Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم |
حسنِ ادب
سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم

اسرا ومعراج
ARI Id

1689956752314_56117771

Access

Open/Free Access

Pages

۲۰۰

اسراء اور معراج
قرآن کریم میں آیت اسراء میں من المسجدالحرام الی المسجد الاقصی کا ذکر ہے۔اسراء میں کوئی اختلاف نہیںہے یہ قرآن سے ثابت ہے۔تقریباََ تیس صحابہ کرام نے روایت کیا ہے۔اختلاف روایات کی بنیاد پر بعض سیرت نگاروں نے اسراء کا ہونا کئی بار ہوا لکھا ہے۔ایک دفعہ یہ سفر جسد مبارک اور روح مقدس کے ساتھ ہوا۔بعثت کے گیارہویں سال یا ایک روایت کے مطابق ہجرت سے ایک سال قبل معراج ہوئی۔ایک قول کے مطابق ربیع الاول اور دوسرے کے مطابق رمضان شریف اور تیسرے اور مشہور قول کے مطابق رجب میں معراج ہوئی۔ اسی قول پر لوگوں کا عمل ہے۔ مکہ سے بیت المقدس تک کے سفر کو اسراء کہتے ہیں اور وہاں سے آسمانوں کی سیر کو معراج کہتے ہیں۔ اس میں رب تعالیٰ نے آپ کو ملکوت کے عجائب دکھائے۔ارشاد خداوندی ہے ’’ لِنُریَہ مِن اٰیٰتِناَ (بنی اسرائیل۔۱) جب کہ اللہ تعالیٰ زمان و مکان سے پاک ہے۔ اس شب میں آقا کریم کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دیدار کرایا اور بندہ خاص پر وحی کی ۔
واقعہ معراج آپؐ نے اپنی چچا زاد ام ہانی کو بتایا۔انھوں نے آپؐ کی چادر کا دامن پکڑ لیا۔عرض کی اے چچا زاد! میں آپؐ کو رب کا واسطہ دیتی ہوں کہ آپؐ قریش کو یہ واقعہ نہ بتائیں ورنہ آپؐ کی تصدیق کرنے والے بھی آپؐ کو جھٹلادیں گے۔ آپؐ نے چادر کو چھڑالیا اور ام ہانی نے کہا میں نے آپؐ کے قلب انور کے پاس ایک نور دیکھا۔قریب تھا کہ میری آنکھیں چندھیا جاتیں۔میں فوراََ سجدہ میں گر گئی۔ جب سر اٹھایا تو آپؐ جا چکے تھے۔ام ہانی نے اپنی لونڈی سے کہا جا کر دیکھو! آنحضرتﷺ ان سے کیا کہتے ہیں؟ اس نے بتایا کہ حضورؐ قریش کے اس گروہ کی طرف گئے ہیں جو حطیم میں موجود تھا۔ ابو جہل اور مطعم بن عدی بھی تھے۔آپؐ نے انھیں واقعہ سنایا۔ ابو جہل نے ازراہِ مذاق کہا ’’ حضرت عیسیٰ ؑ کا حلیہ بیان کریں۔ آپؐ نے بتا دیا۔قریش شور مچانے لگے۔بعض تالیاں بجانے لگے۔ بعض نے ازراہِ تعجب اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھا۔ مطعم بن عدی نے کہا’’ آج سے قبل آپ کا معاملہ اتنا عظیم نہ تھا جتنا کہ یہ امر عظیم ہے۔آپؐ سچ نہیں بول رہے ہم ایک ماہ تک اپنے اونٹوں کے جگر پگھلا دیتے ہیں تب جا کر بیت المقدس آتا ہے پھر واپس آنے میں ایک ماہ لگتا ہے۔ لات و عزیٰ کی قسم! میں آپؐ کی تصدیق نہیں کروں گا۔یہ واقعہ کبھی بھی رونما نہیں ہو سکتا۔
معراج پر مبنی اعتراضات!
اعتراض نمبر ۲۲۰
واقعہ معراج کی جمالیات کو جدلیات میں بدل ڈالا۔
جواب: برنارڈ لیوس نے پیش گوئی کی تھی کہ ایران ، امریکہ اور اسرائیل پر ۲۲ اگست ۲۰۰۶ میں ایٹمی حملہ کر دے گا۔ یہ حملہ نہ صرف اسرائیل بل کہ پوری دنیا کے اختتام کا باعث ہو سکتا ہے۔ اس بیان کے ذریعے سے مغربی طاقتوں کو اشارہ دیا بل کہ ایران پر پہلے ہی حملہ کرنے کی ترغیب دی۔ خدا کی خدا ئی میں کسی کو دخل حاصل نہیں آخر یہ تاریخ خیر وعافیت سے گزر گئی لیکن مغربی میڈیا میں ’لیوس کی استنادی حیثیت میں بہت کم کمی دیکھنے میں آئی۔ ۲۲ اگست کی تاریخ کی لیوس نے اپنی پیشن گوئی کی وجہ بیان کی کہ ’’ اسلامی کیلنڈر کے مطابق ۲۷ رجب ۱۴۲۷ ہجری بنتا ہے۔ اس دن تمام عالم اسلام پیغمبر ﷺکے واقعہ معراج کی یاد مناتے ہیں۔یہ تاریخ اسرائیل اور اگر ضروری سمجھا گیا تو دنیا کے قیامت خیز اختتام کی ایک موزوں تاریخ ہو سکتی ہے۔ ( محمد رسول اللہ۔۴۱) اس کے الفاظ یہ ہیں۔
" This might well be deemed an appropriate date for the apoealyptic ending of Israial and if necessary all not the world"
لیوس نے اپنی فن کارانہ چابکدستی سے واقعہ معراج کی جمالیات کو جدلیات میں بدل ڈالا جبکہ یہ خالص دینی معاملہ ہے ۔اس کے اسرار و رموز اور حکمتیں بے بہا اور بے شمار ہیں۔ ایک انسان کا آسمان کی رفعتوں کو تسخیر کرنا غیر معمولی اقدام ہے۔ ؎
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰؐ سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
اس واقعہ کی بہ دولت انسان کو رہنمائی ملی جس سے اس نے چاند اور ستاروں کی تسخیر کے لیے کمندیں ڈالی ہیں مگر ’’ لیوس‘‘ نے معراج مصطفی کے جمالیاتی پہلو کو جدلیاتی پہلو میں بدل ڈالنے کی فن کارانہ چال چلی ہے۔ اوربرنارڈ لیوس کی بات بعید از قیاس ہے۔
اعتراض نمبر ۲۲۱
اس واقعہ( واقعہ معراج) پر علوم طبعیات کی رو سے دو اعتراضات وارد ہو تے ہیں۔’’ پہلا اعتراض رفتار کی سراعت کے متعلق ہے۔ دوسرا یہ کہ کیا جسم خاکی کے لیے ممکن ہے کہ فضا میں روشنی کی رفتار سے بھی تیز تر پرواز کر سکے۔ معراج کی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ سرکار دو عالمﷺ کائنات کے افق اعلیٰ تک تشریف لے گئے‘ پھر واپس بھی تشریف لائے۔حال آں کہ آئن سٹائن سائنس دان کے نزدیک کائنات کے دائرہ کے قطر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اگر روشنی سفر کرے تو اس کو یہ مسافت طے کرنے کے لیے تین ہزار ملین نوری سال کا عرصہ درکار ہے جب کہ روشنی کی اپنی رفتار تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ ہے۔(کونسٹا نس جیور جیو۔وزیر خارجہ رومانیہ)
جواب: وزیر خارجہ رومانیہ کونسٹا نس لکھتا ہے کہ اگرچہ علم طبعیات کے نزدیک یہ امر ممکن نہیں کہ اتنی مسافت رات کے ایک قلیل حصہ میں طے ہوئی ہو لیکن مذہبی نقطہ نظر سے ہمیں اس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں کہ ہم عیسائی بھی بہت سی ایسی چیزوں کو اپنے مذہبی عقائد میں شمار کرتے ہیںاور ان کی صداقت پر ایمان رکھتے ہیں۔اس لیے ہمیں مسلمانوں پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ محمد کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں اگرچہ انھوں (وزیر موصوف) نے عقائد کا ذکر نہیں کیا جن پر عیسائی کا ایمان لانا ضروری ہے۔ حال آں کہ وہ علم طبیعی کی رو سے ناممکن ہے۔لیکن میں انجیل کے حوالہ سے ایک واقعہ کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔سب عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح ؑ کو آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ مختلف انجیلوں کی آیات سے یہ عقیدہ ثابت ہوتا ہے۔ انجیل مرقس کے سولہویں باب کی ۱۹ویں آیت ملاحظہ فرمائیں۔
’’ غرض خداوند یسوع ان سے کلام کرنے کے بعد آسمان پر اٹھایا گیا اور خدا کی دا ہنی طرف بیٹھ گیا‘‘۔
انجیل لوقا میں ہے ’’ پھر وہ بیت عیناہ کے سامنے تک گیا اور اپنے ہاتھ اٹھا کر انھیں برکت دی جب وہ انھیں برکت دے رہا تھا تو ایسا ہوا کہ ان سے جدا ہو گیا اور آسمان پر اٹھایا گیا‘‘۔
اگر یسوع مسیح ؑ زمین سے آسمان کی ان بلندیوں تک پرواز فرما سکتے ہیں جہاں خدا وند کے داہنے جانب بیٹھ سکتے ہیں تو وہ ہستی جس کے جوتوں کے تسمے کھولنے کی حسرت مسیح ؑ کو عمر بھر بے چین کیے رہی ( تو وہ ہستی) کیوں یہ سفر قلیل مدت میں طے نہیں کر سکتی۔جدید علوم نے یہ ثابت کردیا ہے وہ لوگ جو معراج کے منکر تھے کہ آپؐ ہزاروں میل کا فاصلہ مکہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے آسمانوں تک کافا صلہ چند لمحات میں طے کر لیا تھا۔ انھیں یہ جان لینا چاہیے جس طرح ہوائی جہاز سے چند گھنٹوں میں ہزاروں میل کا سفر طے کر سکتے ہیں، خلا میں آسکتے ہیں تو وہ قادر مطلق سرکار دو عالمﷺ کو مکہ سے سدرۃ المنتہیٰ تک لے جانے پر قادر نہیں ہے؟اس خالق نے انسان کو دریافت کی طاقت بخشی اس طاقت سے انسان نے بہت سی ایجادات کیں جن کی مدد سے ایسے کام لیے جاتے ہیں جو پہلے نا ممکن تھے اسی طرح جہاز کی ایجادسے ہزاروں میلوں کا سفر چند گھنٹو ں میں طے ہو رہا ہے تو معراج نے یہ مسافت بہت کم کی ہے کیونکہ اس کا ذریعہ لے جانے کا انسانی دسترس سے باہر ہے بلکہ وہ ذریعہ روحانی ہے جو اپنے حبیب کو وہاں لے گیا جہاں کوئی نہ گیا تھا ۔
دائرہ کائنات کے قطر کے دو کناروں میں بعدکا جو اندازہ آئن سٹائن نے لگایا ہے یا روشنی کی سراعت رفتار کا جو تخمینہ اس نے بیان کیا ہے ہمیں اس کی تردید کی ضرورت نہیں لیکن آئن سٹائن سے یہ پو چھنے کا حق تو رکھتے ہیں کہ اس کے پاس کوئی علمی دلیل ہے جس پر اعتماد کر کے وہ یقین سے یہ کہہ سکتا ہے کہ روشنی سے زیادہ تیز رفتار اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی کیوں کہ سائنس جتنی بھی ترقی کر لے اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ہو سکتا ہے کہ کوئی اور چیز جو روشنی سے بھی کئی گنا تیز رفتار ہو۔لیکن کیایہ ممکن نہیں کہ کسی اور قوت سے اس کی تیز رفتاری میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہو۔ جب یہ سب امکانات موجود ہیں اور کسی سائنس دان نے ان کا انکار نہیں کیا‘ پھر جن کا عقیدہ یہ ہو کہ اس عبد کامل نے خود سیر کرنے کا دعویٰ نہیں کیا بل کہ کہا تو یہ کہا’’ سُبٰحنَ الَّذِی اَسرٰی بِعَبدِہٖ‘‘۔ تو اس امر پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے یا کیا کوئی علوم طبیعہ کا قاعدہ اس کی نفی کر سکتا ہے۔ ؟
اعتراض نمبر ۲۲۲
اس واقعہ ( واقعہ معراج ) کو روحانی قرار دیا ہے۔ورمنگھم ( حیات محمد ۔۱۸۶)
جواب:اسراء خانہ کعبہ سے بیت المقدس تک رات کے جانے کو کہتے ہیں اور معراج بیت المقدس آسمانوں کے اوپر تشریف لے جانے کا نام ہے۔اسراء قرآن کریم کی آیت شریف سے ثابت ہے۔’’ سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الاقصی الذی بر کنا حولہ لنریہ من ایتینا ان ھو السمیع البصیر‘‘۔ ۔۔۔ آخری حصہ ’’لنریہ من ایتینا‘‘ معراج کی طرف اشارا ہے جو مسجد اقصیٰ تک لے گیا تا کہ وہاں سے آسمانوں پر لے جا کر قدرت کی نشانیاں دکھائے۔آیات کا دکھانا معجزات کا ظہور آسمانوں پر ہے۔اس کا مبدا ہے اور فکان قاب قوسین او ادنیٰ فا وحی الی عبدہ ما اوحی میں بنا بر تحقیق منتہائے معراج کا ذکر ہے۔اسراء اور معراج ہر دو حالت بے داری میں ہوئے اور ایک ہی رات میں وقوع پذیر ہوئے آیت پاک میں لفظ ’’عبد ‘‘ہے اور عبد جسم اور روح کا مجموعہ ہے۔قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر عبد کا ذکر ملتا ہے اور ہر مقام پر عبد سے مراد جسم اور روح مراد ہے۔ ’’ ذکر رحمۃ ربک عبدہ زکریا‘‘۔(ترجمہ) یہ ذکر اس رحمت کا ہے جو پروردگار نے اپنے بندہ زکریاؑ پر کی تھی‘‘۔
ایک اور سورہ جن میں ہے’’ وانہ لما قام عبد اللہ یدعوہ کادوا یکونون علیہ بعدا‘‘ ’’جب اللہ کے بندہ محمد ﷺ عبادت کے واسطے کھڑے ہوئے تو جن ان پر ٹوٹے پڑتے ہیں ( تاکہ قرآن شریف سنیں) اس طرح آیت زیر بحث میں عبد سے مراد روح و جسم ہے ۔پس معراج جسمانی کا ثبوت اس آیت’’سبحان الذی اسراء بعبد ہ،‘‘ سے ثابت ہوتا ہے۔
جسمانی یا روحانی: یونانی فلسفیوں کے باطل نظریات کرّوں کے متعلق انسانوں کے دل و دماغ پر چھائے ہوئے تھے۔کرہ ہوا، کرہ نار، کرہ افلاک وغیرہ۔ کرہ نار سے گزرنا محال ہے جو شے گزرے گی آگ میں جل کر بھسم ہو جائے گی۔ اس بنا پر بعض روحانی معراج کے قائل ہوئے جب کہ آج کی سائنس نے چاند کو تسخیر کیا، دوسرے سیاروں کی تلاش اور ان میں چھپی چیزوں کے لیے محو سفر ہے اور چاند پر پہنچنے پر کسی کو حیرت نہ ہوئی۔اب سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ’’ اگر کسی چیز کی رفتار روشنی کی رفتار سے تیز ہو جائے تو وہ چیز زمانے کی قید سے آزاد ہو جاتی ہے‘‘۔( سید الوریٰ۲۵۵جلد ۳) روشنی سے تیز رفتار شے سے سفر کریں تو وقت منفی میں سفر کا شمار کرے گا۔لہٰذا انسان چالیس پچاس سال بھی لگائے اور واپس اصل مقام سفر، جہاں سے آغاز کیا تھا ‘ پر آئے تو وقت وہی ہوگا جو آغاز کے وقت تھا۔ سائنس دانوں نے آج اسے دریافت کیا لیکن واقعہ معراج نے اسے ۱۴۳۵ سال پہلے ظاہر کر دیا تھا۔ آپؐ کی سواری کے لیے براق آیا۔اس کی رفتار ایسے ہے کہ جہاں تک نگاہ کام کرتی ہے وہاںاس کا ایک قدم ہوتا ہے۔انسانی آنکھ کروڑوں میل کی دوری پر ستاروں تک آناََ فاناََ پہنچ جاتی ہے مگر براق کی نگاہ کا عالم کیا ہو گا۔ اللہ جانے یا پھر اس کا رسول جانے۔ معراج سے متعلق کتب میں عجیب و غریب کہانیاں ہیں، معارج النبوہ میں ایسی کہانیاں درج ہیں۔ ایک کہانی یہ ہے کہ آپؐ جوتوں سمیت عرش پر گئے تھے۔یہ باطل داستان ہے اس کے بارے میں علامہ زرقانی اور علامہ خفاجی کی عبارات یوں ہیں جن کا ترجمہ ہے۔ (سبیات ہمدانی میں ہے کہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا معراج کی رات میں نے جوتے اتارنے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا سنائی دی کہ اے محمد! اپنے جوتے مت اتارو کہ آسمانوں کو بھی ان کا شرف حاصل ہو جائے۔میں نے کہا اے میرے رب! تو نے موسیٰؑ کو کہا تھا کہ اپنے جوتے اتار دو کیوں کہ تم وادی مقدس میں ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ابو القاسم! میرے نزدیک ہو جائو۔ تم میرے نزدیک موسیٰ ؑکی طرح نہیں ہو وہ تو میرا کلیم تھا اور تم میرے حبیب ہو ( ہمدانی کا کلام ختم ہوا) ) اور ہمدانی کا تعاقب کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ باطل ہے کیوں کہ مکمل تلاش و تحقیق کے باوجود ایسی حدیث دستیاب نہیں ہو سکی جس میں مندرجہ بالا واقعہ مذکور ہو (زرقانی) سید الوریٰ جلد سوم۔ ۲۸۹۔۲۸۸ نماز کی بحث ص ۲۹۱۔۲۹۰

Loading...
Table of Contents of Book
Chapters/HeadingsAuthor(s)PagesInfo
Loading...
Chapters/HeadingsAuthor(s)PagesInfo
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...