Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم |
حسنِ ادب
سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم

بنات النبی (اثبات اربعہ)
ARI Id

1689956752314_56117764

Access

Open/Free Access

Pages

۳۳

بنات النبی اثبات بنات اربعہ
اعتراض نمبر۱۶۸
شیعہ آپؐ کی ایک بیٹی تسلیم کرتے ہیں اور باقی گرو ہ چار بیٹیاں مانتے ہیں۔
جواب: حضرت سیدنا ابن عباس سے روایت ہے کہ آپؐ کے پہلے فرزند اعلان نبوت سے پہلے مکہ میں پیدا ہوئے۔ وہ قاسم تھے اور آپ کی کنیت ابو القاسم انھیں سے تھی۔ پھر جو اولاد ہوئی وہ سیدہ زینب، سیدہ رقیہ، سیدہ فاطمہ اور سیدہ ام کلثوم تھیں پھر جو اسلام میں (اعلان نبوت کے بعد) پیدا ہوئے وہ حضرت عبد اللہؓ تھے جن کا نام طیب و طاہر رکھا گیا۔۔( اثبات بنات اربعہ ص ۲۷)
ابن اسحاق نے کہا کہ نبی کریم کی تمام اولاد پاک سیدہ خدیجہ ؓ کے بطن اقدس سے ہے سوائے حضرت ابراھیم ؓ کے (حضور کے ایک صاحب زادے جو ماریہ قبطیہ سے تھے)۔ حضرت قاسم آپ کے صاحب زادے تھے جن سے آپ کی کنیت (ابو القاسم) تھی اور طیب و طاہر اور سیدہ زینب ، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ۔(حوالہ بالا)
سورہ کوثر کی شان نزول میں اکثر مفسرین نے آنحضرت ؐ کی چار شہزادیاں تحریر کی ہیں جن میں شیعہ کتب کے حوالہ جات بھی دیے ہیں۔
اما م قسطلانی فرماتے ہیں کہ’’ تم جان لو کہ نبی مکرم کی جملہ اولاد جن پر علماء کا اتفاق ہے ان میں سے چھ ہیں۔ان میں سب سے پہلے حضرت عبداللہ و حضرت قاسم اور آخر حضرت ابراھیم اور آپ ؐ کی چار صاحب زادیاں ہیں جن میں بڑی زینبؓ ہیں اور حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ ان سے اصغر ہیں ‘ یہ صحیح قول ہے اور چاروں صاحب زادیوں نے اسلام کا زمانہ پایا ہے اور آپؐ کے ساتھ ہجرت مدینہ کی ہے۔
امام یوسف بن اسماعیل نبھانی فرماتے ہیں کہ آپؐ کی چار صاحب زادیاں تھیں۔(۱) حضرت زینبؓ (۲) حضرت رقیہؓ (۳) حضرت ام کلثومؓ (۴) حضرت فاطمہؓ ۔ آپ کے صاحب زادوں کی تعداد تین ہے۔(۱) سیدنا قاسم (۲) سیدنا ابراھیم حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے آپ کے صاحبزادے ہیں باقی چھ اولادیں آپ کی حضرت خدیجہ کے بطن سے ہوئی (۳) سیدنا عبد اللہ۔۔ (حوالہ بالا ص ۴۶)
اس آیت یعنی یا ایھاالنبی ۔۔۔ نساء المومنین (سورۃ الاحزاب۔۵۹) میں حضور ﷺ کی چار صاحبزادیوں کا ذکر آیا ہے قرآن نے ’’ بنت ‘‘ایک صاحبزادی نہیں فرمایا بلکہ جمع کا صیغہ بنات استعمال کیا جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حضور ﷺ کی ایک صاحبزادی نہیں تھی بلکہ متعدد صاحبزادیاں تھیں ۔ شیعہ کی معتبر کتابوں میں بھی اس بات کی تصریح موجود ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ کے بطن سے آپ ﷺ کی چار صاحبزادیاں تھیں درج ذیل حوالے پیش خدمت ہیں۔
شیعہ علمائ: ملاباقر مجلسی شیعہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو چار صاحب زادیاں عطا کیں (۱) سیدہ زینبؓ (۲) سیدہ رقیہؓ (۳) سیدہ ام کلثوم ؓ(۴) حضرت فاطمۃ الزھرؓا۔
اصول کافی: یہ شیعہ کی معتبر ترین کتاب ہے۔ اس میں ہے کہ ’’ نبی ؐ نے حضرت سیدہ خدیجہؓ سے شادی کی جب کہ آپؐ کی عمر مبارک ۲۵ سال تھی اور خدیجہ کے بطن سے پہلے قاسمؓ، رقیہؓ ، زینبؓ ،ام کلثومؓ اور بعثت کے بعد طیب ؓو طاہرؓ اور فاطمہ علیہما السلام پیدا ہوئیں۔
قرب الاسناد لابی العباس: حضرت جعفر صادق اپنے والد گرامی امام باقر سے روایت کرتے ہیں ۔انھوں نے فرمایا کہ حضرت خدیجہؓ سے رسول اللہﷺ کی اولاد پیدا ہوئی۔ قاسم، طاہر، ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ اور زینب ۔پھر نکاح کیا حضرت علیؓ نے فاطمہؓ سے اور نکاح کیا ابو العاص نے زینب ؓ سے۔حضرت عثمان نے ام کلثومؓ سے نکاح کیا۔انھوں نے دخول نہیں کیا تو وہ فوت ہو گئیں۔اور نکاح کیا حضرت عثمان ؓسے رسول اللہ ﷺنے حضرت ام کلثوم کی جگہ رقیہ ؓ کا۔( حوالہ بالا۔ص ۱۳۰)
مناقب آل ابی طالب: ’’ حضور ؐ کی اولاد حضرت خدیجہ ؓسے دو لڑکے قاسم اور عبد اللہ جن کو طیب و طاہر بھی کہتے ہیں اور انھیں سے چار بیٹیاں پیدا ہوئیں۔سیدہ زینبؓ ، سیدہ رقیہؓ، سیدہ ام کلثومؓ جن کا نام آمنہ ہے (ام کلثوم کنیت ہے) اور سیدہ فاطمہ ؓ ‘‘۔
بحار الانوار: حضرت خدیجہ ؓ کے بطن سے نبی اکرمؐ کی چار شہزادیاں زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ پیدا ہوئیں۔گویا ترتیب میں فرق ہے اور علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے مگر اس پر معترضین سمیت علماء کا اتفاق ہے کہ آپ کی چار بیٹیاں تھیں۔
قرآن کی شہادت: ’’ یَاَ یَّھاَ النَّبِیُّ قُل لِازَوَجِکَ وَ بِنتَکَ وَنِسَاَئِ المُومِنِینَ ‘ (احزاب آیت ۵۹)
’’ اے نبی آپ اپنی ازواج ( مطہرات) اور اپنی بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں کو فرمادیجیے‘‘۔
اس آیت پاک میں عورتوں کی عہد نبوی میں تین اقسام بیان ہوئی ہیں۔ (۱) ازواج النبی (۲) بنات النبی (۳) نساء المومنین
اواج زوج کی جمع ہے۔ عربی میں ایک کے لیے واحد‘ دو کو تثنیہ اور دو سے زیادہ پر جمع بولتے ہیں۔ لہٰذا ازواجک سے ظاہر ہے کہ آپ کی کئی بیویا ں تھیں اور خطاب کیا جا رہا ہے کہ اپنی بیویوں سے کہہ دیں تو یہاں پر آپ کی ازواج خطاب میں شامل ہیں۔ اس سے آگے ’’وائو‘‘ عاطفہ ہے جو مغائرت کے لیے آتا ہے یعنی اس ’’ وائو‘‘ سے پہلا اور دوسرا بیان الگ الگ ہے یعنی ازواج اور بنات میں مغائرت ہے۔
وبَنَاتِکَ بنات بنت کی جمع ہے یعنی دو سے زیادہ ہیں۔ اب آیت مبارکہ کا ترجمہ ہوا کہ ’’ اے حبیب آپ فرمادیجیے اپنی (تمام) ازواج (بیویوں) اور اپنی (تمام) بیٹیوں کو‘‘ جس سے معلوم ہوا کہ جس طرح ازواج دو سے زیادہ ہیں اسی طرح بیٹیاں بھی دو سے زیادہ ہیں۔
(سورہ ابراھیم۴۱) ’’ یُذَبِّحُونَ أ َ بنَاکُم وَ یَستَحیُونَ نَسَاء َکُم‘‘ ( وہ ذبح کر دیتے تمھارے بیٹوں کو اور زندہ رکھتے تمھاری عورتوں کو )
اگرچہ نساء تمام عورتوں پر بولا جاتا ہے مگر اس مقام پر اس سے مراد بیٹیاں ہیں کیوں کہ ابناکم کے مقابلہ پر نساء کم فرمایا گیا تو اس قرینہ نے بیٹیاں متعین کر دیں اور دوسرا واقعۃََ فرعون کا حکم جاری کرنا کہ بیٹوں کو ذبح کرو بھی یہ مفہوم متعین کرتا ہے کہ بیٹیوں کو چھوڑ دو تو یہاں لفظ نساء بول کر بیٹیاں مراد لی گئی ہیں۔ بہ خلاف’’ قل ازواجک و بناتک و نساء المومنین ‘‘ کے کہ یہاں نساء المومنین میں تمام عورتیں مومنین کی مائیں، بہنیں، بیویاں اور بیٹیاں سب مراد ہیں اور آپ ؐ کی بیویاں اور بیٹیاں ازواجک اور بناتک میں متعین ہیں۔ اس وضاحت سے بنتک سے قوم کی بیٹیاں مراد لینا درست نہیں ہے اور بناتک کا لفظ قوم کی بیٹیوں کے لیے ہے۔ نیز شیعہ حضرات جو کہتے ہیں کہ آپؐ کی بیٹی تو ایک ہی ہے تو یہ الزام دو طرح سے غلط ہے ایک تو یہ کہ اس میں لفظ بناتک آیا ہے جس کے معنی کئی بیٹیاں لہٰذا ایک بیٹی کا عقیدہ درست نہیں ہے دوم اگر بناتک کے لفظ سے قوم کی بیٹیاں مراد لی جائیں تو ازواجک سے مراد بھی معاذ اللہ قوم کی بیویاں ہو ں گی جب کہ یہ کسی طرح مناسب و موزوں نہیں کیوں کہ تما م امت کی بیویاں بھی حضور ﷺکی روحانی بیٹیاں ہیں ۔لہٰذا ازواجک سے مراد آپؐ کی ازواج مطہرات ہیں اور بناتک سے مراد آپؐ کی جسمانی بیٹیاں ہیں ۔شیعہ حضرات کا ایک بیٹی کہنا اور باقی بیٹیوں سے انکار جہاں نبی مکرمﷺ کی بے ادبی ہے وہاں قرآن کی آیت کا انکار بھی ہے۔
مولانا محمد اچھروی کی تقریر: وہ فرماتے ہیں (۱) اللہ تعالیٰ نے (اس آیت میں ) تین اقسام کی عورتوں کا ذکر فرمایا اور تینوں پر لفظ جمع استعمال فرمایا۔(۱) ازواج (۲) بنات (۳) نساء المومنین۔ ان تینوں میں سے کسی لفظ میں واحد کا شائبہ نہیں ہے‘ بنت لفظ کہاں سے لائو گے؟ (۲) بنات کا لفظ حقیقی بیٹیوں پر استعمال ہوتا ہے ۔ سوتیلی بیٹیوں پر نہیں ہوتا۔ (۳) بنات کی اضافت اللہ تعالیٰ نے ’’ک‘‘ کی طرف فرمادی تاکہ مصطفی کی خصوصیت ثابت ہوجائے اگر حضرت خدیجہ سے پچھلی لڑکیاں ہوتیں تو بناتِ زَوجِکَ ہوتا وبَنَائِتک میں ’’ک‘‘ اضافی نے مصطفی ؐ کی حقیقی صاحب زادیاں ثابت کر دیں۔( حوالہ بالا۔۱۸ بہ حوالہ مقیاس خلافت حصہ اول)
کسی شخص کی سگی اولاد کے بارے میںکہا کہ وہ اس کی اولاد نہیں ہے اس سے بڑی اذیت اور کیا ہو سکتی ہے اور آپؐ کی سگی بیٹیوں کے متعلق ایسا کہنا کہ یہ ان کی بیٹیاں نہیں تھیں اس سے بڑھ کر رسول اللہ ؐ کو زیادہ تکلیف اور ایذا کون سی پہنچائی جا سکتی ہے۔
اعتراض نمبر۱۶۹
آپؐ کی ایک ہی بیٹی تھی۔ آپؐ کی بیویوں سے جو اور شوہروں سے بیٹیاں پیدا ہوئیں انھیں بیٹیاں کہا گیا ہے۔
جواب: یہ بات قرآن سے ثابت ہے کہ نبی مکرمؐ کی بیٹیاں تین یا تین سے زیادہ ہیں۔ ارشاد خدا وندی ہے ’’ یایھا النبی قل لازواجک و بناتک ونِسِائِ المومنین۔۔۔۔ ( سورۃ الاحزاب۳۳۔۵۹) یا ایھاالنبی قل ازواجک و بناتک و نساء المومنین ۔۔۔۔جلا بیبحن ‘‘( اے نبی مکرم ﷺ ! آپ فرمائیے اپنی ازواج مطہرات کو ‘ اپنی صاحبزادیوں کو اور جملہ اہل ایمان کی عورتوں کو کہ ( جب باہر نکلیں تو ) ڈال لیا کریں اپنے اوپر چادروں کے پلو ۔۔۔‘‘ مذکورہ آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ حضور ﷺ کی اپنی ازواج مطہرات مراد ہیں اور اسی طرح ’’بناتک ‘‘ میں بھی آ پ ﷺ کی اپنی بیٹیاں مراد ہیں نیز جو ایک بیٹی کو مانتے ہیں اور باقی تین انکاری ہیں ‘ ان کا بھی اس آیت مبارکہ سے رد ہو گیا کہ ازواجک اور بناتک ‘ جمع کے صیغے ہیں جو کم از کم دو سے اوپر کو ظاہر کرتے ہیں لہٰذا آپ ﷺ کی صاحبزادی ایک نہیں ہے بلکہ زیادہ ہیں اور اصح قول یہ ہے کہ چار ہیں ۔ وہ شہزادیوں کا انکار کر کے قرآن پاک کی آیت کے منکر ہوئے جاتے ہیں اصل ان کی کوئی ذہنی گرہ ہے صرف اور صرف وہ یہ ہے کہ اگر باقی شہزادیاں تسلیم کر لیں تو حضرت عثمان غنی ؓ کو آپ ﷺ کا داماد ماننا پڑے گا اور اسی طرح ابو العاص کو بھی جبکہ یہ دونوں حضرات خاندان امیہ سے ہیں۔ ان سے دشمنی کے غرض سے وہ اپنے من گھڑت عقیدہ پر ڈٹے ہوئے ہیں اور قرآن کریم کی آیت کے منکر ہو جاتے ہیں ۔ سورہ احزاب کی آیت نمبر ۵ میں یہ حکم دیا گیا ہے ’’ ادعُوھم لِا بائھم ھُوَ اقسط عند اللہ‘‘ ( ان کو ان کے باپوں کے نام سے پکارا کرو یہی بات اللہ کے نزدیک سچ اور انصاف ہے)
یہ حکم ایسے اشخاص سے متعلق ہے جن لوگوں کو ان کے اصلی باپوں کے سوا کسی دیگر تربیت کنندہ کی ابنیت کی نسبت دے کر بلایا کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ احزاب آیت ۵ میں حکم دیا کہ ہر شخص کو اس کے اصل باپ کے نام سے پکارا جائے اور اسی سورہ کے آٹھویں رکوع میں ایسی لڑکیوں کو نبی ؐ کی بیٹیاں بتانا جو آپؐ کے خون سے نہیں تھیں ،کھلا تضاد ہے اور قرآن پاک کے کلام الہٰی ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس میں اختلاف نہیں پایا جاتا۔ لہٰذا اس کلام محکم پر یہ قیاس نہیں چل سکتا کہ شائد بیویوں کی پچھلی شوہروں کی بیٹیوں کو مجازاََ کہا ہو۔ نیز حقیقت کے سامنے مجاز کی کیا قدر وقیمت ہے اور کلام الہٰی کی حکمت کے سامنے انسانی قیاس کی کیا وقعت؟
اس کے علاوہ عربی زبان میں ایسی وسعت ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ بیویوں کی پچھلی بیٹیوں کے لیے الگ لغت موجود ہے۔ قرآن میں ایسی لڑکیوں کے لیے لفظ ربائب استعمال ہو اہے لفظ بنات نہیں۔ المختصر کلام الہٰی کے لفظ بناتک نے علماء نسب کی تحقیقات کی تصدیق فرمادی ہے۔حضرت زینب ؓ نبوت کے اظہار سے کچھ دیر پہلے پیدا ہوئیںایک قول ہے کہ دس سال پہلے پیدا ہوئیں ان کا نکاح ان کے خالہ زاد بیٹے ابو العاص بن ربیع سے ہوا ۔ ان سے ایک بیٹا علی ہوا جو ان کی زندگی میں فوت ہو گیا اور ایک بیٹی امامہ جو زندہ رہی اور حضرت علی ؓ نے فاطمہ ؓ کی وفات کے بعد ان سے نکاح کیا ۔
حضرت رقیہ ؓ : سیدہ زینب ؓ سے چھوٹی تھیں وہ اس وقت پیدا ہوئیں جب رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک ۳۳ سال تھی ۔ امام زہری لکھتے ہیں کہ سیدنا عثمان ؓ سے آپ ﷺ کی صاحبزادی رقیہ ؓ کے ساتھ مکہ مکرمہ میں نکاح کیا ان دونوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی ان سے ایک صاحبزادہ عبداللہ ؓ پیدا ہوا انہی کے نام پر حضرت عثمان ؓ کی کنیت ابو عبداللہ ہوئی ۔ ابن اسحق نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عثمان ؓ کا وصال جمادی الاول سن چار ہجری میں ہوا اس وقت ان کی عمر چھ سال تھی ۔
ام کلثوم : ان کا نام امیہ تھا ۔ بی بی رقیہ ؓ کی وفات کے بعد ان کا نکاح حضرت عثمان ؓ سے ہوا وہ بعثت سے چھ سال قبل پیدا ہوئیں ۔ ان کا وصال شعبان سن نو ہجری میں ہوا ۔
حضرت فاطمہ ؓ : حضرت فاطمہ ؓ کی ولادت نبوت کے پہلے سال ہوئی یعنی آپ ﷺ کی عمر اکتالیس سال تھی ۔ ان کا نکاح حضرت علی ؓ سے ہوا ۔بی بی فاطمہ ؓ کی عمر بوقت نکاح پندرہ سال اور علی ؓ کی عمر اکیس سال تھی ان کا انتقال رسول اللہ ﷺ کے وصال کے چھ ماہ بعد رمضان المبارک سن گیارہ ہجری میں ہوا ۔
ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
اعتراض نمبر۱۷۰
سیدہ رقیہ اور ام کلثوم دونوں ربیبہ تھیں۔ ان دو ناموں سے مخالفین شکوک و شبہات پیدا کر کے دھوکا دیتے ہیں۔
جواب: آپﷺ کے ربائب میں ام المومنین ام سلمہ کی لڑکیاں (۱) درہ (۲) زینب (۳) ام کلثوم اور ام حبیبہؓ کی دختر حبیبہ ہیں۔ دیگر ازواج النبی میں سے کسی کے پہلے شوہر سے کوئی لڑکی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اب یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ام المو منین ام سلمہ ؓکا نکاح نبی مکر م ؐ سے سن ۴ ہجری میں ہوا اور ام المومنین ام حبیبہؓ سے نکاح سن ۶ ہجری میں ہوا۔ اس لیے مندرجہ بالا لڑکیوں کو ربائب ہونے کا درجہ سن ۴ ہجری سے پیشتر حاصل نہیں تھا اور سیدہ زینبؓ بنت النبی کا ذکر غزوہ بدر یعنی سن ۲ ہجری میں فدیہ اسیران میں آتا ہے کہ انھوں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ ؓ کا ہار جو انھوں نے اپنی بیٹی زینب کو جہیز میں دیا تھا ،اپنے شوہر کی رہائی کے لیے بہ طور فدیہ بھیجا تھا اور ام کلثوم اور رقیہ بنات النبی کا ذکر واقعات قبل از ہجرت میں ابو لہب کے خاسرانہ اعمال میں آتا ہے۔
سیدہ ام کلثوم ؓاور سیدہ رقیہ ؓکا ابو لہب کے دو لڑکوں عتبہ اور عتیبہ سے نکاح ہوا تھا۔ ان کی ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کیونکہ وہ نابالغ تھیں ۔اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کی دشمنی میں ابو لہب نے اپنے لڑکوں سے بنات النبی کو طلاق دینے کو کہا‘ انھوں نے ایسا ہی کیا۔
ہرسہ بنات یعنی حضرت زینبؓ، حضرت رقیہ ؓ اور حضرت ام کلثومؓ کی وفات بالترتیب ۸ ہجری، ۲ ہجری اور ۹ ہجری میں آپ ؐ کی حیات میں ہوئی سوائے سیدہ فاطمہ ؓ کے جن کی وفات آپؐ کے وصال کے بعد سن ۱۱ ہجری میں ہوئی جب کہ مذکورہ ربائب ارتحال نبوی کے بعد دیر تک اپنے اپنے گھروں میں آباد تھیں۔ علامہ ابو الحسنات سید احمد قادری فرماتے ہیں کہ اس آیت ( یایھا النبی قل الازواجک و بنات) میں شیعوں کے اس زعم باطل کا رد ہے جو وہ کہتے ہیں کہ حضور کی صاحب زادیاں نہ تھیں سوائے حضرت فاطمہ ؓ کے اور حضرت رقیہ ؓ اور ام کلثوم ؓ دونوں ربیبہ تھیں یعنی حضور کی ازواج پہلے شوہروں کی بیٹیاں لائی تھیں۔ تو آیت کریمہ میں یایھا النبی قل لازواجک و بنتک کیوں فرمایا؟ وبنتک فرمانا تھا تو ثابت ہوا کہ حضور کی متعدد صاحب زادیاں تھیں کم از کم تین ضرور تھیں۔ اس لیے تو جمع مافوق الاثنین پر آتی ہے تو ثابت ہوا کہ حضرات شیعہ کا خیال غلط ہے بل کہ بنات النبی تین تھیں سیدہ زہراؓ، سیدہ رقیہؓ اور سیدہ ام کلثومؓ۔ علیٰ ہذا القیاس تمام مفسرین کرام نے بنات کے لفظ سے حضورؐ کی چار صاحب زادیاں تحریر کی ہیں۔ ( اثبات بنات اربعہ۔۲۰) مذکورہ گروہ (شیعہ حضرات) آپؐ کی بیٹیوں کو ربائب کہہ کر دھوکہ دیتے ہیں ۔اتفاقاََ ان ربائب میں سے دو نام وہی ہیں جو آپؐ کی حقیقی بیٹیوں کے اسماء مبارک ہیں یعنی زینب اور ام کلثوم۔ اگر ناموں کے اشتراک کی وجہ سے یہ بات مان لی جائے تو حضرت رقیہؓ جو آپؐ کی صاحب زادی ہیں ان کے بارے میں یہ گروہ کیا کہے گا۔؟
ان کا نکاح حضرت عثمان غنیؓ سے ہوا تھا۔ان کا انتقال غزوہ بدر کے بعد ہوا تھا۔ان کی وفات سن ۲ ہجری میں ہوتی ہے اور ام سلمہ کا آپؐ سے نکاح سن ۴ ہجری میں ہوتا ہے گویا ام سلمہؓ کی بیٹیاں درہ، زینب اور ام کلثوم سن ۴ ہجری سے قبل ربیبہ نہیں تھیں۔ سیدہ رقیہ ؓ کو شمار میں نہ لانے والے ثابت کریں کہ وہ کس ام المومنین کے بطن سے تھیں جس بنا پر انھیں ربیبہ کا درجہ دیا جا سکتا ہے؟ نیز ربائب نبی مکرمؐ کے بعد دیر تک اپنے اپنے گھروں میں آباد تھیں جب کہ آپؐ کی تمام بیٹیوں کا انتقال سوائے سیدہ فاطمہؓ کے آپ ؐ کی ظاہری زندگی میں ہوا تھا۔
کسی شخص کو اس کی اپنی بیٹیوں کا باپ ماننے سے انکار کر دیا جائے اور اسے اپنی بیٹیوں سے محروم کر دیا جائے اس سے بڑھ کر اس شخص کے لیے اور اذیت کیا ہو سکتی ہے؟ عام آدمی کے بارے میں ایسا نہیں کہا جاسکتا چہ جائیکہ آنحضرتؐ کے بارے میںیوں کہا جائے لہٰذا اس گروہ کو یہی کہا جا سکتا ہے کہ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
حیات القلوب میں ہے ’’ پیش از آنحضرت زوجہ ابی سلمہ بن عبدالاسد بود ابو سلمہ دختر عبد المطلب بود و ام سلمہ ازو زنیب و عمرراہم رسانند و عمر در جنگ جمل در خدمت امیر المومنین بود ‘ اورا والی بحرین گردانند ‘‘
دوم شیخ طبرسی وغیرہ نے روایت کی ہے کہ پہلی بیوی جو حضور ﷺ نے تزویج کی وہ حضرت خدیجہ ؓ بنت خویلد تھی اس وقت آپ ﷺ کی عمر پچیس سال تھی ۔ اس سے قبل خدیجہ ؓ کی ایک لڑکی تھی پھر انہوں نے ابو ہالہ سے نکاح کیا تھا اس سے بھی ہند نامی ایک بیٹا تھا اس کے بعد حضور ﷺ نے خدیجہ ؓ سے نکاح کیا اور اس کے بیٹے ہند کی تربیت کی ۔ ان عبارات سے ثابت ہوا کہ پہلے شوہروں سے ایک بیٹی جس کا نام ملا صاحب نے نہیں بتایا اور ایک بیٹا ہند نامی تھا جنہیں حضور ﷺ نے پرورش کی نیز زینب اور عمر دو لڑکیوں کا پتہ چلتا ہے جو پروردہ تھیں ۔ ان میں سے کسی کانام رقیہ اور ام کلثوم نہیں تھا جبکہ مخالف گروہ رقیہ ‘ ام کلثوم اور زینب حضور ﷺ کی پروردہ کہتے ہیں ۔ ۔۔۔۔ زینب نام کی ایک لڑکی ہے لیکن جو بی بی زینب ؓ ہے وہ حقیقی لڑکی ہے جس کی تاریخ شاہد ہے ۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی الوہیت سے متعلق مناظرہ کرنے یمن سے تین پادری ۔۔ عاقب ‘ عبدالمسیح اور ابو حارثہ آئے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم حضرت عیسیٰ ؑ کو حضرت آدم ؑ کی طرح انسان نہیں مانتے تو آئو ہم دونوں فریق اپنے بیٹوں ‘ عورتوں اور اپنی جانوں کو پیش کریں پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ جھوٹوں پراللہ کی لعنت ہو ۔ اس سے عیسائی گریزاں ہوئے لیکن آپ ﷺ حسنین کریمین ‘ فاطمہ اور حٗضرت علی کو لے آئے اگر حضور ﷺ کی صاحبزادیاں ہوتیں تو انہیں مباہلہ میں لاتے ۔ یہ مباہلہ بقول ’’ جامع عباسی ‘‘ ۲۴ ذوالحج سن دس ہجری میں ہوا ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اس وقت حضرت ابراہیم ؑ ( آپ ﷺ کے فرزندتھے ) جو اس وقت زندہ تھے انہیں لائے تھے ‘ کیا ان کو نہ لانے کے سبب آپ ﷺ کی اولاد سے انہیں خارج کر دیاجائے ؟ ۲ ۔ اس واقعہ سے سوا برس پہلے ان تینوں صاحبزادیوں میں سے کوئی زندہ نہ تھیں ‘ سب انتقال کر گئی تھیں اگر وہ نہ مانے تو توجیح اس وقت پیش کریں جس سے ان تینوں صاحبزادیوں کا سن دس ہجری میں موجود ہونا ثابت فرمائیں ۔
قرآن کریم کا حکم ہے ادعو ابا ء ھم لا با ئھم من اقسط عنداللہ ‘‘(سورۃ الاحزاب۔۵)اولاد کو ان کے ابا سے منسوب کر کے پکارو اللہ تعالیٰ کے ہاں یہی احسن طریقہ ہے اگر وہ صاحبزادیاں حضور ﷺ کی نہ تھیں (نعوذ باللہ ) تو حضور ﷺ انہیں بیٹیاں کہہ کر کیا قرآن پاک کے صریح خلاف فرمایا ۔ ( معاذ اللہ )
اسم مبارک
تاریخ ولادت
نام شوہر
سال نکاح
تاریخ وفات
اولاد
حضرت زینب
دس برس قبل نبوت
حضرت ابو العاصؓ
قبل نبوت
۸ ہجری
علی بن ابو العاص
حضرت رقیہ ؓ
۷ سال قبل نبوت
حضرت عثمانؓ
سن ۵ ہجری سے قبل
رمضان ۱۰ ہجری
عبداللہ بن عثمان
حضرت ام کلثومؓ
۶ سال قبل نبوت
حضرت عثمانؓ
سن ۳ ہجری
۹ ہجری بعمر
کوئی اولاد نہیں
حضرت فاطمہ
۵ سال قبل نبوت
حضرت علی ؓ
سن ۱ ہجری
۱۰ ہجری، بعمر ۱۸ سال
حسن ‘ حسین ‘
زینب ‘ ام کلثوم
اعتراض نمبر۱۷۱
بعض کہتے ہیں کہ سیدہ رقیہ ؓ اور سیدہ ام کلثومؓ واقعی حضورؐ کی بیٹیاں تھیں لیکن آپؐ نے انھیں (معاذ اللہ) ایک منافق اور فاسق کے ساتھ بیاہ دیا تھا چناں چہ نعمت اللہ الجزائری نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ’’ اختلاف کا عثمان کے نکاح میں ان دونوں صاحب زادیوں کے یکے بعد دیگرے آنے کا کوئی اثر نہیں پڑتا کیوں کہ عثمان ان لوگوں میں سے تھے جو حضورؐ کے زمانہ میں بہ ظاہر مسلمان اور بباطن منافق تھے۔ رسول اللہ ؐ کے ظاہری احکام کے مکلف تھے جیسا کہ ہم ہیں اور آپؐ منافقین کے دلی طور پر مومن ہو جانے کے خیال سے ان سے میل جول رکھتے تھے اگر رسول اللہ حقیقی ایمان کا ارادہ فرماتے تو بہت تھوڑے لوگ خاص مومن نکلتے کیوں کہ صحابہ کرام کی غالب اکثریت اس زمانہ میں منافق تھی۔( امہات المومنین از حکیم محمود احمد ظفر۔۸۲)
جواب: کوئی عام شخص بھی اپنی بیٹی کسی برے آدمی کی زوجیت میں دینا گوارا نہیں کرتا، منافق کے ساتھ بیاہنا تو دور کی بات ہے تو پیغمبر اسلامؐ اپنی بیٹیوں کو نفاق و فسق کی برائیوں میں کیسے دھکیل سکتے ہیں۔ انھیں حضرات کی کتابوں میں مرقوم ہے کہ ’’ نبی کریم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنی پاک دامن بیٹی کا کسی فاسق کے ساتھ نکاح کرے اس پر ہر روز ایک ہزار لعنت نازل ہوتی ہے اور اس کا کوئی عمل آسمان کی طرف نہیں چڑھتا اور نہ ہی اس کی کوئی دعا قبول ہوتی ہے اور نہ ہی اس سے کوئی فدیہ یا معاوضہ قبول کیا جاتا ہے‘‘۔ ( امہات المومنین۸۲ بہ حوالہ ارشاد القلوب)
یہ بات سر تا پا باطل ہے۔ اس کا رد قرآن کریم سے ثابت ہے ۔ارشاد ربانی ہے ’’ الخبیث للخبیثن و الخبیشون للخبیشت و الطیبت للطیبین۔۔۔‘‘
(ترجمہ) ’’ ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لیے اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لیے ہیں اور پاک دامن عورتیں پاک مردوں کے لیے اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں‘ یہ مبرا ہیں ان تہمتوں سے جو (ناپاک) لگاتے ہیں ۔ان کے لیے ہی (اللہ کی) بخشش اور عزت والی روزی ہے‘‘۔
اس آیت کریمہ میں الزام لگانے والوں کے لیے ایک اصول بتا دیا ہے کہ ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لیے اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لیے ہیں۔آپ کی صاحب زادیاں جو طاہر وطیب ہیں اور آپؐ کا داماد عثمان ذوالنورین ؓہے۔ وہ داماد جو داماد رسول ہے ان کی پاک دامنی پر شک کرنا اپنی بد بختی اور اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن بنانا ہے۔ نیز ان کے بارے میں ایسے خیالات رکھنا‘ نبی مکرم کو اذیت پہنچانا ہے اور جو اللہ اور اللہ کے رسول کو ایذا دیتا ہے ۔ اس کا انتقام اور سزا خود مالک حقیقی نے مقرر رکھی ہے ۔ ارشاد ربانی ہے۔
’’ ان الذین یوذون اللہ ورسولہ لعنھم اللہ فی الدنیا و الآخرۃ واعدلھم عذاباََ مھینا‘‘ (سورۃ الاحزاب۔۵۷)ترجمہ: ( بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں۔ان پر دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اللہ کی لعنت ہے اور اللہ نے ان کے لیے اہانت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے ‘‘۔
عثمان غنی ؓمشرف بہ اسلام ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کی تحریک پر وہ ایمان لاتے ہیں ۔ وہ ابوبکرؓ جن کا انبیاء کرامؑ کے بعد کا درجہ ہے۔ حضرت عثمان ؓسے مدت العمر ان کے خوشگوار تعلقات رہے۔ اگر عثمانؓ میں نفاق کی کوئی علامت پائی جاتی تو ابو بکرؓ کب کے انھیں چھوڑ چکے ہوتے مگر ایسا نہیں ہوا۔ دوسری بات یہ کہ ایک بار کسی طور آدمی دھوکا کھا سکتا ہے بار بار نہیں۔ لیکن نبی مکرم ﷺاپنی بیٹی کی وفات کے بعد دوسری بیٹی حضرت عثمان ؓکی زوجیت میں دے دیتے ہیں ۔کیوں؟
یہ حضرت عثمانؓ کے ایمان کامل کی قوی دلیل ہے ۔ اگر ایمان کامل نہ رکھتے ہوتے تو آپ ؐ ان سے اپنی دوسری بیٹی بیاہ نہ دیتے؟
ارشاد نبوی نے مہر ثبت کردی۔ حضرت ابو سعید الخدری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا’’ میں نے اپنی ازواج میں سے کسی عورت سے نکاح نہیں کیا اور نہ اپنی کوئی بیٹی کسی کے نکاح میں دی ہے مگر اس اجازت سے جو جبریل امین اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر میرے پاس آئے (یعنی اللہ تعالیٰ کی اجازت سے میں نے ایسا کیا)‘‘ ( امہات المومنین۔۲۸)
طبرانی نے معجم میں ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ ’’ رسو ل اللہ نے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی کہ اپنی کریمہ ( رقیہ) کا نکاح عثمان بن عفان سے کردوں‘‘۔
سعدیٰ بن کرز صحابیہ نے حضرت عثمان ؓ اور رقیہؓ کی شان میں اشعار کہے ان کا ترجمہ یہ ہے ’’ اللہ تعالیٰ نے عثمان باصفا کو اپنے قول سے کہ ( اللہ تعالیٰ حق کی طرف ہدایت دیتا ہے) ہدایت اور رہنمائی بخشی اور حضورؐ نے اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کردیا ‘ آپؐ ایسے چودھویں کے چاند کی طرح تھے جو افق میں سورج کو شرما رہے ہوں۔( اثبات بنات اربعہ۔۸۷)
حضرت ام کلثومؓ ۹ ہجری میں وفات پا گئیں اور ان سے کوئی بچہ پیدا نہ ہوا ۔پھر رسول اللہ نے فرمایا’’ اگر میرے پاس تیسری کنواری لڑکی بھی ہوتی تو ( یکے بعد دیگرے) اس کا نکاح بھی عثمان ؓ ہی سے کر دیتا‘‘۔( حوالہ بالا۔۴۱)
ایک اور روایت میں ہے کہ ’’ اگر میرے پاس دس لڑکیاں بھی ہوتیں تو ( یکے بعد دیگرے) میں عثمان کے ہی نکاح میں دے دیتا ‘‘۔ ( حوالا بالا۔۹۴)
شان عثمانؓ کی گستاخی کرنے پر حضرت علیؓ کا انتباہ: روایات میں آتا ہے کہ ایک شخص نے حضرت علیؓ کے سامنے کہا کہ حضرت عثمان ( نعوذ باللہ) جہنمی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تجھے کیسے معلوم ہوا؟ اس نے کہا انھوں نے نئی بات ایجاد کی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تیری کوئی بیٹی ہو تو کیا اس کی شادی بغیر مشورہ کیے کرے گا اس نے کہا ہر گز نہیں۔ تب( علیؓ) نے فرمایا تو کیا میری رائے حضوراکرمؐ کی رائے جو انھوں نے اپنی دو بیٹیوں کے بارے میں کی اس سے بہتر ہو سکتی ہے اور تو نے مجھے حضورؐ کی یہ بات بتا کر کہ جب حضور کسی کام کا ارادہ فرماتے تو عزوجل کی طرف رجوع کرتے تھے یا نہیں؟ اس شخص نے کہا کہ حضورؐ رجوع فرمایا کرتے تھے۔ حضرت علی ؓنے فرمایا: کیا اللہ عزوجل نے آپ کو خیر رائے دی یا نہیں ؟ اس نے کہا: بے شک اللہ عزوجل نے نبی کریمؐ کو خیر کی رائے دی۔ حضرت علی ؓنے فرمایا تو پھر تو مجھے بتا کہ کیا اللہ عزوجل کی رائے حضورﷺ کی دو بیٹیوں کی شادی کے معاملے میں درست نہیں تھی اور اگر تونے کبھی دوبارہ حضرت سیدنا عثمان ؓ کی شان میں گستاخی کی توہین کی یا تو میں تیری گردن اڑا دوں گا ۔( سیرت خدیجہ الکبریٰ ازمحمد حسیب القادری۔۱۰۲۔۱۰۱)
ایسے شقی القلب اور گستاخ کی بات کو کیونکر تسلیم کر سکتے ہیں۔ الزام دھرا جس کی بنیادی غلطی اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ اس بد بخت نے یہ مان لیاکہ سیدہ رقیہؓ اور سیدہ ام کلثومؓ واقعی حضورؐ کی بیٹیاں ہیں جب کہ دوسرے اس کے ہم نوالہ و ہم پیالہ انھیں ربیب کہتے ہیں اور صرف سیدہ فاطمہؓ ہی کو آپؐ کی بیٹی کہتے ہیں۔یہ ایک دوسرے کا رد کر رہے ہیں۔ بایں عقل و دانش بیاید گریست۔
اعتراض نمبر۱۷۲
حضرت عثمان ؓ اس لیے مسلمان ہوئے کہ رسول اللہﷺکی صاحب زادی پر عاشق ہوئے اور نکاح کا اقرار ہوا ۔( نعوذ باللہ) ( ن۔ ۱۱۔۴۸۹)
جواب: عرب معاشرے میں معمولی سے معمولی بات پر جھگڑا ہونا معمول کی بات تھی۔ ان کی تلواریں بے نیام ہو جاتیں اور یہ لڑائی صدیوں پر محیط ہوتی۔ سالہا سال قتل وغارت کا بازار گرم رہتا ۔ یہ تو معمولی باتو ں کا حال ہے اور اگر کوئی گھنائونا واقعہ پیش آتا تو لڑائی جھگڑے کا یہ سیل کبھی رکنے کا نام نہ لیتا۔ مذکورہ گھنائونا فعل قابل برداشت نہیں ہو سکتا تھا اور وہ بھی بنو ہاشم کے سردار قبیلہ سے متعلق ۔ وہ کبھی خاموشی سے بیٹھنے والا نہیں تھا۔ حضرت حمزہ ؓ نے ابو جہل کے سر پر کمان ماری اور سر پھوڑدیا۔ باقی لوگ حمایت میں اٹھنا چاہتے تھے مگر ابو جہل نے روک دیا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ وہ نبی مکرمﷺ کے ساتھ گستاخی سے پیش آیا تھا۔ اس گھنائونے فعل پر اور بے حیائی کی حرکت پر بنو ہاشم کا قبیلہ اور اس کے حلیف قبائل خاموش تماشائی بنے رہے‘ بعید از قیاس ہے اور عربوں کے مزاج کے خلاف ہے۔
دوم: وہ لوگ جو اسلام میں داخل ہوئے وہ حضرت عثمانؓ کے ساتھ عمر بھر رہے۔ ان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے تھے اور خاص طور پر حضرت ابوبکرؓ جن کی دعوت اور ترغیب سے حضرت عثمانؓ نے اسلام قبول کیا تھا وہ مدت العمر عثمانؓ کے ساتھ رہے۔ انھیں اگر اس فعل بد کی خبر تھی تو انھوں نے عثمان ؓ کا با ئیکاٹ کیوں نہ کیا۔ وہ ابو بکر ؓ اپنا تمام اثاثہ نبی مکرم ﷺ کے قدموں میں لا کر ڈھیر کر دیتا ہے اور اہل و عیال کو چھوڑ کر مدینہ ہجرت کر جاتے ہیں ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے ساتھ کوئی بھی مخلص نہ تھا۔ (نعوذ باللہ)
سوم: اتنا سنگین فعل سر زد ہوتا ہے اسے یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور عثمان ؓ کے نکاح میں پہلی بیٹی کی وفات کے بعد دوسری بیٹی دے دی جاتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ کو وحی ہوتی ہے کہ رقیہ ؓ کا نکاح عثمان ؓ سے کردے۔ اس الزام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐ اور حضرت عثمانؓ کی توہین موجود ہے۔ ایک تیر سے کئی نشانے کیے۔ یہ سچ ہے کہ بد فطرت سے خیر کی توقع نہیں رکھی جاسکتی ہے۔ اہل علم اس الزام کی حقیقت کو جان سکتے ہیں۔
حضرت رقیہؓ کی بیماری کے سبب حضرت عثمان ؓ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوئے مگر نبی کریم نے انھیں غنیمت عطا کی۔ کیا ایسی نوازشات ایسے فعل سر زد ہونے پر دی جاتی ہیں۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر عثمان کے قتل کی افواہ پھیلی۔ آپ نے تمام موجود صحابہ کرامؓ سے بیعت لی کہ عثمان ؓ کا بدلہ لیں گے۔ تاریخ میں یہ واقعہ بیت رضوان کے نام سے مشہور ہیں ۔ شہادت کے موقع پر عثمانؓ نے فرمایا’’ میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہیں کر سکتا۔ مجھے یہ منظور نہیں کہ میں رسول اللہ کا خلیفہ ہو کر امت کا خون بہائوں ۔میں خلیفہ نہ بنوں گا جو امت محمدؐ میں خون ریزی کی ابتداء کرے۔میں مکہ معظمہ میں بھی نہیں جا سکتا کیوں کہ میں نے آقا کریمؐ سے یہ سنا ہے کہ قریش میں کوئی آدمی حرم میں فساد کرے گا تو اس پر آدھی دنیا کا عذاب ہوگا۔ میں رسول اللہ ؐ کی اس وعید کا کبھی مورد نہیں بن سکتا ۔ باقی رہا شام کا ارادہ تو میرے لیے یہ کس طرح ممکن ہے کہ میں اپنے دار ہجرت اور رسول اکرمؐ کے پڑوس کی نعمت کو پس پشت ڈال دوں اور محمدؐ کی ہمسائیگی ترک کردوں‘‘۔ ایسے اللہ کے برگزیدہ بندے سے ایسی توقع کی جاسکتی ہے کہ ایسے فعل کا مرتکب ہواور خون ریزی اور قتل و غارت کا میدان سج جائے۔
جب آپؐ کو اپنی شہادت کا یقین ہو چلا تو آپ ( عثمانؓ) نے ابو ثور الفہیمی سے فرمایا: ’’ مجھے اپنے پروردگار سے بہت بڑی امید ہے اور میری دس امانتیں اس کی بارگاہ میں محفوظ ہیں‘‘۔ ان میں سے دو امانتیں یہ ہیں۔(۱) میں نے کبھی بدی کی خواہش نہیں کی۔(۲) میں نے زمانہ جاہلیت میں کبھی زنا نہیں کیا۔( انسانیت موت کے دروازے پر۔ص۔۱۱)وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ میں نے زمانہ جاہلیت اور اسلام میں کبھی چوری نہیں کی اور نہ ہی کبھی زنا کیا اور جب سے میں نے اسلام قبول کیا کوئی جمعہ ایسا نہیں گزرا کہ میں نے اس دن غلام آزاد نہ کیا ہو ۔
اس قسم کا نہایت برا الزام دھرنے کا جھوٹ ایسے اللہ کے نیک اور بر گزیدہ بندے کی شرافت و پاکیزگی اور عفت و پاک دامنی سے نیست و نابود ہو جاتا ہے جس کے لیے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں رہتی۔
مٹا سکیں گی گھٹائیں بھلا ہمیں کیسے
ہزاروں ابر ہمارے سروں سے گزرے ہیں
حضرت فاطمہ ؓ کی عمر مبارک میں اختلاف
آپ کی عمر مبارک میں مورخین کا شدید اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ صحیح تر قول یہ ہے کہ آپ کی ولادت نبوت کے پہلے سال ہوئی جب حضورؐ کی عمر مبارک ۴۱ سال تھی۔( اثبات بنات اربعہ۔۱۱۷)
محمد سلیمان سلمان منصورپوری ( رحمۃ اللعالمین۔۲۔۱۰۸) بہ حوالہ استیعاب لکھتے ہیں کہ حضرت فاطمہؓ کی ولادت نبی مکرمﷺ کی ولادت کے ۴۱ ویں سال میں ہوئی۔
مزید لکھتے ہیں کہ بہ حوالا اصول کافی میں شیخ محمد کلینی نے ولادت سیدہ ؓ سن ۵ نبوت بتائی ہے اور عمر بوقت وفات ۱۸ سال ۷۵ یوم جس میں ۷۵ یوم بعد از وفات نبوی تھے۔ ولادت امام حسن ؓسن ۲ ہجری بتائی ہے ۔اندریں صورت عمر سیدہ فاطمہؓ بہ وقت ولادت امام حسن ؓدس سال ہوتی ہے اور اگر ولادت اما م حسنؓ سن ۳ ہجری مان لی جائے جیسا کہ اسی کتاب کی دوسری روایت میں ہے تب سیدہ ؓ کی عمر ۱۱ سال ہوگی۔ اسی لیے ( سلمان) نے الاستیعاب کی روایت کو ترجیح دی ہے (الاستیعاب کی روایت کے مطابق حضرت امام حسنؓ کی ولادت کے وقت سیدہ کی عمر بالترتیب ۱۳ یا ۱۴ سال ہوگی۔)
شیخ محمد کلینی کے مطابق امام حسن ؓ کی ولادت کے وقت سیدہؓ کی عمر بالترتیب دس یا گیارہ سال ہے۔ اسی کو بنیاد بنا کر بعض نے حضرت عائشہؓ کی عمر کو کم بیان کیا ہے۔ چھ سال میں منگنی اور نو سال میں رخصتی کا ذکر کیا ہے۔ یہ سیدہ فاطمہ کی کم عمری سے جوڑا گیا جب کہ اور روایات سے اس الزام کی تردید ہوتی ہے۔ اگر انھیں دیکھ لیا جاتا تو نہ صرف بی بی عائشہ ؓ کی عمر میں اختلاف پیدا ہوتا بل کہ سیدہ فاطمہؓ کی عمر کا صحیح تر قول بھی معلوم ہو پاتا۔شیخ عبد الحق ( مدارج النبوت۔۱۔۲۴۱) لکھتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ ؓ کی پیدائش ، ولادت رسول اللہﷺ کے ۴۱ ویں سال ہوئی۔ یہ ابوبکر رازی کا قول ہے اور یہ مخالف ہے اس قول کے جسے ابن اسحق نے آپ کی اولاد کے بارے میں بیان کیا ہے کہ حضورﷺ کی تمام اولاد اظہار نبوت سے قبل ہوئی بہ جز حضرت ابراھیم کے۔
امام ابن جوزی نے کہا کہ فاطمہ ؓ کی ولادت اظہار نبوت سے ۵ سال قبل ہوئی اور یہی روایت مشہور تر ہے۔ گویا شیخ نے ابن اسحاق اور امام ابن جوزی کی روایت کو مشہور تر کہہ کے توثیق کردی ہے۔
امام مدائنی نے ولادت سیدہ فاطمہؓ ۵ سال قبل از اظہار نبوت اور عمر بہ وقت وفات۲۹ سال تحریر کی ہے۔ میں نے شیخ عبد الحق کی رائے کو ترجیح دی ہے جس کی تائید امام مدائنی نے بھی کی ہے۔
سیدہ فاطمہؓ کی ولادت آپؐ کی عمرکے ۳۵ ویں سال ہوئی۔ آپؐ نے ۵۳ سال کی عمر میں ہجرت فرمائی اس حساب سے سیدہ فاطمہ ؓ کی عمر بہ وقت ہجرت ۱۸ سال بنتی ہے۔ غزوہ بدر کی واپسی کے بعدان کا نکاح حضرت علی ؓسے سن ۲ ہجری میں ہوتا ہے اس وقت آپ کی عمر ۲۰ سال بنتی ہے۔
بعثت سے۵ سال قبل سیدہ فاطمہ ؓ کی ولاد ت تسلیم کرنے میں روایات موجود ہیں۔ دوسرا یہ کہ تمام الزامات جو اس سلسلے میں لگائے جاتے ہیں سب دم توڑ دیتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ اس سے کسی اور پر جو الزام دھرا جاتا ہے وہ بھی خاک بوس ہو جاتا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر اس روایت کو ترجیح دی جاتی ہے اور ان امور کا جائزہ لیا جاتا ہے جس سے یہ حقیقت نکھر کے سامنے آ جاتی ہے ۔
اول: سیدہ فاطمہؓ کی ولادت جو بعثت کے ایک سال بعد کہتے ہیں اس پر اشکال یہ ہے کہ ان ( فاطمہ) کی کم سنی ( یعنی ۱۲ سال کی عمر) میں شادی قرار پاتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ سیدہ فاطمہؓ کی ولادت بعثت سے ۵ سال قبل ماننے سے سیدہ فاطمہ کی کم سنی کا اعتراض جاتا رہتا ہے۔ اس وقت خدیجہؓ کی عمر سیدہ فاطمہ کی ولادت کے وقت ۵۰ سال بنتی ہے ۔ جس سے تولیدی صلاحیت کا اعتراض ختم ہو جاتا ہے۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ شادی کے وقت خدیجہ ؓ کی عمر چالیس سال نہیں تھی بل کہ ۲۸ سال تھی۔ ڈاکٹر محمد ثنا اللہ ندوی لکھتے ہیں کہ یہ بات ہر کسی کی سمجھ میںآسکتی ہے کہ پچاس سال کی عمر تک تولیدی صلاحیت پائی جاتی ہے اس لحاظ سے حضرت خدیجہ ؓکی عمر اپنی بیٹی کی ولادت کے وقت ٹھیک پچاس سال تھی۔ اور بچے پیدا کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔ عورت کو پچپن سال تک حیض آتا رہتا ہے اس عمر تک تولید کی صلا حیت موجود ہوتی ہے نہ صرف پچاس سال تک ۔ اس عمر والی عورت کو آئسہ اور اس عمر کو سن ایاس کہتے ہیں اگر اس عمر کے بعد حیض آئے جو پہلے جیسا نہ ہو تو وہ استحا ضہ ہے البتہ پہلے کی طرح حیض خالص خون آئے جیسا زمانہ حیض میں آتا تھا ، تو حیض ہے ۔
سوم: بعض حضرت سیدہ فاطمہؓ کی کم عمری کی شادی پر اٹھنے والے سوالات سے دم بہ خود رہ گئے ۔ اس کا جواب نہ بن پایا تو انھوں نے سوچا کہ ایک ایسی اورمحبوب شخصیت کے سر بھی کم سنی کی شادی کا الزام لگائیں جس سے حساب برابر ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں انھوں نے حضرت عائشہؓ کی منگنی۶ سال اور رخصتی ۹ سال کی عمر تحریر کی۔ یک نہ شد دو شد والا معاملہ ہو گیا۔ یہ نہ سوچا کہ یہ الزام حضرت زہراؓ کی بریت ظاہر کرے گا بل کہ یہ الزام دو محبوب ہستیوں کو لپیٹ میں لے لے گا۔ یہ مخالفین نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ۔
اعتراض نمبر۱۷۳
آنحضرت ﷺ کی خواہش تھی کہ ان کے داماد (علی ؓ)ایک ہی بیوی کے ساتھ ازدواجی زندگی بسر کریں جبکہ قرآن کریم چند شرائط کی بنیاد پر چار عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔
جواب: مخالفین کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اوروں کے لیے چار تک کی رخصت ہے جس کے بارے قرآن کریم میں وضاحت موجود ہے اس کے باوجود اپنی بیٹی کے داماد سے خواہش کرنا کہ ایک ہی بیوی کے ساتھ زندگی گزار دیں ، یہ کھلا تضاد ہے ۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں بلکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ﷺ عام حالات میں اس طرح کی عائلی زندگی پسند فرماتے تھے آپ نے خود اس کا نمونہ فراہم کیا ہے ۔ پچاس سال کی عمر تک آپ ﷺ نے صرف حضرت خدیجہ ؓ کے ساتھ ازدواجی زندگی بسر کی اس کے بعد حضرت سودہ ؓ سے نکاح فرمایا اور اس واحد بیوی کے ساتھ پانچ سال گزارے گویا پچپن سال تک آپ ﷺ کے حرم میں ایک ہی بیوی رہی ۔ ازاں بعد آپ ﷺ نے شادیاں کیں جن کے مقاصد بہت سارے تھے مثلا سیاسی معاشرتی تعلیمی ،تشریعی،اجتماعی ،اور تالیف قلبی وغیرہ ۔ یہ مقاصد درپیش نہ ہوتے تو آپ ﷺ ایک بیوی کے ساتھ ہی ساری زندگی گزار دیتے ۔ یہ نہ صرف اپنی اولاد کی خاطر خواہش تھی کہ ان کے شوہر دوسری شادی نہ کریں بلکہ آپ ﷺ نے از خود عائلی زندگی میں یک زوجگی کی ایک خوبصورت مثال پیش کی جس کو دوسروں میںبھی دیکھنا چاہتے تھے اس سے خواہ مخواہ کی شادیاں یا جنسی تلذذ پر مبنی شادیوں کا قلع قمع ہوتا ہے نیز انصاف نہ برتا جائے تو شادی رچا کر گھر جہنم کو نمونہ بن جاتا ہے ۔ شادی کا مقصد دولت کا حصول اور مالی منفعت نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس سے شادی زیادہ دیر تک نہیں چلتی کیونکہ ایسی شادی لالچ اور ہوس پر مبنی ہوتی ہے جب مطلب نکل جائے تو آنکھیں پھیر لی جاتی ہیں ۔زیرک و دانا خواتین شروع دن سے ہی ایسی شادی سے انکار کر دیتی ہیں اس کی مثال حضرت خدیجہ ؓ کے قول مبارک سے ملتی ہے ۔ انہوں نے فرمایا کہ روسائے عرب کے نکاح کے پیشکشیں ٹھکرا دیں کہ ان کی نظر میرے مال پر تھی ۔
اصل واقعہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کو دوسری شادی کرنے سے منع فرمایا اس میں عجیب اسرار و رموز ہیں جو احادیث نبوی سے ظاہر ہیں ۔ احادیث:
حضرت مسور بن مخرمہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ سے سنا کہ آپ ﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا’’ ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے مجھ سے اجازت طلب کی کہ اپنی بیٹی ( یعنی ابو جہل بن ہشام کی بیٹی) کا نکاح علی بن ابی طالب سے کرنے کی ’’ تو میں اجازت نہ دوں گا ،اجازت نہ دوں گا ،اجازت نہ دوں گا‘‘ ۔ البتہ اس صورت میں اجازت دیتا ہوں کہ علی ؓ میری بیٹی کو طلاق دیں اور ان کی بیٹی سے نکاح کر لیں یہ اس لیے کہ میری بیٹی میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو اسے شک میں ڈالتا ہے وہ مجھے شک میں ڈالتا ہے جس بات سے اسے اذیت پہنچتی ہے وہ میرے لیے بھی باعث تکلیف و اذیت ہے ‘‘(مسلم شریف)
۲۔ یہ روایت بھی حضرت مسور ؓ سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ میں کسی حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کرتا لیکن خدا کی قسم ! خدا کے رسول کی بیٹی اور دشمن خدا کی بیٹی ایک مکان میں جمع نہ ہوں گی ،(مسلم شریف)
۳۔ امام زہری سے یہ روایت ماثور ہے کہ فرمایا: میں حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرتا لیکن بخدا اللہ کے رسول ﷺکی بیٹی اللہ کے دشمن کی بیٹی کے ساتھ اکٹھی نہیں رہ سکتی ( حاشیہ تفہیم البخاری ۔ج۔۸۔ص۔۲۴۶)
۴۔ حضرت مسور بن مخرمہ ؓ نے کہا میں نے رسول اللہﷺ کو یہ کہتے سنا حالانکہ آپ ﷺ منبر شریف پر جلوہ افروز تھے بنی ہشام بن مغیرہ نے اجازت طلب کی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا علی ابن ابی طالب سے نکاح کر دیں میں اجازت نہیں دیتا پھر اجازت نہیں دیتا پھر اجازت نہیں دیتا مگر یہ کہ ابن ابی طالب ارادہ کرے کہ میری بیٹی کو طلاق دے دے اور ان کی بیٹی سے نکاح کر لے حضرت فاطمہ ؓ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے جو چیز فاطمہ ؓ کو نا پسند ہے وہ مجھے بھی نا پسند ہے اور جو چیز اس کو اذیت پہنچاتی ہے وہ مجھے بھی اذیت پہنچاتی ہے ۔ (حوالہ بالا)
۵۔ امام حاکم نے صحیح اسناد کے ساتھ سوید بن غفلہ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی ؓ نے حارث بن ہشام سے ابو جہل کی بیٹی جویریہ سے شادی کی خواہش کی اور نبی مکرم ﷺ سے مشورہ لیا تو آپ ﷺنے فرمایا : اس کا حسب نسب پوچھتے ہو ؟ عرض کیا نہیں ، لیکن آپ مجھے اس کے ساتھ نکاح کی اجازت دیں فرمایا : یہ نہیں ہو سکتا ، فاطمہؓ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے اس طرح فاطمہ ؓ کو رنج پہنچے گا حضرت علیؓ نے کہا وہ کام ہرگز نہ کروں گا جو سیدہ کو نا پسند ہو ۔(حوالا بالا )
۶۔ اما م زہری کی ایک اور روایت میں ہے ’’ مجھے ڈر ہے کہ ان کے دین میں فتنہ واقع ہو گا ( اَناَ اَتَخَوَّفُ اَنیُفتَنَ فِی دِینَھاَ ) یعنی وہ غیرت پر صبر نہ کر سکیں گی اور غصہ کی حالت میں اپنے شوہر کے حق میں ان سے وہ صادر ہو جائے جو دین میں ان کے حال کے لائق نہ ہو کیونکہ دراصل عورت کی غیرت کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کو خیال کرتی ہے کہ وہ اس کی سوکن سے زیادہ محبت کرتا ہے مذکور حدیث نمبر ۴ میں دو جملے قابل غور ہیں ایک یہ کہ آپ نے بار بار فرمایا ’’ میں اجازت نہیں دیتا ‘‘ یہ آپ ﷺ کا اس فعل سے نا پسندیدگی کا اظہا ر ہے دوسرا یہ کہ ’’ابن ابی طالب ارادہ کرے ‘‘ اس جملہ میں حضرت علی ؓ کا نام تک نہیں لیا ہے یہ آپ ﷺ کی سخت ناراضی کا اظہار ہے ۔ بظاہر تو لگتا ہے کہ آپ ﷺ نے محض اپنی بیٹی کی خوشنودی کی خاطر حضرت علی ؓ کو دوسری شادی کرنے کی اجازت مرحمت نہ فرمائی جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ ابو جہل اسلام کا بد ترین دشمن تھا آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ یہ میری امت کا فرعون ہے آپ ﷺ کی اس نے قدم بہ قدم مخالفت کی مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے یہاں تک کہ پیغمبر اسلام ﷺاور دین اسلام کو ہمیشہ کے لیے مٹانے کی خاطر بدر کے میدان میں چڑ ھ دوڑا ۔ اس کی بیٹی نے فتح مکہ کے روز سیدنا بلال ؓ کی اذان سن کر کہا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے باپ پر کرم کیا ہے اور اسے گدھے کی ہینگ سننے تک زندہ نہیں رکھا ۔(نبی ﷺ کا گھرانہ ۔ ۲۸۶)
اول اسلام نے چند شرائط کے ساتھ چار بیویوں کو رکھنے کی اجازت دی ہے ۔ حضرت علی ؓ کی خواہش کا باعث بھی یہی شرعی اجازت تھی اور نبی ﷺ نے بھی اس شرعی حق کی قطعاََ نفی نہیں فرمائی جیسا کہ مذکور حدیث نمبر دو میں ہے کہ میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کرتا اور نہ ہی یہ امر آپ ﷺ کی ناراضی کا باعث تھا اصل وجہ احادیث سے واضح ہے کہ خدا کے رسول ﷺ کی بیٹی اور خدا کے دشمن کی بیٹی ایک ساتھ علی ؓ کے گھر میں نہیں رہ سکتیں اس لیے کہ جویریہ بنت ابو جہل کے دل میں اسلام راسخ نہیں ہوا تھا اس نے پوری جڑ نہیں پکڑی تھی اور’’ اسلام میں پورے پورے داخل ہو جائو ‘‘کا بھر پور رنگ نہیں چڑھا تھا جبکہ دوسری طرف حضرت فاطمہ ؓ سر تا پا اسلام کے زیور سے آراستہ و پیراستہ تھیں اس لحاظ سے حضرت فاطمہ ؓ کے ایک ساتھ رہنے کے لیے راسخ الایمان ہو نا ضروری تھا تاکہ ہر قسم کے سابقہ وساوس اور خدشات و تنازعات سے کوئی خطرہ نہ رہے ۔ آپ ﷺ نے ان خطرات کی نشاندہی فرمائی جو آپ ﷺ کے اس فرمان ’’ انا اتخوف ان یفتن فی دینھا ‘‘ سے ظاہر ہے یعنی آپ ﷺ نے فرمایا مجھے اس بات کا ڈر ہے کہیں دین کے معاملہ میں حضرت فاطمہ ؓ کسی پریشانی اور فتنہ میں نہ پڑ جائے یعنی فطری غیرت اور دوسرے دینی امور میں کسی آزمائش و ابتلا میں نہ پڑ جائے ان وجوہات کی بناء پر آپ ﷺ نے حضرت علی ؓکو دوسری شادی کرنے سے منع فرمایا ۔
دوسری وجہ : بعض علماء اس امر کو آپ ﷺ کی خصوصیات میں شامل کرتے ہیں امام جلال الدین سیوطی نے امام ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے لکھا ہے ، ترجمہ ( یعنی یہ امر بعید نہیں کہ حضور کی بیٹیوں پر دوسری شادی کرنے کی ممانعت آپ ﷺ کے خصائص سے ہو ) ( نبی اکرم ﷺ کا گھرانہ ۔۲۸۷)
تیسری وجہ : امام احمد بن محمد بن ابی بکر الخطیب القسطلانی کی کتاب مواہب الدنیا کے ترجمہ سیرت محمدیہ کے حاشیہ ص ۲۶۳ پر ہے اسے شیخین ؓ عنہما اور ابو دوئود ؒ نے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی ؓ پر حضرت فاطمہ ؓ کی زندگی میں دوسری عورت سے شادی اس ارشاد ’’ ما اتکم الرسول فخزوہ وما نھکم عنہ فانتھو ‘‘کی وجہ سے حرام کر دی تھی۔
چوتھی وجہ: حضرت ابو سعید الخدری ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ میں نے اپنی زوج میں سے کسی عورت سے نکاح نہیں کیا اور نہ اپنی کوئی بیٹی کسی کے نکاح میں دی ہے مگر اس اجازت سے جو جبرا ئیل امین اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر میرے پاس آئے ( یعنی اللہ تعالی ٰ کی اجازت سے میں نے ایسا کیا ) ‘‘ ( امہات المومنین۔۲۸)
اعتراض نمبر۱۷۴
اموی دشمنی میںآنحضرت ﷺ کی بیٹی کی نسبت غلط کر دیتے اور حقائق کو چھپاتے ہیں ۔
جواب:علامہ یعقوبی حضور ﷺ کی چار صاحبزادیوں کا قائل ہے مگر ان میں سے وہ صر ف دو کی شادی کا ذکر کرتا ہے ۔ حضرت فاطمہ ؓ کی شادی حضرت علی ؓ سے اور اس رشتہ کو حکم ناطق الہی اور فیصلہ خدا وندی قرار دیتا ہے ۔ حضرت زینب ؓ کی شادی کے سلسلے میں وہ افتراء پردازی کا مرتکب ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ ہجرت نبوی کے وقت طائف میں اپنے شوہر ابو العاص بن بشیر بن عبد دھمان ثقفی کے پاس تھیں یہ محض اموی دشمنی کا نتیجہ ہے کہ صریحاََ جھوٹ بولا کیونکہ زینب ؓ خاندان عبد شمس کے ایک فرد ابو العاص بن ربیع کے نکاح میں تھیں کسی ثقفی کے عقد میں نہیں تھیں۔ اسی نفرت اور تعصب کے نتیجہ میں وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ بدر کے بعد حضرت زینب ؓ کو مکہ سے مدینہ لانے کی سعادت حضرت عباس بن عبدالمطلب ہاشمی کے حصہ میں آئی ۔ سچ تو یہ ہے کہ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے اسی لیے وہ حضرت زینب ؓ کے معاملے میں سن چھ ہجری میں حضرت زید بن حارثہ کے سریہ عیص کے بیان میں حضرت زینب ؓ کے شوہر کا صحیح نام لکھتا ہے اور کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے نکاح کی بناء پر اپنی بیٹی کو ابو العاص بن ربیع کے پاس لوٹا دیا تھا ۔ اسی طرح حضرت رقیہ ؓ اور ام کلثوم کی یکے بعد دیگر ے حضرت عثمان ؓ سے شادی کی بابت بالکل کوئی بات نہیں کرتا کیونکہ اس سے ایک اموی فرد بلکہ پورے اموی خانوادے کو رسول اللہ ﷺ سے نسبت صہارت و ازواج کا شرف نصیب ہو جاتا ہے ۔ اندازہ لگائیے کہ کرے کوئی بھرے کوئی ، کسی کی دشمنی میں رسول اللہ ﷺ کو اذیت دینا کس قدر گھنائونی حرکت ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اور کیا اذیت ہو سکتی ہے کہ عام شخص کی بیٹی کو بھی ایسی نسبت نہیں دی جا سکتی جو محض جھوٹ ہو ۔(نقوش رسول نمبر۔۱۔۵۶۷)
چند سوالات کے جوابات:
بعض کہتے ہیںکہ حضرت فاطمہ ؓ کی شان اتنی بلند ہے کہ جنت کی تمام عورتوں کی سردار صرف ان کو بتایا گیا ہے لہٰذا بنات کا صیغہ حضرت فاطمہ ؓ کی تعظیم کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کو نبی ﷺ سے زیادہ تعظیم سیدہ فاطمہ ؓ کی منظور تھی کہ آپ ﷺ کو تو صیغہ واحد نبی سے نہ کہ انبیاء سے مخاطب کیا اور آپ ﷺ کی بیٹی کے لیے اور وہ بھی بلا اظہار نام جمع کا صیغہ استعمال فرمایا حالانکہ وقت حکم پردہ جو سن پانچ ہجری میں نازل ہوا ، اس وقت آپ ﷺ کی تمام بیٹیاں زندہ اور موجود تھیں ۔ علاوہ ازیں منکر اب تک بتانے سے قاصر ہیں کہ ازواج مطہرات سے حضورﷺ کی کونسی زوجہ مراد ہے اور نساء سے کس مومن کی بیوی ۔ اگر وہ اٹکل پچو سے کسی کا نام لے دے تو پھر اس اعتراض کا جواب کیا دیں گے کہ کیا یہ حکم پردہ دنیا میں صرف تین عورتوں کے لیے نازل ہوا تھا اور باقی کروڑ ہا مسلمان عورتیں آزاد ہیں کہ وہ بے پردہ پھریں ۔
۲۔ اگر کوئی یہ کہہ دے کہ یہ بنات النبی میں حضور ﷺ کی نواسیا ں مراد ہیں کیونکہ جس طرح ابناء میں پوتے اور پڑپوتے شامل ہوتے ہیں اسی طرح بنات میں نواسیاں شامل ہیں نہ کہ آپ ﷺ کی زیادہ لڑکیاں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سن پانچ ہجری میں نواسی یا تو کوئی تھی ہی نہیں اگر بالفرض موجود تھی تو بوجہ صغیر سنی پردہ کے حکم میں نہیں تھی ۔ یہ معترض یا تو جاہل ہے یا فریب کاری سے کام لیتا ہے ۔
۳۔ بعض کہتے ہیں حضرت عیسیٰ ؑ کی الوہیت کے متعلق گفتگو کرنے کے لیے نجران واقع یمن کے تین پادری ( بقول ملا باقرمجلسی بحوالہ حیات القلوب ، عاقل عبدالمسیح ابو حارثہ ) حضور ﷺ کی خدمت میں مناظرہ کے لیے حاضر ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم عیسیٰ ؑ کو حضرت آدم ؑ کی طرح انسان نہیں مانتے تو آئو ہم دونوں فریق اپنے بیٹوں عورتوں اور اپنی جانوں کو پیش کریں پھر عاجزی سے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ جھوٹوں پر لعنت ہو ۔ اس مباہلہ سے عیسائی اگرچہ گریزاں ہوئے مگر آپﷺ حسنین کریمین ، فاطمہ اور حضرت علی ؓ کو مباہلہ کے لیے لائے اگر حضور ﷺ کی اور صاحبزادیاں ہوتیں تو انہیں بھی مباہلہ کے لیے لاتے ۔۔۔۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مباہلہ ’’ جامع عباسی معتبر کتاب شیعہ مذہب ص ۔۵۸کے بقول ۲۴ ذوالحج سن دس ہجری میں ہوا ۔ بر تقدیر تسلیم شیعہ سے ہم پوچھتے ہیں کہ آپ ﷺ تو اپنے صاحبزادے ابراہیم ؓ کو بھی نہیں لائے تھے جو اس وقت زندہ تھے ۔ کیا اس کے نہ لانے کے سبب ان کو اولاد نبی سے خارج سمجھنا چاہیے ؟ واقعہ مباہلہ کے وقت ان تینوں میں سے کوئی صاحبزادی بقید حیات نہ تھی جیسا کہ نقشہ سے ظاہر ہے کہ بی بی زینب ؓ ، رقیہ ؓ اور ام کلثو م ؓ کی وفات بالترتیب سن آٹھ ہجری ، سن دو ہجری اور سن نو ہجری میں ہوئی لہٰذا مباہلہ کا واقعہ ان صاحبزادیوں کی وفات کے ایک یا سوا سال بعد وقوع پذیر ہوا تو انہیں آپ ﷺ کیسے لے آتے ۔
۴۔ بعض کہتے ہیں اگر حضور ﷺ کی اور صاحبزادیاں تھیں تو مشہور کیوں نہ ہوئیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شہرت نہ ہونے سے کسی بھی شے کا عدم ہونا لازم نہیں ہوتا مثلاََ حضرت علی ؓ بہت مشہور تھے حالانکہ ان کے تین بھائی اور بھی تھے جنہیں کم لوگ جانتے ہیں ۔ حضرت انبیاء ؑ کے اور بھائی بھی تھے لیکن وہ غیر معروف ہیں ۔ انبیاء کی درجہ بندی میں ارشاد خدا وندی ہے ’’تلک الرسل فضلنا بعضھم علیٰ بعض منھم من کلم اللہ و رفع بعضھم ‘‘ (سورۃ البقرۃ۔۲۵۱))ان صاحبزادیوں کی عدم شہرت اسلام کی شان شوکت سے پہلے وصال کے سبب ہے اور پھر ان کادرجہ بی بی فاطمہ ؓ سے کم سہی لیکن یہ مضر نہیں جیسے حضرت علی ؓ دوسروں سے زیادہ مشہور اور معروف تھے ۔
اعتراض نمبر۱۷۵
جب تک اقتدار میسر نہ تھا ایک ہی شریک حیات پر اکتفا کیا ، لیکن جیسے جیسے اقتدار مستحکم ہوتا گیا تعدد ازواج میں اضافہ ہوتا گیا ۔ بعض معاندین نے نفسیات کی آڑ لے کر اس تعدد ازواج کو ابتدائی دور کی محرومیوں کا رد عمل قرار دیا ۔ ( مستشرقین مغرب کا انداز فکر ۔۳۴۷)
جواب: اول تو یہ معلوم ہوناچاہیے کہ اقتدار کب مستحکم ہوا ؟ مستشرقین کی آراء کے مطابق مدینہ کے نصف دور کے واقعات سے اندازہ ہو تا ہے کہ ( نعوذ باللہ )محمد ﷺ کی حیثیت نہ تھی ۔ اس راے میں واٹ پیش پیش ہے ۔ ۶۳۱ ء کے بعد محمد ﷺ کا اقتدار مسلمہ ہو گیا اور اب ان کے حکم کی خلاف ورزی ممکن نہیں رہی تھی ۔ آنحضرت ﷺ کا وصال مبارک ۶۳۲ ء میں ہوا لہٰذا واٹ کے بقول آخری ایک سال میں اقتدار مستحکم تھا اس اعتبار سے یہ مفروضہ سراسر غلط ثابت ہوتا ہے کہ تعدد ازواج اقتدار کا نتیجہ تھا ۔ تاریخی مآخذ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ۷ ہجری ( بمطابق ۶۲۸ ء ) کے بعد کوئی نکاح نہیں کیا اگر یہ اقتداری نظریہ درست ہوتا تو ازواج کی تعداد آخری ایام میںبڑھ جاتی جبکہ آخری چار سالوں میں ازواج کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوتا ۔ اگر کثرت ازواج اقتدار کے مستحکم ہونے کا مرہون منت ہوتا تو پھر مستشرقین کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ اقتدار مدنی دور کے آغاز میں ہی مسلمہ ہو چکا تھا ۔
لفظ اقتدار سے جبر و اکراہ معلوم ہوتا ہے ، لیکن یہ بغض و عناد کا نتیجہ ہے کیونکہ اقتدار کے سہارے آپ ﷺ نے نکاح نہیں فرمایا اس سلسلے میں یہ مستشرقین کو بتانا پڑے گا کہ اقتدار کے سہارے کس ام المومنین سے نکاح فرمایا تھا ۔ لیکن وہ یہ بتا نہیں پائیں گے ۔ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت سودہ ؓ کے عقد و نکاح مکی دور میں ہوا ، وہاں اقتدار کا نام و نشان تک نہ تھا ۔
( ۲) حضرت عمر ؓ نے اپنی صاحبزادی کے لیے خود خواستگاری کی تھی ۔ حضرت ام حبیبہ ؓبے یارومددگار حبشہ میں رہ گئیں ،ان کی تالیف قلبی کرتے ہوئے نکاح فرمایا اور حضرت میموؓنہ کا نکاح مکہ میں ہوا جبکہ ان دنوں مکہ فتح نہیں ہوا تھا ۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے نکاح کے لیے چند شرطیں رکھیں ۔ حضرت زینب ؓ سے نکاح ان کی طلاق کے بعد جو دیگر وجوہات کے علاوہ کیا یہ بھی ان کی تالیف قلبی کا نتیجہ تھا ۔ حضرت جویریہ ؓ اور حضرت صفیہؓ دونوں سرداروں کی بیٹیاں تھیں ، وہ قیدی ہو کر آئیں تو آپ ﷺ نے ان پر احسان کیا اور انہوں نے حرم نبوی میں داخل ہونے کو پسند کیا ۔ حضرت ماریہ ؓ شاہ مقوقس نے بھیجی تھی اس سے نکاح ان کے علوئے مرتبت کا باعث ہوا ۔ ان تمام ام المومنین کے رشتہ ازواج میں منسلک ہونے میں اقتدار کا رتی بھر شائبہ تک نہیں اور یہ شادیاں دینی مصلحت ، تالیف قلوب ،عامتہ الناس کی بہبود ، جاہلیت کی بری رسموں کے خاتمہ اور علوئے مرتبت کے لیے کی گئی تھیں۔
آپﷺ کے نکاحوں کی حکمتیں اور منشائے ایزدی کی کارفرمائیاں
حضرت خدیجہؓ:حضرت خدیجہؓ نے خواب میں دیکھا کہ آسمان سے چاند ان کی گود میں آگیا ہے ۔اس خواب کی تعبیر بحیراراہب سے پوچھی گئی۔اس نے کہا: اے ملکہ قریش! ایک اولو العزم رسول ملک عرب میں پیدا ہو چکا ہے ۔ عنقریب تمھیں اپنے نکاح میں لائے گا اور تمام جہاں اس کے مذہب کے انوار سے ضوفشاں ہو جائے گا۔
حضرت سودہؓ: ان کا اوڑھنا بچھونا محبتِ رسول ہے۔ حرمِ نبوی میں رہنے کے لیے اپنی باری بی بی عائشہؓ کو بخش دیتی ہیں اور ام المومنین کے اعزاز کو برقرار رکھنے کو صد افتخار سمجھتی ہیں۔خدا کی راہ میں ہجرت کی۔آپ ؐ نے ان کے شوہر کی وفات کے بعد نکاح تالیف قلبی کے لیے کیا تھا۔عبد اللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ حضرت سودہؓ کا نکاح سکران بن عمرو سے ہوا جو سہیل بن عمرو کے بھائی تھے۔ یہ خواب میں کیا دیکھتی ہیں کہ آنحضرتﷺ سامنے تشریف لا رہے ہیں یہاں تک کہ آپؐ نے ان کی گردن پر قدم مبارک رکھ دیا ہے۔یہ خواب انھوں نے اپنے شوہر سے نقل کیا ۔اس نے یہ تعبیر دی کہ اگر تیرا خواب سچا ہے تو میں عنقریب مر جائوں گا اور آنحضرتؐ تجھ کو اپنی زوجیت میں مقبول فرمائیں گے۔ دوسری شب پھر کیا دیکھتی ہوں کہ لیٹی ہوئی ہوں اور آسمان سے چاند ٹوٹ کر مجھ پر آن پڑا ہے۔ اس خواب کو بھی شوہر سے ذکر کیا تو اس کی بھی اس نے یہ ہی تعبیر بتائی کہ اگر تیرا خواب سچا ہے تو میں اب بہت دیر تک زندہ نہیں رہوں گا اور جلد مرجائوں گا اور تم میرے بعد نکاح کر لو گی۔ پھر ایسا ہوا کہ اسی دن سکران بیمار پڑا اور کچھ مدت نہ گزری تھی کہ اس کی وفات ہو گئی اور اس کے بعد آنحضرتؐ نے ان کو اپنی زوجیت میں قبول فرمالیا (خصائص الکبریٰ) حضرت سودہؓ سے نکاح کے بارے میں مستشرقین کی آراء درج ذیل ہیں۔
’’واٹ‘‘ کہتا ہے آنحضرتؐ کی سیدہ سودہؓ سے شادی کا اصل مقصد مسلمانوں کی بے سہارا بیوائوں کو تحفظ و نگہداشت دینا ہی ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ پیغمبر نے بعد میں جناب زینب بنت خزیمہؓ سے بھی اسی وجہ سے شادی کی۔’’کیرن آرم سٹرانگ‘‘ کا نظریہ ہے کہ ’’ یہ ایک انتہائی جرات مندی اور دلیری کا کام تھا جس کو انجام دینے کے لیے مضبوط قوت ارادی درکار تھی ۔امت کی غیر محفوظ خواتین کے لیے فکر مند ہونے اور ان کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے خود پیغمبرِ اسلامﷺ نے مثال قائم کی۔غزوہ احد کے شہید جہم بن عمرو کی بیوی زینب بنت خزیمہؓ سے غزوہ احد کے بعد پیغمبر نے ان سے شادی کرلی اور انھیں گھر فراہم کیا۔وہ قبیلہ بنو ہوازن کے سردار کی بیٹی تھیں۔اس شادی سے اس قبیلہ کے ساتھ سیاسی اتحاد مضبوط ہو گیا۔
حضرت عائشہؓ:ان کے والدِ ماجد ابو بکر صدیق ؓثانی اسلام وغار و قبر ہیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کے مجھ سے نکاح فرمانے سے قبل ہی جبرائیل نے میری صورت لا کر آپﷺ کو دکھادی تھی اور فرمایا تھا یہ آپؐ کی بی بی ہیں۔ مجھ سے جب آپؐ کا نکاح ہوا تو اس وقت میں بالکل لڑکی تھی پھر جب آپؐ نے عقد فرمایا تو نو عمری ہی میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر شرم و حیا غالب فرمادی تھی ( ترجمان السنہ۔۳۲۰) ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں کہ سیدہ عائشہؓ سے شادی کرکے نبیؐ نے جہاں جنابِ ابو بکر کے ساتھ پہلے سے موجود قلبی تعلق کو مزید مستحکم و مضبوط کرنے کی خواہش کو پیشِ نظر رکھا وہاں حضور اکرمؐ جوان عمر ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ کو اسلامی تعلیمات کی ماہر مُدرسہ بنانے کی تربیت دینا چاہتے تھے(امہات المومنین اور مستشرقین ص ۱۳۱)
’’ولیم میور‘‘ کہتا ہے کہ دوسری شادی جناب ابوبکر کی جواں سالہ بیٹی سیدہ عائشہؓ سے کر لی اور اس رابطہ سے ان کا بنیادی مقصد اپنے قلبی رفیق سے اپنے لگائو اور تعلق کو مضبوط کرنا تھا۔( حوالہ بالا ۱۳۲) ’’واٹ‘‘ کہتا ہے چوں کہ جناب محمدﷺ کی تمام تر شادیوں میں ان کا سیاسی مقصد پیش نظر تھا اس لیے انھوں نے سیدہ عائشہؓ سے شادی کو اپنے اور ابو بکرؓ جو آنحضرتؐ کے اہم ترین پیروکار تھے ،کے درمیان موجود تعلقات کو زیادہ بہتر طریقے سے استوار کرنے کا ذریعہ سمجھا ہوگا۔
حضرت جویریہؓ: حضرت جویریہؓ بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت ؐ کی تشریف آوری سے تین شب قبل میں نے خواب میں ایسا دیکھا کہ چاند یثرب کی جانب چلتا آرہا ہے ۔ یہاں تک کہ میری گود میں آگیا۔ میں نے کسی شخص کے سامنے خواب کا تذکرہ کرنا نامناسب سمجھا، یہاں تک کہ آپؐ تشریف لائے تو اتفاق ایسا ہوا کہ ہم لوگ قید کر لیے گئے تو مجھے اپنے خواب کی تعبیر پوری ہونے کی امید ہوئی۔ اس کے بعد جب آنحضرتؐ نے مجھ کو آزاد کر کے اپنی زوجیت میں لے لیا تو بخدا میں نے اپنی قوم کی آزادی کے معاملہ میں آپؐ سے ایک حرف بھی نہیں کہا بل کہ خود مسلمانوں نے ہی آپؐ کی رشتہ داری کی خاطر ان سب کو رہا کردیا اور مجھ کو تو اس واقعہ کی خبر بھی جب ملی ہے جب کہ میری ایک چچا زاد بہن نے مجھے اس کی اطلاع دی۔ میں نے اس احسان پر حق تعالیٰ کا شکر ادا کیا ( ترجمان السنہ۔ ۳۲۰۔۳۲۱) بی بی جویریہؓ کی خود داری کا عالم دیکھئے کہ آزادی کا احسان لینا بھی گوارا نہیں کیا اور قوم کی رہائی کی سفارش نہیں کی۔
’’واٹ‘‘ کہتا ہے کہ ’’ سیدہ جویریہ بنو مطلق قبیلہ سے تھیں جن کی جنابِ محمدؐ کے ساتھ خصوصی پرخاش تھے‘‘۔ ’’ولیم میور‘‘ کہتا ہے ’’ جوں ہی شادی کی صدائے باز گشت چار دانگ عالم میں سنی گئی تو لوگ کہتے تھے کہ بنی المطلق ان کے رشتہ دار بن رہے ہیں ۔اس لیے ان کے بقیہ قیدیوں کو جناب جویریہ کے حق مہر میں آزاد کر دیا جائے‘‘۔
’’ سر جان گلب ‘‘ کہتا ہے کہ ’’ اس طرح بنو مطلق جنگی فتح سے بڑھ کر دائرہ اسلام میںداخل ہوئے‘‘۔
حضرت زینب بنت حجشؓ:آنحضرت ؐ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔آپﷺ نے اپنے غلام زید بن حارثہ سے نکاح کروا کر آقا و غلام کی تفریق کا خاتمہ کر دیا۔نیز متبنیٰ کی رسم ِ باطلہ زمیں بوس ہو گئی۔ ان کی شان میں قرآن پاک میں ہے’’ فلما قضی زید منھا وطرا‘‘۔ حضرت زینب کے نکاح کا بار آنحضرتؐ پر نہیں ڈالا بل کہ حق تعالیٰ خود ہی اس کا متکفل ہوگیا۔ یہ صورت بھی اختیار نہیں کی گئی کہ نکاح کے قائم رہتے ہوئے آپﷺ کی زوجیت میں منتقل کر دیا جائے اور نہ ہی زید کو طلاق دینے پر مجبور کیا گیا۔ خود رب اللعالمین نے اس کا عقد فرما کر حضرت زینبؓ کو عمر بھر اس فخر و امتیاز پر نازاں ہونے کا شرف بخشا۔ وہ اعزاز یہ تھا کہ خودخدا نے میرا نکاح آسمان پر کیا۔
حضرت صفیہؓ:حضرت صفیہؓ کی آنکھ پر کچھ سفید سا نشان تھا۔آنحضرتؐ نے ان سے پوچھا تمھاری آنکھوں پر یہ سفید نشان کیسا ہے؟ انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے شوہر سے ایک بار کہا کہ جیسا لوگ خواب دیکھا کرتے ہیں میں نے بھی ایک خواب دیکھا ہے۔ گویا چاند میری گود میں آگیا ہے۔ یہ سنتے ہی فوراََ انھوں نے میرے منھ پر تھپڑ مارا اور کہا تیرا ارادہ ہے اس شاہِ یثرب سے نکاح کرنے کا؟ وہ کہتی ہیں( بھلا میرا ارادہ کیسے ہو سکتا تھا) میرے والد اور میرے شوہر آنحضرتؐ کے حکم سے قتل کیے گئے تھے۔اس لیے مجھے تو آپ کی طرف سے سخت ناگواری تھی لیکن جب آپ نے مجھے یہ سمجھایا کہ تمھارے والد ہی تمام عرب کو میرے مقابلہ کے لیے چڑھا کر لائے اور میرے ساتھ یہ عداوتیں کی تھیں تو پھر میرے دل سے یہ بات نکل گئی ۔( الطبرانی)
حضرت ام حبیبہؓ:حضرت ام حبیبہؓ بنت ابو سفیان فرماتی ہیں کہ انھوں نے آپؐ کی زوجیت میں آنے سے قبل خواب دیکھا تھا کہ کوئی شخص ان کو ام المومنین کہہ کر پکار رہا ہے۔اس خواب سے یہ ذرا متحیر سی ہو گئیں اور انھوں نے اس کی یہی تعبیر دی کہ آنحضرتؐ ان کو اپنی زوجیت میں لیں گے۔ ( المستدرک)
’’واشنگٹن ارونگ‘‘ کہتا ہے کہ ’’ بیوہ ام حبیبہ جناب محمدؐ کے شدید دشمن ابو سفیان کی بیٹی تھی۔سیاسی اندازِ فکر و سوچ کو بروئے کار لاتے ہوئے پیغمبر خدا نے سوچا کہ اس شادی سے ام حبیبہؓ کے والد کی اسلام دشمنی کو کم کیا جا سکتا ہے۔
’’ ولیم میور‘‘ کے مطابق ’’ جناب پیغمبر کو یہ امید تھی کہ ام حبیبہ کے والد ابو سفیان کو وہ اپنے مشن کی کامیابی کے لیے مددگار بنانے کی توقع یا امید کر سکتے ہیں‘‘۔
آرتھراین وولٹین: انھیں امید تھی کہ ام حبیبہؓ کسی حد تک اپنے تند و بے رحم طاقت ور دشمن اسلام باپ ابو سفیان کو نرم رویہ اختیار کرنے میں کام یاب ہوسکتی ہیں‘‘۔
واٹ: محمدؐ کی ابو سفیان کی بیٹی سے شادی نے ان کے دل میں جناب محمدؐ کے لیے نرم گوشہ ضرور پیدا کر دیا ہوگا۔ جب جنابِ محمدؐ نے صلح حدیبیہ کے کچھ عرصہ بعد مکہ پر حملہ کیا تو ابو سفیان ،حکم بن حزام کے ساتھ شہر سے باہر آیا اور آپؐ کی اطاعت تسلیم کر لی‘‘۔
جان گلب: ’’ یہ واقعہ ہمارے اذہان پر عجیب و غریب اثر کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضورؐ نے مختلف خاندانوں کی لڑکیوں سے شادیاں محض اس لیے کیں کہ ان کے خاندان والوں سے حضورؐ سے تعلقات استوار ہوں۔ آپؐ نے خاص طور پر حبشہ کے شہنشاہ کو لکھ کر سیدہ ام حبیبہؓ کو مدینہ بلوایا۔اگر آپؐ کا مقصد صرف ایک عورت کا حصول تھا تو ایک سے بڑھ کر ایک حسین و جمیل اور خوب صورت لڑکی عرب میں آپؐ کو مل سکتی تھی۔ سینکڑوں خوب صورت لڑکیاں عرب میں موجود تھیں۔ان ساری پری پیکروں کو چھوڑ کر ام حبیبہؓ کو جو بیوہ تھیں حبشہ سے بلوا کر حضورؐ کا شادی کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حضورؐ غالباََ ام حبیبہؓ کے توسط سے ابو سفیان کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں لیکن اس کے شوہر کا چھوڑ جانا حرم نبوی میں داخلے کا سبب تھا۔
حضرت ام سلمہؓ:حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرتؐ نے یہ ارشاد فرمایا کہ جس مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ وہی کلمات پڑھ لے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ یعنی ’’ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ اَللَّھُمّٰ اَجِر نِی فِی مُصِیبَتیِ وَ اخلُف لِی خَیراََ مِنھَا‘‘ ( اللہ تعالیٰ اس کابدلہ میں ضرور اس سے بہتر اس کو اور عنایت فرما دے گا)۔ جب ام سلمہ کا (ان کا شوہر) کا انتقال ہوا تو میں نے اپنے دل میں سوچا کہ بھلا ان سے کون سا مسلمان افضل ہو سکتا ہے جنھوں نے سب سے پہلے آنحضرتؐ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن اس کے باوجود میں نے ان کلمات کو پڑھ ہی لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے آنحضرتؐ کی زوجیت کا شرف بخشا۔( ترجمان السنہ ۳۲۷) آنحضرت ؐ نے فرمایا: میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ میں اپنی امت میں سے کسی سے نہ نکاح کروں اور نہ ہی اس کے نکاح میں بیٹی دوں مگر یہ کہ میرے ساتھ جنت میں ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے میرے سوال کو شرف قبولیت بخشا۔اس بات کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے ۔ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا میں نے اپنی ازواج میں سے کسی عورت سے نکاح نہیں کیا اور نہ ہی اپنی کوئی بیٹی کسی کے نکاح میں دی ہے مگر اس اجازت سے جو جبرائیلؑ انھیں اللہ کی طرف سے لے کر میرے پاس آئے یعنی اللہ تعالیٰ کی اجازت سے میں نے ایسا کیا‘‘۔ ( امہات المومنین۲۸۔۲۷)
ولیم میور: سیدہ ام سلمہ ابو سلام کی بیوہ تھیں جن کی زوجیت کے نتیجے میں انھوں نے کئی بچوں کو جنم دیا۔ دونوںملک بدر ہوکر حبشہ ہجرت کر گئے۔ وہ واپس مدینہ آئے تو ابو سلام غزوہ احد کی زخموں سے تاب نہ لاکر انتقال کر گئے۔ پھر چار ماہ بعد ان کی بیوہ سے پیغمبر خدا ﷺنے شادی کر لی۔ ان کے بچوں میں ایک کی پرورش خود آنحضرتؐ نے کی۔ دیگر روایات و حکایات کے مطابق ان کے کئی بچے تھے اور ان کی قابلِ رحم حالت کے وقت پیغمبرِ اسلامﷺ نے انھیں شفقت پدری سے نوازا۔
حضرت حفصہؓ:ہنری لیمنیز متعصب عیسائی پادری ہے۔ انسائکلو پیڈیا آف اسلام میں سیدہ حفصہؓ سے متعلق لکھے گئے ایک مضمون میں تسلیم کرتا ہے کہ ’’ یوم احد کے فوراََ بعد نبی اکرمؐ نے عمر بن خطاب کے تعاون کی خاطر سیدہ حفصہ سے شادی کی۔ ولیم میور: سیدہ حفصہؓ کو حرم نبوی میں بہ طور زوجہ داخل کرنے سے نبی اکرمﷺ نے ان کے والد جنابِ عمر ؓسے دوستی کے بندھن کو مستحکم کردیا۔
ایمائیل ورمنگھم: بیان کرتا ہے ’’ سیدہ حفصہؓ جو بیوہ تھیں ،کو پیغمبرِ خداﷺ نے شریک حیات بناتے ہوئے جنابِ عمرؓ سے بہترین تعلق اور رشتہ قائم کر لیا۔
جان بیگٹ گلب: پیغمبر پہلے ہی عائشہؓ سے شادی کر چکے تھے اور حفصہ بنت عمر سے شادی کر کے پیغمبر اپنے دونوں قریبی جاں نثار ساتھیوں کو اپنے مزید قریب کرنا چاہتے تھے۔
واٹ: اواخر جنوری ۶۴۵ ء میں جناب محمدؐ نے سیدہ حفصہ سے شادی فرمائی جو عمر کی بیٹی تھیں۔وہ پیغمبر اسلام ﷺکے بعد مسلمانوں کے خلیفہ ثانی مقرر ہوئے۔ایک پنتھ دو کاج کے مصداق اس طرح سے ایک طرف تو جنابِ پیغمبر ﷺنے اپنے نائب کمان دار اور ساتھی عمر سے رشتہ مضبوط کر لیا اور دوسری طرف سیدہ حفصہؓ کی دل جوئی مقصود تھی۔ اس شادی یا دیگر شادیوں کا پیغمبر نے اپنے لیے یا اپنے پیروکاروں کے لیے خود اہتمام کیا۔ان میں سیاسی مقاصد یقیناََ پیش نظر تھے چاہے کوئی دیگر وجوہات تھیں یا نہ تھیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...