرفاء یہود میں سے ایک ایسی خاتون جس نے خفیہ اسلام قبول کیا ہو اتھا ،شادی کی ۔ وہ چاند آپ ﷺ ہی ہیں اور صفیہ ؓ کا حرم نبوی میں داخل ہونے کا فیصلہ ازلی تھا ۔ اس لحاظ سے ہر قسم کے وسوسے اور خدشات دم توڑ دیتے ہیں ۔ حضرت صفیہ ؓ کو مومنین کی ماں بننے کا اعزاز ان کے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا تو پھر بھلا وہ حرم نبوی میں کیونکر داخل نہ ہوتیں ۔
اعتراض نمبر۱۳۷
حضرت صفیہ ؓنے اپنے بھتیجے ( جو یہودیت پر قائم تھا) کے حق میں وصیت کی اور جائیداد کا تیسرا حصہ ان کے نام کیا جس پر بعض مسلمانوں کو اعتراض تھا‘‘۔
۱۱۔بعض مستشرقین کہتے ہیں کہ حضرت صفیہ ؓ دین یہودیت پر قائم رہی تھیں ۔
جواب: حضرت صفیہؓ نے بچت کرکے خاصی رقم جمع کی تھی۔آپ کا بھتیجا یہودیت پر قائم تھا۔علامہ غلام رسول سعیدی (شرح مسلم ۔۵۔۵۹۳) کہتے ہیں کہ ایک تہائی یعنی ایک لاکھ درہم میرے غیر مسلم بھانجے کو دئیے جائیں ۔ اس کے حق میں وصیت کی۔ اسلام نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی جو تلقین کی ہے اور اس رعایت سے( کہ ترکہ میں حصہ دار افراد کے علاوہ دوسروں کے حق میں بھی خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم وصیت کی جا سکتی ہے)کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بی بی صفیہؓ نے اپنی جائیداد کا تیسرا حصہ اس یہودی بھتیجے کے نام کر دیا۔ اس پر بعض مسلمانوں نے سخت اعتراض کیا مگر امہات المومنین حضرت عائشہ ؓنے مداخلت کی اور اس بات پر زور دیا کہ حضرت صفیہ ؓکی وصیت پر عمل کیا جائے۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ یہ حضرت عائشہ ؓ کی کمال انصاف پسندی کا اقدام ہے جب کہ آنحضرت ﷺکی حیات مبارک میں ان دو بیبیوں میں سخت جملوں کا تبادلہ ہو چکا تھا۔ وہ واقعہ یوں ہے کہ ایک روز حضرت عائشہ ؓ نے حضرت صفیہ ؓکو یہودن کی بیٹی کہہ دیا تو اس پر حضرت صفیہ ؓ کو بہت رنج ہوا اور انھوں نے آنحضرتﷺ سے بی بی عائشہ ؓ کی شکایت کی۔ سرکارِ دو عالم ﷺنے حضرت صفیہؓ سے فرمایا کہ اگر آئندہ ایسا ہو تو تم جواب میں یہ کہناکہ ’’ میرے والد اللہ کے رسول حضرت ہارون ؑ اور میرے چچا اللہ کے پیغمبر حضرت موسیٰ ؑ اور میرے شوہر حضرت محمد ﷺ ہیں۔ بتائو تم میں ایسی خوبیاں ہیں؟ مگر بی بی عائشہؓ کی علمیت اور دور رس نگاہوں سے ایسی دلیل کا جواب مشکل نہ تھا بل کہ آسان اور ممکن تھا جو انھوں نے دیا۔انھوں نے پھر یہودن کی بیٹی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ جواب تمھارے ذہن کی پیداوار نہیں‘‘ ۔
ایک شبہ کا ازالہ:حضرت ہارون ؑ کی کسی بیٹی کا نام صفیہؓ تھا‘ یہ درست نہیں۔پامر نے سورہ حجرات کی ۱۱ویں آیت کی شانِ نزول یہ نقل کی ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے ام المومنین صفیہؓ کو یہودی النسل ہونے کا طعنہ دیا جس کی شکایت حضرت صفیہ ؓنے حضورؐ سے کی۔ جس پر حضور ؐ نے فرمایا کہ کیا تم یہ نہیں کہہ سکتی تھیں کہ ہارونؑ میرے باپ ، موسیٰ ؑ میرے چچااور محمدؐ میرے شوہر ہیں ۔ کیا کوئی شخص اس انداز بیان سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ چونکہ یہاں صیغہ حال استعمال ہوا ہے لہٰذا یہ ساری شخصیتیں ایک ہی دور کی ہیں یا یہ کہ متکلم کو ان کے تشخص میں کوئی غلط فہمی تھی یا یہ کہ اگر حضرت ہارون کی کسی بیٹی کا نام اتفاقاََ صفیہ ہوتا تو ام المومنین صفیہ کو حضرت ہارون کی حقیقی دختر تصور کیا جاتا‘ ایسا تصور کرنا یقیناََ کم علمی کی دلیل مانا جائے گا۔حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ ’’ مجھ کو رسول اللہﷺ نے نجران کی طرف بھیجا تو وہاں کے لوگوں ( عیسائیوں )نے کہا ،کیا تم نے کبھی خیال کیا کہ تم لوگ ‘ یااخت ہارون پڑھتے ہو حالانکہ حضرت موسیٰؑ ، حضرت عیسیٰؑ سے اتنے زمانے قبل گزرے ہیں۔ انھوں نے یہ بات رسول اللہ کو بتائی۔ آپ ؐ نے فرمایا: تم نے ان کو یہ خبر کیوں نہ دی کہ وہ (بنی اسرائیل) انبیاء ماقبل اور صالحین کے ناموں پر اپنے بچوں کے نام رکھا کرتے تھے‘‘ ۔(اسلام ۔پیغمبر اسلام اور مستشرقین مغرب کا انداز فکر۔۲۵۳)
جواب دوم:ایک روایت میں ہے کہ حضرت صفیہ ؓ کی ایک کنیز سیدنا عمرؓ کے پاس گئی اور کہا کہ سیدہ صفیہؓ میں یہودیت کا اثر آج تک باقی ہے۔وہ یوم السبت کوآج تک اچھا سمجھتی ہیں اور یہودیوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہیں۔ سیدنا عمرؓ نے ان کے پاس تحقیق احوال کے لیے ایک شخص بھیجا۔ سیدہ صفیہؓ نے جواب دیا: جب سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں جمعہ کا روز عطا فرمایا ہے‘ یوم السبت کو بالکل ناپسند کرتی ہوں ۔ البتہ میں یہود کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہوں‘ کیوں کہ وہ میرے خویش و اقارب ہیں۔ اس کے بعد اس لونڈی کو حضرت صفیہ ؓ نے بلا کر پوچھا کہ تو نے سیدنا عمرؓ سے میری شکایت کس کے اکسانے پر کی؟ اس نے کہا: شیطان کے اکسانے پر۔ سیدہ صفیہ ؓ خاموش ہو گئیں اور پھر بولیں جائو! تم آزاد ہو ( امہات المومنین ۲۷۸)
ف: اگر وہ یہودیت پر قائم رہتیں تو حضرت عمرؓ یا دیگر صحابہ خاموش نہ رہتے جیسا کہ حضرت عمرؓ نے لونڈی کی شکایت کرنے پر تحقیق کی نیز اپنی بریت ظاہر کرنے کے لیے جمعہ اور صلہ رحمی کو دلیل بنا کر جواب دیا جس کو حضرت عمرؓ نے قبول کیا کیوں کہ اس کے بعد ان سے کسی قسم کی کوئی اور بات ثابت نہیں جو انھوں نے کہی ہو۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ یہودیت پر قائم رہیں اور نبی مکرم ﷺ ان سے کنارہ کش نہ ہوں نیز آپؐ سے زیادہ حضرت صفیہؓ کے حال احوال سے کون واقف و باخبر ہو سکتا ہے۔ اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ازواج میں شکر رنجی وقتی طور پر ہوتی تھی اسے پلے باندھ کر اس وقت کا انتظار نہیں کرتی تھیں کہ موقع ملے جب انتقام لیا جا سکے۔ دو بیبیوں (عائشہ۔۔صفیہ) میں سخت جملوں کا تبادلہ ہو چکا تھا۔ اگر صفیہؓ یہودی مذہب پر کار بند رہتیں تو عائشہ کبھی خاموش نہ رہتیں۔اس راز کو فاش کر دیتیں۔ یہ ان کی شکر رنجی پر مبنی اقدام نہ تھا بل کہ اسلام کے عین مطابق ہوتا کہ وہ بتا دیتیں ۔خواہ یہ واقعہ آنحضرت ﷺکی حیات مبارک میں ہوتا یا آپﷺ کے بعد کی زندگی میں ہوتا ‘ آگاہ فرما دیتیں۔ان بیبیوں کو دنیا کی عورتوں کے لیے نمونہ بننا تھا تو وہ بھلا کیسے اسلام کے خلاف کوئی اقدام کر سکتی تھیں۔ سوائے لونڈی کے کسی اور کی شہادت نہیں ملتی کہ وہ یہودیت پر قائم رہی تھیںاور لونڈی نے بھی آپ کی بریت کا اظہار کردیا۔یہ کہہ کر کہ شیطان کے اکسانے پر حضرت عمرؓ سے شکایت کی۔ گویا ان میں یہ بات نہ تھی وہ تو محض شیطانی بہکاوے میں آکر لونڈی کہہ بیٹھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بی بی صفیہؓ نے اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا‘ اگر جنابہ صفیہؓ کے دل میں خدشہ یا یہ بات کھٹکتی کہ لونڈی کو آزاد کر دیا تو میری مزید شکایتیں کرے گی تو اس سے رعایت برتتی۔ان کو زیادہ چاہتیں، اس کی دل جوئی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتیں۔مراعات دیتیں تاکہ پھر وہ ایسے ویسے راز فاش نہ کرے۔ مگر قربان جائیے ادھر تو صورت بھی مختلف ہے کہ کنیز آزاد ہو جاتی ہے۔ اب وہ آزاد ہے اسے کھلی چھٹی ہے ۔جو مرضی چاہے ان کے متعلق کہتی پھرے نہ دھونس ، نہ دھمکی کا ڈر۔ مگر اس کی زبان پر اس کے بعد حرفِ شکایت نہیں آتا۔ اگر ام المومنین صفیہؓ کے پاس ہوتی تو کچھ خوف ،ڈر ہوتا لیکن آزاد ہونے کے بعد کاہے کا ڈر اور خوف؟ آپ کی بریت کی دلیل قاطع ہے۔ صاحب ضیا النبی لکھتے ہیں’’ اگر وہ دین یہودیت پر قائم رہتیںتو ام المومنین ہونے کا شرف حاصل نہ کر سکتیں‘‘۔(ضیا النبی جلد۷ص ۵۱۶)
اہم نکتہ:کوئی یہ اعتراض کرے کہ حضرت عمرؓ کے ڈر سے اپنی بریت میں کہہ دیا کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے جمعہ کا دن عطا فرمایا ہے میں یوم السبت کو نا پسند کرتی ہوں ‘ اس کا جواب حضرت صفیہؓ کے اس بیان کے دوسرے حصہ میں موجود ہے۔ انھوں نے اقرار کیا کہ یہود کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہوں کیونکہ وہ میرے خویش و اقارب ہیں‘‘ ۔اگر ڈر اور خوف ہوتا تو یہ بھی نہ کہتیںمگر انھوں نے بر ملا کہا۔ کیوں کہ ان کے دل میں اسلام کے بارے میںذرا برابر شک نہ تھا اور سمجھتی تھیں کہ بر حق دین ہے۔ اسلام کی حقانیت ان کے دل و دماغ میں موجزن تھی جس نے سب خوف مٹا دئیے تھے۔ اب انھیں کوئی خوف و خطر نہ تھا۔
ایک اور اہم نکتہ:مسلمانوں کے درمیان یہ بات زیرِ بحث تھی کہ آیا سیدہ صفیہؓ رسول اللہ کی زوجہ محترمہ ہیں یا کنیز؟ اس موضوع پر ایک روایت حضرت انس ؓ سے مروی ہے’’ پیغمبر اسلام ﷺخیبر اور مدینہ کے درمیان تین دن قیام پذیر رہے۔ اس دوران انھوں نے بی بی صفیہؓ کے ساتھ شب بسری کی اور مجھے حکم دیا کہ مسلمانوں کو شادی کی دعوت میں شریک ہونے کے لیے بلائو‘‘ ۔روٹی اور گوشت میسر نہ تھا مگر مسلمانوں کی تواضع کھجوروں ، پنیر اور روغن خورانی سے کی گئی۔ ۲: یہ بھی لوگوں نے کہا کہ اگر پیغمبر اسلامﷺ نے انھیں پردہ یا برقع میں رکھا تو وہ ازواج مطہراتؓ میں سے ہیں بصورت دیگر کنیز ہیں۔ جب پیغمبر اسلام ﷺنے مدینہ کی جانب سفرکیا تو انھوں نے اپنے پیچھے سیدہ صفیہؓ کے لیے جگہ بنائی اور ان کے اور دیگر لوگوں کے درمیان ایک پردہ لٹکا دیا۔ اس طرح پُر تجسس ذہنوں کی تسلی کرا دی کہ مدتوں پرانی رسم کے مطابق انھوں نے سیدہ صفیہؓ کو زوجہ ہونے کا درجہ مرحمت فرمایا۔ اس عمل سے تمام وسوسے اور خدشات خاک بوس ہوگئے اور لوگوں نے جان لیا کہ سیدہ صفیہؓ آپ کی ازواج میں سے ہیں۔( امہات المومنین اور مستشرقین،۱۵۳۔۱۵۴)
ایک اور اہم نکتہ:آنحضرت ﷺنے آٹھ ازواج پر راتیں تقسیم کی تھیں۔ حضورؐ کی ایک زوجہ اس تقسیم میں شریک نہ تھیںیعنی سودہ بنت زمعہ کیوں کہ وہ ضعیف ہو گئی تھیں اور اپنی باری انھوں نے حضرت عائشہؓ کو ہبہ کر دی تھی۔ صحیح مسلم میں عطا کا قول ہے کہ صفیہ بنت حیّ باری میں شریک نہ تھیںمگر وہ صحیح نہیں ہے۔ قاضی عیاض اور امام طحاوی نے کہا ہے کہ یہ غلط ہے۔عطا کے وہم کی وجہ یہ ہوئی کہ ایک دفعہ حضرت صفیہؓ سے حضورؐ ناراض ہوئے۔صفیہؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہا کہ اگر تم رسول اللہﷺ کو مجھ سے راضی کر دو تو اپنی نوبت تمھیں ہبہ کردوں گی۔حضرت عائشہؓ نے منظور کیا اور صفیہؓ کے باری والے دن حضورؐ کے بغل میں جا کر بیٹھیں۔حضورؐ نے فرمایا کہ اے عائشہؓ! الگ رہو‘ آج تمھاری باری کا دن نہیں ہے صفیہؓ کا دن ہے۔حضرت عائشہؓ نے فرمایا۔ذَالِکَ فَضلُ اللہ ِ یُوتیِہ مِن یّشائ،( یہ خدا کا فضل ہے وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے‘‘) ۔اس سے عطا نے سمجھا کہ عہد کے موافق صفیہؓ نے اپنی باری حضرت عائشہؓ کو ہبہ کردی ہوگی مگر یہ ایک نوبت کا ہبہ تھا کیوں کہ اگر صفیہؓ کو باری میں شمار نہ کیا جائے تو آٹھ ازواج پر باری تقسیم نہ ہوگی۔حالانکہ اصح ترین روایات سے ثابت ہے کہ حضورؐ آٹھ ازواج پر باری تقسیم کرتے تھے۔( اصح السیر۔۵۶۵) عطاؓ نے کہا کہ ہم حاضر ہوئے ابن ِ عباس ؓ کے ساتھ سرف میں جنازہ پر میمونہ کے جو بی بی تھیں جنابِ رسول اللہﷺ کی‘ تو ابن عباسؓ نے فرمایا کہ خیال رکھو یہ بی بی صاحبہؓ ہیں جنابِ رسول اللہﷺ کی۔پھر جب ان کا جنازہ مبارک اٹھانا تو ہلانا ڈلانا نہیں اور بہت نرمی سے لے چلنا اور بات یہ ہے کہ جناب رسول اللہﷺ کے پاس نو بیبیاں تھیں اور ان سے آٹھ کے لیے باری مقرر تھی اور ایک کے لیے نہیں اور عطا نے کہا کہ وہ صفیہ ؓ تھیں۔(مسلم شریف کتاب رضاع ۔ج ۴ ص ۸۱) ابنِ جریج سے اسی سند کے ساتھ مروی ہے کہ عطانے کہا کہ وہ سب کے آخر میں متوفی ہوئی تھیں اور انھوں نے مدینہ میں وفات پائی تھی( حوالہ بالا) جب کہ ان کا آخر میں فوت ہونا بھی نہیں بنتا۔
ایک اور اہم نکتہ:حضورؐ نے بعض ازواج کے ساتھ طلاق کا معاملہ کیا۔ رجعت کیا۔ ایک مہینہ کا موقت ایلاء کیا مگر حضورؐ نے ظہار نہیں کیا۔جن لوگوں نے کہا کہ حضورؐ نے ظہار کیا ہے(انھوں نے بڑی سخت غلطی کی ہے) (حوالہ بالا)
ایک سوال:کیا امہات المومنین صرف مومنین کی مائیں ہیں یا مومنین و مومنات دونوں کی؟
دو طرح کی روایتیں حضرت عائشہؓ سے مروی ہیں مگر سنداََ یہ قوی ہے کہ حضرت عائشہؓ نے ایک عورت سے کہا’’ ترجمہ: یعنی ہم تمھاری ماں نہیں ہیں۔ تمھارے مردوں کی ماں ہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ النبی اولی بالمومنین من انفسھم وازواجہ امھاتھم‘‘ یعنی نبی مومنین کے لیے ان کے اپنے نفوس سے اولیٰ ہے اور نبی کی ازواج مو منین کی مائیں ہیں۔ یہ حکم حضورؐ کے ان تمام ازواج مطہرات کو شامل ہے جن کے ساتھ حضورؐ نے نکاح کیا اور وہ حضورؐ کے ماتحت رہیں۔چاہے حضورؐ سے پہلے ان کا انتقال ہوا ہو یا حضورؐ کے بعد۔ یہ بھی متفق علیہ ہے کہ ان کاحکم امہات کی طرح دو باتوں میں ہے ایک یہ کہ ان کے ساتھ نکاح جائز نہیں۔دوم: ان کی تعظیم و تکریم اسی طرح واجب ہے جس طرح حقیقی ماں کی بل کہ زیادہ۔ لیکن نظر و خلوت کے بارے میں ان کا حکم ماں کی طرح نہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ اوا ساء لتموھن متاعاََ فاسئلواھن من وراء حجاب‘‘ یعنی جب ان سے کوئی چیز مانگو تو حجاب کے باہر سے مانگو اور نہ انساب میں اس کا اعتبار ہے یعنی امہات المومنین کی بیٹی، بہن،ماں ،باپ،حقیقی بہن،خالہ،نانی،نانا کی طرح حرام نہ ہوں گی۔ (اصح السیر۔۵۶۶)
اعتراض نمبر ۱۳۸
’’ واٹ کہتا ہے کہ یہودیوں کی بیٹیوں صفیہ اور ریحانہ سے رشتہ داری استوار کرنے کے سیاسی محرکات ہو سکتے ہیں‘‘۔
جواب: آپ ﷺ کی شادیوں کے متعدد مقاصد ہیں ۔
تعلیمی مقاصد : بے شمار مسائل خصوصاََ جو عورتوں سے متعلق ہیں ۔ ان مسائل کی تفصیلی راہنمائی اسلام مہیا کرتا ہے ۔ ایسے مسائل جو عورتوں کی نسوانی زندگی سے عبارت ہیں ۔ انہیں کوئی عورت غیر محرم مرد کے ساتھ بات چیت کرنے سے شرم و حیا کی وجہ سے ہچکچاتی ہے اس لیے عورتوں کے مسائل جو تعلیمات اسلامی آپ ﷺ لے کر دنیا میں تشریف لائے تھے ، انہیں سمجھانے اور ان پر عمل کر کے نمونہ فراہم کرنے کے لیے ایسی خواتین کی ضرورت تھی جو انتہائی نیک ، پارسا ہوں اور فریضہ رسالت کی تبلیغ کے لیے مخلص کارکنوں کی حیثیت سے کام کرتیں ۔ حیض و نفاس ، جنابت و غسل اور زوجیت کے متعلق مسائل ایسے تھے جنہیں خواتین آپ ﷺ کے سامنے پیش نہیں کر سکتی تھیں اور نہ آپ ﷺ ان کا جواب دے پاتے ۔ آپ ﷺ شرم و حیا کے اعلیٰ معیار پر فائز تھے ۔ حدیث کی کتب میں ہے کہ آپ ﷺ اتنے حیا دار تھے جتنی حیا دار دلہن اپنے مجلئہ عروسی میں ہوتی ہے ۔ بعض ایسے مسائل آپ ﷺ سے پوچھے گئے وہ آپ ﷺ نے اشارے کنائے سے سمجھائے لیکن وہ خواتین نہ سمجھ پاتیں ۔ حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک انصاری عورت نے حضور ﷺ سے غسل حیض کے متعلق سوال کیا ۔ آپ ﷺ نے غسل حیض کا طریقہ بتایا اور پھر فرمایا ایک خوشبودار روئی کا گالا لو اوراس کے ذریعے طہارت کرو ۔ اس عورت نے روئی کے گالے کے ذریعے طہارت کرنے کے بارے میں پھر پوچھا کہ کیسے کروں آپ ﷺ نے فرمایا: اس کے ساتھ طہارت حاصل کرو ۔ عورت پھر بولی کیسے طہارت کروں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کے ذریعے طہارت حاصل کرو ۔ حضرت عائشہ ؓ نے یہ حالت دیکھی تو انہوں نے اس عورت کو ہاتھ سے پکڑکر اپنی طرف کھینچا اور اسے وہ طریقہ سمجھایا ۔ لہٰذا ایسے مسائل کو تفصیلاََ سمجھانے کے لیے واقعی عورت ہی بہتر سمجھا سکتی ہے ۔ اس سلسلے میں ازواج مطہرات نے تعلیم امت کے فریضہ کی ادائیگی میں خوب کردار اداکیا ۔
تشریعی مقاصد : ان میں تشریعی مقاصد بھی تھے ۔ کئی ایک بد ‘رسمیں عرب معاشرہ کو لپیٹ میں لے چکی تھیں ۔ ان میں ایک قبیح رسم غیر کو اپنا بیٹا بنانے کی تھی (لے پالک) ۔ کسی کا بیٹا کوئی اپنا بیٹا بنا لیتا تھا اس سے وہ نسب ،میراث، طلاق اور مصاہرت کے تمام مسائل میں حقیقی بیٹا تصور کیا جاتا تھا جس سے معاشرہ بے شمار مسائل کا شکار ہو جاتا تھا ۔ مستحق لوگ میراث سے محروم ہو جاتے اور غیر حق دار ساری جائیداد کے مستحق قرار پاتے ۔ ان رسمو ں کو ختم کرنا جوئے شیر لانے کے مترداف تھا ۔ طعن و تشنیع کے تیروں کی بارش برسنا شروع ہوتی گویا ایسی قدیم رسموں کو توڑنا جان جوکھوں میں ڈالنا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس بد رسم کو ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو منتخب فرمایا ۔ آپ ﷺ نے اپنی پھوپھی کی بیٹی حضرت زینب بن جحش ؓ کو اپنے نکاح میں لے لیا جو پہلے آپ ﷺ نے اپنے منہ بولے بیٹے کے نکاح میں دے دی تھی ۔ حضور ﷺ کے متعدد خواتین کے ساتھ نکاح کرنے کے لیے کچھ مقاصد تشریعی نوعیت کے تھے ۔ حضرت زینب ؓ کے ساتھ آپ ﷺ کی شادی اس کی بہترین مثال ہے ۔
سماجی مقاصد : آپ ﷺ کی شادیوں میں سماجی مقاصد بھی بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں آپ ﷺ کے غلاموں کی جان نثاریوں کا اصل بدلہ تو قیامت کے دن خود اللہ تعالیٰ عطا کرے گا لیکن حضور ﷺ نے اس دنیا میں اپنے غلاموں کو نوازنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی ۔ خادموں اور غلاموں کو نوازنے کے لیے آپ ﷺ کا ایک نرالا اور دل فریب اسلوب تھا ۔ آپ ﷺ نے ان کے ساتھ رشتہ مصاہرت جوڑا ۔ حضرت صدیق اکبر ؓ اور حضرت عمر ؓ کی صاحبزادیوں کو اپنے حرم میں داخل فرمایا اور حضرت علی ؓ و عثمان ؓ کو اپنی صاحبزدایاں ان کے نکاح میں دے کر رشتہ مصاہرت قائم کیا اور حضرت زید ؓ جنہوں نے اپنے باپ پر حضور ﷺ کو ترجیح دی تھی اور اپنی زندگی حضور ﷺ کے ساتھ بتا دینے اور غلامی کی زندگی کو آزادانہ زندگی پر برتر سمجھا ۔ اور تبلیغ کے کٹھن اور دشوار گزار مرحلے میں قدم قدم پر جاں گسل تکلیفیں برداشت کیں ۔ آپ ﷺ نے ان کی دلجوئی فرمائی اور اپنی پھوپھی کی بیٹی زینب ؓ کا نکاح ان سے کر دیا جو بعد میں زید نے طلاق دے دی اور آپ ﷺ نے انہیں اپنی حرم میں داخل فرما لیا ۔
سیاسی مقاصد : اس سے انکار نہیں ہے بلکہ متعدد مقاصد میں سے ایک مقصد دشمنوں کے دلوں کو جیتنا تھا تاکہ اسلام کی مخالفت میں کمی آئے اور اسلام پھلے پھولے ۔ آپ ﷺ کی شادیوں سے سیاسی فوائد بھی حاصل ہوئے جیسے غزوہ بنو مصطلق میں اس قبیلے کو شکست فاش ہوئی ۔ بہت سے قیدی ہوئے نیز ان میں اس قبیلے کے سردار کی بیٹی جویریہ بنت حارث بھی تھیں ۔ آپ ﷺ نے اس خاتون کی تکالیف کو بھانپ کر ان کازر فدیہ ادا کر کے ان سے نکاح کر لیا اور تمام قیدی رہا کر دئیے ۔ آپ ﷺ کی عالی ظرفی اور عالی شان جذبہ کو دیکھ کر سارا قبیلہ مسلمان ہو گیا ۔ یہ بات غیر معمولی ہے کہ ایک شادی کے بدلے اسلام کے جانی اور خون کے پیاسے دشمن کا قبیلہ مشرف باا سلام ہو جاتا ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں ’’ ہم نے کسی عورت کو نہیں دیکھا جو اپنی قوم کے لیے اس سے زیادہ برکت کا باعث بنی ہوں جتنی برکت کا باعث جویریہ ؓ اپنی قوم کے لیے بنیں ‘‘۔ حی بن اخطب کی بیٹی غزوہ خیبر میں گرفتار ہوئیں آپ ﷺ نے انہیں بلایا کہ وہ اسلام قبول کریں تو آپ ﷺ آزاد کر کے اپنے نکاح میں لے لیں گے اور اگر وہ یہودیت پر قائم رہنا چاہیں تو آزاد کر دیتے ہیں اور اپنی قوم میں چلی جائیں۔ انہوں نے آپ ﷺ کی پہلی بات کو پسند کیا اس طرح حضرت صفیہ ؓ حرم نبوی میں داخل ہو گئیں ۔
سیاسی محرکات ہو سکتے ہیں اور سیاسی محرکات کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج اور قباحت نہیں ہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ صرف سیاسی محرکات ہی کارفرما نہ تھے بل کہ عظیم اور کثیر المقاصد تھے جن میں سے ایک عظیم مقصد تالیف قلبی بھی ہے۔ بی بی صفیہ کا باپ جنگ میں کام آیا۔شوہر بھی جنگ میں ہلاک ہوا۔ وہ رئیس باپ کی لڑکی اور رئیس شوہر کی بیوی تھی۔ اب بیوہ ہو گئیں ۔غموں نے راہ دیکھ لی۔آفتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ایسی کڑی آزمائش میں بے یار ومددگار خاتون کو ایک سہارے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سہارا پیغمبر اسلامﷺ نے فراہم کیا ۔ان کا غم غلط کرنے کے لیے انھیں حرمِ نبوی میں داخل فرمایا جس سے ان کے ٹوٹے دل اور زخموں پر مرہم کا پھاہا رکھا۔ یہی تو آپؐکی رحمۃ اللعالمینی کا اعجاز ہے کہ دکھیوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتے۔ ان کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔گویا واٹ کا رشتہ داری استوا ر کرنے کا محض سیاسی محرکات بتانا درست نہیں ہے جیسا کہ مذکورہ مثال سے صاف مقصد تالیف قلبی مترشح ہوتا ہے۔
اعتراض نمبر۱۳۹
ایک اور انداز میں’’منٹگمری واٹ‘‘ کہتا ہے کہ ’’ جناب محمدﷺ کی شادیوں کے بارے میں آخری خاص بات جو زیر نظر ہے وہ یہ کہ آپؐ نے اسے اپنے قریب ترین ساتھیوں کے تعلقات اور وسیع تر سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال فرمایا اور بلا شبہ قدیم ترین عرب کے دستورکا تسلسل تھا۔ جنابِ محمدﷺ کی شادیوں کو بہ نظر غائر دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ان کا مطمع نظر صرف سیاسی دائرہ کار میں دوستانہ مراسم کو آگے بڑھانے کے لیے تھا‘‘۔ ( امہات المومنین اور مستشرقین۔۱۱۱)
جواب:’’ واٹ‘‘ کا کہنا کہ قریب ترین ساتھیوں کے تعلقات مضبوط بنانا تھا۔ وسیع تر سیاسی مفادات کا حصول تھا اور سیاسی دائرہ کار میں دوستانہ مراسم کو ترقی کی راہوں پر ڈالنا مقصود تھا۔ صرف ان ہی باتوں پر آپؐ کی شادیوں کے مقاصد کو محدود کر دینا نا انصافی ہے۔ جب کہ شادیاں کثیر المقاصد تھیں جن میں تالیف القلب اور جذبہ ترحم کو اولیت حاصل ہے۔ مومنین اور مومنات کی قربانیوں کے پیش نظر اور بے سہارا بیوائوں اور بے آسرا یتیم بچوں اور بچیوں کو بے یارومددگار نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ پھر ان میں دوست اور د شمن سب شامل تھے سب اس مدد میں یکساں شریک تھے۔
دوم: ازواجی مسائل عقیدہ اسلام کی روح کے عین مطابق حل کرنا ضروری تھے۔ ان مسائل سے آگاہی کے لیے عورتیں ہی موزوں تھیں۔ ان عقائد کو زبانِ نبوت سے سن کر ازواج مطہرات دوسری عورتوں تک خوب پہنچانے کا فریضہ انجام دے سکتی تھیں۔اس سلسلے میں مختلف قبائل میں شادیوں سے اس فریضہ کی تکمیل میں بہت مدد ملی اور خواتین کے مختلف مسائل اور ازواجی زندگی کے متعلق جو سوالات تھے، ان خواتین نے باحسن طریق دوسری خواتین کو پہنچائے،سکھائے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی علم کے زیور سے آراستہ ہو گئیں۔
سوم: نیز اپنے غلام زید بن حارث سے اپنی پھوپھی زاد بہن مذکور کی شادی کرکے اعلیٰ و ادنیٰ ، غلام اور آقا کے فرق کو مٹا ڈالاپرانی رسموں کا خاتمہ ہوا جن میں سے ایک رسم بدزمانہ قدیم سے متبنیٰ کی چلی آرہی تھی جسے حقیقی بیٹے کی طرح تمام حقوق و مراعات حاصل تھے۔ سیدہ زینب بنت حجش کی شادی سے اس باطل رسم کی جڑ کاٹ کے پھینک دی گئی۔نیز یہ رسم بد قدرت خداوندی کا گستاخانہ جواب تھی اور اس رسم سے خاندانی حقیقی وارثوں پر زہریلا اثر پڑتا تھا۔ وہ جائیداد وغیرہ سے محروم ہو جاتے اور لے پالک مصنوعی طریقہ سے وارث بن جاتاتھا ۔اس سے کئی قسم کے جھگڑے جنم لیتے تھے اور ختم ہونے کا نام نہیں لیتے تھے۔متبنیٰ کی بیوی باپ پر حرام ہوتی تھی۔حالاں کہ وہ اس کا اصل باپ نہ تھا۔ نبی محترم نے خود اپنی مقدس اور نورانی شخصیت سے اس رسمِ جاہلیت کو ختم کر دیا ۔ارشادِ خداوندی ہے ’’ مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَباَ اَحَدِِ مِّنْ رِّجَالِکُمْ‘‘۔ ( محمدﷺ تم مردوں میں سے کسی کا بھی باپ نہیں ہے)
چہارم:جذبہ ترحم اور صلہ رحمی کے پیشِ نظر مطلقہ ،بیوہ اور جن کے ہمراہ کچھ بچے بھی تھے انھیں نان و نفقہ اور محفوظ زندگی فراہم کرنے کے لیے حرمِ نبوی میں داخل فرمایا۔ تو بھلا یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ صرف سیاسی دائرہ کار میں دوستانہ تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے تھا۔ یہ بھی قابلِ غور ہے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔ حضرت عمرؓ وہ خوش نصیب ہیں جب وہ ایمان لائے تو مومنین کی تعداد ۴۰ تھی۔ اس وقت آپؐ نے ان صحابہ کرامؓ کے ہاں ازواجی تعلقات نہیںجوڑے تھے وہ تو ایمان پہلے لا چکے تھے اور سسرالی رشتہ بعد میں قائم ہوا،اپنے مقاصد کی خاطر کیے ہوئے کہیں وہ رشتے ٹوٹنے والے تھے؟ یا ان کو مزید مستحکم کرنا اس لیے تھا کہ ایمان لانے والے ساتھ نہ چھوڑ جائیں( لاحول و لاقوۃ)۔ بایں سبب یہ باتیں خام خیالی کا نتیجہ ہیں۔ان صحابہ کی تعلق داریاں تو خونی رشتہ کے علاوہ دینی رشتہ پر استوار تھیں جو کبھی نہ ختم ہونے والا تعلق اور رشتہ تھا۔
آپؐ کی ازواج مطہرات میں دو خواتین کنواری تھیں ، ایک سیدہ عائشہؓ دوسری ماریہ قبطیہ۔ ان کے علاوہ باقی تمام خواتین بیوائیں یا مطلقہ تھیںلہٰذا آپ ﷺپر جنس پرستی کا الزام خاک بوس ہو جاتا ہے کیا ایک جنس پرست انسان جو مدینہ کی ریاست کا منتظم ِ اعلیٰ ہے اور طلاق یافتہ یا بیوائوں کو اپنے حرم میں داخل کرتا ہے جب کہ آپ کا کسی بھی کنواری خاتون سے شادی کرنا مشکل نہ تھا۔انھوں نے کنواریوں سے شادی کیوں نہ کی؟ حالاں کہ عیاشی اور جنس پرستی کی اولین خواہش باکرہ خواتین ہوتی ہیں نہ کہ بیوائیں اور مطلقہ۔ ان کے ہم خیال مستشرق نے ہمارے موقف کی حمایت کردی۔ G.L BERRY۔ جی ایل بیری کہتا ہے کہ ’’ زندگی کے آخری چند سال میں متعدد شادیوں کا سبب غالباََ انسانی ہم دردی اور جذبہ ترحم کے تحت اپنے پیروکاروں کی بیوائوں کو احساسِ تحفظ فراہم کرتا ہے اور یقیناََ جنسی تشفی کے لیے ایسا نہیں کیا گیا۔
ڈیون پورٹ کہتا ہے ’’ یہ بات ان کی زندگی کے ہر واقعہ سے ثابت ہے کہ ان کی زندگی اغراض و مفاد پرستی سے کلیتاً خالی تھی ۔۔۔۔انہوں نے اپنی ذات اور انا کی تسکین کا کوئی سامان بہم نہیں پہنچایا بلکہ آخر وقت تک اسی سادہ طرز و انداز کو برقرار رکھا جو اول دن سے ان کے بود و باش سے نمایا ں تھا ( ن۔۱۱۔۵۴۷)
اتنا کہاں بہار کی رنگینیوں کا شوق
شامل کسی کا خونِ تمنا ضرور تھا
سٹینلے لین پول(STANLAY LAN POOL) شہوانیت پرستی کے جھوٹے الزمات کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہے ’’ انھوں نے کبھی اپنی کسی بیوی کو طلاق نہیں دی جو کہ ماسوائے دو کے تمام بیوائیں یا مطلقہ تھیں اور ان میں سے بہت کی شادیاں یقیناََ اسی جذبہ کے تحت کی گئیں کہ وہ خواتین جن کے خاوند اسلام کے تحفظ میں لڑی جانے والی جنگوں میں شہید ہو گئے اور اب وہ اس طرح اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے حضور کی کریم النفسی کی دعوے دار تھیں جن کی خاطر انھوں نے جہاد کیا‘‘۔ عیش کوشی، جنس پرستی اور نفس پرستی کے الزامات مغربی لٹریچر کا اوڑھنا بچھونا ہیں۔ یہ الزامات ان کے لٹریچر کا روح رواں اور محبوب و مرغوب طبع آزمائی کا مشغلہ ہیں۔ جب کہ ان الزامات کا حقیقت سے کچھ واسطہ و تعلق نہیں ہے۔ کار لائل کی سنیے" We shall err widely if consider, This man as common voluptuary intent mainly on base enjoyment, Nay onenjoyment of any kind"
ترجمہ:ہم بہت بڑی غلطی کریں گے اگر ہم ان کو ایک ایسا عام لذت پسند شخص گردانیں گے جو بنیادی طور پر گھٹیا عیش پرستی پر مائل ہو (جب کہ وہ) کسی بھی قسم کی لذت اندوزی نہیں کرتے تھے ‘‘۔ عالم شباب عیش وعشرت کا دور ہوتا ہے لیکن آپ ﷺنے پچیس سال کی جہاں حسین و جمیل زندگی ایک خاتون حضرت خدیجہ ؓکے ساتھ بِتا دی۔ لذت کشی کا خیال تک نہ آیا۔ ان سالوں کی تابانیاں ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ یہ ہی نہیں بل کہ ہجرت مدینہ کے بعد صلح حدیبیہ تک کم از کم چھ سال ایسی شدید کفار سے دشمنی سے دوچار رہے کہ آرام و سکون کم میسر آتا تھا۔ ایک طرف معاشرہ کی تعمیر و ترقی، پاکیزگی و بالیدگی اور دوسری طرف وسائل کی کمی جیسے مسائل کے پہاڑ سامنے تھے۔ دفاعی مسائل ہر وقت گھیرے رہتے تھے۔ زندگی کے آخری چار سال بھی جدوجہد کا طرہ امتیاز تھے۔اس دوران فتح خیبر، فتح مکہ، جنگِ حنین، محاصرہ طائف، غزوہ تبوک اور کئی چھوٹی چھوٹی لڑائیاں پیش آئیں۔وفود عرب، حجۃ الوداع اور لشکر اسامہؓ کی روانگی کا حکم ،کی سی مصروفیات آخرِ دم تک رہیں اور یہاں تک کہ اسامہؓ کے لشکر کو روانہ کیا۔ آپﷺ کی علالت شدید کی وجہ سے لشکرِ اسامہ واپس آگیا تھا اور آپؐ اس دنیا سے انتقال فرما گئے۔ تو کس لمحہ کس دن کس مہینے اور کس سال آپ عیش و عشرت سے متمتع ہوئے۔ محض مستشرقین کی حیلہ سازیاں ہیں۔ بعض ان میں سے حقائق کو پیش کر ہی دیتے ہیں۔ جیسے’’ کارلائل‘ ‘ کہتا ہے کہ’’ محمد ؐ کے بارے میں جو کچھ بھی کہہ لیں(یہ بات واضح ہے کہ) آپﷺ نفس پرست انسان ہرگز نہ تھے‘‘۔ (محمد رسول اللہ اکرم طاہر۔۳۳۹)
’’ مسٹر جان آرکسن‘‘ کہتا ہے ’’ ہم نہیں جانتے کہ محمدؐ اپنی زندگی میں کبھی کسی رذیل حرکت کے مرتکب ہوئے ہوں ۔البتہ نہایت اعلیٰ صفات کے مالک تھے۔(ن۴۔۴۸۹)
مسٹر والٹر لکھتا ہے ’’ اے پادریو اور راہبو: اگر تمہارے لیے جولائی کے مہینہ میں جب رمضان شریف کے روزے رکھنے پڑ جائیں اور ایک مقررہ وقت تک کھانے پینے سے روک دیے جانے کا قانون بنایا جائے ، شراب کا پینا روک دیا جائے ، گرم ریگستانوں سے گزر کر حج کرنے کا حکم دیا جائے ، اٹھارہ عورتوں کے ساتھ رفاقت کی بجائے چودہ عورتیں کم کر دی جائیں ، کا حکم دیا جائے تو پھر مجھے ایمانداری اور جرات کے ساتھ بتائیں کہ اسلام کا مذہب کس طرح عیش پرست۔ میں یہ کہوں گا کہ وہ لوگ جاہل اور بدھو ہیں جو اسلام پر تہمتیں اور بے تکے الزام لگانے سے نہیں شرماتے۔
آپ کی زندگی سادہ تھی۔ غذا سادہ، گھریلو کام میں ہاتھ بٹاتے، اپنے جوتے خود گانٹھ لیتے، کپڑے میں پیوند لگا لیتے۔ مکان کچے تھے۔ مکان کا دروازہ تک نہ تھا۔ایک ٹاٹ کا پردہ لٹکا رہتا تھا۔کھجور کی چھال سے بھرا تکیہ، سادہ بستر یا کھجور کی چٹائی سامانِ راحت تھی۔ ریشم اپنے اور سب کے لیے ممنوع قرار دیا، اوڑھنے کے واسطے ایک کمبل کالا، سفر کے لیے ایک خیمہ۔ نہانے کے لیے ایک برتن اور ایک ٹب لکڑی کا تھا۔ مسجد نا پختہ اینٹوں سے بنی تھی جہاں نماز پنج گانہ کے علاوہ دربارِ نبوی سجتا تھا۔ کھجور کے ستون سے پشت لگاتے منبر نہ تھا ‘ نہ پردہ نہ دربان نہ محافظ۔خزانہ یعنی بیت المال نہ تھا ۔دولت آتی تو ساری مستحق لوگوں میں بانٹ دی جاتی۔ الغرض بہ وقت وصال ترکہ میں ایک درہم بھی نہ چھوڑا۔ گھر کا چولہا کئی ماہ تک گرم نہیں ہوتا تھا۔ورثے میں تلواریں، زرہیں، خود، ڈھال اور چند مویشی چھوڑے۔ نہ ذاتی جائیداد نہ جمع پونجی چھوڑی۔ صرف اللہ کی ذات اپنے ورثاء بل کہ سب کے لیے چھوڑی۔کیا اس کو عیش و عشرت ، لذت اندوزی، نفس پرستی اور جنس پسندی کہا جا سکتا ہے؟ آپؐ اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور رسول خدا یہی کہتا ہے کہ میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم انھیں تھامے رکھو گے تو گمراہ نہ ہوگے۔ قرآن اور میری سنت یا قرآن اور میری اہلِ بیت۔ایک اور روشن و تاباں حقیقت ہے اور یہ ہی ایک واقعہ نبی کریمؐ پر جنسیت پرستی کے الزام کی نفی کے لیے کافی ہے وہ یہ ہے کہ آپؐ نے کفارِ مکہ کی وہ پیش کش کہ آپؐ سردار بننا چاہتے ہیں تو ہم آپؐ کو سردار تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
۲: اگر آپؐ مال دار بننا چاہتے ہیں تو ہم آپؐ کو زرِ کثیراکٹھا کر دیتے ہیںجو آپؐ بل کہ آپﷺ کی آئندہ نسلوں کے لیے بھی کافی ہوگی اور اگر جنسی تسکین کے خواہش مند ہیں تو قبیلہ قریش کی دس خوب صورت دو شیزائیں آپ انتخاب کر لیں۔آپؐ نے جواباََ قرآن پاک کی آیت تلاوت فرمائیں(امہات المومنین اور مستشرقین ۱۱۶) ایام جوانی میں ایسی پیش کش کو ٹھکرا دیا تو بھلا آخری عمر میں کس جنس پرستی کا جذبہ ابھر آیا تھا؟ اس کا جواب مستشرقین کے ذمہ قرض ہے ۔
’’ جی ڈبلیو لیٹنر‘‘ لکھتا ہے کہ ’’ اچھا یہ بتائیے کہ پیغمبر اسلامﷺ پر لگائے گئے جنسیت پرستی کے الزامات کی اچھی بری یا مشکوک شہادتوں کی بنیاد کیا ہے؟ میں بلا تامل تصدیق کرتا ہوں کہ میں ہر الزام کے ماخذ تک پہنچا ہوں اور ہر الزام مکمل طور پر بلا ثبوت نکلا جب کہ اس کے برعکس یہ بات نبیؐ کے لیے موجب افتخار ہے کہ انھوں نے بے شمار ترغیبات کے باوجود بہ درجہ اتم پاک دامنی کو محفوظ رکھا جو ایسے معاشرہ میں عنقا تھی۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آخری عمر میں کثیر الازواجیت کا سبب اپنے ستم رسیدہ پیروکاروں کی بیوائوں کے تحفظ فراہم کرنے اور بہتر زندگی گزارنے کا موقع دینا تھا۔ایک شادی شدہ انگریز عورت سے ایک شادی شدہ مسلمان خاتون بہتر قانونی حق رکھتی ہے اور جمہوریہ فرانس کی عورت کے حقوق کے بر عکس مسلمان خاتون کی گواہی قابلِ قبول ہے۔( امہات المومنین اور مستشرقین ۱۱۹)
’’ جان بیگٹ‘‘ کہتا ہے ’’ یہ قابل غور ہے کہ پیغمبر نے اپنی جوانی میں سیدہ خدیجہ ؓسے شادی کی اور انھوں نے آنحضرتؐ کے چھ بچوں کو جنم دیا ۔دیگر ازواج سے ماسوائے ماریہ قبطیہ کے ایک بیٹے کے سوا اولاد نہ ہوئی تھی۔ مدینہ میں دس سال کا وقت تھا آپؐ کی جسمانی تھکاوٹ بھی تھی۔بالخصوص جب آپﷺ کی عمر پچاس سال اور مابعد ساٹھ سال سے اوپر تھی‘ یہ حالات ایسے نہ تھے کہ کوئی شخص جنسی تسکین کے لیے شادیاں رچاتا پھرے‘‘۔ (حوالہ بالا)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...