Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم |
حسنِ ادب
سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم

ابتدائے وحی
ARI Id

1689956752314_56117768

Access

Open/Free Access

Pages

۱۰۸

ابتداء ِوحی
وحی کی ابتدارویا ئے صادقہ سے ہوئی جو کچھ آپ خواب میں دیکھتے اسی طرح وہی ظہور میں آتا ۔ یہ مقدمات نبوت کا ظہور ہو رہا تھا اس وقت آپ کی عمر چالیس سال کے پیٹے میں تھی ۔ رویائے صادقہ چھ ماہ تک رہے آخر کا ر ایک روز غار حرا میں مراقب تھے کہ جبرائیلؑ فرشتہ آپ ﷺ کے پاس اللہ کا پیغام لے کر آیا اور کہا : اقراء (پڑھو) آپ نے فرمایا مَااَنَا بقاَریِِ ( میں پڑھنے والا نہیں ہوں ) فرشتہ نے آپ ﷺ کو سینہ سے لگا کر بھینچا پھر اقراء کہا : آپ نے فرمایا ’’ ما انا بقاری‘‘ فرشتہ نے دوبارہ بھینچا اور کہا اقراء ، تیسری بار فرشتہ نے کہا : اِقرَابِاِِاسِم ِ رَبَّکَ الذَّی خلق‘‘ آپ نے ان کلمات کو پڑھا( اقراء با اسم ربک الذی خلقo خلق الانسان من علقoاقراء وربک الاکرم o الذی علم با لقلم oمالم تعلم o ) آپ پڑھیے اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا فرمایا ، پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون سے ، پڑھیے آپ کا رب بڑا کریم ہے جس نے علم سکھایا قلم کے ذریعے سے ، اس نے سکھایا انسان کو جو وہ نہیں جانتا تھا ۔‘‘
مستشرقین ایسی چیزوں کی تلاش میں مصروف رہتے ہیں جن کو بنیاد بنا کر اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺاور ان کے اصحاب کو نشانہ تنقید بنا سکیں ۔ بد قسمتی سے انہیں اپنے موقف کے لیے مواد بھی ہمارے اپنوں کی تحریروں سے ہاتھ لگ جاتا ہے پھر انہیں مزید غلط رنگ دے کر اور خوب نمک مرچ لگاکر شکوک و شبہات کے علاوہ فی نفسہ ِ واقعہ کو غلط ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں ۔ اسی طرح وحی کے متعلق عجیب و غریب باتیں کرتے ہیں ۔ کئی وحی کے منکر ہیں ، کئی کہتے ہیں پیغمبر اسلام ﷺ کو خود اپنے اوپر آنے والی وحی پر یقین نہیں تھا ، ذہنی کشمکش طویل آزمائش کے بعد ہوئی، کسی نے کہا کہ پیغمبر ﷺ نے ایک سدھائے ہوئے کبوتر کو فرشتہ کہا جو ان کے پاس وحی لایا کرتا تھا ۔ یہ بات مشہور ہے کہ جب پاکرک صاحب نے کرویٹس سے پوچھا کہ یہ قصہ تم نے لکھا ہے کہ محمد ﷺ نے ایک کبوتر پال رکھا تھا اور اسے تعلیم کیا تھا اور وہ ان کے کان سے میل نکالا کرتا تھا اور مشہور کیا تھا کہ وہ فرشتہ ہے جو ان کے پاس وحی لایا کرتا ہے تو اس عجب قصہ کی کیا سند ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’ اس قصہ کی کوئی سند اور کچھ ثبوت نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ایسے جیسے قصوں کو بالکل چھوڑ دیا جائے جو باتیں اس انسان ( محمد ﷺ) نے اپنی زبان سے نکالیں ، بارہ سو برس سے اٹھارہ کروڑ آدمیوں کے لیے بمنزلہ ہدایت کے قائم ہیں ۔ان اٹھارہ کروڑ آدمیوں کو بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا جس طرح ہم کو پیدا کیا ہے ۔ اس وقت جتنے آدمی محمد ﷺ کے کلام پر اعتقاد رکھتے ہیں ، اس سے بڑھ کر اور کسی کے کلام پر اس زمانہ کے لوگ یقین نہیں رکھتے ۔‘‘ کسی نے کہا کہ یہ ان کی اپنی اختراع ہے کہ اپنے کو رسول منوا سکیں ۔ کسی نے کہا کہ وحی ایک قوت جبرائیلہ کا نام ہے جو ایک مقام پر جا کر آدمی میں پیدا ہوتی ہے اور خارج میں کچھ نہیں نیز آغاز وحی کے متعلق کتب و احادیث میں جو روایات پائی جاتی ہیں ان میں وہ جملے جن سے وہ پیغمبر ﷺ کی ذات کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ، لے لیتے ہیں مثلا ’’لَقَد خَشِیتُ عَلیٰ نَفسِی ‘‘ ( مجھے اپنی جان کا خوف لاحق ہو گیا ہے )
ملکۂ نبوت:کائنات میں علم و تعقل نے پستی سے بلندی کی طرف ترقی کی ہے جمادات بے حس ہیں ۔ ان کے اوپر نباتات ، جن میں صرف احساس ہو تا ہے اور ذہنی و دماغی قویٰ ، حافظہ ، غور و فکر اور تدبر کی قوت سے محروم ہیں۔ ان سے اونچا درجہ حیوانات کا آتا ہے ، جن میں قویٰ ناقص و نا تمام طریقے سے ظاہر و نمودار ہوتے ہیں ۔ آخر میں ان سے بالاترین ہستی انسان ہے ، جس میں تمام قویٰ پورے طور اور پورے کمال سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ ان قویٰ کی ترقی یہیں رک نہیں جاتی بلکہ جس طرح نباتات میں قوت احساس ہے مگر جمادات اس سے محروم ہیں ۔ حیوانات میں حافظہ ، تصور ، تعقل وغیرہ کے وہ قوانین جو نباتات میں نہیں ، انسان میں وہ دماغی و ذہنی قویٰ ہیں جو حیوانات میں نہیں ، اسی طرح انبیاء ؑ میں علم و تعقل کی ایک ایسی قوت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی جاتی ہے جو عام دوسرے انسانوں میں سوائے نبی کے نہیں ہوتی ہے ، اسی کا نام ملکہ نبوت ہے ۔
حوا س صرف حیات کو دریافت کرتے ہیں ۔ دماغی قویٰ مادیات سے بلند ذہنیات اور عقلیات کو ، اور ملکہ نبوت اس سے بھی اونچا مقام و درجہ ہوتا ہے ، وہ ذہنیات و عقلیات سے بلند تر حقائق یعنی غیبیات دریافت کرتا ہے ۔ اس ذریعہ علم میں غور و فکر کی ضرورت نہیں پڑتی ہے بلکہ حقائق اس طرح سامنے آتے ہیں جس طرح وجدانیات ، فطریات ، بدیہات اور محسوسات سامنے آتے ہیں ۔اور ان کی طرح وہ یقینی بھی ہوتے ہیں اور چونکہ اس ذریعہ میں علم انسانی کے عام ذریعے یعنی وجدان ، فطرت نوعی ، بداہت اولیہ ، احساس اور غورو فکر سے معلومات حاصل نہیں کی جاتیں بلکہ خود علام الغیوب وہ علم ان انسانی وسائط کے بغیر عطا کردیتاہے ۔ یہ علم یقینی اور اٹل ہوتا ہے ۔ اسے شرع کی زبان میں وحی و الہام کہتے ہیں ۔۔۔۔ بلکہ اللہ تعالیٰ پیغمبروں کو وقتاََ فوقتاََ احکام اور ارادوں سے براہ راست فرشتوں کے ذریعے مطلع کرتا رہتا ہے یہی وحی ہے ۔
اہم نکتہ : اہل عقل و نقل کا منشاء یہ ہے کہ آیا وحی جو خود پیغمبر کے مافوق اور غیر معمولی وہبی علم و فہم کا نتیجہ ہوتی ہے یا خود براہ راست وقتاََ فوقتاََ تعلیم ربانی کا ، دوسرے لفظوں میں یہ کہوں کہ جس طرح عام انسانوں میں علم و فہم کی قوت آغاز پیدائش ہی میں ودیعت کر دی جاتی ہے ، اسی طرح انبیاء میں منشائے ایزدی سے ان کو کسی غیبی ذریعہ سے وقتاََ فوقتاََ آگاہ کرتا رہتا ہے ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ حقیقت عقل کی نقل سے اور نقل کی عقل سے علیحدگی میں نہیں بلکہ اتحاد میں ہے۔ وہ لوگ جو عقل و نقل دونوں کو مجتمع کرتے ہیں ، انبیاء میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بدا ء فطرت اور آغاز پیدائش سے ان امور کے متعلق جن کا ان کی نبوت و رسالت سے تعلق ہوتا ہے اور جن کو دین کہتے ہیں ، کلی ّ ُ استعدا د اور عمومی فہم ہوتا ہے جس سے غیر انبیاء محروم ہوتے ہیں ۔ اور اس میں پوشیدہ قوت کا عملی ظہور اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ نبوت کے منصب پر عملاََ فائز ہوتے ہیں ، اسی کا نام ملکہ نبوت ہے ۔ اور اہم امور دین کے متعلق ان کو غیب سے اطلاع ملتی رہتی ہے ، اس کا نام وحی ہے ۔ آجکل قرآن فہمی اور عقل کے مدعیان اور نقل کے لفظی پابند یہ سمجھتے ہیں کہ ہر لفظ جو نبی کے منہ سے نکلتا ہے وہ اس معنی میں وحی ہے جس معنی میں قرآن مجید ہے کہ وہ براہ راست خدا کی غیب کی اطلاع ہے اور عقل کے مدعی یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید بے شک خدا کی براہ راست وحی ہے مگر اس کے سوا جو کچھ رسول کہتا ہے وہ اس کے پیغمبرانہ نہیں بلکہ اس کے بشر ی علم و فہم کا نتیجہ ہے ۔ لیکن حقیقت ان دونوں سے ماوراء ہے جیسے وحی قرآنی وحی براہ راست ہے ، اسی طرح نبی کے دوسرے احکام اس کے عام انسانی و بشری علم و فہم کا نہیں بلکہ اس کی پیغمبرانہ وہبی قوت علم و فہم کا نتیجہ ہیں ، جو وحی کی ایک دوسری قسم اس لیے کہی جا سکتی ہے کہ یہ کائنات بحیثیت مجموعی کیا ہے ؟ اس کو نظم و ضبط میں رکھنے اور ایک محکم قانون کے مطابق چلانے والی ہستی کونسی ہے ۔ اس کی خوبیاں کیا ہیں ۔ اس کا انسانوں سے اور انسانوں کا اس ذات سے کیا تعلق ہونا چاہیے ؟ اس دنیا کا آغاز و انجام کیا ہے ۔؟
اعتراض نمبر۱۸۷
آپ (اس صورت حال سے) مایوس ہو گئے اور شیاطین کے زیر اثر ہونے کے خوف سے اپنے آپ کو ختم کرنے کی کوشش کی ۔ (ضیا النبی ۔۷۔۳۰۰) He grew down cast and fearing possession of devils ,had thoughts of destroying himself
جواب: حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث میں لَقد خَشِیتُ عَلیٰ نَفسِی ‘‘ یعنی مجھے اپنی جان کو خوف لاحق ہو گیا ہے ۔یہ جو جملہ روایت ہوا ہے اس سے کسی صورت میں یہ نتیجہ نکالنا ممکن نہیں کہ حضور ﷺ کو اپنے مجنون ہونے ، جنوں کے زیر اثر ہونے یا کاہن ہونے کا خوف لاحق ہو گیا تھا ۔ اس جملے کی اس قسم کی تمام تعبیریں بعید از قیاس ہیں ۔ علامہ غلام رسول رضوی ( تفہیم البخاری ۔۱۔۳۹) لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ ’’کسی خوف کا باعث نہ تھا بلکہ اس لیے تھا کہ آپ ﷺ پر اللہ تعالیٰ نے قول ثقیل نازل فرمایا ہے جسے آپ کفار و مشرکین و منکرین کے پاس لے جائیں گے وہ آپ کی تکذیب کریں گے ۔ ان کی تکذیب کے خوف سے آپ ﷺ پر گھبراہٹ طاری تھی نیز اچانک عادت کے خلاف کسی امر کے ا ٓ جانے سے بشری طبع گھبراتی ہے اور اس حالت میں کچھ سو چا نہیں جاتا کیونکہ نبوت طبائع بشریہ کو زائل نہیں کرتی ‘‘۔وحی کو خود قرآن نے قول ثقیل کہا ہے اور تصریح کر دی کہ اگر وحی آسمانوں ، زمینوں اور پہاڑوں پر نازل کی جاتی تو جلال الہٰی سے وہ پاش پاش ہو جاتے۔ ارشاد ربانی ہے ۔ ’’ اِنَّا عَرضناَ اَلاَماَ نَۃَ عَلَی السَّمَوَاتِ وَالاَ رضِ وَالجِباَل ‘‘ (سورۃ الاحزاب۔۷۲)( ہم نے آسمانوں ، زمینوں اور پہاڑوں پر امانت پیش کی ) مگر یہ تو ذات نبوی تھی جس نے بتوفیق الہٰی پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرنے والی چیز کی شدت کو برداشت کر لیا ۔ وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ نبی ﷺ کو نبوت کے ابتدائی مرحلہ میں فرائض نبوت کو سنبھالنے کا عارضی فکر ہو جانا شان نبوت کے خلاف نہیں ۔
مستشرقین اپنے موقف کی تائید میں قرآن کریم سے دلیل پکڑتے ہیں کہ سید نا موسی ٰ ؑ کو جب نبوت ملی تو حکم ہوا کہ تم دونوں فرعون کے پاس جائو ( اِنَّہ ُ طَغیٰ ) بے شک اس نے سر اٹھایا ہے تو دونوں عرض کرتے ہیں ۔’’ قاَ لاَ رَبَّنآَ اِنَّناَ تَخَافُ اَن یَّفرُ ط عَلَیناَ اَو اَن یَطغیٰ ( طہ ۔۴۵) ترجمہ : (دونوں نے عرض کیا کہ اے ہمارے رب بے شک ہم ڈرتے ہیں کہ وہ ہم پر زیادتی کرے یا شرارت سے پیش آئے ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’قاَ لَ لاَ تَخَا فَآ اِنَّنِی جَعَلَمُآ اِسمَعُ وَاَرٰی (طہ ۔۴۶) (فرمایا ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں سنتا اور دیکھتا ) دیکھیے سید نا موسی ٰ کو بھی خوف ہو رہا ہے اس خوف کی علامت بھی یہ نہ تھی کہ جناب کلیم ؑ کو اپنی نبوت میں شک تھا بلکہ یہ خوف ادائیگی فرائض نبوت سے تھا کہ مجھے فرعون جیسی طاقت کے مقابلہ کے لیے بھیجا جا رہا ہے تو میں کیسے فرائض نبوت سے عہدہ برآء ہوں گا ۔ اسی فکر نے موسی ٰ ؑکو خوف زدہ کیا اور عرض کی کہ الہٰی میں ڈرتا ہوں کہ ہم پر فرعون زیادتی نہ کرے ، اس سے بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کا نبوت کے بالکل ابتدائی مرحلہ میں فرض نبوت کی ادائیگی اور کار رسالت کی ذمہ داریوں کے متعلق وقتی طور پر ذرا سی دیر کے لیے باقتضا ئے بشریت خوف و اضطراب میں مبتلا ہو جانا شان نبوت کے منافی نہیں ہے ۔ اسی طرح لقد خشیت علی نفسی کا یہ مطلب لینا بھی باطل ہو گا کہ آپ ﷺ پر فرشتہ کو دیکھ کر رعب اور خوف طاری ہو گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے جان کا خطرہ ہے ۔ (۲) جبرائیلؑ فرشتہ کی صورت میں آتے تو شائد خوف ممکن تھا ( حالانکہ ایسا بھی ممکن نہیں ) لیکن جب فرشتہ انسانی صورت میں آیا تھا ۔ اور ملکی صورت میں آنے کا حدیث میں ذکر نہیں ہے جب کہ بشری صورت میں آنے کے واضح اشارات موجود ہیں ۔(۳) یہ خوف فرشتہ کو دیکھتے ہی طاری ہونا چاہیے تھا مگر آپ ﷺ نے جوابات تسلی سے دیئے اور ہر بار فرشتہ کے اقراء کہنے پر ما َ اَنا بِقَارِیِِ فرماتے تھے اگر ڈر ہوتا تو کچھ بھی نہ کہتے یا گھبرا کر گھر کی راہ لیتے یا کسی کو مدد کے لیے بلاتے یا جیسے فرشتہ کہتا وہی کہتے جاتے ( لیکن یہ تو تین بار کے بعد ایسا ہوا ) فرشتہ کا خوف ہوتا تو حضرت خدیجہ ؓ پوچھتیں کہ وہ فرشتہ کیسا تھا ؟ وہ کیسے آیا تھا؟ کیوں آیا اور کیا ڈراتا دھمکاتا تھابلکہ حضرت خدیجہ ؓ کہتی ہیں کہ جس ذات نے آپ کو یہ بار گراں سونپا ہے وہی آپ کا معاون اور مدد گار ہو گا ۔ علامہ نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ قاضی عیاض نے فرمایا ’’ یہاں خوف طاری ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو جو عطا فرمایا تھا ، آپ ﷺ کو اس میں ریب تھا بلکہ اتنے عظیم امر نبوت کو اٹھانے کی طاقت مجھے کیسے حاصل ہو گی ، اس کا خوف دامن گیر تھا۔ یہ وحی کا بوجھ جو میرے اوپر ایک چادر کی طرح تان دیا گیا ہے میں اس کو اٹھانے کی قدرت کیسے رکھو ں گا ؟ اس سبب سے آپ نے فرمایا ’’ میری تو جان جا رہی ہے۔‘‘
آپ ﷺکے قلب اطہر پر تئیس سال تک قرآن کریم کا نزول ہوتا رہا اور جب بھی وحی آتی تو آپ ﷺ اس کے ثقل کو محسوس فرماتے اس لیے جب پہلی بار وحی کے تجربہ سے گزرے ہونگے تو اس وقت بھی آپ ﷺ کی طبیعت پر اس کا زبردست اثر ہوا ہو گا جب کہ یہ بات غلط ہے کہ شیطانوں کے اثر سے خوف ہوا تھا۔ آپ ﷺ وحی کے ثقل سے بخوبی واقف تھے اور شیطانی اور وحی کے فرق سے بدرجہ اولیٰ باخبر تھے ۔ ابو بشر الدولابی اپنی سند سے حضرت عبداللہ ؓبن ابی بکر بن محمد بن عمر و بن حزم سے روایت کرتے ہیں اور یہ حدیث طویل ہے جس کا ایک جملہ یہ ہے ’’ وَبَشَّرَہ بِرِساَلَۃِ رَبَّہِ حَتیَّ اِطمَاَنَّ ‘‘ جبرائیل امین نے حضور ﷺ کو رسالت کی بشارت دی حتیٰ کہ آپ مطمئن ہو گئے ۔ یہ حدیث نزول وحی کے آغاز کے وقت کسی خوف و اضطراب کا ذکر نہیں کر رہی بلکہ آپ ﷺ کے اطمینان کا ذکر ہے ۔
اعتراض نمبر ۱۸۸
حضرت محمد ﷺ کو خدا کی طرف سے اپنے اوپر وحی نازل ہونے کا یقین ذہنی کشمکش کی طویل آزمائش کے بعد حاصل ہوا ۔( سرولیم میور) (ضیا النبی۔ ۷۔۲۹۹)
۲۔ یہی مصنف یہ بھی لکھتا ہے کہ ’’آپ اپنے الہامی اور الہیا تی مشن کے بارے میںخود مشکوک و متذبذب تھے ۔‘‘
جواب: منٹگمری واٹ کہتا ہے ۔
To carry on in the face of persecution and hostility would have been impossible for him unless He was fully persuaded that God had sent Him .and the receiving of revelation was included in his divine mission.
’’ اگر محمد ﷺ کو یقین نہ ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور آپ پر وحی نازل ہوتی ہے تو اذیتوں اور مخالفتوں کے طوفان میں آپ ﷺ کے لیے اپنے مشن کو جاری رکھنا ممکن نہ رہتا ۔‘‘
حقائق و معارف کا سلسلہ ایک نبی کے قلب اطہر پر منکشف ہوتا ہے ۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ آپ ﷺ اپنے بچپن سے جن محیر العقول تجربات سے گزر رہے تھے مثلا بی بی حلیمہ سعدیہ دوبارہ آنحضرت ﷺ کو مکہ سے اپنے گھر لاتی ہیں ۔ آپ کا پہلے سے زیادہ خیال رکھنے لگتی ہے ، حتی کہ ایک دن آپ کو گھر میں نہ پا کر باہر نکل آئیں ۔ آپ کودیکھا کہ اپنی بہن شیما کے پاس بیٹھے ہیں ۔ شیماکو ڈانٹا اور کہا ’’ اس گرمی میں تو اسے باہر نکال لائی ہے ‘‘۔ شیما نے کہا امی میرے بھائی کو تو ذرہ سی گرمی بھی نہیں لگتی کیونکہ اس پر ایک بادل کا ٹکڑا سایہ کناں رہتا ہے ۔ یہ چلتا ہے تو سایہ بھی چلتا ہے یہ رکتا ہے تو سایہ بھی رک جاتا ہے ۔‘‘ دوسروں کو بادل سایہ کرتا نظر آتا ہے آپ کو گرمی بھی نہیں لگتی ، کا علم بھی ہے۔ تو کیا اس ہستی کو معلوم نہ ہو گا کہ مجھ پر بادل سایہ کیے ہوئے ہے ۔ اتنی شدت کی گرمی میں گرمی محسوس نہیں ہوتی کا علم بھی آپ کو لازماََ ہو گا تو ایسی صورت میں آپ ﷺ سوچتے نہ ہوں گے کہ بادل دوسروں پر سایہ نہیں کرتا اور دوسروں کے لیے گرمی سے بچنے کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے۔ میرے لیے ہے ، تو یہ خاص انعام خدا وندی ہے ۔ اسی طرح بارہ سال کی عمر میں شام کے تجارتی سفر میں قافلہ نے بُصریٰ کے مقام پر پڑاؤ کیا وہاں ایک راہب جرجیس رہتا تھا اس نے دیکھا کہ جس درخت کے نیچے آپ ﷺ بیٹھے ہیں ، اس کی شاخیں آپ پر جھک جاتی ہیں اور بادل کا ٹکڑا سایہ کیے ہوئے ہے ۔ وہ کبھی قافلہ والوں کے پاس نہیں آتا تھا نہ ان کی ضیافت کرتا تھا مگر اس قافلہ میں آتا ہے اور ان کی ضیافت کا انتظام بھی کرتا ہے ، ایسا کرنے پر قافلہ والے بھی عجیب محسوس کر رہے تھے ، حتی کہ ایک شخص نے راہب سے پوچھا : آپ کو کیسے پتہ چلا کہ آپ ﷺ نبی ہیں ؟ وہ بولا ! جب تم لوگ آپ ﷺ کے ہمراہ گھاٹی کے قریب سے گزرے تو ہر درخت اور ہر پتھر نے آپ ﷺ کو سجدہ کیا ، درخت پتھر سوائے نبی کے کسی کو سجدہ نہیں کرتے ۔ دلائل النبوہ میں علامہ بیہقی نے بعض اہل علم سے یہ روایت کی ہے کہ جس وقت اللہ پاک نے رسول کریمﷺ کی کرامت کا ارادہ کیا اور نبوت کے ساتھ ابتداء کی ، آپ جس درخت اور جس پتھر کے پاس سے گزرتے تھے ، وہ پتھر اور درخت آپ کو سلام کرتا تھا ۔ درختوں اور پتھروں سے آواز سن کر آپ ﷺ اپنے پیچھے ، دائیں بائیں دیکھتے لیکن کوئی شے نہیں دیکھتے تھے ، سوائے درختوں اور پتھروں کے جو ہر طرف سے نبوت کے سلام کے ساتھ آپ کو اسلام علیک یا رسول اللہ کہہ کر سلام کرتے تھے ۔ ( مواہب لدنیہ ۔۱۔۱۳۹)
بحیرہ راہب منظر دیکھ کر آپﷺ کے نبی ہونے کا عندیہ دیتا ہے ۔ آپ بارہ سال کی عمر میں ایسے محیر العقول تجربات سے گزر رہے ہیں ۔ پادریوں کی زبانی اپنی نبوت کا اقرار بھی سن رہے ہیں ، پھر بھی ولیم میور شک کرے تو عجب ہے ۔ غار حرا میں آپ ﷺ کو خواب کی حالت میں ان امور کا مشاہدہ کرادیا تھا جو آیات قرآنی کے نزول کے وقت حالات پیش آئے تھے ، جس طرح آ پ خواب دیکھتے اس کی تعبیر بھی ہوبہو اسی شکل میں نظر آتی ۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں ’’ آپ کے ہر خواب کی تعبیر صبح درخشاں کی طرح نمودار ہو جاتی ‘‘ ( سید الوریٰ ۔۱۔۱۵۹)
جب حضور ﷺ پر سچے خوابوں کے ذریعے نزول وحی کا سلسلہ شروع ہوا (آپ اسی وقت سے نبی تھے )۔ آپ ﷺ کو اپنی نبوت کا یقین بھی تھا اور یہ بھی جانتے تھے کہ آپ ﷺ پر اللہ کی طرف سے اللہ کا مقرب فرشتہ وحی لے کر آتا ہے ۔ امام شعبی نے غار حرا میں حضور ﷺ کے پاس جبرائیل ؑامین کے تشریف لانے اور قرآن مجید کی ابتدائی آیات نازل ہونے سے تین سال پہلے رویائے صادقہ کے ذریعہ حضور ﷺ کے لیے نبوت کو ثابت کیا ہے اور امام بیہقی نے یہ مدت چھ مہینے بتائی ہے ۔ ( ضیا النبی ۔۷۔۳۱۶) گویا وحی کے نزول کا یقین ذہنی کشمکش کی طویل آزمائش کے بعد حاصل ہونا مستشرقین کا باطل خیال ہے کیونکہ آپ ﷺ کا وحی سے قبل رویائے صادقہ کے ذریعے نبوت کا ثبوت موجود ہے اس طرح آپ ﷺ کو وحی کے نزول میں نہ کسی ذہنی کشمکش اور طویل آزمائش کا سامنا تھا بلکہ رویائے صادقہ کے ذریعے وحی کے نزول پر یقین کامل ہو گیا تھا ۔ مسٹر کونسٹن ورژیل لکھتا ہے کہ ’’ پیغمبر اسلامﷺ اگر ایک ضعیف العزم انسان ہوتے تو ان مصائب ( شعب ابی طالب جیسے مصائب ) سے گھبرا کر اپنے مشن سے چشم پوشی کر لیتے یا کم از کم عارضی طور پر دکھاوے کے لیے ہی سہی اپنے دین کی تبلیغ ملتوی کر دیتے تا کہ جب قریش کا غصہ فروکش ہو جاتا ، ان کے غضب کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی تو پھر مناسب موقع ملنے پر اپنے دین کی نئے سرے سے تبلیغ شروع کر دیتے لیکن چونکہ وہ مضبوط ارادے اور آہنی عزم کے مالک تھے اور انہیں پختہ یقین تھا کہ وہ اللہ کے رسولﷺ ہیں لہٰذا انہوں نے اپنے دین کو نہ چھوڑا ، اور اپنی رسالت کی حسی ، عارضی یا ظاہری طور پر نفی نہ کی ۔۔۔ انہوں نے ایسا نہ کیا اور عرصہ تین سال تک پہاڑ کے شگاف میں گرسنگی اورتشنگی سے نبھاتے رہے حتی کہ چمڑا اور کھالیں ابال ابال کر گزر اوقات کر لی لیکن اپنی رسالت کا انکار نہ کیا ۔ (رسالہ حکمت بالغہ ۔۴۰)
ایک شبہ کا زالہ : جب آپﷺ پر خوابوں کا سلسلہ شروع ہوا ، آپ اس وقت سے نبی تھے ۔ یہ ظاہری حالات کی بناء پر ہے ،ورنہ آپ ﷺکو نبوت اس وقت سے ملی ہوئی تھی جب آدم روح و جسم کے درمیان تھے اس کی تصدیق حدیث پاک سے ہوتی ہے ۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ آپ کو نبوت کب ملی ؟ فرمایا ’ جب آدم روح و جسم کے درمیان تھے ‘‘ ( ترمذی شریف )
اس حدیث کو بعض لوگ یوں بیان کرتے ہیں ’’ کُنتَ نَبیاَّ وَّاٰدَمُ بَینَ الما ء وَالَّطِینَ ‘‘ لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت حدیث کی کسی کتاب میں موجود نہیں ہے ۔ ( سیدالورٰی۔۱۵۹)
مذکورہ اعتراض کے دوسرے جز ’’ اپنے الہامی اور الہٰیا تی مشن کے بارے خود مشکوک و متذبذب تھے ‘‘ کا جائزہ لیتے ہیں۔
یہی مستشرق یوں بھی کہتا ہے کہ ابتداء میں انہیں ( محمد ﷺ) یقین نہ تھا کہ وہ خدا کی طرف سے فرستادہ ہیں ، البتہ ایک طویل عرصہ تک شک و تذبذب میں رہنے کے بعد بالآخر آمادہ بہ تبلیغ ہوئے ۔
جواب: مستشرق آپ کی حیات مقدس کے محیر العقول کا رناموں کو دیکھتے ہیں تو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگرآپ ﷺ کو اپنے مشن کی صداقت پر کامل ایمان نہ ہوتا تو آپ ﷺ سے محیر العقول کارنامے سر انجام نہ پاتے ، جو آپ نے انجام دئیے ۔ یہی مستشرق لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ ابتداء میں آپ ﷺ کو اپنے مشن پر یقین نہ تھا اس تعصب ونفرت کے باوجودسر ولیم میور اعتراف کرتا ہے اور خدا پر حضور ﷺ کے یقین کے متعلق لکھتا ہے۔ indeed nothing is so remarkable as the faith reposed by Muhammed in the deity as an ever present and all controlling ageency . ( سب سے زیادہ نمایاں اور حیرت انگیز چیز وہ ایما ن ہے جو آپ ﷺ کو خدا پر تھا جو ہر جگہ حاضر ناظر اور ساری کائنات کا چلانے والا ہے )
منٹگمری واٹ ولیم کے الزام کی تردید کرتا ہے ’’ محمد ﷺ کی زندگی میں افسردگی کے لمحات بھی آئے ، آپ کو جن بظاہر ناقابل تسخیر مشکلات سے واسطہ تھا ان کے پیش نظر افسردگی کے ان لمحات کا آنا کوئی حیرت کی بات بھی نہ تھی لیکن اس کے با وجود آپ کے اس ایمان میں کبھی کمی نہیں آئی کہ خدا نے آپ کو اپنا رسول بنا یا ہے اور اپنے دور میں ایک اہم کام کی انجام دہی کا فریضہ آپ ﷺ کو سونپا ہے ۔ یہی وہ یقین تھا جس نے مخالفت ،تضیحک ، افتراپرداز ی اور اذیتوں کے دوران آپ ﷺ کو ثابت قدم رکھا اور جب کامیابی نے آپ ﷺ کے قدم چومے تو آپ ﷺ کے یقین میں کمی نہ آئی بلکہ یہ یقین اور گہرا ہو گیا اور آپ ﷺ یہ سمجھے کہ جس خدا نے آپ ﷺ کو بھیجا ہے وہ خدا تاریخی واقعات میں بھی آپ ﷺ کی دستگیری کر رہا ہے ۔(ضیا النبی ۔۷۔۳۲۲)
لین پول : کہتا ہے : وہ خدا ئے واحد کا پیغمبر تھا اور اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اس نے اس امر کو فراموش نہیں کیا اور نہ اس نے اس پیغام کو فراموش کیا جو اس کا مدار زندگی تھا ، اس نے اپنی قوم کو جو بشارت دی ، وہ ایک عظیم الشان وقار کے ساتھ دی جس کا سر چشمہ وہ احساس تھا جو اسے اپنے اونچے منصب کے بارے میں تھا اور ساتھ ہی ساتھ جس کی بنیاد اس کا ایک انسان ضعیف البنیان ہونے کا شعور تھا ( روح اسلام ۔۲۱۹) واٹ کہتا ہے کہ ( آنحضرت ﷺ) کے اپنے آپ پر اور اپنے نصب العین پر غیر متزلزل یقین و اعتماد نے آپ ﷺ کو ہمیشہ حق پر گامزن رکھا ۔ ( محمد رسول اللہ۔پروفیسر محمد اکرم طاہر۔۳۵۶)
اعتراض نمبر ۱۸۹
منٹگمری واٹ لکھتا ہے کہ ’’ بتایا گیا ہے کہ محمد ﷺ کو ابتدائے وحی نازل ہونے کے بعد خدیجہ ؓ نے یقین دلایا کہ آپﷺ واقعی اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اور خدیجہ ؓ سے بھی زیادہ یقین دہانی آپ ﷺ کو ورقہ بن نوفل نے کرائی ، ایک عیسائی کی اس یقین دہانی نے کہ آپﷺ پر جو وحی نازل ہوتی ہے وہ حضرت موسی ٰ ؑپر نازل ہونے والی وحی کے مشابہ ہے اپنے منصب نبوت پر آپ کے یقین کو پختہ کیا گیا ہو گا ‘‘ (ضیا النبی ۔۷۔۳۰۱)
ایک اور مقام پر یہی مستشرق لکھتا ہے کہ ’’ حضرت خدیجہ ؓ کے ساتھ شادی نے محمد ﷺ کے روحانی ارتقاء میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔ خدیجہ ؓ کا چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل جو عیسائی ہو گیا تھا ، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے محمد ﷺ کے اس یقین میں ان کی مدد کی تھی کہ ان پر کسی قسم کی وحی نازل ہو تی ہے جس قسم کی وحی کی تعلیمات یہود و نصاریٰ کے پاس ہیں ، وہ بھی خدیجہ ؓ ہی تھیں کہ محمد ﷺ کو عالم افسردگی میں جب اپنے منصب نبوت کے متعلق شکوک و شبہات کا شکار ہوتے تو انہی کی طرف رجوع کرتے تھے ‘‘ ( ضیا النبی ۔۷۔۳۰۰)
جواب: یہ حقیقت ہے کہ حضور ﷺ نزول قرآن کے آغاز سے کافی عرصہ سے غار حرا میں تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ سچے خواب جو وحی کا حصہ ہیں آ پ کو غار حرا میں جانے سے پہلے آنا شروع ہوئے تھے ۔امام شعبی نے وحی کے نزول اور قرآنی آیات کے نازل ہونے سے تین سال پہلے رویائے صادقہ کے ذریعے حضو ر ﷺ کے لیے نبوت کو ثابت کیا ہے ۔ آپ ﷺ اس دور سے نبی تھے ۔ آپ ﷺ کا نبوت پر کامل یقین تھا اور یہ بھی یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ وحی لے کر آتا ہے ۔ قرآن حکیم کی آیات ابتدائیہ کا نزول آپ کے قلب اطہر پر ہوا تھا ، اس وقت آپ یقین کے اس بلند مقام پر فائز تھے جسے حدیث نے اطمینان کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ۔ ان حقائق کی روشنی میں پھر بھی کہا جائے کہ حضور نزول وحی کی وجہ سے بے یقینی اور شک میں مبتلا تھے ، تو یہ نہ صرف عصمت نبوت پر حملہ ہے بلکہ قدرت خدا وندی کا بھی انکار ہے کیونکہ اگر یہ کہا جائے کہ تربیت خدا وندی کے اتنے زبردست اہتمام کے با وجود حضور ﷺ کو اپنی نبوت کا یقین نہیں آ رہا تھا اور کبھی آپ ﷺ کو یہ یقین حضرت خدیجہ ؓ کی باتوں سے آتا تھا اور کبھی ورقہ بن نوفل کی باتوں سے اور کبھی جبرائیل امین کے آپ ﷺ کو یاد دہانی کرانے سے کہ آپ ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں ، تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ خدا کی تدابیر کارگر ثابت نہ ہوئیں ( نعوذ باللہ ) ( ضیا النبی ۔۷۔۳۱۷)
کتنی حیران کن بات ہے کہ نبی مکرم ﷺ بچپن سے بڑے بڑے حیران کن حالات و واقعات اور تجربات سے مر حلہ وار گزر رہے تھے ۔ کہیں بادل سایہ کرتا ہے ۔ کہیں راہب آپ ﷺ کو نبی کہتا ہے ۔ کہیں شق صدر کا محیر العقول واقعہ پیش آتا ہے اس قسم کی یہ ساری چیزیں آپ ﷺ کو اپنی نبوت کا یقین فراہم نہ کر سکیں اور وہ یقین کبھی آپ کو خدیجہ ؓ اور کبھی ایک عالم عیسائی ورقہ بن نوفل سے حاصل ہوتا ہے ، کس قدر نادانی ہے ؟ تعجب اس بات پر بھی ہے کہ یہی مستشرق کہتا ہے کہ آپ ﷺ کو اپنے مشن پر یقین نہ تھا ، کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور آپ پر وحی آتی ہے اور وہ خدیجہ اور ورقہ بن نوفل کی یقین دہانی کے مرہون منت ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ پھر اپنے اس بیان کی خود تردید کرتا ہے ۔ ’’ اگر محمد ﷺ کو یقین نہ ہوتا کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتی ہے تو اذیتوں اور مخالفتوں کے طوفان میں آپ ﷺ کے لیے اپنے مشن کو جاری رکھنا ممکن نہ رہتا ‘‘۔ اس پر یہ کہنا کہ ’’ دروغ گورا حافظہ نباشد ‘‘ صادق آتا ہے ۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے ’’ حضور ﷺ پر نزول وحی کی ابتداء حالت خواب میں سچے خوابوں سے ہوئی ۔ آپ ﷺ جو کچھ خواب میں دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح بالکل واضح طور پر آپ ﷺ کے سامنے آ جاتا پھر آپ ﷺ کے دل میں تنہائی کی محبت پیدا ہو گئی ۔ آ پﷺ غار حرا کی خلوتوں میں تشریف لے جاتے اور وہاں عبادت کرتے ‘‘۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ سچے خوابوں سے آپ ﷺ کے دل میں تنہائی کی محبت جاگ اٹھی جس کے سبب آپ ﷺ غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے ۔ سچے خواب جو وحی کا حصہ تھے اسی دوران آنا شروع ہوئے جبکہ ابھی آپ ﷺ نے غار حرا میں جانا شروع نہیں کیا تھا امام شعبی نے رویائے سابقہ کی مدت تین سال جبکہ اما م بیہقی نے یہ مدت چھ ماہ بتائی ہے ۔
جب حضور ﷺ پر سچے خوابوں کے ذریعے نزول وحی کا سلسلہ شروع ہوا تھا اس وقت بھی اپنی نبوت کا یقین تھا اور آپ ﷺ کو یہ بھی علم تھا کہ فرشتہ خداکی طرف سے وحی لے کر آتا ہے ۔ آپ ﷺ معصوم تھے اور کوئی ایسا فعل ، قول یا خیال جو عصمت نبوت سے متصادم تھا اس کا آپ ﷺ کی ذات سے صدور ممکن نہ تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس قسم کی چیزوں سے اپنے نبیوں اور رسولوں کی خود حفاظت فرماتا ہے ۔
امام بخاری ؒ نے حضرت عائشہ ؓ سے مروی اس حدیث کو کتا ب التفسیر میں سورۃ علق کی تفسیر میں بھی درج کیا ہے لیکن اس روایت میں آپ ﷺ کو پہاڑوں سے گرانے کے ارادہ کا ذکر نہیں ہے بلکہ آخر پر ہے کہ ’’ اور وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا حتی ٰ کہ حضور ﷺ غمگین ہو گئے۔اس مقام پر ان الفاظ کے بعد امام بخاری ؒ نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کی وہ حدیث درج کی ہے جس میں حضرت جبرائیل امین ؑ کے دوبارہ نظر آنے اور سور ہ مدثر ہونے کا ذکر ہے ۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث جو بی بی عائشہ ؓ سے مروی ہے ’’ باب کیف کان بدئََ الوحی الی رسول اللہ ‘‘ ۔ میں بھی درج کیا ہے ۔ اس مقام پر حدیث اور وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا کے الفاظ پر ختم ہوتی ہے ۔ اس کے بعد امام بخاری ؒ نے حضرت جابر ؓ کی مذکورہ حدیث درج کی ہے اس میں نہ تو حضور ﷺ کے غمگین ہونے کا ذکر ہے اور نہ ہی پہاڑوں سے اپنے آپ کو گرانے کا ذکر ہے ۔فترت وحی کے ذکر کے معاََ بعد اس حدیث کو درج کیا گیا ہے جس میں وحی کا سلسلہ از سر نو شروع ہونے کا ذکر ہے ۔
امام مسلم نے بھی اپنی صحیح کی کتاب الایمان میں حضرت عائشہ ؓ کی اس حدیث کو درج کیا ہے لیکن اس حدیث میں فترت وحی کا ذکر نہیں ہے امام مسلم نے بھی اس حدیث کے بعد حضرت جابر بن عبداللہ کی حدیث درج کی ہے جس میں وحی کا سلسلہ منقطع ہونے اور دوبارہ شروع ہونے کا ذکر ہے ۔
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث چار مقامات پر درج ہے اور ان میں سے صرف ایک مقام پر وہ فقرہ ہے جس نے حضور ﷺ کے پہاڑوں سے چھلانگ لگانے کے ارادے کا ذکر ہے ۔
امام زہری نے فیما بلغنا کے الفاظ کا اضافہ کیا یعنی اس سلسلے میں جو اطلاعات پہنچی ہیں ، ان میں یہ جملہ بھی ہے لیکن امام زہری نے یہ نہیں بتایا کہ یہ جملہ یا جملے کس حوالے سے پہنچے ہیں ۔ اس حدیث کو کئی روایوں نے روایت کیا ہے لیکن یہ جملے صرف معمر کی روایت جو اس نے زہری سے روایت کی ہے موجود ہے ۔
باب کیف کان بدء الوحی میں یہ حدیث امام زہری سے عقیل نے روایت کی ہے اس میں نہ تو غمگین ہونے کا ذکر ہے اور نہ ہی پہاڑوں سے گرانے کے ارادے کا ۔ امام زہری سے یونس بن یزید نے بھی روایت کی ہے مگر مذکورہ جملہ اس روایت میں بھی موجود نہیں ۔
معمر کی روایت کے بارے علامہ ابن حجر نے کہا ’’ میرے نزدیک یہ زیادتی معمر کی روایت کے ساتھ خاص ہے ۔۔۔۔ ان حقائق کے بعد بھی اگر یہ کہا جائے حضور ﷺ نزول وحی کی وجہ سے بے یقینی اور شک کا شکار ہوئے تھے تو یہ نہ صرف عصمت نبوت پر حملہ ہے بلکہ قدرت خدا وندی کا بھی انکار ہے ۔ قدرت خدا وندی اس قدر تربیت کا انتظام فرما رہی ہے اس کے باوجود اپنی نبوت کا یقین نہیں آ رہا تھا جو کبھی خدیجہ ؓ کی باتوں سے یقین آجاتا اور کبھی ورقہ بن نوفل کی باتوں سے اور کبھی جبرائیل امین ؑ کے آپ ﷺ کو یاد دہانی کرانے سے کہ آپ ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں تو نتیجہ یہی برآمد ہو گا کہ ( نعوذ باللہ ) خدا کی تدابیر کار گر ثابت نہ ہوئیں ۔
اعتراض نمبر۱۹۰
واٹ کہتا ہے کہ اس بیان میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں کہ محمد ﷺ خوف اور شکوک میں مبتلا ہوئے اس بات کا ثبوت قرآن میں بھی موجود ہے اور سیرت کی کتابوں میں بھی ، اگرچہ یقین کے ساتھ یہ کہنا ممکن نہیں کہ قرآن کے ذریعے آپ کو یہ یقین دہانی کس موقع پر کرائی گئی ، کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چھوڑا نہیں ہے ۔ ( ضیا النبی ۔۷۔۳۰۱)
جواب: سورۃ والضحٰی‘‘ کے شان نزول میں ایک روایت یہ ہے کہ’’ ابتدائے بعثت میں کچھ عرصہ وحی کا سلسلہ جاری رہا اور پھر یکدم رک گیا ۔ یہ انقطاع بارہ ، پندرہ یا پچیس یا چالیس دن تک باختلاف روایات برقرار رہا ۔ حضور ﷺکی طبع مبارک پر یہ بہت گراں گزرا ، وہ کان جو کلام الہٰی سننے کے عادی ہو چکے تھے ۔ وہ دل جو ارشادات ربانی کا خوگر ہو چکا تھا ، اس کے لیے یہ بندش اور بے قراری نا قابل برداشت تھی نیز کفار نے بھی طعنہ زنی شروع کردی کہ محمد ﷺ کو خدا نے چھوڑ دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ناراض ہو گیا ہے ۔ اس لیے وحی کا نزول رک گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے ان خرافات کی تردید قسم اٹھا کر بیان کر دی اور اپنے حبیبﷺ کو تسلی دی کہ آپ پریشان نہ ہوں کیوں کہ جس طرح دن کی روشنی کے بعد تاریکی میںگوناگو ںحکمتیں ہیں ، اسی طرح نزول وحی اور پھر اس کے بعد انقطاع میں بڑی بڑی حکمتیں مضمر ہیں اللہ تعالیٰ نے سورۃ والضحی ٰ نازل فرمائی ۔ ’’ وَالضُّحیٰ o وَالَّیلِ اِذَاسَجٰی o مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قُلیٰ o وَلِلاٰ خِرَۃُ خَیرُ لَّکَ مِنَ الاُ ولیٰ ۔۔۔۔۔ وَاَماَّ بِنِعمَۃِ رَبّکَ فَحَدّث مَا وَدَّعَک رَبُّکَ وَماَ قُلیٰ ’’نہ آپ کو آپ کے رب نے چھوڑا اور نہ ہی وہ ناراض ہوا ‘‘ واٹ کا الزام کا رد ہوا اور اس کا یہ کہنا کہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ قرآن کے ذریعے یہ یقین دہانی کس موقع پر کرائی گئی اس پر قرآن نے وضاحت فرما دی ۔ اب اسے معلوم نہ ہو سکے یا جان بوجھ کر چھپاتا پھرے تو اس لا علمی اور بد دیانتی کا علاج ممکن نہیں ۔ یہ اس وقت کے کفار کے لیے ہی نہیں بلکہ رہتی دنیا تک کے منکرین کے لیے اس کا رد فرما کر اپنے حبیب ﷺ کی شان بڑھا دی ۔
اعتراض نمبر۱۹۱
واٹ یہ شوشہ بھی چھوڑتا ہے ’’ یہ خیال کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ محمد ﷺ نے ورقہ بن نوفل جیسے عیسائیوں کے ساتھ گفت وشنید کے ذریعے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ‘‘ ۔ (ضیا النبی ۳۰۰)
جواب: واقعہ یہ ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ آپ ﷺ کوورقہ بن نوفل کے پاس لے جاتی ہیں اور فرماتی ہیں کہ اپنے بھتیجے کی بات سنئے ! ورقہ بن نوفل نے وہ تمام باتیں آپ ﷺ سے سنیں جو وحی کے نزول سے متعلق تھیں یعنی غار حرا میں وحی کے نزول کا پورا واقعہ بیان فرمایا ۔ یہ سن کر ورقہ بن نوفل نے کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کے پاس بھیجا تھا ۔ ورقہ بن نوفل نے کہا کہ کاش ! میں آپ کے زمانہ نبوت میں تندرست و جوان ہوتا ، کاش! میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکال دے گی ۔ آپ ﷺ نے اس پر تعجب فرمایا کہ کیا مکہ والے مجھے اس شہر سے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے ہاں میں جواب دیا ، جو شخص بھی آپ کی طرح نبوت لے کر آیا لوگ اس کے ساتھ دشمنی پر کمر بستہ ہو گئے ۔ مگرقابل غور بات یہ ہے کہ ورقہ بن نوفل جیسے عیسائیوں سے گفت وشنید کے ذریعے بہت زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی ، بعید از قیاس ہے۔ پھر یہ بھی عجیب بات ہے کہ وہ کس قسم کی معلومات تھیں جو عیسائیوں سے حاصل کی گئیں جبکہ ورقہ بن نوفل آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ کاش میں زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے باہر نکال دے گی اور ورقہ نے یہ کہہ کر کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ ؑ کے پاس اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا ، کا سرے سے معلومات کے حصول کا دروازہ بند کردیا کیونکہ جنہوں نے آپ ﷺ کو معلومات فراہم کیں وہ تو کہتے ہیں کہ ان کے پاس تو فرشتہ آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام لاتا ہے ۔ کسی اور سے معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔ اگر مستشرق کا مدعا یہ ہے کہ ورقہ بن نوفل کی معلومات سے آپ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو یہ بالکل بے بنیاد اور غلط الزام ہے۔ ورقہ بن نوفل تو خود آپؐ کی نبوت کا اقرار کرتا ہے نیز فرشتہ کے متعلق کہتا ہے کہ یہ وہی ناموس ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسی ٰ ؑپر آتا تھا وہ یہ بھی تسلیم کر رہا ہے کہ یہ مُنزل من اللہ ہے ۔ نیز وہ یہ نہیں کہتا کہ میں نے وقتاََ فوقتاََ آپ ﷺ کو جو معلومات فراہم کیں وہ آج سچ ثابت ہوئیں ۔ ذرا برابر اور ادنیٰ سا اشارہ بھی اس بات کا نہیں ملتا البتہ یہ درست ہے کہ وحی کے نزول کے بعد آپ خدیجہ ؓ یا ایک روایت کے مطابق ابو بکرؓ کے ہمراہ ورقہ بن نوفل کے پاس گئے اور اس سے وہی کہا جو اوپر مذکور ہوا ۔ ایک شہر میں رہنا یا ایک محلہ میں یا پاس پاس رہنا اس بات کی علامت نہیں کہ آپ اس شخص سے معلومات حاصل کرتے ہوں گے۔ یہ ایک مفروضہ ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ عیسائی مذہب میں تغیر و تبدل ہو چکا تھا۔ ورقہ اور دیگر لوگ عیسائیت کے پیروکار تھے آ پ ان کے تبدیل کردہ مذہب کے عقائد سے سخت نفرت کرتے تھے تو پھر آپ ﷺ کیونکر ان سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔
اعتراض نمبر۱۹۲
۱۔جو روحانی اذیتیں ،شکوک وشبہات اور امیدوں کی جو زبردست ذہنی کشمکش آنحضرت ﷺ کے دل کو مشوّش کررہی تھیں ان کا کچھ اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ اپنی رسالت کا پوری طرح یقین ہونے سے پہلے آپ خود کشی کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے اس ارادے سے فرشتہ نے آپ کو وہ فرض یاد دلایا کہ جو نوع انسانی کی طرف سے آپ پر عائد ہوتا تھا باز رکھا اور آپ کے مضطرب دل کو جو شبہات اور اندیشوں کے پیچ و تاب میں مبتلا تھا ، اس روشن مستقبل کی ایک جھلک دکھا کر جب ساری اقوام عالم ایک سچے دین کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوں گے ، امید اور یقین دلانے کی کوشش کی ۔( سپرٹ آف اسلام روح اسلام ۔۹۵)
۲: آپ ( وحی کی وجہ سے ) پریشان و مایوس ہو گئے اور شیاطین کے زیر اثر ہونے کے خوف سے آپ نے اپنے کو ختم کرنے کی کو ششیں کیں ( ولیم میور ۔ضیا النبی۔۳۰۰)
جواب: مذکورہ الزامات کی بنیاد صحیح بخاری باب التعبیر کی ایک روایت ہے کہ چند روز تک جب وحی رک گئی تو آنحضرت ﷺ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جاتے تھے کہ اپنے آپ کو گرا دیں ۔ دفعتاََ جبرائیل نظر آتے تھے اور کہتے تھے ’’ اے محمد! تم واقعی خدا کے پیغمبر ہو‘‘ اس وقت آپ ﷺ کو تسکین ہو جاتی تھی لیکن جب پھر وحی کچھ دنوں کے لیے رک جاتی تھی تو پھر آپ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اپنے آپ کو گرا دینا چاہتے تھے ،پھر جبرائیل ؑنمایا ں ہو کرتسکین دیتے کہ آپ واقعی خدا کے پیغمبر ہیں
اول مذکورہ عبارت میں مصنف نے آنحضرت ﷺ کے بارے میں شکوک و شبہات یا باطنی کشمکش اور خلش کا ذکر کیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے ایک تو وہ انداز ہے جو بعض محدثین نے اختیار کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کشمکش یا خلش کا تعلق اس بات سے نہیں کہ آنحضرت ﷺ کو خدانخواستہ ایسے منصب کی حقانیت میں کوئی شبہ پیدا ہو گیا تھا بلکہ اس کا تعلق تحمل سے ہے یعنی اس حقیقت سے ہے کہ منصب کی حقانیت کے باوجود تشویش اس بات کی تھی کہ کیا آپ ﷺ نبوت کی ان گراں قدر ذمہ داریوں سے عہدہ براء ہو سکیں گے یا دوسرے لفظوں میں آیا نبوت کے اس غیر معمولی ظہور کو انسانی فکر وتعقل کا یہ کمزور ڈھانچہ آسانی سے قبول کر سکے گا؟
دوسرا انداز وہ ہے جس کو مولانا شبلی نعمانی نے اختیار کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ سرے سے یہ روایت ہی مرفوع متصل نہیں ، جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ آپ شدت احساس سے خود کشی پر آمادہ ہو گئے تھے ، ان کی رائے میں اس کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں کہ اس کو امام زہری نے بیان کیا اور بس یعنی سند کا سلسلہ زہری تک ختم ہو جاتا ہے ،جیسا کہ شارحین بخاری نے تصریح کی ہے ۔ ظاہر ہے ایسے عظیم الشان واقعہ کے لیے سند مقطوع کافی نہیں ۔ (روح اسلام۔۹۵۔۹۶)
علامہ غلام رسول سعیدی ( تبیان القرآن ۔ج۱۲۔ص۸۵۴۔۸۵۵) لکھتے ہیں ’’اور پہاڑ سے خود کو گرا دینے کے مقصد کی حسب ذیل روایت صحیح نہیں ہے ۔ اس حدیث میں ہے جو حضرت عائشہ ؓ کی روایت کردہ طویل حدیث ہے ۔ اس کے آخر میں ہے ’’ حضرت خدیجہ ؓ آپؐ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ، ورقہ نے آپ ﷺ کو تسلی دی اور کہا : آپ کے پاس وہی ناموس آیا ہے ، جو حضرت موسی ٰ ؑ کے پاس آیا تھا ۔۔۔۔۔ پھر کچھ دنوں بعد ورقہ فوت ہو گئے اور وحی کا آغاز رک گیا حتی کہ نبی مکرم ﷺ بہت غمگین ہوئے ( امام زہری فرماتے ہیں ) فیما بلغنا ‘‘ ہمیں جو حدیث پہنچی ہے اس میں یہ مذکور ہے کہ آپ ﷺ پر غم کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ آپ نے کئی بار خود کو پہاڑ کی چوٹیوں سے گرانے کا ارادہ کیا اور ہر بار جب بھی آپ خود کو پہاڑ کی چوٹی سے گرانے کا ارادہ کرتے تو آپ ﷺ کے سامنے جبرائیلؑ آ جاتے اور کہتے اے محمد ﷺ ! بے شک آپ رسول برحق ہیں ، پھر آپ کا اضطراب ختم ہو جاتا اور آپ کا دل ٹھنڈا ہو جاتا اور آپ واپس چلے جاتے ، پھر جب کافی دنوں تک وحی نہ آتی تو پھر آپ اسی طرح پہاڑ پر جاتے اور پہاڑ کی بلندی سے خود کو گرانے کا ارادہ کرتے تو جبرائیلؑ آپ کے سامنے نمودار ہو کر اسی طرح کہتے ( جیسے پیچھے مذکور ہوا )
حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے آخرمیں یہ اضافہ صرف معمر کی روایت میں ہے ۔
امام ابو نعیم نے اپنی مستخرج میں امام بخاری کے شیخ یحیٰی بن بکیر سے اس حدیث کو اس اضافہ کے بغیر روایت کیا ہے ۔ اسماعیلی نے بھی کہا ہے کہ یہ اضافہ صرف معمر کی روایت میں ہے ۔
امام مسلم ، امام احمد ،امام اسماعیلی اور ابو نعیم نے اس حدیث کو بغیر اس اضافہ کے روایت کیا ہے اور یہ حدیث بلاغات زہری سے ہے اور متصل نہیں لہٰذا یہ حدیث منقطع ہے اور چونکہ امام بخاری کے شیخ یحییٰ بن بکیر اور دیگر آئمہ حدیث نے اس حدیث کو اس اضافہ کے بغیر روایت کیا ہے اس لیے یہ حدیث شاذ ہے اور کیونکہ اس حدیث کا متن رسول اللہ ﷺ پر موجب طعن ہے ، اس لیے یہ حدیث نہ روایتاََ صحیح ہے اور نہ درایتاََ ( سعیدی غفرلہ ) حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ اس روایت کا متصل نہ ہونا ہی معتمد ہے ۔
امام بخاری نے جب باب التعبیر میں اس حدیث کو لکھا تو اس کا خاتمہ ان الفاظ پر کیا ’’ وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا حتی کہ آپ غمگین ہو گئے ‘‘
امام بخاری نے حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث کو کتاب التفسیر سورہ علق کی تفسیر میں بھی یہ درج کیا ہے اور اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے ’’اور وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا حتی کہ آپ غمگین ہو گئے ‘‘۔ ( اس میں بھی آپ کا پہاڑوں سے گرانے کا ذکر نہیں ہے ) نیز اس مقام پر حضرت جابر ؓ کی وہ حدیث درج کی ہے جس نے جبرائیلؑ امین کے دوبارہ نظر آنے اور سورہ مدثر کے نزول کا ذکر ہے ۔
امام بخاریؒ نے حضرت عائشہ ؓ سے مروی اس حدیث کو باب ’’کَیفَ بَدَ ئُ الوَحیِ اَلیٰ رَسُول اللہ ﷺ میں بھی درج کیا ہے اس مقام پر یہ حدیث ان الفاظ پر ختم ہوتی ہے ’’ اور وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ‘‘ اس جابر والی حدیث میں نہ غمگین ہونے کا ذکر ہے اور نہ ہی اس غم کی وجہ سے آپ کے پہاڑوں سے چھلانگ لگانے کے ارداہ کا ذکر ہے بلکہ فترت وحی کے ذکر کے بعد معاََ بعد اس حدیث کو درج کیا گیا ہے ، جس میں وحی کا سلسلہ از سر نو شروع ہونے کا ذکر ہے ۔
امام مسلم نے بھی مسلم شریف کی ’’کتاب الایمان‘‘ میں حضرت عائشہ ؓ کی اس حدیث کو درج کیا ہے لیکن اس حدیث میں فترت وحی کا ذکر نہیں ہے ۔ امام مسلم نے بھی اس حدیث کے بعد حضرت جابر ؓ بن عبداللہ کی حدیث درج کی ہے جس میں وحی کا سلسلہ منقطع ہونے اور دوبارہ شروع ہونے کا ذکر ہے ۔
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث صیحین کے چار مقامات پر درج ہے اور ان میں سے صرف ایک مقام پر وہ فقرہ ہے جس میں آنحضرت ﷺ کے پہاڑوں سے چھلانگ لگانے کے ارادے کا ذکر ہے ۔ زیر بحث جملہ روایت کرنے سے پہلے امام زہری نے فیما بلغنا کے الفاظ کا اضافہ کیا یعنی اس سلسلہ میں ہمیں جو اطلاعات پہنچی ہیں ان میں یہ جملہ بھی ہے ۔ امام زہری نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں یہ جملہ یا جملے کس حوالے سے پہنچے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ امام زہری سے اس حدیث کو کئی راویوں نے روایت کیا ہے لیکن ان متعدد راویوں میں سے صرف ایک روایت کے ساتھ یہ جملے منسلک ہیں جو حضرت معمر نے زہری سے روایت کی ہے ۔ یہ روایت امام زہری سے عقیل نے روایت کی ( باب کیف بدئُ الوحی ) اس میں غمگین ہونے کا ذکر ہے نہ کہ پہاڑوں سے گرانے کا، کتاب التفسیر میں امام زہری سے یونس بن یزید نے روایت کیا ہے ، مذکورہ جملہ اس روایت میں بھی موجود نہیں ۔ کتاب التعبیر میں جو روایت درج ہے اس کو امام زہری سے روایت کرنے والے عقیل کے علاوہ معمر بھی ہیں اور صرف یہی وہ روایت ہے ، جس میں مذکورہ جملہ موجود ہے ۔ اس بناء پر علامہ ابن حجر نے فرمایا ، میرے نزدیک یہ زیادتی معمر کی روایت کے ساتھ خاص ہے ۔ ۔۔۔۔ اس بحث سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ حدیث مذکورہ کے ساتھ اس جملہ کو بعد میں شامل کیا گیا ہے ۔ جب اس جملہ کا الحاقی ہونا بھی ظاہر ہے اور یہ جملہ عصمت نبوت جیسے متفق اسلامی عقیدہ سے بھی متصادم ہے تو پھر اس کو مسترد کرنا ضروری ہے ، خواہ اس کو روایت کرنے والوں میں کتنے ہی بڑے بزرگوں کے نام آتے ہوں کیونکہ روایت اور درایت کے اصول اس قسم کے جملوں کو قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتے ۔ ( ضیا النبی ۔۷۔۳۰۵)
ایک ایمان افروز نکتہ : جبرائیل ؑ نے کہا پڑھیے تو آپ نے فرما یا ’ میں نہیں پڑھنے والا ‘‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے انکار کیوں کیا ؟ ہیکل (حیات محمد۔۱۲۵) لکھتے ہیں کہ حق تو یہ ہے کہ حضرت جبرائیل کا تین مرتبہ اقراء اور حضور ﷺ کا ہر بار’’ ما انا بقاری ‘‘ کہنا اللہ تعالیٰ ہی جانتاہے کہ اس میں کیا حکمتیں ہیں ؟ اس کے متعلق کوئی فیصلہ کن بات کہنے کی تو گنجائش نہیں ہے ، البتہ بظاہر انکار کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ ﷺغار حرا میں ذکر الہٰی سے لطف اندوز تھے ،قلب اقدس پر کیف کا عالم طاری تھا کہ اچانک جبرائیل امین ؑ نے حاضر ہو کر استدعا کی کہ پڑھیے ! تو ظاہر ہے جب آپﷺ کا قلب مبارک محبوب حقیقی کی یاد میں سرشار تھا اور استغراق کی کیفت طاری تھی تو ایسی صورت میں آپ ﷺ نے دوسری جانب توجہ مبذول فرمانا گوارا نہ کیا ۔ جبرائیلؑ نے تین بار اپنی طرف سے متوجہ کرنے کے لیے معانقہ بھی فرمایا مگر آپ کا قلبی اقتضاء یہی رہا کہ ذکر حبیب سے لطف اندوز ہوتا رہوں ، یہاں تک کہ جب جبرائیلؑ امین نے اس محبوب حقیقی کے نام کی برکت سے پڑھنے کی استدعا کی جس کے مشاہدہ جمال میں حضور ﷺ مستغرق تھے ، تو آپ ادھر متوجہ ہوئے اور سورۃاقراء کی پانچ آیتیں نازل ہوئیں ۔
اعتراض نمبر۱۹۳
وہ بزعم خویش اس خام خالی میں مبتلا تھے کہ ان پر وحی نازل ہوتی ہے ۔ حالانکہ یہ ایک محض ڈھونگ تھا بہر حال دوسروں کو یقین دلانے کے لیے کہ ان پر وحی اترتی ہے ۔ محمد ﷺ نے ایک سفید دودھیا رنگ کے کبوتر یا فاختہ کو سدھا رکھا تھا جو ان کے کاندھے پر بیٹھا رہتا تھا ، وقفہ وقفہ کے بعد وہ چونچ مار کر ان کے کان سے دانے چگا کرتا تھا اور اس طرح وہ دوسروں پر یہ تاثر قائم کرتے تھے کہ فرشتہ جبرائیلؑ ان پر وحی نازل کر رہا ہے اور انہیں املاء کرا رہا ہے ۔
جواب: وحی اور نبوت کے رشتہ کو سمجھے بغیر ایک شخص اگر اپنے نظریات اور تجربات کی روشنی میں ان ہر دو کو جانچنے کی سعی کرتا ہے تو یقینا وہ ان کی حقیقتوں اور حکمتوں کو جان نہیں سکتا ۔ وحی کو ماننا اور نہ ماننے والوں میں یہی بنیادی اختلاف ہے کہ ہر ایک وحی کے مفہوم کو الگ الگ سمجھتا ہے ۔ قدیم و جدید علماء اور فلاسفہ نے مذہب کے تقابلی مطالعہ سے بحث و تحقیق کے بعد وحی کے وجود کو تسلیم کیا اور تمام شبہات اور دعووں کو دلائل کے ذریعے رد کیا ہے ، جو منکرین کہتے ہیں ۔ اب تحقیقی طور پر یہ ثابت شدہ ہے کہ وحی ایک مقدس و پاک شے ہے جس میں کسی آمیزش باطلہ کی گنجائش نہیں ہے ۔
امام غزالی فرماتے ہیں کہ انسان کی امتیازی حرکات تین طرح کی ہوتی ہیں ۔ ان میں سے دو طرح کی حرکات زیر بحث مسئلہ سے متعلق ہیں۔
اوّل : فکری حرکت جس میں حق و باطل کا احتمال ہوتا ہے ۔
دوم: قولی حرکت جس میں سچ اور جھوٹ کا امکان ہوتا ہے ۔ ان حرکات سے پیدا ہونے والی صفات (حق، سچائی اور بھلائی) جب کسی ایسے شخص میں موجود ہوں ، جس کو خدا نے آسمانی وحی دے کر بھیجا ہو اور غور وفکر اور تحقیق سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ حق اور سچ کے برعکس صفات باطل جھوٹ اور برائی اس میں معدوم ہیں ، جس کی تائید اس شخص کی حیات اور متواتر تاریخی روایتوں سے ہوتی ہے تو پھر ایسی صورت میں اس پر وحی کے نزول کا انکار نہیں کیا جا سکتا، اس وحی کو باطنی الہام کہہ کر نظر انداز کرنا بھی درست نہیں ہو گا ۔
لقد ارسلنا بالبینات ۔۔۔۔ الناس بالقسط ( الحدید ۔۲۵) ترجمہ ’’ یقینا ہم نے بھیجا ہے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ اور ہم نے اتاری ان کے ساتھ کتاب اور میزان (عدد) تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں ‘‘۔
سورۃ الجمعہ۔۲۔میں ہے ’’ وہی (اللہ) جس نے مبعوث فرمایا امیوں میں سے ایک رسول انہیں میں سے ‘‘۔
پہلی آیت الحدید میں وضاحت ہے کہ رسولوں کی روشن دلیلوں کے ساتھ ، ان پر کتاب بھی نازل فرمائی ۔ اب آخری پیغمبر ﷺ پر قرآن مجید نازل فرمایا ۔ آپ نے لوگوں کو اس کی تعلیم دی ۔ اس کے ساتھ آپؐ نے عوام کے رشتہ و ہدایت کے لیے انہیں نصیحتیں کیں ۔ لاینحل مسائل کی گتھیاں سلجھا کر لوگوں کی بے چینی اور بے قراری کو دور کیا جو آپ سے قبل خرافات در آئی تھیں ، ان کی حقیقت سے آگاہ کیا گویا قرآن مجید کے علاوہ یہ سارا رشدوہدایت کا ذخیرہ پیغمبر کا اپنا کلام تھا ، جسے احادیث کا ذخیرہ کہا جاتا ہے ۔ غور فرمائیں کہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کے چشمے ایک ہی زبان مقدس سے پھوٹ رہے ہیں مگر ان کے کلام میں زمین و آسمان کا بعد ہے ۔ ایک شخص کتنا ہی عالم فاضل یا فنکار ہو ، کیا اس کے لیے ایسا ممکن ہو گا کہ ایک خاص اسلوب میں گفتگو کرنے کے بعد اسے خدا کی طرف سے نازل ہونے والا کلام ٹھہرا دے ، پھر دوسرے اسلوب میں گفتگو کا آغاز کر کے اسے اپنا کلام قرار دے ۔ جہاں آپ ﷺ کے اپنے اسلوب میں گفتگو کرنے سے آپ کا کلام قرار پاتا ہے اور دوسرے اسلوب میں گفتگو کرنے سے کلام الہٰی ٹھہرتا ہے ، اس سے نہ صرف قرآن مجید کی حقانیت اور کلام الہٰی ہونا ثابت ہو تا ہے بلکہ آپ کی نبوت و رسالت بھی ثابت ہوتی ہے اور وحی کا نازل ہونا بھی آشکار ہوتا ہے ۔ انبیاء کا اس دنیا میں تشریف لانے کا مقصد بھٹکی اور گمراہ انسانیت کو رشد وہدایت کی تعلیم دینا ہوتا ہے تا کہ جہالت کی تاریکوں سے نکال کر انہیں رہنمائی کے نور کی چادر میں لپیٹیں ، ارشاد ربانی ہے ’’کِتَبَ اَنزَلناَہ لِتُحرِ جَ الَّناَّسَ مِن الظُّلُمٰتِ اِلیٰ النُّورِ ‘‘ (سورہ ابراہیم ) ترجمہ’’ یہ کتاب ہے ہم نے اتارا ہے اسے آپ کی طرف تاکہ کہ نکالیں لوگوں کو تاریکیوں سے نور کی طرف ‘‘
اعتراض نمبر۱۹۴
اعصابی دورے پڑتے تھے اور وہم ہو جاتا تھا کہ تابع الہام ہیں ۔ انہیں (نعوذ باللہ ) اعصابی مرض لاحق تھا اور وہ توہمات زدہ تھے ۔
( ۲) مرگی زدہ تو نہیں البتہ جنونی ضرور تھے کیونکہ وہ غیر متوازن ، اعصابی مزاج والے تھے ۔ (اسپرنگر۔۵۳۰)
(۳) نزول وحی کے وقت مرگی کا دورہ پڑتا تھا ۔ (نعوذ باللہ )
(۴) نبی جسمانی بشریت سے جدا ہو کر روحانی پیکر میں سمو جاتے تھے اور ایک مخصوص کیفیت سے دو چار ہوتے تھے ، جو ایک طرح کا جنون یا مرگی ہوتا تھا ۔
جواب:اس الزام کا تعلق وحی الہٰی سے ہے مگر مستشرقین نہیں مانتے کہ وحی کا آپ ﷺ پر نزول ہوتا تھا بلکہ وہ کہتے ہیں کہ مرگی کے دورے پڑتے تھے یا اعصابی مرض تھا یا جنون تھا یا آپ ﷺ توہمات زدہ تھے ۔ الزام میں جن کیفیات کا ذکر کیا گیا ہے ان کا رد مرگی کے مرض کا ذکر کرنے سے ہوگا جو اپنے مقام پر آئے گا لیکن یہاں مرگی کا رد وحی الہٰی کی حقیقت بیان کرنے سے کیا جاتا ہے یعنی مرگی اور وحی کی علامات کے فرق سے اس الزام کی قلعی کھل جاتی ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس لائق سمجھتا ہے کہ اس کو منصب نبوت سے بہرہ ور کرے تو اس کے قلب و ضمیر اور وجدان و فکر کو وحی تنزیل کے نور سے روشن کر دیتا ہے ۔وحی رشد وہدایت کی حاصل ہوتی ہے اور خیر و شر کے فرق کو واضح کرتی ہے جس سے انسان میں ایک خاص عمل اور مقرر فکر کی تخلیق ہوتی ہے ۔ سیرت و کردار ، اخلاق کے پاکیزہ سانچوں میں ڈھلتے ہیں ۔ نیز وحی و الہام کی روشنی سے بیگانہ نہیں رہتا یا اس منصب سے اس کی زندگی متاثر نہیں ہو پاتی بلکہ پیغمبر کے عمل سے سیرت و کردار اور ہر ہر لمحہ معمولات کا گوشہ گوشہ منور ہو جاتا ہے اور یہ کیفیت و حالت یہاں جا پہنچتی ہے کہ پیغمبر انسانی خواہشات کی پیروی نہیں کرتا اور نہ ہی نفس کے سبب بولتا ہے اور نہ ہی اپنی مرضی سے کوئی اقدام کرتا ہے بلکہ اس کا ہر عمل رضائے الہٰی اور احکام خدا وندی کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ ارشاد خدا وندی ہے ۔وَ ماَ یَنَطِقُ عَنِ الہَویٰ ا،ن ھُوَ اِلاَّ وَحیِ ُ یُوحیٰ ( النجم ۔۳۔۴) ’’ ترجمہ :اور وہ خواہش نفسانی سے نہیں بولتا یہ تو وحی ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے ۔ ‘‘
تو پھر بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ بزعم خویش اس خام خیالی میں مبتلا تھے کہ ان پر وحی نازل ہوتی ہے بلکہ یہ تو انعام الہی اور فضل ربی ہے نیز وہ ہستی جس کو کفار و مشرکین بھی صادق اور امین کہتے تھے وہ اس صداقت سے کیونکر دور ہو سکتے ہیں وہ مدت العمر اس شرف سے بدرجہ اتم فیض یاب رہے ۔ تو وہ ہستی اپنی ذات کے لیے اللہ تعالیٰ پر کیونکر شک کر سکتی ہے ۔
وحی کی کیفیات سے نا آشنائی یا ارادتاََ چھپا کر مرگی وغیرہ کا الزام لگاتے ہیں ۔احادیث نبوی: حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ پر سردی کے دن وحی اترتی ، آپ کی پیشانی سے پسینہ بہہ نکلتا۔ ایک روایت میں ہے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حارث بن ہشام نے رسول اللہﷺ سے پوچھا! آپ پر وحی کیونکر آتی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ابھی تو ایسی ہے جیسے گھنٹے کی جھنکار ، وہ مجھ پر سخت ہوتی ہے پھر موقوف ہو جاتی ہے جبکہ میں یاد کر لیتا ہوں اور کبھی ایک فرشتہ آتا ہے ، مرد کی صورت میں اور وہ جو کچھ کہتا ہے اس کو یاد کر لیتا ہوں ۔
عبادہ بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جب وحی آتی تو آپ پر سختی ہوتی ، آپ ﷺ کا چہرہ راکھ کی طرح ہو جاتا ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ کا چہرہ وحی کے وقت سرخ ہو تا ۔ عبادہ بن ثابت سے یہ روایت بھی ہے کہ جب آپ پر وحی آتی تو آپ سر جھکا لیتے ۔ (مسلم شریف کتاب الفضائل ۔ص۴۱۔ج۶)
حلیمہؓ کا گھرانہ اور وحی کا حال: آپﷺ اپنے رضاعی بہن بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرانے گئے ہوئے تھے ۔ انہوں نے حسین اور خوش لباس شخصوں کو دیکھا ، انہوں نے آپ کو اٹھایا اور الگ جگہ پر لے گئے، آپ کا سینہ مبارک چاک کیا ۔ یہ منظر دیکھ کر آپ کا رضاعی بھائی بھاگ کر آیا اور کہا کہ دو آدمی آئے ، میرے بھائی کو لٹایا اور سینہ چاک کر دیا ۔ رضاعی والدہ ماجدہ اور اس کا شوہر حارث دوڑے آئے ، وہاں دیکھا کہ آپ خوش باش ہیں ، مسکرا رہے ہیں البتہ چہرے پر کچھ خوف کے آثار ہیں ۔ حلیمہ سعدیہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے آپ کو پکڑا اور سینہ سے لگا لیا پھر آپ کے رضاعی باپ نے سینے سے لگایا اور سر پر ہاتھ رکھ کر کہا ، کیا ہوا ؟ آپ نے فرمایا کہ دو آدمی آئے ، سفید کپڑوں میں ملبوس تھے ۔ مجھ کو لٹا کر میرا شکم چاک کیا اور میرے سینے سے کوئی چیز نکال دی پھر میرے شکم کو درست کر کے جدا ہو گئے ۔ انہیں کسی چیز کی تلاش تھی ، مجھے کچھ تکلیف نہیں ہوئی بلکہ ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے اور اب بھی ہو رہی ہے ۔‘‘ مخبر صادق اور عینی راست باز شاہدوں کی شہادت کہ آپ پر وحی آتی ہے صرف مفروضوں کی بناء پر جیسا کہ مستشرق کہتا ہے کہ وہ بزعم خویش اس خام خیالی میں مبتلا تھے کہ ان پر وحی نازل ہوتی ہے ، قابل تسلیم نہیں ہو سکتی نیز فرشتوں کا آنا ، شق صدر کرنا ، سعد قبیلہ کے رضاعی بہن بھائی ، رضاعی ماں باپ کی گواہی وحی کے نازل ہونے کے لیے سونے پر سہاگہ ہے ، بجز اس کے مآخذ سے یہ کہیں واضح نہیں ہوتا کہ آپ پر وحی نازل نہیں ہوتی تھی ۔ کاش یہ مستشرقین اپنے بڑوں کی بات مان لیتے جیسے ان کے ایک بڑے عالم ورقہ بن نوفل نے کہا کہ یہی وہ ناموس اکبر ہے جو حضرت موسیٰ ؑ پر نازل ہوتا تھا لیکن ان کے نصیبوں میں یہ سعادت کہا ں !یہودی مستشرقین بھی بے خبر ہیں کہ ان کے بزرگ عبداللہ بن سلام ؓایمان لائے اور پیغمبر اسلامﷺ کو نبی برحق جان و دل سے تسلیم کیا یہود و نصاریٰ کے متقدمین علماء متاخرین سے بلند پایہ عالم تھے ۔ وہ آپ ﷺ کو نبی اور آپ پر نازل ہونے والی وحی کا اقرار کرتے ہیں اور آج کے نام نہاد یہودی و عیسائی علماء ان دونوں باتوں کے ماننے سے انکاری ہیں ۔ وہ سراسر برسر خطا ہیں ۔ اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کے خلاف زہر چکانی کرنے والے دورِ حاضر کے مستشرقین کو اتنا بھی علم نہیں کہ پیغمبر اسلامﷺ کی نبوت کی شہادت عیسائی عالم نے دی ۔ ہجرت حبشہ کے مہاجرین کی پشت پناہی بھی عیسائی بادشاہ نجاشی (اصحمہ ) نے کی تھی ۔ اس نے پیغمبر اسلام ﷺکو برحق نبی مانا اور اسی نے آپ ﷺ کی ہونے والی زوجہ محترمہ کا غائبانہ نکاح آپ سے باندھا تھا اور بعض روایات کے مطابق اپنی گرہ سے حق مہر ادا کیا ۔ اب عیسائی مستشرقین کے لیے چیلنج ہے کہ بتائیں ، یہ انجیل کیا ہوئی جو ورقہ بن نوفل اور اصحمہ نجاشی کے پاس تھی ، جنہوں نے انجیل کی پیش گوئی پر آنحضرت ﷺ کی نبوت کا اقرار کیا ۔ کیا یہ دور حاضر کے مستشرقین ورقہ بن نوفل سے علم میں آگے ہیں یا آج کے مستشرقین کے پاس ورقہ بن نوفل اور اس دور کی انجیلوں سے آج کی انجیل زیادہ معتبر ہے ۔ خدارا ہوش کے ناخن لو!
ٹامس کارلائل : اب مستشرقین اپنوں کی سن لیں ۔ ٹامس کار لائل لکھتے ہیں کہ ’’ہم لوگوں میں (عیسائیوں ) جو یہ بات مشہور ہے کہ محمد نعوذ باللہ ایک پر فن اور فطرتی شخص اور گویا جھوٹ کے اوتار تھے اور ان کا مذہب دیوانگی اور خام خیالی کا ایک تودہ ہے ، اب یہ سب باتیں لوگوں کے نزدیک غلط ٹھہرتی جاتی ہیں ، جو جو جھوٹ کی باتیں دور اندیش اور مذہبی سر گرمی رکھنے والے آدمیوں (عیسائیوں) نے اس انسان ﷺ کی نسبت قائم کی تھیں ۔ اب وہ الزام قطعاََ ہماری رو سیاہی کا باعث ہیں چنانچہ ایک یہ بات مشہور ہے کہ ’’پاکرک ‘‘ نے جب ’’گرویٹس‘‘ سے پوچھا کہ یہ قصہ جو تم نے لکھا ہے کہ محمد (ﷺ) نے ایک کبوتر کو تعلیم کیا تھا اور وہ ان کے کان میں سے میل نکالا کرتا تھا اور مشہور کیا تھا کہ وہ فرشتہ ہے جو ان کے پاس وحی لایا کرتا ہے تو اس قصہ کی کیا سند ہے؟ تو انہوں نے جواباََ کہا کہ اس قصہ کی کوئی سند اور کوئی ثبوت نہیں ۔ گویا خود قصہ گھڑنے والا خود اس قصہ کی سند اور ثبوت سے انکاری ہے ۔ ٹامس مزید کہتا ہے کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ایسے قصوںکو بالکل چھوڑ دیا جائے جو جو باتیں اس انسان (محمد ﷺ) نے اپنی زبان سے نکالیں اور بارہ سو برس سے اٹھارہ کروڑ آدمیوں کے لیے بمنزلہ ہدایت کے قائم ہیں ۔ ۔۔۔۔ اس وقت جتنے آدمی محمد ﷺ کے کلام پر اعتقادرکھتے تھے اس سے بڑھکر اور کسی کے کلام پر اس زمانہ کے لوگ یقین نہیں رکھتے تو پھر کیا ہم یہ خیال کر سکتے ہیں کہ جس کلام پر اللہ تعالیٰ کی اس قدر مخلوق زندگی بسر کر گئی اور مر گئی ، کیا وہ ایک جھوٹا کھیل ہے جیسا ایک بازی گر کا ہوتا ہے ۔ میں اپنے نزدیک ہر گز ایسا خیال نہیں کر سکتا بلکہ میں بہ نسبت اور چیزوں کے اس پر جلد یقین کرتا ہوں ۔ اگر جھوٹی اور فریب کی باتیں دنیا میں اس قدر زور آور ہوں اور رواج پکڑ جائیں اور مسلم ٹھہر جائیں تو پھر اس دنیا کی نسبت کوئی کیا سمجھے گا ؟ اس قسم کے خیالات جو بہت پھیلے ہوئے ہیں بہت ہی افسوس کے قابل ہیں ، اگر ہم خدا کی سچی مخلوقات کا علم کچھ حاصل کرنا چاہیں تو ہم کو ایسی باتوں پر ہرگزیقین نہیں کرنا چاہیے ۔
ڈاکڑ جے ڈبلیو لیٹنز: کہتے ہیں کہ ’’ اگر سچے رسول میں ان علامتوں کا پایا جانا ضروری ہے کہ وہ ایثار نفس اور اخلاص نیت کی جیتی جاگتی تصویر ہو اور اپنے نصب العین میں یہاں تک محو ہو کہ طرح طرح کی سختیاں جھیلے ، انواع و اقسام کی صعوبتیں برداشت کرے لیکن اپنے مقصد کی تکمیل سے باز نہ آئے ، جنس کی غلطیوں کو فوراََ معلوم کرے اور ان کی اصلاح کے لیے اعلی درجہ کی دانش مندانہ تدبیر سوچے اور ان تدابیر کو قوت سے فعل میں لائے تو میں نہایت عاجزی سے اس بات کے اقرار کرنے پر مجبور ہوں کہ محمدﷺ خدا کے سچے نبی تھے اور ان پر وحی نازل ہوتی تھی ۔‘‘
ضمنی اعتراض :
آپﷺ نے دعویٰ نبوت کر کے اپنی عزت کو ٹھیس لگائی۔
امریکی مصنف واشنگٹن ارونگ جو ۹ ویں صدی کے آخر میں سپین میں امریکی سفیر رہ چکا ہے اس نے رسول کریم ﷺ کی سیرت پر کتاب لکھی جس میں وہ آنحضرت ﷺکی دعوت کے اسباب و بواعث کیا تھے ؟سے متعلق لکھتا ہے کہ کیا اس ذریعہ سے دولت و ثروت حاصل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا خود آپ ﷺ کی اپنی یہ حالت تھی کہ وحی کے نزول سے پہلے آپ ﷺ نے کبھی مال و دولت کی طرف رغبت ظاہر نہیں کی تھی کیا آپ ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ اس اپنے ہم قوم لوگوں میں عزت و تکریم اور بڑے بڑے مرتبے حاصل کیے جائیں ؟ لیکن آپ ﷺ کو تو نبوت کے وعدہ سے پہلے ہی ہر شخص عزت و تکریم کی نگاہوں سے دیکھتا تھا ۔ آپ ﷺ تمام مکہ میں اپنے صدق و امانت کے باعث مشہور تھے علاوہ بریں آپ ﷺ قریش میں سے تھے جو عرب کا سب سے زیادہ معزز قبیلہ شمار کیا جاتا تھا ۔ کعبہ کی دربانی کا اہم منصب پشت ہا پشت سے آپ ﷺ کے خاندان میں چلا آ رہا تھا اس سے بڑھ کر بلند مرتبہ اور کیا ہو سکتا تھا ؟ لیکن جو کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے نبوت کا دعویٰ کر کے خود اپنی عزت کو خاک میں ملا دیا ( نعوذ باللہ ) ۔ یہ در اصل نبوت کے مقام و مرتبہ سے لا علمی ہے یا نبوت کے منکر ہو کر اپنے تعصب کا اظہار مذکورہ الفاظ میں کرتے ہیں ۔مکہ کا ہر فرد اور بشر آپ ﷺ کا دشمن اور آپ ﷺ کے در پے آزار ہو گیا اور آپ ﷺ کے خاندان والے آپ ﷺ کے جانی دشمن بن گئے ۔ کیا کسی قسم کا لالچ آپ ﷺ کودعوائے نبوت پر مجبور کر رہا تھا ؟ لیکن اس کا جواب بھی سرا سر منفی میں ہے کیونکہ ہر ایک جانتا ہے کہ ابتدا میں آپ ﷺ نے تبلیغ کو مخفی رکھا تھا اور کئی سال تک آپ ﷺ اس طرح مخفی طور پر تبلیغ کا کام سر انجام دیتے رہے اس کے بعد جوں جوں آپ ﷺ نے تبلیغ کے کام کو وسعت دیناشروع کی تو آپ ﷺ کی مخالفت میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ دین کی تعلیمات کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا حکم خدا وندی تھا ۔ جس مشن کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو منصب نبوت پر فائز کیا تھا ۔ اس کٹھن کام میں مصائب و آلام راہ روکے کھڑے ہوتے ہیں مگر آپ ﷺ نے امداد الہٰی سے یہ کام اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر کرتے چلے گئے آخر دنیا نے دیکھا کہ اللہ کا دین تما م ادیان پر غالب آ گیا اور اللہ کے رسول ﷺ کے فتح و نصرت نے بڑھ کے قدم چومے ہر لمحہ ، ہر پل آپ ﷺ کے عزت و وقار میں اضافہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ ’’ ور فعنا لک ذکرک ‘‘ کا تاج آپ ﷺ کے سر سجا کر رہتی دنیا تک کے لیے اس ظاہری دنیا میں اور آنے والی آخری زندگی میں اعلیٰ مقام و مرتبہ عطا کیا ۔ نہ جانے مخالف یہ بات کس منہ سے کہتے ہیں کہ ’’ دعوائے نبوت سے عزت خاک میں مل گئی ( نعوذ باللہ ) ۔ عقل کے اندھوں کو کیا کہیے کہ انہیں یہ خبر نہیں کہ رسالت و نبوت کے منصب سے بڑھ کر کوئی اعلی ٰ ارفع مقام نہیں ہے یہ خاص اللہ تعالیٰ کا فضل اور انعام ہے ۔ کسی شخص کو اپنی سعی و کوشش اور ریاضت و عبادت سے حاصل نہیں ہو پاتا وہ ذات علیم و خبیر ہی جانتی ہے کہ رسالت کے منصب کو کہا ں رکھنا ہے ارشاد خدا وندی ہے اللہ اعلم حیث یجعل رسالۃ ‘‘ ترجمہ ( اللہ بہتر جانتا ہے کہ جہاں اپنی پیغمبری کا منصب بنائے )
رسالت جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل اور انعام ہے تو بھلا کوئی نبی از خود یہ دعویٰ کیسے کر سکتا ہے کہ وہ نبی ہے ۔ جب یہ فضل خدا وندی ٹھہرا تو پھر آپ ﷺ سے دعوائے نبوت منسوب کرنا سرا سر غلط قرار پاتا ہے کیونکہ یہ دعویٰ اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی اپنی امت کو بتاتا ہے ۔دیگر اگر کوئی نبوت کا جھوٹا ٹھیکیدار بنتا ہے تو اپنی زندگی میں سزا پا کر مر جاتا ہے اور اس کا جھوٹ ثابت ہو جاتا ہے۔
مومنین پر ظلم و ستم: اسلام لانے والوں پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔انھیں اذیتیں دی جاتی تھیں تا کہ پھر سے وہ اپنے دین پر لوٹ آئیں اور نئے لوگ اسلام کو قبول کرنے سے باز رہیں۔قریش نے مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے ان کا مفصل بیان مشکل ہے۔مختصر ان کے مصائب دینے کے طریقوں اور آپؐ اور آپؐ کے چند جاں نثاروں کا حال درج ذیل ہے۔
حضرت بلالؓ : امیہ بن خلف کے غلام تھے۔امیہ کو معلوم ہوا کہ بلال مسلمان ہو گئے ہیں۔ان کے لیے عذاب کے طرح طرح کے طریقے نکالے۔گردن میں رسی ڈال کر لڑکوں سے کہا جاتا کہ انھیں گھسیٹیں۔وہ مکہ کی پہاڑیوں میں گھسٹیتے پھرتے۔مکہ کی گرم ریت پر لٹا کر گرم پتھر ان کی چھاتی پر رکھ دیا جاتا ۔مشکیں باندھ کر لکڑیوں سے پٹائی کی جاتی۔دھوپ میں بٹھایا جاتا اور کھانے کو کچھ نہ دیا جاتا۔ان تمام حالتوں میں حضرت بلالؓ کی زبان پر احد احد کا جان فزا ورد رہتا تھا۔
حضرت عمارؓ: کے ماں باپ یاسرؓ و سُمیہ مسلمان ہوئے تو ابو جہل نے طرح طرح کی تکلیفیں دیں۔حد تو یہ ہے کہ بی بی سُمیہ ؓ کے اندام نہانی میں نیزا مارا جس سے وہ جاں بحق ہو گئیں۔ایک دن آپؐ نے آل یاسر کو عذاب سہتے دیکھا۔فرمایا: یاسر والو! صبر کرو،تمھارا مقام جنت ہے‘‘۔ ابو جہل سُمیہ سے کہا کرتا تھا کہ تو اس لیے ایمان لائی ہے کہ تو ان سے عشق کرتی ہے تو ان کے حسن و جمال کے سحر سے سرشار ہے۔
ابو فکیحؓ: جن کا نام افلح تھا۔اس کے پائوں میں رسی ڈال کر انھیں پتھریلی زمین پر گھسیٹا جاتا ہے۔
خباب بن ارتؓ: کے سر کے بال کھینچے جاتے ہیں۔گردن مروڑی جاتی ، گرم پتھروں سے بارہالٹایا جاتا۔ خبابؓ خود بیان کرتے ہیں’’ ایک دن میرے لیے آگ جلائی گئی۔میری پشت کو اس کے انگاروں پر رکھ دیا گیا،میری پشت کی چربی نے ہی وہ آگ ٹھنڈی کی۔ام عمارہؓ نے خریدا۔اسلام قبول کرنے پر وہ اسے اذیت دیتی۔لوہے کو آگ میں تپا تی پھر اسے خباب کے سر پر رکھ دیتی۔خباب ؓنے بارگاہ نبوی میں عرض کیا ۔آپؐ نے دعا فرمائی’’ مولا خباب کی مدد کر‘‘۔اس کی ملکہ کے سر میں درد ہو گیا۔وہ خباب سے کہتی کہ گرم لوہا لے کر میرے سر کو داغ دیں ،وہ لوہا لیتے اور اس کا سر داغتے۔( دھلان ۳۰۳ ج۔۱) غریب و غلام لوگوں کے ساتھ ہی قریش کا ایسا ناروا سلوک نہ تھا بل کہ امیر بھی ان مظالم سے محفوظ نہ تھے۔قریش کے نشانے پر وہ تمام لوگ تھے جو اسلام قبول کر چکے تھے۔کیا امیر کیا غریب!
حضرتعثمان بن عفان ؓ کا چچا انھیں صف میں لپیٹ کر باندھ دیتا اور نیچے سے دھواں دیا کرتا۔ اسلام قبول کرنے کی پاداش میں مصعب بن عمیرؓ کو ان کی ماں نے گھر سے دیس نکالا دے دیا۔کئی صحابہؓ کو گائے، اونٹ کے چمڑے میں لپیٹ کر دھوپ میں پھینک دیتے تھے جیسے آج کل پولیس مجرموں کو اونی کمبل میں لپیٹ کر دھوپ میں رکھ دیتی ہے۔ان کے الفاظ میں اس سزا کو گیدڑ کٹ کہتے ہیں۔کئی صحابہ کرام کو زرہ پہنا کر گرم جلتے پتھروں پر لٹا دیتے ۔اسی پر بس نہیں کی بل کہ مسلمانوں کے آقا و مولا حضرت محمدﷺ کو ایسی اذیتیں دی گئیں جن سے انسان کا ذہن کھولنے لگتا ہے۔ بیان کرنے سے زبان گنگ ہو جاتی ہے۔تکالیف کو سن کر دل کانپ اٹھتا ہے۔مختصر سنئیے! عتیبہ کہنے لگا: بخدا! میں ضرور محمد عربیﷺ کے پاس جائوں گا،میں ضرور انھیں ان کے رب کے متعلق اذیت دوں گا‘‘۔ وہ حضورؐ کی خدمت میں آیا اور کہا ’’ محمد ﷺ وہ النجم کا انکار کرتا ہے‘‘ ۔دوسری روایت میں ہے کہ اس نے کہا’’ وہ النجم اذا ھویٰ۔دنی فتدیٰ ‘‘ کا انکار کرتا ہے۔پھر اس نے آپ ؐکے روئے تاباں پر تھوکنے کی جسارت کی اور آپ کی نور نظر کو طلاق دے دی‘‘۔ ( السیرت النبویہ(دھلان) ۲۵۲)
آپؐ مسجد حرام میں نماز ادا فرمارہے تھے۔ابو جہل نے کہا کہ اوجھڑی پڑی ہے۔ایسا کون شخص ہے جو اس غلاظت کو اٹھا کر محمد ﷺ پر پھینک دے۔بد بخت ترین وہ شخص عقبہ بن ابی معیط نامی نے یہ کام کر دکھایا۔عبد اللہ بن جدعان کی لونڈی جب کہ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت حمزہؓ کی بہن حضرت صفیہ بنت عبد المطلب کی لونڈی نے حضرت حمزہ کو بتایا کہ ابو جہل نے آپؐ کے بھتیجے کے سر اقدس میں مٹی ڈالی۔ ان پر گندگی پھینکی اور اپنی ٹانگ سے ان کی گردن روند ڈالی۔ عقبہ بن ابی معیط نے چادر کو بل دے کر اسے رسی جیسا بنا کر آپؐ کی گردن میں ڈال کر مزید بل دینے لگا۔پھر زور سے کھینچا قریب تھا کہ آپؐ کی چشمان مقدس باہر نکل آتیں۔حضرت صدیق اکبرؓ نے عقبہ کو کاندھوں سے پکڑا اور حضورؐ سے دور ہٹایا۔بسا اوقات آپؐ کی راہوں میں کانٹے بچھائے جاتے۔ دروازے پر غلاظتیں اور عفونتیں پھینک دیتے تا کہ صحت و جمعیت خاطر میں خلل پیدا ہو۔ آپؐ صرف یہ فرمادیا کرتے کہ فرزندان عبد مناف! حق ہمسائیگی خوب ادا کرتے ہو‘‘۔ وہ آپؐ کو کاہن، دیوانہ،شاعر،ساحر کہتے تھے۔ یعنی جسمانی ایذائوں کے ساتھ ساتھ زبان درازی سے کام لیتے اور طرح طرح کے القابات دیتے۔ ہر طرح سے دق کرنے کی کوششیں بسیار ہو ئیں۔یعنی حرص و ہوا اور لالچ کے چنگل میں پھانسنے کے لیے تدابیر کی گئیں۔ عتبہ مکہ کا مشہور مال دار سردار تھا۔وہ آپؐ کے پاس آیا اور کہا’’ میرے بھتیجے محمدؐ! اگر تم اس کارروائی سے مال و دولت جمع کرنا چاہتے ہو تو ہم خود اتنی دولت تمھارے لیے جمع کر دیتے ہیں کہ تو مالا مال ہو جائے۔اگر تم عزت کے بھوکے ہو تو ہم سب تم کو اپنا رئیس مان لیتے ہیں ۔اگر حکومت کی خواہش ہے تو ہم تم کو بادشاہ عرب بنا دیتے ہیں جو چاہو سو کرنے کو حاضر ہیں مگر تم اپنا یہ طریق چھوڑ دو اور اگر تمھارے دماغ میں کچھ خلل آگیا ہے تو بتادو کہ ہم تمھارا علاج کرائیں۔آپؐ نے فرمایا’’ جو کچھ تم نے میری بابت کہا وہ بھی صحیح نہیں، مجھے مال، عزت،دولت ،حکومت کچھ درکار نہیں اور میرے دماغ میں خلل بھی نہیں۔ میری حقیقت تم کو قرآن کے اس کلام سے معلوم ہو جائے گی’’ یہ فرمان خدا کے حضور سے آیا ہے ۔وہ بڑی رحمت والا اور نہایت رحم والا ہے۔یہ برابر پڑھی جانے والی کتاب ہے۔عربی زبان میں ‘ سمجھ دار لوگوں کے لیے ہے اس میں سب باتیں کھلی درج ہیں۔جو لوگ خداکا حکم مانتے ہیں ان کے واسطے اس فرمان میں بشارت ہے اور جو انکار کرتے ہیں ان کو خدا کے عذاب سے ڈراتا ہے ۔ تاہم بہت سے لوگوں نے اس فرمان سے منہ موڑ لیا ہے۔وہ اسے سنتے ہی نہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا ہمارے دل پر کوئی اثر نہیں اور ہمارے کان اس کے شنوا نہیں اور ہم میں اور تم میں ایک طرح کا پردہ ہے تم اپنی تدبیر کرو ہم اپنی تدبیر کر رہے ہیں۔
حضرت حمزہ کا اسلام لانا:آپؐ کوہ صفا یا العجوون میں تشریف فرما تھے۔وہاں سے ابو جہل کا گزر ہوا۔اس نے آپؐ سے اذیت دہ گفت گو کی۔ دوسرے قول کے مطابق اس نے آپؐ کے سر اقدس میں مٹی ڈالی۔ آپؐ پر گندگی پھینکی اور آپؐ کی مقدس گردن اپنی ٹانگ سے روند ڈالی۔آپؐ نے اس سے بات تک نہ کی۔وہاں عبد اللہ بن جدعان کی لونڈی اپنے گھر میں تھی وہ سب کچھ سن اور دیکھ رہی تھی۔ابو جہل چلا گیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت حمزہ کی بہن حضرت صفیہؓ کی لونڈی نے بتایا تھا۔ہو سکتا ہے دونوں نے بیان کیا ہو۔تھوڑی دیر بعد حضرت حمزہ تلوار حمائل کیے شکار سے لوٹے۔ان کا معمول تھا کہ شکار سے واپس آتے تو پہلے خانہ کعبہ کا طواف کرتے پھر گھر جاتے۔ مذکورہ لونڈیوں نے سارا حال بیان کیا۔ وہ غصہ میں سرخ ہو گئے۔اور ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی وہ مسجد حرام میں گئے۔ابو جہل اپنی قوم میں بیٹھا تھا۔ وہ سیدھے اس کی طرف گئے۔ اس کے سر پر کھڑے ہو گئے اور کمان اوپر تان کر اس کے سر پر دے ماری۔ شدید زخمی کردیا۔ پھر فرمایا کہ ’’ کیا تو میرے بھتیجے کو برا بھلا کہتا ہے، حال آں کہ میں انہی کے دین پر ہوں جو کچھ وہ کہتے ہیں وہی کچھ میں کہتا ہوں ۔اگر استطاعت ہے تو مجھ سے بدلہ لے لو‘‘۔ ابو جہل کے قبیلہ نے کہا تو صابی ہو گیا ہے۔ انھوں نے فرمایا: ’’ مجھے اس دین حق سے کون روک سکتا ہے؟ اب میرے لیے یہ امر عیاں ہو چکا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ حق ہے۔بخدا میں یہ دین متین نہیں چھوڑوں گا۔اگر تم سچے ہو تو مجھے اس سے روک لو‘‘۔ ابو جہل نے اپنے قبیلہ کے لوگوں سے کہا ’’ ابو عمارہ کو چھوڑ دو۔بخدا میں نے ہی ان کے بھتیجے کو ستایا تھا۔ (دھلان۔۲۶۱)حضرت حمزہ ؓ نے کہا میں اسلام قبول کرتا ہوں ، روک لو اگر روک سکتے ہو ۔ ابو جہل بھونچکا رہ گیا ۔ حضرت حمزہ ؓ کا اسلام میں داخل ہونا غیر معمولی اقدام تھا یوں کہہ دیں تو بجا ہو گا کہ ایسے بہادر اور نڈر کے اسلام قبول کرنے میںکفر کی شکست تھی ۔ ابو جہل اپنی بے عزتی و توہین کے بجز حضور ﷺ سے ناروا سلوک پر پچھتایا تو ہو گا کہ اس کی حماقت و نادانی کی وجہ سے کفر کا ایک اہم اور مضبوط ستون دھڑام سے گر گیا لیکن اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ۔ اس واقعہ سے کفار میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی کہ ان کی تمام جدو جہد اکارت گئی کیونکہ انہیں یہ خطرہ لاحق تھا کہ اگر اس طرح ایک ایک کر کے قریش کے لوگ ٹوٹتے رہے تو چند سالوں میں یہ سب کچھ ملیا میٹ ہو جائے گا ۔ ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دینے والوں کی نیندیں حرام ہو چکی تھیں ’’ ہم جس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہو گئی ‘‘ یعنی ایک ایک کر کے کفار دائرہ اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔
اعتراض نمبر۱۹۵
’’یتیم لڑکے کی حالت کچھ اچھی نہ تھی اور آخیر زندگی میں ان کے چچا حمزہ نے نشہ کی حالت میں محمدؐ کو طنزاََ اپنے باپ کا غلام کہا‘‘۔ (لائف آف محمد از مارگولیس)عبد المطلب کا آنحضرتؐ کو عزیز رکھنا ایک مسلم واقعہ ہے لیکن مارگولیس صاحب کو دادا کا پوتے پر مہربان ہونا بھی گوارا نہیں ۔
جواب:آپؐ کے دادا جان عبد المطلب کو حضرت عبداللہ اور آمنہ کے نور نظر کی ولادت باسعادت کی خبر دی گئی۔خبر سنتے ہی عبد المطلب کی آنکھوں کے سامنے اپنے نور نظر حضرت عبد اللہ کی تصویر گھومنے لگتی ہو گی۔ فوراََ اٹھے اور سیدہ آمنہ کے گھر جاکر اپنے پوتے کو دیکھ کر مسرور و محظوظ ہوئے۔( خاتم النبین ص ۱۱۸ بہ حوالہ عیون الاثر جلد ۱ ص ۸۷)
اسی وقت اٹھا کر حصول برکت کے لیے خانہ کعبہ میں مولود سید الابرار ﷺ کو لے آتے ہیں۔ دیر تک طویل عمری کی دعائیں مانگتے رہے۔ اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک کا شکریہ ادا کیا اور آپ کو اپنی والدہ کے پاس لے آئے۔ آپ کے دعائیہ کلمات اشعار کی صورت میں تھے جنھیں امام سہیلی نے’’ روض الانف‘‘ میں نقل کیا ہے۔ ان کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔
۱: ’’ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جس نے مجھے یہ پاکیزہ جسم و جان فرزند عطا کیا‘‘۔ ۲: جو جھولے میں بھی بچوں کا سردار ہے اور میں اسے رب البیت کی پناہ میں دیتا ہوں۔ ۳: جب تک یہ بولے ، باتیں کرے اور اس کی زبان کھلے، دشمنوں کا کوئی شر اسے ضرر نہ پہنچا سکے اور حاسدوں کی آنکھ سے خدا وند دو جہاں اسے محفوظ و مصئون رکھے‘‘۔(طبقات ابن سعد ج ۱)
ساتویں دن آپ کا عقیقہ کیا ۔بہت سے اونٹ ذبح کیے اور قریش مدعو کیے گئے مہمانان کی دعوت کی۔ اپنے دامن تربیت میں لیا ۔اپنی اولاد سے بڑھ کر عزیز رکھا۔اس بات کی شہادت یہ ہے جب حضرت عبد المطلب کے لیے مسجد حرام میں خانہ کعبہ کے سایہ میں ان کی نشست کے لیے فرش بچھا دیا جاتا۔اس پر صرف وہی جلوہ افروز ہوتے اور کسی کو مجال نہ تھی کہ اس فرش پر قدم رکھے سارے ارد گرد بیٹھتے لیکن وہ آپ ہی تھے جس کے لیے دادا نے دعائیں مانگیں۔وہ آپؐ ہی تھے جو دادا کے پیارے بیٹے حضرت عبد اللہ کی نشانی تھے۔وہ آپ ہی تھے جسے جھولے میں بچوں کا سردار کہا گیا ۔وہ آپؐ ہی تھے جن کے پیدا ہونے پر اللہ کا شکریہ ادا کیا گیا۔وہ آپ ہی تھے جو فرش پر بلا تکلف آکر بیٹھ جاتے۔آپ کو حاضرین ہٹانا چاہتے مگر جناب عبد المطلب نہ صرف منع کرتے بل کہ یوں فرماتے ’’ میرے بیٹے کو چھوڑ دو بخدا اس کی خاص شان ہوگی‘‘۔( سیرت ابن ہشام ج ۱ ص ۱۰۶) یہ اظہار نسبتی انتہائے کمال محبت ہے۔
دادا جان کی بے قراری:سیرت خاتم النبیین ص ۱۳۳ کے مصنف ( بہ حوالہ عیون الاثر اور دیگر کتب) بیان کرتے ہیں کہ ’’ کندیر بن سعید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ قبل از اسلام مکہ مکرمہ حج کے لیے آئے ۔وہاں دیکھا کہ ایک شخص طواف کعبہ میں مشغول اور شعر پڑھ رہا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے ’’ اے اللہ! میرے محمدﷺ کو واپس بھیج دے اور مجھ پر اپنا خاص احسان فرما‘‘۔ انھوں نے اس شخص کے متعلق پوچھا تو معلوم ہوا کہ قریشی سردار عبد المطلب ہیں ۔انھوں نے اپنے پوتے محمد(ﷺ) کو گم شدہ اونٹ کی تلاش میں بھیجا تھا کہ وہ ہر کام میں کام یاب ہوتے ہیں۔ذرا سی دیر پر ان کی جدائی میں بے قرار ہو جاتے ہیں۔تھوڑی ہی دیر بعد آپ اونٹ لیے آگئے۔دیکھتے ہی انھوں نے اپنے پوتے کو گلے سے لگا لیا اور کہا میں تمھاری وجہ سے سخت پریشان ہوں۔اب کبھی تم کو اپنے سے جدا نہ ہونے دوں گا۔ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں ایک ساتھ رہیں گے۔کبھی جدا نہ ہوں گے اور یہ مطلب ہر گز نہیں کہ موت بھی جدا نہ کر سکے گی۔انھیں موت کا یقین کامل تھا۔قدرت کے فرمان ’’ کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ سے واقف تھے۔آپ تو دنیا کی چار دن کی زندگی میں جدا نہ ہونے کا ذکر کر رہے ہیں۔
دکھی انسانیت کا مسیحا:آپﷺ غریب کی دستگیری کرتے تھے۔محتاج کی حاجت روائی کرتے تھے۔بے سہارا کا سہارا بنتے تھے۔ دکھیوں کے دکھ کا مداوا کرتے تھے۔یہی راہ حق کا راہنما اپنے جذبہ امداد و تعاون میں ہر وقت مستعد نظر آتا ہے۔آپؐ نے حضرت علیؓ کی اونٹنیوں کو چیرنے پھاڑنے پر اپنے چچا حمزہ کو تنبیہ فرمائی۔اگر حالت اچھی نہ ہوتی ،اگر آپ کچھ نہ کر سکتے ہوتے (نعوذ باللہ) تو چچا کے پاس جانے کا کیا فائدہ؟ یہی دلیل ہے کہ آپ نے چچا کا احتساب کیا اگر نہ کرتے تو کہا جا سکتا تھا کہ آپ کی حالت اچھی نہ تھی اس لیے اپنے چچا کو ایک حرف تک نہ کہہ سکے۔ اوروں کو نصیحت خود میاں فصیحت۔ حضرت خدیجہؓ کا اٹل اور فیصلہ کن بیان کہ ’’ خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو شرمندہ نہ کرے گا۔آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں۔بے وسیلہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔محتاج کی حاجت پوری کرتے ہیں۔مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں آنے والے حادثوں میں لوگوں کی امداد کرتے ہیں، کے کیا معنی؟ گویا تمام خوبیوں سے متصف تھے اور ہر خوبی کا اظہار عمل سے کر دکھایا۔حضرت حمزہ کا آپؐ کو اپنے باپ کا غلام کہنے سے یہ شوشہ چھوڑا کہ عبد المطلب آپؐ کے دادا نے انھیں غلام بنا کر رکھا ہوا تھا۔ایسی بے سر وپا دلیل ہے جس کی تردید مراجع اور مآخذ کرتے ہیں جس سے اس بات کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔وہ دادا جس نے اپنی زندگی میں آپؐ کا ہر قسم کا خیال رکھا اپنوں سے بڑھ کر سمجھا، اپنوں سے بڑھ کر عزت دی۔حتیٰ کہ مرتے وقت بھی آپ ﷺ کو بے یارومددگار نہ چھوڑا۔آپؐ کو اپنے خاندان کے ایک فرد کی کفالت کی ذمہ داری سونپی۔آخر دم تک آپؐ کا خیال رکھنے والا ذی شان دادا اس دنیا سے رحلت کرتا ہے تو آپؐ ان کے جنازہ کے پیچھے روتے جاتے تھے۔گویا آپ کو بھی اپنے دادا سے اتنی ہی شدید محبت تھی جتنی دادا کو تھی۔اسی شفقت و محبت کا نتیجہ تھا کہ اپنا تعارف اپنے دادا کی نسبت سے کرایا۔آپؐ نے ایک موقعہ پر فرمایا ’’ انا النبی لا کذب انا ابن عبد المطلب‘‘۔ کوئی شخص جس کی ذات پر کوئی احسان کرے اور عمر بھر احسان کرتا رہے تو یہ ممکن ہے کہ وہ بھی اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں اس محسن کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔آنحضرتؐ کا فرمان انا ابن عبد المطلب ہے اور انا ابن عبد اللہ نہیں فرمایا اس کی کوئی بھی وجہ ہو اظہار کمال محبت ہے جیسے کہ آپ کے والد فوت ہو گئے اور عبد المطلب آپ کے والد سے زیادہ شہرت والے تھے اور دادا کی کفالت میں رہے اور عبد المطلب کا فرزند کہا جانے لگا ۔ضمام بن ثعلبہ کی حدیث میں ہے کہ جب آنحضرت ﷺہجرت کر کے مدینہ آئے تو ضمام بن ثعلبہ مدینہ آئے انھوں نے اپنا اونٹ مسجد کے قریب بٹھایا اور پوچھا ’’ ایکم ابن عبد المطلب ‘‘ تم میں سے ابن عبد المطلب کون ہے۔ آپ کی نسبت والد کی بہ جائے دادا سے کی جاتی ہے۔ کیوں کہ لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ ’’ عبد المطلب کی اولاد سے ایک ایسا مرد ظہور کرے گا جو اللہ تعالیٰ کی طرف چلائے گا اور اس کے ہاتھوں پر اللہ تعالی مخلوق کو ہدایت فرمائے گا اور وہی مرد خاتم الانبیاء ہو گا‘‘۔(مواہب الدنیاص ۴۴۱ج اول)
دوسرا الزام کہ چچا حمزہ نے نشہ کی حالت میں محمد ﷺ کو طنزاََ اپنے باپ کا غلام کہا تھا‘‘۔ مارگولیس اعتراف کرتا ہے کہ حمزہ ؓ نشہ کی حالت میں تھے اس کی تفصیل تفہیم بخاری غزوہ بدر جلد ۶ ص ۶۶۸ اور خمس جلد ۴ ص ۶۵۵ میں ہے کہ حضرت علی بن حسینؓ نے فرمایا کہ امام حسینؓ نے ان سے بیان کیا کہ حضرت علیؓ نے فرمایا بدر کی جنگ میں غنیمت میں سے ایک اونٹنی میرے حصہ میں آئی تھی اور ایک اونٹنی نبی کریم ﷺ نے مجھے غنیمت کے خمس سے دی تھی۔جب میں نے سیدہ فاطمہ زہرہؓ بنت رسول معظم ﷺ کو رخصتی کرا لانے کا ارادہ کیا تو میں نے ایک شخص سے معاہدہ کیا جو بنی قینقاع کا سنار تھا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم ازخر گھاس لائیں۔ میرا ارادہ یہ تھا کہ ازخر گھاس سناروں کے پاس فروخت کروں گا اور اس کی قیمت سے اپنی زوجہ کے ولیمہ میں مدد لوں گا۔چناں چہ میں اپنی اونٹنیوں کے لیے سامان ،کجاوہ،گھاس کا جال اور رسیاں وغیرہ جمع کر رہا تھا اور دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کے مکان کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں۔جب میں جمع کردہ سامان لے کر آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ لیے گئے ہیں اور ان کے کولہے پھاڑ دئیے گئے ہیں اور ان کے جگر نکال لیے گئے ہیں۔جب میں نے ان کا یہ منظر دیکھا تو میں اپنی آنکھوں کا مالک نہ رہا(رونے لگا) میں نے کہا یہ کس نے کیا ہے؟ تو لوگوں نے کہا یہ حمزہ بن عبد المطلب کا فعل ہے اور وہ اس گھر میں شراب پینے کے لیے چند انصاریوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔میں وہاں سے چلا آیا اور سیدھا نبی کریم ﷺ کی مجلس شریف میں حاضر ہوا جب کہ آپؐ کے پاس زید بن حارثہؓ بیٹھے ہوئے تھے نبی کریم نے میرے چہرے سے قلبی وجدان کو پہچان لیا اور فرمایا کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میں نے آج جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا۔حمزہ ؓنے میری اونٹنیوں پر ظلم کیا۔ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کے کولہے پھاڑ دئیے ہیں۔وہ اس مکان میں ہیں۔ان کے ساتھ اور لوگ شراب پینے کے لیے جمع ہیں۔نبی کریمﷺ نے اپنی چادر منگوائی، اوڑھی پھر روانہ ہوئے۔میں اور زید آپ کے پیچھے چلے۔حتیٰ کہ آپ اس مکان میں گئے جہاں حمزہ تھے۔ آپؐ نے اجازت لی تو انھوں نے اجازت دے دی۔کیا دیکھتے ہیں کہ وہ سب شراب پی رہے ہیں۔آپ نے حمزہ کو ان کے کیے پر ملامت کی۔حمزہ کی آنکھیں شراب کے نشہ میں سرخ تھیں۔اس نے جناب نبی مکرمﷺ کو دیکھا پھر نظر اوپر کی تو آپ کو گھٹنوں تک دیکھا ۔پھر نظر اوپر کی تو آپ کو ناف تک دیکھا پھر نظر اوپر کی تو آپ کے چہرہ انور کو دیکھا ۔پھر حمزہ نے کہا تم تو میرے باپ کے غلام ہو۔ جناب رسول کریم ﷺ نے پہچانا کہ وہ نشہ میں دھت ہیں تو آپ ایڑھیوں کے بل پچھلے قدم واپس آگئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ باہر نکل آئے۔ علامہ شبلی فرماتے ہیں کہ ’’ حضرت حمزہ سخت مخمور تھے اس حالت میں وہ الفاظ ان کی زبان سے نکلے تھے۔ کیا اس حالت کا کوئی بیان شہادت میں پیش کیا جا سکتا ہے؟ (سیرت النبی ص ۱۱۶) جب کوئی شخص ہوش میں نہ ہواور اسے خبر تک نہ ہو کہ کیا کہہ رہا ہے تو اس کے کسی بیان کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔اسی لیے تو شرعی امور کے نہ کرنے کا حکم ہے۔ارشاد خداوندی ہے۔ ’’ یَاَ یُّھاَ الَّذِین اٰمِنُوا لَا تَقرَبُوا اصَّلاۃ وَاَنتُم سُکَارَیٰ حتّٰی تَعلَمُوا مَا تَقُولُونَ‘‘۔ (النساء ۴۔۳۲) ترجمہ: اے ایمان والو نہ قریب جائو نماز کے،جب تم نشہ کی حالت میں ہو جب تک کہ تم سمجھنے لگو جو (زبان سے) کہتے ہو‘‘۔
نماز کی حاضری سے روک دیا گیا کیوں کہ بے ہوشی میںجو کہا جاتاہے معلوم نہیں ہوتا۔ایک روز حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کے ہاں کئی صحابہ مدعو تھے۔کھانے کے بعد شراب کا دور چلا۔جب وہ نشہ میں دھت تھے ۔مغرب کی نماز کا وقت آپہنچا۔ایک صاحب نے امامت کرائی اور اتفاق سے سورہ الکافرون پڑھنا شروع کی۔بے ہوشی میں ’’ لا اعبد ماتعبدون‘‘ کی بہ جائے اعبد ماتعبدون‘‘ پڑھ دیا جس سے معنی بالکل بدل گئے۔ بدیں سبب حکم ہوا کہ نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جائو۔یعنی نشہ کی حالت میں کی گئی کوئی بھی کاروائی قابل یقین نہیں ہوتی کیوں کہ جب کوئی آدمی ہوش میں نہیںرہتا تو جو اس کے منہ میں آتا ہے بک دیتا ہے اس کے خلاف کارروائی درست نہیں ہے ۔اسی طرح آپ کے چچا حمزہ کا نشہ کی حالت میں طنزاََ اپنے باپ کا غلام کہنا قابل مواخذنہیں۔
دوم : تم تو میرے باپ کے غلام ہو ،اس کا معنی یہ ہے حمزہ ؓاور عبداللہؓ بھائی ہیں۔دادا کو سید اور مولیٰ کہا جاتا ہے اس سبب سے حمزہ سید عالم ﷺاور علیؓ کی نسبت عبد المطلب کے زیادہ قریب ہیں۔اس وجہ سے انھوں نے بہ طور افتخار اور مباحات یہ کہا تھا۔(تفہیم البخاری جلد ۴ ص ۶۵۸) ( یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت شراب کے حرام ہونے کا حکم نہیں ہوا تھا)
سوم: حضرت حمزہ ابھی اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے۔شکار سے واپس آرہے تھے۔ تیر کمان پاس تھی۔عبد اللہ بن جدعان کی لونڈی نے سیدنا حمزہؓ کو بتایا کہ تھوڑی دیر پہلے تیرے بھتیجے کو ابو جہل نے بہت سخت سست کہا ہے۔اپنے معمول کے مطابق حرم پہنچے یعنی شکار سے سیدھا گھر نہیں جاتے تھے حرم جاتے تھے۔ دیکھا کہ ابو جہل قریش کی ایک مجلس میں بیٹھا ہے۔ سیدھا اس کی طرف گئے اور اس کے سر پر زور سے کمان مار دی۔خون بہہ نکلا اور کہا تو محمدﷺ کو گالیاں بکتا ہے۔سن لے میں خود ان کے دین کو قبول کرتا ہوں۔ قریشی ابو جہل کی حمایت میں اٹھنا چاہتے تھے لیکن ابو جہل نے روک دیا اور کہا کہ واقعی میں نے ان کے بھتیجا کو سخت سست کہا ہے۔یہ وہی سیدنا حمزہ ہیں کہ ابھی اسلام سے مشرف نہیں ہوئے تھے اور گوارا نہیں کرتے کہ کوئی شخص ان کے بھتیجا کو نازیبا اور گستاخانہ کلمات کہے۔یہ وہی سیدنا حمزہ ہیں جنھوں نے دشمن رسول ابو جہل کا سر پھوڑ دیا۔یہ وہی سیدنا حمزہ ہیں کہ ابو جہل کے پاس بیٹھے لوگوں سے ذرا برابر نہ ڈرا اور اپنے بھتیجے کا بدلہ لیا۔یہ وہی سیدنا حمزہ ہیں جنھوں نے اسلام قبول کر لیا تو سوچیں کہ دوسرے لوگ جو آپ کی توہین کریں حضرت حمزہ برداشت نہیں کرتے اور اس وقت اپنے بھتیجے کا دفاع کرتے ہیں جب ایمان بھی نہیں لائے تھے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خود اپنے بھتیجے کو اپنے باپ کا غلام کہیں؟ دونوں باتیں قابل لحاظ ہیں اول فخر و مباحات کی بنا پر کہا یا دوم نشہ کے سبب کہا ‘ جیسا کہ واقعہ سے صاف ظاہر ہے۔اور نکتہ چیں مارگولیس کا تنقیص کا پہلو ڈھونڈ نکالنا محض تعصب و نفرت پر مبنی ہے۔ تاریخی حقائق اور شواہد اس کا رد کرتے ہیں۔ اور اس الزام کی قطعاََ ذرا برابر گنجائش نہیں۔ اللہ تعالیٰ صحیح سوچنے سمجھنے اور کہنے کی جزائے خیر عطا فرمائے۔آمین۔ نشہ کی حالت میں یہ الفاظ کہے جسے مستشرق خود تسلیم کرتا ہے۔ اگر نشہ کی حالت میں نہ ہوتے تو ایسا نہ کہتے لہٰذا پہلا اعتراض جاتا رہا کہ یتیم لڑکے کی حالت اچھی نہ تھی۔اب رہا کہ نشہ کی حالت میں کلمات کہے تو یہ کلمات بہ سبب نشہ قابل مواخذہ نہیں۔یہ مارگولیس کی نفرت و تعصب کا نتیجہ ہے کہ جانتے بو جھتے اور واقعہ کے خلاف ثبوت و شواہد کے ہوتے ہوئے نہیں مانتا اور بعض دفعہ اپنے اعتراضات کا خود بطلان کرتا ہے۔یعنی ایک بار کوئی بیان داغ دیا دوسری بار کوئی اور کبھی اس کے اپنے اعتراض کی عبارت ہی سے اعتراض باطل ہو جاتا ہے۔کبھی دیگر مستشرقین کی آراء سے باطل ہو جاتا ہے مگر مارگولیس باز نہیں آتا۔ صرف اور صرف الفاظ کو الٹ پلٹ کرکے اور بدل بدل کر لاتا ہے مگر اس کے جذبات و افکار وہی پرانے اور باطلہ ہوتے ہیں۔
الفاظ نئے ہیں مگر افکار پرانے
دستار تو بدلی ہے مگر سر نہیں بدلا
اعتراض نمبر ۱۹۶
مسلمانوں پر مظالم کے سد باب کو غرانیق کا واقعہ تصور کیا جا سکتا ہے‘‘۔ (۲۹۷ ۔مستشرقین مغرب کا انداز فکر)
جواب:راویوں کے بہ قول اگر یہ واقعہ غرانیق ہجرت حبشہ کے بعد کا ہے تو یہ محرک باقی نہ رہا۔کیوں کہ ۱۳ نبوی میں مکہ کے مرد مہاجرین کی تعداد ۹۰ تھی تو ۴ نبوی میں یہ تعداد بدیہی کم ہو گی۔ان میں سے تراسی لوگ حبشہ ہجرت کر جاتے ہیں ۔باقی حضرت طلحہؓ، حضرت سعد بن ابی وقاص،حضرت ابو بکرؓ ، حضرت عمرؓ، حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت زید بن حارثہ ؓ رہ جاتے ہیں۔یہ کفار کی دسترس میں نہیں تھے۔ اگر غرانیق کا واقعہ قبل ہجرت حبشہ واقع ہوتا ہے۔پھر بھی مظالم قریش اس واقعے کے محرک نہیں ہو سکتے۔بایں سبب کہ پہلے تین سال خفیہ تبلیغ کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اعلانیہ تبلیغ ۴ نبوی میں شروع ہو تی ہے۔ جب اسلام کا سیل حق بڑھتا ہوا کہیں نہیں تھمتا ۔تب قریش کے ظلم و ستم اور جبر و تشدد کی مہیب آندھیاں چلنے لگتی ہیں۔اہل مکہ کی اذیتوں سے بچنے اور اسلامی تعلیمات کو بجا لانے کی خاطر ہجرت حبشہ واقع ہوتی ہے۔
اعتراض نمبر ۱۹۷
’’واٹ کے بہ قول کفار مکہ کی طرف سے ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گئے ان کے بیان میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا۔قریش کی طرف سے حریفانہ دبائو بہت معمولی تھا‘‘۔(محمد رسول اللہ۔۳۶۵)
’’واٹ‘‘ ظلم و ستم کے ان واقعات کو مبالغہ آرائی کی بھینٹ چڑھا کر مشکوک بنا دیتا ہے۔اس کے نزدیک قریش کی طرف سے حریفانہ دبائو معمولی تھا۔ مسلمانوں نے اگرچہ اس دبائو کو مبالغہ سے بیان کیا ہے۔دراصل اس سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ معمولی ستم کی وجہ سے کسی نے اسلام نہیں چھوڑا۔ ابن اسحق کے حوالے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ محمدؐ کو سب و شتم کا نشانہ بنایا گیا اور معمولی انداز کے اہانت آمیز واقعات پیش آئے،جیسے پڑوسیوں کا ان کے گھر کے سامنے کوڑا کرکٹ ڈال دینا۔ابو طالب کے انتقال کے بعد غالباََ پریشان کرنے کا سلسلہ تیز ہو گیا تھا۔مگر مسلمانوں پر دبائو کی چند صورتیں تھیں‘ جیسے کسی مسلمان پر اس قبیلہ والوں کی طرف سے دبائو جس سے رکاوٹ ڈالنا یا لفظی سب و شتم کا نشانہ بنانا اور اسی قسم کی دوسری کاروائیاں جو عزت و شرف کے مروجہ قانون کے خلاف نہ ہوں‘ اس طرح کے دبائو سے اسلام کو فروغ ہی ملتا تھا۔( علوم اسلامیہ اور مستشرقین ۹۷)
جواب:ظلم و ستم کی تفصیلات تا ریخی کتب میں موجود ہیں۔ہر چھوٹی بڑی سزا کو تاریخ نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے۔ان واقعات کو تعصب کی نظر سے پڑھ کر انکار کرنا مستشرقین کی پرانی روش ہے۔کوئی بھی شخص تاریخ کے مطالعہ سے اس باب کو پڑھ کر اندازہ لگا سکتا ہے کہ لوگوں کو نئے دین میں داخل ہونے کے جرم کی پاداش میں گھنائونی سزائیں دی جاتی رہیں۔دھونس، دھمکی،مار کٹائی سے کام لیا جاتا ہے۔ دہکتے انگاروں پر چت لٹاتے۔ گرم پتھر چھاتی پر رکھ دیتے،کبھی پتھریلی زمین پر گھسیٹتے اور کبھی گرم گرم ریت پر گرا دیتے۔بھوکا رکھتے،دھوپ میں بٹھا دیتے۔یہی نہیں انھیں دیس نکالا دے دیتے۔ جلا وطن ہونے والوں کے مال و دولت اور جائیداد پر قبضہ جما لیتے ہیں۔مسلمانوں نے ہر ظلم برداشت کیا مگر اسلام کو گلے لگائے رکھا کبھی ایسا وقت نہ آیا کہ مومنین نے مختلف شدید مظالم کو برداشت نہ کر کے دین سے راہ فرار اختیار کی ہو لیکن اس کی تردید میں’’ واٹ‘‘ یہ دلیل لاتا ہے کہ ایسے مظالم سے مسلمان یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ لاکھ ستم سہے مگر وہ دین اسلام پر ڈٹے رہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قریش کے مظالم اس وجہ سے تھے کہ ان تکالیف اور ظلم روا رکھنے سے مسلمان اس نئے دین کو چھوڑ کر دوبارہ اپنے دین پر لوٹ آئیں گے اور نئے لوگ اس نئے دین کو اختیار کرنے سے باز رہیں گے۔لیکن ان کی یہ خام خیالی رنگ نہ لا سکی۔کسی نے دین اسلام قبول کر کے اسے پھر خیر باد نہ کہا۔ہر طرح کے ظلم کو برداشت کیا حتیٰ کہ موت کو گلے سے لگا کر ابدی نیند سو گئے۔اسلام پر مر مٹے۔یہ لوگ موت سے گھبراتے نہیں تھے۔تشدد و زیادتی ان کا کچھ بگاڑ نہ سکتی تھی بل کہ وہ توپ سے ٹکرا جانے والے تھے۔
یعنی تیغ تو کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے ہیں۔ اس بلا کے حوصلہ والے لوگ کب اپنے درست موقف سے انحراف کر سکتے تھے۔مستشرق ’’ واٹ‘‘ کا کہنا مبالغہ آرائی ہے اور ابن اسحق کے حوالہ سے محمدؐ کو سب و شتم کا نشانہ بنایا گیا اور معمولی اہانت آمیز واقعات جیسے پڑوسیوں کا ان کے گھر کے سامنے کوڑا کرکٹ ڈالنے کے پیش آئے۔متعصب مستشرق کے کہنے پر یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتاکیوں کہ ابن اسحق کے علاوہ دیگر تاریخی کتب ان واقعات سے بھری پڑی ہیں۔وہ کیوں کر اس کو نظر نہیں آئیں۔نیز مسلمانوں کے غیر متزلزل ایمان کو دیکھ کر یہ تہمت دھری کہ قریش کا مسلمانوں پر حریفانہ دبائو معمولی تھا۔ مسلمانوں پر دبائو کی چند صورتیں بیان کرتا ہے۔اول مسلمانوں پر اس کے قبیلہ والوں کی طرف سے دبائو جس سے قبائلی تعلقات متاثر نہ ہوں اور وہ فرد بھی ایسا ہو جسے کسی قبیلہ کی حمایت حاصل نہ ہو۔ ذرا سوچئے کہ ابو بکر صدیقؓ اور عثمان غنیؓ جیسی مقتدر شخصیتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور ظلم و زیادتی سے قبائلی تعلقات متاثر نہیں ہو سکتے تھے۔انھیں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔عثمان غنی ؓنے دوبارہ ہجرت کی۔ آپؐ کی اہلیہ بھی آپؐ کے ساتھ تھیں۔ہجرت کرنے والے ہتھے چڑھ جاتے تو انھیں روک لیا جاتاہے اور پہرے لگا دیے جاتے ہیں اور کبھی موقعہ پر تشدد کیا جاتا ہے اور روح فرسا واقعات پیش آتے ہیں۔جیسے سفر ہجرت میں سیدہ زینبؓ کی مزاحمت ہیار بن الاسود نے نیزہ تان کر کی تھی۔اس صدمہ سے ان کا حمل ساقط ہو گیا تھا۔کیا ا س سے قبائلی تعلقات متاثر نہیں ہو سکتے تھے۔گویا ’’واٹ‘‘ اپنی خفگی کو دور کرنے کے لیے یہ الزام لگاتا ہے جس میں ذرا برابر بھی حقیقت نہیں۔ ’’واٹ‘‘ کہتا ہے معاشی معاملات میں رکاوٹ ڈالنا یا لفظی سب و شتم کا نشانہ بنانا اور اسی قسم کی دوسری کاروائیاں جو عزت و شرف کے مروجہ قانون کے خلاف نہ ہوں، اس طرح کے دبائو سے اسلام کو فروغ ہی ملتا تھا۔ معاشی و معاشرتی مقاطعہ کچھ کم سزا ہے؟ خوردنی اشیاء کی کمی کے باعث بچے بلکتے رہتے تھے۔ایک بڑے کو چمڑا ملا۔اس نے دھو کر اور بھون کر کھایا یا درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرتے تھے۔ اشیاء کی خرید و فروخت ممنوع تھی۔ اگر خریدنے جاتے تو اتنے مہنگے دام بتائے جاتے کہ مسلمان خرید نہ سکتے تھے۔ مہنگی قیمت بتانے کا عندیہ ابو لہب نے دیا تھا۔ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر آپ کو اندیشہ ہو کہ اتنی قیمت پر کوئی اور نہ خریدے گا اور تمھیں خسارہ ہوگا تو یہ خسارہ میں پورا کردوں گا۔ ( سیرۃ النبویہ دھلان ۳۳۲) معاشرتی پابندی شادی بیاہ،صلح،نرمی و مہربانی اور مجلس میں آنے جانے پر تھی۔یہ بائیکاٹ زندگی کو مفلوج کرنے کا کارگر حربہ تھا لیکن اس مقاطعہ میں آپؐ اور آپؐ کے ساتھی سرخ رواور کام یاب ہوئے۔ قید اور نظر بندی کا رواج عرب میں قطعاََ نہ تھا۔ ’’واٹ‘‘ کیسے کہہ دیتا ہے کہ عزت و شرف کے مروجہ قانون کے خلاف مظالم نہ ہوئے جب کہ عرب میں مقاطعہ کا رواج بھی نہ تھا۔ یہ بات تین میں نہ تیرہ میں۔ المختصر ’’واٹ‘‘ ان پہاڑ جیسی مصیبتوں اور اذیتوں کا اندازہ بہ خوبی لگا لیتا اگر وہ قرآن پاک کی سورہ عنکبوت،سورہ قصص،سورہ زمر اور سورہ النحل کا مطالعہ کرتا۔ حقیقت یوں ہے کہ
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
اگر اسے سچی اور غیر جانب دار انہ بات کہنا ہوتی تو یہ الزام کیوں لگاتا یا الزام لگا کے مصادر و مآخذ سے تحقیق و تفتیش کر لیتا اور اپنی بات اور رائے قائم کر لیتا لیکن ان کی طبع دم تولہ دم ماشہ میں سکون کہاں۔
اعتراض نمبر۱۹۸
’’ سرولیم میور‘‘ یہ استدلال کرتے ہیں کہ واقعہ غرانیق ان دلائل کی روشنی میں صحیح ہے کہ مہاجرین جو نجاشی کی سلطنت میں آرام و سکون کی زندگی بسر کر رہے تھے۔اگر ان کو محمدؐ اور کفار کے باہم مفاہمت کی اطلاع نہ ملتی تو وہ حبشہ سے قیام ترک کر کے اپنے عزیزوں میں رہنے کے لیے مکہ واپس نہ آتے‘ نہ حضرت محمدﷺ اور قریش کی مصالحت ہی اس صورت کے بغیر ہو سکتی تھی۔کیوں کہ حضرت محمدؐ کے مقابلہ میں قریش اس قدر طاقت ور تھے کہ ان کے دوست دار بھی ان کے ظلم و ستم سے محفوظ نہ تھے اور قریش کو صلح کا یہ اچھا بہانہ ہاتھ آگیا تھا ۔( حیات محمد ۱۹۳)
جواب:مسلمانوں کی حبشہ سے واپسی کے دو اسباب ہیں۔ یہ دونوں نہایت قوی ہیں پھر بھی حضرت عمر ؓ کا اسلام لانا بہت بڑا سبب ہے۔ مہاجرین کی حبشہ سے واپسی سے کچھ عرصہ پہلے خلیفہ ثانی کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ پیش آتا ہے۔ ان کی اسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ایک موقعہ پر وہ تلوار لیے داعی اسلام کا کام تمام کرنے نکل پڑتا ہے (نعوذ باللہ )اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ جب وہ اسلام قبول کرتے ہیں تو برملا اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور لمحہ بھر کے لیے اسلام قبول کرنے کو پوشیدہ نہیں رکھتے ہیں۔ مخالفین نے مخالفت کا بازار گرم کیا تو آپ نے بڑھ کر ان کا مقابلہ کیا حتیٰ کہ وہ کعبہ میں کھلم کھلا نماز ادا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری میں خوف اور ڈر کا خیال تک نہیں رکھتے ہیں۔دوسری اہم وجہ یہ کہ اگر مسلمانوں کو ایذائیں دینے کا سلسلہ جاری رہا تو خانہ جنگی کا دروازہ کھل جائے گا۔پھر خدا جانے یہ سلسلہ کب رکے اور کن کن کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا۔ قریش یہ بھی جانتے تھے کہ ان قبائل اور خاندانوں میں سے کئی لوگ اسلام قبول کر چکے ہیں۔اب ان میں سے کسی کا قتل ہوتا ہے تو متعلقہ قبائل ان کی حمایت میں نکل کھڑ ے ہوں گے۔ایسے حالات میں ان کے پاس یہی چارہ تھا کہ وہ خود کوئی صلح کی راہ نکالیں۔یہ حالات مہاجرین حبشہ کے لیے غور کا باعث ہوئے اور سوچا کہ اگر قریش درپے آزاد نہیں ہیں تو کیوں نہ مکہ کو مراجعت کی جائے۔
اعتراض نمبر ۱۹۹
’’واٹ‘‘ کہتا ہے ’’ اس سلسلے میں ہمیں شیطانی آیت کی داستان کو مدنظر رکھنا چاہیے ۔اس قصہ کو بنیادی طور پر درست ہونا چاہیے کیوں کہ کوئی بھی مسلمان اسے محمدﷺ کے بارے میں گھڑنے کی جسارت نہیں کرتا تھا اور بلا شبہ اس کی تصدیق قرآن میں موجود ہے۔قصہ یہ ہے کہ غالباََ ۶۱۵ء یعنی ہجرت سے سات سال پہلے ان کے پاس وحی آئی کہ یہ بڑی پہنچ والیاں ہیں (دیویاں) اور ان سے شفاعت کی امید کی جا سکتی ہے۔محمد ؐ نے فوراََ اس وحی کو لوگوں تک پہنچایا اور ان کی عبادت کی اجازت نے مکہ کے باسیوں کو محمد کے ساتھ عبادت میں شریک ہونے پر مائل کردیا۔بعد میں بہ ہر حال محمدﷺ کو یہ احساس ہوا کہ یہ آیات درست نہیں ہو سکتیں اور پھر ان پر آیتیں صحیح تسلسل میں نازل ہوئیں‘‘۔ (مستشرقین کا نداز فکر ۲۸۹۔۲۸۸)
جواب:’’واٹ‘‘ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ کچھ عرصہ تک پیغمبر اسلامﷺ اور ان کے پیرو ایک خدا کے ساتھ دوسری دیویوں کی عبادت میں کوئی مضائقہ تصور نہیں کرتے تھے۔ واٹ اس واقعہ کو مصالحت کی کوشش قرار دیتا ہے اور پھر اسی وقت اپنے دعویٰ کی تردید کرتا نظر آتا ہے گویا موافقین اور مخالفین کو ایک ہی تیر سے دو شکار کرنے کی خوب کاوش کرتا ہے۔لکھتا ہے ’’ محمد ﷺ مکہ کے سرکردہ لوگوں کے ساتھ کسی مصالحت کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کا مدخولہ الفاظ کی غلطی کا احساس دراصل اس بات کا احساس تھا کہ مصالحت ناممکن تھی‘‘۔ کلائن نے اس واقعہ کو بت پرستی کا نام دیا۔کوئی اس واقعہ سے اخذ کرتا ہے کہ قرآن محمدؐ کی تصنیف ہے۔کوئی کہتا ہے کہ یہ موقع پرستی ہے وغیرہ وغیرہ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...