Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم |
حسنِ ادب
سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم

کارِ سعادت
ARI Id

1689956752314_56117763

Access

Open/Free Access

Pages

۹

کارِ سعادت
قیاس ذاتی کسی بھی اعتراض گزار کی بنیادی قوت ہوتی ہے جسے وہ شعور (خود ساختہ شعور جو آرٹ کے درجے میں ہے) کے ذریعے کسی معروضی حقیقتِ مطلق کو اپنے شعور کے مطابق قیاس کر کے مسرور ہوتا ہے تبھی کہا جاتا ہے خود سے یگانگی حقیقت سے بیگانگی کے مترادف ہوتی ہے۔ ہرہیچ مدان و ناتواں کو اپنے عقلِ کل ہونے کا زعم وقوف سے عاری کرتا ہے اس لیے مضحکہ خیز اعتراضات کو فتوحات گردانتا ہے۔ حالاں کہ راست علم ہمیشہ کسی واقعی معروض کی تمیز سے اٹھتا ہے یعنی موجود پر قوتِ امتیاز یا وجدانی ادراک کے ذریعے جوہر کے اسما و شناخت کا سفر طے کیا جاتا ہے۔ ہر چند ہر مذہب موضوعِ علم بننے کی پوری استطاعت رکھتا ہے۔ ہاں مگر ناظر کاصاحبِ وجدان ہونا ازحد ضروری ہوتا ہے۔ چوں کہ ہر قضیہ وجدانی ادراک کے متحرک ہونے سے جنم لیتا ہے۔ ہم زمان و مکان کا ادراک اسی استعداد کی تحریک سے کرتے ہیں۔ اسی لیے ایک طے شدہ امر ہے کہ شعور ِ علمی کی تشکیل میں خارجی معروض کا ہونا بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ اگر خارجی معروض اور اس سے منسوب شعورِ انسانی میں مطابقت نہ ہو تو قضیہ کے بجائے بے بنیاد مناقشات ظہور کرتے ہیں ،جن پہ خارجی واقعیت دلالت نہیں کرتی اور نتیجہ خیز حقانیت کی راہیں بھی برابر مسدود ہوتی جاتی ہیں۔ جب معترضین اپنے خود ساختہ علم کا قابلِ قبول شعور پیدا کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں تو اس کی غلط توجیہات پر قانع ہونے کے شعور سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اکثر یوں ہوتا ہے کہ نظریاتی تسکین جب بھی ضرورت سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو معیاری اور یقینی علم کو محال کر دیتی ہے۔
اعتراض محاذ تب بنتا ہے جب علمی کے بجائے ذاتی تسکین اور ضرورت سر بلند ہو کر دل و دماغ پر چڑھ دوڑتی ہے۔ سوال بنیادی طور پر غذائے علم و جستجو ہے۔ شعور کا عینی ،واقعی اور آزادانہ تحرک نہ ہو تو ہر قسم کے قضایہ دم توڑ دیں۔ سچ یہ ہے کہ علم اور علم کی صورت گری مماثلت و مغائرت سے ہی ممکن ہے۔ تخالف کبھی علم و امکان کے در بند ہونے نہیں دیتا البتہ اس کی نوعیت کا فطری اور حقیقی ہونا لازم ہے۔
اسلام اور پیغمبر اسلام ،حضور ﷺ کی سیرت مبارک پر اعتراضات کی نوعیت عالمانہ اور محققانہ کی بجائے بالعموم متعصبانہ ،مخالفانہ یا عدم واقفیت کی بنا پر رہی ہے۔ موضوعات و محتویات میں تحقیق و تجزیہ کی کار فرمائی نہ ہونے کے مترادف ہے۔اکثر معترضین کا مدعا مخالف کی دل آزاری اور آزردگی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ا س لیے حقائق کو توڑ موڑ کر بیان کرنا قیاسی روایت و درایت پہ ایمان لانا ، تاریخی معلومات اور جغرافیائی اعتبار سے بعض آیاتِ قرآنی کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا ، معترضین کا شیوا رہا ہے۔ ایسی ناانصافیاں صدیوں سے چلی آرہی ہیں۔ بعض معترضین(مذہبِ غیر کے حامل) حقانیت اسلام کی بابت حق گئی اور تسلیمات سے جی خوش ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’جان ڈیون پورٹ‘‘ اور ’’گارڈ فری‘‘ کی کتب معتبر ہیں۔ بے بنیاد اعتراضات ، بے جا طرف داری اور تنگ نظری کی مثال ولیم میور ایسے مورخ بھی ہیں جو حقائق کو مسخ کرنے اور انھیں اپنے مقصد کی بجا آوری میں استعمال کرنے کے ماہر ہیں۔ ولیم میور کی کتاب ’’لائف آف محمد‘‘ جب سر سید کی نظر سے گزری تو ان کی حالت یوں ہوئی کہ ’’ ان دنوں ذرہ قدرے دل کو سوزش ہے ۔ولیم میور صاحب کی کتاب کو میں دیکھ رہا ہوں۔ اس نے دل کو جلا دیا۔ اور اس کی نا انصافیاں اور تعصبات دیکھ کر دل کباب ہو گیا‘‘حقائق کی راست بازیافت میں کوتاہیوں کی داستان صرف غیر مذہب معترضین نے ترتیب نہیں دیں بلکہ ان کے اعتراضات کو ہوا دینے میں اکثر مسلمان مفسرین نے بھی حصہ ڈالا ہے۔ ابتدائی کتب احادیث و سیر میں مفسرین نے بعض روایات کو طبعی جولان سے زیبِ داستان کیا ہے۔ جس پر مخاصمین نے انحصار کر کے اعتراضات کو تقویت دی ہے۔ یعنی غیر تو غیر ہی تھے اپنوں نے بھی ایسے کام انجام دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ سر سید لکھتے ہیں ’’ اپنی تصنیفات کا حجم بڑھانے کی نیت سے مفسرین اور اہلِ سیر نے تمام مہمل اور بے ہودہ افسانوں کو جو عوام الناس میں مشہور تھے بہ کمالِ آرز و جمع کر کے اپنی کتابوں میں درج کر لیا ہے۔ بعض نے اپنی تفسیروں میں واعظین کے لیے دل چسپ اور عجیب و غریب حمکاء کے خوش کرنے کے لیے دور از عقل و قیاس مضامین جو یہودیوں کے ہاں مروج تھے جمع کر دیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سی حدیثیں جناب پیغمبرؐ خدا کے نام سے جھوٹی اور موضوع بنائی گئیں‘‘ (خطباتِ احمدیہ، ص ۸۰،۸۱)حالاں کہ ایسی من گھڑت باتوں کی وہاں کیا ضرورت ہو سکتی ہے جہاں ایک ایسی ذات ہو جو بے شمار خصائل (وحدت، کثرت، اولیت، آخریت، بے مثالیت، خیریت) کی حامل ہو۔ اپنی مثال آپ ہو اور سچ یہ ہے کہ جن کی محبت ایمان کی بنیاد ہو اور صاحبِ ایمان ہونے کا واحد اور حتمی ذریعہ ہو ۔
انہی ضعیف روایات کے سبب بعض سائنسی نکتہ نظر کے حامل افراد اکثر کہتے رہتے ہیں۔ یہ احادیث کی کتب ہیں یا تاریخ کی۔ اس سوال کا جواب جو بھی ہو یہ طے ہے کہ اس منفی پہلو نے معترضین کے اعتراضات کے لیے راہ ہموار کی۔ حقیقت یہ ہے ذرائع علم کے ماخذ کا مضبوط ہونا از حد ضروری ہے۔ جب ذرائع علم ہی بدل جائیں یا ماخذ غیر مستند ہو تو ہر توضیع و تفسیر بلا جواز ہو گی۔ تاریخ شاہد ہے کہ بعض مسلم محققین نے اعلیٰ و ارفع مقاصد کی بجا آوری کے لیے روایت و درایت کے بے مثل تحقیقی اصول و ضوابط کی مضبوط بنیادیں رکھیں۔ اس ضمن میں ان کا حزم و احتیاط کا سلیقہ واقعتاً قابلِ قدر اور قابلِ فخر ہے۔ کسی بھی کم فہم راوی کو ’’مجروح ‘‘ اور اس کی روایت کو بلا تکلف ’’مردود‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کے معیارِ تحقیق پر اقسامِ حدیث (مرفوع، موقوف، قولی و فعلی و تقریری، نیز آحاد و متواتر، مشہور و عزیز و غریب، صحیح و حسن ، مقبول و مردود وغیرہ) گواہ ہیں۔ درایت کی بابت منافقین کی افترا پردازی کی قلعی کھولنے کے لیے سکہ و مستند ہونے کے ساتھ منطقی صحت امانت ،دیانت ،صداقت کو معیار بنایا۔ روایت کے ضمن میں راوی کے لیے کوئی رو رعایت نہیں رکھی۔ ہر دو طرح کی چھان بین کو خارجی ،نقد یا نقدِ سند سے گزارا۔ جب کہ متنِ حدیث کی پرکھ کے لیے نقد یا نقدِ متن کے پیمانے وضع کیے۔
تحقیق کی بابت کسی بھی محقق کا فی نفسہٖ معتدل و متوازن و غیر محتسب، حق گو و عالم فاضل ہونے کے ساتھ ساتھ موضوع سے طبعی مناسبت کا ہونا ازحد ضروری ہے۔ اندازِ تحقیق سائنسی ہو یا اطلاقی نتائج کا منطقی پہلو زور دار اور پر وقار ہونا چاہیے۔ جوشِ خطابت میں بے جا طوالت یا پھر زعمِ علمیت میں ہٹ دھرمی دلائل کے بجائے طبعی مناسبت کو ترجیح محقق کے لیے زہرِ قاتل کے مصداق ہے۔ ان معیارات کو اپناتے ہوئے اور حشو و زوائد سے بچتے ہوئے محمد نواز صاحب (جو پیشہ کے اعتبار سے درس و تدریس سے وابستہ رہے ہیں) نے شاندار علمی و تحقیقی کارنامہ ’’ سیرتِ سرورِ عالم پر مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات‘‘ کے نام سے ترتیب دیا ہے، جس میں اسلام اور پیغمبر ؐاسلام پر اعتراضات کو حقائق اور دلائل سے بے بنیاد ثابت کرنے کی بہترین کوشش کی ہے۔ میرے نزدیک ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے دستاویزی تحقیق میں سائنسی اور منطقی طریقے کو ترجیح دی ہے۔ حقائق پسندی میں اس قدر دل چسپی مثالی ہے کہ کسی بھی مرحلے پر جذباتی اسلوبِ بیان کی چھاپ نہیں پڑنے دی۔ مسائل کو استخراجی اور استقرائی طریق پر قوتِ استدلال کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں انھیں اخلاقی معیار قوتِ ارتکاز مسلسل توجہ ، استقامت اور با اصول جدو جہد پر داد دیتا ہوں۔ہمارا ایمان ہے کہ ایسے کام کیے نہیں جاتے بلکہ کروائے جاتے ہیں۔یقینا یہ کارِ سعادت انھی کے حصے میں آیا ہے۔ اسی لیے موصوف نے اداروں کا کام تنہا کر دکھایا۔ سیرتِ طیبہ کے اعتراضات کے جواب میں وسیع خزینہ تیار کیا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب اکرمﷺ کے صدقے اس علمی و تحقیقی کاوش کو اپنی بارگاہ میں خاص مقام عطا فرمائے۔سیرت کے باب میں ان کی خدمات قبول فرمائے اور نافع بنائے۔امین
ڈاکٹر غلام شبیر اسد
جھنگ،۲۔رمضان ، ۱۴۴۳ ھجری

اعتراض نمبر۱۵۹
بعض کا کہنا ہے کہ قرآن میں چار سے زیادہ بیویوں کی اجازت نہیں اور حضور ﷺقرآن کے خلاف کوئی فعل نہیں کر سکتے تھے اس لیے یہ قصہ ہی غلط ہے کہ حضور کی نو بیویاں تھیں۔
جواب: آ پ ﷺ وحی الہٰی کی پیروی فرماتے تھے ۔ قرآن مجید میں ہے ’’ان اتبع الا ما یو حی ٰ الیٰ ( احقاف : ۹) ترجمہ ’’ آ پﷺ کہہ دیجئے کہ میں صرف وحی کی پیروی کرتا ہوں ‘‘۔ اس کے ساتھ یہ بات جان لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال معلل بالا غراض نہیں ہوتے مثلا َ۔ کیا کوئی شخص بتا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہنم کے انیس فرشتے کیوں مقرر کیے ؟ رسل ملائکہ چار کیوں پیدا کیے ‘ زیادہ پیدا کر دیتا تو کیا حرج تھا ؟ سات آسمان کیوں بنائے ‘ کم و بیش کیوں نہیں بنائے ۔۔۔؟ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی جو عمر طبعی مقرر کی ہے اس سے کم یا زیاد کیوں نہ تھی ؟ جنات ہمیں دیکھتے ہیں ہم انہیں دیکھ سکتے اس کا الٹ کیوں نہ کردیا ؟ انبیاء علیھم السلام جتنے بھیجے اس سے کم یا زیادہ کیوں نہیں بھیجے ‘ بیوہ کی عدت پہلے ایک سال رکھی تھی ’’ والذین یتوفون منکم و یذرون زواجا وصیتہ لا زواجھم متاعاالی الحول غیر اخراج : (البقرہ :۲۴۰) بعد میں اس آیت کا حکم نسخ کر کے چار ماہ دس دن عدت کیوں رکھ دی ‘ کم یا زیادہ ہو جاتی تو کیا حرج تھا ۔ کیاا للہ پہلے نہیں جانتا تھا کہ ایک مسلمان کو دس کافروں سے لڑنے کا مکلف بنایا : ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا ما ئیتین وان یکن منکم مائۃ یغلبوا ا لغامن الذین کفروابا نھم قوم لا یفقھون ( انفال ۵۔۶)کیا اللہ تعالیٰ پہلے نہیں جانتا تھا کہ ایک مسلمان دس کافروں سے نہیں لڑ سکتا اگر جانتا تھا تو پہلے دس کافروں سے لڑنے کا حکم کیوں دیا ؟ مطلقہ عورت کی عدت تین حیض رکھی ‘ تین حیض سے کم یا زیاد کیوں نہ رکھی ۔۔۔ نکاح میں عورت کی اجازت ضروری ہے تو طلاق میں اس کی اجازت کا دخل کیوں نہیں رکھا اور صرف مرد کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ کیوں رکھی ‘ بیدی عقدۃ النکاح ‘‘ کیا عورت مخلوق نہیں ہے ۔۔۔ ایسے سوالات کا حل محض عقل سے ممکن نہیں اور ان کے جواب میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال معلل با لاعراض نہیں ہونگے وہ جو چاہیے شریعت بنائے ‘ جو چاہیے کرے وہ کسی بات کا جواب دہ نہیں ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے جو مالک علی الا طلاق ہے جس کی شان ہے ۔
ویفعل اللہ ما یشاء ( ابراھیم : ۲۷) ۔۔۔اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔
فعال لمایرید ۔۔۔ (بروج : ۱۶) ۔ اللہ تعالی ٰ جو چاہتا ہے وہ سب کرنے والا ہے ۔
لا یسئلو اعما ل یفعل وھم یسئلون ( انبیاء : ۲۳) ۔۔ اللہ تعالیٰ کسی فعل پر جواب دہ نہیں اور بندوں سے ان کے افعال کا سوال کیا جائے گا ۔ (تبیان القران : ۲۔۳۳۳)
سورہ الا حزاب (۵۳۔۵۰) میں اس قسم کے اعتراضات کا دو ٹوک رد کر دیا گیا ہے ارشاد ربانی ہے جس کا ترجمہ ہے ’’ اے نبی ! ہم نے تمہارے لیے حلال کر دیں وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کئے ہیں اور وہ عورتیں جو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ لونڈیو ں میں سے تمہاری ملکیت میں آئیں اور تمہاری وہ چچا زاد اور ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی اور وہ مومن عورت جس نے اپنے کو نبی کے لیے ہبہ کیا ہو ‘ اگر نبی ان سے نکاح کرنا چاہیں ‘ یہ رعایت خالصتاََ تمہارے لیے ہے دوسرے مومنوں کے لیے نہیں ہے ہم کو معلوم ہے کہ تمام مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میںہم نے کیا حدود عائد کی ہیں تمہیں اختیار ہے کہ اپنی بیویوں میں سے جسے چاہو اپنے سے الگ رکھو جسے چاہو اپنے ساتھ رکھواور جسے چاہو الگ رکھنے کے بعد اپنے پاس بلالو ‘ اس معاملہ میں تم پر کوئی مضا ئقہ نہیں ہے اس طرح زیادہ توقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی اور وہ رنجیدہ نہ ہوں گی اور جو کچھ بھی تم ان کو دو گے اس پر وہ سب راضی رہیں گی ۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ تم لوگوں کے دلوں میں ہے اور اللہ علیم اور خبیر ہے اس کے بعد دوسری عورتیں تمہارے لیے حلال نہیں ہیں اور نہ ہی اس کی اجرت ہے کہ ان کی جگہ اور بیویوں کو لے آئو خواہ ان کا حسن کتنا ہی پسند ہو البتہ لونڈیوں کی تمہیں اجازت ہے ‘ اللہ ہر چیز پر نگران ہے ‘‘۔ اللہ پاک نے نبی مکرمﷺ کو اجازت دی کہ ان نو بیبیوں کے بعد آپ کے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں اور نہ ان کو الگ کر کے دوسری ازواج کرنا حلال ہے اگرچہ ان دوسری عورتوں کا حسن بھی آپ کو بھاتا ہو ۔ پھر اس ارشاد خداوندی کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیجئے۔ ترجمہ: ’’ اور تمھیں نہیں پہنچتا کہ رسول اللہ کو ایذا دو اور نہ یہ کہ ان کے بعد کبھی ان کی بیبیوں سے نکاح کرو‘‘۔ یعنی جس عورت سے آپ کا نکاح ہوتا ہے آنحضرتﷺ کے سوا ہر امتی پر وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے اور حکم خدا وندی’’ النبی اولی بالمومنین من انفسھم و ازواجہ امہاتھم‘‘(سورۃ احزاب۔۶) ترجمہ: نبی مومنوں کے ساتھ خود ان کے نفس سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں آپ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں‘‘۔ اس لیے حضور کا ان سب کو بے یار ومددگار چھوڑنا محال ہے۔ان سب کوزوجیت میں رکھنا لازم و ناگزیر ہے اور ان مادران ملت کو فرزندان امت کے حوالے نہیں کیا جا سکتا‘ جس کی ممانعت امھاتھم سے واضح ہے اور نہ ہی بے سہارا چھوڑا جا سکتا ہے۔اس بے کس پناہ ہستی کی رحمۃ اللعالمینی کا تقا ضا بھی یہی تھا کہ ان تمام ازواج کو اپنے حرم ہی میں رکھتے اور یہی منشائے ایزدی بھی تھا۔
اعتراض نمبر۱۶۰
مستشرقین کہتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ نے شادی نہیں کی اور آنحضرتﷺ نے کئی شادیاں کیں‘اس سے وہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مسیح ؑ کو خواہشات پر مکمل کنٹرول حاصل تھا۔ اس لیے انھیں شادی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔دوسری طرف آنحضرت ﷺنے متعدد عورتوں سے شادیاں کیں گویا انھیں خواہشات پر قابو نہ تھا بل کہ ان پر ہوائے نفسانی و شہوانی کا غلبہ تھا۔ یہ کتنا تفاوت ہے کہ ایک نبی کو اپنی خواہشات پر کنٹرول حاصل ہے جب کہ دوسرا مدت العمر اپنی خواہشات کی تسکین کے لیے کوشاں رہا۔
جواب:پہلی بات تو یہ ہے کہ ان دو مقدس ہستیوں میں موازانہ ٹھیک نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے خود ان کی درجہ بندی کا اعلان کردیا۔ارشاد ربانی ہے۔تلک الرسل۔۔۔۔۔یفعل ما یرید’’ترجمہ : یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر افضل کیا ان میں کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں میںبلند کیا اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو کھلی نشانیاں دیں اور پاکیزہ روح سے اس کی مدد کی اور اللہ چاہتا تو ان کے بعد والے آپس میں نہ لڑتے بعد اس کے کہ ان کے پاس کھلی نشانیاں آ چکیں اور لیکن وہ مختلف ہو گئے ان میں کوئی ایمان پر رہا اور کوئی کافر ہو گیا اور اللہ چاہتا تو وہ نہ لڑتے مگر اللہ جو چاہیے کرے۔‘‘( البقرہ ۔۲۵۳)
نیز کسی جزئی فضیلت سے کلی فضیلت میں فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی کمی واقع ہوتی ہے بل کہ کُلی فضیلت اپنی جگہ بدستور قائم رہتی ہے۔ عیسائیت تسلیم کرتی ہے کہ کہ مسیح ؑ نبی نہیں خدا کا بیٹا ہیں بل کہ خدا مانتے ہیں۔اگر وہ خدا ہوں یا خدا کا بیٹا ہوں تو پھر نفسانی خواہشات پر کنٹرول چہ معنی دارد؟ عقل کے اندھوں کو یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ خود حضرت مسیح ؑ اور آنحضرتؐ کی ازدواجی زندگی کا موازانہ کر کے الوہیت مسیح کے عقیدہ کا رد کر رہے ہیں۔ بل کہ اس عقیدہ کو زمین بوس کر دیا۔ نبی کا تقدس ازدواجی زندگی سے مجروح نہیں ہوتا اور نہ ہی کم ہوتا ہے۔ مسیح ؑ کے شادی نہ کرنے اور آنحضرتؐ کے متعدد شادیاں کرنے میں کوئی بات قابل اعتراض نہیں نہ ان دو ہستیوں میں کسی قسم کی کم زوری کا سراغ ملتا ہے اور نہ ہی اس ضمن میں دیگر انبیاء ؑ کی ازدواجی زندگی پر الزام لگایا جا سکتا ہے۔یہ مستشرقین کی ہٹ دھرمی اور تعصب کا نتیجہ ہے نیز حضورﷺ پر زوجیت کے سلسلہ میں الزام لگا کر مسیح کی شان مبارک کو گھٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسیحؑ کی شادی نہ کرنے میں جو حکمت ہے وہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ البتہ رسول وہی کرتا ہے جس کا بار گاہ ایزدی سے اذن ملتا ہے۔۲: مستشرقین کے اس الزام میں نبی مکرم ﷺکو جنس پرستی اور ہوائے نفسانی کے غلبہ کی بو آتی ہے۔ آپﷺ نے ایک سے زیادہ عورتوں کو زوجیت میں قریباََ ۵۵ سال کی عمر یا زیادہ عمر میںلیا ۔ کیا خواہش پرست انسان دو شیزائوں کو پسند کر کے اپناتا ہے یا بیوائوں اور مطلقہ عورتوں کو۔ آپؐ نے کسی قسم کی مجبوری کے بغیر سوائے ایک دو کے تمام بیوہ یا مطلقہ خواتین کو منتخب فرمایا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ خواہش پرست اور ہوائے نفسانی کے غلبہ سے مغلوب آدمی عورت کے ہاتھوں کھلونا بنا رہتا ہے وہ اس کی جائز و نا جائز باتوںکو پورا کرتا ہے مگر جب آپؐ نے اپنی ازواج کو اختیار دیا کہ اگر تم مال و دولت کی خواہش مند ہو تو اس غرض کو پورا کرنے کے لیے اللہ کے رسول سے علیحدگی کرنا پڑے گی ۔اگر تم خدا کے رسول کا ساتھ دو تو صبر و قناعت سے گزر بسر کرنی ہوگی۔ تمام ازواج نے رسول اکرمؐ کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا اور مال و دولت کو ٹھوکر مار دی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضورؐ اور آپ کی ازواج مطہرات کا ازدواجی رشتہ کسی بھی خواہش کی بنیاد پر نہ تھا۔ آپ کی ازدواجی زندگی پر بات کرتے وقت یہ حقائق پیش نظر ہونے چاہییں۔
۱: آنحضرتﷺ نے ۲۵ سال تک مجرد زندگی بسر کی۔اس عنفوان شباب کے دور میں بھی آپ کی عفت و پاک دامنی پر کوئی معمولی سا دھبہ نہیں لگتا۔
۲: ۲۵ سال کی عمر میں آپ نے جس خاتون سے شادی کی وہ عمر میں ۱۵ سال بڑی تھیں اور وہ دو شوہروں کی بیوہ تھیں جب کہ اس معاشرہ میں دوشیزائوں کی کمی نہ تھی۔ ایک سے ایک بڑھ کر حسن کی دیوی تھی۔
۳: آنحضرت ﷺنے خدیجہ ؓسے شادی کی اور جب تک وہ زندہ رہیں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔خدیجہؓ کی وفات کے وقت آپ کی عمر ۵۰ سال اور خدیجہؓ کی عمر ۶۵سال تھی۔
۴: خدیجہؓ کے انتقال کے بعد ایک معمر ۵۰ سالہ بیوہ خاتون سودہ بنت زمعہؓ سے نکاح کیا۔آپ کی زوجہ میں سے حضرت عائشہ اور ماریہ باکرہ تھیں باقی بیوائیں یا مطلقہ تھیں۔حالاں کہ آپ اپنے پیروئوں کو باکرہ عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب اور تعلیم دیتے تھے۔ آپ نے حضرت جابرؓ کو خوش دیکھا اور پوچھا! کیا تم نے شادی کی ہے تو انھوں نے فرمایا‘ ہاں یا رسول اللہ! آپ نے پوچھا کیا تم نے کسی باکرہ عورت سے شادی کی ہے یا غیر باکرہ سے؟ انھوںنے کہا یا رسول اللہ! غیر باکرہ سے شادی کی ہے تو فرمایا! تمھیں کسی باکرہ عورت سے شادی کرنا چاہیے تھی کہ وہ تمھارے ساتھ دل لگی کرتی اور تم اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے۔
۵: آپ نے متعدد عورتوں سے شادیاں کیں اس کے باوجود فرمایا’’ یعنی مجھے عورتوں کی حاجت نہیں‘‘۔
۶: آپ کی شادیاں ۵۵ سے ۶۰ سال تک کی عمر کے درمیان ہوئیں۔اس عمر کے حصے میں بندہ کے قویٰ کم زور اور جذبات ماند پڑ جاتے ہیں تو کیوں نہ تسلیم کیا جائے کہ ان شادیوں کے مقاصد اور تھے اور وہ مقاصد عظیم تھے جن کا ذکر پیچھے کیا جا چکاہے۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ آپؐ کی شادیاں جنسی خواہشات کا نتیجہ نہ تھیں۔ نیز انھی پانچ سال میں جنسی جذبات میں طوفان برپا ہونا تھا؟ آپ سوچیں کہ ہر شخص اس کریم آقاﷺ سے رشتہ مصاہرت جوڑنے کی بڑی سعادت سمجھتا ہو اور حسین عورتوں سے شادی کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو تو وہ شخص حسین ترین خواتین کا انتخاب کرے گا اس کی پسند بیوہ، مطلقہ اور معمر عمر خواتین نہیں ہوں گی۔پھر ایسے شخص کے بارے کہا جا سکتا ہے کہ نفسانی خواہشات پر قابو نہ کر سکنے کی بنیاد پر متعدد شادیاں کیں۔کتنی بڑی زیادتی اور نا انصافی ہے اور سب سے بڑھ کر ظلم و زیادتی یہ ہے کہ مخالفین حقائق کو سرے سے تسلیم نہیں کرتے وہ اس لیے کہ وہ حقائق آپ کی پاکیزگی،عفت و پاک دامنی کے شاہد و گواہ ہیںجب کہ مستشرقین کے پاس سوائے باطل، لغو الزامات کے سوا کچھ نہیں ہے،
خود جنھیں اپنا احترام نہیں
وہ ترے ناز کیا اٹھائیں گے
شیخ تقی الدین سبقی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جو چار سے زیادہ ازواج کی تعداد دی گئی اس میں بھید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ بواطن شریعت و ظواہر شریعت اور وہ امور جن کے ذکر سے حیا آتی ہے اور وہ جن کے ذکر سے شرم نہیں آتی یہ سب بطریق نقل امت تک پہنچ جائیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ شرمیلے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے لیے چار سے زائد عورتیں جائز کر دیں جو شرع میں سے نقل کریں ‘ حضرت کے افعال آنکھوں دیکھے اور اقوال کانوں سنے جن کو حضور ﷺ مردوں کے سامنے بیان کرنے سے حیا کرتے تھے تاکہ اس طرح نقل شریعت کامل ہو جائے ۔ حضور ﷺ کے ازواج کی تعداد کثیر ہو گئی تا کہ اس طرح کے اقوال و افعال کے نقل کرنے والے زیادہ ہو جائیں ۔ ازواج مطہرات ہی سے غسل و حیض و عدت وغیرہ کے مسائل معلوم ہوئے ۔ یہ کثرت ازواج حضور ﷺ کی طرف سے معاذ اللہ شہوت کی غرض سے نہ تھی اور نہ آپ ﷺ وطی کو العیاذ باللہ لذت بشریہ کے لیے پسند فرماتے تھے ۔ عورتیں آپ ﷺ کے لیے صرف اس واسطے محبوب بنائی گئیں کہ وہ آپ ﷺ سے ایسے مسائل نقل کریں جن کے زبان پر لانے سے حضور ﷺ شرم و حیا کرتے تھے پس آپ ﷺ بدیں وجہ ازواج سے محبت رکھتے تھے کہ اس میں شریعت کے ایسے مسائل کے نقل کرنے میں اعانت تھی ۔ ازواج مطہرات نے وہ مسائل نقل کیے جو کسی اور نے نہیں کیے چنانچہ انہوں نے حضور ﷺ کے مقام اور حالت خلوت میں جو نبوت کی آیات بینات دیکھیں اور عبادت میں آپ ﷺ جو اجتہاد دیکھا اور وہ امور دیکھے کہ ہر ایک عاقل شہادت دیتا ہے کہ وہ صرف پیغمبر میں ہوتے ہیں اور ازواج مطہرات کے سوا کوئی اور ان کو نہ دیکھ سکتا تھا ۔ یہ سب ازواج مطہرات سے مروی ہیں اس طرح حضور ﷺ کو کثرت ازواج سے نفع عظیم حاصل ہوا ۔۔۔۔۔ نیز کثرت ازواج پر طعن کرنے والے یہود و نصاریٰ کے رد میں خود اللہ تعالیٰ نے جواب عطا فرمایا ’’ ولقد ارسلنا رسولا من قبلک و جعلنا لھم ازواجاَو ذریتہ (سورۃ الرعد ۔۳۸) ترجمہ: اور البتہ بے شک ہم نے تجھ سے پہلے پیغمبر بھیجے اور ان کو عورتیں اور اولاد دی ۔
حضرت ابراہیم
تین بیویاں ( پیدائش باب ۱۱۔ آیہ ۔۲۹ باب ۱۶ ٓیہ ۳ باب ۲۵۔ آیہ اول )
حضرت یعقوب
چار بیویاں تھیں ( پیدائش باب ۲۹ باب ۳۰ ‘ آیہ ۴ و ۹) ان چار میں سے راحیل خوبصورت اور خوشنما تھی ۔ یعقوب ؑ ( نکاح سے پہلے ) راحیل پر عاشق تھا‘‘۔ ( پیدائش باب ۲۹ ۔ آیہ ۱۷ ۔ ۱۸)
حضرت موسیٰ
دو بیویا ں تھیں ( خروج باب ۲ ۔ آیہ ۲۱ ۔ اعداد باب ۱۲ ۔ آیہ اول )
حضرت جدعون
اس کی بہت سی بیویاں تھیں جن سے ستر لڑکے پیدا ہوئے ْ ( اقضا ۃ باب ۸ ۔ آیہ ۳۰ )
حضرت دائود
ان کے ہاں ۴۳ ۔ دوم سموئل باب ۳ ۔ آیہ ۲ تا ۵ باب ۵ آیہ ۱۳ ) حضرت دائودؑ نے حالت پیری میں ابی ساج سونمی سے نکاح کیا تا کہ وہ گرم رہیں ( اول سلاطین باب اول )
حضرت سلیمان
حضرت سلیمان ؑ کی سات سو جیورو بیگمات تھیں اور تین سو حرمین اور اس کی جورئوں نے اس کا دل پھیرا کیونکہ ایسا ہوا کہ جب وہ بوڑھا ہوا تو اس کی جوروئوں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کیا ۔ ( اول سلاطین باب ۱ ۱ ۔آیہ ۴۰۳ )
پس ثابت ہوا کہ ایک سے زائد زوجہ کا ہونا نبوت کے منافی نہیں اور ہم اسے بھی یکسر غلط سمجھتے ہیں جو بائبل میں پیغمبروں کی نسبت دریدہ دہنی کی گئی ہے کیونکہ پیغمبر معصوم ہوتے ہیں ۔
اعتراض نمبر۱۶۱
ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری بیوی( سوتن) لانا ایک بے رحمی کا پہلو رکھتا ہے کیوں کہ عورت اسے ٹھنڈے دل سے گوارا نہیں کرتی۔
جواب:اس کا جواب یہ ہے فرض کریں ایک شخص شادی شدہ ہے۔ امن و سکون کی زندگی بسر ہو رہی ہے ۔ خوب زندگی کی گاڑی چل رہی ہے۔ اچانک ایک ایسا موڑ آتا ہے کہ ایک دوسری عورت اس شخص کو دل دے بیٹھتی ہے۔وہ اس مرد پر مر مٹتی ہے۔کوئی لمحہ از یادِ یار غافل نشود’’ دل یار ولے ہتھ کار ولے‘‘ یعنی دل تو دوست کی یاد میں مصروف ہے لیکن ہاتھ سے کام بھی جاری ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اگر وہ اسے شادی کی دعوت قبول کر لیتا ہے تو پہلی بیوی کی دل شکنی ہوتی ہے۔بیوی سوچتی ہے کہ اس کی حکومت ختم ہونے کو ہے۔ میری اس گھر میں تنکا برابر حیثیت نہ ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ اگر وہ دوسری عورت سے شادی نہیں کرتا تو اس کی زندگی بے کیف و نا خوشگوار ہوتی ہے مگر یہ اس عورت کا اپنا کیا دھرا ہے۔اسے اپنانے میں مرد کا کوئی قصور نہیں۔ایسی صورت میں ٹھیک عمل اور طریقہ یہی ہے کہ وہ اسے انکار کردے اور بیوی کا حق چوں کہ مقدم ہے اس لیے دوسری عورت کا وافر قلبی تعلق پیدا ہوجائے۔پھر بھی اپنی بیوی کی خاطر دوسری عورت کے تمام جذبات اور خواہشات کو ترک کرنا نا گزیر ہے۔ ایسے حالات میںاپنی بیوی کے مقابلے میں دوسری عورت کی رعایت نہ کرنا جائز اور درست ہے۔اسی طرح کسی جائز موقع پر اپنی بیوی کی رعایت نہ کرنا جائز ہے۔ مثلاََ ایک شخص عرصہ دس سال سے شادی کر چکا ہے اس کے اولاد نہیں ہوتی۔والدین کی خواہش کہ ان کا بیٹا پھلے پھولے، اس کے اولاد ہو۔ساری جائیداد مال وغیرہ کا وارث آئے۔ ایسے میں اپنی بیوی کو نہ مارے پیٹے، نہ طلاق دے بل کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق افہام و تفہیم سے مسئلے کا حل نکالے۔جب وہ مرد اپنی بیوی کے سامنے کہے کہ میں شادی کر کے بھی تمھارے تمام حقوق کی پاس داری کروں گا اور انصاف کا رویہ اپنائے رکھوں گا۔ اگر دوسری شادی ہو جائے تو کبھی اس میں بے رحمی کا پہلو نہیں نکلے گا۔ نیز اگر پہلی عورت جھگڑا کرتی ہے تو وہ از خود بے رحمی اور ظلم کر رہی ہے جب کہ اسلام نے مرد کو دو،تین اور چار شادیاں کرنے کی رخصت دے رکھی ہے۔ اگر مرد کے جائز مطالبہ کی بناء پر بھی پہلی بیوی تنازعہ کھڑا کرتی ہے تو یہ نا انصافی و زیادتی ہے اور اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہی ہے ۔ اگر عورت اجازت نہیں دیتی بلکہ خود طلاق کا مطالبہ کر بیٹھتی ہے تو اس صورت میں اگر مرد طلاق دیتا ہے تو یہ عورت کے نزاع کے سبب ہے اور سراسر اس کی ہٹ دھرمی ہے اور مرد بے قصور ہے ۔اس کے سبب وہ عورت شادی نہیں کر پاتی تو عمر بھر پچھتاوا رہتا ہے اور یاس و نا امیدی سے ہاتھ ملتی رہتی ہے ۔ دوسری سوتن کو لانا مرد کا بے رحمانہ فعل نہیں ہے۔ نیز اسوہ رسول اللہﷺ ہمارے سامنے ہے۔ کئی خواتین کی حرم نبوی میں موجودگی اس بات کی غماض ہے کہ مرد انصاف کا دامن تھامے رکھے۔ ہمیشہ عدل سے کام لیتا رہے تو گھر آنگن کی ہوا ،فضا خوش گوار رہے گی اور ہمیشہ نباہ کی بھینی بھینی خوشبو ماحول کو معطر کرتی رہے گی۔یہ عقیدہ بے رحمی کا اس لیے پھوٹ پڑا ہے کہ گرد و پیش میں اسلامی تعلیمات کا دور دورہ نہیں ۔ اسلام سے دوری ہے اور اسلامی عقائد کی پابندی نہیں کی جاتی جبھی تو جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔انصاف نہیں ہو پاتا۔ان جھگڑوں کی بنیاد پر نام نہاد اور روشن خیال طبقہ کہتا ہے کہ سوتن لانے سے بے رحمی کا پہلو نکلتا ہے۔ بھئی! یہ بے رحمانہ پہلو صرف اور صرف اسلام کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ جب اسلام کے مطابق عمل ہوگا تو یہ نوبت کبھی نہیں آئے گی۔واٹ کہتا ہے ( ضیاء النبی ج۔۷۔۴۵۹) ’’ تعدد ازواج کے قانون نے بعض زیادتیوں کا مداوا کر دیا جو انفرادیت پسندی کے ترقی کر جانے کی وجہ سے پیدا ہو گئی تھیں۔اس قانون نے زائد عورتوں کو با عزت طور پر رشتہ ازواج میں منسلک ہونے کے مواقع فراہم کیے، سر پر ستوں کی طرف سے عورتوں پر کی جانے والی زیادتیوں کو کم کیا۔ اس قانون نے نکاح کے بغیر جنسی تعلقات قائم کرنے کی تر غیبات کو کم کیا جس کی عرب معاشرہ میں اجازت تھی۔ اس زمانہ میں جو رسوم موجود تھیں ان کے پیش نظر معاشرے میں اصلاح کا یہ بڑا اہم قدم تھا‘‘۔
اعتراض نمبر۱۶۲
چینی حکام اور ماہرین اقتصادیات کے مطابق ایک بچہ فی گھرانہ کی پالیسی سے آج چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی منڈی بن چکا ہے‘‘
جواب:عورتوں کی تعداد کو کم کرنے کے کئی طریقے ایجاد ہو چکے ہیں جو زمانہ جاہلیت کی دختر کشی کی رسم کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ ۱۹۷۴ء کے اوائل سے چین میں ایک بچہ فی گھرانہ کی پالیسی اپنائی گئی۔اس صورت حال کا الم ناک پہلو یہ ہے کہ اس دوران اسقاط حمل کے ۹۰% کیسز صرف بیٹی (کی پیدائش روکنے) کی وجہ سے واقع ہوئے۔ نیز سالانہ ۳۹ ہزار بیٹیاں ،بیٹوں کے مقابلہ میں عدم توجہ کے باعث اپنی عمر کے پہلے سال ہی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتیں۔ اس شدید منفی عدم توازن کی وجہ سے ۶۰ ملین یعنی چھ کروڑ لڑکے لڑکیوں سے زیادہ ہیں۔ یوں اس تہذیبی تاریکی میں بھی لڑکیوں کے لیے اسلامی تعلیمات منارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں(محمد رسول اللہ اکرم طاہر ۲۹۹۔۳۰۰) یہ راز ہے بڑی منڈی بننے کا۔ کسی جانور کی نسل نا پید ہونے لگے تو اس کے لیے ہزاروں کوششیں کی جاتی ہیں۔لاکھ ہاتھ پائوں مارے جاتے ہیں۔ بہتیرے جتن کیے جاتے ہیں کہ اس جانور کی افزائش نسل کر کے نا پید ہونے سے بچائیں۔ادھر صورت حال مختلف ہے کہ صنف نازک کو ختم کرنے کے در پے آزار ہیں۔جانوروں سے بھی وقار کم سمجھا گیا ہے۔اور بے دریغ قتل کر کے خون کی ندیاں بہائی جا رہی ہیں ۔
انسان کی عظمت کو ترازو میں نہ تولو
انسان تو ہر دور میں انمول رہا ہے
حالاں کہ معیشت بڑھانے کے کئی اور طریقے بھی ہیں۔صرف معیشت کے کم ہونے کے خطرے کے پیشِ نظر دختر کشی کی مہم انسانیت سوز اور انسانیت کو ہلاک کرنے کا عمل ہے۔ رزق کی بڑھوتری اور کمی کے خوف کے باعث بچیوں کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ارشاد ربانی ہے۔
’’ لَا تَقتُلُوا اَولَادَ کُم خَشَیَۃِ اِملَاقِِ‘‘۔ (سورۃ الانعام۔۱۵۱)( اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے)
ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے۔’’ نَحنُ نَرزُقُھُم وَاَیَّا کُم‘‘ ( بنی اسرائیل۔۳۱) (ہم انھیں بھی رزق دیں گے اور تمھیں بھی)
جب رزق کی ذمہ داری رب اللعالمین نے لے رکھی ہے تو ایسے بچیوں کو قتل کر کے خواہ مخواہ گناہ کبیرہ اپنے سر لینے کی کیا ضرورت ہے؟ اور کیا صرف بچیوں کی پیدائش ہی سے معیشت کم زور ہوتی ہے، اولاد نرینہ سے نہیں ہوتی؟ یہ کسے خبر نہیں کہ ارتکاز دولت، ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ معیشت کو گھن کی طرح چاٹ جاتی ہیں ۔یہ بے بنیاد خوف ہے کہ بچیوں سے آبادی میں اضافہ ہوگا اور معیشت کم زور ہوگی۔ یہ درست نہیں کہ ایک بچہ فی گھرانہ کی پالیسی سے چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی منڈی ہے۔ کیوں کہ ہزار ہا وسائل پیدا کر کے چین نے اپنی معیشت کو بڑھایا ہے۔ مثلادوسرے ممالک سے تنازعات کو بجائے لڑائی کے ڈائیلاگ کے ذریعے حل کر نے کی خارجہ پالیسی کامیابی سے ہم کنار ہوئی ہے۔ خواہ جس قدر ہی ملک معیشت کے اعتبار سے مضبوط کیوں نہ ہو اگر وہ دنیا کے ممالک سے متصادم اور ٹکرائو کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہوگا تو کبھی معیشت کی بڑی منڈی نہیں بن سکتا۔لہٰذا اس ڈر سے بچیوں کو ٹھکانے لگا دینا وہم ہے اور بے بنیاد خوف چھایا ہوا ہے جب کہ باقی کے ہزاروں ایسے مسئلے ہیں جن سے معیشت کبھی مضبوط و مستحکم نہیں ہو سکتی۔مثلاََ دہشت گردی، ارتکاز دولت، حقوق کی پائمالی، ذخیرہ اندوزی ، بھتہ خوری اور رشوت وغیرہ۔ اس کے ساتھ بجٹ میں اہم اشیاء مکان ‘ ٹرانسپورٹ ‘ خوراک‘ پار چات اور تفریح کے لیے خاص منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس سے مہنگائی میں کمی اور ارزانی لائی جا سکتی ہے اور کفایت شعاری سے رقم بچائی جا سکتی ہے ۔اگر کسی اور کو مہربان اور مربی نہ بنائو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارا حصہ دے گا نیز یہ بات ذہن میں پیوست رہے کہ رزق دو طرح کا ہوتا ہے ایک وہ جس کی تم تلاش کرتے ہو اور دوسرا وہ جو تمہاری تلاش میں ہوتا ہے یہ یقینا تم تک پہنچ کر رہے گا ۔
(know it there are two kinds of livelihood one which you are searching for and the other which is in search of you it will reach you )
ایک بزرگ کا قول ہے کہ جس طرح موت آدمی کا تعاقب کرتی ہے اسی طرح رزق بھی آدمی کے تعاقب میں رہتا ہے جب اسلام کی تعلیمات پر عمل کریں گے تو معیشت کے کم ہونے کے چکر سے بخیرو عافیت نکل جائیں گے ۔ وہ چیزیں جو معیشت میں اضافے کا باعث ہیں اور اسلام ان کی اجازت دیتا ہے وہ نہایت محنت سے حاصل کریں اور جن سے معیشت تباہ ہوتی ہے اور اسلام بھی منع کرتا ہے ان سے پرہیز کیا جائے تو ان شا ء اللہ معیشت دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے گی ۔
معیشت کو بڑھانے اور مضبوط کرنے کے لیے اپنی اولاد کوقتل کرنا یا مفلسی کے ڈر سے موت کے گھاٹ اتار دینا اسلام میں ممنوع ہے۔ سورہ الا نعام آیت نمبر ۱۵۱ میں ہے ’’ ترجمہ : اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو ایک جگہ پر یوں ہے ’’ ہم تمہیں اور انہیں سب کو رزق دیں گے ‘‘ ۔
اعتراض نمبر۱۶۳
بعض مستشرقین یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضورؐ ہر سال اپنی ازواج کو خیبر وغیرہ کی زمینوں کی آمدنی سے مال کثیر عطا فرماتے تھے اور مال کثیر کی وجہ سے ان کے درمیان حسد کے جذبات پروان چڑھتے تھے۔ ( ضیاء النبی۔۴۹۹۔۷)
جواب:یہ الزام تاریخی حقائق سے چشم پوشی کا نتیجہ ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ قومی آمدنی کی بہت سی مدات ایسی تھیں جو مکمل طور حضور کے تصرف میں تھیں اور آپ ﷺان مدات سے اپنے اہل خانہ پر خرچ کرنے کے مجاز تھے۔ یہ اختیار بھی بارگاہِ ایزدی کی دین ہے۔ اس کے باوجود آپ نے گھر کے لیے فقر کی نعمت کو پسند فرمایا۔ یہ آپﷺ کا اختیاری فعل تھا۔جسے آپ کی ازواج نے بھی پسند فرمایا۔ جہاں تک خیبر کی زمینوں سے آمدنی آتی اور اس سے کثیر مال ازواج کو عطا فرماتے۔ جس سے ان کے درمیان حسد کے جذبات پروان چڑھتے تھے‘ امہات المومنین پر الزام اور تہمت لگائی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’ اَنَّ الَّذِیِنَ یَرمُونَ المُحصِنٰتِ الفٰضِلَاتِ اِلمُومِنٰتِ لُعِنُوا فِی الدُّ نیَا وَ الاَخِرَۃِ وَلَھُم عَذَابُٗ عَظِیمُٗ‘‘ ( سورہ النور۔۳۳) ترجمہ: جو لوگ تہمت لگاتے ہیں پاک دامن عورتوں پر جو انجان ہیں ، ایمان والیاں ہیں،ان پر پھٹکار ہے دنیا اور آخرت میں اوران کے لیے عذاب عظیم ہے۔
یہ خواتین نیک نیت اور پاک دامن ہیں۔ وہ کمینہ صفت لوگوں کے طور طریقوں سے نا واقف و انجان ہوتی ہیں۔انھیں یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ کوئی ان پر انگلی اٹھائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے نیک فطرت مسلمان مرد وعورتوں پر جو اس قسم کا غلیظ الزام لگائے اس پر خدا کی پھٹکار ہو گی اور درد ناک عذاب ان کے لیے ہوگا۔ بعض حضرات نے اس آیت کو امہات المومنین سے مخصوص کیا لیکن اہل جمہور و علماء کے نزدیک پہلا قول اصح ہے اور راجح ہے اور امہات المومنین بطریق اولیٰ اس میں داخل ہیں۔نبی پاک کا فرمان ہے کہ’’ سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو‘ ان میں سے ایک ہلاک کر دینے والی چیز’’ پاک دامن، انجان اور ایمان دار خواتین پر جھوٹی تہمت لگانا ہے۔دوستی ہر ایک سے نہیں ہو جاتی بل کہ طبعی مناسبت کو بڑا دخل حاصل ہے۔ برے لوگ اپنے ہم جنس لوگوں کے پاس بیٹھ کر حظ محسوس کرتے ہیں۔ مزے لے لے کر ڈینگیں مارتے اور گپیں ہانکتے ہیں۔اگر انھیں نیک لوگوں کی محفل میں بیٹھنا پڑے تو دل نہیں لگتا، اکتاہٹ اور بے چینی محسوس ہوتی ہے۔اداس ہو جاتے ہیں۔اسی طرح اگر نیک لوگ نیکوں کے پاس بیٹھیں گے تو اکتاہٹ اور بے قراری کی بجائے خوشی و انبساط ہو گی۔ اس لحاظ سے اثر ایسا ہوتا ہے کہ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے اور پاکیزہ عورتیں پاک لوگوں کے لیے۔ اس عام اصول سے قابل غور بات یہ ہے کہ جو اَطَیَبُ الاَطیبِین ہے جو خیر الاولین و الآخرین ہے ان کی ازواج بھی اَطیب الطّیبات ہوں گی۔ تو پھر بھلا کیسے ان ازواج مطہرات میں کثرت مال سے حسد کے جذبات پیدا ہوں گے۔ ہر گز ہرگز نہیں!
خیبر کی غنیمت میں سونا چاندی کم تھا اور گائے بیل اونٹ اور کچھ دیگر سامان تھا اور سب سے زیادہ چیز وہاں کی زمینیں اور باغات کے علاو ہ ساراسامان آپ ﷺ نے قرآنی حکم کے مطابق غنائم میں تقسیم کر دیا اور زمینیں کچھ لیںاور باقی یہود کو کاشت کے لیے دے دیں ۔ خیبر کی زمینوں اور باغات کی تقسیم کے بارے سنن ابو دائود میں مرقوم ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے خمس نکالنے کے بعد خیبر کی زمینوں کو چھتیس حصوں میں بانٹ دیا ‘ ان میں سے اٹھارہ حصے مسلمانوں کی ضروریات کے لیے مخصوص کر لیے یعنی ان سے مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات و حوادث کی تکمیل مقصود تھی ۔ باقی اٹھارہ حصے مجاہدین میں تقسیم فرما دئیے اور ہر حصہ میں سو سو کا حصہ مقرر فرمایا یہ اہل حدیبیہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عطیہ تھا ۔ خیبر کی اس فوج میں دو سو گھوڑے بھی تھے چونکہ سوار کے علاوہ خود گھوڑے کو بھی حصہ ملتا ہے اور گھوڑے کا حصہ دوگناہوتا ہے اس لحاظ سے دو سو گھوڑ سواروں کو چھ سو سپاہیوں کے برابر حصہ ملا ۔خیبر کی اراضی کا وہ حصہ جس کو آپ ﷺ نے تقسیم نہیں فرمایا ‘ اس میں الکتبہ اور وطیع و سالم اور اس کی ملحقہ اراضی تھی ۔جنگ کے نتیجہ میں حاصل شدہ اراضی کو آپ ﷺ نے مجاہد ین میں تقسیم فرما دیا اور بغیر جنگ کے حاصل شدہ اراضی ریاست کی ملکیت تھی ۔ اس کو سرکار نے یہود کو بٹائی پر دے دیا اور اس کی آمدن مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ہر سال رسول اکرم ﷺ کی طرف سے عبداللہ بن رواحہ ؓ پیداوار کی بٹائی کے لیے خیبر تشریف لے جاتے ‘ اجناس کی تمام اقسام دو حصوں میں تقسیم فرما کر مزارعین سے فرماتے کہ ’’ دونوں میں سے جو ڈھیر پسند ہو اٹھا لو ‘‘ ایک مرتبہ اہل خیبر نے کہا ’’ اسی عدل پر زمین و آسمان قائم ہیں ‘‘
خیبر کی غنیمت سے آسودگی ہوئی ۔ اس اموال سے درماندگی دور ہو گئی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ’’ ہم لوگ اس وقت تک اسودہ حال نہ ہوئے جب تک کہ خیبر فتح نہ کیا ‘‘ ۔ ایک روایت میں مسلمانوں کی خوشحالی اور آسودہ حالی کے بارے میں ہے کہ جب آپ ﷺ خیبر سے واپس مدینہ تشریف لائے تو مہاجرین نے انصار مدینہ کے کھجوروں کے وہ سب درخت واپس کر دئیے جو انصار نے ان کی نصرت اور امداد کے طور پر انہیں دے رکھے تھے کیونکہ اب انہیں خیبر سے مال اور کھجور کے درخت مل گئے تھے اور سید ہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ’’ جب خیبر فتح ہوا تو ہم نے کہا کہ اب ہمیں پیٹ بھر کر کھجور ملے گے ‘‘۔( خاتم النبین ۔۷۸۴)
ازاوج مطہرات نے جب انصار و مہاجرین کے گھروں میں فارغ البالی دیکھی کہ پہلے کی نسبت ان کے حالات اچھے اور خوش کن ہیں خوب گزر بسر ہو رہی ہے تو انہیں اپنے گھر میں فقر ہی کی بادشاہی نظر آتی ہے تو آپ ﷺ سے اس حالت زار کے متعلق درخواست کرنے کا فیصلہ کیا جب یہ مطالبہ کیا گیا تو یہ آیت تخییر نازل ہوئی جس میں آپ ﷺ کو حکم دیا گیا کہ آپ ﷺ اپنی ازواج سے کہہ دیں کہ اگر تم مال دنیا لینا چاہتی ہو تو میں تمہیں کثیر مال دے کر فارغ کر دوں اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کا قرب چاہتی ہو تو پھر تمہیں کسی عسرت کی زندگی کو قبول کرنا ہو گا آپ ﷺ نے یہ حکم ربی حضرت عائشہ ؓ سے کہا ’’ میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں ‘ اس کے جواب میں جلدی نہ کرنا ‘ بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کر کے اس کا جواب دینا ۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے آیت تخییر تلاوت کی ۔بی بی عائشہ ؓ نے عرض کیا ’‘’کیا میں اس بات میں اپنے والدین سے مشورہ کروں ! میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اورآخرت کی زندگی کو منتخب کرتی ہوں ۔‘‘ اور دوسری طرف آپ ﷺ کا یہ عمل دیگر ازواج مطہرات کے لیے مثال بن گیا اور انہوں نے بھی سیدہ عائشہ ؓ کی پیروی میں وہی کہا جو انہوں نے کہا تھا ۔
آپ ﷺ کی زوجیت میں آنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خواتین پاک باز ‘ پاک دامن اور تہمتوں سے مبرا ‘ حرص و ہوس سے پاک اور بغض و حسد سے منزہ ہیں ۔ اگر دوسروں یعنی انصار و مہاجرین کی دیکھا دیکھی خوشحالی کو پسند کرتیں تو وہ آپ ﷺ سے کنار ہ کشی اختیار کر لیتیں لیکن وہ تو مال و دولت اور زر کثیر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے اور تج کر کے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا دامن تھام لیتی ہیں ایسا نہیں کہ مال کثیر کی وجہ سے ان کے درمیان حسد کے جذبات پروان چڑھتے ہیں ۔ مستشرقین کا لزام محض باطل ہے ۔
اعتراض نمبر۱۶۴
آپؐ نسل پرست تھے۔ڈوزی نے نسل پرستی کی تہمت لگائی اور اس کی دلیل یہ دی کہ حضورؐ یمنی قبائل سے متنفر تھے۔ نیز اپنے دعویٰ کے ثبوت میں تحریر کیا کہ کسی نے یہ شعر پڑھا کہ ’’ میرے آبائو اجداد نہ مضر کی اولاد ہیں نہ ربیعہ کی‘‘۔
ڈوزی کہتا ہے کہ حضور ﷺ نے طبقاتی منافرت کا اظہار فرمایا اور وہ کسانوں سے نفرت کرتے تھے اور یہ ہجرت کے بعد اس نفرت کو ترک کرنا پڑا ( ۲)وہ یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ طبقہ اشرافیہ کے طرف دار تھے ۔
جواب: (۱)اہلِ یمن کی نسبت حضرت اسمٰعیلؑ کی طرف ہے۔اہلِ یمن میں سے اسلم بن افصی بن حارثہ بن عمرو بن عامر ہیں جو خزائمہ مشہور ہیں۔حدیث میں ہے کہ ’’ سلمہ بن اکوع ؓ نے کہا کہ جناب رسول اللہ ﷺ اسلم قبیلہ کے چند لوگوں کی طرف تشریف لے گئے جو بازار میں تیر اندازی کر رہے تھے۔آپ ؐ نے فرمایا اے اسمٰعیلؑ کی اولاد! تیر اندازی کرو کیوں کہ تمھارا باپ اسمٰعیلؑ بھی تیر انداز تھا اور میں بنی فلاں کے ساتھ ہوں۔یہ دو فریقوں میں سے ایک فریق کے لیے فرمایا۔ انھوں نے اپنے ہاتھ روک لیے۔آپؐ نے فرمایا ان کو کیا ہوا۔ انھوں نے کہا ہم کیسے تیر اندازی کریں جب کہ آپ بنی فلاں کے ساتھ ہیں۔آپؐ نے فرمایا تم تیر اندازی کرتے رہو میں تم سب کے ساتھ ہوں ۔( تفہیم البخاری۔۳۸۳ علامہ غلام رسول رضوی) آپؐ کی شفقت و محبت کا یہ عالم ہے کہ یمنی لوگوں کی طرف تشریف لے جاتے ہیں۔ وہ تیر اندازی کر رہے ہیں۔آپؐ نے تیر اندازی کی ترغیب دی اور ساتھ ان میں سے ایک فریق کے ساتھ ہونے کا عندیہ بھی دیا۔ دوسروں نے تیر چلانے سے ہاتھ روک لیے۔پوچھنے پر انھوں نے کہا جب آپؐ ان کے ساتھ ہیں تو ہم کیسے تیر چلائیں۔آپؐ نے اپنائیت سے فرمایا’’ میں تم سب کے ساتھ ہوں‘‘۔ وہ ذات جو اہلِ یمن کے ساتھ ہو وہ ان سے متنفر ہو سکتے ہیں۔نہیں ہرگز نہیں۔
۲: اپنے دعوے کے ثبوت میں لکھا کہ کسی نے یہ شعر پڑھا کہ ’’ میرے آباو اجداد نہ مضر کی اولاد ہیں نہ ربیعہ کی‘‘۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’ تیری بدبختی کہ تیرا نسب تجھے اللہ اور اس کے رسول سے محروم کرتا ہے۔پھر تھوڑی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی جان سکتا ہے کہ اس شعر میں نسل پرستی کا پہلو کہاں نکلتا ہے۔شعر کے مفہوم اور ارشادِ نبوی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مخاطب نے اس شعر میں اسلام سے گریز کا اظہار کیا ہے۔وہ کہنا یہ چاہتا ہے کہ میرے آبائو اجداد مضر یا ربیعہ کی اولاد نہیں کہ میں قریش پر ایمان لے آئوں۔اگر میرے قبیلہ سے ہوتا تو اسے قبول کر لیتا۔ آپؐ نے نسل پرستی کو بد بختی فرمایا۔ اعداء کی ستم ظریفی یہ کہ وہ ذات جس نے نسل پرستی اور نسلی غرور کی جڑ کواکھاڑ کر پھینک دیا ‘ زمانہ جاہلیت کے خاندانی تفاخر، رنگ و نسل کی برتری، قومیت میں امتیازات کو مٹا ڈالا۔ اسی پر نسل پرستی اور قبائلی منافرت کا الزام لگاتے ہیں۔کیا مستشرق اس فرمان سے بھی بے خبر ہیں جو آپؐ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا تھا’’ اے لوگو! بے شک تمھارا رب ایک ہے اور بے شک تمھارا باپ(آدم) ایک ہے۔سن لو ! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی سرخ کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔ کیوں کہ ـ: خون شہ رنگین تراز معمار نیست۔
دوسرے جز کاجواب:۱: ماں باپ اور اولاد کے حقوق، زوجین کے حقوق، عزیز رشتہ دار‘ دوست اور سسرال کے حقوق‘ اساتذہ و تلامذہ کے حقوق‘ ہمسایہ ‘ یتیموں‘ بیوائوں‘ حاجت مندوں‘ غلاموں اور لونڈیوں کے حقوق‘ خادموں اور ملازموں کے حقوق‘ مہمان و مسافر کے حقوق‘ عام مسلمانوں اور عام انسانوں کے حقوق( مسلم و غیر مسلم) جانوروں کے حقوق حتیٰ کہ دین اسلام نے ہر ایک کو حقوق عطا کیے اور ساتھ ہی ان کے فرائض و ذمہ داریوں کو بھی بوضاحت بیان کردیا اور ان حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو قرار واقعی سزائیں دیں تو پھرکیا ایسے مذہب کے داعی سے طبقاتی منافرت کے اظہار کی توقع کی جا سکتی ہے؟ایک بار بنی مخزوم کی فاطمہ بنت قیس نامی خاتون چوری کرتی ہے آپ ﷺ اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم فرماتے ہیں ۔ انہوں نے اسامہ بن زید ؓ کو سفارشی بنا کر حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں بھیجا کہ وہ سفارش کریں کہ ہاتھ نہ کاٹے جائیں جب اسامہ ؓ نے آپ ﷺ کی خدمت میں یہ درخواست کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ جب کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور اگر کوئی کمزور کرتا تو اسے سزا دی جاتی آپ ﷺ نے فرمایا اگر میری بیٹی فاطمہ ؓ بھی چوری کرتی تو میں یقینا اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا ۔اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ دین سے طبقاتی منافرت اور اونچ نیچ اور تقسیم کا قلع قمع کر دیا ۔
تو براے وصل کردن آمدی
نے براے فصل کردن آمدی
نیز عرب معاشرہ طبقات میں تقسیم نہیں تھا۔وہاں قبائلی سسٹم تھا۔ڈوزی نے طبقاتی منافرت کو کہاں سے لے لیا ہے۔
۲: اشرافیہ یا کسان نام کے کسی طبقے کا کوئی وجود نہ تھا۔معاشرے کی تقسیم پیشے کے اعتبار سے نہیں تھی۔شرافت کا تعلق پیشے سے نہ تھا بل کہ ذاتی کردار سے تھا۔عدل و انصاف، صبر و استقامت، جود و سخا، ایثار و قربانی، مہمان نوازی، ایفائے عہد ، جرات و بہادری اور قبائلی عصبیت وہ جوہر تھے جو شرافت کی تعمیر کے معمار تھے۔یہ ساری خوبیاں اور قدریں انفرادی ہیں جن کا تعلق کسی طبقے سے نہیں ہوتا۔مغربی معاشرے میں یہ خصوصیات صرف شرفاء یعنی جاگیرداروں میں ہی متوقع ہوتی تھیں۔مخالفین کے یہ الزامات محض اس معاشرے سے لا علمی کا نتیجہ ہیں۔
اعتراض نمبر۱۶۵
دی جیوش انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے ’’ محمد ﷺکی ہجرت مدینہ کے بعد ان کی ازواجی زندگی اور مذہبی زندگی میں تبدیلی محسوس ہوتی ہے‘‘۔ ( امہات المومنین اور مستشرقین۔۶۸)
جواب:اس تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ میں آکر بہت سی شادیاں رچائیں۔جس طرح فلپ اسکاف اپنی کتاب ’’ ہسٹری آف کرسچین چرچ میں بیان کرتا ہے’’ ان کی تعدد الازواج جنسیت پرستی کے سبب تھی( معاذ اللہ) اور اولاد نرینہ کی خواہش میں عمر کے ساتھ ساتھ شدت آتی گئی‘‘۔ مغربی ناقدین نے نہایت برے انداز میں جنسیت پرستی کو اچھا لا۔ حرم جیسی مقبول عام فلمیں ان کے تصورات کا مظہر ہیں جب کہ آپ ﷺکی شادیاں سماج میں باطل رسومات کی بیخ کنی کی خاطر تھیں جو اس وقت سماج میں موجود تھیں اور ان کی قانون سازی مقصود تھی۔اس کے اور سبب بھی تھے جن میں خاص طور پر تالیفِ قلبی بھی تھی۔ ایسی خواتین جنھوں نے اسلام قبول کیا، ان کے شوہر جنگوں میں کام آگئے یا ایسی خواتین جو جنگوں میں قیدی ہو کر آئیں ان بے سہارا خواتین کے لیے ضروری تھا کہ ان کو بہتر سہارا ملے ایسا نہ ہو کہ کفار کہیں کہ اسلام کو گلے لگا کر مزا چکھ لیا ہے۔اب تمھارا کوئی پرسان ِ حال نہیں۔ رفتگان کی بیوائوں‘ یتیم بیٹے بیٹیوں کی نگہبانی کی ضرورت تھی۔ ہرگز ہر گز جنس پرستی نہ تھی جس کے لیے شادیاں کیں۔بلکہ بے بس اور بے یارو مدد گاروں کی مدد مقصود تھی
گاڈ ہیگنز فری کہتا ہے’’ اگر عورتوں سے عشرت مقصود تھی تو یہ عجب بات ہے کہ آپؐ نے ۲۵ سال کی عمر میں جو وقت خاص جوانی کا خیال کیا جاتا ہے صرف حضرت خدیجہؓ سے نکاح کیا تھا۔ اگر آپؐ چاہتے تو اپنے ملک کے رواج کے مطابق بہت سے نکاح کر سکتے تھے مگر آپ اس قاعدہ سے مستفید نہ ہوئے اور اس بیوی کے تا حین حیات اسی کے ساتھ ۲۷ برس تک نباہ کیا‘‘( ن۔۵۳۳؍۴)
ٹامس کار لائل: مخالفوں کا کہنا کہ جب آپ کا بڑھاپا آ پہنچا، ساری گرمی شباب ختم ہو گئی اور آپؐ کے لیے اس دنیا میں صرف اطمینان و عافیت ہی ایک چیز باقی رہی تو اس وقت آپ کو ہوس پرستی کی سوجھی اور اپنے گذشتہ سارے خصائل پر پانی پھیر دیا اور ایک ایسی شے کے لیے مکر و فریب اختیار کیا جس سے آپ کسی طور متمتع نہیں ہو سکتے تھے۔یہ ایسی بات ہے جس کو میں کبھی تسلیم نہیں کرتا۔اس سیر چشم‘ پاک طینت اور صاف باطن انسان میں جسے مادر صحرا نے اپنے آغوش شفقت میں پالا تھا‘ جذبہ ہوس پرستی اور شہرت طلبی نہ تھی۔یہ اس قسم کی بزرگ و برتر پاک جان تھی جسے خلوص و صداقت کے بغیر گذر ہی نہیں۔(ن۵۴۱؍۴)
کار لائل مزید کہتا ہے کہ’’ محمد ﷺ کے بارے میں جو کچھ بھی کہہ لیں وہ نفس پرست انسان ہر گز نہیں تھے۔یہی وجہ ہے کہ صاحب تاج و کلاہ کی ایسی اطاعت نہیں ہوئی جیسی اپنی پیوند لگی عبا میں ملبوس اس انسان ( محمد ﷺ) کی‘‘۔ ایک نوجوان بارگاہ نبوی میں آتا ہے اور زنا کی اجازت طلب کرتا ہے۔اس پر صحابہ ناراض ہوئے۔آپؐ نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا اور فرمایا کہ تم اپنی ماں کے لیے ایسا پسند کرتے ہو؟ اس نے کہا ہرگز نہیں! فرمایااسی طرح دوسرے لوگ بھی اپنی مائوں کے لیے یہ پسند نہیں کرتے۔پھر فرمایا‘ کیا تم اپنی بیٹی کے لیے یہ پسند کرتے ہو؟ اس نے کہا قربان جائوں ہر گز نہیں! فرمایا ایسے ہی دوسرے لوگ بھی اپنی بیٹیوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔اسی طرح آپ نے اس کی بہن، خالہ وغیرہ کے لیے سوال کیا: اس نے ہر بار انکار کیا ۔اس کے بعد آپؐ نے دست شفقت اس کے سر پر رکھا اور دعا فرمائی’’ اے اللہ! اس کا گناہ بخش دے ۔اس کا دل پاک کر دے اور اسے بدکاری سے بچا‘‘۔ گناہوں سے بچانے، بد کاری سے رکنے کی دعا کرنے والا محسن ایسا ہو سکتا ہے کہ دوسروں کو لذت کیشی اور عیش پرستی سے باز رکھے اور خود اسی کام میں ملوث ہو۔ جو اوروں کو گناہ سے بچائے اور خود نہ بچے ایسے عام مصلح سے توقع نہیں کی جا سکتی تو بھلا اس محسن انسانیت اور ہادی عالم رسول اللہﷺ سے ایسی توقع کی جا سکتی ہے؟ ہرگز ہرگز نہیں!!
یہ جو راگ الاپا کہ ازواجی زندگی اور مذہبی زندگی میں تبدیلی محسوس ہوتی ہے۔کیا کوئی معمولی سا واقعہ یا کہیں کوئی ادنیٰ اشارہ ملتا ہے کہ آپ نے مذہبی زندگی تبدیل کی۔ مستشرق ڈی ایس مار گولیتھ کے اس بیان کو پڑھ لیں انھیں اپنے بیان کا اندازہ ہو جائے گا۔وہ لکھتا ہے’’ مکہ سے ہجرت کے بعد پیغمبر ﷺ نے ایک محنتی خود مختار فرماں روا کی طرح فوجی مہمات کو بھی منظم کیا ۔ملاقاتیوں کو شرف باریابی بخشا۔ سفارت کار بھیجے۔ دعوت اسلام کے لیے خطوط بھی لکھوائے۔ان کے علاوہ شکایات اور عرض داشتیں سن کر انصاف بھی بہم پہنچایا اور قانون کی تشریحات اور توضیحات بھی بتائیں۔ایک دن کا آرام بھی اپنے لیے روا نہ رکھتے ہوئے انھوں نے مسلسل کام کیا۔ ہمہ وقت لوگوں کو سنتے اور مشاورت کے لیے تیار رہے اور کوئی بھی موضوع ہو ، فیصلہ اپنے ہاتھوں میں رکھتے اور اس دنیا سے رحلت فرمانے تک ہر لحظہ پھلتی پھولتی اور وسعت پذیر اہل ایمان کی جماعت جس کی بنیاد خود انھوں نے رکھی اور جس کے وہ خود دینی و دنیاوی منتظم تھے‘ کے جملہ خارجی و داخلی امور کی خود نگرانی کرتے رہے مگر آخری دور میں ایک مکمل مذہبی نظام مرتب و تشکیل دے کر جملہ امور ریاست کو مختلف نمائندگان کے سپرد کر دیا تا کہ وہ ان امور کو سر انجام دیتے رہیں‘‘۔
مذکور مصنف آگے یوں لکھتا ہے ’’ ایک سپہ سالار‘ مقنن‘ مصنف اور سفارت کار کی حیثیت سے فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ پیغمبر اسلام ﷺنے بہ طور مبلغ و معلم اپنے فرائض کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ تمام ممکنہ مسائل کے حل کے لیے ان کی رائے طلب کی جاتی اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انھوں نے اپنی صائب رائے سے انھیں حل نہ کر دیا ہو‘‘۔( امہات المومنین اور مستشرقین ۱۰۵۔۱۰۴)
آپؐ نے فرمایا ’’ جو شخص اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنی بیوی سے متمتع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اس کو اجر سے نوازتا ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ اپنی بیوی سے مقاربت پر بھی اجر ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا : کیوں نہیں! ایسا شخص اگر نا جائز طریقے سے اپنی خواہشیں پوری کرتا ہے تو کیا مواخذہ نہ ہوتا؟ آپ کی تعلیم جنسی تعلقات یعنی جنس پرستی سے روکتی ہے۔زندگی کو پاکیزہ بناتی ہے ۔کسی کے حق پر ڈاکہ ڈالنے سے روکتی ہے اور وہ ذات جسے یقولون مالا تفعلون کا درس دینا ہے۔وہ ذات جس کی شان میں ہے وما ینطق عن الہوی ‘‘۔ وہ ذات اس برے فعل کی گرد سے مبرا و منزہ ہے۔ اور وہ ذات ’’ فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ‘‘ ہے۔اس کا اسوہ تو ہر دور کے لیے مشعل راہ تب ہو سکتا ہے جو ہر اونچ نیچ سے پاک صاف ہو۔اسی لیے تو آپ کے اسوہ کو اپنانے کی ترغیب دی کیوں کہ ان کا ہر عمل منشائے ایزدی کے مطابق ہے اور یہی رول ماڈل ہے جس کی پیروی لازمی ہے۔یہ وہ ذات ہے جس نے فرمایا’’ اللہ کی قسم ! میں تم میں سے زیادہ خشیت الہی اور تقویٰ رکھتا ہوں لیکن مجھے دیکھو میں روزہ رکھتا ہوں اور چھوڑ بھی دیتا ہوں ۔رات کو نمازپڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں۔جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں( محمد رسول اللہ ۱۹۷ ۔ ۱۹۶) اس میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ صرف ایک طرف ہی میلان نہ ہو بل کہ تمام قسم کے حقوق و فرائض سے عہد برآ ہونا ضروری ہے۔ مار گولیس ڈاڈز کہتا ہے’’ مکہ کے متمول تاجر ہوتے ہوئے اور ایک انتہائی با وفا اہلیہ کی موجودگی میں مکہ کی پر تعیش زندگی کو چھوڑ کر آپ نے غارِ حرا کو اپنا مسکن بنا لیا۔آپ کی غیر معمولی سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے‘‘۔
گیبن کہتا ہے انتقال سے تین دن پہلے تک آپ ﷺ با قاعدگی سے نمازوں کی امامت فرماتے رہے (till the third day before his death he regularly performed the function 0f public prayers.
اعتراض نمبر۱۶۶
’’ منٹگمری واٹ‘‘ نے ضعیف اور موضوع روایات کے بل بوتے پر چھتیس خواتین کے نام گنوائے ہیں اور یہ باور کرایا ہے کہ یہ سب کی سب ازواج نبوی تھیں اور یہ دریدہ دہنی بھی کی کہ (نعوذ باللہ) شادی شدہ عورتوں سے تعلقات تھے۔
جواب:اس وقت سماج میں خواتین کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ کنیزوں کو روزانہ کی بنیاد پر پیسے کمانے بھیجا جاتا تھا۔ اگر وہ مقررہ رقم رنڈی بازی کے ذریعہ کما کر نہ لاتی تو اسے زد و کوب کیا جاتا تھا۔بیوائوں کا برا حال تھا۔دوسری شادی سے محروم بیوائوں کو آہوں اور سسکیوں بھری زندگی گزارنا پڑتی۔آخر چل بستیں۔یتیموں کا کوئی والی نہ تھا۔اگر کوئی کفیل مل بھی جاتا تو محض اس یتیم کی جائیداد کو ہڑپ کر جانے کا متمنی اور خواہاں تھا۔ان برائیوں کے خاتمہ کے لیے دین اسلام نے تعدد ازواج کی مشروط اجازت دے دی۔
آپؐ کی عمر شریف
نام ازواج مطہرات
بہ یک وقت تعداد ازواج
کیفیت
۲۵ سال
حضرت خدیجہؓ
ایک
بیوہ
۵۰ سال
حضرت سودہؓ
ایک
بیوہ
۵۵ سال
حضرت عائشہؓ
دو
کنواری
۵۶ سال
حضرت حفصہؓ
تین
بیوہ
۵۶ سال
حضرت زینب بنت خزیمہؓ
چار
بیوہ
۵۷ سال
حضرت ام سلمہؓ
چار
بیوہ
۵۸ سال
حضرت زینب بنت حجشؓ
پانچ
مطلقہ
۵۸ سال
حضرت جویریہؓ
چھ
بیوہ
۵۹ سال
حضرت ام حبیبہؓ
سات
مطلقہ
۵۹سال
حضرت ماریہ قبطیہؓ
آٹھ
کنواری
۶۰ سال
حضرت صفیہؓ
نو
بیوہ
۶۰ سال
حضرت میمونہؓ
دس
بیوہ
امام جوزی ؒ نے حضرت ریحانہ کو بھی ازاوج میں شامل کیا ہے اور انہوں نے حضرت میمونہ ؓ سے پہلے ازواج النبی کی فہرست میں لکھا ہے نیز وہ ان کے والد کا نام زید لکھتے ہیں ۔ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ریحانہ بنت زید کے متعلق ایک قول یہ ہے کہ وہ سریہ تھیں ( آنحضرت ﷺ نے بعض لونڈیوں کو آزاد کیے بغیر ان کے ساتھ ملک یمین کے تحت مباشرت فرمائی ایسی لونڈیاں سراری کہلاتی ہیں ۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ان کے علاوہ چند خواتین تھیں جن کے ساتھ آپ ﷺ نے نکاح فرمایا لیکن زفاف کی نوبت نہیں آئی تھی جن میں ایک کلابیہ ہیں جن کا نام بعض فاطمہ ‘ عمرہ اور عالیہ بتاتے ہیں ۔ اسی طرح اسماء بنت نعمان ‘ قتیلہ بنت قیس ‘ ملیکہ بنت کعب ‘ ام شریک ‘ خولہ ‘ شراف ‘ لیلہ بنت حطیم اور غفاریہ ؓ عنہن کے ساتھ نکاح ہوا مگر زفاف نہیں ہوا ۔
اور بعض کے ساتھ خطبہ ہوا اور دعوت نکاح دی گئی مگر نکاح تک نوبت نہیں آئی تھی اور ان ناموں میں اور فقط نکاح یا فقط خطبہ پائے جانے میں اختلاف ہے اور بعض عورتیں آ پﷺ پر نکاح کے لیے پیش کی گئیں مگر آ پﷺ نے ان کے ساتھ نکاح کرنا پسند نہ فرمایا اور اس سے انکار فرمایا ۔ منٹگمری واٹ کا اشارہ کثرت ازواج اور کثرت مباشرت سے ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث شریف میں ہے۔ ’’ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کفیت عطا کیے گئے تھے ‘ حضرت حسن بصری ؓ جو حضرت جابر ؓ سے اس روایت کو نقل فرما رہے تھے عرض کیا گیا ’’ کفیت ‘‘ کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : جماع و مباشرت کی قدرت کاملہ ۔ شیخ عبد الحق فرماتے ہیں کہ جن مواضع و مقامات کی حقیقت کما حقہ ادارک کرنے سے کوتاہ اندیشوں کے عقول قاصر و محجوب ہیں ان میں سے ایک مقام تعدد ازواج اور کثرت مباشرت ہے جس کو وہ نقصان اور تنزل پر محمول کرتے ہیں اور لہو و لعب کے قبیل میں شمار کرتے ہیں حالانکہ یہ نقصان فہم کی دلیل ہے اور رہبانیت کی طرف میلان کی بلکہ کثرت نکاح و جماع میں جہاں فقط نسل اور دوام انسانی جیسے عظیم منافع ہیں وہاں حفظ صحت اور نعمت خدا وندی سے تمتع بھی اسی میں ہے اور حقیقت حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو فعل و انفعال اور تاثیر و تاثر کا مکمل ظہور جو ظہور عالم کی علت غائیہ ہے جس قدر نکاح و جماع اور توالد و تناسل میں ہے اور کہیں نہیں ہے اور سید الا نبیاء کا عمل اس پر واضح دلیل ہے اور سند و حجت تامہ کاملہ ۔ کثرت ازواج اور کثرت جماع کو عموم پر قیاس کرنا درست نہیں ہے کیونکہ یہ آپ ﷺ کی قدرت و قوت محض قدرت الہٰی سے تھی اور دائرہ اسباب عادیہ سے خارج تھی ( ان خواتین کی تعداد بیس یا اس سے کچھ زیادہ تھی ) مبالغہ آمیزی سے جنسیت پرستی ‘ تلذذ نفس اور شہوت رانی کا الزام لگانا محض باطل ہے ۔ مذکورجدول سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک وقت کنیز ملا کر تعداد دس بنتی ہے جو سنت دائودی سے مطابقت رکھتی ہے ۔آپؐ نے شادیاں دینی مصلحت ،تالیفِ قلوب،جذبہ خیر الناس، علوئے مرتبت اور فلاح امت کے لیے کیں۔ دوسری بات یہ کہ آپؐ اس غلیظ اور برائیوں سے بھرے معاشرہ میں الصادق و الامین کے القابات سے معروف تھے۔ اس ہستی کے بارے میں یہ کہنا کہ شادی شدہ عورتوں سے تعلقات تھے محض باطل ہے۔ کیوں کہ یہ ماننا پڑے گا کہ کیا ایسے شخص کو الصادق و الامین کے لقب دیے جاتے ہیں۔ نہیں نہیں ہرگز نہیں تو پھر یہ بات قابلِ تسلیم ہے اور آخری ہے کہ آپ ایسی ویسی حرکات سے مبرا و منزہ تھے۔ تب ہی تو اپنے پرائے بھی الصادق و الامین کہتے تھے۔ یہ اس وقت کے جاہلی معاشرہ سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ ایک فرد برائیوں میں لتھڑا ہوا ہو اور اسے عالی شان القابات سے نواز رہے ہوں۔حالانکہ اسے کہنا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ نے بیوائوں ، مطلقائوں کو اپنے حرم نبوی میں داخل کیا۔ان کی دستگیری کی اور نگہداشت کا فرض نبھایا لیکن اس نے اس حقیقت کو چھپا کر افسانوی رنگ بھر دیا اور ایک عام آدمی کی طرح الزام لگایا۔ وہ جانتا ہے کہ شادی شدہ خواتین بیوہ یا مطلقہ ہوئیں انھیں حرم نبوی میں داخل کیا گیا۔مگر وہ ایسا کہنے سے قاصر ہے کیوں کہ اس کی سرشت میں نفرت و تعصب دین اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ اگر چہ بعض مستشرقین کے خیالات و نظریات کا رد بھی کرتا ہے مگر قلبی شقاوت اور دلی رقابت بہ دستور براجمان رہتی ہے۔ ایک مستشرق کی رائے پیش کرتے ہیں جس سے ’واٹ‘ کی من گھڑت کہانی دلائل کے طوفان میں بہہ جائے گی۔Sir john Begot Glubb کہتا ہے کہ’’ آپؐ آزاد جنسی پیار و محبت کے قائل نہ تھے۔ آپؐ اللہ کی حمد و ثناء بیان کرتے تھے اور اپنے مشن سے پہلے کے جوانی کے دور میں بھی ان کے کسی عورت کے ساتھ غیر اخلاقی تعلقات نہ تھے اور اپنا مشن شروع کرنے کے بعد بھی ان کے متعلق یہ کہا جا تا ہے کہ انھوں نے سوائے اپنی بیوی کے کسی غیر عورت کو ہاتھ تک نہیں لگایا‘‘۔ ( امہات المومنین اور مستشرقین۔۸۱)
اعتراض نمبر۱۶۷
’’جارج بر ناڈ شا‘‘ آزادی فکر کے اول درجہ کے علم بردار ہیں لیکن یہی شخص داعی اسلام کا ذکر نہایت سوقیانہ انداز میں کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے:
" It could never Mahomet to convert the force tribes of Arabia from worshiping itomes to an exalted monotheism but it could not make him say to a pretty woman"
’’محمد ﷺ عرب کے تند خو قبائل کو پتھروں کی پرستش سے ہٹا کر ایک خالص توحید کو منوانے کا عزم تو کر سکتے تھے مگر کسی حسین خاتون کو رد کرنا ان کے بس میں نہیں تھا‘‘
جواب:اہل مغرب ایک انسان کو خدا تو مان سکتے ہیں لیکن کسی اور کو نبوت پر فائز نہیں دیکھ سکتے۔ ہر عیسائی پر روح القدس کا نزول ہو سکتا ہے لیکن یہی روح القدس کسی غیر عیسائی سے تعلق رکھے ‘ عیسائیت اس کو نہیں مانتی۔ یہی رقابت ہی اہل مغرب کو حق کہنے سے بازرکھتی ہے۔ برناڈشا کا مذکور الزام کسی طور درست نہیں،وہ ذات جو اپنی جوانی اور عالم شباب میں اپنی پاکیزگی و پارسائی میں نمونہ عفت و سچائی ہو اور لوگ انھیں الصادق و الامین کے القاب سے پکارتے ہوں وہ ایسی حرکات کا مرتکب نہیں ہو سکتا ہے وہ ذات جس نے اپنی جوانی کے ایام ایک عمر رسیدہ خاتون سے بتا دئیے ہوں اور ان کی موجودگی میں اور شادی نہیں کی۔اور اس وقت عیاش عرب معاشرے میں باکرہ حسین عورتوں کی کمی نہ تھی۔ وہ چاہتے تو ایک سے زیادہ عورتوں سے نکاح کر لیتے مگر کمال یہ ہے کہ ایک باکرہ زوجہ مطاہرہ کے علاوہ باقی سب بیوائیں یا مطلقہ حرم نبوی میں داخل ہیں۔ان سے نکاح کی دیگر حکمتوں کے علاوہ سب سے اہم حکمت تالیف قلبی ہے۔عورتوں کے شوہر غزوات و سرایا میں کام آ گئے توبیوائوں اور مطلقائوں کا سہارا نہ رہا۔ در بہ در کی ٹھوکریں ان کا مقدر بنی اور پھر بھی وہ اسلام کی وفا دار رہیں۔ایسے میں انھیں سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی سہارا تھا ان عورتوں کو حرم نبوی میں جگہ مل گئی۔اسے مستشرقین نا پسند کرتے ہیں۔ نسائی شریف میں حضرت انس ؓ سے مروی آپؐ کا ارشاد ہے کہ ’’ مجھے تین چیزیں پسند ہیں۔نماز، عورت،خوشبو۔ نسائی شریف میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ تین چیزوں کی محبت میرے دل میں رکھی گئی ہے ‘ عورتیں ‘ خوشبو اور آنکھو ں کی ٹھنڈک میری نماز میں ہے ۔‘‘یاد رہے کہ عورت کی پسندیدگی کسی تلذذ جنسی یا عیش و عشرت کے سبب نہیں ہے۔ وہ تو حد درجہ پسند تھی اس لیے کہ اس کا عرب معاشرہ میں کوئی مرتبہ و مقام نہ تھا۔ کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ کئی شوہر ایک ہی بیوی پر اکتفا کرتے تھے۔باپ کے مرنے پر بیٹا اپنی ماں سے شادی کر لیتا۔متعہ کا رواج عام تھا۔یعنی کچھ مدت کے لیے عورت کو اپنا لیا جاتا(بیوی بنا لیا) پھر اس مدت مقررہ کے بعد چھوڑ دیاجاتا خواہ مرے یا جئے اس کی بلا سے ! شوہر کے مرنے کے بعد عورت شادی نہیں کر سکتی تھی ۔شادی اس کے لیے شجرِ ممنوعہ کے مترادف تھی۔ عمر بھر کالا لباس زیب تن رہتا۔ایک کال کوٹھڑی میں بند ہو کر عمر بھر سسکیوں آہوں اور سرد آہیں بھر کر آخر چل بستی۔ کسی کو دکھ ہوتا نہ تکلیف۔ عرب معاشرہ عورتوں کو گنتی میں نہیں لاتا تھا۔ وہ مردوں کے ساتھ ننگے خانہ کعبہ کا طواف کرتیں۔کفارپیدا ہوتے ہی بچیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے۔ اس بے بس اور بے چارگی اور بے یارو مددگار عورت کا پرسان حال آگیا۔وہ مسیحا آگیا جس نے عورت کو مردوں کے برابر حقوق عطا کیے۔زندہ قتل کرنے سے روکا۔دوبارہ شادی کرنے کی اجازت بخشی۔ایک سے چار شادیوں کی اجازت مشروط کر دی۔ اس لیے عورت پسند تھی کہ معاشرے میں اسے بھی جینے کا حق حاصل ہو۔ ظلم و زیادتی کا نشانہ نہ بنے۔جائیداد میں اسے حق نصیب ہوا۔عورت کو معاشرے میں ایک معزز رتبہ عطا کیا حتیٰ کہ ’’ مائوں کے قدموں تلے جنت ہے‘‘ کے فرمان سے وہ اعزاز بخشا جس کی نظیردیگر معاشروں میں نہیں ملتی۔’’جان بیگٹ‘‘ کہتا ہے ’’ آپؐ کا عورتوں کی محبت کو عبادت کے ساتھ جمع کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپؐ کا عورتوں کی معیت کا شوق بالکل معصوم تھا۔( ضیاء النبی۔۷۔۵۴۴)
ان مستشرقین کے پہلوں یعنی کفار نے بھی کہا کہ اس شخص کا مطمح نظر تو صرف عورتیں اور نکاح ہے اگر یہ نبی ہوتے جس طرح کا یہ گمان کرتے ہیں تو نبوت انھیں خواتین کی طرف توجہ کرنے کی فرصت ہی نہ دیتی۔اس پر خود رب العزت کی بارگاہ سے اس اعتراض کا جواب عطا ہوتا ہے۔ اور یکسر مذکورہ الزام توہین آمیز کی قلعی کھل جاتی ہے۔ارشادِ ربانی ہے’’ وَلَقَد اَرسَلنَا رَسُلاََ مِن قَبلِکَ وَ جَعَلناَ لَھُم اَزوَاجاََ و َ ذُرِ یَّۃ( الرعد ۳۸)’’ اور بے شک ہم نے بھیجے کئی رسول آپؐ سے پہلے اور بنائیں ان کے لیے بیویاں اور اولاد‘‘۔
ہیکل (حیات محمد ۔۶۵۸ بحوالہ نسائی :باب حب النساء ) لکھتے ہیں ۔ ترجمہ ( دنیا سے میرے لیے عورتیں اور خوشبو محبوب بنائی گئی اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں بنائی گئی ) اس حدیث پاک کے معانی میں دو قول بیان کیے جاتے ہیں ۔ ایک یہ کہ حب ازواج زیادہ موجب ابتلا و تکلیف اور بمقتضا ئے بشریت آنحضرت ﷺ کے ادائے رسالت سے غافل ہونے کاا ندیشہ ہے مگر اس کے باوجود حضور ﷺ اس سے کبھی بھی غافل نہیں رہے اس سے معلوم ہوا کہ حب نساء میں حضور ﷺ کے لیے مشقت زیادہ اور اجر عظیم ہے ۔ دوسرا یہ کہ حب نساء اس واسطے ہوئی کہ آپ ﷺ کے خلوات اپنی ازواج کے ساتھ ہوں اور مشرکین جو آپ ﷺ کو ساحر و شاعر ہونے کی تہمت لگاتے تھے ، وہ جاتی رہے ، بس عورتوں کا محبوب بنایا جانا آپ ﷺ کے حق میں لطف ربانی ہے اور ہر صورت یہ حب آپ ﷺ کے لیے باعث فضیلت ہے ۔ اور اس حدیث کے آخر ی جملے میں اس امر کی طرف اشارہ بھی ہے کہ وہ محبت آنحضرت ﷺ کے لیے اپنے پروردگار کے ساتھ کمال مناجات سے مانع نہیں بلکہ حضور ﷺ باوجود اس محبت کے اللہ تعالیٰ کی طرف ایسے متوجہ ہیں کہ اس کی مناجات میں آپ ﷺ کی آنکھیں ٹھنڈی رہتی ہیں اور ما سوا میں آپ ﷺ کے لیے ٹھنڈک نہیں پس حضورﷺ کی محبت حقیقت میں صرف اشارہ ہے کہ حب نساء جب حقوق عبودیت کی ادائیگی میں مخل نہ ہو بلکہ انقطاع الی اللہ کے لیے ہو تو وہ از قبیل کمال ہے ورنہ از قبیل نقصان ہے ۔
ایک اور تشبیہ عورت اور پسلی کے بارے میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا ’’ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی میری نصیحت قبول کرو کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہے ۔‘‘ یہاں ایک غلطی کا ازالہ ضروری ہے کہ بہت سے جید مفسرین نے بھی استعارہ کی بجائے امر واقعہ کے طور پر لیا ہے اور اس سے عورت کے فروتر مقام پر استناد کیا ہے ۔ در حقیقت اس حدیث میں آدم ؑ و حوا ؑ کی تخلیق کا ذکر نہیں ہے ( جیسا کہ دوسرے بہت سے مفسرین کرام نے بھی وضاحت کی ہے ) حدیث پاک کا مآل یہ ہے کہ عورت اپنی فطری ساخت کی وجہ سے خصوصی طور پر حسن سلوک کی مستحق ہے ۔ ایک دوسری حدیث سے بھی اس تفسیر کی تائید ہو جاتی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ عورت پسلی کی مانند ہے اگر تم اس کو سیدھا کرو تو اسے توڑ دو گے ‘‘۔ واضح رہے کہ امام بخاری اس حدیث کو کتاب النکاح باب المداراۃ مع النساء ( باب عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا بیان میں لائے ہیں اس سے بھی یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ عورتیں حسن سلوک کی زیادہ مستحق ہیں ۔ اسلام نے ماں کی عظمت اور والدین کے مقام کو چار چاند لگا دئیے ہیں ۔ سورہ لقمان ۱۴’’ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے ( اس لیے ہم نے نصیحت کی کہ ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے ۔‘‘
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتا ہے اور جہاد کے لیے اجازت کی درخواست کرتا ہے ،مجھے جہاد میں حصہ لینے کا شوق ہے لیکن میں عاجزہوں ‘ آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے ؟ اس نے جواب دیا : میری ماں زندہ ہے ۔ رسول اکر م ﷺنے فرمایا اس کے ساتھ حسن سلوک کر کے اللہ سے ملو ۔ اس کی خدمت کرو کہ مائوں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ۔ ( محمد رسول اللہ اکرم طاہر ۔۲۸۰)
قرآن کریم نے عورت کی عزت و عظمت کو بلند کیا ۔ پورے قرآن مجید میں کسی سورہ کا نام ’’ رجال‘‘ نہیں ہے جبکہ اس کے برعکس عورت کے نام پر النساء موجود ہے نیز عورت کے حیض و نفاس ، روزہ حج ،نماز اور وراثت سے حصہ کی مالکہ کے مسائل وضاحت سے بیان کیے ہیں ۔ طلاق ، دوسری شادی کی اجازت ، رضاعت و مصاہرت و غیرہ کے احکام سے روشناس کیا ۔ اپنے فرائض و حقوق کے ساتھ مرد کے حقوق و فرائض کے ادائیگی کی تعلیم دی اسلام نباتات و جمادات اور جانداروں کی حفاظت کی تلقین کرتا ہے جبکہ انسانیت کے لیے ہر قسم کی آسودگی و سہولت کا داعی ہے ۔ صرف اور صرف عورتوں کی کس مپرسی کی وجہ سے ان کا بدرجہ اتم خیال رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے نہ کہ عیش و عشرت اور جنسی تلذذ سے شاد کام ہونے کا سبب تھا ، اسلام نے عورت کو جائز مقام و مرتبہ عطا کیا ہے اس پر اسلام کے نام لیوا خوش ’خرم ہیں کہ اسلام نے عظیم کا م سر انجام دیا ہے ۔ شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...