Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم |
حسنِ ادب
سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم

وصیتِ علم و عمل
ARI Id

1689956752314_56117762

Access

Open/Free Access

Pages

۶

وصیتِ علم و عمل
وجود ِ انسانی کے ارتقا کی تاریخ کو نظر ِ غائر سے دیکھا جائے تو اس کی تمام تر ترقی ’’ علم ــ‘‘ کی مرہون منت ہے۔علم ہی وہ اکائی ہے جس میں تہذیب و تمدن اور تربیت کے سوتے پھوٹتے دکھائی دیتے ہیں۔علم کی خصوصیت کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات ہے اس کے سبب سے اسے فرشتوں پر فضیلت ملی اور اسی کی بدولت خلافت کا تاج سر پرسجا۔حد تو یہ ہے کہ پہلی وحی کا آغاز ہوا۔ارشاد ربانی ہے ترجمہ:۔ ’’اپنے پروردگار کے نام سے پڑھ جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا‘‘۔یہ بھی ارشاد ر بانی سنتے چلیے ۔ ترجمہ:۔’’ اللہ تم میں سے ایمان والوں اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا ہے‘‘۔قرآن کریم میں ہی اللہ پاک نے اپنے نبی مکرم ﷺ کو یہ دعا عطا فرمائی ۔ترجمہ:۔ ’’کہو ،اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما‘‘۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ’’ علم حاصل کرناہر مسلمان (مرد اور عورت)پر فرض ہے‘‘ یہی وہ علم ہے جس کی افضلیت کے پیش نظر حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں’’ ہم اللہ تعالیٰ کی اس تقسیم پر راضی ہیں کہ اس نے ہمیں علم عطا کیا اور جاہلوں کو دولت دی کیوں کہ دولت تو عنقریب فنا ہوجائے گی اور علم کو زوال نہیں‘‘۔
تاریخ انسانی میں ایک خواہش جو اپنے تمام تر مدارج سمیت جھلک رہی ہے وہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنی جدا گانہ شناخت اور منفرد پہچان کا متمنی ہے اور اس خواہش کی تکمیل کے لیے مثبت اعمال و افعال بروئے کار لا کر ہی ازلی و ابدی پہچان تک رسائی حاصل کر لینا اصل شناخت اور پہچان ہے ۔اہل علم جانتے ہیں کہ یہ اسی وقت ممکن ہے جب علم کواوڑھنا بچھونابنا لیا جائے اور فضل باری تعالیٰ بہ وسیلہ نبی مکرم ﷺکا اقرار دل و جان سے کیا جائے۔
اگر غور و خوض سے کام لیا جائے تو یہ عمل عین فطرت ہے اور فطرت بھی اپنے اظہار کے لیے ہر دو حوالہ سے سر گرم عمل ہے ۔میرے والد مرحوم (ماسٹرمحمد نواز ،ایس ایس ٹی،انچارج ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول 736کمالیہ)درس و تدریس سے دم آخر تک منسلک رہے گو وہ 60سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہو ئے ،مگر اس کے بعد بھی علم تقسیم کرنے سے کبھی پیش و پس نہ کیا ۔اس حوالے سے ان کا نظریہ اس شعر کے مصداق تھا کہ
سینے میں ہی دبانے سے کس کام کا ہے علم
تقسیم ِ رزق ِ فکر سے اس کا ثمر سمیٹ
ماسٹر محمد نواز میں وہ تما م اوصاف موجود تھے جو شرف انسانی کو ضروری خیال کیے جاتے ہیں ۔ان کی زندگی کا ایک ایک پہلو نمایاں ہے ۔اگر ان پہلوئوں پر قلم فرسائی کروںتو کئی دفتر تحریر ہوجائیں۔مگر میں ایسا اس لیے نہیں کروں گا کہ نہ تو قصیدہ نگاری مقصد ہے نہ ہی یہ سوانح نگاری کا محل ہے اور نہ ہی ان کو کبھی ایسی خواہش رہی ،بس ایک پہلو جو اکائی کی صورت ہے ، جس سے زندگی کے تمام پہلوئوں میں سر سبزی دکھائی دیتی ہے وہ ہے علم ۔وہ علم سے منور، اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حقیقی حب دار اور درویش صفت انسان تھے ۔ان کی شخصیت ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر تھی ۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم ِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
ان کی علمی اثاث اور علمی موانست جو ان کے تمام شاگردان ،دوست احباب ،تکلف کی ملاقات والے،رشتہ دار،خاندان اور انجان ہر ایک میں یکساں تقسیم ہوئی ،جس سے مستفیض ہوکر اب تک بہت سے حضرات زندگی کو شاداب کیے ہوئے ہیں۔انھیں علم ،صاحبان علم،تشنگان علم اور متلاشیان علم سے محبت تھی ،ان کا سونا ،جاگنا،اٹھنا،بیٹھنا سب کچھ علم ،حصول علم اور تقسیم علم کے لیے وقف تھا ۔حتیٰ کہ وفات سے کچھ دن قبل انھوں نے مجھے وصیت فرمائی جو وصیت کی وصیت اور دعا کی دعا تھی ۔فرماتے ہیں کہ ’’ساری زندگی مجھے اللہ اور اس کے رسول ﷺنے کبھی کسی چیز کی کمی نہیں رہنے دی ہمیشہ نوازشات کا سلسلہ جاری رہا اور ان شا ء اللہ تمہیں بھی کبھی اللہ اور اس کا رسول ﷺ کسی بھی چیز کی کمی نہیں رہنے دے گا۔میری تالیف جو نبی آخر الزماں کی سیرت کے حوالہ سے اُنﷺ کی شفقت ،محبت اور اللہ پاک کے فضل سے مکمل ہوگئی ہے اس کی اشاعت لازمی کروانا‘‘۔
میں نے عرض کی کہ آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ؟ہم مل کر اس کتاب کو زیور طباعت سے آراستہ کرکے منصہ شہود پر لائیں گے۔وہ زیر لب مسکرائے اور یوں گویا ہوئے کہ ’’ نہیں ،میں نہیں ہوں گا یہ کام تجھے کرنا ہے ‘‘۔ اس وصیت اور دعا کے چند روز بعد وہ انتقال فرماگئے ۔مجھے ان کی سنائی ہوئی حدیث یاد پڑتی ہے کہ حضرت ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ آدمی اپنی موت کے بعد جو کچھ دنیا میں چھوڑ جاتا ہے اس میں تین چیزیں بہترین ہیں ۔ایک نیک اولاد(جو بعد میں اس کے لیے دعائے خیر کرتی رہے)،دوسری صدقہ جاریہ(کنواں،نلکا ،سرائے یا سڑک وغیرہ تعمیر کروائے)کا اجر ملتارہتا ہے اور تیسری ،وہ علم (جس پر اس کے بعد عمل ہوتا رہتا ہے )‘‘۔ابن ماجہ ،فضائل اخلاق ،کتاب اسوہ حسنہ جلد دوئم صفحہ نمبر 270۔
علم دو حیثیتوں سے باقی رہتا ہے ایک صورت یہ ہے کہ علم دوسروں کو سکھایا جائے اور انہیں اس پر عمل کی تلقین کی جائے ،جسے عرف عام میں سینہ بہ سینہ علم سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔دوسری صورت یہ کہ انسان اپنا علم کتابی صورت میں پیش کرے جو اس کے بعد پڑھا جائے اور اس پہ عمل ہوتا رہے ۔لہٰذا علم کی ان دوحیثیتوں کی پہلی صورت جو سینہ بہ سینہ علم کی ہے اس میں محمد نواز احسن طریقہ سے سینوںکوعلم سے منور کرتے رہے ،جبکہ دوسری صورت کتابی صورت ہے جس کے لیے حدیث ،وصیت اور دعا کی روشنی میں سبک دوش ہونے کا قصد کیا ۔اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے محبوب ﷺکے وسیلہ سے میں اس کتاب کو منظر عام پر لانے میں کام گار ہوا۔ کتاب کی حروف بندی پہ نظر ثانی((proof readingکے لیے اور خاص کر کے قرآنی آیات کے لیے حفاظ اکرام نے کمال محبت دکھائی ،ممکن ہے اب بھی کہیں آیات کے اعراب درست نہ ہوں اس کے لیے پیشگی معذرت،اور آپ حضرات سے استدعا ہے کہ اگر کہیں کوئی اعرابی غلطی نظر آئے تو مطلع فرمائیں تاکہ آنے والی مزید اشاعتوں میں اس کو رفع کیا جا سکے ۔
جو احباب اس کتاب کے لیے ممد و معاون ثابت ہوئے ،اللہ پاک ان سب احباب کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور انہیں سلامت و شاداب رکھے ۔
میری طرف سے آپ کو ہر دم دعا برائے خیر
صبح و مسا ہو آپ پر نظر خدا برائے خیر
یہ کتاب جہاں مرحوم محمد نواز کے لیے توشہ آخرت ہے وہیں میرے لیے بھی دنیا و آخرت کی کامرانی اور کامیابی کاذریعہ ہے ۔کیوں کہ اسی کے ساتھ باپ کی دعا ہمیشگی کا روپ لیے ہوئے سایہ فگن ہے ۔اللہ پاک میرے والد مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور اپنے محبوب کے صدقے صالحین ، صادقین،صابرین،شاکرین،عابدین،ذاکرین اور سچے سُچے علماو فضلا کے ساتھ بروز حشر اٹھائے( آمین ثم آمین)
اقرار مصطفی
کمالیہ، ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...