Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم |
حسنِ ادب
سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم

مقاطعہ قریش
ARI Id

1689956752314_56117769

Access

Open/Free Access

Pages

۱۷۸

مقاطعہ قریش
رفتہ رفتہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا چند نفوس قدسیہ حضرت عمر ؓ اور حضرت حمزہ ؓ جیسے جری ، نڈر، صائب الرائے اور پختہ عزم و عقیدہ کے مالک تھے ۔ یہ نامور اور شہرت یافتہ لوگ تھے یہ بنیادی حیثیت رکھتے تھے ۔ ہمالیہ پہاڑ کااپنی جگہ سے ٹل جانا ممکن تھا لیکن ان کا اپنے موقف سے ہٹ جانا نا ممکن تھا ۔ صحابہ کرام کو جس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کفار کو منہ کی کھانا پڑی اور جتنی شدت سے نا روا ظلم اور بہیمانہ سلوک روا رکھا گیا وہ اسی قدر نا کام اور نا مراد ہوئے ۔ کفار کے عزیز و اقارب ایک ایک کر کے اسلام قبول کر رہے تھے ۔ کلمہ حق کی صدا بلند کرنے اور اسلام کو سینے سے لگانے میں جو کچھ مسلمانوں پر بیتی اس کے تصور سے انسان لرزہ بر اندام ہو جاتا ہے ۔صحابہ کرام کے بجز حضور ﷺ بھی قریش کی ایذاء رسانیوں سے محفوظ نہ تھے کفار کے تیار شدہ (ready made ) اور آموختہ بچے آپ ﷺ پر پتھر برساتے اور گالیاں بکتے ، کبھی مجنون و ساحر اور کبھی کاہن و شاعر کہہ کر تمسخر اڑاتے ، آپ ﷺ پر کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ، اونٹ کی اوجھڑی آپ ﷺ کی پشت پر حالت نماز میں ڈال دیتے بعض دشمن راہ میں کانٹے بیچھاتے حتی کہ طائف میں انسانیت سوز ظلم کیا آوارہ لڑکوں کو پیچھے لگایا وہ آوازیں کستے ، پتھر پھینکتے جس سے آپ ﷺ لہو لہان ہو گئے اور خون سے جوتے بھر گئے۔ کسی نے چادر گلے میں ڈال کر بل کس دئیے کہ آنکھیں باہر نکل آئیں ۔اسلام سے بر گشتہ کرنے کے لیے دنیا بھر کے جتن کیے ۔ جب ہر حربہ اور ظلم و ستم میں بجھا ہر تیر آزما چکے اور دیکھ لیا کہ آپ ﷺ کی عزیمت و استقامت میں رتی برابر فرق نہ آیا تو سر جوڑ کر بیٹھے تا کہ اس کا حل تلاش کیا جا سکے اور سابقہ نا کامیوں کا بھی ازالہ ہو سکے ۔بالآخر وہ آپ ﷺ کے چچا ابو طالب کے پاس چلے آئے اور کھری کھری سنا دی کہ ہم تمہارے بھتیجے سے بہت کچھ سن چکے ہیں۔ ہمارے آبائو اجداد کی عزت و عظمت خاک بوس ہو چکی ہے۔ اب مزید سننے کی ہمت نہیں رہی اور کچھ بھی سہا نہیں جائے گا۔ پیمانہ صبر لبریز ہو چکا ہے۔ لہٰذا اب دو باتیں ہیں ان میں سے ایک کو ، جو جی چاہے انتخاب کر لیں۔ پہلی یہ کہ محمد ﷺکو ہمارے حوالے کر دو تاکہ ہم اس سے اپنی توہین و رسوائی کا بدلہ لے سکیں اور دوسری یہ کہ مقاطعہ کے لیے تیار ہو جائو ، یہ ہمارا متفقہ فیصلہ ہے اور اس وقت تک صلح نہیں ہو گی جب تک آپ ﷺ کو ہمارے حوالے نہ کر دیں ۔معاہدہ میں یہ طے پایا کہ
۱۔ کوئی شخص بنو ہاشم کے خاندان سے شادی و بیاہ نہیں کر ے گا ۔
۲۔ کوئی شخص ان لوگوں کے ساتھ میل جول ، سلام و کلام ، ملاقات اور بات تک نہیں کرے گا
۳۔ کوئی شخص ان کے ہاتھ سے کسی قسم کا سامان خرید و فروخت نہیں کرے گا ۔
۴۔ کوئی شخص ان کے پاس خورونوش کا سامان نہیں جانے دے گا ۔
۵۔ علامہ برہان الدین ؒ نے سیرت میں لکھا کہ معاہدہ میں یہ طے پایا تھا کہ بنو ہاشم کو بازاروں میں آنے سے روکا جائے گا ۔
۶۔ تاریخ ذہبی میں ہے کہ بنو ہاشم کو اپنے محلوں میں نہیں بٹھائیں گے ۔
۷۔ اس مقاطعہ کی تحریر لکھ کر کعبہ کے دروازے پر آویزا ںکر دی گئی۔ اس پر تمام روسائے قریش کے دستخط ثبت تھے گویا اس معاہدہ سے انحراف کی کوئی گنجائش نہ رہی ۔ اس معاہدہ کو منصور بن عکرمہ نے لکھا اس بد نصیب کاتب کا ہاتھ شل ہو گیا جس ہاتھ سے اس نے تحریر کیا تھا ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ۔
یار گو دوست بود جملہ جہاں دشمن باش
بخت گو پشت مدہ روئے زمین لشکر گیر
ترجمہ: (جب محبوب دوست ہو تو پرواہ نہیں خواہ جہان سار ا دشمن بن جائے ۔اگر بخت مدد کرے تو پرواہ نہیں سارا زمانہ لشکر کشی کرے)
سید امیر علی ( روح اسلام ۔۱۲۱)لکھتے ہیں کہ اس معاہدہ سے بنی ہاشم و المطلب خوف زدہ ہوئے اور اس اندیشے سے کہ مبادا یہ کسی مزید حملے کا پیش خیمہ ہو ، انہوں نے یہ مناسب سمجھا کہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر جو شہر میں جا بجا بکھرے ہوئے تھے ایک جگہ جمع ہو کر رہیں ۔ چنانچہ ابو لہب کے سوا سارے شعب ابی طالب میں چلے گئے جو مکہ کی مشرقی مضافات میں ایک لمبی اور تنگ گھاٹی ہے جسے چٹانوں اور دیواروں نے شہر سے جدا کر رکھا ہے ۔ اور جہاں سے شہر میں آ مد و رفت کا ایک چھوٹے سے دروازے کے سوا کوئی راستہ نہیں ۔ بنی ہاشم و بنی مطلب ابو طالب کے پاس آئے اور وہ ان لوگوں کو اور رسول اللہ ﷺ کو لے کر شعب ابی طالب چلے گئے اس شعب میں تقریبا َتین سال گزارے۔
شعب ابی طالب میں آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے دیگر اہل خاندان کا تین سال تک محصور رہنا سیرت نبوی کا ایک اہم اور غور طلب واقعہ ہے ۔ اس کی اہمیت تو اس لیے واضح ہے کہ کفار قریش اور مخالفین اسلام نے تحریک اسلامی کو دبانے ، مٹانے اور ختم کرنے کے لیے جو حربے استعمال کیے اور نبی ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو انتہائی سخت اذیتیں پہنچانے کی جو صورتیں اختیار کیں۔ ان میں سے ایک صورت یہ واقعہ بھی ہے ۔ جس زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا آپ ﷺ کو نبوت ملے چھ سال گزر چکے تھے لیکن اس سارے عرصے میں انتہائی نا روا سلوک کے با وجود قریش نے آنحضرت ﷺ کے خلاف کبھی اس سے زیادہ سخت اقدام نہیں کیے تھے ۔ بلا شبہ مصائب و آلام کا دور ما قبل بھی قریش کی ظالمانہ تاریخ کا ایک حصہ ہے جس میں ترغیب و ترہیب کا ہر انداز ملتا ہے لیکن ایک حلف نامے کے ذریعے حضور ﷺ اور خاندان بنو ہاشم کا معاشی و معاشرتی مقاطع کرنا سخت الم انگیزاور کافرانہ سیاست کی انتہائی شاطرانہ چال تھی جس کے نتائج ان کی توقع کے مطابق تو نہ نکلے لیکن بہر حال اس کے ذریعے تین سال تک داعی اسلام ﷺ اور بنو ہاشم کو عذاب میں مبتلا رکھا گیا ۔
اور یہ واقعہ غور طلب اس لیے ہے کہ اگرچہ اس کا ذکر کم و بیش ہر قدیم و جدید سیرت نگار نے کیا لیکن جس انداز سے کیا ہے اور جو تفصیلات فراہم کی ہیںان سے بدیہی طور پر یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ جب قریش نے بنو ہاشم کا مقاطع کرایا تو اس کے بعد تین سال تک بنو ہاشم کو واقعی محصوری اور نظر بندی کا سامنا کرنا پڑا ۔ان کے بیانات سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ بنو ہاشم کی رہائش الگ کسی مقام پر تھی۔ ( جیسا اوپر سید امیر علی کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور محصوری کا واقعہ دوسرے مقام شعب ابی طالب میں پیش آیا جس کی صورت یہ ہوئی کہ بنو ہاشم اس اعلان مقاطعہ کے بعد مکہ سے نکلے اور سامان خور ونوش باندھ کر وہاں جا بیٹھے اور اپنے پر باہر نکلنے کے سارے دروازے بند کر لیے پھر جب تین سال بعد معاہدہ ختم ہوا تب یہ لوگ وہاں سے نکل کر دوبارہ اپنی رہائش گاہوں میں منتقل ہوئے حالانکہ کم و بیش کسی سیرت نگار نے یہ تصریح نہیں کی کہ بنو ہاشم کی رہائش کس جگہ تھی اور شعب ابی طالب کہا ں اور ان کی اصل رہائش گاہ سے کتنے فاصلے پر واقع تھا۔ یہ صورت حال اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ مندرجہ ذیل مسائل پر غور کیا جائے :
۱۔ شعب ابی طالب میں محصوری کیوں ہوئی بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں مقاطعہ کیوں کیا گیا ؟
۲۔ مقاطعہ صرف بنو ہاشم کا کیوں کیا گیا۔؟
۳۔ شعب ابی طالب کیا ہے اور کہاں واقع ہے ؟
۴۔ مقاطعہ کی نو عیت کیا تھی ؟
۵۔ مقاطعہ کیسے ختم ہوا ؟
ہم اسی ترتیب سے ان مسائل کا جائزہ لیں گے ۔
جہاں تک مقاطع کا تعلق ہے ، اس میں کوئی ابہام یا پیچیدگی نہیں پائی جاتی ۔ سیرت کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ کفار قریش کی چھ سال سے زائد کی معاندانہ کوششیں آپ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کے پائے ثبات میں برائے نام بھی اضمحلال پیدا نہ کر سکی تھیں ۔ دھمکی اور لالچ کا ہر وار ہدف سے دور اور سختی و نرمی کا ہر حربہ کند ہو چکا تھا بلکہ تماشہ یہ تھا کہ تحریک کو دبانے کی ہر کوشش الٹا اس کے فروغ کا باعث بن جاتی تھی یہاں تک کہ دعوت حق سے مکہ کے دشت و جبل گونج اٹھے اور حبشہ کے سرکار و دربار تک اعلان حق پہنچ گیا ۔ پھر حضرت ابو بکرؓ و عثمانؓ و حضرت حمزہ ؓ اور بالآخر حضرت عمر ؓ جیسے با اثر افراد مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے یہ سب حالات مشرکین و کفار کو بر افروختہ کرنے کے لیے کافی تھے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ نبی ﷺ کے چچا ابو طالب صاحب ایمان نہ ہونے کے باوجود داعی اسلام ﷺ کی پشت پناہی کر رہے تھے اور ان کی موجودگی میں آپ ﷺ کا ہاتھ ڈالنا یقینا ایک مشکل امر تھا غرض ان اسباب نے اہل قریش کو مقاطعہ کا سخت قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا جس سے ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ انتہائی سختیوں سے گھبرا کر یا تو خود نبی اکرم ﷺ اپنی دعوت سے دست بردار ہو جائیں گے یا بصورت دیگر ( مومن و کافر) اہل خاندان ان مصائب و آلام کو برداشت کرنے کے مقابلے میں آپ ﷺ کو قریش کے حوالے کرنے میں زیادہ عافیت محسوس کریں گے ۔چنانچہ قریش کے اس مقصد کی توضیح اس معاہدہ میں موجود ہے جس کے ذریعے انہوں نے بنو ہاشم کو یہ سزا دی تھی اور خاص طور پر یہ بات کہ یہ معاہدہ اس وقت تک رہے گا جب تک کہ ( یسلمو االیھم النبی صل اللہ علیہ وسلم ) یعنی بنو ہاشم نبی ﷺ کو قتل کے لیے قریش کے حوالے نہ کر دیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ :
الف۔ قریش نے یہ مقاطعہ صرف تین سا ل کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ غیر معینہ مدت کے لیے اور اس وقت تک کے لیے تھا جب تک کہ بنو ہاشم نبی ﷺ کو قریش کے حوالے نہ کردیں ۔ یہ محض اتفاق ہے کہ خدا کی کرشمہ سازی سے دیمک اس معاہدہ کو چاٹ گئی یا کچھ لوگوں نے جرات و بہادری سے کام لے کر اس ظالمانہ معاہدے کو ختم کرانے کی سنجیدہ کوشش کی تھی ورنہ ایک غیر معینہ مدت تک مقاطعہ کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا تھا ۔ ممکن تھا کہ بنو ہاشم حضور ﷺ کو دشمنوں کے حوالے کر دیتے ۔ ممکن تھا کہ سارے بنو ہاشم جوش حمیت میں مسلمان ہو جاتے اور یہ بھی ممکن تھا کہ خود قریش اس معاہدہ پر زیادہ دیر تک متحد و متفق نہ رہ سکتے بہر حال یہ بات طے ہے کہ مذکورہ بائیکاٹ غیر معینہ مدت کے لیے تھا ۔
ب۔ قریش کا اصل مقصدیہ تھا کہ بنو ہاشم کی پشت پناہی سے دست بردار ہو کر آپ ﷺ کو ان کے حوالے کر دیں تاکہ وہ آپ ﷺ کے خلاف من مانی کا ر روائی کر سکیں ۔
۲۔ اس مر حلے پر یہ سوچنا چاہیے کہ قریش نے ترک موالات کا معاملہ صرف بنو ہاشم کے ساتھ ہی کیوں مخصوص رکھا دوسرے اہل ایمان جن کا تعلق عرب کے مختلف قبائل سے تھا اس سے مستثنیٰ اور کسی قسم کی پابندی سے آزاد کیوں تھے ؟ دوسرے الفاظ میں مقاطعہ کے دائرے میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ دوسرے تمام مسلمانوں کو شامل کیوں نہ کیا گیا ہمارے خیال میں اس کی مندرجہ ذیل وجوہ ہیں :
الف۔ نبی رحمت ﷺ خاندان بنو ہاشم سے تعلق رکھتے تھے ۔ قریش کی دشمنی کا ہدف اصل میں آپ ﷺ ہی کی ذات تھی پھر وہ خاندان ہی ان کی نگاہ میں مبغوض بن گیا جس سے آپ ﷺ کا تعلق تھا یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ اگر کسی کے نزدیک کوئی شخصیت محبوب ہو تو اس سے متعلقہ دوسری اشیاء بھی محبوب ہو جاتی ہیں اور اس کے برعکس اگر نفرت ہو تو پھر اس سے تعلق رکھنے والی ہر چیز نا پسندیدہ اور مکرو ہ قرار پاتی ہے ۔
ب۔ آپ ﷺ کے بعد دوسرے درجے میں دشمنی ابو طالب سے تھی جو اپنے بھتیجے کی (ان کے خیال میں ) حمایت بے جا کر رہے تھے اور جنہوں نے آپ ﷺ کی حمایت کو ہاشمی وقار کا مترادف قرار دے کر بجز ابو لہب کے تمام مومن و کافر بنو ہاشم کو اپنا ہمنوا بنا لیا تھا ۔
ج۔ آپ ﷺ کو کفار قریش کے حوالے کر لینے کی ذمہ داری قبائلی دستور کے مطابق بنو ہاشم کی تھی جس سے حضور ﷺ کے چچا اور بنو ہاشم کے سردار ابو طالب نے صاف انکار کر دیا تھا اور یہاں تک جواب دے دیا تھا کہ ’’ ہم محمد ﷺ کو اس وقت دشمن کے حوالے کریں گے جب ان کے گرد لڑ کر مر جائیں اور ہم اپنے بیٹوں اور بیویوں سے بھلا دئیے جائیں ‘‘۔ اس بناء پر آپ ﷺ تو ان کے براہ راست مجرم تھے ہی ، بنو ہاشم اور ابو طالب بھی بالواسطہ طور پر مجرم بن گئے ۔اس لیے قریش چاہتے تھے کہ حضور ﷺ کی حمایت بے جا کاان سب کو مزہ چکھائیں ۔
د۔ چونکہ اہل ایمان کا تعلق عرب کے مختلف قبائل سے تھا اس لیے اگر قریش تمام مسلمانوں کا بیک وقت مقاطعہ کر دیتے تو معاملہ یہ ہوتا کہ وہ کس کس سے جنگ مول لیتے اور پھر کون کون ان کا شریک معاہدہ ہوتا ۔ آخر عصبیت جاہلیت کا معاملہ تھا اس بنا ء پر مقاطعہ کو انہوں نے صرف بنو ہاشم تک محدود رکھا ۔
ہ۔ اس مقاطعہ کے ذریعے وہ عام مسلمانوں کو بنو ہاشم ( دراصل نبی ﷺ ) سے کاٹ کر الگ کرنا چاہتے تھے تاکہ دوسرے مسلمان اور آپ ﷺ ممکن حد تک ایک دوسرے سے غیر متعلق رہیں ، آزدانہ میل جول نہ رکھ سکیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قریش کے خلاف متحدہ محاذ نہ بنا سکیں ۔ اس میں ایک فائدہ ان کے لحاظ سے یہ بھی تھا کہ سب پر الگ الگ سختیاں کرنے میں آسانی ہو گی اور اس طرح اجتماعی مظلومیت میں جو ڈھارس بندھ جاتی ہے وہ باقی نہ رہے گی ۔
و۔ قریش یہ گمان رکھتے تھے کہ اگر بنو ہاشم کے بارے میں مقاطعہ کا تجربہ کامیاب ہو گیا تو پھر دست تظلم رفتہ رفتہ دوسرے قبائل کے مسلمانوں تک دراز کر دیا جائے گا گویا یہ پہلا تجربہ تھا جسے اگلے ظالمانہ تجربات کی بنیاد بنایا جا سکتا تھا بہر حال ان اسباب و مصالح کے پیش نظر قریش نے بنو ہاشم پر اس مقاطعہ کو نافذ کر دیا جو اتفاقاََ تین سال تک جاری رہ سکا ۔
۳۔ لمحہ بھر کے لیے شعب ابی طالب پر نظر ڈالی جائے ۔ شعب ابی طالب دراصل مکہ معظمہ کے محلے کا نام تھا جس میں بنو ہاشم رہا کرتے تھے اور وہ ان کا موروثی تھا ۔ شعب عربی زبان میں درہ یا گھاٹی کو کہتے ہیں چونکہ یہ محلہ کوہ ابو قبیس کی گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں واقع تھا اور ابو طالب بنو ہاشم کے سردار تھے اس لیے اسے شعب ابی طالب کہا جاتا ہے ۔ یہاں یہ وضاحت بے جا نہ ہوگی کہ شائد شعب کے لفظ سے لوگوں کو بالعموم یہ مغالطہ ہو ا ہے کہ یہ اصل رہائش گاہ سے دور کوئی پہاڑی درہ ہوگا جہاں جا کر بنو ہاشم محصور و نظر بند ہو گئے ، حالانکہ مکہ کے طبعی حالات جاننے والا ہر شخص اس حقیقت کا علم رکھتا ہے کہ مکہ بجائے خود ایک وادی ہے اور پورا شہر چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے ۔مکہ کا بیشتر علاقہ پہاڑی ہے اور میدانی حصہ بہت کم پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ کچھ عادتاَ َکچھ مجبوراَ َمکہ کی آبادی جن محلوں میں بٹی ہوئی تھی اس میں سے بیشتر پہاڑی دروں اور گھاٹیوں ہی میں واقع تھے ۔ اس لیے تاریخ میں شعب ابی طالب کے علاوہ دوسرے بیسیوں شعب کے نام پائے جاتے ہیں مثلا شعب آل الا نفس یا شعب الخوارج ، شعب المطلب ، شعب ابی زیاد ، شعب آل عمرو ، شعب بنی کنانہ ، شعب بنی اسد ، شعب بنی عبداللہ شعب بنی عامر وغیرہ وغیرہ ۔
علاوہ ازیں تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مکہ کی آبادی ابتداء میں حرم کعبہ سے دور ہی بسائی گئی تھی اور لوگ حرم سے متصل مکان یا عمارت بنانے سے ( تقدس اور خوف کی بنا پر ) گریز کرتے تھے البتہ قصی بن کلاب کے زمانے تقریبا ۴۴۰ء کے قریب مکانات و عمارات بنانے کا رواج ہوا ۔ ان ہی وجوہ سے مکہ کی پرانی آبادی حرم سے خاصے فاصلوں تک ممتد ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زیر بحث مقام شعب ابی طالب بھی مضافات مکہ میں یا حرم سے دور واقع تھا اس کے برعکس صحیح صورت یہ ہے کہ جبل ابو قبیس کے دامن میں ایک کنارے پر شعب ابی طالب ایک ایسے مقام کا نام تھا جو مولد رسول ﷺ کی نسبت بیت اللہ سے زیادہ قریب اور شمال مشرق کی سمت حد سے ایک فرلانگ کی مسافت پر واقع تھا جس کی تصدیق آجکل کے آثا ر اور مقامی روایات سے با آسانی کی جا سکتی ہے ۔
شعب ابی طالب کی یہ جائے وقوع اور کعبۃ اللہ سے قربت اس لیے بھی قابل فہم ہے کہ خانہ کعبہ سے ،متعلق سقایہ کی ایک اہم خدمت بنو ہاشم کے سپرد تھی اور اس کی بجا آوری میں ان کا حرم سے قریب سکونت رکھنا ہی زیادہ باعث سہولت ہو سکتا تھا ۔
یہا ں یہ بتا دینا بھی بے محل نہ ہوگا کہ مذکورہ مقاطعہ اور شعب ابی طالب نے ان کی روایتی محصوری سے یہ بہر حال لازم نہیں آتا کہ نبی ﷺ اور آپ کے پہلے خاندان کو اس مدت میں لازمی طور پر حرم مکہ سے دور تصور کیا جائے اور ان کے مخالفین کی مستقل رہائش حرم میں یا اس سے متصل فرض کر دی جائے ۔ مسلمانوں کی طرح دشمنان اسلام کا تعلق بھی مختلف قبائل سے تھا اور یہ قبائل متفرق مقامات پر سکونت پذیر تھے ۔ اندازہ یہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں جو علاقہ شعب ابی طالب کہلاتا تھا اسے ایک ایسا بڑا محلہ کہا جا سکتا ہے جس میں شعب مولد ، شعب علی اور شعب عبدالمطلب سب شامل تھے اور اگر شعب ابی طالب کو ایک وسیع دائرہ مانا جائے تو شعب مولد ، شعب علی وغیرہ سب مقامات آگے پیچھے اسی میں نظر آئیں گے ۔
۴ ۔بہر حال شعب ابی طالب کی جائے وقوع کا تعین بڑی حد تک مقاطعہ کی اس نوعیت کو واضح کر دیتا ہے کہ یہ مقاطعہ محض معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ تھا اور ہمارے اس موقف کی تائید اس ظالمانہ معاہدے کے مضمون سے بھی ہوتی ہے جس کے تحت یہ مقاطعہ نافذ کیا گیا تھا معاہدہ میں بنو ہاشم پر جو پابندیاں عائد کی گئی تھیں ان میں جزوی فرق اور مضمون کی کمی بیشی مورخین کے یہاں پائی جاتی ہے مثلا ابن ہشام نے شادی بیاہ ، خرید وفروخت کی پابندی کا ذکر کیا ہے ۔ ابن سید الناس کے بیان کے مطابق مقاطعہ میں شادی بیاہ ، خریدو فروخت کے علاوہ قریش نے یہ بھی طے کیا کہ ان کی طرف سے کبھی صلح کو قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ کسی قسم کی نرمی اور مہر بانی کا سلوک بنو ہاشم سے روا رکھا جائے گا ۔ علامہ برہان الدین الحلبی نے لکھا ہے کہ یہ بھی طے پایا کہ بنو ہاشم کو بازاروں میں آنے سے روکا جائے گا ۔ روایات میں کہیں یہ ذکر نہیں ہوا کہ قریش نے بنو ہاشم کو مکہ سے نکل جانے اور رہائش گاہوں سے بے دخل ہو جانے کا کہا ہو اور یہ بھی کم مورخین نے لکھا کہ بنو ہاشم کو درہ میں قید و نظر بند کر دیا گیا ظاہر ہے اس قسم کی کوئی چیز طے نہیں کی گئی کیونکہ
الف۔ قید و نظر بندی اور وہ بھی پورے خاندان کی ، عرب میں قطعاَ َایک غیر معروف چیز تھی اور اس کی کوئی مثال پہلے موجود نہیں تھی ۔
ب۔ مذکورہ الصدر پابندیوں میں معاشی اور معاشرتی دونوں اعتبار سے بنو ہاشم کو بے دست و پا سب سے الگ اور مجبور کر دیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے معاہدہ میں محصوری یا نظر بندی کی کوئی قرارداد نہیں رکھی اور یہ بالکل سیدھی سی بات ہے کہ اگر واقعی نظر بندی اور محصوری ہی مقصود تھی جیسا کہ ہمارے اکثر مورخین بیان کرتے ہیں تو معاہدہ میں اتنا ہی ذکر کافی تھا ’’ بنو ہاشم کو فلاں جگہ محصور کیا جاتا ۔‘‘ آخر دوسری پابندیوں کو لگانے میں کیا تک تھی ؟ اگر ایک شخص محصور و نظر بند ہوگا تو وہ خود شادی ، بیاہ ، خرید و فروخت ، صلح و جنگ اور ملنے جلنے یا بازاروں میں حاضر ہونے کے راستے مسدود اور ہر قسم کے تعلقات دوسروں سے منقطع ہو جائیں گے ۔
ج۔ قریش کو اپنی مذہبی سیادت کے با وجود ( جس میں بنو ہاشم بھی برابر کے شریک تھے ) کوئی ایسی قوت قاہرہ حاصل نہ تھی اور نہ کوئی مکہ میں ایسی مر کزی قوت پائی جاتی تھی جو بنو ہاشم یا کسی بھی خاندان کو من حیث المجموع اپنی موروثی جگہ سے بے دخل کر سکے اس لیے قریش مکہ کی طرف سے بنو ہاشم کو جلا وطن کرنے ، مکہ سے باہر نکالنے یا شعب میں محصور و نظر بند کرنے کا تو سوال ہی پید ا نہیں ہوتا اور شعب ابی طالب کی جائے وقوع کے تعین کے بعد تو یہ امر بالکل ضنی اور قیاسی بن جاتا ۔ اب اس کا ایک دوسرا پہلو اور دیکھ لیجئے ۔ وہ یہ کہ قریش نے تو بنو ہاشم کو شعب ابی طالب میں محصور نہ کیا اور نظر بند ہو جانے پر مجبور کیا لیکن بنو ہاشم نے ڈر کر مکہ کی سکونت خود ترک کر دی اور مع خاندان شعب میں جا کر محصور ہو گئے اس توجیہ کو بعض مورخین اور سیرت نگاروں نے اختیار کیا ہے چنانچہ بیان کیا ہے کہ اطلاق مقاطعہ کے بعد ابو طالب نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا اور ان کو ساتھ لے کر شعب میں چلے گئے ۔ یہ مشکل بھی متعدد وجوہ سے سخت محل نظر ہے :
۱۔اس معاہدہ کو جن حالات میں نافذ کیا گیا تھا وہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ نبی ﷺ اور ان کے ساتھیوں کے علاوہ ابو طالب بھی عزم و حوصلہ اور صبر و استقلال کا مظاہرہ کر رہے تھے اور آپ ﷺ کے دشمنوں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کرتے تھے چنانچہ مذکورہ مقاطعہ کے بعد انہوں نے ان صاف لفظوں میں قریش کا چیلنج قبول کیا تھا کہ ’’ ہاں ہم آپ ﷺ کو اس وقت تمہارے حوالے کر دیں گے جب ہم سب کٹ کر مر جائیں گے ۔‘‘کیا یہ الفاظ اس کی بے خوفی ، جرات و ہمت پر دلالت نہیں کرتے ؟ یوں بھی ایک بزدل ، ڈرپوک اور کم ہمت آدمی جانتے بوجھتے تمام قریش کی مخالفت مول نہیں لے سکتا تھا ۔ ابو طالب اپنے خاندان کے خلاف دوسرے خاندانوں کے مخالفانہ اتحاد سے ذرا نہ گھبرائے اور اپنے بھتیجے کی خاطر پوری پامردی سے آفات و مصائب کے مقابلے میں سینہ سپر ہو گئے ۔ ایسے نڈر ، بے باک آدمی اور صاحب حمیت و غیرت سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ معاََ ڈر کر اپنے مکانوں کو خیر باد کہہ کر مکے سے نکل جائے گا یا اپنے آپ کو ڈر کر از خود محصور کر لے گا ۔ علاوہ ازیں اپنے جس بھتیجے کی حمایت و حفا ظت علی الاعلان کرتا رہا ہے اب شدائد کا سامنا ہوتے ہی پست ہمتی کا شکار ہو جائے گا اور اپنے بھتیجے سمیت دشمنوں کی نظر سے دور چلا جائے گا۔ کیا یہ باتیں قرین قیاس ہیں ؟
۲۔ ابو طالب کے علاوہ دوسرے اہل خاندان اور داعی اسلام ﷺ سب ہی مقاطعہ کا شکار تھے اب ذرا اس پر غور کیجئے کیا ایک برحق نبی اور پیغمبر آخر ﷺ ہوتے ہوئے ابتلا ء اور آزمائش سے بچ کر شعب میں محصور ہونے کو گوارا کر سکتے تھے حالانکہ گزشتہ چھ سال سے آپ ﷺ برابر آزمائش کی بھٹی میں تپائے جا رہے تھے ؟ لیکن ان تمام مخالفتوں کے سبب آپ ﷺ نے کسی قسم کی عافیت تلاش کرنے کی بجائے اپنے چچا ابو طالب کی حمایت کی بھی پروا نہیں کی تھی۔ ایسے صاحب عزیمت نبی سے یہ توقع ہر گز نہیں کی جا سکتی کہ اپنے آپ کو قتل سے بچانے کے لیے شہر سے دور ایک گھاٹی میں جا کر محصور ہو جائیں گے ۔
اور ایک انتہائی اہم پہلو یہ غور طلب ہے کہ اگر بالفرض ہم ان تمام حضرات کو شعب میں محصور مان لیں تو ایک اور الجھن یہ پیدا ہو جاتی ہے کہ کیا اس دوران کار نبوت موقوف رہا ؟ ایک ایسے دور دراز مقام پر جہاں باہر نکلنے کا کوئی موقع نہ ہو اور جہاں اپنے خاندان والوں کے سوا کوئی اور آبادی نہ تھی ، آپ دعوت و تبلیغ کا فریضہ کیونکر ادا کر سکتے تھے ؟ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اس پورے عرصے میں آپ ﷺ مسلسل دعوت و تبلیغ میں منہمک رہے ۔ ادھر وحی کا نزول بھی ہوتا رہا چنانچہ ابن ہشام کے بیان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کئی آیات کا نزول اسی عرصہ میں ہوا ۔ مثلا ابو لہب ، اس کی بیوی ، امیہ بن خلف بن وہب ، عا ص بن وائل ــ‘ابو جہل‘ نضر بن الحارث اور ولید بن مغیرہ وغیرہ کفار و مشرکین کے کردار پر بطور خاص روشنی ڈالنے والی آیات جو سورت لہب ، ہمزہ ، مریم ، کافرون ، فرقان ، انبیاء وغیرہ لائی ہیں ، اسی دور کی ہیں ۔ مزید برآں آپ ﷺ مختلف قبائل میں دعوت و تبلیغ کے لیے تشریف لے جاتے تھے اور خصوصاََدوران حج آپ اس فریضہ کو بڑے پیمانے پر انجام فرمایا کرتے تھے ۔ حج کا موقع اس لحاظ سے بہت اہم تھا کہ بنو ہاشم کے افراد اسی موسم میں جو کچھ خرید و فروخت اور معاملت کر لیتے تھے ورنہ پھر دوسرے ایام ان کے باہر کے تاجر و خریدارآسانی سے نہیں مل سکتے تھے ۔ ان حقائق کی روشنی میں ہم بڑے اطمینان سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ شعب ابی طالب میں آپ اور دیگر خاندان بنو ہاشم کی محصور ی و نظر بندی کا واقعہ محض ظنی اور قیاسی ہے اصل نوعیت یہ ہے کہ یہ معاشی اور معاشرتی اعتبار سے ایک خاندانی مقاطعہ تھا ، اس سے زیادہ نہیں اس مقاطعہ کی رو سے نہ تو محصور ی لازم آتی ہے نہ نظر بندی اور نہ یہ بات کۃ محصورین شعب سے باہر نہیں نکل سکتے تھے جیسا کہ مورخین کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے ۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ وہ تمام پابندیاں جن کا ذکر ہم اصحاب سیر کے واسطے سے کر چکے ہیں ، عملاََ دو قسم کے تعلق کا انقطاع ثابت کرتی ہیں ۔ ان میں سے ایک معاشرتی ہے جس میں شادی بیاہ ، صلح ، نرمی و مہر بانی اور مجلس میں آنے جانے کی پابندیاں شامل ہیں اور دوسرا معاشی ہے جس کے ضمن میں خرید و فروخت اور بازاروں میں آنے جانے کی ممانعت آ جاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں قسم کی پابندیاںاور معاشی و معاشرتی ترک تعلق بنو ہاشم کی سماجی و معاشی زندگی کو مفلوج کرنے کے لیے کافی تھا ۔ ان میں سے بھی اول الذکر معاشرتی مقاطعہ کسی نہ کسی صورت میں قابل برداشت ہو سکتا تھا لیکن معاشی بائیکاٹ کی شکل میں زندگی گزارنا نا ممکن سا تھا ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مکہ کی آبادی تجارت پیشہ تھی اور اس کی ضروریات زندگی کی تکمیل لین دین اور تجارت ہی سے ممکن تھی ۔ اس ذریعہ پر بھی پابندی لگ جانا سخت اذیت ناک تھا کیونکہ اس کا تعلق براہ راست زندگی کے قیام و بقاء سے ہے ۔ اس لیے یہ پابندی بنو ہاشم پر انتہائی گراں گزری اور انہوں نے مجبور ہو کر درخت کے پتے حتیٰ کہ چمڑاتک بھگو کر اور بھون کر کھایا ۔ شدید بھوک کی بنیاد پر بھی بچے بلک بلک کر روتے تھے اس پورے عرصے میں صرف دو ذریعے ایسے رہ گئے تھے جن سے کچھ عرصہ کے لیے کام چل جاتا تھا ۔ ایک تو موسم حج اور دوسرے خفیہ طور پر جو تھوڑا بہت سامان بعض لوگ پہنچا دیا کرتے تھے ۔ کفار قریش اس بات پر کڑی نظر رکھتے تھے کہ شریک معاہدہ قبائل کا کوئی فرد معاہدہ کی خلاف ورزی نہ کرنے پائے اور سچی بات تو یہ ہے کہ معاہدہ سے زیادہ انہیں اس بات کا خیال تھا کہ جو تکلیف اور جس حد تک وہ خاندان بنو ہاشم کو مع رسول ﷺ کے پہنچانا چاہتے تھے اس میں کسی قسم کی کمی نہ ہونے پائے بلکہ اضافہ ہی ہوتا رہے اس لیے ان کے نزدیک اصل مسئلہ یہ نہیں تھا کہ معاہدہ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے یا نہیں اصل مسئلہ یہ تھا کہ حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کو کسی طرف سے کوئی سہولت یا امداد تو نہیں مل رہی ہے جو اس کی تاب مقاومت کو دراز کر دے چنانچہ اس ضمن میں بعض بڑے دلچسپ واقعات بھی ملتے ہیں مثلا ایک مرتبہ حکیم بن حزام اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ ؓ ( جن کا مکان حرم سے بہت قریب واقع تھا ) کے پاس اونٹ پر غلہ لادے جا رہے تھے ۔ ابو جہل نے روکا اتنے میں ابو البختری وہاں آیا اور اس نے ابو جہل سے پوچھا کیا بات ہے ابو البختری نے کہا اس کی پھوپھی کے گیہوں اس کے پاس رکھے تھے اس نے اپنے گہیوں منگائے ہیں یہ لیے جاتا ہوں تیرا کیا حرج ہے اس کو جانے دے ابو جہل نے انکار کیا یہاں تک کہ ابو البختری اور ابو جہل میںسخت کلامی کے بعد زد وکوب کی نوبت پہنچی ۔ ابو البختری نے ابو جہل کے اونٹ کی گردن پکڑ کر مروڑ ڈالی اور ایسا جھٹکا دیا کہ اونٹ بیٹھ جائے پھر ابو جہل کی گدی پکڑ کر کھینچ لیا اور اس کے سر پر ایسی ضرب لگائی جس سے اس کا سر پھٹ گیا پھر اس کو اپنے پیروں اور لاتوں سے خوب روندا اور حمزہ بن عبدالمطلب ؓ پاس کھڑے ہوئے یہ تماشہ دیکھ رہے تھے ۔ انہیں دیکھ کر اور بھی اندوہناک ہو ا یہ واقعہ مندرجہ ذیل حقائق سے پردہ اٹھا دیتا ہے۔
۱۔ خاندان بنو ہاشم کے افراد پر قریش کی طرف سے کڑی نگرانی کی جاتی تھی ۔
۲۔ کچھ ایسے لوگ موجود تھے جن کے دلوں میں ہمدردی انسانیت اور جذبہ موجود تھا اور جو حق کے لیے عملی اقدام کر سکتے تھے ۔
۳۔ ان پابندیوں کو مکہ کے تمام شہری پسندیدہ نظر سے نہیں دیکھتے تھے ۔
۴۔ شعب مکہ سے باہر مقام نہ تھا ، حضرت حمزہ کے پاس کھڑے ہو نے کا کیا مطلب تھا ؟ ۵۔اب ہم آخری مسئلہ کو لیں گے یعنی یہ مقاطعہ کیسے ختم ہوا ؟ اس سلسلے میں عموما دو صورتیں بتائی جاتی ہیں ۔ ایک یہ کہ قدرت خدا وندی سے اس تحریری معاہدہ کو دیمک چاٹ گئی اور دوسری یہ کہ مکہ کو چند بہادر اور غیرت مند افراد کی کوششوں سے یہ عہد نامہ چاک ہو کر ختم ہو گیا ۔
عہد نامہ کو دیمک کا چاٹ لینا قدرت خدا وندی کی دلیل اور نبی ﷺ کی صداقت کا کھلا ثبوت ہے ۔ ابن ہشام نے لکھا ہے کہ اس کی اطلاع جب نبی ﷺ نے ابو طالب کو دی تو وہ قریش کے پاس آئے اور کہا ’’ اے گروہ قریش میرے بھتیجے نے ایسا ایسا کہا ہے پس تم اپنے عہد نامہ کو دیکھو ۔ اگر واقعی اس کی یہی صورت ہو ( یعنی صحیفہ کو کیڑوں نے کھا لیا اور صرف جہاں خدا کا نام ہے چھوڑ دیا ہے) تو لازم ہے کہ تم اپنے ظلم و ستم سے جو تم نے ہم پر کر رکھا ہے باز آ جائواور اگر بھتیجے کا کہا غلط ہو تو میں اپنے بھتیجے کو تمہارے حوالے کر دوں گا ۔‘‘ قریش اس بات پر راضی ہو گئے ۔ جا کر دیکھا تو ویسا ہی پایا جیسا آپ ﷺ نے فرمایا تھا۔ اس طرح یہ عہد نامہ ختم ہو گیا ۔
اب دوسری روایت یہ ہے کہ قریش جو مظالم خاندان بنو ہاشم پر ڈھا رہے تھے ان کو دیکھ کر خود قریش میں سے بعض لوگوں کے دل آخر کا ر پسیج گئے۔ ان سے بنو ہاشم کی تکلیف نہ دیکھی گئی اور انہوں نے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اپنے ضمیر کا تقاضہ سمجھا چنانچہ ابو البختری ابو جہل کے پاس گیا اور اس سے مقاطعہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا جن لوگوں نے اس ظلم و تشدد کے خلاف آواز بلند کی وہ مندرجہ ذیل پانچ آدمی تھے ۔
۱۔ہشام بن عمرو (بنو عامر سے)
۲۔زہیر بن ابی امیہ (بنو مخزوم سے)
۳۔ مطعم بن عدی (بنو نوفل سے )
۴۔ ابو البختری (بنو اسد سے )
۵۔ ذمقہ بن الاسود (ایضاََ)
ہشام کا باپ عمرو اور نضر بن ہشام دونوں ایک ماں سے تھے اس سبب سے اس کو بنی ہاشم سے محبت تھی اور اپنی قوم میں بڑی عزت و وقار رکھتا تھا ۔ یہ بعد میں مسلمان ہو گیا تھا ۔ حضرت حسان بن ثابت نے اس کی مدح بھی لکھی ۔ مقاطعہ مذکورہ واقعہ کے دوران اس نے یہ وطیرہ بنا لیا تھا کہ رات کے وقت اونٹ پر گیہوں لادکے بنی ہاشم کو پہنچا دیتا تھا اور بنی ہاشم اونٹ پر سے گیہوں اتار کر اونٹ واپس کر دیتے تھے ۔ وہ پھر لاد کر بھیج دیتا تھا ۔ زہیر بن ابی امیہ کی ماں عاتکہ بنت عبد المطلب تھی اور ابو طالب اس کے ماموں تھے یہ بھی بعد میں اسلام لے آیا تھا ۔
مطعم بن عدی مکہ کا مشہور و معزز آدمی تھا آپ ﷺ جب طائف سے واپس ہوئے ہیں تو اسی مطعم نے آپ ﷺ کو اپنی پناہ میں لیا تھا ۔ وہ کافر ہی مرا اس کی موت پر حضرت حسان بن ثابت نے مقاطعہ کو ختم کرانے میں اس کوشش اور دوسری خوبیوں پر ایک مرثیہ میں بہت تعریف کی ہے ۔ابو البختری اور ذمقہ بھی معاشرہ کے معزز افراد اور بنو اسد کے رؤسا میں سے تھے اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ ان پانچوں میں سے کس شخص نے پہل کی اور نقض صحیفہ کے لیے دوسروں کوآمادہ کیا۔ بعض کہتے ہیں زہیر پہلا آدمی تھا لیکن زیادہ تر اصحاب اولیت ہشام بن عمرو کو دیتے ہیں چنانچہ ابن ہشام ، ابن سید الناس اور صاحب الدار نے یہی لکھا ہے ۔ ابن ہشام لکھتا ہے کہ پہلے ہشام زہیر کے پاس گیا اور اس سے کہا ’’ اے زہیر! کیا تو اس بات سے خوش ہے کہ توہر قسم کے کھانے کھائے ، کپڑے پہنے اور شادی بیاہ کرے لیکن تیرے ماموں یعنی بنی مطلب کسی چیز کی نہ تو خرید وفروخت کر سکیں اور نہ شادی بیاہ ‘‘
غرض باری باری دوسرے لوگ بھی اس مہم کے لیے تیار ہو گئے اور اس طرح ان پانچوں آدمیوں نے نقض صحیفہ کے لیے جدو جہد کی۔ ممکن ہے بنو ہاشم کی محبت نے ہشام کو اس کار خیر کے لیے آمادہ کیا ہو اسی طرح زہیر کو خونی رشتہ میں آواز اٹھانے پر مجبور کیا ہو باقی دوسرے لوگ ممکن ہے اس نقطہ نظر سے شریک کار ہو گئے ہوں کہ قریش کو بنو ہاشم کے خلاف متحد ہو کر تجارتی اجارہ داری حاصل ہو گئی تھی اور یوں بعض خاندان مسلسل اپنی پوزیشن کو مستحکم کر رہے تھے جبکہ یہ افراد اپنے خاندانوں کو نظر انداز کیے جانے کا احساس رکھتے ہوں گے ورنہ کم از کم مظلوم سے ہمدردی اور احساس قومیت تو ان میں ضرور موجود تھی جس کی وجہ سے انہوں نے مقاطعہ سے بر آت ظاہر کی ۔ بہر حال پانچوں اشخاص مل کر دوسرے دن حرم میں گئے اور اپنے جذبات کا اظہار کیا چنانچہ زہیر نے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا ’’ اے اہل مکہ ! یہ کیا انصاف ہے کہ ہم آرام سے بسر کریں اور بنو ہاشم کو آب و دانہ نصیب نہ ہو ؟ خدا کی قسم ! جب تک یہ ظالمانہ معاہدہ چاک نہ کر دیا جائے گا میں باز نہ آوں گا ‘‘ ابو جہل قریب سے بولا ’’ اس معاہدہ کو ہرگز کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا ‘‘ ذمقہ نے کہا تو جھوٹ کہتا ہے جب یہ لکھا گیا تھا اس وقت بھی ہم راضی نہ تھے مطعم نے ہاتھ بڑھاکر دستاویز چاک کر دی ۔
مختصر یہ کہ ان دونوں اسباب میں سے کسی ایک یا دونوں اسباب یعنی قدرت خدا وندی سے اور چند جیالے بہادروں کی ہمدردانہ سعی کی بدولت اس معاہدہ نا مرضیہ کا خاتمہ ہو گیا اور یوں آپ ﷺ اور بنو ہاشم پر سے معاشی و معاشرتی ساری پابندیاں تار عنکبوت کی طرح ٹوٹ گئیں۔ اس طرح ایک مرتبہ بنو ہاشم مکہ کے مذہبی و سماجی زندگی میں تازہ خون بن کر دوڑنے لگے ۔ تحریک اسلامی کو دبانے اور مٹانے کی یہ گہری سازش ناکام ہو گئی اورجن مقاصد کی خاطر قریش نے یہ مقاطعہ کیا تھا‘ پورے نہ ہو سکے خصوصاََ ان کا یہ اندازہ قطعاََ غلط ثابت ہوا کہ شدائد سے گھبرا کر بنو ہاشم آنحضرت ﷺ کو قتل کے لیے پیش کر یں گے ۔ غرض ساری کافرانہ سیاست اپنے تمام کر و فر کے ساتھ باب شکست میں داخل ہوئی ۔ خدا نے سچ کہا ہے ’’ و مکر و او مکر اللہ و اللہ خیر الماکرین ‘‘
سید امیر علی ( روح اسلام۔۱۲۱) پر رقم طراز ہیں کہ اس معاہدہ سے بنی ہاشم و المطلب خوف زدہ ہوئے اور اس اندیشے سے کہ مبادا یہ کسی مزید حملے کا پیش خیمہ ہو‘ انھوں نے یہ مناسب سمجھا کہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر جو شہر میں جا بجا بکھرے ہوئے تھے ایک جگہ جمع ہو کر رہیں۔چناں چہ شعب ابی طالب میں چلے گئے جو مکہ کے مشرقی مضافات میں ایک لمبی اور تنگ گھاٹی ہے جسے چٹانوں اور دیواروں نے شہر سے جدا کر دیا ہے اور جہاں سے شہر میں آمدورفت کا ایک چھوٹے دروازے کے سوا کوئی راستہ نہیں‘‘۔ بنی ہاشم و المطلب ابو طالب کے پاس آئے وہ ان لوگوں کو اور رسول اللہﷺ کو لے کر شعب ابی طالب چلے گئے۔اس شعب میں دو تین برس گزارے‘‘۔ ( اصح السیر)
شبہ کا ازالہ:شعب کے لفظ سے بالعموم یہ مغالطہ ہو ا ہے کہ یہ اصل رہائش گاہ سے دور کوئی پہاڑی درہ ہوگا جہاں جا کر بنو ہاشم محصور و نظر بند ہو گئے۔حال آں کہ مکہ کی بہ جائے خود ایک وادی ہے اور پورا شہر چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہو اہے۔اس شہر کا بیش تر حصہ پہاڑی دروں اور گھاٹیوں ہی میں واقع ہے۔ اس لیے تاریخ میں شعب ابی طالب کے علاوہ کئی اور شعب کے نام پائے جاتے ہیں۔مثلاََ شعب آل الانفس، شعب الغوارخ،شعب ابی طالب، شعب ابی زیادہ، شعب ابن ابی ربیع،شعب آل عمرو،شعب بن کنانہ، شعب بنی عبد اللہ،شعب بنی اسد، شعب بنی عامر، شعب امخضارمہ، شعب الخوز، شعب الفتارت، شعب ابی دب وغیرہ( توسیع حرم کے سلسلہ میں آج کل یہاں پہاڑوں کو صاف کردیا گیا ہے) مکہ کی آبادی شروع میں حرم کعبہ سے دور آباد تھی۔تقدس حرم کی وجہ سے متصل کوئی مکان اور عمارت نہ بناتے تھے۔یہ تو قصی بن کلاب کے عہد میں قریب قریب عمارات و مکانات بنائے جانے لگے۔اس وجہ سے مکہ کی پرانی آبادی حرم سے خاصے فاصلے پر ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ شعب ابی طالب بھی مضافات مکہ میں یا حرم سے دور واقع تھا۔جب کہ کوہ ابو قبیس کے دامن میں شعب ابی طالب ہے جسے مولد رسول کی نسبت بیت اللہ سے زیادہ قریب اور شمال مشرق کی سمت زیادہ سے زیادہ ایک فرلانگ کی مسافت پر واقع تھا۔اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ بنو ہاشم سقایہ کی خدمت انجام دیتے تھے اس کی بجا آوری کے لیے ضروری تھا کہ ان کی حرم کے قریب سکونت ہو۔ ( تفصیل کے لیے نقوش۔۹۔۲۶۳)
اعتراض نمبر ۲۱۷
اکثر مورخین کی رائے ہے کہ مقاطعہ میں بنو ہاشم و المطلب محصور و نظر بند رہے۔سیرت نگاروں نے جیسے مقاطعہ کی تصویر کھینچی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بنو ہاشم کا مقاطعہ ہوا تو اس کے بعد تین برس تک بنو ہاشم کو محصوری اور نظر بندی کی مصیبت سے دو چار ہونا پڑا۔یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بنو ہاشم کی رہائش کسی الگ مقام پر تھی اور محصوری کا واقعہ شعب ابی طالب میں پیش آیا۔تین سال وہاں گزار کر واپس اپنی رہائش گاہوں میں آگئے۔جب کہ کسی سیرت نگار نے بنو ہاشم کی رہائش کے مقام کا ذکر نہیں کیا۔نیز اس تحریری معاہدہ یعنی مقاطعہ میں صرف معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کا ذکر ہے مثلاََ شادی، بیاہ، خرید و فروخت کے علاوہ ان کی طرف سے کبھی صلح قبول نہیں کی جائے گی اور ان سے نہ ہی کسی قسم کی نرمی برتی جائے گی۔ بنو ہاشم کو بازاروں میں آنے سے روکا جائے گا۔ بنو ہاشم کو اپنے محلوں میں نہ بٹھائیں گے۔گویا کہیں اس تحریری معاہدہ میں ذکر نہیں کہ قریش نے بنو ہاشم کو مکہ سے نکل جانے اور رہائش گاہوں کو چھوڑنے اور بے دخل ہو جانے کا کہا ہو۔ کسی سیرت نگار نے یہ بھی نہیں لکھا کہ بنو ہاشم کو درہ میں نظر بند یا محصور کرنے کی بابت طے کیا گیا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ قید و نظر بندی اور وہ بھی پورے خاندان کی ! عرب میں قطعاََ اس کا رواج نہ تھا بل کہ غیر معروف چیز تھی۔
دوم :معاشی اور معاشرتی پابندیوں کے علاوہ معاہدہ میں محصوری و نظر بندی کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ اگر واقعی محصوری و نظر بندی ہی تھی تو کم از کم معاہدہ میں یہی لکھا ہوتا کہ بنو ہاشم کو وہاں محصور کیاجاتا ہے۔پھر معاشی و معاشرتی پابندیاں لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ نیز محصو رو نظر بند شخص از خود شادی بیاہ، خرید و فروخت، صلح اور ملنے جلنے یا بازاروں میں گھومنے پھرنے سے قاصر ہوتا ہے کیونکہ وہ آزادانہ اپنے حصار سے باہر آ جا نہیں سکتا ۔
سوم :قریش اس قدر طاقت ور نہ تھے نہ انھیں ایسی طاقت حاصل تھی اور نہ ہی مکہ میں کوئی مرکزی حکومت موجود تھی البتہ قبائلی نظام تھا اور اس نظام میں اتنا دم خم نہیں تھا جو بنو ہاشم یا کسی خاندان کو اپنی موروثی جگہوں اور رہائش گاہوں سے محروم کر دے‘ اس لیے قریش مکہ کا بنو ہاشم کو جلا وطن کرنے، مکہ سے باہر دھکیلنے یا شعب میں محصور و نظر بند کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
چہارم: شعب ابی طالب کے جائے وقوع کے تعین سے یہ امر بعید ا زقیاس ہو جاتا ہے۔
اعتراض نمبر ۲۱۸
مسلمان از خود ڈر کے مارے شعب ابی طالب میں سکونت پذیر ہو گئے ۔
قریش نے بنو ہاشم کو شعب ابی طالب میں محصور کیا نہ ہی نظر بند ہو جانے پر مجبور کیا لیکن بنو ہاشم ازخود ڈر کے مارے مکہ کی سکونت ترک کر گئے اور خاندان سمیت شعب ابی طالب میں پناہ گزیں ہو گئے۔جیسا کہ بعض نے لکھا کہ مقاطعہ کے بعد ابو طالب نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا اور ان کو ساتھ لے کر شعب ابی طالب میں چلے گئے جیسا پیچھے سید امیر علی کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے۔ یہ بات کہ قریش نے بنو ہاشم کو محصور کیا نہ ہی نظر بند ہو جانے پر مجبور کیا حکیم بن حزام اونٹ پر غلہ لاد کر اپنی پھوپھی خدیجہ ؓکے ہاں بھیجنا چاہتے تھے۔ابو جہل نے روکا۔ابوا لبختری آیا اور ابو جہل کو روکا کہ مزاحمت نہ کرے جانے دے۔ان میں سخت کلامی ہوئی۔بالآخر اس نے ابو جہل کو پکڑ کر سر پر ضرب لگائی۔سر پھٹ گیا۔لاتوں سے خوب لتاڑا۔حمزہ بن عبد المطلب پاس ہی کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ انھیں دیکھ کر ابو جہل اور شرم سار ہوا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شعب ابی طالب مکہ سے باہر مقام نہ تھا۔حضرت حمزہ کے پاس کھڑے ہونے کا مطلب یہی ہے کہ مسلمان نظر بند و محصور نہ تھے۔ نیز حکیم بن حزام کا مکان حرم کے قریب تھا۔
جواب: قریش کے مقاطعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی مکرم ﷺاور ان کے ساتھیوں کے علاوہ ابو طالب نہایت صبر و استقامت اور بہادری و جرات کا مظاہرہ کر رہے تھے کیوں کہ انھوں نے کہا تھا کہ ’’ ہاں! ہم محمد ﷺ کو اس وقت تمھارے حوالے کر دیں گے جب ہم سب کٹ کر مر جائیں گے‘‘۔ کیا یہ بیان جرات و بہادری اور بے خوفی کا اظہار نہیں ہے؟ جن حالات میں معاہدہ کو نافذ کیا گیا ان حالات میں ایک بزدل، کم زور اور کم ہمت آدمی کبھی دشمنی مول لینے کا ارادہ نہیں کرتا۔ ادھر ابو طالب ذرا برابر نہیں گھبراتے اور آنے والی مصیبتوں کے سامنے جرات و بہادری کا پہاڑ بنے ہوئے ہیں۔ ایسے بہادر عالی ہمت شخص کے بارے میں یہ کہنا کہ ڈر کی وجہ سے مکہ کو خیر باد کہہ کر نکل جائے یا ڈر کی وجہ سے خودکو محصور کر لے ،زیادتی ہے۔بنو ہاشم خاندان متحد تھا اور نبی مکرمﷺ کو اپنی نظروں سے اوجھل کرنا لمحہ بھر گوارا نہ تھا۔ دوسری بات یہ کہ ایک بر حق نبی آزمائش سے دل برداشتہ ہو کر مصائب سے بچ کر شعب میں محصور ہونے کو گوارا کر سکتا ہے؟ حالاں کہ گزشتہ چھ سال سے آپ ؐاور آپؐ کے متبعین پر مصیبتوں کے پہاڑ ڈھائے گئے لیکن اللہ کے سوا کسی قسم کی دوسروں سے عافیت تلاش نہیں کرتے۔ ایسے صاحب عزم سے بھلا ایسی توقع کی جا سکتی ہے کہ اپنے آپ کو قتل سے بچانے کے لیے شہر سے دور ایک گھاٹی میں محصور ہو جائیں۔ محمد ولی رازی ( ہادی عالم۔۱۰۶) بتاتے ہیں’’ اس سارے عرصہ( مقاطعہ قریش) رسول اللہﷺ درہ کوہ سے آکر کلمہ اسلام کے ساعی رہے۔اللہ کے رسول کو اللہ کے سوا کس کا ڈر۔اہل مکہ کی ساری ہٹ دھرمی دھری کی دھری رہی اور رسول اللہﷺ امر الہٰی کو لے کر گھومے اور لوگوں کو اللہ کی راہ دکھائی‘‘۔ حرمت والے مہینوں کے علاوہ یہ لوگ گھاٹی سے باہر نہیں نکلتے تھے وہ اگرچہ قافلوں سے سامان خرید سکتے تھے جو باہر سے مکہ میں آتے لیکن ان کے سامان کے دام بھی مکہ والوں نے اس قدر بڑھا دئے تھے کہ محصورین خرید نہ پاتے تھے۔( رحیق المختوم۔۱۹۰)
مذکورہ عبارتوں میں سے پہلی عبارت میں ہے کہ آپ تبلیغ دین گھوم پھر کر کرتے رہے۔ کوئی ڈر اور خوف آڑے نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ ایک مثالی قوم کی صفات میں ایک صفت کا ذکر فرماتا ہے ’’ وَلاَ تَخاَ فُون َ لَو مَۃَ لاَ ئمِِ یعنی وہ لوگ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے ‘‘۔ دوم عام لوگ جو مساجد کی تعمیر و آبادکاری کا ذوق رکھتے ہیں ان کی صفات میں یہ صفت بطور خاص پائی جاتی ہے ’’ وَ لَم یَخشَ اِلاَّ اللہ یعنی اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ۔‘‘ جہاں تک اس صفت کا تعلق ہے یہ رسولوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔ ’’ اَلَّذِینَ یَبلَغُو نَ رِساَ لاَتِ اللہ وَ یَخشَونَہ وَلاَ یَخشَونَ اَحَداََ اِلاَّ اللہ ( جو اللہ کے پیغامات لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ) ۔
یہ بات نا قابل قبول ہے کیونکہ ایک عام سا خوف خدا رکھنے والا جس چیز کو درست سمجھتا ہے اس کے کرنے میں پس و پیش نہیں کرتا بلکہ کر گزرتا ہے اسی طرح مساجد کی تعمیر اور آباد کرنے میں ذوق و شوق رکھتے ہیں وہ مسجدوں کے مسائل سے نہ بددل ہوتے ہیں نہ ڈرتے ہیں خواہ ملامت کرنے والے جو مرضی کہتے رہیں ۔ تمام رسولوں کی یہ شان ہے کہ ( لا یخشون احدا اللہ ) اور انبیاء و رسل کے تاجدار مکی و مدنی آقا ڈر اور خوف زدہ ہو کر شعب ابی طالب میں چلے آئیں ایسا بالکل نا ممکن ہے ۔جب کہ دوسری عبارت میں حرمت والے مہینوں میں تبلیغ کی قید لگائی گئی ہے۔بہ ہر حال یہ تو معلوم ہو اکہ آپ نے تبلیغ کا کام جاری رکھا اور کسی قسم کے ڈر وخوف کو خاطر میں نہ لائے ۔اگر آپ محصور و نظر بند ہوتے تو یہ فریضہ تبلیغ کیسے انجام دیتے نیز جہاں محصور و نظر بند کیا جاتا ہے وہاں سے نکل نہیں سکتے۔ محصوری و نظر بندی میں یہ پیچیدگی بھی پائی جاتی ہے کہ کیا اس دوران کا رِرسالت موقوف رہا؟ ایک ایسے دور دراز مقام پر جہاں باہر نکلنے کا کوئی موقع نہ ہو اور جہاں سوائے آپ کے خاندان کے کوئی اور آبادی نہ ہو آپ دعوت و تبلیغ کا فریضہ کیوں کر انجام دے سکتے تھے؟ حال آں کہ اس پورا عرصہ میں آپ مسلسل دعوت و تبلیغ میں مصروف رہے۔ ابن ہشام کے مطابق متعدد آیات کا نزول اسی عرصہ میں ہوا۔سورہ لہب،ہمزہ،مریم،کافرون،فرقان اورانبیا کی آیات اسی دور کی ہیں جو مشرکین کے کردار کی عکاسی کرتی ہیں۔لہٰذا یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ شعب ابی طالب میں حضور اور دیگر خاندان ہاشم کی محصوری و نظر بندی کا واقعہ ظنی اور قیاسی ہے۔کیوں کہ یہ معاشی و معاشرتی اعتبار سے ایک خاندانی مقاطعہ تھا۔ مقاطعہ میں دو قسم کی پابندیوں کا ذکر ہے۔ایک معاشی اور دوسری معاشرتی۔معاشرتی میں شادی، بیاہ، صلح،نرمی و مہربانی اور مجلس میں آنے جانے کی پابندیاں تھیں اور معاشی پابندیوں میں خرید و فروخت اور بازاروں میں آنے جانے کی ممانعت اور روک ٹوک آجاتی ہیں۔ معاشی بائیکاٹ زندگی کو مفلوج کرنے کا انتہائی خطر ناک اور اذیت ناک اقدام تھا۔یہ پابندی اس قدر گراں تھی کہ ایمان والوں نے درختوں کے پتے اور چمڑا تک پانی میں بھگو کر اور بھون کر کھایا۔ بھوک سے بچے بلکتے رہتے تھے۔لیکن اس مقاطعہ میں آپﷺ اور آپ کے ساتھی کامیاب و سرخرو ہوئے جب کہ قریش اپنے برے عزائم میں ناکام ہوئے اور اپنا مقصد حاصل نہ کر سکے۔اصح السیر میں بھی ان دو پابندیوں کا ذکر ہے بنی ہاشم و مطلب کی لڑکیوں سے نہ عقد کیا جائے گا نہ اپنی لڑکیاں ان کو دی جائیں ۔دوم نہ ان سے کوئی چیز خریدی جائے نہ ان کے ہاتھ کوئی چیز بیچی جائے۔
حکیم بن حزام جن کا مکان حرم کے قریب تھا اپنی پھوپھی کے لیے گیہوں اونٹ پر لاد رہا تھا۔ابو جہل نے روکا۔ابو البختری وہاں آگیا۔ اس نے ابو جہل سے کہا تیرا کیا حرج ہے جانے دے۔ابو جہل اور ابو البختری میں سخت کلامی ہوئی۔ ابو جہل کو اونٹ سے نیچے گرانے کی کوشش کی۔ آخر ابو جہل کو گدی سے پکڑ کر کھینچ لیا اس کے سر پر ضرب لگائی۔اس کا سر پھٹ گیا۔لاتوں اور گھونسوں سے خوب لتاڑا۔حضرت حمزہ پاس کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ انھیں دیکھ کر ابو جہل کو اور دکھ ہوا۔حضرت حمزہؓ پاس کھڑے ہو کر تماشا دیکھ رہے تھے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ بنو ہاشم کا خاندان محصور و نظر بند نہ تھا اور انہیں آنے جانے میں کوئی روک ٹوک نہ تھی۔اگر محصور و نظر بند ہوتا تو حضرت حمزہؓ کے پاس کھڑے ہونے کا کیا مطلب؟ نیز نہ ہی انھیں کوئی ڈر اور خوف تھا ورنہ حضرت حمزہ اکیلے نظر نہ آتے اور مزے سے وہ تماشا کبھی نہ دیکھ پاتے۔ اس بات کی تصدیق امام سہیلیؒ کے بیان سے بھی ہوتی ہے۔ امام سہیلی رقم طراز ہیں’’ اگر بیرون ملک سے کوئی تجارتی کارواں وہاں آجاتا مسلمان ان سے کوئی چیز خریدنے کے لیے آجاتے تو ابو لہب ان قافلہ والوں سے کہتا’’ تم انھیں اتنے مہنگے دام بتائو کہ وہ کوئی چیز خرید نہ سکیں‘‘۔ وہ انھیں ساتھ ہی یہ تسلی بھی دیتا کہ تم یہ فکر نہ کرنا کہ اگر تم نے بہت زیادہ قیمت مانگی تو اسے کوئی خریدے گا نہیں اور تمھیں خسارہ ہوگا۔میں یہ خسارہ پورا کروں گا‘‘۔ ( السیرۃ النبوۃ ۔علامہ سید احمد بن زینی دھلان)مسلمان نظر بندیا قلعہ بند ہوتے تو باہر آکر ضرورت کا سامان نہ خرید سکتے یہ الگ بات ہے کہ اشیاء کے نرخ مسلمان خریداروں کی پہنچ سے باہر تھے ۔
۱: محصور و نظر بند ہوتے تو کہیں آ، جا نہ سکتے۔ ۲: محصوری اور نظر بندی کی خلاف ورزی پر کوئی تنازعہ پیش نہیں آیا۔چاہیے تو یہ تھا کہ اگر وہ محصور تھے تو باہر آنے کی اجازت نہ ہوتی اور بغیر اجازت آتے تو لڑائی جھگڑا ہوتا مگر ایسا کچھ ہوا ہو نظر نہیں آتا۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...