Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم |
حسنِ ادب
سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم

تعداد ازواج
ARI Id

1689956752314_56117765

Access

Open/Free Access

Pages

۵۷

تعدد ازواج
وَلَقَد اَرسَلناَ رَسُلاََ مِنّ قَبلِکَ وَ جَعَلناَ لَھُم اَزوَاجاََ وَّ ذُرِّ یَّۃََ ( رعد۔ع۶)
ََ ڈاکٹر محمد حمید اللہ ( پیغمبر اسلام ۲۲۸۔۲۲۷) لکھتے ہیں تاریخی طور پر کسی مذہب کے قوانین میں بیویوں کی تعداد پر کہیں پابندی نہیں لگائی گئی۔ بائبل میں مذکور تمام پیغمبروں کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں حتیٰ کہ عیسائیت میں بھی جو’’ ایک وقت میں ایک بیوی‘‘ کے قانون کی علامت بن گئی ہے‘ عیسیٰ ؑ نے خود بھی کبھی تعداد ازواج کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا جب کہ مذہبی علوم کے ممتاز مسیحی ماہرین مثلاََ لوتھر میلنتھون اور بوسر وغیرہ نے تو میتھو کی انجیل (۲۵۔۱۔۱۲) میں دس کنواریوں کی تمثیل سے تعداد ازواج کا جو از حاصل کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا کہ عیسیٰ ؑ بیک وقت ایک مرد کی دس لڑکیوں سے شادی کے امکان کو پیشِ نظر رکھ رہے تھے۔اگر مسیحی اس اجازت سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہتے( جو ان کے مذہب کے بانی نے دی) تو قانون بہ ہر حال تبدیل نہیں ہوا۔ (حاشیہ پر رقم طراز ہیں )یک زوجگی ( ایک وقت میں ایک بیوی) کا اس طرح تصور کہ دوسری شادی( بہ یک وقت دو بیویاں) کو سنگین جرم ، گناہ اور لعنت قرار دیا جائے بہت کم یاب ہے اور شادی کے ایسے منفرد ، مثالی اور کڑے پن پر مبنی نظریہ کی مثال آج کے جدید دور سے پہلے شاید ہی ملتی ہو اور یہ صورت حال بھی مغربی تہذیب کی دورِ حاضر کی جدیدیت کا ثمر ہے۔ یہ مسیحی دینی نظریہ سے اخذ کردہ قانون نہیں۔( انسائکلو پیڈیا۔ باب شادی)
یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یک زوجگی ، مسیحیت نے مغربی دنیا میں متعارف کروائی۔ مسیحیت بشپ اور پادری کے سوا باقی لوگوں کے لیے تعداد ازواج یعنی ایک سے زیادہ شادی کی ممانعت نہیں کرتی۔ مگر ابتدائی صدیوں میں مسیحت کی کسی کونسل آف چرچ نے ایک سے زیادہ شادی کی ممانعت نہیں کی اور بادشاہوں نے بھی دورِ کفر( قبل از مسیحت) میں جہاں کہیں بھی یہ رائج تھی اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ چھٹی صدی کے وسط میں آئر لینڈ کے شاہ ڈیاربیٹ کی دو ملکائیں اور دو داشتائیں تھیں ۔تعدد ازواج فرانس کے Merovingian بادشاہوں کے ہاں بھرپور انداز سے رائج تھی۔ چارلس دی گریٹ ( شارلیمان) کی دو بیویاں اور ان گنت داشتائیں تھیں اور اس دور کے ایک قانون سے بھی ایسا تاثر ملتا ہے کہ پادریوں کے ہاں بھی ایک سے زیادہ شادیاں شجرِ ممنوعہ کی حقیقت نہیں رکھتی تھیں۔ بعدکے ادوار میں فلپ آف Hesse اور جرمنی کے بادشاہ فریڈرک ولیم نے لوتھرن کے مذہبی پیشوائوں کی منظوری سے ایک سے زیادہ شادیاں کیں۔ خود لوتھر نے اول الذکر فلپ کی دوسری شادی کی منظوری دی جب کہ میلنتھون سے بھی ایسا ہی منسوب ہے۔ مختلف مواقع پر لوتھر نے تعدد ازواج کا ذکر بڑی رواداری کے لہجے کے ساتھ کیا ہے۔اس کی ممانعت خدا نے نہیں کی۔ ۱۶۵۰ء میں Wertphalia (جرمنی) کے امن معاہدے کے بعد جب کہ مردانہ آبادی کا بڑا حصہ تیس سالہ جنگ کی نذر ہو چکا تھا۔ جنگی پارلیمنٹ نے نور مبرگ سے ایک قرار داد منظور کی جس میں کہا گیا کہ اس کے بعد ہر مرد کو دو عورتوں سے شادی کی اجازت ہو گی۔ بعض مسیحی فرقوں نے بڑے زور کے ساتھ مردوں کی ایک سے زیادہ شادیوں کی حمایت کی ہے۔ ۱۵۳۱ء میں اینا بیٹپٹس نامی مسیحی فرقے( اس فرقے کا عقیدہ تھا کہ جن بچوں کو بچپن میں بپتسمہ دیا گیا انہیں بالغ ہونے کے بعد ایک بار پھر بپتسمہ دینے کی ضرورت ہے) منسٹر (MUNSTER) میں کھلے عام یہ اعلان کیا کہ جو کوئی سچا عیسائی بننا چاہتا ہے تو اسے کئی بیویوں کا شوہر ہونا چاہیے۔ ساری دنیا کو معلوم ہے کہ مارمنز(MORMONS) امریکہ کے ایک معروف مسیحی (فرقہ) کثیر الازواجی کو خدائی ادارے کا درجہ دیتے ہیں۔عزت مآب فلپ آف HESSEکی طرف سے مارٹن لوتھر اور فلپ میلنتھون سے کیے جانے والے استفسارات کے بارے میں مارٹن لوتھر کی جو ہدایات دی گئی تھیں وہ اس طرح تھیں؛۔ ’’ معلوم ہے کہ لوتھر اور میلنتھون نے شاہِ انگلستان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ پہلی بیوی کو طلاق دینے کی بجائے دوسری شادی کر لے۔ شادی کی تنسیخ یا علیحدگی کا امکان اسلامی قانون میں بھی شروع سے موجود ہے ۔ شوہر کو بیوی کو طلاق دینے کا حق حاصل ہے تاہم بیوی بھی یہ حق نکاح کے وقت مطالبہ کرکے حاصل کر سکتی ہے اور اسے نکاح نامہ میں درج کرنا ضروری ہے۔ عدالت اس صورت میں بیوی کی درخواست پر تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کر سکتی ہے اگر شوہر اپنے ازواجی فرائض ادا کرنے کی اہلیت سے عاری ہو یا وہ کسی سنگین قسم کے مرض میں مبتلا ہو یا سالہا سال سے مفقود الخبر ہو (وغیرہ) ۔ علیحدگی کی ایک صورت اور بھی ہے جب نباہ نہ ہونے کی صورت میں میاں بیوی باہمی رضامندی سے ایک دوسرے سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیں۔ قرآنِ مجید میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ میاں بیوی جھگڑے کی صورت میں اپنا معاملہ کسی تیسرے ثالث یا بزرگ کے پاس لے جائیں تا کہ علیحدگی سے قبل گھر بچانے کی ایک اور کوشش کی جا سکے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حوالے سے فرمایا ’’ اللہ کی نظر میں جائز چیزوں میں سے سب سے نا پسندیدہ چیز طلاق ہے‘‘۔
اعتراض نمبر۱۷۶
آپؐ دولت و ثروت و حکومت کے خواہاں تھے؟ اہل مکہ آپؐ سے یہ چاہتے تھے کہ ان کے مذہب پر تنقید نہ کریں ۔ شرک و بت پرستی سے نہ روکیں۔آپؐ نے ایسا نہ کیا۔ مانا کہ آپ جو کچھ فرماتے تھے سچ فرماتے تھے اور انھیں کے فائدے کے لیے تھا لیکن جب وہ خود ہی اسے سننا نہ چاہیں تو آپ کو کیا پڑی کہ خواہ مخواہ ان کے لیے اپنے آپ کو اس بلا میں نہ ڈالتے اور نہ پریشان ہوتے۔ مخالف کہتے ہیں کہ آپؐ کی یہ تمام جد و جہد صرف دولت اور شوکت و حکومت حاصل کرنے کے لیے تھی۔( ن۔۴۔۱۹۸)
۲۔مستشرقین آپ ﷺ کو جاہ پسند کہتے تھے ۔
جواب:یہ معترضین کی بھول ہے اور تاریخی حقائق سے آنکھیں بند کرنے کا نتیجہ ہے۔ یہ سب چیزیں تو اہلِ مکہ خود آپؐ کی خدمت اقدس میں پیش کرتے ہیں۔اس وقت آپؐ تمام پیشکشیں ٹھکرا دیتے ہیں اور دو ٹوک الفاظ میں اعلان فرماتے ہیں کہ یہ لوگ اگر میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں تو پھر بھی میں اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹوں گا۔ اگر ان کی تمام تگ و دو اور سعی و کوشش کی غرض یہی ہوتی تو اس وقت اہل مکہ کی پیش کردہ دولت کی پیش کش قبول کر لیتے۔آپؐ اسے غنیمت سمجھ کر اختیار کر لیتے لیکن اس کے بر عکس آپﷺ کی زندگی سادہ تھی اور آپ ﷺکو دولت کی ہوس نہ تھی۔ آپ بے چھنے جو کی روٹی کھاتے، اپنی نعلین خود گانٹھ لیتے ہیں۔ آپ کے اہل بیت خود چکیاں پیستے ہیںیہاں تک کہ آپؐ نے اپنی اولاد پر زکوۃ و صدقات کو بھی حرام کردیا۔ حالانکہ جس دولت کی خاطر آپؐ نے تکلیفیں اٹھائیں اپنے لیے استعمال میں کیوں نہیں لاتے بل کہ اولاد کو تو اس سے فائدہ حاصل کرنے دیتے۔ہر لحاظ سے آنحضرت ؐ کا دامن تمام بدافعال ،آلائش، ریا و آمیزش،حرص و ہوس،بے انصافی،مفاد پرستی اور نفس پرستی سے بالکل مبرا و منزہ تھا۔
سید نا حضرت عمر ؓ کے پوتے حضرت صالح کے متعلق ہے کہ وہ طواف کعبہ میں مصروف تھے کہ اتنے میں ہشام بن عبدالملک خلیفۃ المسلمین بھی بغرض طواف حاضر ہوا ۔ وہ ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگا ۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے ان سے عرض کی کہ حضور کوئی حاجت ہو تو فرمائیے ۔انہوں نے فرمایا کہ دنیا یا آخرت کی ؟ ہشام نے عرض کی کہ میں تو دنیا کی حاجت ہی کے بارے میںسوال کر سکتا ہوں ۔ انہوں نے فرمایا کہ اللہ کے گھر کھڑے ہوکر اس کے غیر سے مانگتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے آخر جب وہ حرم پاک سے باہر آئے ہشام نے عرض کی کہ جناب ! اب تو تم خانہ کعبہ سے باہر تشریف لے آئے ہو ، اب میرے لائق کوئی خدمت ؟ انہوں نے پھر وہی سوال دہرایا کہ دنیا کی حاجت یا آخرت کی ، تو خلیفہ نے دنیا کی حاجت کی بابت عرض کیا ۔ حضرت صالح ؒ نے فرمایا کہ جو دنیا کا مالک ہے میں نے کبھی اس سے دنیا نہیں مانگی تجھ سے کیا مانگوں ؟ یہ غلامان رسول اور جانثاران رسول کا حال ہے تو اس ذات کے کیا کہنے جو ساری انسانیت کے لیے نمونہ ہے۔
جواب ۲:مستشرقین کہتے ہیں کہ آپ جاہ پسند تھے۔اب اس اعتراض کا جائزہ لیتے ہیں ۔کسی علمبردار حق کے دامن خلوص پر حرص اور نفسانیت کی تہمت دھرنے کا رواج ہر دور میں رہا ہے ۔ اور الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ شخص کچھ بننا چاہتا ہے اپنا کوئی مقام بنانا چاہتا ہے ۔ کسی منصب کو حاصل کرنے کا خواہاں ہے جس طرح حضرت موسیٰ و ہارون علیھم اسلام کے خلاف یہی پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ لوگ حکمران بننا چاہتے ہیں حکومت کی لگن میں محو ہیں ۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے خلاف بھی یہی زہر اگلا گیا کہ وہ تو یہودیوں کا بادشاہ بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ یہ قبیح الزام آپ ﷺ پر بھی لگایا گیا جب کہ آپ ﷺ ایسے منصب کے خواہاں تھے نہ کوئی اس سے غرض تھی ۔ یہودیوں نے سرور عالم کے خلاف کہا کہ یہ ساری جان ماریاں تو بس اس غرض سے ہیں کہ جو مقام حضرت عیسیٰ ؑ کا چلا آ رہا ہے وہ آپ ﷺ کے قبضہ میں آ جائے اور عیسائیوں اور دوسرے لوگوں کو آہستہ آہستہ گھیر کر اپنی پرستش میں لگایا جائے ۔ غور کیجئے کہ حضور ﷺ نے اس طرح کا کبھی کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا ایسے منصب کی طلب کا اشارہ تک نہیں دیا تھا لیکن طاقت نے خود ہی اپنے ذہن سے ایک طومار گھڑ لی اور اپنی جگہ طے کر لیا کہ محمد ﷺ کا مقصد صرف یہ ہے کہ عیسیٰ بن کر پوجا کرائیں۔ دعویٰ نہ کیا ہو تو نہ سہی ، دل میں اسی کے ارداے ہیں ۔ یہ ارادے سامنے نہیں آئے تو کیا ہوا آثار بتا رہے ہیں کہ کبھی نہ کبھی یہ سامنے آ کر رہیں گے ۔ وفد نجران کے ارکان کے کان ان فضولیات سے بھرے گئے ہوں گے جبھی تو اس وفد کے ایک رکن ابو نافع قرضی نے یہ سوال آپ ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا آپ ﷺ ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ ﷺ کو عیسیٰ ؑ کی طرح پوجا کریں جیسے نصاریٰ عیسیٰ ؑ کی پوجا کرتے ہیں ؟ وفد کے ایک رکن الربیس( الریس یا الرھیس ) نے بھی پوچھا کہ ’’اے محمدﷺ کیا آپ ﷺ ہم سے بھی چاہتے ہیں اور اسی کے لیے دعوت دیتے ہیں ‘‘؟ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ خدا کی پناہ اس بات سے کہ سوا کسی اور کی بندگی کروں یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کی دعوت دوں پس مجھے خدا نے اس مقصد کے ساتھ نہیں اٹھا یا ہے اور نہ مجھے اس کا حکم دیا ہے قرآن مجید میں ہے ماَ کاَ نَ لِبَشَرِِ اِن یوُّ ء تِیَہُ اللہ ُ الکِتَبَ وَالحُکمَ وَ النَّبُو ۃَّ ثُمَّ یَقُولُ لِلناَّ سِ کُو نوُا عِباَدََا لِی مِن دُ ونِ اللہ(آل عمران ۔۷۹)
(ترجمہ) کسی انسان کا یہ منصب نہیں ہے کہ خدا اسے کتاب اور حکمت اور نبوت سے سرفراز کرے تو پھر وہ لوگوں سے یہ کہنے لگے کہ اللہ کی بجائے میرے بندے بن جائو‘‘)
قریش کا نمائندہ عتبہ بارگاہ نبوی میں آکر عرض کرتا ہے’’ اے بھتیجے! اگر تم مال و دولت کے خواہاں ہو تو ہم سب تمھارے لیے اتنا مال جمع کر دیتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی آپ کا مقابلہ نہ کر پائے گا اور اگر کوئی عہدہ یا سرداری چاہتے ہو تو ہم آپ کو سردار مان لیتے ہیں۔اگر حکومت و ریاست کے خواہاں ہو تو ہم تمھیں اپنا بادشاہ اور حاکم بنا لیتے ہیں اور اگر تم کسی حسین و جمیل عورت سے شادی کے لیے تیار ہو تو ہم شادی کرا دیتے ہیں اور اگر کوئی آسیب ہے تو ہم تمھارا علاج کرا دیتے ہیں۔عتبہ کی پیش کش میں سرداری و بادشاہ کے منصب کا ذکر ہے۔اگر آپؐ اقتدار کے متمنی(جاہ پسند) ہوتے تو یہ موقعہ خوب تھا۔ نہ ہلدی لگے نہ پھٹکڑی، رنگ چوکھا آئے ۔یعنی بدوں تگ ودو اور سعی و کوشش کے‘ بادشاہت آپ کے در دولت کی بھکارن بن چکی تھی حسن کی دیویاں ایک ابرو جنبش کی منتظر تھیں مگر آپ نے سب کچھ ٹھکرا دیا کیوں؟ اس لیے کہ ان کا مشن دعوتِ توحید تھا۔اس دین کا پرچار تھا جسے اللہ تعالیٰ نے تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنا تھا۔ آپؐ اس نصب العین سے ہٹ نہیں سکتے تھے ۔ وہ منصب جو عطائے خداوندی ہے اس سے بڑھ کر کوئی سرداری اور بادشاہت نہیں ہو سکتی ہے۔وہ منصب جو صرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملتا ہے وہ ہے نبوت و رسالت۔
ابو سفیان نے حضرت عباسؓ سے فتح مکہ کے موقعہ پر اسلامی لشکر کو دیکھ کر کہا تھا کہ تمھارے بھتیجے کی بادشاہت دور تک قائم ہو گئی ہے۔ حضرت عباسؓ نے فرمایا’’ یہ بادشاہی نہیں ‘ نبوت و رسالت ہے۔ اس منصب کے سامنے سب مناصب ہیچ ہیں‘‘۔ آپؐ نے برتری کا خاتمہ کر دیا۔ پھر بھی یہ الزام کہ ان کی زندگی پیغمبرانہ تھی مگر مدینہ میں بادشاہی میں بدل گئی،باطل ہے۔
فتح مکہ کے موقعہ پر آپ ﷺ نے فرمایاتمام لوگ آدم سے ہیں اور آدم مٹی سے تھے۔پھر آپؐ نے قرآن کریم کی آیت پڑھی۔ترجمہ: ’’ اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمھیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ اللہ کے نزدیک سب سے با عزت وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے بے شک اللہ تعالیٰ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے‘‘۔ اس کے بعد فرمایا’’ اے قریش کے لوگو! تمھارا کیا خیال ہے میں تمھارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں‘‘؟ انھوں نے کہا : اچھا! آپؐ کریم بھائی اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں۔آپؐ نے فرمایا ’’ لا تثریب علیکم الیوم‘‘ آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں جائو تم سب آزاد ہو۔کیا یہی جابر حکمران ہیں اور ان کا ایسا ہی سلوک اور رویہ ہوتاہے؟ کیا یہی پیغمبری جو مکہ تک تو تھی مگر مدینہ جاکر تغیر پذیر ہو گئی؟ اسی کو تم کہتے ہو کہ نبوت کا تسلسل برقرار نہ رہا۔ابوسفیان کو مکہ کی طرف آنے والے صحابہ کرام کے لشکر کا ایک تنگ گھاٹی کے پاس پہاڑی کے اوپر اسلامی لشکر کا نظارہ دکھایا گیا تو وہ دم بہ خود ہو گیا اور حضرت عباسؓ سے کہا: عباسؓ! تمھارے بھتیجے کی بادشاہت تو بہت دور تک قائم ہو گئی ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ’’ عباس! تیرا بھتیجا تو واقعی بہت بڑا بادشاہ بن گیا ہے‘‘۔ حضرت عباسؓ نے کہا’’ یہ بادشاہی کا نہیں ‘ نبوت کا کمال ہے( سید الوریٰ۔دوم۔۲۸۳) آپ نے جہاں قدم مبارک رکھا مکہ کی سرزمین ہو یا مدینہ کی یا کوئی اور آپؐ ہر جگہ نبی اللہ تھے اور ہر لمحہ کارِ نبوت میں جاں فشانی اور تن دہی سے وقت صرف کیا۔ لمحہ بھر کے لیے نبوت کے تسلسل میں فرق نہ آیا۔کہنے کو جس کا جو جی چاہے کہے لیکن آپ ؐ کا دامن نبوت و رسالت ہر الزام سے مبرا و منزہ ہے۔ دوسرا اعتراض کہ کچھ عرصہ تک یہود سے مطالبہ نہیں کیا تھا کہ وہ ان کو رسول اللہ کی حیثیت سے تسلیم کر یں۔مستشرق کیوں بھول جاتا ہے کہ مدینہ پہنچ کر آپؐ نے فوری حل طلب مسائل پر دھیان دیا اور ساتھ ہی دنوں یا ہفتوںکے اندر ایک دستاویز تیار کی جس میں مدینہ کی شہری ریاست کے آئین کی جملہ ضروری تفصیلات درج کی گئیں۔اس کی شق نمبر ۱ میں غیرمسلموں نے آنحضرتؐ کو رسول مان لیا تھا ۔ غیر مسلموں کو نبی رسولؐ کی نبوت و رسالت کا اقرار ہے لیکن مستشرق صدیوں بعد ماننے سے انکاری ہے گویا باپ دادائوں کی بات ماننے سے بھی انکاری ہے۔بایں عقل و دانش ببا ید گریست۔
کیا یہ جاہ پسندی ہے یا کسی منصب اعلیٰ کی خواہش ہے کہ مخالفین نے ہنگامہ برپا کر رکھا ہے ۔ ان کے اپنے ہمنوا گبن کا قول ہے کہ till the third day before his death he regularly performed the function of public prayer (انتقال کے تین دن پہلے تک آپ ﷺباقاعدگی سے نمازوں کی امامت فرماتے رہے۔)
اعتراض نمبر۱۷۷
(۱)اسلام ایک اشتراکی رجحان تھا اور محمد ﷺصرف ایک معاشرتی مصلح تھے نہ کہ پیغمبر‘‘۔ (حمادے۔ن۵۳۸؍۱۱)
(۲) جرمن مستشرق’’ ہوبرٹ گریم‘‘ اپنی کتاب محمدؐ میں لکھتا ہے ’’ شروع میں محمدؐ کسی نئے مذہب کے داعی نہ تھے‘ وہ جس چیز کی دعوت دے رہے تھے اسے ہم ایک طرح کی اشتراکیت کہتے ہیں ‘ اسلام کو اس کی اصل ابتدائی صورت میں دیکھنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہم اس سے پہلے موجود کسی مذہب کی نقل ٹھہرائیں جس سے محمدؐ کی تعلیمات کی توجیہہ ہو سکے‘ کیوں کہ جب ہم اسلام کا براہِ راست مطالعہ کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہ مذہبی عقیدوں کے بجائے ایک سماجی اصلاح کے لیے جدو جہد کی صورت سامنے آیا ۔جس کے پیشِ نظر بگڑے ہوئے حالات کی اصلاح کرنا اور بالخصوص حریص دولت مندوں اور پریشان حال غریبوں کے درمیان واضح فرق کو مٹانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ محمد ؐ نے ضرورت مندوں کی مدد کے لیے ایک متعین ٹیکس عائد کیا‘ وہ اگر آخرت میں حساب کتاب کی باتیں کرتے ہیں تو اس کا مقصد اپنی دعوت کو تقویت پہنچانا اور لوگوں پر نفسیاتی دبائو ڈالنا ہوتا ہے‘‘۔( علوم اسلامیہ اور مستشرقین۔ص۔۱۶۔۱۵)
۳۔ اپنے زمانہ میں محمدﷺ ایک سماجی مصلح تھے اور آپ ﷺ کی اصلاحات کا دائرہ اخلاقی پہلو کو بھی محیط تھا ۔
۴۔ ایک اور اعتراض یہ ہے کہ مکہ کا مظلوم مبلغ صرف مدینہ کا حکمران ہی نہیں تھا بلکہ اپنے دور کا عظیم انسان بھی تھا ۔
جواب:یہ بات درست ہے کہ آپؐ شروع میں کسی نئے مذہب کے داعی نہ تھے۔ کیوں کہ دنیا میں جس قدر پیغمبر آئے وہ ایک ہی دین لائے اور ایک ہی عقیدہ لے کر آئے۔وہی توحید‘ وہی نبوت‘ وہی عبادت‘ وہی اخلاق‘ وہی جزا و سزا اور عمل کی پرسش کا حساب وکتاب۔اس لحاظ سے تمام انبیاء کی تعلیم میں کوئی اصولی فرق نہیں۔اس لیے سورہ شوریٰ میں فرمایا کہ ’’ شَرَعاََ لَّکُم مِنَ الّذِینِ مَا وَحَّی بِہ نوحاََ‘‘ ( یعنی خدا نے تمھارے لیے وہی دین مشروع کیا جو نوح وغیرہ دوسرے پیغمبروں کو دیا تھا اور اسی کا نام اسلام ہے)۔ انبیاء کی تعلیم کا اصل الاصول اور سب سے ضروری پیغام توحید ہے اور وہی نبوت کے ساز کا اصلی اور ازلی ترانہ ہے۔ممکن ہے کہ دنیا میں اسلام سے پہلے بہت سے اچھے لوگ گزرے ہوں ،ان کی دعوت بھی مفید ہو،اخلاقی وعظ بھی دل پسند ہوں۔ وہ یونان کے حکیم یا ہندوستان کے اوتار ہوں ۔اگر ان کی تعلیم میں توحید کی دعوت شامل نہیں تو وہ نبوت کے رتبہ کے قابل نہیں کہ پیغمبرانہ تعلیم کی پہچان ہی توحید کی دعوت ہے۔ اگر یہ نہیں تو نبوت بھی نہیں۔فرمایا’’ اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا لیکن اس کو یہ وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میری ہی پرستش کرو‘‘۔ (سیرت النبی۔ج ۴۔۱۹۲)
تمام انبیاء اور صحیفوں کی تصدیق کا لازمی نتیجہ ہے کہ محمدؐ کی تعلیم یہ ہو کہ آدم سے لے کر محمدؐ تک جتنے سچے مذاہب خدا کی طرف سے آئے وہ سب ایک تھے۔اسلام اسی ایک دین کا نام ہے جو آدم ؑ سے محمدؐ تک باری باری پیغمبروں کے ذریعہ سے آتا رہا اور انسانوں کو اس کی تعلیم دی جاتی رہی۔ثابت ہو اکہ آپؐ کی دعوت میں اشتراکیت کا ذرہ برابر بھی شائبہ تک نہیں ہے۔اشتراکیت منوانے کے لیے روس میں ابتدائی چند سالوں میں۱۹ لاکھ آدمیوں کو موت کی سزا دی گئی۔تیس لاکھ کو مختلف سزائیں دیں۔پچاس لاکھ آدمیوں کو جلا وطن کر دیا گیا۔جدید اشتراکی چین کے نمائندے نے ۳ دسمبر ۱۹۵۶ء کو اتحادی اسمبلی منعقدہ پیرس میں اعلان کیا کہ کمیونسٹ حکومت نے چین میں ڈیڑھ کروڑ زمین داروں کو پھانسی پر لٹکا دیا۔( مقالات افغانی۔ج۱۔ص۱۰۸)۔ہوبرٹ کا یہ نظریہ کسی طور درست نہیں اور نہ ہی قابلِ قبول ہے۔
اسلامی اشتراکیت: معاشرتی عدل اور تقسیم دولت کے لیے قانون بنانے اور اپنی نشاۃ ثانیہ کے لیے اشتراکیت کو عنوان اولین قرار دینے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اسلام کی اجتماعی تحریک ایمان باللہ کے عقیدہ اور افراد کی مساوات سے شروع ہوتی ہے جس کی غایت معاشرتی عدل کا مقام ہے۔یہ ہے اسلام کی اپنی اشتراکیت جس کی غایت محض مال اور اس کی تقسیم نہیں بل کہ یہ دراصل اس روحانی تحریک کی ایک شاخ ہے جس کا مقصد ایک خاص نظام کے اندر خدا کے بندوں کے مابین عدل و انصاف کا قیام اور حسنِ سلوک کے ذریعہ رضائے الہٰی کی تحصیل ہے۔غور فرمائیے اسلامی نظام کی تعبیر کے لیے اشتراکیت کے لفظ میں یہ صلاحیت کہاں کہ وہ اس نظام کا صحیح عنوان بن سکے‘‘ (نقوش ۴۔۵۲۴) جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے کہ تمام سچے ادیان ایک ہی ہیں تبھی تو ’’ہوبرٹ‘‘ ابتدائی اصل صورت اسلام کی دیکھنا ضروری نہیں سمجھتا اور اسلام کے براہِ راست مطالعہ سے یہ اخذ کرتا ہے کہ آپﷺ مذہبی عقیدہ کی بجائے ایک سماجی مصلح تھے جس کے پیشِ نظر بگڑے ہوئے حالات کی اصلاح کرنا اور بالخصوص حریص دولت مندوں اور پریشان غریبوں کے درمیان فرق واضح ہے۔یہ تعبیر بھی غلط ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ نبی اور غیر نبی کے فرق کو واضح کیا جائے ۔یہ فرق چار حیثیتوں سے نمایاں ہے۔۱: مبداء کا فرق۔۲: غرض و غایت کا فرق۔۳: طریق دعوت کا فرق۔۴: علم و عمل کا فرق۔
نبی کے علم کا مبداء و منبع‘ ماخذ و سر چشمہ جو کچھ کہو وہ تعلیم ربانی‘ شرح صدر اور وحی و الہام ہوتا ہے اور حکیم اور مصلح کے علم کا ماخذ و منبع تعلیم انسانی‘ گزشتہ تجربہ، اشعراء اور قیاس ہوتا ہے۔یعنی حکیم عقل سے جانتا ہے اور نبی خالق عقل سے۔
۲: اسی طرح ایک حکیم کے تمام اقوال اور جدو جہد کا منشاء اپنی شہرت طلبی‘ علم کا اظہار‘قوم یا ملک کی محبت کی خاطر اس کی اصلاح ہوتا ہے مگر ایک نبی کا مقصد و غرض خدا کے حکم کا اعلان اور خالق کی رضا مندی کے لیے مخلوق کی بھلائی ہوتا ہے۔
۳: طریق دعوت: حکیم و مصلح اپنی دعوت کی عمارت کو تمام تر حکمتوں ‘ مصلحتوں اور علل و اسباب کے ستونوں پر کھڑا کرتا ہے مگر نبی اپنی دعوت کو خالق کی اطاعت‘ محبت اور رضا جوئی پر قائم کرتا ہے۔
۴: علم و عمل: حکیم کہتا ہے لیکن اس کا کرنا اس کے لیے ضروری نہیں۔نبی جو کہتا ہے وہ کرتا ہے اور اس کو کر کے دکھانا اس کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔وہ صرف جلوت کے منبر پر جلوہ نما نہیں ہوتا بل کہ وہ جلوت و خلوت اور ظاہر و باطن میں یکساں حسنات سے آراستہ اور برائیوں سے پاک ہوتا ہے۔( سیرت النبی۴۔ ۳۷) آپؐ کا تعارف ’’ محمد رسول اللہ اور وما محمد الا رسول‘‘ ہے(محمد اللہ کے رسول ہیں اور محمد پیغمبر کے سوا نہیں ہیں) اس کے سوا اور کوئی کلمہ موزوں نہیں۔اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ نبی و رسول کے لیے لیڈراور ریفارمر وغیرہ کے الفاظ استعمال کرنا جائز نہیں ہیں کیوں کہ نبی اور دیگر الفاظ جیسے لیڈر اور ریفارمر وغیرہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اس زمانہ میں بعض مستشرقین اور بعض نام نہاد اسلام پسند لوگ نبی کو ایک لیڈر اور ریفارمر اور دین کو ایک تحریک سمجھتے ہیں۔نبی کے لیے ایسے الفاظ ہمارے نزدیک نہایت بے ادبی اور توہین کے ہیں اور اسے اپنے مقام سے گرا کر عوامی سطح پر لانا بڑی جسارت ہے۔۔ ایک لیڈر اور ریفارمر کی تعلیم و تربیت عام انسانوں کی طرح ہوتی ہے ۔ان ہی کی طرح وہ تعلیم و تربیت حاصل کرتا ہے۔ان ہی کی طرح اس کی زندگی میں اتار چڑھائو آتے ہیں۔پھر وہ اپنی سعی و محنت اور اس کے ساتھ اپنی فطری صلاحیت اور دل سوزی کی بناء پر قوم یا ملک میں کوئی سیاسی، اجتماعی،اقتصادی،معاشرتی اور تعلیمی انقلاب برپا کرتا ہے۔کامیاب ہونے پر قوم اسے لیڈر یا ریفارمر تسلیم کر لیتی ہے لیکن انبیاء کی حالت ایسی نہیں ہوتی اول تو ان کی تعلیم و تربیت ہی صفت اجتباء اور اصطفاء کے تحت ہوتی ہے ۔۔پھر ان کے ہر قول و فعل میں تضاد نہیں ہوتا۔قدرت اس کی خود نگرانی کرتی ہے۔حتیٰ کہ ان کی غذا‘ قوت شنوائی،قوت بینائی سب کو صفت عصمت کے تحت معصوم رکھا جاتا ہے۔پھر وہ لیڈر کی طرح قوم کے کہنے پر نبی نہیں بنتے بل کہ وہ رب العزت کی طرف سے اس منصب پر فائز ہوتے ہیں اور خود اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں تمھاری بہتری و بھلائی کے لیے نبی و رسول بنا کر بھیجا ہے۔
۲: لیڈر اور ریفارمر اپنی تحریکوں اور پارٹیوں کو وقتی مصلحتوں کے تحت چلاتے اور اپنی ذہانت و حکمت عملی سے تحریک کے مختلف گوشوں میں ہوا کا رخ دیکھ کر ردوبدل کرتے رہتے ہیں۔نہ ان کے لیے معین حدود و قیود ہوتی ہیں اور نہ ہی پیروی کے لیے ان کے سامنے کوئی اسوہ حسنہ ہوتا ہے۔ اس کے بر عکس انبیاء کے لیے خود حق تعالیٰ کے مقررہ حدود و قیود ہوتے ہیں۔وہ حق تعالیٰ کی ہدایت کی روشنی میں چلتے ہیں۔ان کی جدو جہد کو یہ افتاد کبھی پیش نہیں آتی کہ وہ اٹھیں تو آندھی کی طرح اور بیٹھ جائیں بلبلے کی طرح۔( خاتم النبین۔۲۰۰)وہ طوفانوں کے زور کے ساتھ بھی چلیں گے تو اس میں نسیم صبح کی خوشگوار روانی اور باد بہاری کی عطر بیزی اور مشک ریزی ہو گی ۔ بجلیاں آئیں گی لیکن وہ بھی ان کو اپنے راستہ سے روک نہیں سکیں گی وہ زمانے کی ہوا کا رخ دیکھ کر نہیں چلتے بلکہ زمانے کو اپنے مطابق ساتھ لے چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں آخر وہ کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ لیڈروں کا مقصد کامیابی ہوتا ہے لیکن انبیاء کا مقصد کامیابی کے ساتھ ساتھ اللہ کی رضا ہوتی ہے۔وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف ہو۔ ۳:پھروہ لیڈروں کی طرح گفتار کے غازی نہیں ہوتے بل کہ وہ اپنے کردار کے غازی بھی ہوتے ہیں۔ان کے دل و زبان اور قول و عمل میں مطابقت ہوتی ہے۔ ما یقولون مالا تفعلون کے خلاف ہوتے ہیں۔ان کی زندگی کی کتاب اور ان کی دعوت کی کتاب میں ذرا برابر فرق نہیں ہوتا۔ اس قدر واضح فرق کے بعد نبی کو ریفارمر یا دین کو تحریک کا نام دیں تو وہ لوگ کم علم ہیں۔اس طرح چند سر پھرے یا روشن خیال یا نا آشنا لوگ ’’ مفکراسلام‘‘ یا ’’داعی اسلام‘‘ کہنے لگیں تو یہ اسلام کے ساتھ استہزا سے کم نہیں ہے۔( خاتم النبیین۔۲۰۲۔۲۰۱)
۴: دوسرے لوگوں سے جو چیز نبی کو ممتاز کرتی ہے وہ وحی الہٰی ہے جس کا نزول اس پر ہوتا ہے تو اس کی حیثیت بالکل بدل جاتی ہے ۔ہاں ہے تو وہ انسان لیکن وحی کا حامل‘ جس سے وہ بھولی بھٹکی مخلوق کے لیے روشنی کا مینار اور دکھ و غم کا مسیحا بن جاتا ہے۔ ہاں ہے تو وہ انسان اور انسان ہی نظر آتا ہے لیکن اس کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ ’’ انما انا قاسم‘‘ ( کہ میں اللہ کی رحمتیں اور نعمتیں تقسیم کرنے والا ہوں) یہی بات ’’واٹ‘‘ بھی کہتا ہے کہ"In this day and generation He was a social reformer even a reformer in the sphere of morals"
نبی اور رسول ﷺ کے الفاظ سب سے زیادہ بہتر اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہیں ۔ اس سے زیادہ کوئی اور کلمہ بہتر نہیں ۔ بدر عالم کہتے ہیں ۔’’نبی اور رسول کا صحیح مقام سمجھنے کے لیے خود نبی اور رسول کے الفاظ سے زیادہ صحیح لفظ اور کوئی نہیں ۔ان الفاظ سے محبت و عظمت کے وہ تمام تقاضے بھی پورے ہو جاتے ہیں جو ایک کامل سے کامل انسان کے لیے فطرت انسانی میں موجزن ہوتے ہیں اور عبد و معبود کی وہ ساری حدود بھی اس میں محفوظ رہتی ہیں جو کفر و ایمان کے درمیان خط فاصل ہو سکتی ہے ۔اس لیے خدا تعالیٰ کے سب رسولوں نے اپنا تعارف اسی لفظ رسول کے ذریعہ پیش کیا اور آخر میں قرآن کریم نے سب سے افضل اور سب سے برتر رسول کا تعارف بھی جس لفظ میں پیش کیا وہ بھی رسول ہے۔‘‘
محمد رسول اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد اللہ کے رسول ہیں ۔
وما محمد الارسول ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور محمد نہیں سوائے رسول کے ۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد ﷺ پیغمبر ہونے کے سوا الوہیت کا شائبہ تک نہیں رکھتے۔(ترجمان سنہ ۱۔۴۵۷)
اعتراض نمبر۱۷۸
پیغمبر اسلام کے فرمان ’’ دولت سے محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے‘‘۔
جواب:اس پر یہ بات کہی جا تی ہے کہ یہ فرمان واضح طور پر اشتراکی عقیدہ کی اہمیت کا غماض ہے۔ ہنری جارج نے بھی اسی نقطہ نگاہ کو اپنا لیا ہے کہ ہماری بلند ترین تہذیب و ثقافت میں انسان بخیلی کا شکار ہو کر نہیں مرتا بل کہ اس کی موت کا سبب دوسرے شخص کا نا منصفانہ رویہ ہے
اور وہ اسلامی معاشرے کے نظام حیات کے ان اصولوں سے بے بہرہ ہوتا ہے جو آج سے ۱۴۳۵ سال قبل داعی اسلام نے دیے تھے۔ ممتاز مفکرین کو اس کا احساس شدت سے ہو رہا ہے کہ نسل انسانی اجتماعی معاشرتی انصاف کی بنیادی اقدار پر عمل پیرا نہیں رہی۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے دروازے کے سامنے سے گزرتے ہوئے میں نے سنا کہ ام المومنینؓ قدرے بلند آواز میں پیغمبرؐ سے دل بستگی کا اظہار یوں کر رہی تھیں۔حضورؐ آپ نے جو کی روٹی کبھی جی بھر کر نہیں کھائی۔اے اللہ کے نبی آپؐ نے عسرت اور تنگی کو خوشحالی اور امارت پر ترجیح دی۔آپؐ پاکیزگی اور طہارت کے پیشِ نظر کبھی شب بھر نہیں سوئے‘‘۔ حضرت عائشہؓ سے ایک معتبر حدیث میں ہے کہ جناب پیغمبر ؐ نے فرمایا کہ ’’ روز قیامت اللہ کے سائے کے نیچے سب سے پہلا شخص وہ ہوگا جس کو جب اللہ کے دئیے مال سے خرچ کرنے کو کہا گیا تو اس نے برضا و رغبت خرچ کیا اور یوں انصاف کیا جیسے وہ خود اس سے فائدہ مند ہو‘‘۔
دولت سے محبت اس وقت برائیوں کی جڑ بنتی ہے جب اسے ناجائز طریقے سے کمایا جائے اور غلط اور ناجائز طریقے سے خرچ کیا جائے۔ اس کے برعکس اگر درست اور صحیح طریقہ سے مال کمایا جائے اور صحیح استعمال میں لایا جائے تو عین سعادت و عبادت ہے مثلاََ حضرت عثمانؓ نے دل کھول کر اسلام کی راہ میں خرچ کیا ۔ جب سے اسلام قبول کیا کئی غلام آزاد کرتے رہے ۔حضرت صدیق ؓ نے جنگ تبوک کے موقعہ پر اپنے گھر کا سارا مال سمیٹ کر بارگاہ نبوی میں پیش کر دیا جس کی مقدار چار ہزار درہم تھی۔ آپ ﷺ نے پوچھا ـ: گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ عرض کیا ’’ اللہ اور اس کا رسول بس حضرت عمر ؓ اپنے مال کا نصف حصہ حضورﷺ کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں یہ جائز ضرورتوں پر مال کا استعمال تو شہ آخرت اور ذریعہ نجات ہے ۔ حضرت عثمان ؓنے ایک قافلہ ملک شام کے لیے تیار کیا ہوا تھا جس میں پالان اور کجاوے سمیت دو سو اونٹ اور ساڑھے انیس کلو چاندی تھی یہ سب کچھ پیش کر دیا اس کے بعد ایک سو اونٹ پالان کجاوے سمیت پیش کیے ۔اس کے بعد ایک ہزار دینار بھی اور ساڑھے پانچ کلو سونا آپ ﷺ کے قدموں میں لا کر ڈھیر کر دیا ۔ حتیٰ کہ نقدی کے علاوہ نو سو اونٹ اور ایک سو گھوڑے اللہ کی رضا کے لیے انہوں نے بارگاہ نبوی میں پیش کیے ۔ عبدالرحمان بن عوف ؓ نے دو سو اوقیہ (ساڑھے انتیس کلو) چاندی لا کر حضور ﷺ کو پیش کی ۔ سید نا عاصم ؓ نے نوے وسق ( ساڑھے تیرہ ہزار کلو) کھجور پیش کی ۔( خاتم النبین ۔۸۷۱)
مسلمان کے دل میں دولت تو کیاکسی شے کی محبت جو اللہ سے غافل کر ے ، پیدا نہیں ہوتی ۔ وہ تو ہمہ وقت بھلائی و خیر خواہی کے کاموں میں اپنی دولت کو صرف کر نے میں برضا و رغبت شاداں و فرحاں رہتا ہے اور اس مژدہ جاں فزا ’’ فاستبقو الخیرات ‘‘ پر عمل پیرا رہتا ہے ۔ مومن جانتا ہے کہ یہ سب کچھ میرے خدا کی دین ہے یہ اسی کا دیا ہوا ہے اگر اس سے خرچ کرتا ہوں تو اسی کے دئیے سے کرتا ہوں اس میں میرا کچھ نہیں ہے یہ تو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا انعام و فضل ہے جو اس نے عطا کیا ہے ارشاد ربانی ہے ’’ ومما رزقنھم ینفقون ‘‘ ( اور جو ہم نے روزی دی خرچ کرتے ہیں ) ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو کچھ کسی کے پاس ہے مثلاََ مال و متاع ہو یا علم و عرفان ، کسی کا اپنا نہیں بلکہ سب اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے ۔ بقول شاعر
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اس طرح اگر اس مالک کی راہ میںخرچ کیا ، اسی کے دئیے ہوئے مال سے کیا تو اس میں بندہ مومن کا کوئی کمال نہیں اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اسی میں ہے کہ اس سے محبت کر کے بخل نہ کرے بلکہ ان نعمتوں سے جو لوگ محروم ہیں ان میں بانٹتا چلا جائے ۔ کسی وقت ریاست کو ضرورت پڑے تو اس موقعہ پر بھی پس و پیش نہیں کرنی چاہیے بلکہ جس قدر ممکن ہو بڑھ چڑھ کر ملکی مفاد کی خاطر خدمت کرنی چاہیے ۔
حضرت ابی کبشہ کے اعاری سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ اس امت کا حال چار آدمیوں کے حال کی طرح ہے ایک وہ آدمی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے علم بھی دیا اور مال بھی دیا ہے وہ اپنے مال میں اپنے علم کے مطابق تصرف کر تا ہے دوسرا وہ آدمی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے علم تو دیا ہے لیکن مال نہیں دیا ہے ۔ وہ یہ جذبہ رکھتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے مال دیا ہوتا تو وہ بھی اس بھائی کی طرح اپنے مال میں تصرف کرتا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ دونوں آدمی اجر میں برابر ہیں ‘‘ تیسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے علم نہیں دیا لیکن مال دیا ہے وہ اپنے مال میں ناجائز تصرف کرتا ہے اور چوتھا آدمی وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے علم بھی نہیں دیا ہے اور مال بھی نہیں دیا ہے وہ یہ جذبہ رکھتا ہے کہ میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی اس آدمی کی طرح اس مال کو اڑاتا آپ ﷺ نے فرمایا یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں ۔( ترمذی ، احمد ، ابن ماجہ )
مال اللہ کی نعمت ہے جائز طریقہ سے کمانا اور جائز کاموں میں خرچ کرنا بھلائی کا کام ہے آدمی کو اللہ تعالیٰ مال دے دے تو وہ اسے صرف دنیا بنانے کے لیے استعمال نہ کرے بلکہ اس سے آخرت بھی سنوارے ۔ ایسا آدمی خوش قسمت ہے ۔ اسی طرح وہ آدمی بھی خوش قسمت ہے جسے مال تو نہیں ملا لیکن اس کی نیت ، عزم اور جذبہ یہ ہے کہ اسے مال ملتا تو وہ بھی اسے جائز کاموں میں صرف کر کے آخرت میں بلند درجہ حاصل کرتا فرمان رسول کے مطابق یہ شخص بھی اجر عظیم کا مستحق ہے یہ بھی نیت اور جذبے سے اپنی آخرت بنا رہا ہے لیکن جو مال ناجائز کمایا جائے اور ناجائز کاموں میں لگایا جائے وہ گناہ گار ہے اور اسی طرح کا جذبہ رکھنے والا بھی گنہگار ہے ۔ فقیر اور مساکین کے لیے اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ وہ انہیں ان کے اچھے اور پاک جذبات کی بناء پر نیک کاموں میں صرف کرنے والے امراء کے برابر ثواب عطا فرماتا ہے ۔
حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے رزق حلال کمایا اور سنت پر عمل کیا اور لوگ اس کی طرف سے آفتوں سے بچے رہے وہ جنت میں داخل ہو گا ۔ (المستدرک حاکم)
عبد الرحمن جامی ؒ شیخ کامل کی تلاش میں نکلتے ہیں ۔ چلتے چلتے حضرت عبید اللہ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں وہاں ان کے خانقاہی نظام کو دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں ۔ جامی دیکھتے ہیں کہ ان کے گھوڑوں کے کھونٹے سونے کے ہیں اس حالت تذبذب میں ان کے ذہن میں ایک فقرہ گردش کرنے لگتا ہے ’’ نہ مرد آنست کہ دنیا دوست دارد ‘‘ ( مرد وہ نہیں ہوتا جو دنیا کو دوست رکھتا ہے ) بس کیا تھا واپس چلے آتے رات خواب میں دیکھتے ہیں کہ میدان حشر بپا ہے ان سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ فلاں بندے کا حق واپس کریں ۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے پاس تو کچھ نہیں ، خالی ہاتھ ہوں ۔ اسے حکم ہوتا ہے کہ اسے دوزخ میں ڈال دو ۔ ان پر نہایت پریشانی کا عالم طاری ہے کہ اس اثناء میں حضرت عبید اللہ پاس سے گزرتے ہیں ۔ وہ جامی سے پریشانی کا سبب پوچھتے ہیں ۔ وہ وجہ بتاتے ہیں کہ فلاں بندے کا حق واپس کرنا ہے اور عالم یہ ہے کہ میں خالی ہاتھ ہوں ۔ حضرت عبیداللہ سونے کی ڈلی دیتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ لو اور اس بندے کو دے دو حضرت جامی سونے کی ڈلی دیتے ہیں جس سے ان کی جان بخشی ہو جاتی ہے ۔ صبح اٹھتے ہیں اور حقیقت نکھر کر سامنے آ جاتی ہے فوراََ حضرت عبیداللہ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ شیخ عبیداللہ آنے کی وجہ پوچھتے ہیں تو وہ سارا ماجرا سنا دیتے ہیں شیخ فرماتے ہیں کہ کل جو دن میں شعر پڑھ رہے تھے وہ سنائو ، جامی عرض کرتے ہیں کہ وہ نا مکمل ہے ، دوبارہ حکم پر شعر سناتے ہیں کہ ’’ نا مرد آنست کہ دنیا دوست دارد ‘‘ شیخ عبیداللہ فرماتے ہیں آگے یہ فقرہ ملا لو ’’ اگر دارد برائے دوست دارد ‘‘ ( اگر اللہ کا بندہ دنیا پاس رکھتا ہے تو اپنے دوستوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے رکھتا ہے ۔مکمل شعر یوں ہے ۔ ؎
نہ مرد آنست کہ دنیا دوست دارد
اگر دارد برائے دوست دارد
( مرد وہ نہیں ہوتا جو دنیا کو دوست رکھتا ہے ۔ اگر بندہ رکھتا ہے تو دوستوں کے لیے )
یہود و نصاریٰ اپنے لیے جائز اور دوسروں کے لیے ناجائز کہتے ہیں ۔ دولت حلال طریقے سے کمانا اور جائز کاموں میں صرف کرنا احسن اقدام ہے ۔ کسی اپنے یا غیر سے مال ودولت کو ہتھیا لینا ، اسلام اس کی قطعاََ اجازت نہیں دیتا یہ بھی یاد رہے کہ مال کو جمع کرنا غلط نہیں ہے ۔ آپ ﷺ کے دور میں مال دار صحابہ کرام موجود تھے اور حضور ﷺ نے انہیں کبھی حکم نہیں دیا کہ تم سارا مال صدقہ کر دو بلکہ حضرت سعد بن ابی وقاص نے جب اپنا سارا مال راہ خدا میں دینے کا اظہار کیا تو حضور ﷺ نے منع فرمایا البتہ صورت حال بگڑ جائے اور حالات اس کا تقاضہ کرتے ہوں جیسے قحط سالی کا دور دورہ ہو ، لوگ فاقوں مر رہے ہوں اور بیت المال میں کوڑی نہ رہے اس وقت زکوۃ کی ادائیگی پر اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ حاکم وقت ضرورت کے مطابق زیادہ ٹیکس وصول کر سکتا ہے ان حالات میں دولت کا جمع رکھنا بھی جائز نہ ہوگا ۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے روایت کی ہے ’’ جس شخص کے پاس سونا اور چاندی ہو لیکن وہ اس کاحق ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس کی تختیاں بنائی جائیں گی اور انہیں جہنم کی آگ میں اس شخص کے پہلو ، پیشانی اور پشت پر داغ لگائے جائیں گے جب وہ ٹھنڈی ہو جائیں گی انہیں پھر گرم کیا جائے گا ۔‘‘ قران مجید سورت توبہ آیت نمبر ۳۴ میں ہے (ترجمہ ) ’’ اے ایمان والو! بے شک اکثر پادری اور راہب کھاتے ہیں لوگوں کے مال ناجائز طریقے سے اور روکتے ہیں ( لوگوں کو ) راہ خدا سے اور جولوگ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور نہیں خرچ کرتے اسے اللہ کی راہ میں تو انہیں خوشخبری سنا دیجئے درد ناک عذاب کی ۔جس دن تپایا جائے گا ( یہ سونا چاندی) جہنم کی آگ میں پھر داغی جائیں گی اس سے ان کی پیشانیاں اور ان کی پشتیں اور ان کے پہلو کہ یہ ہے جو تم نے جمع کر رکھا تھا اپنے لیے تو چکھو ( سزا اس کی ) جو تم جمع کیا کرتے تھے ۔‘‘ مخالفین کی اپنوںپر نظر نہیں بلکہ دوسروں پر لگی رہتی ہے۔ یہود و نصاریٰ کے علماء اور راہب قانون سازی کے اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لے کر حیلوں بہانوں اور خود ساختہ قانون سے لوگوں کا مال لوٹتے ہیں ۔
عیسائیت کو قرون وسطیٰ میں جو تسلط اور اقتدار حاصل رہا اس سے انہوں نے جس طرح ناجائز فائدہ اٹھایا اور جس بے دردی سے اپنے عقید ت مندوں کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹا اس کی کہانی بڑی دلچسپ اور بڑی دردناک ہے ۔ کیتھولک فرقہ کا پوپ جنت کی ٹکٹ قیمتاََ فروخت کیا کرتا تھا۔ اس کے نائب اور کارندے گناہ کی بخشش کا پروانہ لکھ دیتے تھے اور خریدار اپنی استطاعت کے مطابق اس کی قیمت ادا کرتا یہ راہب اور پادری بادشاہوں اور امراء کی خاطر حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا کرتے ۔اس طرح منہ مانگی رقم لے کر اپنی تجوریاں بھرتے تھے۔ مقدمات کا فیصلہ رشوت کے بل بوتے پر کرتے تھے اس قسم کی کئی طریقے تھے جن سے دولت کے رسیا مال و دولت جمع کرنے میں شب و روز مصروف رہا کرتے اور جس طرح ناجائز طریقے سے دولت لوٹتے تھے وہ اسی طرح اس کو جمع کرتے اور اشد ضرورت کے ہوتے ہوئے بھی یہ ایک دام خرچ کرنے کے روادار نہ تھے جب کہ دین اسلام نازک حالات میں خواہ قحط سالی ہو لوگ بھوکے مر رہے ہوں یا زلزلہ زدگان ہو ں اور بیت المال خالی ہو چکا ہو تو مال کو جمع رکھنا ناجائز ہے ۔ اسلام غیر مسلموں سے جزیہ لے کر ان کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کا بیڑا اٹھاتا ہے اگر حفاظت کرنے میں کوئی رکاوٹ اور دشواری پیش آ جائے تو وہ مسلمان جزیہ انہیں واپس لوٹا دیتے ہیں ۔ حضرت خالد بن ولید ؓ نے صلوبا بن نسطونا اور اس کی قوم سے معاہدہ کیا تھا اور اس کے الفاظ یہ تھے ۔(ترجمہ) ’’ یہ عہد نامہ ہے جو خالد بن ولید ؓ صلوبا بن نسطونا اور اس کی قوم سے کیا ۔ میں تم سے اس بات کو معاہدہ کرتا ہوں کہ تم جزیہ ادا کرو اور ہم تمہاری حفاظت کریں گے جب تک ہم تمہاری حفاظت کریں گے ہم جزیہ وصول کرنے کے حق دار ہیں ورنہ نہیں ۔‘‘ کوئی یہ کہے کہ یہ کہی گئی بات ہے عملی اظہار کی مثال پیش نظر ہونی چاہیے تھے ۔ چلو وہ بھی سنئے ! جنگ یرموک سے پہلے جب مسلمانوں نے جنگی مصلحت کے پیش نظر حمص وغیرہ کو خالی کرنا ضروری سمجھا تو اسلامی افواج کے سپہ سالار حضرت ابو عبیدہ ؓ نے اپنے تمام ماتحت جرنیلوں کو حکم بھیجا کہ اپنے اپنے علاقے سے جو جزیہ وصول کیا ہے وہ لوگوں کو واپس کر دو اور انہیں بتائوکہ تمہاری حفا ظت کی ذمہ داری ہم نے قبول کی تھی جس کے عوض تم نے ہمیں یہ رقوم دی تھیں سر دست ہم ان کو نبھانے سے قاصر ہیں اس لیے ہم یہ واپس کر رہے ہیں اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں دشمن پر کامیابی بخشی تو جو معاہدہ ہمارے اور تمہارے درمیان ہو چکا ہے وہ بحال رہے گا اور تم نے اسے نہ توڑا تو ہم اس کی پابندی کریں گے جب وہاں کے باشندوں نے یہ منظر دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے اور وہ دعائیں مانگنے لگے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں پھر ہمارے پاس واپس لائے اور دشمن پر غلبہ نصیب فرمائے ۔( ضیاء القران ۔۱۔۱۹۶)
مذکورہ مفسر بیان سے یہ واضح ہوا کہ دولت کا حلال طریقے سے کمانا اور جائز کاموں میں خرچ کرنا احسن اقدام ہے اس طرح سے دولت سے محبت نیکی کا پیش خیمہ ہے ہاں مگر حرام کی کمائی اور حرام کاموں میں لگائی تو اس کی وعید پیغمبر اسلام ﷺکے فرمان ’’ دولت سے محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے ‘‘۔کے مطابق ہے اور اس کی کڑی سزا ہے جیسا اوپر ذکر ہوا ہے ۔
اعتراض نمبر۱۷۹
اپنے زمانہ میں محمدؐ ایک سماجی مصلح تھے اور آپؐ کی اصلاحات کا دائرہ اخلاقی پہلو کو بھی محیط تھا۔اس کا جواب پہلے ہو چکا ہے۔اس کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ’’ مکہ کا مظلوم مبلغ صرف مدینہ کا حکمران ہی نہیں تھا بل کہ اپنے دور کا عظیم انسان بھی تھا۔
جواب:بہ ظاہر ’’واٹ‘‘ تعریف کرتا نظر آتا ہے لیکن آنحضرتؐ کی شان اقدس میں زہر چکانی کر رہا ہے۔ آپ نمونہ کامل ہیں اور رہتی دنیا تک آپؐ کا اسوہ کامل ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ ﷺ قیامت تک آنے والی نسلوں کے رسول ہیں ۔ لیکن ’’واٹ‘‘ یہ نشتر چلا رہا ہے کہ اگر آج کے ترقی یافتہ دور میں آپؐ کا معیار پرکھا جائے تو کئی کمیاں نظر آتی ہیں۔جب کہ آپ ﷺاپنے دور میں عظیم انسان تھے۔کیا اس مستشرق کو اپنے دور اور آج کل کے ترقی یافتہ دور میں اخلاقی قدروں کے میدان میں بھی کہیں ترقی کی راہیں نظر آتی ہیں جس سے تا حال نسلیں محروم و نا آشنا چلی آرہی ہیں ۔حتیٰ کہ یورپ اور امریکہ نے ٹیکنالوجی کے شعبہ میں زبردست ترقی کی ہے لیکن یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ اخلاقی میدان میں بھی وہ ترقی کی منازل طے کرچکے ہیں جن سے اب تک نسل انسانی بے خبر تھی خاندانی نظام کا وہ شیرازہ بکھر چکا ہے کہ نہ باپ، نہ بیٹے اور نہ بھائی بہن غرضیکہ کسی رشتے میں عظیم قدر نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔شرم و حیا نا پید ہو چکی ہیں۔اخلاص و ایثار کو دولت کی ہوس کی دیمک چاٹ گئی ہے۔گویا اصولوں کی بجائے اصولوں کی بے ضابطگی اور نا ہم آہنگیوں کا اجارہ ہے۔یہ اصولوں کی بہ جائے مفادات کا نظام رائج ہے۔ جھوٹ،جوا،شراب، منافقت، نفرت، فحاشی، زنااور خود غرضی آزادی کا محور ہیں۔جھوٹ کو آزادی رائے میں لپیٹ کر سچ دکھانے کا آئے دن بازار گرم ہے۔
آپؐ صرف مدینہ ہی کے حکمران نہیں تھے بل کہ حضورؐ قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے رسول ہیں اور آپ کی زندگی کا نمونہ زندگی کے ہر شعبہ کے لیے کامل نمونہ ہے۔آپؐ ناصرف اپنے دور میں عظیم انسان تھے بل کہ قیامت تک آنے والے ہر دور کے عظیم انسان ہیں جن کی عظمت کو چار چاند لگ گئے جبھی اللہ تعالیٰ نے ان کی شان میں یہ ارشاد فرمایا’’ ورفعنا لک ذکرک ‘‘ اور ولللآخرت خیر اللہ من الاو لیٰ‘‘۔ عظیم انسان کی عظمت کی ایک بہت بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اپنوں کے علاوہ غیر اور دوستوں کے علاوہ دشمن بھی ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔عظمت کا کمال اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے ہزاروں دشمنوں کے دل جیت لیے۔’’واٹ‘‘ مخالفت کے باوجود چند اعترافات کرتا ہے۔
۱: محمدؐ نے ایک روحانی اور سماجی نظام قائم کیا جو آج کی ترقی یافتہ دنیا کے چھٹے حصے کی راہنمائی کرتا ہے ۔یہ کام کسی دھوکے باز یا عیاش شخص کا نہیں ہو سکتا۔
۲: آپؐ اپنے مذہبی افعال،جرات،استقلال،غیر جانب داری اور ثابت قدمی جیسی خصوصیات کے ذریعے لوگوں کا اعتماد حاصل کر لیتے۔ آپؐ تشدد کی طرف مائل تھے لیکن آپؐ کی سخاوت اس میں توازن پیدا کر دیتی تھی۔ان کے علاوہ آپؐ کا حسن اخلاق لوگوں کو آپؐ کا گرویدہ بنا دیتا تھا۔اوپر آپ ﷺ کی دو صفات خاص طور پر استقلال اور غیر جانبداری کا اعتراف اس کے الزام ’’ آپ تشدد کی طرف مائل تھے ‘‘ کا سختی سے رد کرتا ہے ۔ مستقل مزاج اور غیر جانبدار شخص کبھی تشدد کی طرف مائل نہیں ہوتا ۔ غیر جانبدار کبھی سچائی کا دامن نہیں چھوڑتا ۔ سچا آدمی ہمیشہ سچ کو اپناتا ہے جس سے تشدد کا راستہ اپنانے یا اس کی طر ف مائل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
ٹارانڈ رائے:اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ محمدؐ بہ ذات خود کریم الطبع تھے۔آپؐ ماضی کی تلخیوں کو فراموش کر سکتے تھے۔آپؐ کی زندگی میں بعض واقعات ایسے پیش آئے جن سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح آپؐ ماضی کے دشمنوں کے دل اپنی اعلیٰ ظرفی سے جیت لیتے تھے۔ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی فاتح نے فتح کے وقت اس تحمل اور ضبط نفس کا مظاہرہ کیا ہو جس بات کا مظاہرہ محمدؐ نے کیا تھا۔
ولیم میور:in all dealings he was fair and up right and as be grew in years his houonrable bearing won for him the title of al.ameem the hathfull’’ محمدؐ معاملات میں راست باز اور انصاف پسند تھے۔ جب آپؐ کی عمر میں زیادتی ہوئی تو آپؐ کے شریفانہ طرز عمل کی وجہ سے قوم نے آپؐ کو الامین کا لقب دیا‘‘ عبدللہ بن ابی آپ ﷺ کا بڑا دشمن تھا اس کے ساتھ آپ ﷺ نے حکیمانہ سلوک کیا ۔ مزید کہتا ہے ’’ عبد اللہ بن ابی کی مسلسل مخالفت کے پیشِ نظررکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ محمدؐ اس کے ساتھ ہمیشہ تحمل اور بردباری سے پیش آئے‘‘۔
مستشرقین آپؐ کی خوبیوں کا اعتراف کر کے آپؐ پر لگائے گئے اخلاقی الزامات کا رد کر رہے ہیں۔ مستشرقین اور آپ ﷺ کے مخالفین کبھی ایک بات پر متفق ہوتے نظر نہیں آتے یہ حضورؐ کی عظمت کا بے مثال اور نا قابل تردید ثبوت ہے۔
اعتراض نمبر۱۸۰
’’ وہ ایک موقع پرست‘ مفاد پرست تھے‘‘ (نعوذ باللہ) اور ان کے ماننے والے غنیمت اور مال کے لالچ میں ان کے ساتھ ہوتے وہ دوسروں کو دھوکا دینا چاہتا بل کہ خود دھوکا میں رہتا تھا۔ Bryan" " (ن۔۱۱۔۵۳۹)
جواب:حقیقت تو یہ ہے جس کی گواہی پرائے اور دشمن دیں۔اور خاص طور پر ’’ الفضل ما شھدت بہ الاعدائ‘‘۔(ن۴ص ۴۸۱) ’’ بے شک بزرگی اور فضیلت وہی ہے جس پر دشمن اور اعدائے اسلام گواہی دیں۔اس سے بڑھ کر اعتراض کا رد کیا ہو سکتا ہے۔تو " Bryan" کے لیے سرولیم میور مستشرق اور دیگر کا بیان پیش کرتے ہیں۔ ’’ سرولیم میور‘‘ لکھتا ہے کہ ’’ اہل تصنیف محمدﷺ کے بارے میں ان کے چال چلن کی عصمت اور ان کے اطوار کی پا کیزگی پر‘ جو اہل مکہ میں کم یاب تھی‘ متفق ہیں‘‘۔
ن۔۴۔۴۷۹؍ڈاکٹر شیلے کہتا ہے کہ محمدﷺ گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے زیادہ افضل اور اکمل تھے۔ آئندہ ان کی مثال کا پیدا ہونا محال اور قطعاََ غیر ممکن ہے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ’’ ایک یہودی لڑکا آپؐ کی خدمت گزاری کرتا تھا۔اتفاق سے وہ بیمار پڑ گیا۔آپؐ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے۔پھر آپؐ نے اس سے اسلام قبول کرنے کے لیے کہا۔اس نے باپ کی طرف دیکھا جو وہیں اس کے پاس تھا۔ اس نے کہا’’ ابوالقاسمﷺ کا کہا مان لے۔پس وہ مسلمان ہو گیا۔اس سے آپؐ بہت خوش ہوئے اور وہاں سے نکلے تو فرمانے لگے کہ خدا کا شکر ہے کہ وہ آگ سے بچ گیا‘‘۔(ن۴ص ۱۷۰) صاف ظاہر ہے کہ اس لڑکے کی حالت نزاع میں اسلام لانے سے آپؐ کا کسی قسم کا ذاتی مفاد نہ تھا ۔ اور پھر مسرت صرف اور صرف اس کے مشرف بہ اسلام ہونے کے لیے تھی کہ وہ آگ سے بچ گیا۔آپؐ کی یہ تمام کوشش و سعی احکام خدا وندی کی اطاعت پر موقوف ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے۔’’ ھَوَ الَّذِی بَعثَ فِی الاُمُّیِنَ رَسُولاََ مِنھُم یَتبوُا عَلَیھُم اٰیَتہِ وَیُزَکِیھِم وَ یُعلّمُھُمُ الکِتَابُ وَالحِکمہَّ وِاِن کَانُوا مِن قَبلُ لَفِی ضَلاَل مَّبِین‘‘۔ (سورہ جمعہ۔۲)
ترجمہـ: وہی ذات تو ہے جس نے ان پڑھوں میں رسول بھیجا جو انھیں اللہ کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں اور انھیں قرآن و حکمت کی تعلیم دیتے ہیںاس سے پہلے یہ لوگ گمراہی صریح میں تھے‘‘۔
۲:محمد حسین ہیکل اپنی کتاب حیات محمد ص ۱۱۵ پر لکھتے ہیں کہ ’’ اس میں شک نہیں کہ خدیجہؓ کے ہاں اکابر قریش نے نکاح کا پیغام بھیجا مگر انھوں نے کسی کی درخواست منظور نہ کی ۔فرماتی ہیں اس لیے درخواست منظور نہ کی کہ ان کی نظر میرے مال پر تھی‘‘۔ اگر وہ عظیم خاتون آپؐ کو بھی مال پر نظر رکھنے والا سمجھتی تو وہ دوسروں کی طرح ان کی پیش کش بھی قبول نہ کرتیں ۔لیکن معاملہ اس کے بر عکس ہے۔ خدیجہ الکبریٰ کے بیان نے ثابت کر دیا کہ وہ موقع پرست اور مفاد پرست نہیں تھے۔اہل مکہ محمد ؐ کو جانتے ہیں کہ وہ الصادق ہیں وہ الامین ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آپؐ غریبوں، یتیموں، بیوائوں کی دستگیری فرماتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آپؐ مظلوم اور بے کس لوگوں کی مدد فرماتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آپ ؐ صلہ رحمی کرتے ہیں۔وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آپؐ نے کسی پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا یا کسی کا مال نہیں چھینا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آپؐ ہر برائی سے پاک ہیں مگر چڑ اور حسد صرف اس بات پر تھی کہ ان کے آبائو اجداد کے خلاف ان کا لایا ہوا دین تھا۔
قریش نے عتبہ بن ربیعہ کو بہ طور اپنا نمائندہ نبی مکرمؐ کی خدمت میں بھیجا کہ بات چیت اور گفت گو کر کے یہ منوائیں کہ وہ اپنے دین کی تبلیغ سے باز آجائیں اور اس کا پرچار نہ کریں۔ عتبہ نے حاضر ہو کر کہا‘ چند باتیں کہتا ہوں ان میں سے کوئی ایک بات پسند کر لیں۔ آپؐ نے فرمایا کہو! عتبہ نے کہا‘ بھائی کے بیٹے اس نئے مذہب سے آپؐ کا مقصود اگر مال و دولت ہے تو ہم آپ کے لیے اتنا مال جمع کر دیتے ہیں کہ آپ ہم سے زیادہ مال دار ہو جائیں گے۔ اگر اس سے ہم پر شرف حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا سردار بنا لیتے ہیں۔اگر آپ کو ملک چاہیے تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیتے ہیں۔اگر آپ کے دماغ میں خلل ہے تو اس کا علاج کروانے میں جتنا خرچہ اٹھا ہم برداشت کریں گے۔وغیرہ وغیرہ۔آپؐ نے جواب میں فرمایا : مجھے مال‘ دولت‘ حکومت کچھ نہیں چاہیے اور نہ ہی میرے دماغ میں خلل ہے۔میری حقیقت تمھیں قرآن سے معلوم ہو جائے گی پھر آپؐ نے سورہ حم سجدہ کی تلاوت آیت سجدہ تک فرمائی۔ ’’ حٓم۔ تنزیل مِنَ الَّرحمن الَّرحِیمِ کِتاب۔فصلت ایاتہ قرآن عربیا لقوم یعقلون۔بشیراََ و نذیراََ فاعرض اکثرھم فھم لا یسمعون ۔وقالوا قلوبنا فی اکنۃ مما تدعونا الیہ‘‘۔ پھر اللہ کے حضور سجدہ کیا۔ عتبہ مسحور ہو کر رہ گیا۔ ذرا سوچئے اور سمجھئے کہ اس سے بڑھ کر موقع پرستی کا کون سا بہتر موقعہ ہاتھ آ سکتا ہے؟ مفاد پرستی اور موقع پرستی مفاد پرست لوگوں کا کام ہوتا ہے اور وہ ہستی جو مامور من اللہ ہو اور جس کی ذمہ داری پیغام توحید پہنچانا ہو اور قعر مذلت میں ڈوبی انسانیت کو راہ مستقیم کی راہ پر چلانا ہو اور ہر قسم کی برائیوں کے جال میں پھنسے ہوئوں کو آزاد کروانا ہو وہ بھلا کیوں کر ایسا ہو سکتا ہے جسے مستشرق موقع پرست اور مفاد پرست کہیں۔مہمات باطل کا تدارک تھیں۔قافلوں کی گرفتاری ریاست کی writ کو چیلنج کرنے کے لیے تھی۔ معاہدات امن عامہ قائم کرنے کی غرض سے تھے۔ معاہدات موقع پرستی نہیں معاشرے میں قیام العمل کے اقدامات تھے۔ معاہدات کی خلاف ورزی ملت اسلامیہ نے نہیں ، فریق ثانی نے ہی کی۔اس خلاف ورزی کے نتائج موقع پر ستی نہیں ، فریق ثانی کی شامت اعمال تھی۔ فتنہ پرور لوگ شہر بدر کیے گئے موقع پرستی نہ تھی ان کی بد اعمالیوں کا نتیجہ تھی۔ ریاست سے غداری، معاشرے کے خلاف سازشیں موقع پرستی نہیں بل کہ ان کے جرائم اور سلامتی کے تقاضوں کے تحت سزا تھی۔ سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کی۔ یہی مال کے حصول کی خواہش تھی؟ وہ مجبور انسان جو تپتی ریت اور بھاری پتھر سینہ پر رکھ دیتے پھر بھی احد احد کہتا ہے کس غنیمت اور کشور کشائی کے خواب دیکھ رہا تھا۔ وہ انسان جس نے غلام خرید کر آزاد کیے کس سلطنت کا آرزو مند تھا۔ وہ انسان جن کا جسم اونٹوں سے چیرا جاتا ہے کون سی دنیاوی لذتوں کے پیچھے یہ دکھ جھیل رہا تھا۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ جنگیں کفار و مشرکین نے مسلط کی تھیں۔سازشیں اور معاہدات شکنی یہود نے کی۔ ان کے دفاع میں جلا وطنی یا اور کوئی سزا دی گئی تو وہ صرف اور صرف ان مذموم حرکات کے سبب تھی۔ یعنی یہ سب کچھ ان کے کیے دھرے کا نتیجہ تھا۔یہ سزائیں قانون کے تقاضوں اور امن و امان اور سلامتی کے لیے ضروری اور معقول تھیں۔ کسی صورت میں بھی کوئی متمدن معاشرہ اسے ناقابل معافی جرم نہیں گردانتا۔نیز سزا ان کے اپنے اپنے جرائم کے سبب تھی جو بر محل تھی۔ان کو جلا وطن کرنے، سزائیں دینے میں مفاد پرستی کا شائبہ تک نہ تھا۔ انھیں مسلمانوں نے تو نہیں کہا تھا کہ معاہدے توڑ دو،سازشیں کرو ،حکومتی writ کو چیلنج کرو اور ان پر چڑھ دوڑنے کے لیے ہمہ وقت تیاری میں رہو۔یہ تمام کارروائیاں صرف مسلمانوں کو مٹانے کے لیے تھیںتو موقع پرستی اور مفاد پرستی تو ان کے پلّے اور گھٹی میں پڑی تھی جسے خواہ مخواہ رہنمائے دو جہاںﷺ کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔عقل مند اور ذی فہم کے لیے فیصلہ کرنا آسان ہے کہ موقع پرست اور مفاد پرست کون تھا؟
قریش نے مسلمانوں سے بائیکا ٹ کا منصوبہ بنایااور قریش مکہ نے ایک ہی شہر میں بسنے والوں سے لین دین، تجارت و کاروبار ،حیات و ممات، شادی و بیاہ حتیٰ کہ سلام دعا تک کا مقاطعہ کردیا۔حرام مہینوں میں ڈاکہ،قتل و غارت اور ظلم و تشدد رک جاتا تھا لیکن مسلمانوں پر ظلم کا شکنجہ زیادہ کس دیا۔’’ طلح‘‘ کے پتے کھا کر گزارہ کرتے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کا بیان ہے کہ ایک رات سوکھا چمڑا ہاتھ آگیا۔میں نے اس کو پانی میں دھویا پھر آگ پر بھونا اور پانی میں ملا کر کھایا۔(شبلی۔۱۰۳) یہ کس موقع پرستی اور مفاد پرستی کا حصول تھا؟ رشتے ناطوں کی بندش ، تجارتی کاروبار کا ٹھپ ہو جانا اور بھوک پیاس کی صعوبتیں کون سے مال و دولت اور عزت و جاہ و جلال کے لیے برداشت کی جا رہی تھیں؟ عمر بھر کے ایک ساتھ رہنے والے مفاد پرست اور موقع پرست سمجھ کر آپؐ کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے اور پل بھر چین سے نہیں بیٹھتے تھے۔ ہر وقت یہی خیال کہ کس طرح ان مسلمانوں کو نیست و نابود کردیں۔آئیں میں بتاتا ہوں کہ وہ موقع پرستی اور مفاد پرستی کیا تھی؟ وہ مفاد پرستی اور موقع پرستی صرف یہ تھی کہ ایک خدا کو مانو اور شرک سے باز آجائو۔ زمانہ جاہلیت کی لغو اور باطل رسومات کو ترک کردو۔ بہ جز اس پیغام توحید کی اشاعت کی مفاد پرستی کے اور کوئی لالچ یا کوئی دنیاوی غرض نہ تھی۔ اگر موقع پرستی اور مفاد پرستی ہوتی تو حج کے دنوں میں گھاٹی سے نکل کر اپنے مقاطعہ کے خاتمہ کے لیے آئے ہوئے لوگوں سے بات چیت کرتے یا مکہ والوں سے ہی بائیکاٹ کا خاتمہ چاہتے۔لیکن آپ ﷺ تو گھاٹی سے نکل کر حج پر آنے والے لوگوں کو خدا پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں۔غضب خدا کا کہ اس کے جواب میں ابو لہب آپؐ کے ساتھ ساتھ پھرتا اور کہتا ہے دیکھو! یہ دیوانہ ہے( نعوذ باللہ) اس کی بات نہ سنو۔ جو سنے گا اور مانے گا تباہ ہو جائے گا۔( محمد۔۱۵۰)
سفرِ طائف میں آپؐ پر ظلم و تشدد کی انتہاکر دی گئی۔خون سے نعلین مبارک بھر گئے۔یہ تکالیف کس موقع پرستی اور مفاد پرستی کا پیش خیمہ تھیں؟ کس قسم کے نفع کے حصول کی آرزو تھی؟ فقط یہی نا کہ اللہ پر ایمان لائیں ۔برے اور قبیح افعال سے باز آئیں۔
کون سا ظلم جو روا نہ رکھا:اس ہستی مقدس کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے دروازہ پر کھڑے تلواریں لیے پہرہ دے رہے ہیں کہ کب نکلتا ہے؟ انہیں غلط فہمی ہوئی اور سمجھے کہ آپ ﷺ اپنے خانہ مبارک میں موجود ہیں جبکہ آپ ﷺ نے اپنے گھر مبارک کو دوپہر سے ہی خالی کر دیا تھا اور وہ ساری رات آپ ﷺ کے گھر سے باہر آنے کے منتظر رہے لیکن ناکام ہوئے اور یہ وہ ہستی جو خیر خواہی کا پیکر ہے۔ جس نے کسی کم زور اور نہتے پر ہاتھ نہیں اٹھایاحتیٰ کہ ہتھیار سے لیس ہو کر بھی پہل نہیں کی۔ترپن سال تک مکہ میں رہ کر ظلم و ستم کا نشانہ بنتا رہا۔ہر دکھ سہا مگر جواباََ کوئی زیادتی نہ کی۔بل کہ وہ تو ہر زیادتی اور نا انصافی کو روک رہا ہے۔لڑکیوں کو زندہ در گور نہ کرو، عورت کو جینے کا حق دو، ذہن کو نشّہ سے آلودہ نہ کرو کہ حق اور ناحق کی تمیز اٹھ جائے، جوا سے باز آجائو کہ جوا کسی کا نہ ہوا اور یہ شیطانی عمل ہے اور جوا میں عزت تک دائو پر لگ جاتی ہے۔ایسے مسیحا اور ہمدرد اعظم ﷺکو کفار مکہ ہجرت کرکے مدینہ جانے دینا بھی نہیں چاہتے۔ایک ایک فرد خون کا پیاسا ہے۔بارہ آدمی ننگی تلواریں لیے آپؐ کے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں لیکن آپؐ کی زبان سے ایک کلمہ ایک لفظ بد دعا کا نہیں نکلتا ہے۔کس کے مفاد پر اس مسیحانے ڈاکہ ڈالا تھا؟ کہ وہ تلواریں سونتے دروازہ پر منتظر ہیں؟ کس غریب کا حق چھین کر امیر کی جھولی میں ڈالا تھا یا خود کسی امیر کے حقوق کو غصب کیا تھا؟ تو پھر کون سا جرم تھا جس کی پاداش میں آپؐ کو ٹھکانے لگانے کے درپے تھے۔کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا اور ہر موقع پر فائدہ اٹھایا، ہر موقع پر خود مفاد حاصل کیا،دوسروں کو محروم کیا، کوئی تو بتا دے کہ وہ کون سا موقع تھا؟ تاریخی حقائق شہادت دیتے ہیں کہ وہ مسیحا تو ہر ایک کا خیال رکھنے والا، اپنے پرائے کا غم کھانے والا ہے۔ایسے الزامات سے ان کی ذات مبرا و منزہ ہے۔وہ تو صرف اور صرف کلمۃ الحق کا دعوے دار ہے۔پہلے انبیاء کی طرح جوحق کی تعلیم دیتے تھے وہ انھیں اپنی بستیوں سے نکال دیتے تھے یا قتل کر دیتے تھے۔اسی طرح حق کے مخالف قریش کے سرداروں نے بھی آپؐ کو مکہ میں رہنے نہ دیا۔نوح ؑ کی طرح ہجرت کرنا پڑی۔ حضرت صالحؑ کی قوم نے صرف اونٹنی کوہلاک کیا تھا لیکن ادھر قریش مکہ اللہ کے حبیب نبی مکرم ؐ کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت لوطؑ نے اپنی قوم کو ہم جنس پرستی کے فعل بد سے روکا تو انھوں نے کہا کہ انھیں بستی سے نکال دو لیکن اس طرف طاہر، صادق اور امین پر مشرکین تلواریں سونت کر مستور کھڑے ہیں۔شہر مکہ سے جانے نہیں دے رہے بل کہ ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔اللہ نے توفیق بخشی اور آپؐ بہ حفاظت گھر سے چل پڑے۔پھر تعاقب میں رات دن ایک کر دیا۔ہر ایک نے اس کام میں برابر کا حصہ ڈالا۔سو سرخ اونٹوں کا انعام رکھا گیا۔یہ کس موقع پرستی اور مفاد پرستی کا نتیجہ تھا؟ موقع پرست ایک غیر مسلم کی رائے ہے کہ ’’ حقیقت بہ ہر حال حقیقت ہے اگر بغض و عناد کی پٹی آنکھوں پر سے اتار دی جائے تو پیغمبر ؐاسلام کا نورانی چہرہ ان تمام داغ دھبوں سے پاک صاف نظر آئے گا جو بتلائے جاتے ہیں۔۔ سوامی برج نارائن سنیاسی (ن۔۴۔۴۸۷)
تاریخ شاہد ہے کہ موقع پرست اور مفاد پرست لوگوں کا ساتھ ابتداء میں لوگ دیتے ہیں لیکن جلد ہی وہ مفاد پرست اور موقع پرست کو چھوڑ دیتے ہیں کیوں کہ جان جاتے ہیں کہ وہ مفاد پرست اور غرض کا بندہ ہے دوسروں کی اسے کوئی فکر نہیں۔اپنے فائدے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔جب اس کے ساتھی سمجھتے ہیں لالچی ہے ،حریص ہے ،نا انصاف ہے تو اسے خیر باد کہہ دیتے ہیں مگر ادھر صورت حال ہی مختلف ہے۔جس نے دامن پکڑا وہ دامن گیر رہا ۔جو ان کا غلام بنا اسے آزاد ہونے کی آرزو نہ رہی یعنی جو اس محبوب کے لائے ہوئے دین کی زلف کا اسیر ہوا وہ اسیر ہی رہا بل کہ گروہ کے گروہ اسلام کی کاکل پیچاں کے اسیر ہوتے چلے گئے۔
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
سب اسی زلف کے اسیر ہوئے
حبشہ کا نجاشی بادشاہ، عمان کا ملک جیفر، دومتہ الجندل کا شاعر اکیدر آپ کے پیغام پر لبیک کہتے ہیں۔ نجد کے وحشی، تہامہ کے بدو اور یمن کے مسکین ایک ہی صف میں شامل ہونے پر نازاں ہیں۔ عبد اللہ بن سلام یہودیت ، ورقہ بن نوفل عیسائیت اور عثمان بن طلحہ ابراہمیت کو چھوڑ کر اسلام کے حامی اور خادم بننے پر فخر کرتے ہیں۔ یہودیوں کا زر خرید غلام سلمان فارسی اہلِ بیت میں سے ہے ، کا درجہ حاصل کرتا ہے۔ خالد بن ولید جس نے جنگ احد میں مسلمانوں کو کافی نقصان پہنچایا تھا۔وہ لات و عزیٰ کے بت اپنے ہاتھوں سے گراتا ہے۔ قریش کا سفیر عروہ بن مسعود مدینہ میں آکر اسلام قبول کر لیتا ہے۔ سہیل بن عمرو معاہدہ حدیبیہ میں قریش کا نمائندہ تھا اور اسم محمدﷺ کے ساتھ لفظ رسول اللہ ﷺلکھنے کا انکاری تھا۔وفات نبوی کے بعد بیت اللہ میں کھڑے ہوکر اسلام کی صداقت کا دم بھرتا ہے۔ وہ عمر جو تلوار لیے حضورؐ کا سر قلم کرنے نکلا تھا وہی تلوار وفات نبوی پر لہرا رہی ہے کہ اس کا سر تن سیجدا کر دوں گا جس نے کہا کہ نبی وصال کر گئے ہیں۔اسلام کا بد ترین دشمن سات سال تک حضور ؐ کے سامنے فوجیں لاکر مقابلہ کرتا رہا وہی ابو سفیان جنگ حنین میں تن تنہا رکاب نبوی تھامے ہوئے تھا۔ طفیل دوسی جو کانوں میں روئی ٹھونستا تھا کہ محمدؐ کی آواز کانوں میں نہ پہنچے وہی طفیل گھر گھر پھر پھر کے محمد ﷺکی آواز پہنچاتا نظر آتا ہے۔ بریدہ بن الحصیب اور سراقہ بن مالک بن جعشم ہجرت کے موقع پر انعام کے لالچ میں آپؐ کے تعاقب میں نکلا ، کرنا خدا کا کہ بریدہ نبی مکرم ﷺکے سفر ہجرت کا علم بردار بن جاتا ہے اور سراقہ کو کسریٰ کے کنگن پہنائے جانے کی بشارت ملتی ہے۔آخر وہ بھی اسلام میں داخل ہو گیا۔کیا یہ سب کے سب مخالفین آپؐ کی دعوت و تعلیم سے فیض یاب نہیں ہوئے اور سوائے دعوت توحید کے کہیں کیا حصولِ مفاد کا ذرا برابر شبہ پڑتا ہے یا انھوں نے کہا ہو کہ آپؐ موقع پرست اور مفاد پرست تھے؟ تو انھیں موقع پرست اور مفاد پرست کہنا کسی طور جائز و مناسب نہیں ہے بل کہ نا انصافی اور زیادتی ہے۔
آپؐ اور آپؐ کے ساتھی ہجرت کر کے مدینہ چلے آتے ہیں۔مال و دولت، مکان، دکان، عزیز و اقارب الغرض سب کچھ مکہ چھوڑ آتے ہیں۔ جب مکہ فتح ہوتا ہے کفار و مشرکین مغلوب ہو جاتے ہیں۔آپ ؐ ’’ لا تثریب علیکم الیوم یغفر اللہ لکم وھو ارحم الرحمین‘‘۔(۱۲۔۹۲) فرما کر عام معافی کا اعلان فرماتے ہیں۔سب کو معاف کر دیتے ہیں۔ کسی سے بدلہ نہیں لیتے اور نہ ہی اپنی جائیداد،مال اور مکان وغیرہ کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں بل کہ وہ انھیں کے پاس رہے جنھوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔موقع پرستی اور مفاد پرستی کا بہترین موقعہ تھا ۔اب ان سے ہر چیز واپس لے لیتے بل کہ جیسا انھوں نے کیا تھا کہ آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کی ہر چیز ہتھیا بیٹھے تھے، قریش کی بھی ہر چیز جو ان کی ملکیت تھی، چھین کر محروم کر دیا جاتا۔لیکن رحمت اللعالمین کی رحمت نے گوارا نہ کیا۔ان سب کو معاف کر دیا ۔ختم المرسلین کے نور اور ہدایت نے تمام رنگ ونسل کے امتیازات کا خاتمہ کر کے واحد امت کے رنگ میں رنگ دیا۔کیا اسی کا نام موقع پرستی اور مفاد پرستی ہے؟
ایک دفعہ پھر "BRYAN" مستشرقین کی آراء کو بہ طور رد پیش کرتا ہے۔
ہم نہیں جانتے کہ محمدﷺاپنی زندگی میں کبھی کسی رذیل حرکت کے مرتکب ہوئے ہوں البتہ نہایت اعلیٰ صفات کے مالک تھے۔
( مسٹر جان آرکسن۔ن۴ ص ۴۸۹) میں نیک اور فاضل ’’ سپین ہییمس‘‘ کی جرات کی تحسین کیے بغیر نہیں رہ سکتا جس نے تسلیم کیا کہ محمدﷺ کامل طور پر فطری قابلیتوں سے آراستہ تھے۔شکل میں نہایت خوب صورت، فہم اور دور رس عقل والے، پسند دیدہ و خوش اطوار، غربا پرور، ہر ایک سے متواضع، دشمنوں کے مقابلہ میں صاحب استقلال و شجاعت سب سے بڑھ کر یہ کہ خدائے تعالیٰ کے نام نہایت ادب و احترام سے لینے والے تھے۔جھوٹی قسم کھانے والوں، زانیوں،سفاکوں،جھوٹی تہمت لگانے والوں، فضول خرچی کرنے والوں،لالچیوں اور جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف نہایت سخت تھے۔برد باری، صدقہ و خیرات،رحم و کرم، شکر گزاری، والدین اور بزرگوں کی تعظیم کی نہایت تاکید کرنے والے اور خدا کی حمد و تعریف میں نہایت کثرت سے مشغول رہنے والے تھے۔( انگریزی ترجمہ قرآن بہ عنوان ٹو دی ریڈر مصنفہ)
۳: آپؐ فطرتاََ امی اور سچے تھے۔آپؐ کو حق کے علاوہ کچھ پسند نہ تھا۔ وہ نہ تو حریص تھے۔نہ متکبر،نہ متعصب اور نہ ہوائے نفس کے پیرو، بلکہ نہایت بردبار،نرم دل اور بہت صاف شفاف کردار کے مالک تھے۔عرب جو بد نظمی اور پراگندگی کے عادی تھے ان سب کو ایک دائرہ میں لا کر ایک سلسلے میں منضبط کر دیا۔یہ محمدﷺکا ہی معجزہ تھا۔( مصنفہ مسڑمیڈورمنگھم،ن۔۴۔۴۹)
مذکورہ بیان میں ’’حریص، ہوائے نفس کے پیرو‘‘ کے الفاظ ہیں۔جن سے مذکور امیڈور منگھم انکار کرتا ہے اور آپؐ کی ذات کو سچا اور اعلیٰ کریکٹر والا کہتا ہے۔ "BRYAN"اس کا جواب کیا دے گا؟ کوئی مسلمان ایسا کہتا تو الزام لگا سکتا تھا۔اب اس کا اپنا ہم پلہ عالم مستشرق حقیقت نکھار رہا ہے۔گویا الزام لگانے میں ’’برائن‘‘ کو لینے کے دینے پڑگئے۔
’’سر فلیکڈ‘‘ کا بیان بھی پڑھ لیجئے؛۔ ’’ محمدﷺ کی عقل ان عظیم ترین عقلوں سے تھی جن کا وجود دنیا میں عنقا کا حکم رکھتا ہے۔وہ معاملہ کی تہہ تک پہلی ہی نظر میں پہنچ جایا کرتے تھے۔اپنے خاص معاملات میں نہایت ہی ایثار اور انصاف سے کام لیتے۔ دوست و دشمن ،امیر و غریب،قوی و ضعیف ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف و مساوات کا سلوک کرتے‘‘۔
’’ڈاکٹر شیلے‘‘: ’’ محمد ﷺ گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کی مثال کا پیدا ہونا محال اور قطعاََ غیر ممکن ہے‘‘۔یہ خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر فضل و احسان ہے کہ ہمیں محمد عربی ﷺ نبی و رسول عطا فرمائے ان کے دامن سے وابستہ ہو کر ماسوا کی ساری چیزیں آڑے نہیں آتیں ۔جبھی تو مے خانہ غیر سے مے کے لیے کاسہ گدائی پیش کروں میری توبہ!
کاسئہ غیر کو اور منہ سے لگائوں توبہ
شان پہچانتا ہوں یار کے پیمانے کی
اعتراض نمبر۱۸۱
جین براڈ(GENBARD) کہتا ہے کہ محمد ﷺ ایک حیوان تھے اور صرف حیوانی ( جنگلی) زبان عربی جانتے تھے‘‘۔(۵۰۵ن؍۱۱) جین براڈ ایک مشہور مناظرہ باز تھا۔اس کو سب سے بڑا اعتراض اس بات پر تھا کہ حضورؐ نے قرآن کو عربی زبان میں کیوں لکھا؟ وہ خوداپنے سے سوال کرتا ہے کہ قرآن کو عبرانی،یونانی اور لاطینی جیسی خاص مہذب زبانوں میں کیوں نہ لکھا گیا؟ پھر خود ہی کہتا ہے کہ اس لیے کہ ’’ محمد(خاکم بدہن) خود ایک حیوان تھے اور صرف ایک ہی حیوانی (وحشیانہ۔جنگلی) زبان( عربی) جانتے تھے جو ان کے مخصوص وحشیانہ ماحول سے عین مطابقت رکھتی تھی۔(نعوذ باللہ)
جواب:یہ تمام مستشرقین کا ایکا ہے کہ نبی مکرمﷺ کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے لیکن بعض نے الزامات تو دھرے جوان کی گھٹی میں پڑے ہیں لیکن اس کے ساتھ ایسی غیر مہذب، نا شائستہ اور اخلاق سے گری زبان بھی استعمال کی جسے بیان کرنے سے سر شرم سے جھک جاتا ہے۔جیسے اوپر کے الزامات سے ظاہر ہے۔نیز یہ الزامات محض تک بندی ہیں ،مدلل نہیں۔نیز مآخذ کا انکار کرتا ہے۔تاریخی حقائق کو مسخ کر دیتا ہے ۔گویا
یہ بات لازمی تھی سو کہنا پڑی مجھے
جب بھی کرے وہ بات مدلل کیا کرے
یہ تو ان کے بس میں نہیں کہ حقیقت کا چہرہ دیکھاجائے۔ انھیں تو غرض اس بات سے ہے کہ آخر الزمان نبیﷺ کے خلاف زہر چکانی کریں۔ چلو ان کے اپنوں کی گواہی سے الزام تراشی کا جواب لیتے ہیں۔
’’ آپؐ کی شکل شاہانہ تھی۔خد و خال باقاعدہ اور دل پسند تھے۔آنکھیں سیاہ اور منور تھیں۔بتیسی ذرا اٹھی ہوئی۔دہن خوب صورت تھا۔ دانت موتی کی طرح چمکتے تھے۔ رخسار سرخ تھے۔آپﷺ کی صحت نہایت اچھی تھی۔ آپؐ کا تبسم دلآویز اور شیریں و دلکش تھا‘‘۔ ( جان ڈیون پورٹ ۔ن۔۴۔۵۳۰)
اور سنیئے!
’’ایڈورڈ گبن ‘‘ تاریخ روم میں لکھتے ہیں’’ آنحضرتﷺ حسن میں شہرہ آفاق تھے اور یہ نعمت صرف انھی کو بری معلوم ہوتی ہے جن کو اللہ کی طرف سے عطا نہیں ہوئی۔پیش تر اس کے کہ آپﷺ کوئی بات فرمائیں آپ ﷺکسی خاص آدمی یا گروہ کو متوجہ کرلیا کرتے۔لوگ آنحضرتؐ کی شکل شاہانہ، نورانی آنکھیں، خوش نما تبسم، بکھری ہوئی داڑھی یعنی گھنی اور ایسا چہرہ جو دل کے ہر ایک جذبہ کی تصویر کھینچ دے اور ایسے حرکات و سکنات جو زبان کا کام دیں دیکھ دیکھ کر تعریف کیا کرتے تھے‘‘۔ اگر ایک عیسائی مورخ آنحضرتؐ کے حسن و جمال کو اس انداز اور پیرایہ میں لکھتا ہے تو پھر مسلمان شاعر کی زبان سے یہ ادا ہوجائے تو بجا ہے۔
حسن یوسف، دم عیسیٰ ، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
تو بدیں جمال و خوبی سر طور گر خرامی
ارنی بگوید آنکس کہ بگفت من قرآنی
سیدنا عبد اللہ بن سلام یہود کے ایک بہت بڑے عالم تھے۔ان کا اصل نام حصین تھا۔اسلام لانے کے بعد نبی مکرمﷺ نے آپ کا نام عبد اللہ رکھا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔انھوں نے جب رسول اللہ ﷺ کے مدینہ تشریف لانے کی خبر سنی تو وہ فرماتے ہیں کہ خبر سنتے ہی میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ کے چہرہ انور کو دیکھتے ہی پہچان گیا کہ ’’ یہ چہرہ جھوٹے شخص کا چہرہ نہیں‘‘۔ ( خاتم النبیین ۴۵۴)
حضرت حسان ؓ فرماتے ہیں۔
وَاَحسَنُ مِنکَ لَم تَرَقَطُ عَینَی آپؐ سے زیادہ حسین میری آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا
وَاَجمَلُ مِنکَ لَم تَلِدِ النَّسَآئُ اور آپؐ سے زیادہ حسین کسی ماں نے جنا ہی نہیں
’’ولیم میور ‘‘ کہتا ہے۔ ’’ اہل تصنیف محمد(ﷺ) کے بارے میں ان کے چال چلن کی عصمت اور ان کے اطوار کی پاکیزگی پر جو اہل مکہ میں کم یاب تھی، متفق ہیں‘‘۔ (سید الوریٰ)
اس نا شائستہ، نا معقول ،غیر مہذب الزام کو دہراتے نہیں بل کہ یہ کہتے ہیں کہ اب الزام کے دوسرے حصہ کو لیتے ہیں اور حسب سابق ان کے گھر کی شہادت پیش کرتے ہیں۔ سر ولیم میور لکھتا ہے ’’ محمدﷺکی جسمانی حالت بہت اچھی تھی۔ان کے اخلاق آزاد اور مستغنی عن الغیر تھے۔ جن کی وجہ سے ان کا پانچ سال تک بنی اسد میں بسر کرنا تھا اور اسی وجہ سے ان کی تقریرجزیرہ نمائے عرب کی خوشنما زبان کا نمونہ تھی جب کہ ان کی فصاحت و بلاغت ان کی کامیابی میں بڑا کام دینے لگی تھی تو ایک خالص زبان اور ایک دل فریب گفت گو سے عظیم مرتبت ہوا۔اے کاش یہ بات بھی ولیم میور کو معلوم ہو جاتی وہ یہ کہ جب ہم آپؐ کے خطبات ،خطوط اور تقریر کو دیکھتے ہیں تو واضح پتہ چل جاتا ہے کہ آپؐ کی زبان اور قرآن کی زبان ایک نہیں ہے۔جب کہ دونوں کلام ایک ہی شخص کی زبان سے صادر ہوئے ہیں،اس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ ایک کلام انسانی ہے دوسرا ربانی۔مگر مستشرقین اس قاطع دلیل کے باوجود قرآن کریم کو آپؐ کی تصنیف مانتے ہیں۔ (ن۔۔۴۔۵۳)
عرب میں یہ رسم تھی کہ وہ اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے شہر سے باہر دیہات میں بھیج دیتے تھے۔ اس سے غرض یہ تھی کہ بچے حسن کلام ،روح کی بالیدگی اور جسمانی لحاظ سے مضبوط ہوں کیوں کہ بہ قول لنگس مارٹن’’ حسن کلام ایسی خوبی تھی جس کو سب عرب والدین اپنے بچوں میں دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ کسی آدمی کی قدر و قیمت کا پیمانہ اس کی فصاحت و بلاغت لسان ہوتی تھی۔صحرا میں جانے سے پھیپھڑوں کے لیے تازہ ہوا ، زبان کے واسطے خالص عربی اور روح کی خاطر آزادی ملتی تھی‘‘۔(حیات سرور۷۰)سیدنا حضرت عمر ؓ فرمایا کرتے تھے’’ معد بن عدنان کی ہیت کو اختیار کرو یعنی عجم کا لباس اور ان کی ہیئت اختیار نہ کرو اور شدائد و مصائب میں صبر کرو اور موٹا پہنو یعنی نعم اور عیش و عشرت میں نہ پڑو‘‘۔(خاتم النبیین۔ص ۱۲۴) فصاحت و بلاغت کے جواہر شہر سے باہر کی ہوا فضا میں پیدا ہوتے ہیں۔حتیٰ کہ بنو امیہ نے جب پایہ تخت دمشق بنایا اور قیصر و کسریٰ کی ہم سری کی پھر بھی ان کے بچے بدوی قبائل کے گھر پرورش پاتے تھے۔ ولید بن ملک دیہات میں پروان نہ چڑھ سکا اور حرم شاہی ہی میں اس کی پرورش ہوئی۔شاہی محل میں پلنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ خاندان بنو امیہ میں صرف یہی فرد واحد تھا جو عربی صحیح نہیں بول سکتا تھا۔( ش ص ۱۱۴) فصاحت و بلاغت کے جوہر پیدا ہونے کے بارے میں ایک حدیث پاک میں آتا ہے ۔اسے امام سہیلیؒ نے نقل کیا ہے کہ ’’ آنحضرت ؐ فرماتے تھے کہ میں اس لیے فصیح ہوں کہ خاندان بنی سعد میں پلا ہوں‘‘۔(ش ۱۱۴) طبقات ابن سعد میں ہے کہ رسول اللہ فرمایا کرتے تھے’’ میں تم سب سے فصیح تر ہوں کیوں کہ میں قریش کے خاندان سے ہوں اور میری زبان بنی سعد کی زبان ہے ( بنی سعد بنو ہوازن کے قبیلہ ہی کو کہتے ہیں) ابن ہشام میں ہے کہ آپؐ فرمایا کرتے تھے ’’ میں تم سب سے زیادہ خالص عرب ہوں ۔میں قریش ہوں اور میں نے بنی سعد بن بکر کے قبیلہ میں دودھ پی کر پرورش پائی ہے۔(ابن ہشام ص ۱۸۷؍۱۷)
’’ جمال ارجل فصاحۃ لسانہ زبان کی فصاحت انسان کی زینت ہے
’’ الجمال صواب المتعال الفعال صحیح اور سچ بولنا انسان کا جمال اور اچھے اعمال اس کا کمال
(روح البیان ج ۔۵۔۹۴۵)
آپ جوامع الکلم سے متصف ہیں۔ آپ کا کلام گوش بنی نوع انسان تک پہنچے تو اسے یقین ہو جائے کہ بے شک یہ کلام ‘ کلام نبوت ہے۔ کوزہ میں دریا بند کرنے کی مثال کا جوامع الکلم سے کیا جوڑ اور مقابلہ ،تاہم مختصر،سادہ ، صاف ،ہدایت کا مصدر،بر صدق معانی کا خزینہ، نجات و ہدایت کا منبع، اخلاق و تہذیب کا سر چشمہ آپ کا کلام ہے ۔چند نمونے ملاحظہ فرمائیں۔
’’ اِیَّا کُم وَالظَّنَّ فَانَّ الظَّنَّ اَکذَبُ الحَد یث ‘‘ خبردار بد گمانی کو عادت نہ بنائو‘ بدگمانی تو بالکل جھوٹی بات ہے
’’ تَرکُ الشَّرِ صَدَقَہ ‘‘ شر چھوڑ دینا صدقہ ہے
’’ اَلجَنَّۃُ تَحتَ اَقدَامِ الاُمَّہاَتِ ‘‘ جنت مائوں کے قدموں تلے ہے
’’ خَیرُ النَّاسِ یَنفَعُھم لِلنَّاسِ بہترین وہ لوگ ہیں جو دوسروں کے لیے مفید ہوں
اَلوَاحدَۃُ خَیرُ مِن جَلِیس الشُوء برے ساتھی سے اکیلا رہنا بہتر ہے
زبانیں اپنی جگہ فی نفسہ مہذب ہیں۔کوئی بھی حیوانی یا وحشیانہ نہیں ہوتی۔البتہ اس کے استعمال سے فرق پڑتا ہے وہ یوں کہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر غلیظ، نامعقول اور غیر مہذب و نا شائستہ الفاظ کا استعمال کیا جائے تو یہ استعمال کنندہ کا رویہ وحشیانہ ہے نہ کہ زبان حیوانی ہے۔اور پھر جن جن زبانوں میں الہامی کتب کا نزول ہوا وہ مشیت الہٰی کے تابع ہے تو بھلا کیوں کر وہ زبان جنگلی ہو سکتی ہے؟ نیز ان مقدس کتب نے انسانوں کی ہدایت کی تعلیم فراہم کرنا ہے تو جیسے یہ مقدس ہیں ویسے ہی ان کی زبان مقدس ہے۔کسی کے کہنے سے کوئی زبان بھلا کیسے حیوانی ہو سکتی ہے؟ جس سے تا قیامت انسانیت نے فائدہ اٹھانا ہے وہ کیوں کر حیوانی ہو گی؟ ورنہ تو حیوانیت اور وحشیانہ طور طریقوں کو فروغ دے گی جس سے وحشت و بربریت پھیلے گی۔جب کہ ان مقدس کتب اور خاص طور پر قرآن مجید نے تو رہتی دنیا تک انسانیت کو راہ ہدایت دکھانا ہے جس سے لوگ صراط مستقیم پر گامزن ہو کر منزل مقصود حاصل کر سکتے ہیں۔اگر راستہ ہی نہ ملا تو منزل کب ملے گی؟
ایک دن آپؐ کے صحابہ نے عرض کیا کہ ہم نے آپؐ سے زیادہ فصیح و بلیغ کسی کو نہیں دیکھا۔آپؐ نے فرمایا: اس میں کیا شک ہے ‘ قرآن تو میری اپنی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ عرب جنھیں اپنی فصاحت و بلاغت پر بڑا ناز تھا۔ان کے بڑے بڑے میلے ہوا کرتے تھے جہاں وہ باہم اپنے ادبی مظاہرے کیا کرتے تھے۔ لا جواب اشعار کعبہ کی دیواروں پر آویزاں کیے جاتے تھے لیکن وہ عرب آپؐ کی فصاحت و بلاغت کی تاب نہ لا سکے۔حضرت ابو بکر ؓ فرماتے ہیں کہ میں عرب کے گلی کوچے اور یہاں کے بازار گھوم چکا ہوں۔۔ لیکن آپؐ کی فصاحت و بلاغت کے مقابلہ میں سب کو ہیچ پایا۔ یہ ادبی شان آپؐ کو کیسے حاصل ہوئی،کس نے پیدا کی۔کس نے یہ معجزہ بیانی سکھائی۔آپؐ نے فرمایا: میرے پروردگار نے مجھے ادب سکھایا اور اعجاز بیان سے آراستہ پیراستہ کیا۔ جاحظ جس کا ادب میں بلند مقام ہے وہ آپؐ کی فصیح و بلیغ کلام کو یوں بیان کرتا ہے۔ ’’ خدا نے آپؐ کے کلام میں لطافت و محبت کی چاشنی پیدا کی تھی اور اس کی مقبولیت کا شرف عطا کیا تھا۔اس میں شیرینی،دل آویزی اور شستگی بھی جمع تھی۔باوجود کلام کی تکرار اور سننے والے کو اعادہ کی عدم حاجت کے نہ آپ کے کلام کا وقار اور توازن گھٹتا نہ کسی سے کلمہ میں لغزش ہوتی۔آپؐ کی فصاحت کا نہ کوئی دشمن مقابلہ کر سکا اور نہ کسی خطیب کو آپؐ کی فصاحت کی ہمسری کی ہمت ہوئی۔آپؐ طویل خطبوں کو موزوں محل کلام میں بیان فرمادیتے ۔آپؐ نے صداقت و واقعیت کو کبھی اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیا۔آنحضرتؐ کے کلام میں راست بازی، انصاف پسندی،نفع رسانی اور وزن و وقار کا پہلو غالب تھا اتنا کسی اور کے کلام میں ناپید تھا‘‘۔
لالہ سدا سکھ لال کہتا ہے کہ’’ حضرت محمدؐ اپنی فصاحت و بلاغت سے اکثر سکنائے عرب کو مرید کرتے‘‘۔(حوالہ تاریخ ہند۔ص ن۔۴۔۴۶۰)
القلم۲، آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:’’ آپ عرب میں فصیح و بلیغ ہیں ۔آپؐ کی عقل کامل ہے۔آپؐ ہرعیب سے بَری ہیں اور فضیلت والے وصف سے متصف ہیں۔آپؐ کی سیرت کا حسن اور کمال آپؐ کے مخالفین کو بھی مسلم ہے اور ایسی شخصیت والا کب مجنوں ہو سکتا ہے؟ ‘‘ غلام رسول سعیدی نے کفار کے الزام’’ وَقَالُوا یَا اَیَّھُا الَّذِی نُزَّلَ عَلیہِ الذِکرُ اِنَّکَ لَمَجنُونُ‘‘ (الحجر۔۶) ( اور کفار نے کہا اے وہ شخص! جس پر یہ قرآن نازل کیا گیا ہے، بے شک تم ضرور مجنوں ہو) ( تبیان القرآن جلد ۱۲ ص۔۱۶۴۔۱۶۵) میں اللہ تعالیٰ کا قول اس کے رد میں لکھا ہے ۔’’ مَآ انَت َ بِنِعمَۃِ رَبِکَ لِمَجنُونِِ‘‘( القلم۲) اس میں اللہ تعالیٰ نے تین دلیلیں دیں ۔ایک یہ کہ آپؐ کے اوپر رب کی نعمت ہے اور آپؐ اللہ کے فضل سے صاحب عقل ہیں۔آپؐ پر ظاہری نعمت یہ ہے کہ آپؐ عرب میں سب سے زیادہ فصیح اور بلیغ ہیں۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کوئی زبان اپنے لغات،محاورات اور ادبی کمالات میں اس زمانہ میں ترقی کرتی ہے جب اس کے بولنے والوں کا تمدن عروج پر ہو اور اس سے پہلے اس زبان کی حالت پست ہوتی کہ اس کو جانوروں کی زبان سے کچھ ہی بلند قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس معیار پر اسلام سے عین پہلے کی عربی زبان کو جانچا جائے تو ہم زبان کی نزاکت، لغات کی کثرت،قواعد صرف و نحو کے استحکام اور خاصے بلند معیار کے نظم کے ذخیرے کے باعث حیرت زدہ ہو جاتے ہیں۔۔۔ زمانہ جاہلیت کی عربی زبان مستند سمجھی جاتی ہے۔۔اگر ہم زمانہ حال کی کوئی زبان مثلاََ جرمن، فرانسیسی یا انگریزی کو لیں تو ان کے دو مولف جن میں ڈیڑھ ہزار سال کا زمانہ حائل ہو تو ایک ہی زبان کے یہ دو مولف ایک دوسرے کو بالکل نہیں سمجھ سکیں گے۔اس کے بر خلاف امراء القیس کی زبان اور قواعد صرف و نحو بالکل وہی ہیں جو مثلاََ زمانہ حال کے مصری شعراء شوقی اور حافظ کے ہیں۔ قرآن و حدیث زمانہ جاہلیت کے بدوئوں کو بھی اسی سہولت سے سمجھ آتے تھے جتنا آج کسی جدیدعربی کے متعلم کو۔اس زمانہ میں عربی زبان، لغات کی حد تک اتنی وسیع اور متمول ہو گئی تھی کہ اس کا مقابلہ زمانہ حال کی انتہائی ترقی یافتہ زبانوں سے با آسانی کیا جاسکے‘‘۔(نقوش رسول نمبر ص ۱۱۶ ج ۴) ایسی زبان جسے ہزار یا ڈیڑھ ہزار سال بعد سمجھا نہ جا سکے اس کی افادیت و اہمیت تو جاتی رہی اور بر عکس اس کے وہ زبان جو زمانہ قدیم سے تا حال آسانی سے سمجھی جاسکے۔اسے حیوانی زبان سے تعبیر کرنا لا علمی یا تعصب کا نتیجہ ہے اور وہ ذات جس کے دہن مبارک سے حکمت بھرے بول اور رشد وہدیت کے چشمے پھوٹتے ہیں ۔ وہ ذات جسے اللہ تعالیٰ نے جوامع الکلم بنایا ہے وہ زبان کیسے حیوانی ہو سکتی ہے۔
تیرے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زباں نہیں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
اعتراض نمبر۱۸۲
ڈاکٹر اسپرنگر مشہور عیسائی مورخ نے آنحضرتؐ کے حالات پر انگریزی میں کتاب لکھی۔جو بہ قول سر سید یہ کتاب بہ سبب غلطیوں کے (جو اس کے مضمون کی صحت میں ہیں) کچھ اعتبار کے لائق نہیں۔۔۔ اس کا طرز بیان نہایت مبالغہ آمیز ہے ان کی طبیعت پہلے ہی سے ایسے تعصبات اور یک طرفہ رائے سے بھری ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ایک فقرہ لکھا جاتا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اسپرنگر لکھتا ہے کہ ’’ اسلام محمدؐ کا ایجاد نہیں ہے وہ ایسے مکار کا نکالا ہوا مذہب نہیں ہو سکتا مگر اس میں شک نہیں کہ اس مکار نے اپنی بد اخلاقی اور طبیعت کی برائی سے اس کو بگاڑا اور جو بہت سے مسائل رہے ہیں قابل اعتراض رہے ہیں وہ اسی کی ایجاد ہیں‘‘۔
۲: دھوکہ باز، مکار،کاذب،جھوٹے،خوف ناک حد تک بے شرم تھے ( استغفرللہ) مستشرق بیڈول
۳:آپؐ کو مدعی’’ کاذب،مکار اور فریبی قرار دیا‘‘۔ (ہمفرے ن۱۱؍۵۰۵)
اسپرنگر کے بارے میںسر ولیم کی رائے: ’’۔۔۔ اور جیسا کہ میں نے اپنی کتاب کے بعض مقامات میں ثابت کیا ہے اس کے مضامین کی بنیاد غلطی پر معلوم ہوتی ہے ۔چناں چہ انھوں نے محمدﷺ کے ما قبل زمانہ عرب کا اور خاص محمدﷺ کا اور ان کی خصلت کا جو حال لکھا ہے وہ سب غلط راویوں پر مبنی ہے۔
مسٹر جان ڈیون پورٹ: لکھتے ہیں’’ کیا یہ بات خیال میں آسکتی ہے کہ جس شخص نے نہایت نا پسندحقیر بت پرستی کے بدلہ جس میں اس کے ہم وطن (یعنی اہل عرب) مدت سے ڈوبے ہوئے تھے خدائے بر حق کی پر ستش قائم کرنے سے بڑی بڑی دائم الاثر اصلاحیں کیں مثلاََ اولاد کشی کو موقوف کیا۔نشّے کی چیزوں کے استعمال کو اور قمار بازی کو جس سے اخلاق کو بہت نقصان پہنچتا ہے منع کیا۔ بہتات سے کثرت ازواج کا اس وقت میں رواج تھا اس کو بہت کچھ گھٹا دیا۔ غرض یہ کہ ایسے بڑے اور سرگرم پیغمبر کو ہم فریبی ٹھہرا سکتے ہیں؟ اور یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسے شخص کی تمام کارروائی مکر پر مبنی تھی؟ نہیں ایسا نہیں کہہ سکتے۔ بے شک محمد ﷺ بہ جز دلی نیک نیتی اور ایمان داری کے اور کسی سبب سے ایسے استقلال کے ساتھ اپنی کارروائی پر ابتداء نزول وحی سے جو خدیجہؓ سے بیان کی ۔آخیر دم تک جب کہ عائشہ کی گود میں شدت مرض میں وفات پائی مستعد نہیں رہ سکتے تھے۔جو لوگ ہر وقت ان کے پاس رہتے تھے اور جوا ن سے بہت ربط و ضبط رکھتے تھے۔ان کو بھی کبھی ان کی ریاکاری میں شبہ نہیں ہوا اور کبھی انھوں نے اپنے نیک برتائو سے تجاوز نہیں کیا‘‘۔
ہرقل نے ابو سفیان سے پوچھا:تم نے جو بات کہی ایسا کہنے سے پہلے تم نے اسے کسی معاملے میں جھوٹاتو نہیں پایا؟ ابوسفیان نے کہا : نہیں۔ ہرقل نے کہا:میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں پر تو جھوٹ نہ باندھے اور اللہ پر جھوٹ باندھے۔پھر قیصر نے پوچھا وہ کن باتوں کا حکم دیتا ہے تو ابو سفیان نے کہا کہ اللہ کی عبادت کرنے اور کسی کو اس کی ذات و صفات میں شریک نہ ٹھہرانے کا حکم دیتا ہے۔بت پرستی سے روکتا ہے۔نماز روزہ اور زکوٰۃ،سچائی اور پرہیز گاری اور عفت و پاک دامنی کا حکم دیتا ہے۔قیصر نے کہا جو تم نے کہا اگر یہ سچ ہے تو یہ شخص بہت جلد میرے ان قدموں کی جگہ (سلطنت)کا مالک ہوگا میں جانتا تھا کہ ایک نبی آنے والا ہے لیکن یہ میرا گمان نہ تھاکہ وہ تم میں سے ہوگا،اگر مجھے یقین ہوتا کہ اس کے حضور پہنچ سکوں گا تو اس سے ضرور ملاقات کرتا اور اگر اس کے پاس ہوتا تو اس کے دونوں پائوںدھوتا۔ ( خاتم النبیین۔ص۔۷۶۳) اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس نے کہا : میں نے اس نبی کے بارے میں بہت غور و فکر کیا تو پایا کہ وہ پسندیدہ باتوں کا حکم دیتے ہیں اور نا پسندیدہ باتوں سے روکتے ہیں۔ قابلِ نفرت چیزوں کا حکم نہیں دیتے اور قابلِ رغبت باتوں سے روکتے نہیں۔ وہ نہ گمراہ اور جادوگر ہیں اور نہ ہی جھوٹے کاہن بل کہ ان میں نبوت کی علامات پائی جاتی ہیں۔ مثلاََ غیب کی خبریں دینا۔ اس کے بارے میں مزید غور کروں گا ۔پھر اس نے آپؐ کے والا نامہ کو ہاتھی دانت کے ڈبہ میں بند کر کے اور اسے سربہ مہر کر کے اپنے خازن کو حکم دیا کہ اسے حفاظت سے رکھیں اور ایک کاتب کو بلا کر آپؐ کے والا نامہ کا جواب لکھوایا۔آپؐ کے خطوط سے کچھ بادشاہ ایمان لائے اور کچھ نے انکار کیا۔جو ایمان لائے وہ تو زندہ و جاوید ہوئے اور جنھوں نے انکار کیا تباہ و برباد ہو گئے۔( خاتم النبیین۔۷۰،۶۹۔۷۶۸)
نہ صرف آپ ؐ کے ہم وطن (اہل عرب) بل کہ پوری دنیا کے لوگ کفر و شرک میں گھرے ہوئے تھے۔ دنیا جہاں کے رذائل اور تمام برائیاں ان میں رچ بس گئی تھیں۔اخلاق کی پستی، نفرت و تعصب کی ڈیرہ داری،اولاد کشی،جوا،عورتوں کے حقوق کی پائمالی،غلاموں سے برا سلوک ، نشّہ بازی اور بت پرستی و غیرہ کا دور دورہ تھا۔آپؐ نے پوری دنیا سے جہالت و گمراہی میں سسکیاں لیتی انسانیت کو روشنی اور اجالوں کی طرف گامزن کیا۔ دوم: کثرت ازواج کو گھٹایا نہیں بل کہ ختم کردیا وہ یوں کہ اسلام میں جو چار شادیوں کی اجازت ہے وہ مشروط ہے ۔اگر تم ایک بیوی سے انصاف نہیں کر سکتے تو دوسری شادی نہیں کر سکتے۔
مسٹر جان ڈیون پورٹ کے بیان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ؛۔
۱: برائیوں کو ختم کرنے والے اور نیکی و بھلائی کی طرف بلانے والے کو فریبی نہیں کہا جا سکتا۔اس کی کارروائی مکر نہیں ہوتی اور جو ان سے ربط رکھتے ہیںان کے دامن بھی ریا کاری سے پاک ہیں۔ عبد اللہ بن اسلام کا ایمان لانا اس کی مثال ہے
۲: ان کی تمام تر کارروائی بہ جز ایمان داری اور دلی نیک نیتی کے اور کچھ نہ تھی۔کوہ صفا پر وعظ اور قوم کا صادق کہنا۔
۳: ابتداء وحی سے تا دم آخر اپنے مشن میں مستعد رہے۔
۴:مسٹر جان وحی کے قائل بھی ہیں۔نیز نبوت کے تسلسل کی برقراری پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔
۵: آپ کے ساتھیوں کو ان کی ریاکاری میں کبھی شبہ نہیں ہوا۔اس لیے وہ ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے اور سوائے نیک نیتی اور ایمان داری کے اور کچھ اخذ نہ کیا۔سب کچھ ان کی نظروں کے سامنے تھا۔آپ کی زندگی کھلی کتاب تھی۔کچھ بھی چھپا ڈھکا نہ تھا۔
۶: اگر مکر و فریب اور ریا کاری کا ادنیٰ سا شبہ بھی پایا جاتا تو آپؐ کے ساتھی آپ کا ساتھ چھوڑ جاتے جب کہ وہ آپ کے دامن گیر ہی رہے۔آپ کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے تو پھر رہائی کے لیے بھولے سے بھی آرزو مند نہ ہوئے۔ یہی سچائی اور مکاری کی تمیز اور فرق کا سب سے بڑا پیمانہ ہے۔ بہ قول ’’واٹ‘‘ خدا کا قائل کوئی شخص بھی یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ اگر اسلام کی بنیاد کسی جھوٹ اور فریب پر ہوتی تو اللہ تعالیٰ ایسے مذہب کو پھلنے پھولنے کیوں دیتا(محمد رسول اللہ ص ۳۵۷)
ڈاکٹر اسپرنگر کے لغو، باطل اور بے ادب اور بے تمیز بیان کے بارے میں ایڈورڈ گبن کہتے ہیں کہ کبھی مخالف اور کٹڑ کی زبان سے بھی سچی بات نکل جاتی ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’ محمد ﷺ کا مذہب شکوک و شبہات سے پاک صاف ہے۔ قرآن خدا کی وحدانیت پر ایک عمدہ شہادت ہے۔مکہ کے پیغمبر نے بتوں کی،انسانوں کی، ستاروں کی اور سیاروں کی پر ستش کو اس معقول دلیل سے رد کیا کہ جو شے طلوع ہوتی ہے غروب ہو جاتی ہے۔جو حادث ہے وہ فانی ہے اور جو قابل زوال ہے وہ معدوم ہو جاتی ہے۔اس نے اپنی معقول سرگرمی سے کائنات کے بانی کو ایک ایسا وجود تسلیم کیا جس کی نہ ابتداء ہے نہ انتہا نہ وہ کسی شکل میں محدود نہ کسی مکان میں اور نہ کوئی اس کا ثانی موجود ہے جس سے اس کو تشبیہ دے سکیں۔وہ ہمارے نہایت خفیہ ارادوں پر بھی آگاہ رہتا ہے ۔بغیر کسی اسباب کے موجود ہے ۔اخلاق اور عقل کا کمال جو اس کو حاصل ہے وہ اس کو اپنی ہی ذات سے حاصل ہے ان بڑے بڑے حقائق کو پیغمبرﷺ نے مشہور کیا اور اس کے پیروئوں نے ان کو نہایت مستحکم طور سے قبول کیا اور قرآن کے مفسروں نے معقولات کے ذریعہ سے بہت درستی کے ساتھ ان کی تشریح و تصریح کی۔ ایک حکیم جو خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی صفات پر اعتقاد رکھتا ہو۔مسلمانوں کے مذکورہ بالا عقیدہ کی نسبت یہ کہہ سکتا ہے وہ ایسا عقیدہ ہے جو ہمارے موجود ادراک اور قوائے عقل سے بہت بڑھ کر ہے۔اس لیے جب ہم نے اس نامعلوم چیز ( یعنی جس خدا) کو زمان و مکان ، حرکت و مادہ اور حس و تفکر کے اوصاف سے مبرا کر دیا تو پھر ہمارے خیال کرنے اور سمجھنے کے لیے کیا چیز باقی رہی وہ اصل اول ہے(یعنی ذات باری تعالیٰ) جس کی بنا عقل اور وحی پر ہے۔ محمدﷺ کی شہادت سے استحکام کو پہنچی چناں چہ اس کے معتقد ہندوستان سے لے کر مراکو تک موحد کے لقب سے ممتاز ہیں اور بتوں کو ممنوع سمجھنے سے بت پرستی کا خطرہ مٹادیا گیاہے‘‘۔ اس عبارت سے چند امور سامنے آئے۔
۱: محمدﷺ کا لایا ہوا دین شکوک و شبہات سے پاک صاف ہے۔
۲: واحدانیت پر قرآن ایک عمدہ شہادت ہے۔
۳: نبی مکرم ؐ نے پوجا پاٹ اور پرستش کے تمام طریقوں سے منع فرمایا اور خاتمہ کردیا ۔
۴: کائنات کا بانی اللہ تعالیٰ ہے۔کوئی اور نہیں۔بہت سی صفات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔
۵: وہ اصل اول(یعنی ذات باری تعالیٰ) جس کی بنا عقل اور وحی پر ہے۔محمدﷺ کی شہادت سے استحکام کو پہنچی۔وہی ذات قدیم و ازلی ہے اور باقی رہنے والی ہے ۔باقی سب فانی ہیں۔کیا یہ باتیں کسی فریبی کی ایجاد ہیں یا غلط مسائل کو ختم کرنے میں سعی و کوشش کی اور لازوال تعلیم دی۔ البتہ اللہ نے پسندیدہ دین اسلام آپؐ کو عطا فرمایا درست ہے۔تو پھر کیوں کر اللہ کے پسندیدہ دین میں بگاڑ پیدا کیا جا سکتا ہے۔کیوں کہ ’’ وما ینطق عن الہوی ان ھو الا وحی یوحی‘‘ کا واضح ارشاد خداوندی قرآن کریم میںموجود ہے۔
مسٹر ٹامس کارلائل لکھتا ہے کہ’’ ہم لوگوں (یعنی عیسائیوں ) میں جو بات مشہور ہے کہ محمدﷺایک پر فتن اور فطرتی شخص اور گویا جھوٹ کا اوتار تھے اور ان کا مذہب دیوانگی اور خام خیالی کا ایک مجموعہ ہے‘‘۔ کذب و اختراع کا وہ انبارِ عظیم ہے جو ہم نے اپنے مذہب کی حمایت میں اس ہستی کے خلاف کھڑا کیا ہے ۔خود ہمارے لیے شرم ناک ہے۔اس شخص کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ آج بارہ سو برس سے اٹھارہ کروڑ انسانوں کے حق میں شمع ہدایت کاکام دے رہے ہیں۔یہ اٹھارہ کروڑ انسان بھی ہماری طرح دست قدرت کا نمونہ ہیں۔بندگان خدا کی آج بھی بیش تر تعداد کسی اور شخص کی بہ نسبت محمدﷺ کے اقوال پر ایمان رکھتی ہے۔ کیا ہم کسی طرح اسے تسلیم کر سکتے ہیں کہ یہ سب روحانی بازی گری کا ایک ادنیٰ کرشمہ تھا جس پر اللہ کے بندے ایمان لائے؟ کیا جھوٹا آدمی کسی مذہب کا بانی ہو سکتا ہے۔جھوٹا آدمی تو اینٹ اور چونے کا ایک مکان تک نہیں بنا سکتا۔اگر اسے مٹی چونے اور اشیاء کے خواص کا صحیح علم نہ ہو تو اس کا بنایا ہوا مکان، مکان نہ کہلائے گا بل کہ مٹی کا ایک ڈھیر ہو گا۔ایسا مکان بارہ صدی تک قائم نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اس میں اٹھارہ کروڑ انسان سما سکتے ہیں۔
ہم کسی طرح حضرت محمدﷺ کو حریص،منصوبہ ساز اور ان کی تعلیمات کو جہل و نادانی نہیں سمجھ سکتے۔وہ پیغام جو آپؐ لے کر آئے تھے بالکل سچا تھا۔وہ ایک آواز تھی جو پردہ غیب سے بلند ہوئی۔اس شخص کے نہ اقوال جھوٹے تھے نہ افعال۔اس تنگ ظرفی اور نمائش کا شائبہ تک نہ تھا۔وہ زندگی کا ایک جادئہ تاباں تھا جو خاص سینہ فطرت سے ہویدا ہوا اور جسے خالق عالم نے کائنات کو منور کرنے کے لیے بھیجا تھا۔
شرم و حیا:جہاں تک شرم و حیاکا تعلق ہے ۔صحاح میں ہے کہ آپؐ دو شیزہ لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے اور شرم و حیا کا اثر ایک ایک ادا سے ظاہر ہوتا تھا۔ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے ’’ رسول اللہﷺ میں اس کنواری لڑکی سے جو پردے میں رہتی ہے زیادہ شرم تھی اور آپؐ جب کسی چیز کو برا جانتے تو ہم اس کی نشانی آپؐ کے چہرے سے پہچان لیتے تھے‘‘۔ مسروق سے روایت ہے ’’ ہم عبد اللہ بن عمرو کے پاس گئے جب معاویہ کوفہ میں آئے انھوں نے ذکر کیا رسول اللہﷺ کا تو کہا آپ بد زبان نہ تھے اور نہ بد زبانی کرتے تھے اور کہا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جن کے خلق اچھے ہیں۔ (مسلم شریف کتاب الفضائل ج۔۶۔ص ۳۵)
قاضی عیاض کہتے ہیں کہ حسن خلق یہ ہے کہ لوگوں سے اچھی طرح ملے،محبت رکھے۔ان پر شفقت کرے۔اگر وہ کوئی سخت بات کہیں تو تحمل کرے اور صبر کرے مصیبت میں اور غرور نہ کرے۔زبان درازی نہ کرے۔مواخذہ اور غضب کو چھوڑ دے۔ زبان سے برا نہ کہنا یہ وہ حیا ہے جو اخلاق حسنہ سے ہے اور ایمان کا جزو ہے۔
آپؐ نے کبھی کسی سے بدزبانی نہیںکی۔بازاروں میں جاتے تو چپ چاپ گزر جاتے،تبسم کے سوا کبھی لب مبارک خندہ(قہقہہ سے آشنا نہ ہوئے)بھری محفل میں کوئی بات ناگوار ہوتی تو لحاظ کی وجہ سے زبان سے کچھ نہ فرماتے،چہرہ کے اثر سے ظاہر ہوتا اور صحابہ متنبہ ہو جاتے۔ عرب میں اور ممالک کی طرح شرم و حیا کا بہت کم لحاظ تھا۔ننگے نہانا عام بات تھی۔حرم و کعبہ کا طواف ننگے ہو کر کرتے تھے۔آنحضرت ﷺ کو با لطبع یہ باتیں سخت ناپسند تھیں۔ایک دفعہ فرمایا کہ حمام سے پر ہیز کرو۔لوگوں نے عرض کی کہ حمام میں نہانے سے میل چھوٹتا ہے اور بیماری میں فائدہ ہوتا ہے۔ارشاد فرمایا کہ نہائو تو پردہ کر لیا کرو۔آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جب عجم فتح کرو گے تو وہاں حمام ملیں گے ان میں جانا توچادر کے ساتھ جانا۔ بھلا پوری انسانیت کو زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق ہدایت عطا کرے۔تمام برائیوں کے خاتمہ میںمستعد رہے اور خاتمہ کر ڈالے۔گم راہی سے نجات اور صراط مستقیم پر گامزن کرے تو بھلا وہ کیسے شرم و حیا کا پیکر نہ ہوگا۔کیوں کہ جسے برائی پسند نہیں،بھلائی پسند ہے۔نفرت پسند نہیں محبت پسند ہے کسی کی پوجا پسند نہیں صرف خدا کی پرستش پسند ہے تو یقیناََ وہ مسیحا وہ رہبر شرم وحیا کا پیکر ہے۔
اعتراض نمبر۱۸۳
’’ والٹیر‘‘ نے آنحضرت ؐ کے خلاف زہر اگلا ہے اور کہتا ہے نعوذ باللہ ’’ نبی کاذب ہیں اور اسلام ایک وحشی مذہب ہے‘‘۔
جواب: پہلے اعتراض کا جواب پیچھے بیان ہوا ۔اب دوسرے حصہ کو زیر بحث لاتے ہیں ۔ جرمنی کے مشہور شاعر گوئٹے نے اپنی مشہور نظم " MAHOMETS GESANG" ۱۷۷۱ء میں لکھی جس میں ذکر مصطفیﷺ کی رفعت کو بیان کیا اور مزے کی بات یہ کہ جانی اور کٹڑ دشمن والٹیر نے بھی اس (عیسائی) کا اعتراف کیا کہ اگر تم اٹھارہ اٹھارہ عورتوںسے لطف اندوز ہو رہے ہوتے اور حکم دیا جاتا کہ صرف چار بیویاں رکھی جا سکتی ہیں تو کیا تم یہ مان لیتے؟ کیا ایسے مذہب کو شہوانی کہہ سکتے ہو۔؟ (محمد رسول اللہ۔۳۱۷)
۱: ہم نہیں جانتے کہ محمد(ﷺ) اپنی زندگی میں کسی رذیل حرکت کے مرتکب ہوئے ہوں ۔البتہ نہایت اچھی صفات کے مالک تھے(۔مسٹر جان آرگس ۔ن۴۔۴۸۹)
۲: پیغمبر اسلام ﷺکی صداقت کا یہی بڑا ثبوت ہے کہ جو آپؐ کو سب سے زیادہ جانتے تھے وہی آپؐ پر سب سے پہلے ایمان لائے۔حضرت محمدﷺ ہر گز جھوٹے مدعی نہ تھے۔(پروفیسر ایچ جی ویلزن۴۔۴۹۰)
پیر محمد کرم شاہ بھیروی فرماتے ہیں کہ آپؐ کی عظمت و صداقت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ آپؐ کے دشمن آپؐ کے خلاف کبھی کسی الزام پر متفق نہیں ہو سکے۔ایک مستشرق نے آپؐ کے خلاف جو الزام تراشا،دوسرے مستشرق نے اس کی تردید کی ۔ایک دشمن نے حضورؐ کے کردار کو مجروح کرنے کے لیے کوئی شوشہ چھوڑا تو کسی دوسرے دشمن نے اسے بے بنیاد قرار دے دیا۔ہمیں مستشرقین کی تحریروں میں اس قسم کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔جیسے پہلے ذکر ہوا۔اسپرنگر نے الزام دھرا پھر خود اس کی تر دید کر دی یا اس کے دیگر ہمنوا مستشرقین نے اسے باطل قرار دیا۔
آپؐ حسن سیرت و کردار،صبر و تحمل،معتدل مزاجی،طہارت و پاکیزگی،اعلیٰ نسبی،رحم و کرم،نیک نیتی،متانت،سخاوت،نرم روی،عجز و انکساری،صداقت و امانت الغرض تمام فضائل اور خوبیوں سے متصف اور رذائل سے مبّرا ہیں۔ ظالم کو معاف کرنے والا،غریبوں ،یتیموں کا ماویٰ،قرابت داروں اور پڑوسیوں کا خیر خواہ،مظلوموں کا والی،فریادیوں کا ملجا یٰ،نیکی کا پرچار ک اور بدی سے روکنے والے ہیں۔نیز کبھی اس حامل نبوت ذات میں گم راہی اور بھٹکنے کا ذرہ بھر شائبہ نہیں ہوتاجس کی گواہی خدا نے دی۔
’’مَا ضَلَّ صَاحِبُکُم وَمَا غَوٰی‘‘ ( النجم ۲) ترجمہ: تمھارا ساتھی (پیغمبر) نہ گم راہ ہوا نہ بھٹکا۔
توراۃ کی کتاب پیدائش باب ۲۰ کے مطابق ام اسرائیل ربقہ نے سازش کر کے حضرت اسحقؑ سے حضرت یعقوبؑ کو برکت (نبوت) دلوائی جو وہ اپنے بڑے بیٹے عیسو کو دینا چاہتے تھے۔اس طرح باب ۲۹ میں حضرت یعقوب ؑاور ان کے سسرالی رشتہ دار ایک دوسرے کے ساتھ بد
معاملگی میں ملوث کیے گئے۔کتاب خروج باب ۱۲ کے مطابق خروج سے پہلے حضرت موسیٰؑ کے حکم پر بنی اسرائیل نے مصریوں سے ان کے زیورات اور ملبوسات مستعار لیے اور پھر وہ یہ مال اپنے ساتھ لے کر خروج کر گئے۔اس طرح انھوں نے مصریوں کو دھوکا دے کر لوٹا ۔ غرضیکہ مکر وفریب،دھوکہ اور جعل جب خود اپنے مقدس انبیاء سے منسوب کیا جا سکتا ہے تو دیگراس سے کب محفوظ رہ سکتے ہیں۔پھر وہ جھوٹ جو کسی اعلیٰ مقصد کے لیے ہو،ان کی اصطلاح میں مقدس جھوٹ کہلاتا ہے‘ جو ہر کہ و مہ کے لیے جائز تصور کیا جاتا ہے۔( مستشرقین مغرب کا انداز فکر ۱۹۵)الاماں
مار کوس ڈاڈز( Marcus Dods )Imposter Theory کی تردید میں دو واقعات کا بطور خاص ذکر کرتا ہے ۔ ایک مسیلمہ کذاب ، جب اس نے اپنا ایلچی اس پیغام کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا تھا کہ رسالت میں مجھے آپ ﷺ کے ساتھ شریک کیا گیا ہے تو آپ ﷺ نے واضح اور دو ٹوک انداز میں اس کی پیشکش کو رد کیا ، وہ کسی نبی کاذب (نعوذباللہ ) کی زبان سے نکل نہیں سکتا ۔ مسیلمہ نے لکھا تھا ’’ مسیلمہ خدا کے نبی کی طرف سے محمد پیغمبر ﷺ کے نام ۔ زمین آدھی میری اور آدھی آپ کی ملکیت ہے ‘‘ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا ’’ اللہ کے پیغمبر محمد ﷺ کی جانب سے مسیلمہ کذاب کے نام ! زمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور جو لوگ اس سے ڈرتے ہیں ان کے لیے خوشخبر ی ہے ۔‘‘ دوسرا یہ کہ جب رسول اللہ ﷺ کے فرزند حضرت ابراہیمؓ کا انتقال ہوا تو آپ ﷺ کا رد عمل آپ کی شخصیت کے نقطہ عروج پر تھا اور آپ کی شخصیت کے شایان شان تھا اتفاق سے اس روز سورج گرہن تھا ، چند صحابہ نے کہا کہ آپ ﷺ کے فرزند کی موت کا سوگ سورج بھی منا رہا ہے تو آپ ﷺ نے جواب دیا ’’ سورج اور چاند میں کسی انسان کی موت سے گہن نہیں لگتا ، وہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں ۔‘‘(محمد رسول اللہ ﷺ۔۳۱۸)
فرانسیسی دانشور پروفیسر ( موسو سیڈیو) لکھتا ہے کہ حضور ﷺ خوش خلق وملن سار ، بری باتوں سے نفرت کرنے والے صحیح رائے دینے والے ، بہت عقل مند تھے ، انصاف کرنے والے ، اپنے اور غیر کے ساتھ یکساں سلوک کرنے والے تھے ۔ غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ پیار کرتے تھے صحابہ کرام سے شفقت فرماتے تھے ، اپنی نعلین خود گانٹھ لیتے اور اپنے کپڑوں کو خود پیوند لگا لیتے تھے ۔ دوست اور دشمن سب سے خوش اخلاقی سے ملتے تھے ۔پروفیسر یہ بھی لکھتا ہے کہ اسلام ان گنت اچھائیوں سے بھر پور مذہب ہے جو اس کو وحشیانہ مذہب کہتے ہیں ، جھوٹے ہیں ۔(سوچ پراگے۔۸)
پروفیسر ایڈوائر مونتے لکھتا ہے :’’آپ ﷺ کا تمام مذہب نرالے اصولوں سے بھر پور ہے اس کی معقولیت مسلم ہے اور توحید کے مسئلے کو ایسا کامل یقین کے ساتھ جدا ثابت کیا ہے جو اسلام کے بغیر کسی اور مذہب میں نہیں ‘‘۔
میجر آرتھر کلائین لیو نارڈ لکھتا ہے ’’ تحقیق کرنے والوں کو ماننا پڑے گا کہ حضور ﷺ کا دین ایک ایسا سچا مذہب ہے جس نے اپنے پیروکاروں کو اندھیروں اور گمراہیوں سے نکال کر اجالے اور سچائی کی بلندیوں تک پہنچانے کا چارہ کیا ہے ۔‘‘
جارج برناڈ شا: ’’ کرسچین لوگوں نے جہالت ، کم عقلی اور تعصب کے سبب اسلام کی ایک ڈراونی شکل پیش کی ہے اور آپ ﷺ کے دین کے خلاف ایک سوچی سمجھی تحریک چلائی اور آپ ﷺ کو اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا ( نعوذ باللہ)۔ میں نے باریک بینی سے دیکھا اور مشاہدہ کر کے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ آپ ﷺ ایک مہان ہستی اور انسانیت کے نجات دہندہ ہیں۔‘‘
اعتراض نمبر۱۸۴
آپؐ کو مغرب نے بہروپ یا جعل کے الفاظ سے نوازا ہے ۔( نعوذ باللہ)
جواب:اہل مغرب کہتے ہیں کہ وحی کوئی بیرونی القا نہ تھی بل کہ لا شعور کی پیداوار تھی جسے غلط فہمی سے پیغام خدا وندی سمجھا گیا۔عہد وسطیٰ میں بہروپ اور جعل کے الفاظ سے جو کام لیا جاتا تھا یا جس کی تشہیر کی جاتی تھی جب اس پر سوال اٹھے،تنقید ہوئی تو اس تنقید سے بچنے کے لیے ایک نئے الفاظ’’ عدم خلوص‘‘ کا سہارا لیا جس کا مفہوم وہی تھا یعنی وحی ،قرآن،نبوت اور دین کو مسخ کیا جائے۔خلوص ایک ذہنی کیفیت ہے جس کو پرکھنے سمجھنے کے لیے صرف ایک ہی پیمانہ ہے کہ مدعی کے قول و فعل کا جائزہ لیں۔ان کے وقوع اور اثرات کو احاطہ میں لانے کی کوشش کریں جو نتائج ایمان داری اور غیر جانب داری سے بر آمد ہوں اس کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کی جائے۔اس عظیم خوبی خلوص کے بارے میں ٹامس کارلائل لکھتا ہے کہ ’’ میرا خیال ہے کہ خلوص بڑا گہرا خلوص اور سچا خلوص بڑے انسان کی پہلی خصوصیت ہے اور ایسے شخص کو ہم اوریجنل (Original)انسان کہتے ہیں۔اس کی فطرت کسی پہلے مرقع کی نقل نہیں ہوتی وہ ایک ایسا قاصد ہے جو پردہ غیب سے پیغام دے کر بھیجا جاتا ہے ہمارے پاس۔ خواہ ہم اسے شاعر کہیں یا پیغمبر یا دیوتا۔بہ ہر صورت ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ساری نوع انسانی کے الفاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔وہ حقیقت اشیاء کی روح رواں سے نکلتا ہے اور رات دن اسی میں بسر کرتا ہے۔اوہام اس سے اس حقیقت کو نہیں چھپا سکتے۔وہ اندھا ہو، بے خانماں ہو،مصیبت زدہ ہو،روزمرہ کی گفت گو میں منہمک ہو لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح ہر وقت پیش نظر رہتی ہے۔کیا اس کے الفاظ فی الحقیقت ایک طرح کی وحی نہیں ہیں۔جب اس مفہوم کو ادا کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی لفظ اور نہ ہو تو پھر ہم وحی کے سوا اسے کس نام سے تعبیر کریں۔ایسے انسان کی ہستی قلب کائنات سے ابھرتی ہے اور وہ اشیاء کا بنیادی جزو ہوتا ہے۔ خدائے تعالیٰ نے اس دنیا میں بہت سے الہام بھیجے ہیں لیکن کیا یہ شخص آخری اور تازہ ترین مظہر نہیں ہے۔اس کی عقل وحی کی پر وردہ ہوتی ہے تاہم کسی طرح حضرت محمدﷺ کو حریص و منصوبہ ساز اور ان کی تعلیمات کو جہل و نادانی نہیں سمجھ سکتے۔وہ پیغام جو آپ لے کر آئے بالکل سچا تھا۔ وہ ایک آواز تھی جو پردہ غیب سے بلند ہوئی۔اس شخص کے اقوال جھوٹے تھے نہ افعال۔اس میں تنگ ظرفی اور نمائش کا شائبہ تک نہ تھا۔وہ زندگی کا ایک جادئہ تاباں تھا۔جو خاص سینہ فطرت سے ہویدا ہوا اور جسے خالقِ عالم نے کائنات کو منور کرنے کے لیے بھیجا تھا۔(ن۔۴۔۵۴۰)
یہ اس قسم کے بزرگ و برتر کی جاں پاک تھی جسے خلوص و صداقت کے بغیر گزر ہی نہیں۔جس کے خمیر میں خود فطرت اخلاص کو جگہ دیتی ہے جس وقت اور لوگ اوہام میں مبتلا تھے اور اسی پر اڑے اپنے لیے جنگ و جدل کر رہے تھے۔اس شخص کی عقل پر وہم و گمان کا پردہ نہ پڑ سکا وہ اپنی روح اور حقائق اشیاء کے ساتھ سب سے الگ تھا اس کی نگاہوں کے سامنے رازہستی ایک بیم و رجا کے ساتھ روز روشن کی طرح عیاں تھا جس کے وجود کو کسی طرح کاوہم و گمان پوشیدہ نہ کر سکا۔یہ حقیقت جسے (ٹامس کارلائل) نے ’’خلوص‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا،در حقیقت صفات ایزدی کا ایک پر تو ہے اور ایسے انسان کی آواز دراصل ہاتف غیبی کی آواز ہے جسے لوگ انتہائی توجہ سے سنتے ہیں اور انھیں سننا چاہیے کیوں کہ اس کے مقابلہ میں دنیا کی ہر چیز ہیچ ہے‘‘۔ اب اس مستشرق کے خیالات و آراء کی روشنی میں دیگر مستشرقین کے جعل،بہروپ اور عدم خلوص کے الزام کی کوئی وقعت رہ جاتی ہے؟ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمیں دلائل دینے کی ضرورت نہ رہی بل کہ ان کے اپنوں نے ان کے الزام کی دھجیاں بکھیر دیں اور ان کی بے علمی،تعصب،نفرت اور جہالت کی پگڑی اچھال دی بل کہ تار تار کردی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک بہروپ و جعل ساز (نعوذ باللہ) کمر باندھ کر نکلے اور چند سالوں میں پورے جزیرہ نمائے عرب کو ظلمت کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال کر ہدایت کی روشنی عطا کر دے۔خون کے پیاسوںکو ہم درد، دوست اور غم خوار بنا دے۔دشمنوں کی دشمنی محبت و پیار میں بدل دے۔ جوا،شراب،قمار بازی وغیرہ برائیوں سے معاشرہ کو پاک کر کے پاکیزہ بنا دے۔ لڑکیوں کو قتل کرنے والوں کو احترام آدمیت کا رہبر و رہنما بنا دے۔ بت پرستوں کو بت شکن اور ظلم کی آندھیوں کی جگہ انصاف کی پر کیف ہوائیں چلا دے۔بھٹکتی انسانیت کو صراط مستقیم پر گامزن کر کے ان کی اصل منزل کی نشان دہی کردے تا کہ مقصد زیست کا فریضہ انجام پذیر ہو سکے۔ شاعر اور جھوٹا تھا؟ لیکن میں تمھارے رو بہ رو اعلان کرتا ہوں کہ محمدﷺ کی زندگی اور تاریخ کے مطالعہ کے بعد ان کے متعلق ایسے خیال نہیں رکھے جا سکتے۔یہی فلسفی مزید لکھتا ہے کہ ’’ کون سا شخص ایسا ہے، جس کو ان معیارات پر پرکھا جائے جو عظمت انسانی کو پر کھنے کے لیے وضع ہوئے ہوں تووہ محمد ﷺ سے بڑا نظر آئے۔محمد ﷺ کے سوا وہ کون ہے جس میں ہر انسانی عظمت اپنے عروج پر نظر آتی ہو‘‘۔ یوں بھی لکھتا ہے کہ ’’ محمد ﷺ خدا سے کم ہیں اور انسان سے برتر ہیں یعنی وہ خدا کے نبی ہیں‘‘۔ ارشاد خدا وندی ہے’’ وَلَماَّ وَقَعَ عَلَیھِمُ الرّ ِ جَزُ قَالُوا یَمُوسٰی ادعُ لَنَا رَبَّکَ بَماَ عَھِدَ عِندَکَ لَئِن کَشَفتَ عَنَّا الرّ ِ جزَ لَتُو مِنَنَّ لَکَ‘‘ ( الاعراف۱۳۴) ترجمہ : ’’ اور جب ان پر عذاب پڑتا کہتے اے موسیٰ ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے بے شک اگر تم عذاب اٹھا دو گے تو ہم تم پر ضرور ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کر دیں گے ۔‘‘
اس آیت کے تحت غلام رسول سعیدی جلد ۱۲ صفحہ ۳۴۶ تبیان القرآن میں لکھتے ہیں۔ جو عصمت انبیاء کے قائل نہیں ہیں اس آیت سے استدلال لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوا کہ آپؐ پہلے معاصی کا ارتکاب کرتے تھے تبھی تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں آپؐ کو ارتکاب معصیت سے منع فرمایا ہے کہ آپؐ گناہ نہ کریں۔اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں آپ کو گناہ نہ کرنے کے معدوم کا حکم دیا ہے جیسا کہ ہم نماز میں کہتے ہیں’’ اھدنا الصراط المستقیم‘‘ ہم کو سیدھے راستے کی ہدایت دے اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم پہلے ہدایت یافتہ نہیں ہیں بل کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کوہدایت پر ہمیشہ برقرار رکھ‘ اگر ہم پہلے ہی ہدایت یافتہ نہ ہوتے تو نماز کیسے پڑھتے‘‘۔
مسٹر اے فری مین : اس میں شک نہیں کہ حضرت محمد ﷺ بڑے پکے راست باز اور سچے ریفامر تھے اگر وہ ایسے نہ ہوتے تو ہر گز اپنے مقدس مشن میں آخر تک مستقل اور ثابت قدم نہ رہ سکتے تھے وہ ڈگمگا جاتے اور ان کو لغزش ہو جاتی ۔ڈاکٹر لین پول کہتا ہے کہ : اگر محمد ﷺسچے نبی نہیں تھے تو کوئی نبی دنیا میں برحق آیا ہی نہیں ۔
سیرت و کردار کی تابانی اور قول و فعل کی ضوفشانی نے دنیا ئے فکر کو جلا بخشی آپﷺ کے بجز کوئی فرد ایسا نظر نہیں آتا جس کا ہر ہر لفظ محفوظ کیا گیا ہو ۔ اس کا ہر قول تقدس و حجت بالغہ کا عکاس ہے انہوں نے جس بات سے منع فرمایا حرام ہو گئی اور جس بات کا حکم دیا واجب ٹھہری، جس کا حکم نہ دیا مباح ہوا ۔ جس بات سے ناگواری فرمائی مکروہ ہو گئی جس کا حکم نہ دیا لیکن روا رکھا وہ جائز قرار پائی جس کی چشم ناز کے بار بار اٹھنے سے تحویل کعبہ ہوا ، ان کی نوازش و توجہ حاصل دو جہاں ‘جن کی تعلیم و تربیت سے بدو دنیا کے رہبر و رہنما بن گئے ۔ اس شاہ دو عالم ﷺکے علاوہ کسی کو یہ مقام حاصل نہیں ہوا ۔ ایسے کامیاب شخص کی کامیابی کیسے خلوص کو متاثر کر سکتی ہے ۔ تمام پیغمبر ایک خدا کے قائل ، اس کے احکام کے پابند سب کی تعلیمات اللہ کی دی ہوئی اور سب کے سب انسانیت کے غم گسار اور عظیم محسن جن کے بغیر انسانیت کو راہ مستقیم نہ ملتی۔ تمام انبیاء سے وفاداری اور نبی آخر ﷺ سے ناگواری کیوں ؟ کیونکہ اگر سارے انبیاء پر خلوص ہیں تو اسی راہ کے دوسرے انبیاء کے خلوص پر شک و شبہ اور تشکیکات ہرگز نہیں ہو سکتی ۔
جی ڈبلیو لیٹنر‘‘ آپ کی نبوت کی تصدیق کرتے ہوئے اس تاریخی واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے ’’ محمد رسول اللہ ﷺ نے ازخود کسی معصومیت کا دعویٰ نہیں کیا بل کہ ایک موقع پر تو ایسی وحی نازل ہوئی جس میں انھیں تنبیہ کی گئی کہ انھوں نے ایک با عزت شہری سے بات کرنے میں ایک فقیر بے نوا سے منہ کیوں موڑا۔یہی نہیں انھوں نے اس وحی کو شائع بھی کیا۔یہ وہ آخری دلیل ہے جس کی روشنی میں اس بات کی تردید ہو جاتی ہے کہ وہ نعوذ باللہ نبی کاذب تھے جیسا کہ معصوم مسیحی اس عظیم عرب کو الزام دیتے ہیں۔جس واقعے کی طرف جی ڈبلیو لیٹنر نے اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے۔ایک نابینا صحابی ابن مکتوم آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔اس وقت سرداران قریش آپ کی خدمت میں آئے ہوئے تھے۔شیبہ،عتبہ،ابو جہل،ولید بن مغیرہ وغیرہ۔آپ نہایت تند ہی سے تبلیغ حق فرما رہے تھے۔اس دوران وہ نابینا صحابی آیا۔ اپنی نا بینائی کے سبب صورت حال کا اندازہ نہ لگا سکے اور فی الفور ہدایت کی درخواست کی۔ اس بے جا مداخلت پر آپؐ کے چہرہ اقدس پر ناگواری کے اثرات نمودار ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بات غریبوں کے ملجا،یتیموں بیوائوں کے والی اور بے کسوں کے آقا نبی کی رحمۃ اللعالمینی کے شایان شان نہ تھی۔اس پر قرآن کی سورہ عبس کی آیات ۱تا ۱۶ نازل ہوئیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...