Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم |
حسنِ ادب
سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم

غارِ حرا
ARI Id

1689956752314_56117767

Access

Open/Free Access

Pages

۹۹

غار حرا
مکہ معظمہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک غار ہے جس کو حرا کہتے ہیں ۔ اب اس کو جبل النور کہتے ہیں ۔ اس غار کا طول چار گز اور عرض پونے دو گز ہے اونچائی اتنی ہے کہ ایک دراز قد آدمی کھڑے ہو کر اس میں نماز پڑھ سکتا ہے دھوپ اور بارش سے بھی بہت حدتک محفوظ ہے۔ آپ ﷺْ کھانے پینے کا سامان لے کر وہاں چلے جاتے اور جب تک کھانے پینے کی اشیاء ختم نہ ہوتیں ، آپ ﷺ واپس تشریف نہ لاتے ۔ آپ ﷺ وہاں عبادت میں مصروف رہتے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کس قسم کی عبادت کیا کرتے تھے ۔ شرح بخاری عینی میں ہے ۔ ترجمہ ’’ یہ سوال کیا گیا کہ آپ کی عبادت کیا تھی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ غور و فکر اور عبرت پذیری ‘‘۔ مولانا شبلی لکھتے ہیں ’’ یہ وہی عبادت تھی جو آپ ﷺ کے دادا ابراہیم ؑ نے نبوت سے پہلے کی تھی۔ ستاروں کو دیکھا تو چونکہ تجلی کی جھلک تھی ، دھوکہ ہوا ، چاند نکلا تو اور بھی شبہ ہوا ، آفتاب پر اس سے بھی زیادہ شبہ ہوا لیکن جب سب نظروں سے غائب ہو گئے تو بے ساختہ پکار اٹھے ’’ اِنّیِ لاَ اُحِبُّ الاٰفِلِینo
انی وجھت ۔۔۔۔ والارض ( الانعام ۔۷۹) ترجمہ( میں فانی چیزوں سے محبت نہیں کرتا میں اپنا منہ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے زمین و آسمان پیدا کیا ‘‘۔ ایک مغربی مورخ کار لائل نے آنحضرت ﷺ کی عبادت کی کیفیت اس طرح بیان کی ہے ’’ سفرو حضر میں ہر جگہ محمدﷺ کے دل میں ہزاروں سوال پیدا ہوتے تھے، میں کیا ہوں ؟ یہ غیر متناہی عالم کیا ہے ؟ نبوت کیا شے ہے ؟ میں کن چیزوں کا اعتقاد کروں ؟ کیا کوہ حرا کی چٹانیں ، کوہ طور کی سر بہ فلک چوٹیاں ، کھنڈراور میدان ، کسی نے ان سوالوں کا جواب دیا ؟ ہرگز نہیں بلکہ گنبد گرداں گردش لیل ونہار ،چمکتے ہوئے ستارے ، برستے بادل ، کوئی ان سوالوں کا جواب نہ دے سکا ۔‘‘ حضرت شیخ محی الدین العربی نے لکھا ہے کہ اس وقت آپ شریعت ابراہیمی کے مطابق عبادت کرتے تھے ، حتی کہ آپ پر پیغام رسالت آگیا ۔ ( السیرت النبویہ دھلان ۔۱۸۹)
غار حرا میں قیام : غار حرا میں مدت قیام کیا تھی ؟ قیام کی مدت کو مبہم رکھا کیونکہ یہ مدت مقرر نہ تھی ، کبھی تین رات کبھی پانچ ، کبھی سات رات اور کبھی رمضان کا پورا مہینہ قیام کرتے تھے۔( حوالہ بالا)
آنحضرت ﷺ نے غار حرا کا انتخاب کیوں کیا ؟
جواب: غار حرا مکہ شہر سے تین یا ساڑھے تین میل کے فاصلے پر ہے ۔ شہر کی سر گرمیوں سے قدرے دور واقع ہے نیز دوسری غاروں کی نسبت یہ کم اونچائی پر واقع ہے جہاں لوگوں کی آمد و رفت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور وہاں یکسو ہو کر مراقبہ اور غور فکر کرنے کے لیے نہایت موزوں مقام ہے ۔ دھیان کسی طرف نہیں جاتا ۔
دوسری وجہ یہ ہے غار حرا کے لمبے شگاف سے کعبۃ اللہ صاف نظر آتا ہے ۔ غور وفکر کرنے کے ساتھ کعبہ شریف پر تجلیات الہٰیہ کے انوار کا نظارہ و مشاہدہ بھی ہو پاتا ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ غار حرا کا منہ مشرق کی جانب ہے ۔ آفتاب جونہی طلوع ہو تا ہے تو آفتاب کی روشنی غار حرا کو جگمگا دیتی ہے اس سے اشارہ ملتا ہے کہ آفتاب آسمانی جیسے مشرق سے طلوع ہوتا ہے ، اسی طرح سے آفتاب نبوت بھی مشرق سے طلوع ہونے والا تھا۔ جس کی ضیاباریوں اور ہدایت کی گوہر فشانیوں سے پوری دنیا جگمگا اٹھنے والی تھی ۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ ( محمد رسول اللہ ۔۳۳) لکھتے ہیں کہ یہ بھی درست ہے کہ محمد ﷺ کے دوست زید بن عمرو بن نوفل اور آپ ﷺ کے دادا جان حضرت عبدالمطلب بھی بعض اوقات غار حرا میں جا کر عبادت کرتے تھے ۔ بہر حال آپ نے بھی اس غار کو منتخب فرمایا اور وہاں تشریف لے جاتے تھے ۔۔۔۔ اپنے اہل خانہ سے علیحدگی اختیار کر کے مسلسل پانچ برس تک ہر سال میں ایک مہینہ کے لیے غار حرا میں جاتے تھے ۔ ‘‘
اپنے دادا کی نسبت سے کہ وہ بھی اس غار میں عبادت و ریاضت کے لیے جایا کرتے تھے آپ نے بھی جد امجد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی غار کو مراقبہ و عبادت کے لیے منتخب فرمایا ۔
پانچویں وجہ علامہ غلام رسول رضوی ( تفہیم البخاری ۔۱۰۔۵۱۱) لکھتے ہیں کہ غار حرا میں تنہائی اختیا ر کرنے میں یہ حکمت تھی کہ کعبہ اس کے سامنے ہے وہاں کعبہ پر خوب نظر جمتی ہے تو غار حرا میں رہنے والے کے لیے تین عبادتیں ہیں ۔ ایک تنہائی ، دوسری عبادت اور تیسری بیت اللہ پرنظر ۔ ‘‘
چھٹی وجہ یہ بھی ہے کہ غار حرا میں حضور ﷺ کی گوشہ نشینی عبادت و ریاضت سے روح کی پاکیزگی کو اس مقام پر لے جانا تھا کہ آپ کلام الہٰی اور احکام خدا وندی کی پذیرائی کے لیے آمادہ ہو جائیں ۔ اس قسم کا ایک واقعہ حضرت موسی ٰ کو ہ طور پہاڑ پر پیش آیا تھا کہ چالیس دن کی خلوت کا حکم ہوا تھا اور جب یہ چلہ ختم ہوا تو الواح تورات عطا ہوئیں ، چنانچہ سورت طہٰ میں ارشاد ہوتا ہے ’’ ثم جئت علی ٰ قدر یا موسی ٰ ‘‘ فرق یہ ہے کہ موسی ؑ کی چلہ کشی بعد از نبوت تھی اور آپ کی عزلت گزینی قبل از رسالت (سیرت طیبہ پروفیسر غلام ربانی ۔۱۔۸۷)
ساتویں وجہ یہ ہے : کہ عرب کا ماحول بت پرستی کی بھینٹ چڑھ چکا تھا ہر قبیلے کا ایک بت تھا انفرادی طور پر ہر ایک اپنی مرضی کا بت بنا کر اس کی پوجا کرتا تھا ان کا عقیدہ یہ تھا جسے قرآن مجید نے بیان کیا ہے ۔’’ ترجمہ : ہم ان بتوں کو صرف اس لیے پوجتے ہیں کہ ہم کو خدا کے قریب کر دیں ۔( ما نعبد ھم الا لیقر بونا الی اللہ زلفیٰ)۔تما م قبائل بت پرستی کی لپیٹ میں تھے ان کو پوجنے کا مقصد ان کے ذریعے حاجت روائی تھی ۔ لڑائیوں میں فتح دلانے ، قحط کو ٹالنے والے وغیرہ کو حاجت روا سمجھتے تھے ۔ ان کے مشہور بت لات ، عزیٰ، منات ،ود ، سواع ،یغوث اور یعوق تھے سب سے بڑا حبل تھا جو کعبہ کی چھت پر نسب تھا ۔ خانہ کعبہ ۳۶۰ بتوں کا مسکن تھا ۔ آپ ﷺ بت پرستی سے شدید نفرت تھی ۔ اس تاریک اور بے روشن ماحول میں آپ ﷺ گوشہ تنہائی اختیار کر کے بت پرستی کی لعنت کو ترک کر سکتے تھے اس علیحدگی کی فضا کے حصول کے لیے آپ ﷺ غار حرا میں ہر سال ایک ماہ قیام فرماتے تھے ۔

اعتراض نمبر۱۸۶
’’واٹ ‘‘کہتا ہے کہ’’ غار حرا میں آپ ﷺکے جانے کی ایک سے زیادہ وجوہ ہو سکتی ہیں مثلا گوشہ نشینی کو مستحسن سمجھتے ہوئے یہودیوں اور مسیحوں کا راہبانہ جذبہ کار فرما ہو سکتا ہے ، محدود شخصی تجربہ بھی ایک امکانی وجہ ہو سکتی ہے ۔ یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ جو لوگ مکہ میں سخت گرمی سے بچنے کے لیے طائف جانے کی قدرت نہیں رکھتے تھے ، وہ گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے غاروں کا بھی رخ کیا کرتے تھے ، ممکن ہے محمد ﷺنے ایسا ہی کیا ہو ‘‘( حوالہ بالا۔۳۶۵)
جواب:دنیا میں جس چیز نے سب سے زیادہ گمراہی پھیلائی ، وہ دین اور دنیا کا فرق ہے ۔ دین کا کام الگ کیا گیا اور دنیا کا الگ ، اللہ کا حکم الگ ٹھہرایا گیا اور قیصر کا حکم الگ، دنیا کے حصول کا الگ راستہ بتایا گیا اور دین کے حصول کا الگ ۔۔۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ذکر و فکر ، گوشہ نشینی وعزلت گزینی ، کسی غار اور پہاڑ کی کھوہ میں بیٹھ کر اللہ کو یاد کرنا ۔۔۔ دین داری ہے اور دوست احباب ،آل و اولاد ، ماں باپ ،قوم و ملک اور خود اپنی مدد آپ ، فکر معاش اور پرورش اولاد ۔۔۔ دنیا داری ہے ۔ اسلام نے اس غلطی کو حرف مکرر کی طرح مٹا دیا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان حقوق اور فرائض کا بخوبی ادا کرنا بھی دین داری ہے ۔ ارشاد ربانی ہے ۔ ’’ رِجَالَ لاَّ تُلَیھِم تِجَارَۃََ وَّلاَ بَیع ُعَن ذِکرِاللہ‘‘ ِ (نور۔۲۴۔۷۳) (ترجمہ) یہ وہ لوگ ہیں جن کو تجارت اور خرید وفروخت اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی ۔‘‘ جہاں تک ’’ واٹ‘‘ کے راہبانہ جذبہ کاسوال ہے اس کی سرے سے اسلام نے جڑ کاٹ کر رکھ دی قرآن مجید کی سورہ الحدید میں ارشاد ربانی ہے ’’ وَرَھباَ نِیَّۃََ اِبتَدَعُومَاکَتَبنَ ھاَ عَلَیھِم ‘‘ (ترجمہ ) اور رہبانیت جس کو انہوں نے (عیسائیوں نے ) دین میں داخل کیا ہم نے ان پر اس کو فرض نہیں کیا تھا ۔‘‘ اور آنحضرت ﷺ نے اعلان فرمایا ’’ لَا صَرُ ورَۃَ فِی الاِ سلَامِ ‘‘(ابو دائود) ترجمہ ’’ اسلام میں رہبانیت نہیں ‘‘ اور جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی جائز لذتوں کو اپنے اوپر حرام کر دیا تھا ۔ ان سے قرآن مجید سوال کرتا ہے ’’ قُل مَن حَرَّمَ زِینَۃَ اللہ ِالَّتِی اَخرَجَ لِعِباٰدِہٗ ‘‘ ترجمہ :’’ کہو کس نے اللہ کی آرائش، جس کو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا : حرام کی‘‘
پیغمبر اسلام ﷺوہ دین لائے جس میں رہبانیت کی گنجائش نہیں ہے تو وہ از خود یہودیوں اور مسیحوں کے جذبہ رہبانیت پر بھلا کیسے عمل پیرا ہو سکتے ہیں ؟ واٹ اسلام کے ڈانڈے عیسائیت اور یہودیت سے ملانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ قرآن مجید اور فرمان نبوی رہبانیت کا قلع قمع کرتے ہیں ۔ اللہ کی عبادت ہر مذہب میں تھی اور ہے ۔۔۔ لیکن قدیم مذاہب میں ایک عام غلط فہمی پھیل گئی تھی کہ عبادت کا مقصود جسم کو تکلیف دینا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں ہے کہ یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ جس قدر اس ظاہری جسم کو تکلیف دی جائے گی اسی قدر روحانی ترقی ہو گی اور دل کی باطنی صفائی بڑھے گی ۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہندوئوں میں عام طور سے جوگ اور عیسائیوں میں رہبانیت پیدا ہوئی اور بڑی بڑی مشکل ریاضتوں کا وجود ہوا اور ان کو روحانی ترقی کا ذریعہ سمجھا گیا۔۔۔ کوئی عمر بھر نہانے سے پرہیز کر لیتا تھا ، کوئی عمر بھر ٹاٹ کا کمبل اوڑھے رہتا ، کوئی ہر موسم میں ننگا دھڑنگا رہتا تھا تو کوئی عمر بھر کھڑا رہتا تھا ، کوئی عمر بھر دھوپ میں کھڑا رہتا ، کوئی پوری زندگی صرف درختوں کی پتیاں کھا کر گزارہ کرتا تھا ، کوئی عمر بھر تجرد میں گزار دیتا تھا اور قطع نسل کو عبادت سمجھتا تھا ، کوئی درخت پر الٹا لٹک جاتا تھا ، کوئی عمر بھر چٹان پر بیٹھا رہتا تھا اور کوئی عمر بھر غار میں بیٹھا زندگی گزار دیتا تھا ۔ ان تما م مصائب سے دین اسلام نے انسان کو نجات بخشی ۔ اسلام میں طاقت سے زیادہ تکلیف کی قطعاََ گنجائش نہیں ہے ۔ ارشاد ربانی ہے ’’ لاَ یُکَلِّفُ اللہ ُ نَفسَاََ اِلاَّ وُسعَھَا ‘‘ ترجمہ : اللہ کسی جان کو اس کی وسعت سے زیادہ کا حکم نہیں دیتا ‘‘۔ آنحضرت ﷺ کا غار حرا میں غور و فکر میں مشغول رہنا کسی صورت میں بھی رہبانیت نہیں ہے بلکہ یہ چیزیں تو دیگر مذاہب کی ایجاد کردہ ہیں اور آپ ﷺ ان تمام اوہام کو ختم کرنے والے تھے نیز آپ ﷺ از خود ہر حقیقت کو اس حد تک جان گئے تھے کہ پوری کائنات کا خالق صرف اور صرف ایک ہی ہے ۔ وہ ہے اللہ ! جس کے ہاں ہر شخص کے لیے سزا وجزا ہے ۔ سو جو کرتا ہے ذرہ بھر بھلائی وہ دیکھ لے گا اور جو کرتا ذرہ بھر برائی وہ دیکھ لے گا ۔
واٹ یہ شوشہ بھی چھوڑتا ہے گرمی سے بچنے کے لیے جن لوگوں میںطائف جانے کی استطاعت نہیں تھی وہ غاروں کا رخ کرتے تھے ۔ یہ درست نہیں ہے بلکہ بات یہ ہے کہ شروع دن سے آج تک انسان کی یہ خواہش رہی ہے کہ سکون و قرار میسر آئے ۔ اکثر انبیا ء و رسل نے سکون اور یکسوئی کے لیے پہاڑوں اور غاروں کو کچھ عرصہ کے لیے پناہ گاہ بنایا حتیٰ کہ وہ سکون نصیب ہوا جس کی انہیں تلاش تھی ۔ حضرت آدم ؑ کی جب توبہ قبول ہوئی تو ’’ جبل رحمت ‘‘ پر حضرت حوا سے ان کی ملاقات ہوئی اور اسی کی یادگار وہ مقام ہے جس کا نام ’’ عرفہ ‘‘ (یعنی پہچان کی جگہ) حضرت نوح ؑ کی کشتی اِراراط پہاڑ پر جا رکی تھی ۔ سیدنا موسی ؑ کو کوہ طور پر تجلی و کلام کا شرف حاصل ہوا تھا ۔ قرآن پاک میں اصحاب کہف کا ذکر ہے جو اس وقت کے ظالم بادشاہ دقیا نوس نامی سے دور رہنے کی خاطر غار میں پناہ گزین ہوئے تھے کیونکہ وہ بادشاہ جبراََ بتوں کی پوجا کرواتا اور جو نہ مانے اسے سنگ سار کرا دیتا تھا ۔ خدا کے مقدس پیغمبر حضرت عیسیٰ ؑ نے بھی بیت المقدس کے کوہ زیتون کی کھوہ میں قیام فرمایا تھا اسی طرح پیغمبروں اور رسولوں کی پیروی کرتے ہوئے آپ ﷺ نے بھی مراقبہ و غور و فکر کے لیے غار حرا کا انتخاب فرمایا نیز ایک موقع پر لوگوں کو ایک خدا کی عبادت کرنے کا درس دینے کے لیے کوہ صفا پر اعلان کیا تھا اور ہجرت کے موقع پر غار ثور جومکہ سے پانچ چھ میل دور ہے ، اس کی بلندی بہت زیادہ اور راستہ بہت سنگلاخ ہے، میں تین شبانہ روز اقامت فرماکر اگلے دن عازم مدینہ ہوئے تھے گویا پیغمبروں کی زندگی میں غاروں کی ایک خاص اہمیت ہے ۔ یہ نہیں ہے کہ گرمی سے بچنے کے لیے آپ ﷺ نے غار حرا کا رخ کیا تھا ۔ (۲) کیا دیگر پیغمبروں نے بھی گرمی کی شدت کے باعث پہاڑوں اور غاروں کا رخ کیا تھا ، ہرگز نہیں بلکہ حضرت موسی ٰ ؑ کو ہ طور پہاڑ پر تجلی و کلام سے نوازا گیا اور اصحاب کہف ظالم بادشاہ سے محفوظ رہنے کے لیے غار میں جا لیٹے تھے سید نا عیسی ؑ نے کوہ زیتون کی ایک کھوہ میں قیام کیا ۔ گویا پیغمبرانہ زندگی میں غاروں کی اہمیت دوسری ہے اور اس میں کسی قسم کی گرمی کی شدت سے بچائو کا اظہار نہیں ہے بلکہ غاروں میں قیام میں کئی حکمتیں اور اسرار پوشیدہ ہیں۔ دراصل واٹ خواہ جتنی چالیں چلے، پینترے بدلے لیکن وہ صرف گرمی سے بچنے کا شوشہ چھوڑ کر وحی الہٰی کے مقدس مقام حرا کو محو نہیںکر سکتا ۔ یہ وہ غار ہے جس نے انسانیت کو درس دیااور علم کے چشمے پھوٹے اور انسانیت کو راہ مستقیم اور ہدایت نصیب ہوئی ۔ اگر واٹ کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ گرمی سے بچائو کے لیے آپ ﷺ غار میں تشریف لے جاتے تھے تو واٹ کے پاس اس سوال کا جواب کیا ہے ۔کہ آپ ﷺ اکیلے ہی غار حرا میں کیوں تشریف لے جاتے تھے اور اپنی زوجہ محترمہ کو ساتھ کیوں نہیں لے جاتے تھے ؟ کیا انہیں گرمی کی شدت محسوس نہیں ہوتی تھی جیسا کہ تاریخ گواہ ہے کہ خدیجہ الکبریٰ ؓ صرف خورونوش کا سامان لے جاتیں اور آپ ﷺ کے سپرد کر کے واپس آ جاتی تھیں ۔حالانکہ آپ ﷺ کو گرمی نہیں لگتی تھی ۔ آپ ﷺ پر بادل سایہ کنا ںرہتا تھا ۔ اپنی رضاعی ماں کے ہاں بکریاں چرا رہے تھے کہ آپ ﷺ کی رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ آتی ہیں اور اپنی بیٹی شیما ؓ کو ڈانٹ پلاتی ہیں کہ اتنی گرمی میں تو میرے بیٹے کو یہاں لے آئی ہو اس نے کہا امی جان ! محمد ﷺ کو گرمی نہیں لگتی کہ ایک ابر کا ٹکڑا آپ ﷺ پر ہمیشہ سایہ کیے رہتا ہے ۔ یہ روایت بھی ہے کہ زید بن عمرو اور آپ کے دادا عبدالمطلب بھی غار حرا میں بغرض عبادت جاتے تھے ۔ یہی جذبہ آپ کو بھی وہاں کشاں کشاں لے گیا اور ہر سال ایک ماہ کے لیے آپ غار میں قیام فرماتے تھے ، آخری قیام کے دوران آپ رات کو غار میں سوئے ہوئے تھے، ایک شاندار خواب دیکھا ۔۔۔ یعنی پہلی وحی کا نزول ہوا ۔امام سہیلی کہتے ہیں کہ پہلی وحی سترہ رمضان تیرہ قبل از ہجرت بمطابق بائیس دسمبر ۶۰۹ء نازل ہوئی ۔ یہ ماہ دسمبر کی خنک رات تھی جس سے واٹ کا گرمی سے بچائو کا من گھڑت قصہ ملیا میٹ ہو جاتا ہے ۔اہل معرفت غار ثور اور غار حرا کی عزت و عظمت کو جانتے ہیں تبھی تو اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں کہتے ہیں کہ کاش ہماری قسمت میں بھی ثور و حرا جیسی ہو جائے اور ہمارے دل میں ایک گہرا غار بن جائے جس میں محبوب دل نواز آکر رونق افروز ہوں ۔
قسمتِ ثور و حرا کی حرص ہے
چاہتے ہیں دل میں گہرا غار ہم
مستشرق واٹ دور کی کوڑی لاتا ہے اور غار حرا میں گوشہ نشینی کو راہبانہ زندگی اور گرمی سے بچائو کی تاویلات کر کے اس بات سے انکار کرنا چاہتا ہے کہ غار حرا میں وحی کا نزول نہیں ہوا تھا ۔ جب وحی کا نزول ہی نہیں ہوا تو پھر قرآن مجید اللہ تعالی ٰ کی طرف سے بھی نازل نہیں ہوا تھا اور نہ ہی آپ ﷺ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے رسول نہیں تھے اس لیے وحی کے نزول اور قرآن کے نازل ہونے کا انکار کرتا ہے ۔جبکہ مآخذ ’’واٹ‘‘ کے اس نظریہ کی بلا روک ٹوک تردید کرتے ہیں ۔
اثبات وحی میں قرآن کا فرمان
ارشاد خدا وندی ہے ’’ قُل اِنَّماَ اَنَا بَشَرُ مِثلُکُم یُوحیٰ اِلیَّ (الکہف ۔۱۱۰) میں تمہاری طرح بشر ہوں ، مجھ پر وحی کی جاتی ہے ۔ امام غزالی معارج النبوہ میں نبوت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ نبوت انسانیت کے رتبہ سے بالا تر ہے جس طرح انسانیت حیوانیت سے ۔۔۔وہ عطیہ الہٰی اور موہبت ربانی ہے ۔ سعی و محنت اور کسب و تلاش سے نہیں ملتی ارشاد خدا وندی ہے ’’ اَللہ ُ اَعلَمُ حَیثُ یَجعَلُ رِسَا لَتَہ ( الانعام ۔۱۲۴) ترجمہ ـ’’ اللہ بہتر جانتا ہے کہ جہاں وہ اپنی پیغمبری کا منصب بنائے ۔‘‘ ایک مقام پر ہے ۔وَکَذلِکَ اَوحینااِلَیکَ رُوحاََ مِن اَمرِناَ ط ماَ کُنتَ تَدرِی ماَ الکِتاَبُ وَلَا الِایماَنُ وَ لٰکِن جَعَلنٰہُ نُورََ ا نَّھدِی بِہ مَن نَّشَآ ئُ مِن عِباَ دِناَ ط وَاِنَّکَ لَتَھدِیٓ اِلٰی صِرَاطِِ مُّستَقِیمِِ o (سورۃ الشوریٰ۔۵۲)
ترجمہ ’’ اور یونہی ہم نے تمہیں وحی بھیجی ایک جان فزا چیز اپنے حکم سے اس سے پہلے نہ تم کتاب جانتے تھے نہ احکام شرع کی تفسیر ہاں ہم نے اسے نور کیا جس کوہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں سے جسے چاہتے ہیں اور بے شک تم ضرور سیدھی راہ بتاتے ہو ‘‘۔
وحی کی حجیت : قرآن پاک میں بیسیوں آیات مبارکہ وحی کی حجیت میں موجود ہیں چند ایک آیات بیان کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔
وَماَ یَنطِقُ عَنِ الہَویٰ ط اِن ھُوِ اِلاَّ وَحیّ یُّوحیٰ ( سورہ نجم ۔۴۔۳) ترجمہ ’’ اور تو بولتا ہی نہیں خواہش اپنی سے نہیں ہے یہ مگر وحی جو ان کی طرف بھیجی جاتی ہے ۔‘‘ ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے ’’ قُل اِنَّمَآ اَناَ بَشَّرُ مّثلُکُم یُوحیٰ اِلَیَّ اِنَّمَاَ اِلَھُکُم اِلَہُ وَّ احِدُ ج ( الکہف ۔۱۱۰) ’’ترجمہ کہہ دے کہ میں تو تمہاری طرح ایک بشر ہوں مجھ پر وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبو د ایک ہی معبود ہے ۔‘‘
انبیاء کو وحی سے نوازا جاتا رہا آپ سے پہلوں کو بھی یہ شرف حاصل رہا اور جھٹلانے والے کفار کو دو ٹوک رد فرمایا جاتا رہا ، ارشاد خدا وندی ہے ۔وَمَآ اَرسَلنَا قَبلَکَ اِلَّا رِجِا لاََ نُّوحِیٓ اَلَیھِم فَسئَلوُ آ اَھلَ الذِّکرِ اِن کُنتُم لَا تَعلَمُونَ o (الانبیاء ۔۷) (اور ہم نے نہیں بھیجا رسول بنا کر تم سے پہلے لیکن انسانوں ہی کو ہم وحی کرتے تھے ، جاننے والوں سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے ) ۔
ایک اور مقام پر ہے۔
’’ وَمَآاَرسَلنَا مِن قَبلِکَ اِلاَّ رِجَا لاََنُّو حِیٓ اَلَیھِم مِّن اَھلِ القُریٰ o (یوسف ۔۱۰۔۹) ترجمہ’’ اور ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھیجے وہ بشر ہی تھے آبادیوں میں رہنے والے ،ہم ان پر وحی کرتے تھے ‘‘۔
ایک اہم نکتہ: ’’نبی ﷺ وحی کا پیغام وصول کرنے کے دوران میں اسے یاد کرنے اور زبان سے دہرانے کی کوشش فرما رہے ہوں گے اس کوشش کی وجہ سے آپ ﷺ کی توجہ بار بار بٹ جاتی ہو گی ۔ سلسلہ اخذ وحی میں خلل واقع ہو رہا ہو گا ۔ پیغام کی سماعت پر توجہ پوری طرح مرکوز نہ ہو رہی ہو گی اس کیفیت کو دیکھ کر یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ آپ ﷺ کوپیغام وحی وصول کرنے کا درست طریقہ سمجھایا جائے۔‘‘
ایک سطر آگے چل کر مولانا مودی لکھتے ہیں ’’ ابتدائی زمانہ میں جب نبی ﷺ کو اخذوحی کی عادت اچھی طرح نہ پڑی تھی آپ ﷺ سے کئی مرتبہ یہ فعل سر زد ہوا ہے ۔ ( ضیا القران ۔۳۔۱۳۷۔۱۳۸) آپ ﷺ جلد جلد زبان کوحرکت دیتے ’’ وَلا َتَعَجل بِا لقُر اٰنِ مِن قَبلَ اَن یُقضیٓ اِلَیکَ وَحیُہ ، ‘‘ ( ترجمہ : اور عجلت نہ کیجئے قرآن کے پڑھنے میں اس سے پہلے کہ پوری ہو جائے آپ ﷺ کی طرف اس کی وحی )
علامہ ابن کثیر نے حضرت ابن عباس کی حدیث نقل کی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ کو نبوت کے ابتدائی ایام میں نزول وحی کے وقت بڑی شدت کا سامنا کرنا پڑتا جو جبرائیل ؑ کی زبان سے نکلتا اس کی طرف بھی پوری توجہ ازبس ضروری تھی اور جو وہ سناتے اس کا یاد رکھنا بھی از حد اہم تھا نہ توجہ کو ادھر سے ہٹایا جا سکتا تھا نہ وحی کو فراموش کرنے کا خطرہ برداشت کیا جا سکتا تھا چنانچہ جبرائیل ؑ جو کلام الہٰی سناتے حضور ﷺ اسے پورے انہماک اور توجہ سے سنتے بھی اور ساتھ ہی ساتھ اسے زبان سے دہراتے بھی دونوں بوجھو ںکا بیک وقت متحمل ہونا گراں اور شاق ضرور تھا لیکن نبوت کی نازک ذمہ داریوں کے پیش نظر اس کے بغیر چارہ کار بھی نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مشکل کو یہ فرما کر آسان کر دیا کہ اے محبوب ! جبرائیل ؑ جب میرا کلام پڑھ کر تمہیں سنائے تو آپ ﷺاسے سنتے رہیے اور یہ فکر نہ کیجئے کہ بھول جائے گا اسے یاد کرا دینا اور اس کے معنی و مطالب سے آگاہ کرناہم نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے آپ کو اس لیے متردد اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ حصول علم کا عام طریقہ تو یہی ہے کہ استاد جو کہے شاگرد اسے غور سے سنتا بھی جائے اور ساتھ ساتھ اسے ذہن میں محفوظ بھی کرتا جائے لیکن اللہ تعالی ٰ کے عطیات نرالے ہیں وہ بغیر مشقت کوئی نعمت عطا فر ما دے تو یہ اس کا کرم ہے ۔ کرم شاہ بھیروی لکھتے ہیں جب عصر حاضر کے ایک مشہور مصنف کی تفسیر میں یہ پڑھا تو انتہائی دکھ ہوا ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’نبی وحی کا پیغام وصول کرنے کے دوران میں اسے یاد کرنے اور زبان سے دہرانے کی کوشش فرما رہے ہوں گے اس کوشش کی وجہ سے آپ ﷺ کی توجہ بار بار ہٹ جاتی ہو گی ۔۔۔۔ پیغام کی سماعت پر توجہ پوری طرح مبذول نہ ہو گی اس کیفیت کو دیکھ کر یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ آپ ﷺ کو پیغام وحی وصول کرنے کا صحیح طریقہ سمجھایا جائے ۔ میرے جیسا مبتدی بہر حال اس عبارت کا مدعا نہیں سمجھ سکا ۔حصول وحی کے لیے حضور ﷺ کی یہ مشقت آپ ﷺ کا کمال اور احساس ذمہ داری کا ثبوت تھا یا وجہ نقص تھی ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس کا محض احسان اور لطف تھا یا کسی غلطی کی اصلاح اور کوتاہی کی تلافی تھی ؟ کیا نبوت اور اس کے لوازمات وہبی ہیں یا کسبی اور عادت سے حاصل ہوتے ہیں ؟ یہ چیزیں غور طلب ہیں ۔
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
وحی کا نزول (کس دن ، کس تاریخ اور کس مہینہ میں ہوا )
وحی کے نزول کے دن تاریخ اور مہینہ کے بارے میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ ربیع الاول کا مہینہ تھا بعض کہتے ہیں کہ یہ رمضان کا مہینہ تھا اور بعض کے نزدیک رجب کا مہینہ ہے ۔ دوسرا قول زیادہ صحیح ہے یعنی نزول وحی کا مہینہ رمضان ہے کیونکہ ارشاد خدا وندی ہے ’’ شَھرُ رَمَضاَنَ الَّذِی اُنزِلَ فِیہِ القُرٓنُ ‘‘ ترجمہ : ( رمضان کا مہینہ بھی (وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا اور یہ بھی ارشاد ہے ’’اناانزلناہ فی لیلۃ القدر(۹۷۔۱) یعنی ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ‘‘ ۔
رمضان کے مہینہ میں نزول وحی کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ غار حرا میں رسول اللہ ﷺ رمضان کے مہینہ میں قیام فرمایا کرتے تھے اور یہ بھی معلوم ہے کہ جبرائیل ؑ حرا ہی میں تشریف لائے تھے ۔
جب وحی کا نزول ہوا تو اس دن کونسی تاریخ تھی ؟ بعض سات ، بعض سترہ اور کئی اٹھارہ کہتے ہیں اس بات پر سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت د وشنبہ کو ہوئی اس کی تائید ابو قتادہ کی روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دو شنبہ کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا فرمایا : کہ یہ وہ دن ہے جس میں ، میں پیدا ہوا اور جس میں مجھے پیغمبر بنایا گیا یا جس روز مجھ پر وحی نازل کی گئی ۔ ( مسلم شریف )
اس سال دو شنبہ ۷ ،۱۴،۲۱ اور اٹھائیس تاریخوں کو پڑتا ہے اور یہ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہے ۔ اول قرآن کا نزول لیلۃ القدر میں ہوا دوم مذکور ابو قتادہ کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ دو شنبہ کو مبعوث ہوئے سوم تقویمی حساب دیکھتے ہیں کہ دو شنبہ کا دن رمضان کی کونسی تاریخوں میں پڑتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت اکیسویں رمضان کی رات میں ہوئی ، یہی وحی کے نزول کی تاریخ ہے ۔ ( تفصیل کے لیے دیکھئے رحیق المختوم ۔ ۱۱۸) خواب کے ذریعے نبوت کا آغاز چالیس سال کی عمر مکمل ہونے پر ماہ ربیع الاول میں ہوا یہی آپ ﷺ کی ولادت کا مہینہ ہے اور وحی کا نزول حالت بیداری میں غار حرا میں رمضان میں ہوا ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...