Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم |
حسنِ ادب
سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم

کعبہ کی تعمیر نو
ARI Id

1689956752314_56117766

Access

Open/Free Access

Pages

۹۵

کعبہ کی تعمیر نو:
آپ ﷺ کی عمر مبارک پینتیس برس کی تھی جب قریش نے کعبہ کی تعمیر نو کا ارادہ کیا ۔ تعمیر نو کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ایک عورت کعبہ کو خوشبودار دھونی دے رہی تھی کہ آگ لگ گئی جس سے کافی نقصان ہوا ۔ دوسری یہ وجہ تھی کہ دیواروں میں شگاف پڑے ہوئے تھے ۔ وہ اس طرح کہ بند ٹوٹ گیا جو مکہ کو سیلاب سے بچانے کے لیے بنایا گیا تھا ۔ سیلاب کی وجہ سے صحن حرم پانی سے بھر گیا تھا ۔ پہلے کعبہ کی چاردیواری تھی مگر چھت نہیں تھی ۔ ان حالات میں از سر نو تعمیر کعبہ کا بیڑا اٹھایا گیا یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ کسی غیر قوم کاقبضہ کر کے گرا دینے ، منہدم کرنے کا واقعہ خانہ کعبہ کے ساتھ پانچ ہزار سال سے نہیں ہوا تھا جیسا کہ ہیکل یروشلم کے ساتھ بارہا ایسے واقعات پے درپے ہوتے رہے اور یہ ایسا شرف ہے کہ دنیا کے کسی عبادت خانہ کو حاصل نہیں ۔ ( رحمت اللعالمین ۔۱۔۴۳)
دوران تعمیر حجر اسود کے نصب کرنے کا مرحلہ آیا تو اختلاف پیدا ہوا ، یکے یو سف ہزار خریداروالا معاملہ تھا یعنی ہر شخص کی خواہش تھی کہ وہ حجر اسود کو کعبۃ اللہ کی دیوار میں نصب کرے ، بالآخر ایک بزرگ کی بات پر اتفاق ہوا کہ کل جو شخص سب سے پہلے باب بنی شیبہ سے حرم میں داخل ہو اس کو حکم مان لو اور وہ جو فیصلہ کریں اس پر عمل کریں ۔ اس رائے کو بالاتفاق پسند کیا گیا اور اسی پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ ہوا ۔ اگلی صبح آنحضرت ﷺ سب سے پہلے باب بنی شیبہ سے حرم میں داخل ہوئے۔ آنے والوں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو پکار اٹھے ۔ ھذا الامین ۔رضینا۔۔۔۔۔ ھذا محمد ﷺ ( یہ امین ہے ۔۔ہم اس پر راضی ہیں ۔ یہ محمد ﷺ ہیں )
آپ کے سامنے مسئلہ رکھا گیا مسئلہ مشکل تھا مگر ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ، آپ نے کم عمری کے باوجود ایسا فیصلہ فرمایا کہ بڑے بڑوں نے اس فیصلے کے آگے سر جھکا دیا اور سب راضی ہو گئے اور خوشی سے کھل اٹھے ، آپ نے ایک چادر بچھانے کا کہا : چادر بچھ گئی تو آپ ﷺ نے حجر اسود کو اٹھا کر چادر میںرکھ دیا پھر فرمایا تمام قریش جو چار بڑی جماعتوں میں تقسیم تھے ، اپنا اپنا نمائندہ منتخب کریں اور ہر نمائندہ چادر کا ایک کونہ پکڑ لے اس سلسلے میں ایک کونہ پر عقبہ بن ربیعہ دوسرے کونے پر ابو ذمعہ ، تیسرے کونے پر ابو حذیفہ بن المغیرہ اور چوتھے یہ قیس بن عدی کھڑا ہوا ’’ اس چادر کو سب مل کر اٹھا لیں اور کعبہ کے قریب لے جائیں ، سب نے ہاتھ بڑھا کر اس چادر کو اٹھایا اور جب کعبہ کے پاس پہنچا دیا ، پھر آپ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھا کر مقررہ جگہ پر نصب کر دیا ۔ گویا آپ کے حکم بنائے جانے پر قرآن مجید شہادت دیتا ہے نیز تنبیہ بھی کرتا ہے اور کل جسے حکم بنانے کی حکمت کا ذکر قرآن مجید میں آنا تھا اسے آج ہی وہ سعادت عطا فرما دی ، ارشاد ربانی ہے ’’ فلا و ربک لا یومنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدو فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما ‘‘ (سورۃ النسا۔۶۴،۶۵) ترجمہ : اے محمد ﷺ تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ، پھر جو کچھ تم محمدﷺفیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ سر تسلیم خم کریں ۔‘‘
علامہ سہیلی نے لکھا ہے کہ شیطان شیخ نجدی کی صورت میں نمودار ہوا ، اور چلانے لگا ! کیا کر رہے ہو ، کیا تمہیں گوارا ہے کہ اتنے شرفا و روسا کے ہوتے ہوئے ایک یتیم نوجوان کو منصف مان لیا ہے ؟ وقتی طور پر کچھ لوگ اس کی چیخ پکار سے متاثر ہوئے مگر پھر خاموش ہو گئے اور جان دو عالم ﷺ کو وہ اعزاز مل کر رہا جو ازل سے آپ کا مقدر تھا ۔
ایک اہم نقطہ : خانہ کعبہ کی تعمیر میں آنحضرت ﷺ نے بھی حصہ لیا ۔ اپنے چچا عباسؓ کے ساتھ مل کر پتھر اٹھاتے رہے ، عرب میں دستور تھا کہ وہ وزن اٹھاتے وقت اپنی ازاریں کھو ل کر کندھوں پر رکھ لیتے تھے ۔ اس موقع پر بھی کئی افراد نے ایسا کیا ۔ آپ ﷺ کو بھی چچا عباس ؓ نے ازار کو کندھوں پر رکھنے کا مشورہ دیا ۔ آپ ﷺ نے ان کے مشورہ پر عمل کیا لیکن اس طرح آپ ﷺ برہنہ ہو گئے ( قمیض چھوٹا ہونے کی وجہ سے گھٹنے یا ران کے کچھ حصے برہنہ ہو گئے )۔ رب تعالیٰ کو یہ گوارا نہ ہوا کہ وہ ہستی جس نے دنیا کو شرم و حیا کی تعلیم و ہدایت کے زیور سے آراستہ کر نا ہے وہ کیونکر برہنہ ہو۔ اسی وقت آواز آئی ، ترجمہ ،یا محمد ! قابل پردہ حصہ ڈھانپ دیجئے ، بے ہوش ہو کر گر پڑے ، افاقہ ہوا تو اپنی ازار کا پوچھا اور پھر ازار باندھ لی ۔ حدیث میں ’’ عورۃ ‘‘ کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ عورۃ دو قسم کی ہوتی ہے ۔ عورۃ غلیظہ اور عورۃ خفیفہ ۔ پہلی قسم کو شرم گاہ کہتے ہیں اور دوسری کو ناف سے گھٹنوں تک کے باقی حصہ کو کہا جاتا ہے ۔ صاحب سید الوریٰ ( ۱۔۱۵۵) بحوالہ زرقانی لکھتے ہیں کہ علامہ زرقانی نے تصریح کی ہے اور آپ ﷺ کے جسم کا جو حصہ برہنہ ہوا تھا ، وہ عورۃ غلیظہ نہ تھا ، عورۃ خفیفہ تھا ، نَعَم لَیسَ ا لمراد۔۔۔ اَلعُورَۃ الغَلِیظَہ۔
نکتہ : جسم کا جو حصہ ظاہر ہوا تھا وہ عورۃ غلیظہ نہ تھا ، تو پھر آپ بے ہوش ہو کر کیوں گر گئے ؟ آپ ﷺ کے بارے میں شہادت موجود ہے کہ حضور ﷺ کنواری لڑکیوں سے بڑھ کر با شرم و با حیا تھے اس سبب سے آپ ﷺ کا عورۃ خفیفہ کا کوئی جسمانی حصہ نظر آتا ہے تو وہ بھی آپﷺ کے لیے شرم و حیا کا با عث ہے نہ کے صرف عورۃ غلیظہ کا ، بایں سبب آپ ﷺ بے ہوش ہو کر گر گئے ۔
اعتراض نمبر ۱۸۵
گریونے بائوم (Von Grunebaun ) نے حجر اسود کے بارے میں تحریر کیا کہ کعبہ کے پرستاروں کے لیے حقیقی کشش ایک سیاہ پتھر میں تھی ، یہ قدیم الایام پتھر اس کی دیواروں میں نصب تھاحضور(ﷺ) کو بادل نخواستہ اس پتھر کے تقدس و احترام کو اسلامی رسوم میں جگہ دینا پڑی جہاں وہ اب بھی اس امر کے ثبوت کے طور پر موجود ہے کہ اسلام قدیم رسوم سے اپنا دامن چھڑانے میں ناکام رہا ۔( مستشرقین مغرب کا انداز فکر۔ ۱۶۵)
جواب :اس کے جواب میں عرض یہ ہے کہ کعبہ کی عمارت کی چھت نہ تھی صرف قد آدم اونچی تھی یہ عمارت نشیب میں تھی ، بارش کا پانی حرم میں آتا تھا اگرچہ اس کی روک کے لیے بالائی حصہ پر بندبنوا دیا گیا تھا لیکن وہ ٹوٹ پھوٹ جاتا تھا اور عمارت کو نقصان پہنچتاتھا ۔ آخر کار اسے دوبارہ مستحکم بنانے کا فیصلہ ہوا ۔ عمارت تیار ہونے کے قریب تھی کہ حجر اسود نصب کرنے معاملہ الجھ گیا ۔ ہر شخص کی خواہش و آرزو تھی کہ اپنے ہاتھ سے اسے کعبہ کی دیوار میں نصب کرے لیکن یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ہر فرد کو یہ سعادت نصیب ہوتی ۔ چاردن گزر گئے آخر پانچویں دن ابو امیہ بن مغیرہ جو قریش میں سب سے معمر تھے ، نے رائے دی کہ کل صبح سب سے پہلے جو شخص آئے اسی کو ثالث قرار دیا جائے اس پر سب کا اتفاق ہو گیا ۔ اگلے دن قبائل کے آدمی موقع پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ نبی مکرم ﷺ جلوہ افروز ہیں۔ آپ ﷺکو حکم مان لیا۔ اور آپ ﷺ نے ایک ایک سردار کو لیا ۔ آپ ﷺ نے ایک چادر بچھا دی اور حجر اسود اپنے ہاتھ سے اس میں رکھ کر کہا اب تم سب اس چادر کے کونوں کو پکڑ کر اٹھائیں ۔ جب چادر حجر اسود نصب کرنے کے مقام کے برابر ہوئی تو آپ ﷺ نے حجر اسود کو اٹھا کر دیوار کعبہ میں نصب کر دیا گویا یہ اعجاز ربانی تھا کہ دین الہٰی کی عمارت ، جس کو رہتی دنیا تک کے لیے قبلہ بنانا تھا ، کا آخری تکمیلی پتھر بھی آپ ﷺ دستِ مبارک سے نصب ہو گا ۔مولانا شبلی ( سیرت النبی ۔ ۱۲۱) لکھتے ہیں کہ یہ ایک حدیث کی طرف تلمیح ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ میں نبوت کی عمارت کا آخری پتھر ہوں ‘‘
دوم: اس پتھر کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ کعبۃ اللہ کا طواف اس پتھر سے شروع ہوتا ہے اور اس پر آکر ختم ہوتا ہے لہذا حج کے ارکان میں ایک رکن طواف ہے جس کے بجا لانے کا عمل کس مقام سے شروع ہو ، کا علم ہمیں حجر اسود سے ہوتا ہے ۔
سوم: حجر اسود کے بارے میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ مسلمان اس کی پرستش کرتے ہیں حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر ؓ کے بقول یہ صرف ایک پتھر ہے جسے نبی مکرمﷺ نے بوسہ نہ دیا ہوتا تو ہرگز کعبہ کے دوسرے پتھروں سے ممتاز نہ ہوتا یہ نہ تو معبود ہے نہ اس کی پوجا پاٹ ہوتی ہے اس کی عظمت ہے تو صرف اس لیے کہ حبیب کبریا ﷺ کے لب مبارک اس سے مس ہوئے،’’اے حجر اسود تیرا مقدر اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘ بعدازاں آپ ﷺ کی یہ سنت ٹھہری ۔ یہ وہ مستند ترین شے ہے جس کے توسط سے ایک عام آدمی محسوس کرتا ہے کہ اس نے عباد صالحین سے بُعد زمانی کے باوجود قرب حاصل کر لیا ہے اور یہ سب کچھ لب مصطفی ﷺ کا عطا کردہ سرمایہ ہے ۔ (مستشرقین مغرب کا اندا ز فکر ۔۱۶۵) اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کعبہ کی پوجا کی جاتی ہے ۔ اس پر غور فرمائیں کہ ہندو دھرم میں گائے کی پوجا پاٹ ہوتی ہے اس کو مقدس سمجھا جاتا ہے اور نقصان نہیں پہنچایا جاتا اسے ذبح کر کے ٹکڑے ٹکڑے نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اس کا گوشت بھون کر یا پکا کر کھایا جاتا ہے نہ اس پر سوار ہوتے ہیں نہ اسے ہل میں جوتتے ہیں نہ پانی نکالنے کے لیے رہٹ پر جوڑا جاتا ہے جبکہ حضرت بلال ؓ کعبہ کی چھت پر چڑھ جاتے ہیں اور اذان دیتے ہیں اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ اگر اس کو پوجا پاٹ کے قابل سمجھا جاتا تو اس پر چڑھ کر اذان نہ دی جاتی کیونکہ بھلا کوئی اپنے معبود برحق پر چڑھتا ہے ۔
علامہ سیوطی ( تاریخ مکہ میں لکھتے ہیں کہ کعبہ کو دس مرتبہ تعمیر کیا گیا ۔
۱۔ سب سے پہلے فرشتوں نے ٹھیک ’’ بیت المعمور ‘‘ کے سامنے زمین پر خانہ کعبہ کو بنایا ۔
۲۔ پھر حضرت آدم ؑ نے اس کی تعمیر فرمائی۔
۳۔ اس کے بعد حضرت آدم ؑ کے فرزندوں نے اس عمارت کو بنایا ۔
۴۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے فرزند حضرت اسمعیٰلؑ نے اس مقدس گھر کو تعمیر کیا جس کا تذکرہ قرآن مجید میں ہے
۵۔ قوم عمالقہ کی عمارت
۶۔ اس کے بعد قبیلہ جرہم نے ا س کی عمارت بنائی ۔
۷۔ قریش کے مورث اعلیٰ ’’ قصی بن کلاب ‘‘ کی تعمیر
۸۔ قریش کی تعمیر جس میں خود نبی ﷺ نے بھی شرکت فرمائی اور قریش کے ساتھ خود بھی اپنے دوش مبارک پر پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے تھے ۔
۹۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے اپنے دور خلافت میں حضور ﷺ کے تجویز کردہ نقشہ کے مطابق تعمیر کیا یعنی حطیم کی زمین کو کعبہ میں داخل کر دیا اور دروازہ سطح زمین کے برابر نیچا رکھا اور ایک دروازہ مشرق کی جانب اور ایک دروازہ مغرب کی سمت بنا دیا ۔
۱۰ ۔ عبد الملک بن مروان اموی کے ظالم گورنر حجاج بن یوسف ثقفی نے حضرت عبداللہ بن زبیر کو شہید کر دیا اور ان کے بنائے ہوئے کعبہ کو ڈھا دیا اور زمانہ جاہلیت کے نقشہ کے مطابق کعبہ بنا دیا جو آج تک موجود ہے لیکن حضرت علامہ حلبی ؒ نے اپنی سیرت میں صرف تین بار تعمیر کا ذکر کیا ہے ۔
۱۔ حضرت ابراہم خلیل اللہ کی تعمیر۔
۲۔ زمانہ جاہلیت میں قریش کی عمارت ( اور ان دونوں عمارتوں کی تعمیر میں دو ہزار سات سو پینتیس ( ۲۷۳۵) برس کا فاصلہ ہے ۔
۳۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی تعمیر ( یہ قریش کی تعمیر کے ۸۲ سال بعد ہوئی ۔
حضرات ملا ئیکہ اور حضرت آدم ؑ اور ان کے فرزندوں کی تعمیرات کے بارے میں علامہ حلبی ؒ نے فرمایا کہ یہ صحیح روایات سے ثابت ہی نہیں ہے باقی تعمیروں کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ یہ عمارت میں معمولی ترمیم یا ٹوٹ پھوٹ کی مرمت تھی تعمیر جدیدہ نہیں تھی واللہ تعالیٰ اعلم۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...