Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

تعدد ازواج پر الزامات
ARI Id

1689956726155_56117760

Access

Open/Free Access

Pages

۵۱۸

تعداد ازواج پر الزامات
اعتراض نمبر۱۴۳
۱: فلپ اسکاف کہتا ہے کہ ان کی تعدد الازواج جنسیت پرستی کے سبب تھی اور اولادِ نرینہ کی خواہش میں عمر کے ساتھ ساتھ شدت آتی گئی۔ ( امہات المومنین اور مستشرقین۶۸)
۲: ’’ول ڈیوراینٹ‘‘ اپنی کتاب ’’ دی ایج آف فیتھ ‘‘ میں انتہائی غیر منصفانہ طور پر پیغمبر کو جنس پرست انسان لکھتا ہے۔
۳: نابیہ ایبٹ اپنی کتاب ’’ عائشہ محبوبہ محمدؐ میں آپ کو جنس پرست بیان کیا ہے ( معاذ اللہ) (حوالا بالا)
جواب:مستشرقین وہ تمام سیاسی، اخلاقی،سماجی وجوہات اور اسباب کو آسانی سے فراموش کر دیتے ہیں جن کی بنیاد پرنبی کریمؐ نے تعدد الازواج کی زندگی بسر کی۔یہ انتہائی اہم بات کہ آپؐ سے قبل اس دنیا میں تشریف لانے والے انبیاء کرام تعدد الازواج کی نہ ہی مخالفت کرتے بل کہ اسے اپنا تے ہیں لیکن مستشرقین سابقہ پیغمبروں پر حرف زنی نہیں کرتے کیوں؟ آپؐ ہی کو نشانہ تنقید بناتے ہیں کیوں؟ اس سے غیر جانب دار اور دانش مند شخص بہ خوبی اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ لوگ اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ سے کتنی نفرت کرتے ہیں۔ کوئی نبی تعدد الازواج کی نفی نہیں کرتا بل کہ وہ کئی خواتین سے شادیاں کرتے ہیں۔حتیٰ کہ مسیح ؑ کے بارہ میں ہے کہ وہ بھی تعدد الازواج کو روا رکھتے ہیں۔یہ لوگ کسی نبی پر جنس پرستی کا الزام نہیں دھرتے لیکن آپؐ کی ذات کو ایسے بے بنیاد الزام لگا کر معاف نہیں کرتے کیوں؟
اعتراض نمبر۱۴۴
۱۔ مستشرقین اسلام کو شہوانی مذہب سمجھتے ہیں ۔
۲۔ویل ڈیورانٹ پیغمبر اسلام (ﷺ) کو جنس پرست لکھتا ہے ( نقل کفر کفر نباشد ) امہات المومنین اور مستشرقین ۔۶۹)
جواب:اسلامی عقائد اتنے مضبوط اور سکون پرور ہیں کہ جہاں بھی ان کو اختیار کیا گیا وہاں صدیاں بیت گئیں مگر عقیدہ میں فرق نہ آیااور نہ ہی کوئی دوسرا عقیدہ پروان چڑھ سکا۔ مستشرقین کو نہ جانے اسلام میں عیش کوشی اور عیش پرستی کے کون سے آثار نظر آتے ہیں۔ یہاں فحاشی و بد معاشی کی ممانعت، نشہ آور چیزیں حرام، سادگی کی تلقین، ارتکاز دولت کی پابندی، دولت کو معاشرہ پر خرچ کرنا ثواب،نمائش نا جائز،کمائی حرام کی ممنوع اور جائز احسن قرار پائی۔اٹھتے بیٹھتے یاد الہٰی اور پانچ وقت کی نماز کا حکم، زکوٰۃ مال کی پاکیزگی،تزکیہ نفس کے لیے سال میں ایک ماہ روزے،ایک بار حج فرض،کم خوری،کم خوابی،کم گوئی شعار ٹھہرا۔غیبت،چوری، جوا،شراب گناہ، شہوت پرستی گناہِ کبیرہ،عدل و انصاف معاشرے کی جان، قانون مستقل اور ابدی، دوستی اور دشمنی کا معیار حق، ماں باپ، بیوی بہن اور بیٹے ، بیٹیوں کے حقوق و فرائض کی تقسیم، تکبر، ریا،کنجوسی سے پرہیز، دنیا کی زندگی نیابت خداوندی، عقبیٰ کی فکر، نیک اعمال کے بدلے جنت اور برے اعمال کی سزا جہنم۔ جنت کی بشارت بے راہ روی سے بچاتی ہے اور جہنم کا خوف بے اعتدالی کی اجازت نہیں دیتا۔ یہاں ترک دنیا اور رہبانیت کی قطعاََ گنجائش نہیں۔ نجی، ملی ،معاشی و معاشرتی، سیاسی و مذہبی ،سماجی و ثقافتی وغیرہ سب کے سب دین کے ماتحت ہیں کیوں کہ ’’ جدا ہو دین سے سیاست تو بن جاتی ہے چنگیزی۔ ہر انسانی زندگی کے تمام شعبہ جات کے لیے حدیں مقرر ہیں۔ یہ اجمالی مذہبی کیفیت پیغمبر اسلامﷺ نے دیں۔اس میں عیش کوشی کے تصور نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
اعتراض نمبر۱۴۵
مستشرقین اسلام کو عیش کوش مذہب کہتے ہیں۔اس کا جواب بھی ان کے ہم خیال ایک مستشرق کی زبانی لیتے ہیں۔
جواب:’والٹیر‘‘ کا عیسائیت کے مذہبی پیشوائوں کے خلاف تصادم شدت اختیار کر گیا۔اس نے عیسائیوں کو شدت پسند اور عدم برداشت کا طعنہ دیا اور ساتھ ہی اسلام کے بارے میں کسی طرح سہی‘ صحیح بات کرنے پر مجبور ہوگیا۔ کہتا ہے’’ میں ایک بار تمہیں پھر بتاتا ہوں کہ یہ آپ کی جہالت ہے جس کی وجہ سے تم محمد رسول اللہﷺ کے مذہب کو شہوانی سمجھتے چلے آرہے ہیں۔اس میں ایک لفظ بھی سچائی نہیں ہے۔اس بات پر بھی کئی دوسری سچائیوں کی طرح آپ کو دھوکا دیا گیا ہے۔تمھارے راہب،پادری،مذہبی رہنما کیا انسانوں پر یہ قانون لاگو کر سکتے ہیں کہ صبح کے چار بجے سے رات دس بجے تک نہ کچھ کھانا ہے نہ پینا ہے اور روزہ رکھنا ہے۔کیا شراب ممنوع قرار دی جا سکتی ہے؟ کیا جلتے ہوئے صحرائوں میں سفر کر کے تم حج کا حکم دے سکتے ہو؟ کیا تم غریبوں کو اپنی آمدنی کا ایک معقول حصہ زکوٰۃ دے سکتے ہو؟ اگر تم اٹھارہ اٹھارہ عورتوں کی محبت سے لطف اٹھا رہے ہوتے اور حکم دیا جاتا کہ صرف چاربیویاں ہی رکھی جا سکتی ہیں تو کیا تم یہ حکم مان لیتے؟کیا تم ایسے مذہب کو شہوانی کہتے ہو؟‘‘ (محمد رسول اللہ پرو فیسر اکرم طاہر۔۳۱۷) عیسائیت میں گناہِ آدم کی وجہ سے ہر شخص گنہ گار ہے جب کہ اسلام میں انسان پیدائشی معصوم ہے۔اپنے عمل سے نیک اور گنہ گار بنتا ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
عیسائیت ثنویت کا درس دیتی ہے اسلام میں اس کی قطعاََ گنجائش نہیں۔بل کہ قل ھو اللہ احد کا پیغام دیتا ہے۔ مادر پدر آزادی نہیں ہے۔حجر و شجر، شمس و قمر اور آگ وغیرہ مسجود نہ رہے۔ارتکاز دولت اور سود کی ممانعت ہوئی۔فحاشی کا قلع قمع ہوا۔ نشہ اور قمار بازی کا خاتمہ کیا۔ امیر غریب میں تفریق اٹھ گئی اور ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز۔ حرام کی کمائی پر پابندی اور حلال کی ہدایت، عیب جوئی، غیبت،بد ظنی، شہوت پرستی، چوری، ڈکیٹی، بغض و کینہ، لالچ و حسد جیسے رذائل سے سختی سے روکا گیا۔ پانچ وقت نماز، زکوٰۃ،روزہ،حج فرض ٹھہرے۔ نیک عمل کے بدلے جنت کی بشارت دی اور ہر برے کام سے روکا ۔ دوزخ کے عذاب کی سزا سنائی۔تمام انسانی رشتوں کے ادب و احترام میں کوتاہی نہ کرنا، ایمانداری اور دیانت داری کو اوڑھنا بچھونا بنانے کا درس دیا۔ جرائم کی سزا سے معاشرے میںامن بحال رکھا۔ زنا کی سزا مقرر کی۔قانون و انصاف کی نظر میں سب برابر ہوئے۔آپ کو وہ واقعہ یاد ہوگا کہ بنی مخزوم کی ایک خاتون فاطمہ نامی چوری کر بیٹھی۔ قبیلہ کی عزت کے پیشِ نظر طے پایا کہ حضورؐ کے دربار میں معافی کی درخواست پیش کی جائے ۔آپؐ کے حضور درخواست گزاری کے لیے حضرت اسامہ بن زیدؓ کا انتخاب کیا جاتا ہے ۔اسامہ سفارش کرتے ہیں ،آپؐ ناراض ہو جاتے ہیں۔فرماتے ہیں’’ پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ ان کے بڑوں نے کوئی گناہ کیا تو چھوڑ دیے جاتے تھے اور اگر کوئی غریب گناہ کرتا تو اسے سزا دی جاتی۔اگر میری بیٹی فاطمہ بنت محمدؐ بھی ہوتی تو اس کے ہاتھ کا ٹنے کا حکم دیتا‘‘۔ اسلام برابری کا بے نظیر درس دیتا ہے۔اس کی نظر میں سب برابر ہیں۔ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔یہ شہوانی مذہب جسے مستشرقین نشانہ تنقید بناتے ہیں اور چہ مگوئیاں کرتے نہیں تھکتے ان کی باچھیں کھلی رہتی ہیں۔کبھی ان قواعد و ضوابط اسلامی پر عمل پیرا ہوں تو لگ پتہ جائے کہ عیش کوش مذہب ہے یا محنت اور عمل کا مذہب ہے۔ایک بار پھر والٹیر کا بیان پڑھ لیجئے تاکہ مزید مستشرقین کے عیش کوش مذہب کی قلعی کھل جائے۔اس جملہ پر غور کیجئے۔
اٹھارہ اٹھارہ عورتیں رکھنے والوں کو اور لطف اٹھانے والوں کو حکم دیا جاتا کہ صرف چار ہی بیویاں رکھی جا سکتی ہیں تو کیا تم یہ حکم مان لیتے؟ کیا تم ایسے مذہب کو شہوانی کہتے ہو‘‘۔؟

اعتراض نمبر۱۴۶
ویل ڈیورینٹ پیغمبر اسلام کو جنس پرست لکھتا ہے۔ (نقل کفر کفر نبا شد) امہات المومنین اور مستشرقین۔۶۹)
نابیہ ابٹ نے بھی آپﷺ کو جنس پرست ہونے کا بیان کیا ہے۔ حوالہ بالا۔
ان معترض مستشرقین کے لیے ان کے ہم خیال مستشرقین کی آراء لکھتے ہیں۔ سر ولیم میور کہتا ہے کہ ’’ تمام مستند و مقتداء ماہرین متفق ہیں کہ جناب محمد ﷺ کا عہد جوانی شرافت، حیا، سادگی، انکساری اور پاکیزگی کا مرقع تھا اور اس پاکیزگی اخلاق و عادات اہل مکہ میں مفقود تھی۔(حوالہ بالا۔۸۰)
پی۔ ڈی لیسی جان سٹون(P.De Laey johnstone) اپنی کتاب MUHAMMAD AND HIS POWER میں لکھتا ہے’’ تمام لوگوں میں وہﷺ ایک بلند پایہ کردار کے حامل تھے۔ان کی ذات پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا‘‘۔
ریو مارکس ڈاڈس(REV MACUS DODS) اپنی کتاب محمدؐ ، گوتم بدھ اور مسیح میں لکھتا ہے ’’ آپ کی غیر شادی شدہ جوانی کا دور حیران کن طور پر بے داغ تھا‘‘۔ ایمائیل ورمنگھم اپنی کتاب لائف آف محمد میں تحریر کرتا ہے’’ محمد ؐ کا عہدِ شباب پارسائی اور پرہیز گاری کا مرقع تھا‘‘۔ سر جان بیگٹ کلب کہتا ہے ’’ آپ ؐ آزاد جنسی پیار و محبت کے قائل نہ تھے۔آپﷺ اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے تھے اور اپنے مشن سے پہلے کے جوانی کے دور میں بھی ان کے کسی عورت کے ساتھ غیر اخلاقی تعلقات نہ تھے اور اپنا مشن شروع کرنے کے بعد ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انھوں نے سوائے اپنی بیوی کے کسی غیر عورت کو ہاتھ تک نہ لگایا تھا‘‘۔ عرب معاشرہ جس میں پیارے رسول نے آنکھ کھولی اس میں آزاد جنسی تعلقات اور اختلاط کا دور دورہ تھا ۔ بغیر شادی کے میل جول پر پابندی نہ تھی۔ رنڈی بازی قابلِ نفرت نہیں تھی۔عصمت فروشی اور جسم فروشی عام معمول تھی۔ریبون لیوی(RUBEN LEVY ) آپؐ کے زمانہ ولادت اور پھر عہدِ جوانی کے دور میں لکھا’’ جنابِ محمد ﷺ کی ولادت باسعادت سے قبل کھلے بندوں عصمت فروشی رائج الوقت تھی اور یہ امر واضح ہے کہ عربوں میں رنڈی بازی کو قابلِ نفرین نہیں گردانا جاتا تھا‘‘۔( حوالہ بالا۔ ۷۹۔۷۸) آپؐ کی ولادت سے قبل عرب معاشرہ اخلاق سوز، حیا سوز، بے حیائی، فحاشی، زنا کاری اور عصمت فروشی کے گھنائونے افعال و حرکات سے بھرپور تھا۔ان بری حرکات پر پابندی نہ تھی بل کہ انھیں برائی بھی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس معاشرہ میں پاک صاف سیرت و کردار والا شخص جس کی صفات پاکیزگی اپنے اور پرائے شہادتیں دیں۔ صادق و الامین کے القاب دیتے ہوں تو پھر کوئی مستشرق الزام لگائے تو بڑی جسارت اور دیدہ دلیری ہے بل کہ یوں کہہ دیں تو بجا ہوگا’’ چہ دلاور است دزدے بکف چراغ دارد‘‘ ۔ ہاں ہاں مستشرقین کو اپنوں کی بات پر تو کم از کم غور کرنا چاہیے۔ ان ہی کی سن لیتے تو ایسا نہ کہتے،سچ ہے کہ آنکھیں ہیں مگر حقائق دیکھنے سے عاری ہیں۔کان تو ہیں ، سنتے ہیں مگر سننے کے باوجود بھی دوسروں اور اپنوں کی نہیں سنتے، گویا صم بکم۔۔۔۔
اعتراض نمبر۱۴۷
حضورﷺ کے تعداد ازواج کے متعلق غیر مسلموں کا ایک نا گفتہ بہ الزام یہ بھی ہے کہ خاکم بدہن اس کا سبب ہوائے نفسانی غلبہ تھا۔
ان کی تعدد ازواج کے متعلق فلپ سکاف لکھتا ہے ’’ ان کی تعدد ازواج جنسیت پرستی کے سبب تھی اور اولادِ نرینہ کی خواہش میں عمر کے ساتھ شدت آتی گئی۔گبن نے بھی ایسی ہی الزام تراشی کی ہے۔
جواب:آپﷺ نے ۲۵ سال تک مجرد زندگی بسر کی۔ اس قدر صاف و شفاف اور پاکیزہ کہ غلیظ برائیوں سے بھرے معاشرے میں بھی ادنیٰ سا اشارہ نہیں ملتا جو آپؐ کی پاک دامنی کے دامن کو آلودہ اور داغ دار کر سکے۔
پی ڈی لیسی جان سٹون لکھتا ہے ’’ تمام لوگوں میں وہ ایک بلند کردار کے حامل تھے‘ ان کی ذات پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا‘‘۔ جنسی اختلاط پر کوئی پابندی نہ تھی۔ یہ برائی معاشرہ کی جڑوں میں سرایت کر چکی تھی۔ایک دو شیزہ حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہ تھی۔آپؐ حسن و جمال میں یکتا ہیں۔ساری قوم صادق و الامین کہتی ہے اور اس کھلے ماحول میں بھی اپنی بے داغ زندگی کی مثال پیش کرتے ہیں جو عدیم المثال ہے۔۲۵ سال کی عمر میں بیوہ سے شادی کی۔ وہ دو شوہروں کی بیوی رہ چکی تھیں۔اس بیوی کی زندگی میں کسی اور سے شادی نہیں کی۔ اسے ہوائے نفسی کا غلبہ کہتے ہیں؟ حالاں کہ چاہیے تو یہ تھا کہ کئی دو شیزائیں ہوتیں۔ان سے متمنع ہوتے لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ دوم وہ یہ کہ خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد پچاس سالہ خاتون سودہ بنت زمعہ سے شادی کرتے ہیں اور ۵۵ سال تک وہی ایک رفیقہ حیات رہیں۔ پھر ۵۵ تا ۵۹ سال تک دو دو ، تین تین شوہروں والی خواتین سے شادی کرتے ہیں جب کہ دو شیزائوں کی کمی نہ تھی۔ کیا نفسانی خواہشات اور ہوائے نفسانی سے مغلوب شخص دو شیزائوں کی بجائے معمر اور کئی کئی شوہروں والی خواتین سے شادیاں کرتا ہے۔ کیا ہوائے نفسانی کے غبارہ سے ہوا نہیں نکلتی کہ وہ دوشیزائوں سے شادی نہیں کرتا جو نفسانی خواہش کا طرہ ہوتا ہے ۔ آپؐ کی تمام تر زندگی صاف شفاف، پاک اور بے داغ ہے۔
ایو مارکس ڈاڈس کہتا ہے ’’ آپؐ کی غیر شادی شدہ جوانی کا دور حیران کن طور پر بے داغ رہا‘‘۔
سر جان بیگٹ کہتا ہے ’’ آپؐ آزاد جنسی پیار و محبت کے قائل نہ تھے۔ آپؐ اللہ کی حمد و ثناء بیان کرتے تھے اور اپنے مشن سے پہلے کے جوانی کے دور میں بھی ان کے کسی عورت کے ساتھ غیر اخلاقی تعلقات نہ تھے اور اپنا مشن شروع کرنے کے بعد بھی ان کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے سوائے اپنی بیوی کے کسی غیر عورت کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا‘‘۔ تو کیا ۵۵ سال سے پہلے اور ۵۹ سال کے بعد یعنی (۵۹ تا ۶۳) عمر میں ہوائے نفسی کے غلبہ کا شائبہ تک موجود نہیں صرف (۵۵ تا ۵۹) یعنی پانچ سالہ پیریڈ میں ہوائے نفسانی کی ہوس پیدا ہوئی جب کہ تم جانتے ہواور تاریخ گواہ ہے کہ ۵۔۶ نبوی میں تبلیغ دین کو روکنے کے لیے قوم ،دولت، سیادت، حسین ترین دو شیزائیں پیش کررہی تھیں لیکن آپؐ نے ذرا برابر دھیان نہ دیا جب کہ حرم پاک نبوی میں ۶۰ سالہ بوڑھی خاتون حضرت خدیجہؓ کے سوا کوئی زوجہ محترمہ موجود نہیں تھی۔ آپؐ پر کفار مکہ نے شاعر، مجنوں ، جادو گر اور سحر زدہ کے الزام لگائے لیکن کسی جانی دشمن نے بھی آپؐ کی خواہش نفسانی کے غلبے کا الزام نہیں لگایا کیوں کہ قوم دو شیزائوں کی پیش کش کر کے آزما چکی تھی کہ آپؐ میں جنسیت کا میلان نہیں ہے اور یہ اس بات کی دلیل بھی ہے کہ جن لوگوں کے سامنے تعدد ازواج کا عقیدہ پیش کیا تھا۔ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ وہ قد کاٹھ کا انسان مغلوب النفس نہیں ہو سکتا ۔ کیوں کہ اگر وہ ہوائے نفسانی کے غلبے سے متاثر ہوتا تو اسے تعدد ازواج کا قانون پیش کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔
ولیم میور کہتا ہے ’’ اب محمدؐ کی عمر ساٹھ سال کے قریب تھی لیکن جنسِ مخالف کی طرف آپؐ کے میلان کی کمزوری میں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا تھا، آپؐ کو اپنی وسیع حدود سے تجاوز سے روکنے کے لیے کافی نہ تھی‘‘۔( ضیا النبی۷۔۴۶۹) اس سلسلے میں مستشرق نے یہ نہ سوچا کہ ایسی ہستیاں اور بھی موجود ہیں جن پر یہ الزام لگتا ہے ۔ جنھوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں اور اپنی زوجیت میں جمع کیا، کیسی نادانی و حماقت ہے کہ جس ذات پر یہ الزام لگتاہے کسی دوسرے پر الزام کیوں نہیں لگاتے؟ یہ عجیب غیر جانب داری ہے۔ نیز یہ الزام دھرتے ہوئے خیال نہ رکھا کہ ایسی بات یعنی متعدد ازواج سے متعلق آپ کی پوری زندگی کے پس منظر کو سامنے رکھا جاتا مگر ندارد! حد تو یہ ہے کہ تعدد ازواج کی رسم عام تھی۔ عظیم تاریخی شخصیات نے بھی رسم کو اپنایا لیکن کسی نے ان شخصیات کو ہدف تنقید نہیں بنایا جن الزامات کا آنحضرتﷺ کو نشانہ بنایا گیا۔ نیز اسلام تو عام آدمی پر بھی اس قسم کی پابندی عائد نہیں کرتا۔ (مسٹر بی ایس کشالہ ( ن ۴۔۴۵۵)کہتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے کثرت ازواج کے متعلق بہتان باندھا گیا ہے یہ محض غلط ہے ‘ بے شک آپ ﷺ نے کئی بیویاں کی تھیں مگر زمانے کے برے رواج کو مٹانے کے لیے اور ہر طبقہ کی عورتوں کو نکاح میں لا کر ان کا سہار ابن جانے کے لیے اور لوگوں کو ترغیب دینے کے لیے ‘ وہ بھی بیوہ ‘ باکرہ ‘ غلام اور لا وارث عورتوں کو اپنے نکاح میں لائیں اور آپ ﷺ کے نمونہ کی پیروی کریں ‘ آپ ﷺ نے اپنی نفسانی خواہش کے لیے نکاح نہیں کیے آپ ﷺ نے نفسانی خواہش کی کوئی بھی دلیل یا علامت نہیں پائی جاتی ۔

اعتراض نمبر۱۴۸
تعدد ازواج کا مقصد نہ تو سماجی اور نہ ہی معاشی حیثیت کو بلند کرتا ہے بل کہ یہ صرف مرد کی جنسی رغبت اور خواہشِ نفسانی کا نتیجہ ہے۔
جواب:اگر انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی ۔۔۔۔۔۔ یہ جملہ ایک نہایت بلیغ اور وسیع مفہوم کا عکاس ہے۔ انصاف کے دائرہ میں ہر وہ چیز آتی ہے جس سے کسی الجھن کا کسی قسم کا بگاڑ پیدا نہ ہو۔ بعینہ معاشی تنگی اور سماجی پیچیدگیوں کا خطرہ سامنے لا حق ہے تو صرف ایک بیوی کی اجازت ہے تا کہ معاشی کمزوری یا سماجی الجھنیں بوجھ نہ بن جائیں اور گھر پہلوانوں کا اکھاڑہ نہ بن جائے۔ حالاں کہ انصاف ہی کی بدولت معاشی اور سماجی حیثیت بلند ہو تی ہے ۔ جیسے ہندو معاشرہ کے شکاری قبائل شکار پر گزر بسر کرتے تھے، مل کر دولت کماتے اور بانٹ لیتے تھے۔ آج بھی عورتیں مردوں کے شانہ بہ شانہ کھیتوں اور کھلیانوں میں کام کرتی نظر آتی ہیںنیز دفاتر اور مختلف اداروں میں کام کرتی ہیں۔ اس سے معاشی حیثیت بلند ہوتی ہے۔معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ سماج بھی انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے جس سے سماجی مقام میں بلندی اور بہتری رونما ہوتی ہے۔ عورت کی پاک دامنی پر کوئی حرف نہیں آتا۔ یورپی معاشرے کی طرح ایک بیوی رکھ کر کئی داشتائوں کے رکھنے سے نفسانی خواہش کا غلبہ اور جنسی رغبت میں اضافہ ہوتا ہے اور ہوس ،شہوت درندگی کا روپ دھار لیتی ہے۔ معاشی مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ غیر ضروری خرچوں سے جائز ضروریات پوری ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ بھئی یہی تو انصاف کہتا ہے کہ اگر تمھارے معاشی مسائل گھمبیر ہیں ان سے نبرد آزما ہونا تمہارے بس کا روگ نہیں تو ضروری نہیں ہے کہ سر اوکھلی میں ڈالیں لہٰذا ایک ہی بیوی کافی ہے۔ دو دو ‘ تین تین اور چار چار کی رخصت ہے اور وہ بھی مشروط رخصت۔اگر انصاف نہ کر سکو تو پھر ایک ہی۔
اعتراض نمبر۱۴۹
ہندو قانون میں ایک ہندو کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا خلافِ قانون ہے۔ان کا دعویٰ ہے کہ ہمارے ملک میں عورتوں کی تعداد کم ہے ۔ اس لیے کثرت ازواج کی ضرورت نہیں‘‘۔
جواب: ڈاکٹر ذاکر نائیک کہتا ہے کہ ’’ اپنے کچھ پڑوسی ممالک سمیت ہندوستان کا شمار دنیا کے ان چند ملکوں میں ہوتا ہے جہاں خواتین کی آبادی مردوں کی آبادی سے کم ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں بیش تر لڑکیوں کو شیر خوارگی ہی کے موقعہ پر ہلاک کر دیا جاتا ہے جب کہ دوسری طرف اس ملک میں ہر سال دس لاکھ سے زائد بچیوں کو اسقاط حمل کے ذریعے آنکھ کھولنے سے پہلے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ یعنی جیسے ہی یہ انکشاف ہوتا ہے کہ فلاں حمل میں لڑکی پیدا ہوگی تو اسقاط حمل کے ذریعے وہ حمل ضائع کر دیا جاتا ہے۔اگر یہ ظالمانہ عمل روک دیا جائے تو یہاں بھی عورتوں کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہو گی( ضیائے حرم جولائی ۲۰۱۴)
زرتشت مذہب میں حقیقی ماں ،بہن ،بیٹی سے شادی جائز تھی۔مسیلمی قربت کی شادی کو برا جانتے تھے۔ بدھ عورت سے کنارہ کشی کو اچھا سمجھتا ہے۔ گوتم نے فرار اختیار کیا اور رہبانیت اختیار کر لی۔ مانی مذہب میں جنسی تعلقات خواہ تفریحاََ ہوں اجتناب ضروری ہے مگر عام پیروئوں کو اجازت تھی۔ اسلام کی آمد سے زندگی میں انقلاب برپا ہوا۔اسلام نے وہ تمام حقوق عطا کیے جو قبل از اسلام کسی مذہب نے نہیں دئیے تھے۔ روتی،پیٹتی اور سسکتی خواتین کو مردوں کے برابر درجہ عطا کیا۔اسقاط حمل سے اولاد کشی کو روک دیا۔ ’’ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِیْ الاَْرْضِ فَکَاَنَّمآ قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا‘‘ (المائدہ۳۲،پارہ۶) ( جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کیے تو گویا اس نے سب لوگوں کا قتل کیا)
اس قبیح رسم کو ساڑھے چودہ سو سال قبل جس کی لپیٹ میں آج بھی کئی ملک نظر آتے ہیں اور جدید طریقوں سے بچیوں کو قتل کرتے ہیں جب کہ اسلام نے بجائے کسی کو قتل کرنے کے‘ فطری اور مفید طریقہ عطا کیا کہ متعدد شادیاں کی جائیں اور وہ شادیاں بھی حدود کے اندر رہ کر نہ کہ اپنی خواہشات کے بل بوتے پر‘ان گنت شادیاں رچا لی جائیں ۔
اعتراض نمبر۱۵۰
ایک خاوند اور کئی بیویوں پر مشتمل گھرانہ جو مدتوں عیسائیوں کی نظروں میں اسلامی معاشرہ کی خصوصی پہچان رہا، وہ محمدﷺ کے ذہن کی اختراع تھی۔ممکن ہے کہ آپ سے پہلے اس کی چند مثالیں موجود ہوں لیکن یہ رسم نہ تھی اور خصوصاََ اہلِ مدینہ کے لیے یہ بات بالکل نئی تھی۔ پھر سورہ النساء کی آیت نمبر ۳ جس کا ترجمہ ہے’’ اور اگر تم ڈرو اس سے کہ نہ انصاف کر سکو گے تم یتیم بچوں کے معاملہ میں (تو ان سے نکاح نہ کرو) اور نکاح کرو جو پسند آئیں تمھیں(ان کے علاوہ دوسری) عورتوں سے دو دو، تین تین اور چار چار اور اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ تم ان میں عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی یا کنیزیں جن کے مالک ہوں تمھارے دائیں ہاتھ‘ یہ زیادہ قریب ہے اس کے کہ تم ان کی طرف نہ جھک جائو‘‘ لیکن’’واٹ‘‘ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے’’ دل چسپ نکتہ یہ ہے کہ یہ آیت لا محدود کثرت ازواج کی سابقہ رسم کی حد بندی نہیں کرتی جن لوگوں کی چھ یا دس بیویاں تھیں‘ یہ آیت ان سے یہ نہیں کہہ رہی کہ تمھیں چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت نہیں۔اس کے بر عکس جن لوگوں کی ایک بیوی تھی یا دو بیویاں تھیں‘ یہ آیت ان لوگوں کی حو صلہ افزائی کر رہی ہے کہ وہ چار تک شادیاں کریں۔اس آیت میں کسی پرانی رسم پر پابندی نہیں لگائی جا رہی ہے بل کہ ایک نئی چیز متعارف کر وائی جا رہی ہے‘‘۔ ( ضیاء النبی۔۴۲۹۔۴۲۸؍۷)
۲۔تعدد ازواج آپؐ کی ذہنی اختراع تھی، اسلام سے پہلے یہ قانون عام نہ تھا اور خاص طور پر اہل مدینہ تعدد ازواج سے بے خبر تھے۔ جواب:’’واٹ‘‘ کی دروغ گوئی تاریخی حقائق سے چشم پوشی کا نتیجہ ہے۔ دراصل قبل از اسلام ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے پر کوئی پابندی نہ تھی۔ ہر مرد آزاد تھا ۔اپنی مرضی کے مطابق جتنی شادیاں چاہتا ‘ رچا لیتا۔سچ کہتے ہیں کہ دروغ گو را حافظہ نبا شد، (جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا) خود ہی اپنے مذکور بیان کی تردید کرتے ہوئے کہہ دیتا ہے’’ کہا جاتا ہے کہ طائف کے ایک آدمی کی دس بیویاں تھیں اور بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ وہ سب بہ یک وقت اس کے نکاح میں تھیں۔
''A man of Taif is said to have ten wives,apparently at once''
وہ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ ابنِ سعد نے ایسے لوگوں کی ایک فہرست دی ہے جن کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں لیکن وہ کہتا ہے کہ اس فہرست سے تعدد ازواج کی رسم اس لیے ثابت نہیں ہوتی کیوں کہ ایسی عورتیں بھی تھیں جن کے ایک سے زیادہ خاوند تھے۔ اس لیے یہ فہرست تعدد ازواج کی رسم کے باوجود دلیل نہیں بن سکتی اور حساب برابر ہوجاتا ہے۔ قبل از اسلام اور خصوصاََ مدینہ میں ایک سے زیادہ بیویوں کا رواج نہ تھا بل کہ وہ خود تسلیم کرتا ہے کہ عرب میں مدینہ سمیت کچھ ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ ایک آدمی نے دو بہنوں کو بہ یک وقت رشتہ ازواج میں منسلک کر رکھا تھا ۔وہ لکھتا ہے۔ There are a few examples including some from medium of a man marrying two sisters.
کچھ مثالیں ایسی ہیں جن میں کچھ مثالیں مدینہ کی بھی ہیں کہ ایک آدمی نے دو بہنوں سے شادی کر رکھی تھی۔ یہود و نصاریٰ مذاہب کے سامنے تعدد ازواج رہا۔زرتشت مذہب میں حقیقی ماں بہن بیٹی سے شادی جائز تھی۔ بدھ مت میں خود بدھ اپنے عیال کو چھوڑ کر رہبانیت اختیار کر بیٹھا لیکن انھیں روکنے کے لیے اف تک نہ کی۔ ذکریا ہاشم کہتے ہیں’’ ہم جانتے ہیں کہ حضرت ابراھیم ؑ سے لے کر موسیٰ ؑ تک تمام شریعتوں میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت تھی اور میں نہیں سمجھتا کہ حضرت عیسیٰ ؑ پر جو انجیل نازل ہوئی تھی اس نے اس کی ممانعت کی ہو۔لیکن شریر لوگوں نے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کے لیے جو شرائط تھیں ان سے تعدد ازواج کی ممانعت سمجھی اور انجیل میں تحریف کردی‘‘۔(ضیاء النبی۷۔۴۴۲) مگر اسلام وہ دینِ رحمت ہے کہ نہ تو حقیقی رشتوں سے شادی جائز قرار دیتا ہے نہ ہی دو بہنوں کے ساتھ بہ یک وقت۔’’ وَاَن تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُ خْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَف‘‘۔ اور نہ ہی بدھ مذہب کی طرح رہبانیت کی تعلیم دیتا ہے۔ ہمیشہ راہ اعتدال کی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ دیکھا قارئین کرام اولاََ مخالفت میں رائی کا پہاڑ بنا دیتا ہے پھر خود ہی تردید کر کے رائی کے بنے پہاڑ کو زمیں بوس کر دیتا ہے حتیٰ کہ نشان تک رہنے نہیں دیتا۔یہ تضاد بیانیاں مستشرقین کی گھٹی میں پڑی ہیں اور مورخ کبھی انصاف کا دامن نہیں چھوڑتا اور غیر جانب داری سے معلومات فراہم کرتا چلا جاتا ہے لیکن ان مستشرقین کے لیے یہ ضروری نہیں۔
دوم:سورہ النساء کی آیت کو بطور دلیل پیش کر کے کہا کہ کثرت ازواج کی سابقہ رسم پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت دی۔ چار سے زیادہ بیویوں والے لوگوں پر صرف چار بیویوں کو رکھنے کی کوئی شرط عائد نہیں کی گئی نیز پرانی رسم کو برقرار رکھا۔ آیت پاک کا ترجمہ’’ اور اگر ڈرو تم اس سے کہ نہ انصاف کر سکو گے تم یتیم بچوں کے معاملہ میں ( تو ان سے نکاح نہ کرو) اور نکاح کرو جو پسند آئیں( ان کے علاوہ دوسری) عورتیں، دو دو، تین تین، چار چار اور اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ تم ان میں عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی یا کنیزیں جن کے مالک ہیں تمھارے دائیں ہاتھ، یہ زیادہ قریب ہے اس کے کہ تم ایک طرف ہی نہ جھک جائو‘‘۔ قارئین کرام! کثرت ازواج کے لیے شرط لگائی جا رہی ہے کہ اگر انصاف نہ کر سکو تو صرف ایک بیوی کافی اور جائز ہے۔اس سے کثرت ازواج مشروط ٹھہرتی ہے بل کہ ازواج کثرت پر پابندی لگ رہی ہے۔ یہ شرط اتنی کڑی ہے گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جس نے انصاف کا دامن تھامے رکھنا ہے وہ اس میدان میں سوچ سمجھ کر قدم رکھے گا۔ شائد مستشرقین اپنے آزادانہ معاشرے کے رواج کو سامنے رکھتے ہوئے کہتے ہیں کیوں کہ وہاں آئے دن شادیاں رچائی جاتی ہیں۔ یہ شادی ختم کرنے میں مذہبی، اخلاقی، معاشرتی آداب آڑے نہیں آتے۔ انھیں کیا پتہ کہ انصاف کیا ہے؟ بایں سبب ان پر کوئی شرط یا عائد پابندی جو اسلام نے کثرت ازواج کے لیے مقرر کر رکھی ہے نظر نہیں آتی۔حالاں کہ صریحاََ یہ آیت کثرت ازواج کی روک تھام اور آزاد راہ کو مسدود کر رہی ہے۔اس سے یہ فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ محض جنسی اختلاط اور جنسی تلذذ کی خاطر شادی نہیں ہوگی۔اس عیش و عشرت کے دروازہ پر تالا لگا دیا گیاہے جس سے دوسری شادی کا جواز نہیں رہتا۔ بہ صورت دیگر انصاف کی دھجیاں بکھر جاتیں اور اپنی شہوت پرستی اور جنسی تلذذ کی خاطر نہ جانے کتنی عورتوں کو بھینٹ چڑھایا جاتا۔اسلام نے عورت کی عزت و عظمت کو چار چاند لگا دئیے ۔ وہ بھی معاشرہ میں اعلیٰ مقام کی مالکہ بن گئی۔ہر درجہ عورت کے حقوق مقرر کرکے ان کی حوصلہ افزائی کی جیسے یتیم بچیوں کے معاملہ میں بھی انصاف کو مقدم رکھا کہ عدل نہ ہو سکے تو ان سے بھی شادی ان کے مال و دولت یا جنسی تلذذ کی وجہ سے منع فرمادی۔ یتیم کو وہ مقام بخشا کہ کوئی بے سہارا نہ رہے اور در بہ در کی ٹھوکریں کھانے سے نجات پا جائے۔ گویا ہر وہ صورت جس سے انصاف کے تقاضے پورے نہ ہوتے ہوں حقوق کی پائمالی ہو، شرائط عائد کر کے یکسر دروازہ مقفل کر دیا۔ مستشرقین کو یہ بات مدِ نظر رکھنی چاہیے کہ یہ آیت چار سے اوپر بیویوں والوں کو اور نہ ہی ایک سے زیادہ چار تک بیویاں رکھنے والوں کو کھلم کھلا اجازت دے رہی ہے بل کہ ایسی پابندی لگا رہی ہے کہ کثرت ازواج رک جائے گی۔
سوم:اس آیت پاک کی روشنی میں یہ حکم دیا جارہا ہے کہ پیروان اسلام پر اس کی پابندی( کثرت ازواج) لازمی ہے بل کہ یہ ایک رخصت ہے اور اجازت ہے اور یہ رخصت بھی مشروط ہے اور شرط کے پورا نہ کرنے کی صورت میں قطعاََ گنجائش نہیں ہے بل کہ رخصت بھی منسوخ ہو جاتی ہے۔ قید اور شرط یہ ہے ’’ اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ تم ان میں عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی یا کنیزیں جن کے مالک تمھارے داہنے ہاتھ ہیں۔ یہ زیادہ قریب ہے اس کے کہ تم ایک طرف ہی نہ جھک جائو‘‘۔ ایک اور مقام پر ہے ’’ وَلَن تَستطِعیوا۔۔۔۔۔ کان غفور رحیما‘ ‘ ’’بیویوں کے درمیان عدل کرنا تمھارے بس میں نہیں، تم چاہو بھی تو اس پر قادر نہیں ہو سکتے۔لہٰذا ایک بیوی کی طرف اس طرح نہ جھک جائو کہ دوسری کو لٹکتا چھوڑ دو۔اگر تم اپنا طرزِ عمل درست رکھو‘ اللہ سے ڈرتے رہو تو اللہ چشم پوشی کرنے والا رحم کرنے والا ہے‘‘۔
قبل از اسلام ایک مرد کی کئی بیویاں ہوتی تھیں۔آپؐ نے صحابہ کو حکم فرمایا کہ جو پسند ہوں انھیں اختیار کریں اور باقی بیویوں کو آزاد کر دیا جائے۔حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے’’ غیلان بن سلمہ ثقفی ؓاسلام لائے۔ان کی زمانہ جاہلیت میں دس بیویاں تھیں۔وہ ان کے ساتھ مسلمان ہو گئیں۔آپؐ نے حکم فرمایا کہ وہ ان میںسے چار کو اختیار کریں۔ حضرت قیس بن حارث ؓنے فرمایا کہ جب میں مسلمان ہوا تو میرے پاس آٹھ بیویاں تھیں۔میں نے نبی پاک ﷺکی خدمت میں حاضر ہو کراس کو بیان کیا تو آپؐ نے فرمایا’’ ان میں سے چار کو اختیار کر لو‘‘ اس سے یہ بات تو ظاہر ہوتی ہے کہ چار بیویوں کو اختیار کرنے کے بعد باقی کو آزاد کر دیا جائے گویا کثرت ازواج کو چار تک محدود کر دیا اور یہ پابندی بھی کم ہو کر صرف ایک بیوی پر آکر ختم ہو جاتی ہے وہ اس طرح کہ بات واضح ہے کہ اگر مرد انصاف نہ کر سکیں۔ یہی کثرت ازواج کا شور برپا کر رکھا ہے ان لوگوں نے۔ امید ہے اب سمجھ گئے ہوں گے وہ اس طرح کہ بات واضح ہے مگر نہ ماننا اور بات ہے۔
کوتلیہ چانکیا: اس کے نزدیک کسی معقول عذر کی بناء پر شادی جائز ہے جیسے اولادِ نرینہ نہ ہو۔اس صورت میں معقول رقم زر تلافی عورت کو دے اور اثاثے اس کے حوالے کرے پھر جتنی شادیاں چاہے کی جا سکتی ہیں۔ دیکھا حضرات کتنا بڑا ظلم ہے کہ پہلی بیوی کو اپنے ہاں رہنے نہیں دیا جاتا۔اسے بے دخلی کے آرڈر دیے جاتے ہیں۔صرف چند کوڑیوں کے عوض اس سے زوجیت کے تمام حقوق چھین لیے جاتے ہیںلیکن دین اسلام پہلی بیوی کو اپنے ساتھ رکھنے اور انصاف سے سلوک کی ہدایت کرتا ہے۔ اگر اس سے زیادتی ہوتی ہے یا انصاف نہیں ہو پاتاتو مرد کو دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ہاں البتہ پہلی بیوی کو طلاق دے دے تو پھر اجازت ہے۔کیسا حسین ہمدرد، خیر خواہ انصاف پسند مذہب ہے کہ کسی کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے اور اسے زوجیت کے حقوق سے محروم کرنے کے آرڈر کی اجازت نہیں ملتی۔
منو مہاراج اور قانون ازواج:ہندو معاشرہ میں قانون وضع کرنے والے قانون ساز منو راج میں کثرت ازواج کی اجازت ہے مگر صرف برہمن ،کھشتری اور ویش کو۔شودر صرف ایک بیوی رکھ سکتا ہے۔ برہمن ، کھشتری ویش عورتوں سے شادی کریں اور کم زور ذات دونوں شامل ہوں تو برتری میں برابر ذات والی کو اونچا مقام حاصل ہوگا۔ دوسری شادی کے لیے اجازت لینا اس مذہب میں ضروری قرار پاتا ہے۔ بے اولاد یا بیٹوں کا نہ ہونا وغیرہ کی صورت میں سوتن لائی جا سکتی ہے۔ البتہ جھگڑا لو نہ ہو نیز پہلی بیوی کی اجازت سے سوتن لائی جائے گی۔
سوامی دیا نند سرسوتی اور تعدد ازواج:چند شرائط کے ساتھ کئی شادیوں کے کرنے کی اجازت ہے۔ پیر کرم شاہ بھیروی لکھتے ہیں’’ آریوں میں تعدد ازواج کی ا جازت ہے۔ چار عورتوں سے بہ یک وقت شادی کر سکتے ہیں اور ان کے مہاراجے راجے ہر قسم کی پابندی سے آزاد ہیں۔انھیں ان گنت عورتوں سے شادی رچانے کی کھلی چھٹی تھی‘‘۔ ہندو مت میں سری رام چندر جی کے والد مہاراجہ دسرت کی کئی بیویاں تھیں۔ سری کرشن چندر جی کی سینکڑوں بیویاں تھیں۔ پانڈوں کے راجا پانڈو کی دو بیویاں تھیں۔ بچھتر ایزج کی دو بیویاں اور کنیز تھی۔
پرانوں میں کثرت ازواج:کرشنا مہاراج وشنو دیوتا کا اوتار تھا۔وہ بھی کئی بیویوں کا مالک تھا۔ ہرانوں میں اس کی سولہ ہزار آٹھ سو بیویاں گنوائی گئی ہیں اور ان سے سولہ ہزار بیٹیاں پیدا ہوئیں( یہ مجذوب کی بڑ ہے) بہ ہر حال اتنا تو ثابت ہوتا ہے کہ اس نے کئی شادیاں کی تھیں۔
یہود و نصاریٰ:کثرت ازواج پر یہود و نصاریٰ طعن کرتے ہیں۔اس کا رد اللہ تعالیٰ نے فرمادیا۔ ارشاد ربانی ہے،
’’وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَ جَعَلْناَ لَھُم اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّ یَّۃً‘‘ (ال رعد ۶۴) ’’ اور بے شک ہم نے تجھ سے پہلے پیغمبر بھیجے اور ان کو عورتیں اور اولاد دی‘‘۔ اس سے جناب ختمی المرتبت محمدﷺ پر لگائے گئے کثرت ازواج کے الزام اور طعن کا رد فرمایا گیاہے۔اس کی دلیل یہ فرمائی کہ آپؐ سے پہلے پیغمبروں کو بھی عورتیں اور اولاد دی۔آپ کا شادیاں کرنا عین اسلام ہے اور قرآنی مذکور آیت سے ثابت ہے جب کہ دیگر انبیاء نے بھی ایسا کیا۔
حضرت ابراھیم ؑ ۳ بیویاں پیدائش باب۱۱ آیت ۲۹ باب ۱۶ آیت ۳
حضرت یعقوب ؑ ۴ بیویاں پیدائش باب ۲۹ باب ۳۰ آیت(۴۔۹)
حضرت موسی ؑ ۲ بیویاں خروج باب آیہ ۲۱ ‘اعداد باب ۱۲ آیت اول
حضرت جدعون ؑ بہت سی بیویاں جن اقتضا باب آیت ۳۰
سے ستر لڑکے پیدا ہوئے
حضرت دائود ؑ ۴۳ بیویاں دوم سموئیل باب ۳ آیت ۲ تا ۵ آیت ۱۳
حضرت سلیمان ؑ بہت سی عورتیں(۷۰۰) باب ۱۱ آیۃ ۳۔۴
حقیقت یہ ہے کہ ایک سے زائد بیویاں بیاہ لانا نبوت کے منافی نہیں البتہ سموئیل میں پیغمبروں کی شان جن سے بے ادبی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس سے ہمیں اتفاق نہیں۔
( حیات محمد۔ ہیکل ۶۵۸)
حساب برابر: ’’واٹ‘‘ کہتا ہے کہ ابن سعد کی تاریخ میں بے شمار مثالیں ایسی ہیں جن میں سے ایک مرد کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں لیکن ایسی عورتوں کی مثالیں بھی موجود ہیں جن کے ایک سے زیادہ خاوند تھے۔اس لیے حساب برابر ہو جاتا ہے۔ ‘‘ ( ضیاء النبی ۷۔۴۴۰)
اس کاجواب یہ ہے کہ واٹ:تعداد ازواج کا اقرار کرتا ہے اور اپنے اس موقف(تعدد ازواج) کے غلط ہونے کے سلسلے میں حساب برابر کرنے کی دلیل لاتا ہے کہ اگر ایک مرد کے کئی بیویاں تھیں تو ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جہاں کئی عورتوں کو ایک ہی خاوند میسر تھا۔ اسلام واٹ کے ہر دو مفروضوں کا رد کرتا ہے اول یہ کہ واٹ تعداد ازواج کا انکاری ہے۔دوم مانتا ہے تو حساب برابر کرنے کے چکر میں کہ کئی عورتوں کے لیے ایک خاوند ہوتا تھا۔
واٹ کی تردید، جارج سیل:کچھ یہودی علماء نے باہمی مشورہ سے بیویوں کی تعداد چار مقرر کی تھی لیکن ان کا مذہبی قانون کوئی پابندی نہیں لگاتا ہے۔ مزید کہتا ہے’’ کئی پڑھے لکھے لوگ اس عامیانہ غلطی میں مبتلا ہیں کہ محمدﷺ نے اپنے پیروکاروں کو لا تعداد عورتوں کو اپنے نکاح میں رکھنے کی اجازت دی‘‘۔
اعتراض نمبر۱۵۱
تعدد ازواج سے معاشرے میں ہم آہنگی کی بجائے نفرت ۔اور بغض و عناد کے جذبات جنم لیتے ہیں ۔
جواب: حضرت ام حبیبہ ؓ کو چھ ہجری میں حبالہ عقد میں لیا ۔ ابو سفیان کی مخالفت ڈھیلی پڑ گئی ۔ یہ وہ شخص ہے جو اسلام اور پیغمبر اسلام کا جانی دشمن ہے ۔ ازاں بعد حضرت معاویہ ؓ اور یزید ؓ بن ابو سفیان ایمان لائے ۔ حضرت جویریہ بنت حارث کا نکاح آٹھ ہجری کے بعد ہوا ، حارث اور ان کا سارا خاندان مصطلق ڈاکہ زنی کو چھوڑ دیتا ہے اور اسلام قبول کر لیتا ہے ۔ حضرت صفیہ ؓ بنت حیّ کے حرم نبوی میں داخل ہونے سے یہود کی دشمنی میں کمی ہی نہیں آتی بلکہ وہ کسی سازش میں حصہ لیتے نظر نہیں آتے ۔ سات ہجری میں ام میمونہ ؓ کے نکاح میں آنے سے نجد کے فتنے ختم ہوتے ہیں معاشرہ امن اور سکون کا گہوارا بن جاتا ہے ۔ کہیں اب نفرت و عناد کی آندھیاں چلتی دکھائی نہیں دیتیں ۔ تعدد ازواج کی برکت سے امن و امان اور خوشحالی کی فضا اطراف و اکناف میں پھیلی ۔ نہ جانے مستشرقین کو تعدد ازواج سے معاشرہ میں ہم آہنگی کی بجائے نفرت اور رقابت کے جذبات جنم لیتے کیوں نظر آتے ہیں ؟ حالانکہ مذکورہ تاریخی حالات سے ثابت ہے کہ معاشرے میں خوشگوار اور پیار و محبت کے جذبات جنم لیتے ہیں ۔ اچھے تعلقات کی بناء پر دشمنی اور نفرت دم توڑ دیتی ہے اور ایسا مثالی معاشرہ معرض وجود میں آتا ہے جس کی نظیر رہتی دنیا تک تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے ۔آپ ﷺ نے جن جن خواتین کو حرم نبوی میں شامل ہونے کا شرف بخشا ان کے وارثوں نے کبھی ازاں بعد حضور ﷺ کی مخالفت نہ کی ‘ اگر تھی تو کمی واقع ہوئی ۔ آپ ﷺ کے جانی دشمن آ پﷺ کے جانثار اور اللہ کے دین کی خاطر جان کی بازی لگانے والے بن گئے ‘ یہ آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ اور غریبوں ‘ یتیموں اور بیوائوں سے ہمدردی کا نتیجہ ہے ۔ آ پﷺ نے نفرت اور بغض کی کریحہہ صورت کو مسخ کر دیا ۔
اعتراض نمبر۱۵۲
مستشرقین کہتے ہیں کہ اسلام نے تعدد ازواج کی اجازت دے کر عورت کا احترام کم کیا ہے۔ ( ضیاء النبی ۷۔۴۵۰)
جواب:پیر کرم شاہ بھیروی صاحب لکھتے ہیں’’ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ معاشرے کی وہ عورتیں جن کے لیے خاوند موجود نہیں، کیا وہ عورت کہلانے کی مستحق نہیں؟ کیا ان عورتوں کی فطرت ان چیزوں کا تقاضا نہیں کرتی جن کا تقاضا دوسری عورتوں کی فطرت کرتی ہے؟ کیا معاشرے کا یہ فرض نہیں کہ وہ ان محروم عورتوں کے متعلق غور کرے؟ اگر معاشرے میں ایسے با ہمت لوگ موجود ہوں جو ایک سے زیادہ بیویوں کے حقوق پورے کر سکتے ہوں تو کیا یہ مناسب نہیں کہ وہ قربانی کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھیں اور ان محروم عورتوں میں سے حسبِ استطاعت دو یا تین خواتین کو اپنی زوجیت کے سائے میں لے لیں؟ اس صورت میں تعدد ازواج کا قانون مرد کی خواہشات کی تسکین کا ذریعہ نہیں ہوگا بل کہ بے آسرا خواتین کو عزت و وقار ، گھر، سکون اور اولاد جیسی نعمتیں دینے کا ذریعہ بن جائے گا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بل کہ وہ عورتیں جن کی زندگی کے بے شمار مسائل کا حل معاشرہ نہیں سوچتاان مسائل کا حل وہ خود سوچتی ہیں۔اس کا نتیجہ معاشرے کو فحاشی کے اڈوں، کنواری مائوں، نا جائز بچوں اور جنسیت زدہ قوم کی شکل میں نظر آجاتا ہے۔۔ معاشرہ جن عورتوں کو خاوند مہیا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا وہ عورتیں طوائفیں بننے پر مجبور ہو جاتی ہیں اور معاشرے میں جگہ جگہ طوائفیں پھر رہی ہوں وہاں کسی عورت کو یہ ضمانت نہیں مل سکتی کہ اس کا سہاگ کسی اور زلفِ پیچاں کا اسیر نہیں بن جائے گا۔ غالباََ یہی وجہ ہے کہ برازیل میں نوجوان عورتوں نے تعدد ازواج کو جائز قرار دینے کے مطالبے کیے ہیں‘‘۔
اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حقوق عطا کیے ہیں۔ اسلام مرد کو مرد کے درجہ میں اور عورت کو عورت کے درجہ میں رکھتا ہے۔ اگر دونوں اصناف آپس میں گڈ مڈ ہو جائیں تو نظام ہستی اور عائلی زندگی کے نظام کا جنازہ اٹھ جائے گا۔ جیسے آج کل دیکھنے میں آتا ہے۔ کیوں کہ مرد اور عورت کی تقسیم اللہ پاک نے کی ہے۔اس تقسیم کی بقاء انسانی زندگی کی بقا ہے۔اسلام میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے Duplicate نہیں بل کہ تکملہ یعنی Compliment ہیں کیوں کہ ان میں نا قابل تقسیم حیاتیاتی فرق پائے جاتے ہیں ۔ یہ فرق اس لیے ہے کہ مرد کی کمی عورت اور عورت کی کمی مرد پوری کرے تاکہ زندگی میں نظم اور توازن برقرار رہے۔ اسلام نے ہی ماں کے قدموں تلے جنت کا درس دیا۔اس سے بڑھ کر بھی کوئی اعزاز ہے؟آپ ﷺ نے اپنے اسوہ حسنہ سے ثابت کیا کہ کثرت ازاوج سے عورت کے احترام میں کمی نہیں آتی بلکہ کثرت ازواج سے معاشرہ کے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں ان کے رویوں سے معاشرہ ہنستا بستا اور مثالی بن جاتا ہے اور ہر طرف سے امن و سکون کے گلشن میں خوشگوار ہوائیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔اگر دوسری شادی کی اجازت نہ ہوتی تو عورت دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتی اپنے خاندان والوں کے عزت و ناموس پر کلنک کا ٹیکہ ہوتی اور معاشرے کے لیے ناسور بن جاتی ۔ ایک سے زیادہ شادیوں کو قبیح سمجھنے سے فحاشی کے اڈے معرض وجود میں آ جاتے ہیں جہاں شب و روز یعنی دن کے اجالے اور رات کے اندھیروں میں قحبہ گری جاری رہتی ہے جہاں عزت و ناموس کی چادر تار تار ہوتی ہے ۔ حسن معاشرت کا نظم تہ و بالا ہو جاتا ہے ۔ وہ مالی ضیاع اور شاہ خرچیاں کی جاتی ہیں ۔ دولت کو بے دریغ لٹایا جاتا ہے ۔ کرنسی نوٹوں کو آگ لگا کر سگریٹ کی طرح کش لگا کر دھویں میں اڑا دیا جاتا ہے ۔ قوم کے محافظ اور اس کے نگران ان فحاشی کے اڈوں کو ختم کرنے کی بجائے اور قصور زدگان کو سزا دینے کے بجائے خود رنگ رلیاں مناتے ہیں کثرت ازواج ایسی بری اور گھناونی رسموں کو مٹا دیتی ہے ۔ اگر اسلام کے حسین و جمیل نظریہ ازواج پر عمل کیا جاتا تو یہ برائیاں دم توڑ دیتیں اور تماش بین عورت کو حرم میں داخل کرتے تو متعدد گرل فرینڈ ز اور ادستائوں کو اپنانے سے بازرہتے ۔
اعتراض نمبر۱۵۳
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلام میں عورت کو بھی ایک مرد سے زیادہ مرد رکھنے کی اجازت دینی چاہیے جیسے ایک مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی رعایت حاصل ہے‘‘۔ ( ضیاء النبی ۴۶۰؍۷)
جواب:مستشرقین اور روشن خیال نام نہاد تعلیم یافتہ افراد کا عقیدہ ہے جن کے سر پر مساواتی اور برابری کی دھن سوار ہے۔ یہ لوگ مساواتی نظریہ کے جیالے اور علم بردار ہیں۔حالاں کہ انھیں خبر ہونی چاہیے کہ مرد اور عورت میں طبعی فرق موجود ہے مگر اسے وہ ذرا برابر اہمیت نہیں دیتے۔ خیر اس اہمیت سے انکار تو کر دیا جاتا ہے مگر ہو سکتا ہے کہ کسی ذی فہم شخص کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ کل یہ نظریہ اور عقیدہ رکھنے والے افراد کہیں کہ جن ازواجی مراحل سے عورت کو گزرنا پڑتا ہے، انھیں مراحل کو مرد طے کرے تاکہ مساوات کا حق ادا ہوسکے؟ رات کو دن سے ملا دینا کہاں کی عقل مندی ہے۔ مرد کا کئی شادیاں کرنے سے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں نیز وہ عین فطرت بھی ہے۔ ایک عورت کا کئی مرد رکھنا درد ِ سر ہے اور بے شمار خطرناک مسائل کا پیش خیمہ ہے۔ ایک خرابی یہ کہ نسب محفوظ نہیں رہتا۔ بیٹا یا بیٹی کس باپ سے منسوب ہوگی۔کس باپ کا بیٹا کہلائے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کئی باپ ہونے کے سبب بیٹا یا بیٹی کے بارے میںلڑ پڑیں۔ ایک کہے میری بیٹی ہے دوسرا کہے نہیں میری بیٹی ہے ۔تیسرا کہے بیٹا تو میرا ہی ہے۔ بچوں کا جنم خوشی کا باعث نہ ہوا بل کہ گھر پانی پت کا میدان جنگ بن گیا۔ نسب عزت و شرافت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ بے نسبی سے نام کو بٹہ لگتا ہے بل کہ معاشرہ تو ایسے بچوں کو حرامی(ولد الزنا) بچے پکارتا ہے۔ ایسے بچے چھپتے چھپاتے پھرتے ہیں۔ معاشرہ کے لیے رستا ہوا ناسور اور روز کا درد سر بن جاتے ہیں۔دوسری گھمبیر خرابی یہ ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ پیش آسکتا ہے۔وہ یوں کہ طاقت ور جانور جیسے مادہ کو حاصل کر لیتا ہے کم زور منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔اسی طرح طاقت ور شوہر اپنی جنسی خواہش کی پیاس بجھانے میں کامیاب ہو سکتا ہے مگر کم زور اور ناتواں دل میں حسرتیں لیے کڑھتا رہتا ہے۔یہ عمل اور بیماری معاشرہ کو بے عزتی، بے غیرتی اور بے حیائی کا تحفہ دیتی ہے۔اس سے باہمی تنازعات کو ہوا ملتی ہے اور جہاں گھر کا ماحول بے سکونی کی نذر ہو جاتا ہے وہاں مثالی معاشرہ بننا تو درکنار بل کہ یہ بیماری پورے معاشرہ کے امن و سکون کو تہہ و بالا کر دیتی ہے۔ مرد کی شادیاں زیادہ ہوں تو اس کے بچے وراثت کے مالک ہوتے ہیں۔ہر ایک کو اسلامی قانون کے مطابق حصہ ملتا ہے لیکن کئی شوہر والی بیوی کے بچے کس کس باپ کی وراثت سے حصہ لیں گے۔یہ معمہ لا ینحل ہے۔قیافہ شناسوں سے زمانہ جاہلیت میں مدد لی جاتی تھی کہ وہ بچہ یا بچی کو اپنے علم قیافہ کی بنیاد پر بتاتے تھے کہ یہ بچہ یا بچی فلاں شخص کا ہے۔ وہ قیافہ شناس کسی بھی مرد کے کھاتے میں ڈال دیتے تھے۔وہ اسے قبول کرتا لیکن یہ کوئی حتمی فیصلہ نہ تھا کہ بچہ یا بچی اسی شخص کا ہے جس کے سپرد قیافہ شناس نے کیا ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی باپ بچہ یا بچی کو قبول نہ کرے تو بچہ کہاں جائے گا؟ بچہ کس کے رحم و کرم پر ہوگا؟ لاوارث ہو کر در بہ در کے دھکے کھائے گا۔یہ بھی ممکن ہے بچہ اور بچی کسی ایک باپ کو مل جاتے ہیں اور باقی محروم رہتے ہیں۔اگر وہ کوئی اور شادی نہیں کر پاتے تو ان کی نسل کا انقطاع ہو جائے گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک عورت سے اولاد زیادہ نہیں ہوتی جتنی کئی عورتوں سے ہو سکتی ہے۔ حیض و نفاس کے بارے میں حکم ہے’’ فاعتزلو ا لنساء فی المحیض‘‘ان ایام میں عورتوں سے الگ رہو۔ عورت استقرار حمل ، وضع حمل،رضاعت، بیماری وغیرہ سے دوچار ہوتی ہے۔عورت کے جنسی جذبات میں کمی آتی ہے جب کہ مرد جذبات کے ساتھ تندرست و توانا رہتا ہے۔ایک مرد کی تسلی کے لیے ایک عورت ناکافی ہے تو کئی شوہروں والی عورت کئی خاوندوں کی تسلی وتشفی اور راحت و سکون کا سامان کیسے فراہم کر سکتی ہے ؟اور ممکن ہے اس کی صحت بھی جواب دے جائے اور ایک مرد کے لیے بھی مفید نہ رہے۔ موجودہ یورپ نے صرف اسلام کی مخالفت کے تعدد ازواج کی مخالفت میں شوشے چھوڑے جب کہ یورپ میں نسوانی ناموس کی دھجیاں بکھر چکی ہیں۔نسوانی ناموس مٹ رہی ہے۔ سرِ بازار لٹی جارہی ہے مگر اسے آزادی نسواں کا نام دے کر مسلمانوں کی مخالفت میں ڈھول پیٹے جا رہے ہیں جب کہ انھیں اپنی عزت کا پاس تک نہیں ہے۔ اب یورپ میں یک زوجگی کا تعلق ختم ہو چکا ہے۔اکثریت بغیر نکاح کے میاں بیوی بن رہے ہیں۔ انگلستان میں جنسی بے راہ روی کو روکنے کے لیے ۱۷ویں صدی میں کثرت ازواج کا چرچا شروع ہوا۔ چناں چہ ۱۶۵۸ء میں ایک شخص نے زنا کاری اور نو مولود حرامی بچوں کی اموات روکنے کے لیے کثرت ازواج کی حمایت کردی اور پمفلٹ شائع کیا ۔اس کے ایک صدی بعد ایک با کردار پادری نے اس کی حمایت میں کتاب لکھی۔مشہور ماہر دینیات جیمس ہلٹن نے فحاشی اور زنا کاری کو روکنے کے لیے کثرت ازواج کے طریقہ کو اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ شوپن نے لکھا ’’ ایک بیوی پر اکتفا کرنے والے کہاں ہیں؟ میں انھیں دیکھنا چاہتا ہوں،ہم میں سے ہر شخص کثرت ازواج کا قائل ہے۔ چوں کہ ہر آدمی کو متعدد عورتوں کی ضرورت ہے۔اس لیے مرد پر کسی قسم کی تحدید عائد نہیں ہو نی چاہیے۔ ماہر جنسیات کیلی چن کہتا ہے کہ ’’ گو انگلستان میں کثرت ازواج کے اصول پر عمل ہوتا ہے لیکن سوسائٹی اور قانون ابھی اس چیز کو تسلیم نہیں کرتے۔ سوسائٹی ان اعمال پر خاموش رہتی ہے جو ایک بیوی یا شوہر سے شادی کر کے دو یا تین داشتائوں یا آشنائوں سے تعلقات رکھتے ہیں لیکن سوسائٹی چیخ اٹھتی ہے جب کوئی شخص یہ تحریک پیش کرتا ہے کہ مرد کو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت دینی چاہیے‘‘۔ داشتائیں بیوی کی جگہ نہیں لے سکتیں وہ تو صرف عارضی شہوت رانی کی پجاری ہیں اسے حقوق نسواں سے کوئی غرض نہیں حالانکہ وہ ان تمام حقوق و مراعات سے محروم رہتی ہیں جو ایک شوہر سے بیوی کو حاصل ہوتے ہیں نیز داشتائوں کو رکھنا گناہ ہے جس کی اسلام میں قطع اجازت نہیں ہے کیونکہ یہ ایک زنا ہے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...