Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم |
حسنِ ادب
سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم

سفر طائف
ARI Id

1689956752314_56117770

Access

Open/Free Access

Pages

۱۹۴

سفرِ طائف:
اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ’’ وَ اَ نِذِ ر عَشِیرَ تَکَ الا َ قّرَبِینَ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دو‘‘ اور یہ بھی فرمایا وَتَوَ کلَ ّعَلیٰ العَزیزِ اِلرَّ حِیمِ ’’ بھروسہ کرو خدا قادر و رحیم پر اَلَّذِی یَرَ ک حِینَ تَقُومُ جو تم کو دیکھتا رہتا ہے‘ جب تم کھڑے ہوتے ہو وَتَقَلُّبِکَ فِی السَّجِدِینَ اور نمازیوں کے ساتھ تمھاری نشست و بر خاست کو وہ دیکھتا رہتا ہے‘‘ (الشعرائ۔۲۱۷۔۲۱۸)۔ جب مکہ کی فضا مزید بگڑتی ہے۔ظلم و ستم اور جبر و تشدد میں اضافہ ہوتا ہے تو آپؐ کارِ تبلیغ کو جاری رکھنے کے لیے طائف کو منتخب کرتے ہیں۔ طائف مکہ مکرمہ سے ساٹھ میل دور مشرق کی طرف واقع ہے۔ پہاڑی علاقہ مگر سر سبز و شاداب ہے۔قدرتی چشمے اور قسم قسم کے پھلوں اور میووں کے باغات ہیں۔ سرولیم میور یورپ کے متعدد سیاحوں کے اقوال طائف اور اس کے میووں، پھلوں ، خصوصاََ انگوروں اور گلاب کے پھولوں کی تعریف میں نقل کرتا ہے۔آپؐ مکہ سے طائف کا سفر پیدل کرتے ہیں۔ آپ ﷺکے ساتھ آپ کا آزاد کردہ غلام سیدنا زید بن حارثہؓ ہیں۔راستہ کٹھن ہے مگر راستے میں قبائل کو اسلام کی دعوت دیتے جاتے ہیں۔ قبیلہ بنو بکر کے ہاں جاتے ہیں لیکن وہ ٹھہرنے نہیں دیتے۔قبیلہ قطحان والے بھی بد سلوکی سے پیش آتے ہیں۔ بالآخر آپؐ طائف کا عزم کرتے ہیں۔دس روز قیام کیا۔بنو ثقیف کے سرداروں نے نا روا سلوک کیا۔آپؐ نے ایسے سڑے گلے اور روکھے پھیکے جواب ہی نہیں سنے بل کہ یہ سردارا ن اوباش اور آوارہ لڑکوں کو پیچھے لگا دیتے ہیں۔وہ تالیاں بجاتے،گالیاں دیتے،آوازے کستے حتیٰ کہ پتھروں کی بارش کردیتے ہیں۔ ان پتھروں سے آپ لہو لہان ہو گئے۔ آپﷺ کے نعلین مبارک خون سے بھر گئے۔آپؐ کا غلام پتھروں کو روکتا ہے۔کبھی آگے سے کبھی پیچھے سے روکتا ہے۔مگر وہ تنہا کیا کر سکتا تھا بل کہ آپ ﷺکا بھی سر اقدس پھٹ گیا۔آپؐ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ زیدؓ نے اٹھایا۔ایک باغ میں پہنچے۔وہ باغ امیر معاویہ ؓ کے نانا عتبہ بن ربیعہ اور ان کے بھائی شیبہ کا تھا۔عتبہ و شیبہ موجود تھے۔ آپؐ نے یہاں پناہ لی۔طبیعت سنبھلی‘ وضو کیا اور بارگاہ الہٰی میں مصروف ہو گئے۔ادھر باغ کے مذکورہ مالکان نے اپنے غلام عداس کے ہاتھوں انگوروں کے چند خوشے آپؐ کی خدمت میں بھیجے۔آپؐ نے انگوروں کو کھانے کا ارادہ فرمایاتو سب سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی۔عداس چونک پڑا اور بولا’’ یہ جملہ تو اس شہر کے لوگ نہیں بولتے‘‘۔ آپؐ نے پوچھا ’’تم کہاں کے رہنے والے ہو‘‘؟ اور تمھارا دین کیا ہے؟ اس نے جواب دیا’’ میں عیسائی ہوں اور نینویٰ کا رہنے والا ہوں‘‘۔سرکار دو عالم ﷺنے فرمایا’’ اچھا تم مرد صالح یونس ؑ بن متی کے شہر کے رہنے والے ہو؟ عداس نے پوچھا آپؐ ان کو کیسے جانتے ہیں؟ سرکار دو عالمﷺ نے فرمایا وہ میرے بھائی تھے۔میرے اور ان کے درمیان نبوت کا رشتہ ہے ۔وہ بھی نبی تھے اور میں بھی اللہ کا نبی ہوں‘‘۔ عداس یہ سن کر فوراََ جھک گیا۔ آپ ؐ کے سر اور ہاتھوں کو بوسہ دیا۔امام بیہقی (اردو ترجمہ دلائل نبوۃ۔جلد دوم ص ۵۱۱)لکھتے ہیں کہ’’ عداس رسول اللہ ﷺکے سامنے گر گیا۔ آپؐ کے پیروں کو چومنے لگ گیا حال آں کہ پیروں سے خون بہہ رہا تھا‘‘۔
اعتراض نمبر ۲۱۹
سفرِ طائف کا سفر سوء تدبیر تھا (نعوذ باللہ)[ مارگولیس] اس کی دلیل یہ لاتا ہے کہ ’’ طائف مکہ سے بالکل قریب ہے اور مکہ والوں کے زیرِ اثر تھا اور وہاں رئوسا ئے مکہ کے باغ تھے جس کی وجہ سے ان کی آمدورفت رہتی تھی۔اس لیے جب مکہ کے تمام رئوسا سرکارِ دو عالمؐ کے خلاف تھے تو طائف کے لوگوں سے کیا امید ہو سکتی تھی؟
جواب:سفر طائف سوء تدبیر نہ تھا بل کہ’’ فَاصدَع بِمَا تُو ئمرَو‘‘ ( پس تجھ کو حکم دیا گیا‘ واشگاف کہہ دے) حکم خداوندی کی تعمیل تھی۔یہ سوچی سمجھی تدبیر حکم الہٰی کے تحت تھی۔اس میں امید و نامیدی کی ذرا برابر گنجائش نہیں بل کہ امید و یاسیت سے بالا تر ہو کر مثردہ جان فزا یعنی پیغام توحید پہنچانا مقصود تھا۔ اس کے نتائج خواہ کچھ ہی برآمد ہوں۔یہ بھی حقیقت سے بعید امر ہے کہ ایک ساتھ رہنے اور آمدورفت کے ملاقاتی سلسلہ سے خوف زدہ یا کفار کے اہل مکہ سے تعلقات کی بناء پر توحید کا پیغام نہیں پہنچایا حال آں کہ ایک ساتھ رہنے والے اور ایک دوسرے سے میل ملاپ کے باوجود ‘ یہ انسانی فطرت ہے کہ سوچ ‘ فکر کے زاویے جدا جدا ہو تے ہیں۔ہاں کہیں رشتہ اکسیر بھی ہوتا ہے۔ البتہ سوچ و فکر اور عمل سچائی پر مبنی ہو ، مقصد میں کوئی ذاتی غرض چھپی نہ ہو اور نتیجہ کچھ بھی نکلے تو اسے سوء تدبیر سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ طائف تو پھر بھی مکہ سے کچھ فاصلہ پر ہے لیکن مکہ شہر میں ایک ساتھ رہنے والے مختلف مزاج اور جداگانہ سوچ کے حامل لوگ تھے۔ کئی غلط اور کئی صحیح فکر کے مالک تھے جبھی تو صدیق اکبرؓ، عمر وؓ عثمان ؓو علیؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ مشرف با اسلام ہوئے۔قریش کے ساتھ تعلق داری بھی تھی مگر دعوت حق پر لبیک کہتے ہیں۔ جب مکہ کی یہ حالت تھی تو اور جگہوں اور مقامات پر تبلیغ توحید میں کون سا امر مانع تھا ؟ کیسے یہ سوء تدبیر تھی کیا انھیں حق کی صراط مستقیم کی طرف نہ بلایا جاتا؟ بایں سبب آپ زید بن حارثہؓ کے ہمراہ عازم طائف ہو ئے تا کہ منکرین و مشرکین کو دین اسلام کی دعوت دی جائے۔ طائف سے واپسی پر وادی نخلہ میں جنوںنے آپؐ کا قرآن سنا یہاں تک کہ قرآنی آیات نازل ہوئیں۔۔ ان آیات میں لفظ ’’ اذ‘‘ سے آپؐ کے سفر طائف کے واقعہ کی طرف اشارہ کر کے یہ بتایا کہ اہل طائف انسان تھے اور آپؐ کے ہم جنس تھے۔ آپؐ ارادتاََ ان کو دعوت دینے کے لیے گئے تھے۔ان کی قریش مکہ کے ساتھ عزیز داری اور تعلق داری بھی تھی لیکن تمام علائق کو بالائے طاق رکھ کر انھوں نے آپؐ سے اخلاق سے گرا ہوا اور شرافت کا منہ چڑانے والا انسانیت سوزسلوک کیا۔نہ صرف طعن و تشنیع اور گالیوں کی بوچھاڑ کی بل کہ لہو لہان کر دیا ۔ آپؐ کے نعلین مبارک خون سے لبا لب بھر گئے۔ یہ سفر آپؐ کے مقام صبر واستقامت کے مدارج پورے کرانے کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ سورہ احقاف کے آخر میں’’ فاصدع کما اولو العزم من الرسل‘‘ سے عیاں ہے۔( خاتم النبین ۳۳۲۔ ۳۳۳) اتنی بڑی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے ،تکلیفوں اور اذیتوں کو خاطر میں نہیں لایا جاتا شاید اس بنیاد پر کہ مخالفین آپؐ کی آواز پر اسلام نہ لائے اور تکلیفوں کے دہانے کھول دئیے اس کو دیکھ کر سفر کو سوء تدبیر کہتے ہوں۔کاش یہ لوگ اس سلسلے میں اپنے گھر کے فرد کی بات ہی پلے باندھ لیں یعنی ’’ سر ولیم میور‘‘ کی بات۔ وہ اس امر کے اثبات میں کہتا ہے کہ’’ محمد ﷺ کا زور اعتقا د اور اعتما د علی النفس تھا کہ باوجود تمام ناکامیوں کے وہ تنہا ایک مخالف شہر (طائف)میں آگئے جہاں آپ کا کوئی خیر خواہ نہ تھا بلکہ سارے مخالف تھے اورتبلیغ اسلام کا فرض ادا کیا‘‘۔ سرولیم میور کے اس بیان پر حاشیہ چڑھاتا ہوں کہ اسلام مکہ میں آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا۔قریش کی ایذا رسانیاں زوروں پر تھیں۔اس کے باوجود لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ اسلام کے آہستہ پھیلنے کو نا کامی سے تعبیر کرنا نا انصافی و زیادتی ہے۔حضرت عمر ؓ اسلام لائے تو مسلمانوں کی تعداد ۴۰ ہو گئی تھی۔ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے مگر آپؐ کے پیرو آپؐ کے ساتھ رہے اور دست بردار نہ ہوئے۔وہ پیرو کار نہ جھکے،نہ ہٹے نہ بکے بلکہ رہے ڈٹے۔ معاشرتی مقاطعہ قریش کا ناکام ہوا۔مسلمان امتحان میں کامیاب ہوئے اور ساتھ ہی حج کے موقعہ پر تبلیغ جاری رکھی۔پھر ملک حبش کو ہجرت ہوئی ،ہر حال میں پیغمبر کا ساتھ نہ چھوڑا۔کسی موقع پر ناکامی سے بچنے کے لیے کنارا کش نہ ہوئے۔ ہر بار حالات کا مقابلہ کیا آخر کار کامیابی نے بڑھ کر ان کے قدم چومے۔ ناکامی وہ ہوتی ہے جس کام کے کرنے کا ارادہ کریں ،کچھ مدت اس پر عمل پیرا رہیں پھر تکلیفوں اور راستے میں حائل رکاوٹوں سے شکستہ دل ہو کر کام ترک کردیں۔ لیکن یہاں ایسی بات نہیں۔مسلسل دین آگے بڑھتا چلاجاتا ہے۔ ’’سر ولیم میور‘‘ کو کون سی ناکامیاں نظر آئیں؟ نیز آپؐ تن ِ تنہا نہ تھے۔آپؐ کے صحابہ کرام ساتھ ساتھ رہے خواہ وہ ایک تھا یا زیادہ۔ کسی موڑ پر آپؐ کا ساتھ نہیں چھوڑ ا۔ایک نصرانی مورخ نے خوب کہا ’’ عیسائی اس کو یاد رکھیں تو اچھا ہو ‘ ’’ محمد‘‘ صل اللہ نے وہ درجہ نشّہ دینی کا آپؐ کے پیروئوں میں پیدا کیا جس کو عیسی ؑ کے ابتدائی پیروئوں میں تلاش کرنا بے فائدہ ہے۔ جب عیسیٰ ؑ کو سولی پر لے گئے ان کے پیرو بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان کا نشّہ دینی ہرن ہو گیا اور اپنے مقتدا کو موت کے پنجہ میں گرفتار چھوڑ کر نو دو گیارہ ہو گئے۔ بر عکس اس کے محمد ﷺ کے پیرو اپنے مظلوم پیغمبر کے گرد آئے اور بچائو میں اپنی جان جوکھوں میںڈال کر تمام دشمنوں پر آپ ﷺکو غالب کر دیا‘‘
کیا عجیب بات ہے کہ مارگولیس اور سرولیم میور کو ایک ہی واقعہ کس طرح مختلف نظر آتا ہے۔ ایک نے اپنے تعصب و نفرت اور اسلام دشمنی میں سارا زور صرف کر دیا۔ دوسرے نے یعنی سر ولیم نے مارگولیس کے الزام کو رد کر دیا۔حال آں کہ سر ولیم میور بھی اسلام دشمنی میں کسی سے کم نہیں لیکن سچی بات کبھی کبھار دشمن کی زبان سے بھی نکل جاتی ہے(راستی راہ خود گیرد) ۔ اگر چہ اس کے اپنے بیان میں گڑ بڑ ہے۔پھر بھی اس سے مارگولیس کا رد ہوتا ہے۔ کفار نے سخت مخالفت کی، راہ میں آنکھیں بچھاتے لیکن انہوں نے راہ میں کانٹے بچھائے۔نماز کی حالت میں پشت پر اوجھڑ ڈالا، گلے میں چادر ڈال کر بل دے کرایسا کس دیا کہ آنکھیں نکل آئیں۔مجنوں، دیوانہ،شاعر،کاہن ،جادوگر، ساحر زدہ کہا مگر نبوت کی روحانی طاقت اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ حوصلہ کی طاقت کے سامنے یہ سب اذیتیں اور تکلیفیں ہیچ تھیں اور آپؐ کی زبان سے کفار یہ بھی سن چکے تھے کہ اگر وہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی اس کام سے باز نہیں آئوں گا۔یہ سب کچھ فرائض نبوت کی ادائیگی میں سہنا پڑرہا تھا ۔ پیغام ِ توحید ہر ایک کو پہنچانا ہوتا ہے خواہ جان جائے کہ رہے ، تو پھر کاہے کو سفر طائف سوء تدبیر قرار پاتا ہے؟
آپؐ کے سفرِ طائف کی حکمت عملی رنگ لائی۔نیز دعا نے اپنا رنگ جمایا ۔دعابارگاہ الہٰی میں مستجاب ہوئی تو پھر کیا تھا کہ وہی عبد یالیل ثقفی جس نے طائف میں غلاموں ‘ لڑکوں کو پتھرائو کرنے کے لیے آپؐ کے پیچھے لگایا تھا وہ مدینہ حاضر ہوتا ہے اور اسلام قبول کرتا ہے۔ آنے والی نسلیں تو دور کی بات ہے وہی نسل ایمان لاتی ہے۔اگر یہ سفر سوء تدبیر ہوتا تو آپ دعا میں کہتے کہ مجھ سے بھول ہوئی ہے کہ میں ادھر آ نکلا۔ دعائیہ کلمات سے ادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں ملتا جس سے ظاہر ہو کہ آپؐ سے خطا ہوئی(نعوذ بااللہ)۔
عتبہ اور شیبہ جو باغ کے مالک تھے ان کے دل میں رحم آیا اور اپنے غلام عداس کے ہاتھ انگور بھیجے۔غلام کے ساتھ مکالمت میں اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ آپؐ کے ہاتھوں اور سر کو بوسے دیتا ہے اور مسلمان ہو جاتا ہے ۔( مواہب ۔۱۔۱۸۳) عداس کے مسلمان ہو نے کی تصدیق سید احمدبن زینی دھلان بھی کرتے ہیں۔( السیرۃ النبویہ۔۱۔۳۴۲) یہ فوری اثر کہ عداس مسلمان ہو گیا۔دوسرا یہ کہ اس نے سورہ یاد کر لی۔داعی اسلام کے لیے ایک فرد کا مسلمان ہونا بڑی کامیابی ہے اور وہ بھی اس وقت جب ہر طرف دین اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کے دشمن ہی دشمن ہیں۔ the faith of even one man in islam was to him for better than the greatest booty (محمد رسول اللہ ۔۱۳۲) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ اے پیغمبر ! آپ اس وقت کو یاد کریں جب ہم نے جنات کی ایک جماعت آپ کی طرف بھیجی تاکہ وہ آپ کا قرآن سنیں ، پس جب وہ حاضر ہوئے تو آپس میں کہنے لگے کہ خاموش رہو ۔ پس جب قرآن پڑھا جا چکا ( یعنی نماز ختم ہوئی ) تو یہ جن اپنی قوم کی طرف گئے تاکہ ان کو آگاہ کریں ۔ انہوں نے جا کر یہ بتایا کہ ہم نے ایک عجیب و غریب کتاب سنی ہے جو موسیٰ ؑ کے بعد نازل ہوئی جو اپنی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور حق اور سیدھے راستے کی راہنمائی کرتی ہے ۔ اے ہمارے لوگو! اللہ کے داعی کی دعوت قبول کرو اور اس پر ایمان لائو ۔ اللہ تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا اور جو اللہ کے داعی کی دعوت قبول کرے گا وہ روئے زمین میں چھوٹ کر کہیں نہیں نکل سکتا اور نہ اس کا کوئی حامی ہوگا ایسے لوگ کھلی گمراہی میں ہیں ‘‘۔ ( احقاف)
آپ سے انسانیت سوز سلوک کیا گیا نہ صرف طعن و تشنیع اور لام کاف بکتے تھے بلکہ پتھر مار کر لہو لہان کر دیا ۔ رشتہ داری کے بندھن کو بالائے طاق رکھ کر شرافت سے گرا ، اخلاق سے عاری سلوک روا رکھا لیکن یہ سب کچھ آپ ﷺ کے استقامت کے مدارج طے کرانے کے لیے تھا۔ ساتھ ہی یہ مژدہ سنایا کہ سفر رائیگان اور بے ثمر نہیں ہے بلکہ اپنے حکم تکوینی سے جنات کی ایک جماعت بھیجی اگرچہ وہ مخالف جنس تھے اور انہیں تبلیغ کا قصد نہیں کیا تھا پھر بھی وہ قرائت سننے کے لیے ٹھہر گئے اور آپ ﷺ پر ایمان لائے ۔ آپ ﷺ کی نیابت میں اپنی قوم کو دعوت تبلیغ دینے لگے یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے جب چاہے اور جسے چاہے اور ہدایت کے قابل سمجھے اسے نعمت سے متمتع کر دیتا ہے خواہ وہ خاکی ہو یا نوری ۔ جنات کے علاوہ انسان بھی پیچھے نہ رہے۔ وہ یوں کہ عروہ بن مسعود ثقفی بھی فتح مکہ کے بعد حصار طائف سے واپسی کے وقت آپؐ کے پیچھے پیچھے مدینہ آتا ہے اور آپؐ کے مدینہ پہنچنے سے قبل آپؐ کو آملتا ہے اور مسلمان ہو جاتا ہے۔ گویا آپؐ کے سفر طائف سے تخم اسلام طائف میں ریز ہو گیا جو آگے بڑھ کر قد آور شجر اسلام بن جاتا ہے جس کی گھنی اسلامی چھائوں میں ایمان والوں کے لیے راحت و آرام کا سامان میسر ہوتا ہے ۔لہٰذا اس سفر کو حصول اجر اور پیغام الہٰی کے پہنچانے کی نظر سے بے ثمر اور رائگاں نہیں کہہ سکتے۔
سر ولیم میور آپ ﷺ کی دعوت تبلیغ کے سلسلے میں سفر طائف میں دکھائی گئی استقامت اور بلند حو صلگی کو یوں خراج تحسین پیش کرتا ہے ’’ ایک تنہا شخص جس کو اس کی قوم کے اپنے ہی لوگوں نے نہایت حقارت و نفرت سے مسترد کر دیا خدا کے نام سے نہایت جرائت و دلیری سے آگے بڑھتا ہے اور جس طرح یونس بن متی ، نینویٰ میں گئے ، اسی طرح وہ بھی ایک بت پرست شہر (طائف) کو توجہ اور اسلامی مشن کی معاونت کی دعوت دیتا ہے ۔ یہ بات اس کے پختہ یقین پر کہ میری دعوت حقیقتاََ الہٰی دعوت ہے ، نہایت زبردست روشنی ڈالتی ہے ۔‘‘(خاتم النبیین ۔۳۳۲) اس سفر کی ایک منفرد حیثیت یہ بھی ہے کہ کسی نبی کا قدم اس سر زمین تک نہیں پہنچا تھا ۔یہ اولیت آنحضرتؐ کے حصے میں آئی اور آپؐ نے اہل طائف کو پیغام حق کی دعوت دی۔’’ میں تیری ذات کے نور سے پناہ چاہتا ہوں جس سے ساری تاریکیاں روشن ہو جاتی ہیں۔۔ مجھے تیری ہی رضامندی اور خوشنودی درکار ہے‘‘۔ ان دعائیہ کلمات سے مترشح ہوتا ہے کہ صرف اور صرف یہ سفر رضائے الہٰی اور خوش نودی خدا وندی کی خاطر تھا نہ کہ کوئی ذاتی غرض اور منفعت تھی اور نہ ہی اس سفر کو سوء تدبیر قرار دے سکتے ہیں کیوں کہ آپؐ کا ہر عمل حکم الہٰی کے تابع ہوتا ہے جیسے’’ فَا صدَع بِمَا تُو مَرُ ‘‘ ( پس تجھ کو حکم دیا گیا‘ واشگاف کہہ دے) یہ سفر اسی فرمان الہٰی کا آئنہ دار ہے۔ آپؐ بولتے ہیں تو خواہش نفسانی سے نہیں بل کہ وحی الہٰی سے۔’’ وما ینطق عن الہوی ان ھو لا وحی یوحی‘‘ ۔ آپؐ کا ہر فعل ، عمل،بول حکمت الہٰی اور فرمان خداوندی کے تابع ہوتا ہے، سوء تدبیر نہیں ہوتا!
ٹامس کا ر لائل کہتا ہے ان کے منہ سے جو حکم بھی نکلتا ہے وہ حکمت عملی میں ڈوبا ہوا ہوتا ‘ جہاں بولنے کا موقع نہ ہوتا تو بالکل ساکت رہتے اور جب بو لتے تو عقل و اخلاص اور حکمت کے موتی جھڑتے‘‘۔( ن۔۱۴۷۔۴) المختصر آپؐ کا اسوہ حسنہ’’ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ‘‘ نوع انسانی کے لیے کیسے نمونہ قرار پاسکتا ہے؟ تو اس آقا کریم ﷺکے اسوہ حسنہ میں سوء تدبیر پوری انسانیت کے لیے کیسے نمونہ قرار پاسکتا ہے۔؟
انسانی زندگی کے تما م شعبوں میں رہنمائی صرف آپؐ کے اسوہ حسنہ سے ملتی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی ایک شعبہ میں رہنمائی میسر نہ آسکے۔ یہی وہ انسان کامل و اکمل و اجمل ہیں جس کا اسوہ حسنہ کائنات کے ہر شعبہ زندگی کے لیے عمل میں تقلید کا ایک بہترین اور افضل ترین نمونہ ہے۔’’ الفضل اشھدت بہ الاعدائ‘‘ بے شک بزرگی اور فضیلت وہی ہے جس پر دشمن اور اعداء بھی گواہی دیں۔ مقالہ نگار انسائکلو پیڈیا برٹانیکا میں لکھتا ہے ’’ تمام پیغمبروں اور مذہبی شخصیتوں میں محمد ﷺ سب سے زیادہ کامیاب ہیں‘‘۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...