Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم |
حسنِ ادب
سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم

شق القمر
ARI Id

1689956752314_56117772

Access

Open/Free Access

Pages

۲۰۴

انشق القمر
اقتربت الساعۃ وانشق القمر(قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا)
جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے مراد وہی انشقاق القمر ہے جو جان دو عالم ﷺ کے عہد میں بطور معجزہ رونما ہوا ۔ بعض مفسرین رائے کے مطابق اس انشقاق سے مراد وہ انشقاق ہے جو قیامت قائم ہونے کے وقت رونما ہو گا کیونکہ آیت کریمہ میں اس سے پہلے قیامت کے قریب ہونے کا ذکر ہے اس لیے ظاہر ہے کہ انشقاق بھی وہی مراد ہو گا جو قرب قیامت کی نشانی ہے ۔ اس رائے پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ قیامت کے نزدیک جو انشقاق ہو گا وہ تو مستقبل میں ہوگا ، اگر وہ مراد ہوتا تو مستقبل پر دلالت کرنے والا کوئی صیغہ لایا جاتا یعنی چاند پھٹ جائے گا ، جبکہ قرآن مجید میں اس انشقاق کا ذکر ماضی کے صیغہ سے کیا گیا ہے یعنی چاند پھٹ گیا ، اس لیے اس سے مراد قرب قیامت والا انشقاق نہیں ہو سکتا ۔ اس کا جواب ان مفسرین نے یہ دیا ہے کہ مستقبل میں جس چیز کا وقوع یقینی ہو ، اس کو اللہ تعالیٰ کبھی کبھی ماضی کے صیغے سے ذکر کر دیتا ہے اور اس سے مقصود یہ بتانا ہو تا ہے کہ اس چیز کا واقع ہونا اتنا متیقن ہے کہ گویا واقع ہو چکی ہے ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ قیامت کو ’’ امر اللہ ‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے اتی امراللہ ط اللہ کا حکم ، یعنی قیامت آ گئی ہے حالانکہ قیامت مستقبل میں آئے گی مگر متیقنا الوقوع ہونے کی وجہ صیغہ ماضی کے ساتھ اس کا ذکر کیا گیا ہے ۔ یہی صورت ۔۔۔ْ چاند پھٹ گیا ۔۔۔ میں بھی ہے ۔ یہ جواب نہایت معقول ہے اور اگر مسئلہ صرف اسی آیت کا ہوتا تو یہی تفسیر درست ہوتی مگر درحقیقت اس آیت کا مفہوم متعین کرنے والی اس سے اگلی آیت ہے ۔( وان یروا ایتہ یعرضوا ویقولو ا سحر مستمر )( اور اگر دیکھتے ہیں کوئی آیت تو اعراض کر جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو زبردست جادو ہے ۔) ظاہر ہے کہ یہ بات اسی انشقاق کے بارے میں ہو سکتی ہے جو بطور معجزہ رونما ہوا تھا اور کفار و مشرکین نے اس کو سحر مستمر قرار دیا تھا ۔قیامت کے قریب جو انشقاق ہو گا ، اس وقت تو مکے والے کافر موجود ہی نہیں ہو ں گے کہ اس کو سحر کہہ سکیں ، جبکہ رو ئے سخن کفار مکہ کی طرف ہے اور اگر سیاق کلام کے برعکس کفار مکہ کی تخصیص نہ کی جائے بلکہ بعد میں آنے والے کافروں کو بھی اس میں شامل سمجھا جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہو گا کہ قیامت کے قریب جو کافر موجود ہوں گے وہ اس وقت واقع ہونے والے انشقاق کو کیوں سحر قرار دیں گے ۔۔۔ ؟ ساحر کس کو کہیں گے اور وجہ سحر کیا بیان کریں گے ۔۔۔؟ نیز علامات قیامت ظاہر ہونے کے بعد اعراض بھی ممکن نہیں ہوگا کیونکہ اس سمے نظام کائنات درہم برہم ہو رہا ہو گا اور ایک خوف و دہشت کے عالم میں لوگ سب کچھ دیکھ رہے ہوں گے ۔ اس گھڑی بھلا کیوں کر اعراض کر سکیں گے ؟ غرض کہ اس آیت نے روز روشن کی طرح واضح کر دیا کہ سابقہ آیت میں وہی انشقاق مراد ہے جو بطور معجزہ ہوا تھا ، نہ کہ قرب قیامت والا انشقاق۔
انشقاق قمر کا یہ واقعہ بخاری و مسلم سمیت حدیث و سیرت کی تقریبا ہر کتاب میں موجود ہے کسی میں اختصار کے ساتھ اور کسی میں تفصیل کے ساتھ۔ اس لیے اس کے واقع ہونے میں کسی مومن کو تو شک نہیں ہو سکتا ، البتہ پہلے زمانے میں یونانی فلسفے کے زیر اثر بعض ملحدین نے اس کا انکار کیا ہے کیونکہ اس دور میں مشاہدے کے بجائے محض اٹکل پچو سے یہ ثابت کیا گیا تھا کہ آسمان اور اس کے ساتھ وابستہ کرات میں خرق و التیام اور شکست و ریخت نا ممکن ہے مگر آجکل ایسی باتیں کرنا اپنے آپ کو تماشہ بنانے والی بات ہے کیونکہ جدید تحقیقات و مشاہدات کی رو سے اس فضائے بیکراں میں کتنے ہی ستارے بنتے بگڑتے اور ٹوٹتے پھوٹتے رہتے ہیں ، اگر چاند بھی بطور معجزہ دو ٹکڑوں میں بٹ گیا ہو تو اس میں کونسی ناقابل فہم بات ہے ! بعض لوگوں کو یہ الجھن محسوس ہوتی ہے کہ اگر کوئی ایسا واقعہ ہوا ہوتا تو سارے عالم میں اس کا چرچا ہو تا اور دنیا بھر کی رصدگاہیں اس کا ریکارڈ رکھتیں حالانکہ اسلامی روایات کے علاوہ کسی ملک کی حکایات میں اس کا تذکرہ نہیں ملتا ۔
ہمیں یہ الجھن بے معنی معلوم ہوتی ہے کیونکہ جب یہ واقعہ پیش آیا ، اس وقت کرہ ارض پر کہیں رات کا پچھلا پہر ہوگا اور لوگ محو خواب ہوں گے ، کہیں دن ہو گا اور لوگ اپنے کام کاج میں مشغول ہوں گے اس لیے ان لوگوں کے مطلع ضروری نہیں اور جہاں پر تقریباََ وہی وقت ہو گا جو شق قمر کے وقت مکہ میں تھا تو وہاں کے رہنے والوں میں سے بھی ہر آدمی اس گھڑی چاند کو تو نہیں دیکھ رہا ہوگا کہ اس کو چاند میں یہ تغیر فوراََ محسوس ہو جاتا ۔ عام لوگوں کو تو چاند گرہن کا بھی پتہ نہیں چلتا کہ کب لگا اور کب ختم ہو ا، حالانکہ گرہن بعض دفعہ کئی گھنٹوں تک جاری رہتا ہے جبکہ شق قمر تو چند لمحوں کی بات تھی اس کا خصوصی توجہ کے بغیر کسی کو کیسے پتہ چل سکتا تھا ۔ ہاں جو قافلے رات کو چاند کے رخ پر سفر کر رہے تھے اور چاند ان کو سامنے نظر آ رہا تھا انہوں نے یقینا یہ منظر دیکھا ہو گا اور بعد میں باہر سے آنے والے قافلوں نے اس کی تصدیق بھی کر دی تھی ۔ رہی رصد گاہوں کی بات تو اس زمانے میں اتنی ترقی یافتہ رصد گاہیں کہاں پائی جاتی تھی جو فلکیاتی اسباب و علل کے بغیر اچانک چند لمحوں کے لیے پیش آ جانے والے واقعہ کا ادراک کرتیں اور ریکارڈ رکھتیں ۔۔۔ نیز یہ کیسے ثابت ہوا کہ یہ واقعہ دنیا بھر کی کسی رصد گاہ میں نہیں دیکھا گیا ؟ کیا اس وقت کی تمام رصد گاہوں کا ریکارڈ اب تک محفوظ ہے
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم میں انبیاء سابقین کے متعدد حسی معجزات مذکور ہیں مگر جان دو عالم ﷺ کا حسی معجزہ صرف ایک ہی بیان ہوا ہے (۱) یعنی انشقاق قمر ۔۔۔ چاند کا دو ٹکڑوں میں بٹ جانا ۔۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نزول قرآن کے وقت انبیائے سابقین خود موجود نہیں تھے اس لیے ان کے حالات بیان کرنے کے ضمن میں ان کے معجزات کا ذکر بھی قرآن کریم میں آ گیا ، جبکہ جان دو عالم ﷺ بنفس نفیس اس وقت موجود تھے اور آپ ﷺ سے دم بدم ظاہر ہونے والے معجزات کو لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اس لیے ان کے ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ شق القمر کو بھی قرآن کریم نے بطور معجزہ نہیں بلکہ واقعہ قیامت کی دلیل کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور منکرین قیامت کو تلمیحاََ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارادے سے اگر چاند پھٹ سکتا ہے تو آسمان بھی پھٹ سکتا ہے اگر چاند دو ٹکڑوں میں بٹ سکتا ہے تو ستارے بھی جھڑ سکتے ہیں ، اگر چاند کی تقسیم ہو سکتی ہے تو سورج کی بھی تکویر ہو سکتی ہے کیونکہ چاند بھی آسمانی کروں میں سے ایک کرہ ہے ۔ اگر آج اس کی شکست و ریخت ہو سکتی ہے تو کل اس سمیت دوسرے کروں کی بھی ہو سکتی ہے اس لیے انکار قیامت کی کوئی معقول وجہ نہیں پائی جاتی ۔مصنف سید الوریٰ کا بیان ختم ہوا ۔مذکورہ بیان میں مصنف نے شق القمر کو معجزہ کی بجائے وقوع قیامت کی دلیل کے طور پر مانا ہے ۔ لہٰذا معجزے کی تردید ہو گئی ۔
اعتراض نمبر ۲۲۳
’’ مَا جَعَلناَ الرُّ وَیَا الَّتِیٓ اَرَینٰکَ اِلَّا فِتنَۃََ لّلنَّاس‘‘ یہاں رویا کا لفظ خواب کے معنی میں ہے۔آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے یہ خواب آپ کو صرف اس لیے دکھایا تا کہ لوگوں کی آزمائش کی جا سکے‘‘۔
جواب:اگر واقعہ معراج خواب میں ہوتا تو اس قدر شور و غوغا نہ ہوتا۔آئے دن لوگ خواب دیکھتے ہیں ۔کئی اپنے خوابوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتے محسوس کرتے ہیں۔ ایک وقت کہیں دوسرے وقت کہیں۔اس پر معترضین کے جملہ اعتراضات کا رد کلمہ ’’ اسری بعبدہٖ‘‘ ( اپنے بندے کو رات کے وقت لے گیا ) سے ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ لے جانے والی ذات ہر عیب و نقص سے پاک ہے۔لے جانے والی ذات قادر مطلق ہے۔اگر وہ اپنے کامل بندے کو جسم اطہر کے ساتھ لے جائے حالت بیداری میں رات کے ایک قلیل حصہ میں خانہ کعبہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے آسمانوں کے اوپر جہاں تک چاہا لے گیا تو اس میں کون سا امر مانع ہے۔جب قادر مطلق نے تصریح فرمادی تو انکار کیسا؟ اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ اس آیت کا تعلق واقعہ معراج سے نہیں ہے۔کسی دوسرے خواب سے ہے۔ نیز حضرت عباس ؓنے فرمایا’’کہ رویا کا معنی ان آنکھوں سے دیکھنا ہے جس کا مشاہدہ رسول کریمﷺ کو کرا یا گیا۔ علامہ ابن عربی اندلسیؒ حضرت عباس ؓکا قول نقل کرتے ہیں’’ یعنی اگر معراج عالم خواب کا واقعہ ہوتا تو کوئی اس سے فتنہ میں مبتلا نہ ہوتا اور کوئی اس کا انکار نہ کرتا کیوں کہ اگر کوئی شخص خواب میں اپنے آپ کو دیکھے کہ وہ آسمان کو چیرتا ہوا اوپر جا رہا ہے یہاں تک کہ وہ کرسی پر جا کر بیٹھ گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس سے گفت گو کی تو ایسے خواب کو کبھی مستعبد اور خلاف عقل قرار دے کر اس کا انکار نہیں کیا جاتا۔ حضرت انسؓ کی حدیث ’’ پھر میں نیند سے بیدار ہوا اور اپنے آپ کو مسجد حرام میں پایا ‘‘ اس سے متعلق علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ حضرت انسؓ سے شریک نے نقل کیے ہیں اور شریک۔۔ اہل حدیث کے نزدیک حافظ حدیث نہیں ہے۔یہ الفاظ صرف شریک نے روایت کیے ہیں اور کسی نے نہیں اور آخر عمر میں ان کا حافظہ کم زور ہو گیا تھا۔اس لیے ان کی روایت کی بہ جائے ان روایات پر بھروسہ کیا جائے جو باقی تمام راویوں نے بیان کی ہیں۔علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں ’’ یعنی ان الفاظ کا شمار شریک کی غلطیوں میں ہوتا ہے۔حضرت امیر معاویہ ؓاور بی بی عائشہ ؓکے قول سے بھی استدلال کیا جا تا ہے۔محدثین اس قول کو مشکوک سمجھتے ہیں۔اگر روایت ثابت بھی ہو جائے تو ان کے قول پر جمہور کے قول کو ترجیح دی جائے گی۔کیوں کہ اس وقت حضرت صدیقہؓ کم سن بچی تھیں اور امیر معاویہؓ بھی اسلام نہیں لائے تھے۔لہٰذا یہ ان کی ذاتی رائے ہے۔
اعتراض نمبر ۲۲۴
سر سید نے بھی بڑے پر زور طریقے سے اس واقعہ کو خواب ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور مفصل بحث کی ہے۔
جواب: مستشرقین اور عیسائی مورخین کے اعتراضات سے گھبرا کر اور ان کے زہر میں بجھے ہوئے طعن و تشنیع کے تیروں سے اسلام کو ہر قیمت پر بچانا چاہتے ہیں خواہ اس کو شش میں اسلام کا حلیہ ہی کیوں نہ بگڑ جائے اور عظمت مصطفوی کا عقیدہ ہی کیوں نہ متزلزل ہو جائے اور اللہ کے قادر مطلق ہونے کے دلائل و براہین کو ہی کیوں نہ منہدم کرنا پڑے۔ سر سید واقعہ معراج میں احادیث کا ذکر کرتے ہیں۔جو ایک دوسرے سے اس قدر متضاد و متناقض ہیںکہ صراحتاََ ایک دوسرے کی تردید کرتی ہیں اور اپنی صحت و اعتبار کو کھو دیتی ہیں۔ لیکن تناقض کے جو نمونے انھوں نے پیش کیے وہ عجیب ہیں۔ایک حدیث میں ہے کہ حضور ﷺاس وقت حطیم میں تھے۔دوسری میں ہے آپؐ حجر میں تھے۔ تیسری میں ہے کہ آپؐ مسجد حرام میں تھے۔محمد کرم شاہ صاحب فرماتے ہیں ’’ ذرا غور کریں ان روایات میں تضاد نام کی کوئی چیز ہے۔حطیم اور حجر تو ایک جگہ کے دو نام ہیں یعنی وہ جگہ جو اصل میں کعبہ شریف کا حصہ تھی لیکن جب سیلاب کی وجہ سے خانہ کعبہ گر گیا تو قریش نے اسے دوبارہ تعمیر کرنا چاہا تو سرمایہ کی قلت کی وجہ سے اسے باہر چھوڑ دیا ۔یہ حصہ حطیم یا حجر مسجد حرام میں ہے۔ان روایات میں قطعاََ تضاد نہیں۔ تضاد کی ایک دوسری مثال کہ مختلف آسمانوں کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ چھٹے آسمان کے متعلق حدیث ہے ’’ پھر مجھے چھٹے آسمان کی طرف لے جایا گیا تو وہاں موسیٰ ؑ کو پایا‘‘۔ دوسری حدیث میں ہے’’ پھر ہمیں چھٹے آسمان کی طرف لایا گیا وہاں موسیٰ ؑکو پایا۔انھوں نے مجھے مر حبا کہا اور میرے لیے دعا کی‘‘۔ تیسری حدیث میں ہے’’ جب میں آگے بڑھا تو موسیٰ ؑ رو پڑے‘‘۔ تم خود کہو کہ احادیث میں کوئی تضاد ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ بعض روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اس اختلاف کے بارے میں خود علمائے کرام نے تصریح کی اور جو حدیث زیادہ صحیح اور قوی تھی اس کو ترجیح دی اور ضعیف کو ساقط الاعتبار قرار دے دیا۔ جو تضاد ممتنع ہے تو یہ ہے کہ دونوں روایتیں ایک ہی پایہ کی ہوں ۔کسی کو کسی پر ترجیح بھی نہیں دی جا سکتی ہو اور ان کو یک جا جمع بھی نہ کیا جا سکتا ہو۔
شیخ محی الدین ابن عربی نے جسمانی معراج کے اثبات میں دوسرے دلائل کے علاوہ ایک لطیف دلیل دی ہے کہ ’’ اگر معراج نبوی محض روحانی اور کشفی ہوتی تو آپؐ کو پیاس نہ لگتی کیوں کہ مجرد روحوں پر بھوک پیاس کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔حال آں کہ سرکار دو عالمﷺ کو شب معراج دو مرتبہ پیاس لگی اور آپؐ نے دونوں دفعہ دودھ نوش فرمایا۔( خاتم النبیین۔۳۴۹)
ابن اسحاق نے کہا کہ سیدنا ابو بکر ؓکے خاندان کے ایک فرد نے مجھ سے ذکر کیا کہ سیدہ عائشہؓ فرماتی تھیں کہ سرکار دو عالم ﷺکا جسم مبارک گم نہیں پایا گیا بل کہ آپؐ کی روح کو سیر کرائی گئی۔(بخاری۔۳۵۰) اول ابن اسحاق نے راوی کا نام نہیں لیا۔ابو بکر کے خاندان کا ایک فرد جس نے سیدہ کا نام لیا۔دوم درمیان میں تین راوی غائب ہیں۔سوم سیدہ عائشہ اس وقت آپؐ کے عقد میں نہ تھیں لہذٰا وہ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ جسم گم پایا گیا۔اس کے برعکس سیدہ عائشہ ؓ کا صحیح مذہب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی معراج جسمانی تھی چنانچہ قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچا ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ کا قول صحیح ہے کہ سرکار دو عالمﷺ کی معراج جسم مبارک کے ساتھ ہوئی تھی۔
چہارم امام زرقانی نے لکھا کہ یہ روایت صحیح نہیں اس کی ایک وجہ تو محمد بن اسحق ہے کیوں کہ وہ اکثر محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ ابن عبا س سے ان کے شاگرد عکرمہ نے عرض کیا کہ کیا یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد نہیں ’’ لَا تُدرِکُہُ الَا بصَارُ وَھُوَ یُدرِکُ والَا بصَارَ‘‘ کہ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں۔آپؐ نے فرمایا افسوس تم نہیں سمجھے یہ اس وقت ہے جب کہ وہ اس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اس کا نور ہے۔ حضورؐ نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا۔پیر کرم شاہ صاحب بہ حوالہ عبد الحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ ابن عمر نے ابن عباسؓ سے اس مسئلے کے بارے میں رجوع کیا اور پوچھا کہ کیا حضور ؐ نے رب کا دیدار کیا پس ابن عباس ؓنے جواب دیا کہ حضورؐ نے اپنے رب کا دیدار کیا۔ابن عمر ؓنے اسے قبول کیا( ضیاء النبی ج۔۲۔۵۳۳)
جمہور اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ پرواز اور اسراء کا یہ نہج جسمانی تھا ہمارے نزدیک اس باعث کا سارا الجھائو اس چیز سے پیدا ہو ا ہے کہ یار لوگوں نے مدرسییت کے تتبع میں انسان کو جسم اور روح کے دو الگ خانوں میں تقسیم کر دیا ہے حالانکہ انسان محض ایک ’’ النا‘‘ ہے جس میں جسم و روح کی دونوں سطحیں برابر شامل ہیں اس کے ظہور کی ایک خارجی سطح جسم کہلاتی ہے اور داخلی سطح روح ۔ انسان بہر حال ایک ہے اور اس کے کسی بھی فعل کو محض جسمانی یا روحانی قرار نہیں دے سکتے اس نقطہ نظر سے دیکھئے تو مثلا بہت آسان ہو جاتا ہے ۔ معراج کے معنی یہ ہوں گے کہ حضور ﷺ کی ’’ انا‘‘ کو جس میں جسم بھی داخل ہے اللہ تعالیٰ نے سیر و اسراء کے ذریعے ان تمام بہرہ مندیوں سے نوازا کہ جن کا تعلق اسرار دین اور رموز کائنات کے عجیب و غریب انکشافات سے تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں واشگاف الفاظ میں اسراء کو اپنے ’’ عبد‘‘کی طرف منسوب ٹھہرایا۔۔۔۔ مسند امام احمد میں بھی واقعہ معراج کے لیے اسی طرح کا پیر ایہ بیان اختیار کیا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ معراج کا تعلق ایک بلند تر ’’انا‘‘ سے ہے ۔ گرامی قدر ذات اور شخصیت سے ہے صرف روح اور اس کے کوائف سے نہیں ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ سورہ بنی اسرائیل میںقرآن مجید نے اس کو ایسا ہی قرار دیا ہے کہ جس نے لوگوں کو کفر و ایمان کی آزمائش میں ڈال دیا ۔ ظاہر ہے کہ رویا کے معنی محض خواب کے ہوتے تو اس میں انکار ہی کیا تھا اور اس کے ادراک کے لیے صرف حضرت صدیق ؓ ہی کے ظرف عالی کو یہ توفیق کیوں نصیب ہوتی کہ وہ اس کو بلا تامل مان لیں ۔ مزید برآں معراج کے بعد اختلاف کاجو طوفان اٹھا ، اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تاریخ کا غیر معمولی واقعہ تھا محض خواب نہ تھا ۔عیسائی مزاج کی شدت و تلخی کا نتیجہ ہے کہ وہ پیغمبر اسلامﷺ کی ذات میں جس طرح بن پڑے ، نقص نکالتے ہیں ۔ ’’ کیا ان کا یہ ایمان نہیں ہے کہ حضرت الیاس ؑ آسمان پر انسانی جسم و شکل کے ساتھ موت کا ذائقہ چکھے بغیر ایک آتشیں گاڑی میں بذریعہ ایک آندھی کے اٹھا لیے گئے ہوں ؟ اور کیا عیسائی اس بات کو دینی امر نہیں خیا ل کرتے کہ حضرت مسیحؑ مرنے کے بعد اٹھے اور آسمان پر چلے گئے اور خدا تعالیٰ کے دست راست کی طرف بیٹھے یعنی خود اپنی ہی دست راست کی طرف کیونکہ وہ خود خدا تھے ‘‘ (خطبات احمدیہ ۔۴۰۵)تو نبی اکرم ﷺ کے معراج سے مفر و مکر کیوں ؟ جبکہ حضرت الیاس ؑ اور مسیح ؑ کے جسمانی طور پر سفر کرنے کے معتقد ہیں لیکن محمد عربی ﷺ کے جسمانی معراج پر ایمان نہیں رکھتے اور چہ میگوئیاں کرتے ہیں کیوں ؟
اعتراض نمبر ۲۲۵
منکرین معجزات کا انکار اس وجہ سے کرتے ہیں کہ یہ خلاف عقل ہیں۔ نظام کائنات قوانین کا پابند ہے جنھیں قوانین فطرت کہا جاتا ہے۔ فطرت کے ان قوانین میں رد وبدل ممکن نہیں کیوں کہ یہ قوانین اٹل اور آخری ہوتے ہیں ۔اگر ایسا نہ ہوتو سارا نظام بگڑ جائے۔بایں سبب عقل اسے نہیں مانتی کہ یہ قوانین فطرت کے خلاف ہوتے ہیں۔معراج ایک عظیم معجزہ ہے اس لیے یہ بھی عقلاََ ٹھیک قرار نہیں پاتا۔
جواب:معجزہ کی تعریف یہ کرنا کہ جو قوانین فطرت کے خلاف ہو اور قوانین قدرت سے برسر پیکار ہو درست نہیں بل کہ اہل علم نے معجزہ کی تعریف یوں کی ہے’’ یعنی مدعی رسالت کی سچائی ثابت کرنے کے لیے کسی ایسے امر کا ظہور پذیر ہونا جو عادت کے خلاف ہو اسے معجزہ کہتے ہیں‘‘۔ علامہ تفتازانی لکھتے ہیں ’’ معجزہ وہ کام ہے جو عادت کے خلاف ہو ، یہ اس شخص کے ہاتھ سے ظاہر ہوتا ہے جو نبوت کا مدعی ہو ، جب وہ منکرین کو اس کام کی مثل لانے کا چیلنج کرے اور وہ اس کی مثل لانے سے عاجز رہیں ‘‘، قرآن کا معجزہ ہونے کی دلیل ہے کہ قرآن کا دعویٰ ہے اس کی مثل کوئی نہیں لا سکتا (فاتوبسورۃ من مثلہ ) ان لوگوں کا یہ اعتراض تو تب قابل التفات ہوتا جب معجزہ کو قوانین قدرت کے خلاف مانا جاتا۔ہو سکتا ہے یہ معجزات قانون فطرت کے مطابق ہی نموپذیر ہوئے ہوں لیکن ابھی تک وہ قانون فطرت ہمارے ادراک کی سرحد سے ماورا ہوں۔ یہ دعویٰ کرنا کہ فطرت کے تمام قوانین بے نقاب ہو چکے ہیں اور ذہن انسانی نے ان سب کا احاطہ کر لیا ہے انتہائی مضحکہ خیز اور غیر معقول بات ہے۔ آج تک کسی فلسفی یا سائنس دان نے اس بات کا دعویٰ نہیں کیا نیز قوانین فطرت کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ اٹل اور غیر متغیر ہیں یہ بھی قابل تسلیم نہیں۔ یہ خیال تب قابل قبول ہوتا جب ان قوانین کو ہر قسم کے نقص و عیب سے مبرا سمجھا جائے اور ان کے بارے میں یہ عقیدہ اختیار کیا جائے کہ اس کا ئنات کی آرائش و زیبائش کے لیے یہی قوانین کفایت کرتے ہیں۔لیکن اہل خرد کے نزدیک یہ خیال محل نظر ہے۔چناں چہ انسائکلوپیڈیا برٹانیکا کے مقالہ نگار نے معجزہ پر بحث کرتے ہوئے لکھا۔
"It is unwarrented idealism and optimism which finds the course of nature so wise so good and any change in it must be regarded as incredible"
ترجمہ: یعنی یہ نظریہ ایک غیر معقول تصور اور خوش فہمی ہے کہ فطرت کا طریقہ کار اتنا دانش مندانہ اور بہترین ہے کہ اس میں کسی قسم کی تبدیلی جائز نہیں۔( ضیا ء النبی ج ۔۲۔۴۹۶۔۴۹۵)
’’ہیوم‘‘ کہتا ہے کہ ہمارا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ عالم ایک مخصوص نہج اور متعین انداز کے مطابق چل رہا ہے اور معجزات ہمارے تجربات اور مشاہدات کے خلاف رونما ہو تے ہیں۔اس لیے اگر معجزہ کو ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس جو دلائل ہیں وہ تجربہ اور مشاہدہ کے دلائل و براہین سے جب تک زیادہ قوی اور مضبوط نہ ہوں اس وقت تک ہم معجزہ کو تسلیم نہیں کر سکتے۔کیوں کہ ثبوت معجزہ کے لیے ایسے وزنی دلائل موجود نہیں اس لیے عقلاََ معجزہ کا امکان تسلیم کرنے کے باوجود ہم ان کے وقوع کو تسلیم نہیں کر سکتے۔
اس کے جواب میں انسائکلو پیڈیا کا مقالہ نگار اس نظریہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ہم تمھارا یہ قاعدہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ معجزات تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف ہوتے ہیں کیوں کہ تجربات سے تمھاری مراد کیا ہے۔کیا تم یہ کہتے ہو کہ معجزہ تمام تجربات کے خلاف ہوتا ہے تو آپ کا یہ عقیدہ کلیتاََ محتاج دلیل ہے۔ پہلے آپ یہ ثابت کر لیں کہ آپ نے تجربات کا احاطہ کر لیا ہے۔پھر آپ کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ معجزہ ان تمام تجربات کے خلاف ہے۔ جب تک اپنی دلیل کی کلیت ثابت نہیں کر سکتے اس وقت تک آپ کی دلیل قابل قبول نہیں اور اگر آپ یہ کہیں کہ تجربات سے مراد تجربات عامہ ہیں یعنی معجزہ تجربات عامہ کے خلاف ہے تو پھر اس سے تو فقط اتنا ہی ثابت ہوتا ہے کہ معجزہ عام تجربات اور معمولات کے خلاف ہے۔تمام تجربات اور مشاہدات کے مخالف ہونا لازم نہ آیا۔ہو سکتا ہے کہ یہ معجزہ کسی تجربہ کے مطابق ہو لیکن وہ تجربہ آپ کے فہم کی رسائی سے ابھی بلند ہو۔( ضیاء النبی۲ ۔ص ۴۹۸)
اس پر استاد احمد امین مصری کی تقریر ملاحظہ کریں۔ استاد موصوف لکھتے ہیں کہ ہمیں یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم ہیوم سے پوچھیں کہ ایک طرف تو تمھارا یہ دعویٰ کہ علت و معلول اور سبب و مسبب کا حقیقت الامر سے کوئی تعلق نہیں کیوں کہ ہم بارہا مشاہدہ کرتے آئے ہیں کہ ایسا ہو تو یوں ہوجاتا ہے۔اس لیے ہم نے ایک چیز کو دوسری چیز کی علت فرض کر لیا ہے حال آں کہ حقیقت میں اس کا علت ہونا ضروری نہیں اور دوسری طرف تم معجزہ کا انکار اس اساس پر کرتے ہو کہ یہ مشاہدہ اور تجربہ کے خلاف ہے۔جب تمھارے نزدیک علیت اور معلولیت کا کوئی قانون ہی نہیں۔ہر چیز بغیر تحقیق علت وقوع پذیر ہو رہی ہے اور کسی چیز کے ساتھ ربط نہیں تو پھر اگر معجزہ کا وقوع ہوا جس کی ہم تعلیل کرنے سے قاصر ہیں تو کون سی قباحت ہو گی۔ پہلے بھی جتنی چیزیں معرض وجود میں آئیں وہ علت حقیقیہ کے بغیر موجود تھیں اور یہ امر بھی بغیر علت کے ظاہر ہوا پھر اس کی وجہ کیا ہے کہ ایک کو تو تم تسلیم کرتے ہو اور دوسرے کے انکار میں تم اتنا غلو کرتے ہو کہ تمھیں اپنے فلسفہ کی بنیاد بھی سرے سے فراموش ہو گئی۔
اعتراض نمبر ۲۲۶
سر ولیم میور بھی معجزات نبی مکرم ؐ کا منکر ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’ جب آنحضرتؐ کھانے پر موجود نہ ہوتے تھے تو تمام خاندان اپنے کفایت شعار کھانے سے بھوکا اٹھتا تھا لیکن جب پیغمبر صاحب بھی کھانے میں شریک ہوتے تھے تو سب کا پیٹ بھر جاتا تھا اور یہ فرماتے ہیں کہ اس عروج سے نبی کی بڑائی مظنون ہوتی تھی مگر اہل اسلام تو ایسی روایتوں کو معتبر نہیں سمجھتے اور نہ ان کے معتبر ہونے کی کوئی سند موجود رکھتے ہیں‘‘۔
جواب:عیسائی’ متی‘ کے باب ۲۴ ورس ۱۹۔۲۰ کے اس بیان پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ ’’ اس نے( یعنی حضرت مسیحؑ) نے جماعت کو ( جن کی تعداد ۵۰۰۰ تھی) گھاس پر بیٹھنے کا حکم دیا اور پانچوں روٹیاں اور دونوں مچھلیاں نکالیں اور آسمان کی جانب نظر اٹھا کر دعا کی اور ان کو توڑا اور روٹیاں اپنے حواریوں کو دیں اور حواریوں نے جماعت میں تقسیم کیں اور ان سب نے پیٹ بھر کر کھائیں اور بچے ہوئے ٹکڑوں کو جن سے بارہ ٹوکرے بھر گئے ‘ اٹھا لیا۔‘‘
اہل اسلام اس قسم کی معتبر روایات کو مانتے ہیں۔پیغمبر اسلام ﷺکی شرکت سے خاندان سیر ہو جاتا ہے۔آپؐ کی شمولیت سے کھانے میں برکت ہوتی ہے تو اس میں کوئی پریشانی والی بات نہیں۔نیز ولیم میور جو یہ کہتے ہیں کہ اہل اسلام ایسی روایات کو معتبر نہیں سمجھتے ہمارا اس سے پوچھنے کا حق بنتا ہے کہ انھوں نے ان اہل اسلام کے ناموں کی نشان دہی کیوں نہیں کی‘ ان کی فہرست کیوں درج نہیں کی۔محض کہنے سے بات نہیں بنتی۔اپنی پرانی روش پر چلتے ہوئے بس الزام دھر دیا جس میں ذرا بھر حقیقت نہیں اور باسی کڑھی میں ابال لانے کی سی بات کی ہے۔
آپﷺ کی تشریف آوری سے قبل کیا ہمیشہ آپؐ کے خاندان کے لوگ بھوکے رہتے تھے۔ اس معزز خاندان کے ذی وقار لوگ بھوکوں کو کھانا کھلاتے، حاجیوں کو کھلانے اور پلانے کا بندوبست کرتے تھے۔اس خاندان کا وہ سخی مرد جو نہ صرف انسانوں بل کہ پرندوں‘ درندوں کے لیے پہاڑوں پر گوشت پھینک دیتا تھا کہ وہ بھی کھانے سے محروم نہ رہیں۔کھانے میں اضافہ کیوں نہیں ہو سکتا ، حضرت مسیح ؑ کی برکت سے پانچ ہزار آدمیوں کے صرف پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں سے پیٹ بھر جاتے ہیں ۔ نہ جانے مسیح ؑ کے معجزے کو ماننے والے رسول عربی ﷺ کے معجزہ سے انکار کیوں کرتے ہیں ۔ یہ ان کی دوغلی پالیسی ہے ۔
معجزہ کے ثبوت میں اصل اشکال جو پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ عالم کائنات ایک خاص نظام پر قائم ہے ۔ ہر شے کی ایک علت اور ہر حادثے کا ایک سبب ہے ۔ علت و سبب کے بغیر کوئی شے پیدا نہیں ہوتی ۔ علت و معلول کے سلسلے کا اس قدر باہم لزوم ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے ۔ ہر ایک شے کی خاصیت ہے جو اس سے الگ نہیں ہو سکتی اور جس شے میں جس چیز کی خاصیت نہیں ، اس کا اس سے صدور بھی نہیں ہو سکتا ۔ آگ جلاتی ہے ، سمندر بہتا ہے ، درخت ساکن ہے ، پتھر چلتا نہیں ، سورج میں حرارت ، کنکر بولتے نہیں اور سنکھیا زہر قاتل ہے ، انسان مر کر پھر جیتا نہیں ، اب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ آگ نے جلایا نہیں ، سمندر دفعتاَتھم گیا ، درخت چلنے لگا ، پتھر حرکت کرنے لگا۔ آفتاب میں سیاہی آ گئی ، زہر کھا کر آدمی مرا نہیں اور انسان مر کر ایک اشارہ سے پھرجی اٹھا تو در حقیقت وہ اس پورے نظام فطرت کوجس پر دنیا قائم ہے درہم برہم کرنا چاہتا ہے ۔ علل و اسباب کے تار و پود کو بکھیرنا چاہتا ہے اور اشیاء کے ان طبائع اور خواص کے اعلانیہ انکار پر آمادہ ہے جو بارہا کے تجربے سے ثابت ہو چکے ہیں اور جن میں کبھی تخلف نہیں ہوا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ نظام فطرت یہ سلسلہ علل و اسباب ، یہ طبائع اور خواص اس قدر نا قابل تنسیخ ہیں کہ ان میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا ۔ فلاسفہ کا ایک گروہ جس میں فارابی ،ابن سینا اور ابن مسکویہ ہیں ، اس بات کا قائل ہے کہ یہ تو سچ ہے کہ اس نظام فطرت اور سلسلہ علل واسباب میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا اور نہ دنیا میں کوئی شے بغیر علت عادیہ اور سبب طبعی کے پیدا ہو سکتی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے کہ معجزات اس نظام و سلسلہ سے الگ ہیں اور وہ فطرت کے قانون کو توڑتے ہیں بلکہ وہ بھی علل و اسباب طبعی کے نتائج ہیں زیادہ سے زیادہ یہ کہ ان علل و اسباب کے احاطہ سے اب قاصر ہیں اور وہ اب تک ہماری نگاہوں سے مخفی ہیں ممکن ہے کہ تحقیقات انسانی کا دائرہ اتنا وسیع ہو جائے کہ ان کے علل و اسباب ہماری فہم میں آ جائیں ۔ معتز لہ کہتے ہیں کہ ہم کو یہ تسلیم ہے کہ عالم میں ایک خاص نظام فطرت ، موجودات میں سلسلہ علل و معلومات اور اشیاء میں طبائع و خواص ہیں لیکن ہم ان کی اس درجہ ہمہ گیری کو تسلیم نہیں کرتے کہ یہ کسی حال میں کسی طریق سے شکست نہیں ہو سکتے ۔۔۔۔۔۔ فلاسفہ اور حکماء کی وہ جماعت جو قوانین فطرت کے نا قابل شکست ہونے پر ایمان رکھتی ہے اور اس بناء پر معجزات و خوارق کا انکار کرتی ہے امام رازی نے لکھا ہے کہ خود ان فلاسفہ کا اصل عقیدہ یہی ہے مگر وہ کئی ایسے اصول تسلیم کرتے ہیں جن کی بنا پر خوارق فطرت کا تسلیم کرنا ان کے لیے لازم ہو جاتا ہے مثلا وہ توالد ذاتی کے قائل ہیں یعنی یہ کہ جن جانداروں کی پیدائش ایک نظام خاص کے ساتھ ہوتی ہے ایک قطرہ آب سے خون ، خون سے گوشت پھر بتدریج مدت حمل کے اندر وہ شکم مادر میں پرورش پاتے رہتے ہیں ۔ ایک مقررہ زمانہ کے بعد وضع حمل ہوتا ہے پھر شیر خوارگی اور بچپن کے دور سے آہستہ آہستہ بڑھتے ہوئے ایک تنو مند ذی روح صورت میں ظاہر ہوتے ہیں ، وہ یکایک ان بیچ کی منازل کو طے کیے بغیر اس ہیکل اور صورت میں نمودار ہو جائیں ۔ فلاسفہ کہتے ہیں کہ قطرہ آب سے لے کر عالم شباب کے عہد تک اس مجموعہ عناصر کو جو سالہا سال صرف کرنے پراس کی وجہ یہ تھی کہ ان عناصر میں حیات کی قابلیت پیدا ہونے کے لیے ایک خاص قسم کے اعتدال ترکیب کی ضرورت تھی جب ترکیب میں یہ اعتدال پیدا ہوا حیات پیدا ہو گئی اس بناء پر اگر کسی مجموعہ عناصر میں اس قسم کا اعتدال پیدا ہو جائے جس میں حیات انسانی کے قبول کی صلاحیت ہو تو بغیر نطفہ ، حمل ، خون ، گوشت ، وضع حمل ، شیر خوارگی اور بچپن وغیرہ درمیانی وسائط طبعی کے اچھا خاصا ایک نو جوان مٹی کے پتلے سے بن کر کھڑا ہو سکتا ہے جیسا کہ برسات میں اکثر کیڑے مکوڑے سڑی گلی مٹی میں ایک خاص اعتدالی کیفیت پیدا ہو جانے سے جاندار ذی روح بن جاتے ہیں ۔ اس تفصیل کی بناء پر ان کے نزدیک یہ ثابت ہو گیا کہ ذی روح کی پیدائش کے لیے دنیا میں جو سلسلہء اسباب عادتاََ جاری ہے اس کے خلاف ہو سکتا ہے تو پھر عصا سانپ بھی ہو سکتا ہے مردے زندہ بھی ہوسکتے ہیں پہاڑ سونا بھی بن سکتا ہے ۔ ایک عصا کے سانپ بن جانے کی فطری صورت یہ ہے کہ پہلے وہ سڑ گل کر مٹی ہو جاتا اور وہ مٹی غذا کی شکل میں ایک سانپ کے اندر جاتی ہے اور پھر وہ غذا دوسری شکل میں بن کر سانپ کا بچہ بن جاتی ہے ۔ توالد ذاتی کے اصول پر یہ ممکن ہے کہ بیچ کے وسائط کے بغیر عصا میں سانپ بننے کی صلاحیت پیدا ہو جائے ۔
یہ بھی قابل غور ہے کہ ہم جن کو اصول فطرت ، نوا میس قدرت اور لاز آف نیچر کہتے ہیں وہ صرف روز مرہ کے مشاہدات عادیہ کے نام ہیں ۔ ہم دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ درخت کس طرح اگتے ہیں اور جاندار و موجودات کس طرح پیدا ہوتے ہیں ۔ آفتاب کس طرح طلوع ہوتا ہے ، پانی کس طرح برستا ہے ان کو دیکھتے دیکھتے ہم اس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ ہم ان کا اسی طرح ہونا ضروری اور اس کے خلا ف ہونا محال قطعی سمجھتے ہیں حالانکہ اس کے لیے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔ ہمارے مشاہدہ میں ہے کہ دانہ زمین میں ڈالا جاتا ہے کچھ دنوں کے بعد ، پھوٹتا ہے اس میں کونپلیں نکل آتی ہیں پھر وہ پودے کی شکل اختیار کرتا ہے ، شاخیں نکلتی ہیں اور بڑھ کر درخت بن جاتا ہے ۔ اس طرز پیدائش کو دیکھتے دیکھتے حیرت زائی اور استیعا ب و استعباد کی روح ہم سے بالکل فنا ہوگئی اور ہم کبھی ایک لمحہ کے لیے غور نہیں کرتے کہ ایک جامد دانہ درخت کی شکل میں کیونکر بدل گیا لیکن ہم سے کہا جاتا ہے کہ ایک بے جان لکڑی جاندار سانپ بن گئی اور عیسیٰ ؑ نام کا ایک بچہ بن باپ کے پیدا ہو گیا تو ہماری محدود عقل اور تجربے کا پرُ غرور سر انکار سے ہلنے لگتا ہے یہ کیوں ؟ اس لیے کہ کبھی ہم نے ایسے ہوتا دیکھا نہیں ۔ سورج روز مشرق سے طلوع اور مغرب میں غروب ہوتا ہے ہم کو اس پر مطلق تعجب نہیں ہوتا اور نہ یہ مستعبدمعلوم ہوتا ہے اور جب یہ سنتے ہیں کہ قیامت کے دن آفتاب مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہو گا تو ہم اس کو خلاف عقل کہتے ہیں۔ کیا مشرق سے اس کا نکلنا عقل کے موافق تھا ؟ اور تم آفتاب کو اگر مشرق سے نکلتے نہ دیکھتے تو خود بخود عقلاً فیصلہ کر لیتے کہ اس کو مشرق ہی سے نکلنا چاہیے اور مغرب میں ہی ڈوبنا چاہیے ۔ عموماََ انسان کے ایک سر ، دو آنکھیں ، دو کان ، دو ہاتھ ، دو پائوں اور ہر ہاتھ میںپانچ انگلیاں ہوتی ہیں لیکن تاریخ طبع انسانی کی کوئی کتاب پڑھئے تو معلوم ہو گا کہ قدرت کے مستثنیا ت کی بھی کوئی انتہا نہیں اور ہزاروں بچے اس کے خلاف پیدا ہوتے ہیں اب جس طرح تم اس پر اعتراض نہیں کر سکتے کہ اس طرح بچے کے چار ہاتھ اور چار پائوں پر اعتراض نہیں کر سکتے اور جس طرح تمہیں اس پر حیرت نہیں ہوتی کہ آدمی جی کر مر کیوں جاتا ہے ایسے ہی اس پر حیرت نہ کیجئے کہ مر کر جی کیونکر جاتا ہے ۔ ان دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ ایک واقعہ کو تم نے بار بار دیکھا ہے اور دوسرے کو کبھی نہیں دیکھا لیکن کسی چیز کا دیکھنا اور نہ دیکھنا کسی چیز کے فی نفسہ محال یا ممکن ہونے پر دلیل نہیں ہو سکتی ۔
حاصل یہ کہ ہم کو معجزات کے متعلق جو استبعاد نظر آتا ہے اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ وہ ہمارے گزشتہ تجربات و مشاہدات کے خلاف ہوتا ہے لیکن اس کا فیصلہ ہر شخص کر سکتا ہے کہ اس کے گذشتہ تجربات و مشاہدات میں غلطی کا ہونا ان میں انقلاب ہو جانا کچھ محال نہیں ۔ طبیعا ت جدیدہ نے طبیعیات قدیم کی تحقیق کی دیوار ڈھا دی ہے ۔ حکمائے جدید نے حکمائے قدیم کے سینکڑوں تجربات باطل کر دئیے ۔ ہیئت قدیم اور جدید میں آسمان اور زمین کا اختلاف پیداہو گیا ۔ اختراعات جدیدہ میں سیکڑوں قدیم مستبعدات اورممتنعات کو ممکن بلکہ واقعہ بنا دیاجب کہ ہمارے گذشتہ تجربات اور تحقیقات کا یہ حال ہے تو انسانی تحقیقات و تجربات کی آئندہ صحت کی کو ن ضمانت دے سکتا ہے ۔ فلسفہ یونان پڑھ کر ہم یقین کرتے تھے کہ زمین ساکن اور سورج متحرک ہے اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آفتاب ساکن اور زمین متحرک ہے ۔ الغرض یہ کہ بنی نوع انسان کا اصل سرمایہ علم علل و معلوم میں جو کچھ ہے وہ صرف ان کے تجربہ کی کمائی ہے اور وہ اسی کی بنیاد پر استدلال تمثیلی کے طور پر ایک چیز کو بار بار دیکھنے سے اپنے ذہن میں حکم کلی پیدا کر لیتے ہیں جیسے تین چار سیبوں کو دیکھا ، سونگھا ، مزہ چکھا تو ایک جیسا پایا پھر چند سیبوں کو دیکھ کر ہم یہ حکم کلی لگا دیتے ہیں کہ ہر سیب ایسا ہوتا ہے اور اس کا خاصہ اور اثر ہوتا ہے ۔ غور کیجئے کہ تمہارے یہ قضایا جو محض استدلال تمثیلی کی بنیاد پر قائم ہیں عقلاَ َکیونکر نا قابل شکست یقین بننے کا دعویٰ کر سکتے ہیں یہ اور بات ہے کہ تمہارا عادتاً اپنی عملی اور کاروباری دنیا کے لیے ان پر یقین کر کے جلب منافع اور دفع مظا میں ان سے کام لیں اور یہی علت عادیہ کی حقیقت و مصلحت ہے ۔ اسباب خفیہ کی توجہیہ بے کار ہے ۔
ابن سینا،فارابی کے بقول معجزہ اسباب خفیہ کی بناء پر صادر ہوتا ہے اور اس کے اندرونی طبعی علل و اسباب ہوتے ہیں اس لیے خرق عادت لازم نہیں آتا اور معمولی نظام عالم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ حضرت موسیٰ ؑ مصر سے بنی اسرائیل کو لے کر چلے تو رستہ میں بحر قلزم ( red sea ) حائل تھا حکم ہوا کہ اپنی لکڑی سے دریا کو مارو ، دفعتًا دریا خشک ہو گیا اور راستہ پیدا ہو گیا ۔ حضرت موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کو لے کراتر گئے لیکن جب فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ دریا میں قدم رکھا تو دریا پھر اپنی اصلی حالت پر آ گیا اور فرعون لشکر سمیت غرقاب ہو گیا وہ اس کی توجیہ کرتے ہیں کہ دریا میں مدو جزر تھا جب حضرت موسیٰ ؑ پہنچے تو جز رتھا اور دریا پایاب ہو گیا تھا اور جس وقت فرعون دریا میں لشکر سمیت داخل ہوا ، مد شروع ہو گیا اور وہ ڈوب گیا ہم ان اعتراضات کو جو نقلی حیثیت سے اس توجیہ پر وارد ہوتے ہیں کہ تورات اور قرآن مجید میں اس معجزہ کی جس طرح تشریح کی ہے اس کی یہ صحیح نقل نہیں ہے ، نظر انداز کرتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جس وقت حضرت موسیٰ ؑ پہنچے تو جزر اور جب فرعون آیا تو مد ہو گیا ، آیا یہ اتفاقی عمل تھا اور ممکن تھا کہ اس کے برعکس ہوتا کہ یعنی فرعون بچ جاتا اور حضرت موسیٰ ؑ (نعوذ باللہ ) ڈوب جاتے اور یا یہ کہ حضرت موسیٰ ؑ کے لیے جزر اور فرعون کے لیے مد خاص طور سے پیدا کیا گیا تھا یا ایسے اسباب باہم پہنچائے گئے کہ حضرت موسیٰ ؑ جزر کے وقت پہنچیں اور فرعون مد کے وقت ، اور اس کے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ وہ اس خطر ناک دریا میں بے سمجھے بوجھے قدم رکھے ۔ پہلی صورت میں تو معجزہ کیا ، نبوت کی بھی تشکیک لازم آتی ہے اور دوسری صورت میں خرق عادت کی تسلیم سے چارہ نہیں اور خارق عادت کے تسلیم کر لینے کے بعد خدا کی قدرت مطلقہ پر بھی ایمان لازم ہو گا ۔ ( سیرت النبی ۳۔۴۹)
جملہ قرآن قطع است در قطع سبب عزدرویش و ہلاک بو لہب
ترجمہ تمام قرآن قطع اسباب کے بیان سے بھرا ہے آپ کا غلبہ اور ابو لہب ہلاک ہو گیا۔
ہم چنیں زآغاز قرآں نا تمام رفض اسباب است وعلمت والسلام
ترجمہ اس طرح شروع سے آخر تک قرآن اسباب و علل کے موئثرحقیقی ہونے کا منکر ہے ۔
اعتراض نمبر ۲۲۷
ابتداء میں پیغام کو پیغمبرسے زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا۔اصل چیز فرد یا جماعت کا خدا کے ساتھ تعلق تھا۔اس لیے کسی ایسے شخص کی ضرورت تھی جو متعلقہ شخص یا اشخاص تک پیغام پہنچا دے لیکن پیغام دینے سے آگے پیغمبر کا کوئی کام نہ تھا تاہم بعد میں پیغمبر کا کام اس سے زیادہ قرار دے دیا گیا۔( ضیاء النبی۔۷ص ۲۲۷)
جواب:ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ کے قبائل بہ دستور قائم رہے۔ان کے سردار بھی بہ دستور رہے۔ قومی امور میں ان سے مشورہ لیا جاتا رہا جیسے بیعت عقبہ کے موقعہ پر انصار سے یہ طے نہ ہوا تھا کہ حملہ آور کا مقابلہ مدینہ سے باہر نکل کر کرنے میں آپ کا ساتھ دیں گے۔ آپ نے مہاجرین سے رائے لی اور انصار سے بھی۔نبی صرف آلہ نشر و اشاعت نہیں۔اس کا کام ہے کہ رب العزت کی بارگاہ سے احکام وصول کر کے لوگوں تک پہنچائے۔ان احکام پر خود بھی اور اپنے پیروئوں کو بھی عمل کرنے کا پابند بنائے۔ یہ نہیں کہ رسی ڈھیلی چھوڑ دی جائے اور ایسا نہیں کہ کہہ دیا جائے کوئی اس کو مانے یا نہ مانے اس کی بلا سے۔ اسلام عمل کا مذہب ہے۔اس کی اساس صرف علمی نظریات ہی نہیں بل کہ ضابطہ عمل بھی ہے۔ نجات کا دارومدار ماننے کے بعد عمل پر ہے۔ نبوت کے منصب کی ذمہ داری کے بارے میں اللہ کاارشاد ہے۔’’ ھو الذی بعث فی الامین رسولا منھم۔۔۔ لفی ضلال مبین‘‘ (سورہ جمعہ) ترجمہ: وہی ذات تو ہے جس نے ان پر انہی میں سے رسول بھیجاجو ان پراللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور اس سے پہلے یہ لوگ صریح گم راہی میں تھے۔
ایک شبہ کا ازالہ:اس سلسلے میں ہمیں ایک غلط فہمی کو دور کرنا ہے جو بعضوں کو حضور کی صفت تبلیغ کے سمجھنے میں پیش آئی۔قرآن مجید میں متعدد آیتیں اس معنی میں آئی ہیں کہ رسول کا فرض صرف پیغام پہنچا دینا ہے۔ اس سے آج کل کے بعض کوتاہ بینوں کو یہ دھوکا ہوا ہے کہ رسول کا کام صرف وحی الہٰی کی تبلیغ ہے یعنی قرآن پاک کے الفاظ کو انسانوں تک بعینہٖ پہنچا دینا ان کا کام ہے۔اس کے معانی کی تشریح اور مطالب کی توضیح اس کا منصب ہے اور نہ اس کا اُس کو حق ہے۔ان کے نزدیک مبلغ رسول کی حیثیت پیغام بر کی ہے۔ شاید ان کو دھوکا اس آیت کے علاوہ لفظ رسول سے بھی ہوا ہے جس کے لفظی معنی پیغام بر کے ہیں۔لیکن وہ لوگ یہ خیال نہیں کرتے کہ جہاں رسول کہا گیا نبی بھی تو کہا گیا ہے۔ مبشر، نذیر،سراج ، منیر ۔مصطفی، مبین،معلم، داعی الی اللہ، حاکم، آمر اور ناھی کہا گیا ہے۔اس کے پیغام کے مفہوم و معنی کی تشریح و تفسیر کا آج تو ہر عربی دان کو حق حاصل ہے اور اس تک پہنچنے کا ہر مدعی دعوے دار ہے مگر صاحب پیغام کو اپنی پیغام بری کے وقت نہ مفہوم و معنی کا علم تھا اور نہ اس کی تشریح کا حق تھا۔وہ ثابت کرنا چا رہا ہے کہ آپ ﷺ کا خاندان غریب تھا اور فاقوں کٹتی تھی اور کبھی سیر ہو کر کھانا نہ کھایا البتہ آپ ﷺ کی موجودگی میں ہر شخص سیر ہو جاتا تھا یہ تو آپ ﷺ کی ذات کی برکت ہے لیکن جس خاندان کا دستر خواں ہر ضرورت مند کے لیے وسیع تھا سینکڑوں اور ہزاروں حاجیوں کے لیے کھانے کا بند وبست کرتاتھا جس سے انسان تو کیا چرند پرند اور جانور بھی لطف اندوز ہوتے تھے ۔
اشتباہ: ایک وجہ یہ ہے کہ اسلام میں شرع اور وضع قانون کا حق صرف اللہ تعالیٰ کے لیے تسلیم کیا گیا ہے کہ وہی اصلی شارع ہے ۔اب اگر رسول کے لیے وحی کتابی سے الگ شرع بنانے کا حق تسلیم کیا جائے تو خدا کے سوا ایک اور شارع تسلیم کرنا پڑے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم رسول کو شارع نہیں شارح قرار دیتے ہیں۔ کیا عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر جج جب حکومت کے قانون کی وضاحت کرتا ہے تو وہ اپنے عمل سے سلطان وقت بن کر واضح قانون کا منصب حاصل کرتا ہے یا صرف قانون کے مفہوم کا شارح ہوتا ہے؟ اسی طرح آسمانی عدالت کے قاضی کی حیثیت ہے جس کو ہم نبی اور رسول اور معلم اور مبین کہتے ہیں۔دوسرا یہ کہ صرف وحی کے طریقہ خاص کے ذریعہ سے اپنے پیغمبر کو مطلع نہیں فرماتا جس طرح قرآن مجید نازل ہوا ہے بلکہ وہ اپنی تینوں قسموں کے ذریعہ سے اپنے اغراض اس رسول پر واضح کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام کو صرف وحی کے ذریعے سے نہیں پہنچاتا خواہ وہ وحی ہو یا الہام۔ قرآن مجید کی وہ آیتیں جن کے معنی یہ ہیں کہ ’’ ہمارے رسول پر صرف پیغام پہنچانا ہے‘‘ ان کا منشاء یہ نہیں کہ وہ صرف پیغام پہنچانے والا ہے۔ خوش خبری سنانے والانہیں، پیغام الہٰی سنانے کے بعد ان کی تعلیم و عمل بتانے والا نہیں، آیات کی تشریح کرنے والا نہیں، رہنما اور ہادی نہیں،تزکیہ کرنے والا نہیں۔ایسا کہنا قرآن کا انکاراور عقل و فہم کا ماتم ہے۔قرآن میں کئی جگہ ہے’’ تُو تو صرف ڈرانے والا ہے‘‘ اِنما انت َ منذر)۔ایک جگہ ہے’’ انما انا منذر‘‘ میں تو صرف ڈر سنانے والا ہوں‘‘۔ ان آیات کا تعلق نبوت کے منکروں سے ہے۔جو لوگ ہنوز نبوت کے انکاری ہیں ان سے رسول کا تعلق صرف تبلیغ کا ہے لیکن ماننے والوں کے لیے اقرار نبوت کے ساتھ اتباع و اطاعت ضروری ہے۔
مصلح، لیڈر،فلسفی اپنے دعوئوں کو صرف استدلال اور عقل کی قوت سے ثابت کرنا چاہتا ہے تاکہ لوگ اس کی بات مانیں لیکن پیغمبر خدا اپنے پیروئوں کے قلب کو اس طرح بدل دینا چاہتا ہے کہ وہ از خود برائی کو چھوڑ کر نیکی اختیار کریں اور خدائے بلند و برتر پر پختہ یقین رکھیں نیز نبی جو کہتا ہے کر کے دکھاتا ہے اور دوسروں کو اس پر عمل کرنے کی ترغیب و تلقین کرتا ہے۔کیوں کہ اس کا ظاہر و باطن یکساں طور پر صاف و شفاف ہوتا ہے۔( علوم اسلامیہ اور مستشرقین ۔ص۱۶۔۱۵)
انما علی رسولنا البلاغ المبین (ترجمہ : ہمارے رسول پر صرف پیغام پہنچا دینا ہے )اس قسم کی آیات کا مفہوم یہ نہیں کہ وہ صرف پیغام رساں ہے ، مبین و شارح نہیں بلکہ یہ اس کاکام صرف خدا کا پیغام پہنچا دینا ہے زبر دستی لوگوں کے دلوں میں اس کا پیغا م اتار دینا نہیں لوگوں کو جبراََ مسلمان بنا دینا نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں اس معنی کی آیات آئی ہیں ان کا منشاء یہی اور صرف یہی ہے ۔ قرآن پاک میں تیرہ مختلف آیتوں میں یہ بات کہی گئی ہے اور ہر جگہ یہی مفہوم ہے ۔ مفہوم بالکل واضح ہے کہ اسلام کی ہدایت قبول کرنے میں کوئی زبردستی نہیں ’’لا اکرا ہ فی الدین ‘‘ اگر لوگ قبول کریں تو انہوں نے حق کی راہ پائی اور اگر انکار کریں تو رسول ﷺ کا کام صرف پیغام پہنچا دینا تھا وہ اس نے پہنچا دیا اس کا فرض ادا ہو چکا تھا اب خدا جانے اور اس کے بندے جانیں ۔ ’’فا نما علیک البلاغ و علینا الحساب ، ترجمہ : تو تیرا فرض صرف پیغام پہنچا دیناہے اور ہمارا فرض ان سے حساب لینا ہے ۔‘‘( الرعد: ۴۰)
بیت عقبہ( اول۔دوم۔سوم)
آپؐ توحید کا پیغام پہنچانے میں ہمہ تن مصروف تھے۔ جب موقع ہاتھ آتا اسے کام میں لاتے۔ حتیٰ کہ تبلیغی سر گرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ حج کے موقعہ پر دور دراز سے آنے والوں سے ملتے اور انھیں دعوت حق دیتے۔اسی طرح حج پر یثرب کے چھ آدمی آئے تھے وہ آپس میں محو گفت گو ہیں۔ آپؐ ان سے ملتے ہیں اور فرمایا’’ بیٹھ کر میری بات سنو‘‘ ۔آپؐ کی باتیں سن کر وہ مسلمان ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ جب بھی ان کی یہود سے تلخ کلامی پر نوبت آجاتی تو یہودی انھیں یہ کہہ کر ڈراتے’’ ذرا صبر کرو آنے والے نبی کا وقت قریب آپہنچا ہے تم سے پہلے ہم اس کے مطیع و فرماں بردار بن کر اس کی پناہ میں تمھیں عاد اور ثمود کی طرح تہس نہس کر کے رکھ دیں گے ‘‘۔ اب یثرب والوں نے اپنی آنکھوں سے مکہ میں اس نبیﷺ کو دیکھ لیا اور ایک دوسرے سے اشاروں میں کہہ دیتے ہیں ’’ اللہ کی قسم یہ تو وہی نبی ﷺہے، یہود جس کی خبر سنایا کرتے ہیں۔ جلدی کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہود تم پر سبقت لے جائیں‘‘۔ یہ چھ سعادت مند آدمی ایمان سے مشرف ہو کر مدینہ واپس جاتے ہیں ۔ یہ بیعت عقبہ اولیٰ ہے ۔ اور نبی مکرمﷺ کی باتیں لوگوں کو سناتے ہیں۔ہر محفل میں آپ کا ذکر کرتے ہیں حتیٰ کہ مدینہ کے ہر گھر میں آپؐ کا ذکر ہوتا ہے۔ اگلے سال حج کے موقعہ پر یہ یثربی صحابی چھ یا سات آدمیوں کومزید ساتھ لاتے ہیں جو اوس و خزرج کے نمائندے تھے۔جس مقام پر پہلے چھ یثربی صحابی ایمان لائے تھے وہیں مذکور چھ یا سات نو واردوں نے اسلام قبول کیایہ بیعت عقبہ ثانی ہے ۔ نو واردوں نے اس عہد پر بیعت کی کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ہم چوری نہیں کریں گے۔ اس پہاڑی کے نام پر جہاں یہ بیعت ہوئی اسے بیت عقبہ کہتے ہیں۔( روح اسلام۔۱۲۶۔۱۲۵)
صاحب مدارج ( مدارج النبوہ ج۔۲۔۷۶۔۷۵) لکھتے ہیں’’ نبوت کے گیارھویں سال حج کے موسم پر منیٰ میں عقبہ کے قریب تشریف فرما تھے کہ مدینہ کے قریب شہر سے خزرج کا ایک گروہ آپؐ کی خدمت میں آیا۔آپؐ نے انھیں دعوت حق دی اور قرآن مجید سنایا۔ وہ سب مسلمان ہو گئے۔یہ چھ اشخاص تھے وہ مدینہ لوٹ جاتے ہیں ۔اس کو بیعت عقبہ اولیٰ کہتے ہیں۔کیوں کہ منیٰ کی ایک پہاڑی میں عقبہ کے قریب جسے جمرۃ العقبہ بھی کہتے ہیں پہلی مرتبہ بیعت واقع ہوئی۔ آئندہ سال حج کے موسم میں قبیلہ اوس و خزرج کے چھ اور شخص یا بہ قول ایک روایت ۵ شخص تھے اس عقبہ کے قریب شرف بیعت سے مشرف ہوئے۔ حضورؐ نے اس جماعت کی خواہش پر حضرت مصعب بن عمیرؓ کو ان کے ساتھ کر دیا تا کہ وہ ان کو قرآن کریم اور دین کے مسائل سکھائیں آئندہ سال حضرت مصعب بن عمیرؓ انصاری کی ایک کثیر جماعت لے کر مشرکین حاجیوں کے قافلہ کے ساتھ حج کے زمانہ مکہ مکرمہ میں سید کائنات ؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔یہ جماعت اوس و خزرج کے پانچ سو اور ایک روایت میں ۳۰۰ افراد پر مشتمل تھی۔ ایک قول کے مطابق ۷۰ مرد اور ایک عورت اور ایک روایت میں ۷۳ مرد اور دو عورتیں تھیں۔ انھوں نے ایام تشریق کی راتوں میں ’’ عقبہ‘‘ میں جمع ہونے اور مل جل کر بیٹھنے کا اتفاق کیا۔جب طے شدہ رات آئی تو یہ حضرات اپنے مشرکین حاجیوں سے خفیہ طور پر نکل کر عقبہ کے قریبی پہاڑ پر جمع ہو گئے۔ وہ آپؐ کا انتظار کرنے لگے اور حضورؐ اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کے ہم راہ ( جو ابھی اسلام نہیں لائے تھے) تشریف لائے لیکن وہ حضورؐ سے محبت و شفقت اور اہتمام کی خاطر اس مقام پر آئے۔ایک قول یہ ہے کہ جماعت انصار کے آنے سے پہلے حضورؐ وہاں تشریف لائے ہوئے تھے۔ پھر حضورؐ نے اس جماعت کو بیعت اسلام سے با مشرف فرمایا۔
ایک شبہ کا ازالہ: پہلی مرتبہ یثربی چھ اشخاص اسلام لائے اور دوسری مرتبہ مزید سات شخص مسلمان ہوئے۔ پہلی اور دوسری بیعت میں شامل افراد کی کل تعداد ۱۲ ہے۔ پہلے چھ میں سے جابر بن عبد اللہ دوسرے سال نہ آئے ان کے علاوہ پانچ شخص آئے اور نو وارد سات شخص تھے۔ان سب نے بیعت کی اسے بیعت عقبہ ثانی کہتے ہیں۔ تیسری مرتبہ پانچ سو یا تین سو یا ستر مرد اور ایک عورت یا تہتر مرد اور دو عورتیں مشرف با اسلام ہوئیں۔گویا بیعت تین بار وقوع پذیر ہوئی۔جب کہ بعض سیرت کی کتب میں پہلے چھ یثربی اشخاص کی بیعت کی۔بیعت کو بیعت عقبہ اولیٰ شمار نہیں کرتے بل کہ دوسری بیعت عقبہ کو بیعت اولیٰ اور تیسری بیعت عقبہ کو بیعت ثانی لکھتے ہیں۔محمد حسین ہیکل ( حیات محمد۔ ۲۰۴۔ ۲۰۳) میں بیعت عقبہ اول و دوم اور سوم کی جلی سرخی سے عنوان باندھتے ہیں۔یعنی بیعت عقبہ اول و دوم اور بیعت عقبہ سوم کے عنوان کے تحت واقعات لکھتے ہیں۔ بعض نے بیعت اول و دوم اور سوم کا عنوان نہیں باندھا ۔صرف یہ لکھ دیا کہ چھ پہلی بار، دوسری بار ۱۲ اور تیسری مرتبہ ایک سو تہتر افراد، اور دو عورتوں نے بیعت کی۔ ( سید الوریٰ ج۔۱۔۲۷۰)
مولانا شبلی کہتے ہیں کہ بیعت عقبہ اولیٰ میں جن خوش نصیب لوگوں نے اسلام قبول کیا ان کی تعداد چھ تھی اور سب بنی خزرج سے تھے ان کے نام یہ ہیں ۔۱۔ ابو امامہ اسعد بن زرارۃ
۲۔ رافع بن مالک بن العجلان : ان کا تعلق بنی زریق سے تھا ۔
۳۔ عوف بن حارث : ان کی والدہ کا نام عفراء ہے ۔
۴۔ قطبہ بن عامر بن جدیدہ : یہ بنی سلمہ قبیلہ کے فرد تھے ۔
۵۔ عقبہ بن عامر : ان کا تعلق قبیلہ بنی حزام سے تھا ۔
۶۔ جابر بن عبداللہ بن رء یاب : یہ بنی عبید قبیلہ سے تھے ۔
عقبہ پہاڑی کے پاس ان سے ملا قات ہوئی آپ ﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو وہ آپس میں کہنے لگے کہ یہ وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کی آمد کی دھمکیاں یہود ہمیں آئے روز دیتے رہتے ہیں ، جلدی سے ان پر ایمان لے آئیں ایسا نہ ہو کہ یہودی ان پر ایمان لانے میں سبقت لے جائیں چنانچہ سب نے اسلام قبول کر لیا یہ واقعہ گیارویں سال کا ہے اور اگلے سال پھر آپ ﷺ سے ملاقات کا وعدہ کرکے مدینہ واپس چل دئیے ۔
دوم : اگلے سال یعنی بعثت کے بارھویں سال حج کے دنوں میں انصار کے بارہ آدمی مکہ آئے۔ ان کے نام درج ذیل ہیں ۔
اسعد بن زرارہ : یہ پچھلے سال بھی حاضر ہوئے تھے ۔(۲) عوف بن حارث اور ان کے بھائی معاذ بن حارث بھی پچھلے سال حاضر ہوئے تھے ۔(۳) رافع بن مالک (۴) ذکوان بن عبد قیس (۵) عبادہ بن صامت (۶) عباس بن عبادہ بن فضلہ (۷) یزید بن ثعلبہ (۸) عقبہ بن عامر (۹) قتبہ بن عامر ان لوگوں میں پچھلے سال کے چھ میں سے پانچ افراد بھی شامل تھے ۔
سوم: جب حج کا موسم قریب آ گیا تو حاجیوں کا قافلہ حضرت مصعب بن عمیر کی قیادت میں مکہ روانہ ہوا اس میں ستر انصار تھے جو مسلمان ہو چکے تھے انہوں نے عقبہ کی وادی میں ایام تشریق کی ایک رات پھر ملاقات کی اور اسلام سے مشرف ہوئے اسے بیعت عقبہ ثلاثہ کہتے ہیں ۔
شبلی نعمانی کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ کے چھ حضرات جو پہلے پہل اسلام لائے بعض مصنفین نے ان کے اس قبول اسلام کے واقعہ کا تذکرہ بیعت عقبہ اولیٰ کے عنوان سے کیا ہے ۔ یہ عنوان کتب سیرت کے ناظرین کے لیے اس وقت پریشانی کا موجب بنتا ہے جب وہ دوسری کتب ، مثلا مستدرک حاکم و غیرہ میں دیکھتے ہیں کہ بیعت عقبہ اولیٰ میں بارہ آدمی تھے اس اختلاف روایت کے سبب سے بعض سیرت نگاروں نے بعیت عقبہ ثانی میں بارہ آدمی اور بعض تہتر آدمی بتاتے ہیں حالانکہ اصل صورت یہ ہے کہ چھ یا آٹھ آدمی جو شروع سے اسلام لائے ان کے واقعہ قبول اسلام بہ عنوان بیعت عقبہ اولیٰ نہیں بلکہ ابتدائے اسلام انصار ہونا چاہیے اور دوسرے سال جبکہ گیارہ یا بارہ آدمی حاضر خدمت ہوئے یہ بیعت عقبہ اولیٰ ہے ۔ ( سیرت حلبیہ ) حضرت عبادہ بن الصامت نے بصراحت فرمایا ہے ’’ اس روایت میں عبادہ العام المقبل میں بیعت عقبہ اولیٰ ہونے کا ہونا فرماتے ہیں اور اس میں گیارہ آدمیوں کے حاضر ہونے کی صراحت فرماتے ہیں ۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس سے پہلے جو لوگ آکر اسلام قبول کر چکے تھے اس کا تعلق بیعت عقبہ اولیٰ سے نہیں ہے ۔ جن لوگوں نے انصار کے ابتدائے اسلام کے واقعہ کا نام بیعت عقبہ اولیٰ رکھا ہے وہ تین بیعت عقبہ کا عنوان دیتے ہیں یعنی ایک یہ بیعت عقبہ اولیٰ جس میں چھ یثربی اسلام قبول کرتے ہیں دوسری وہ بیعت عقبہ جس میں گیارہ یا بارہ آدمی اسلام لائے اور تیسری وہ بیعت عقبہ جس میں تہتر افرا د اسلام میں داخل ہوئے اور یہ تینوں واقعے ایک ایک سال کے فصل سے حج کے موقع پر پیش آئے اور جن لوگوں نے انصار کے ابتدائے اسلام کے واقعہ کو صرف ابتدائے اسلام انصار کے عنوان سے ذکر کیا ہے انہوں نے گیارہ آدمی والی بیعت کو بیعت عقبہ اولیٰ اور تہتر آدمیوں والی بیعت کو بیعت عقبہ ثانی کے عنوان سے ذکر کیا ہے ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ پہلے چھ یثربی لوگوں کے اسلام لانے کو بعنوان ’’ انصار کے اسلام لانے کی ابتدا‘‘ باندھا ، اسے بیعت عقبہ اولیٰ نہ کہا حالانکہ ان چھ افراد نے اسلام قبول کیا عقبہ کی پہاڑی پر ہی آپ ﷺ سے بیعت کی اور انہی کے مدینہ واپس جانے پر گھر گھر میں اسلام کا چرچا ہونے لگتا ہے۔ ہر محفل میں یہ لوگ اسلام کا تذکرہ کرتے ہیں اسلام کا اثر ہونے لگتا ہے اور اگلے سال گیارہ آدمی عقبہ کی پہاڑی پر بیعت کرتے ہیں یہ بیعت عقبہ ثانی ہے ۔ اس سے اگلے سال تہتر آدمی بیعت کرتے ہیں یہ بیعت عقبہ ثلاثہ ہے ۔ تو نہ جانے سیرت نگاروں نے پہلے چھ یثربی لوگوں کو بیعت عقبہ اولیٰ کی بجائے ابتدائے اسلام انصار کا عنوان دے دیا جس سے قارئین کے لیے پریشانی کا باعث ہو الہٰذا ان سیرت نگاروں جنہوں نے چھ آدمیوں کے اسلام لانے والی بیعت کو بیعت عقبہ اولیٰ اور جس میں گیارہ آدمی اسلام لائے اس کو بیعت عقبہ ثانی اور جس میں تہتر لوگ اسلام لائے اسے بیعت عقبہ ثلاثیہ کہا ہے ، درست ہے اور اس میں وارد ہونے والی پریشانی کا شائبہ تک نہیں ہوتا ہے ۔
اعتراض نمبر ۲۲۸
’’ منٹگمری واٹ‘‘ نے بیعت عقبہ میں حضرت عباسؓ کی موجودگی کا انکار کیا ہے۔بعد کے راویوں نے عباس کی موجودگی کا اضافہ کیا ہے اور مقصد یہ رہا کہ بنو ہاشم نے جو محمد ﷺ سے بد سلوکی کی تھی اس کو نگاہوں سے اوجھل کر دیا جائے۔اس واقعہ کو نہ ماننے کی وجہ واٹ نے یہ بیان کی ہے کہ حضرت عباس اس وقت مشرک تھے۔’واٹ‘ اس کے بعد شرک کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ پہلی صدی کے آخر میں عباس‘ محمد ﷺ کی تعریف کرتے تھے ۔ پھر محمد ﷺ ایک شخص کو اجازت دیتے ہیں کہ مکہ کے باشندہ عباس کی ان قابل گرفت باتوں کی تردید کر دیں‘ عقبہ ثانیہ میں عباس کی غیر موجودگی کی داستان گھڑ کر عباس کے خلاف پروپیگنڈا میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس عبارت میں ’واٹ‘ نے کم از کم ایک ہی سانس میں چھ اعتراض کیے ہیں۔
جواب:بیعت عقبہ میں اوس و خزرج قبیلہ کے لوگ تھے۔جب وفد کے ارکان نے بیعت کی حضرت عباس بن عبد المطلب جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اس کے باوجود وفد کے لوگوں سے خطاب کیا اور کہا’’ اے گروہ خزرج! محمدؐ ہمارے اندر عزت و توقیر رکھتے ہیں تم اس کو خوب جانتے ہو اور ہم ان کے مخالفین سے ان کے محافظ اور بچانے والے ہیں مگر ان کا خود یہ ارادہ ہے کہ وہ اس شہر کو چھوڑ کر تمھارے شہر چلے جائیں اور تم سے مل جائیں۔اگر تم اس بات کو دیکھتے ہو کہ تم جس بات کی طرف ان کو بلاتے ہو اس کو پورا کر سکو گے اور ان کے دشمنوں سے ان کو محفوظ رکھو گے تو تم اس کام کو کرو اور اگر تم سے یہ بات نہ ہو سکے تو بہتر ہے کہ تم اس وقت جواب دے دو کیوں کہ محمد ﷺ اس وقت ہماری حفاظت میں ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم یہاں سے ان کو لے جا کر پھر ان کو دشمنوں کے حوالے کردو‘‘۔ ( سیرت الرسول۔طاہر القادری ص ۳۹۶)
اس موقع پر عباس بن عبادہ ؓنے کہا ’’ اے گروہ خزرج! کچھ جانتے ہو کہ کس بات پر ان سے بیعت کر رہے ہو؟ سب نے کہا! ہم جانتے ہیں ۔عباس بن عبادہ نے کہا یہ اس بات کی بیعت ہے کہ ہر ایک سرخ و سیاہ آدمی سے تم کو لڑنا ہو گا اگر تم یہ دیکھو کہ جب تمھارے مال بر باد ہوں گے اور تمھارے اشراف قتل ہوں گے ۔اس وقت تم ان سے پھر جائو گے تو اس وقت بیعت کو ترک کردو۔ورنہ اگر اس وقت تم نے ایسا کیا تو تمھیں دنیا و آخرت کی ذلت نصیب ہو گی اور اگر تم اپنی بیعت پر قائم رہو گے تو پھر بیعت کر لو کیوں کہ اس میں تمھارے دین و دنیا کی خیر و خوبی ہے۔ سب نے کہا! ان سب باتوں پر بیعت کرتے ہیں۔پھر انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! جب ہم اس عہد پر پورا اتریں تو ہمارے لیے کیا اجر ہے؟ فرمایا! جنت! انھوں نے عرض کی آپؐ اپنا ہاتھ دراز کیجئے۔آپؐ نے ہاتھ دراز فرمایا اور انھوں نے بیعت کی۔( حوالہ بالا۔۳۹۸)
حضرت اسعد بن زرارہ ؓ کا خطاب:انھوں نے بیعت میں شامل افراد سے کہا!’’ ذرا ٹھہرئیے! آپ کو کچھ معلوم بھی ہے کہ آپ لوگ کس چیز پر عہد کر رہے ہیںجان لیجئے تمام عرب و عجم کی مخالفت مول لینے کا عہد ہے۔اگر آپ یہ بوجھ اٹھا سکتے ہیں تو بہتر ہے ورنہ صاف انکار کر دیجئے‘‘۔( محمد رسول اللہ۔۶۲)
اس پر سب نے کہا کہ ہم کسی صورت اس دعوت سے منہ نہ موڑیں گے۔مدینہ کے لوگ سوچ سمجھ کر اسلام میں داخل ہوئے تھے انھیں علم تھا کہ اسلام کی سیاسی اور بین الاقوامی اہمیت کیا ہے؟ انھیں علم تھا کہ انھیں استحصالی قوتوں سے نبرد آزما ہونا ہے۔انھیں علم تھا کہ اپنوں کے ساتھ پنجہ آزمائی ہو گی جو دائرہ اسلا م سے خارج ہوں گے اور ہمہ دم اور ہمہ وقت ڈٹ کر اسلام کی مخالفت میں لڑنے کو تیار رہنا پڑے گا۔ یہ بیعت بڑی اہمیت کی حامل ہے اور یہ بیعت عقبہ ہجرت مدینہ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
بیعت عقبہ کے متعلق ڈاکٹر محمد حمید اللہ( محمد رسول اللہ۔۶۲ میں) لکھتے ہیں ’’ معاہدہ عمرانی کی بین الاقوامی اور واقعی مثال ہم کو بیعت عقبہ میں ملتی ہے جس میں مدینہ والوں نے آنحضرت ؐ کو اپنا سردار مانا۔ اپنے ملک میں آنے کی دعوت دی اور آپؐ کے احکام کی تعمیل کا اقرار کیا۔تمہیدی بیان کے بعد ’’واٹ‘‘ کے اعتراض کا جائزہ لیتے ہیں۔ عباس بن عبادہؓ اور عباس بن عبد المطلب کے مذکور ہ خطبات کا ذکر کیا تا کہ تیز طرار ذہنوں میں یہ غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ وہ کہہ دیں عباس بن عبد المطلبؓ کے بہ جائے عباس بن عبادہؓ موجود تھے۔ان کے خطبات درج کیے گئے ہیں جس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ وہ خطبات دو الگ الگ آدمیوں کے ہیں۔( یعنی عباس بن عبد المطلب اور عباس بن عبادہ) جس سے عباس بن عبد المطلب کی موجودگی ظاہر ہو تی ہے۔
۲: یہ واقعہ ابن اسحق‘ طبری اور مسند احمد میں موجود ہے۔ان کتب میں موجود باقی دوسرے واقعات کو الحاقی یا بعد میں اضافہ کیا گیا‘ کیوں نہیں کہتاصرف اس واقعہ پر نظر پڑی جسے اضافہ شدہ قرار دے دیا۔
دوسرااعتراض: بنو ہاشم اپنی بد سلوکی کا بد لہ چکانا چاہتے تھے۔ بھلا ایک شخص کے سبب پورے خاندان کو الزام کی بساط میں لپیٹنا کہاں کی منصفی ہے۔نیز’’ واٹ ‘‘کو چاہیے تھا کہ جن اشخاص نے آپؐ سے ناروا سلوک رکھا ان کی فہرست دیتا۔ اس کے علاوہ اسے ثابت کرنا چاہیے تھا کہ کس مقام پر حضرت عباسؓ نے آنحضرتؐ سے کسی قسم کی زیادتی کی ہو یاسخت سست کہا ہو کہ ہمیں شرمندگی ہے کہ آپﷺ سے بہت زیادتیاں کی ہیں۔مآخذ و مصادر اس کا رد کرتے ہیں۔
تیسرا اعتراض: ’’واٹ‘‘ کہتا ہے کہ عباس اس وقت مشرک تھے۔جبھی تو بیعت عقبہ کے وقت موجود نہ تھے۔سوال یہ ہے کہ کیا مشرک سے امداد لی جا سکتی ہے یا نہیں۔ کیا مشرک اچھی بات کہے تو قابل قبول ہو گی یا نہیں۔ کیا مشرکین سے آپؐ نے تعاون کی اپیل کی؟ ان سوالات کا جواب مستشرقین کے ذمے قرض ہے۔ ذرا یہ بھی سن لیں ۔حضرت حمزہؓ نے آپؐ کی مدد کی۔وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ابو جہل کی حضورؐ سے زیادتی پر ان کی کمان دشمن اسلام کا سر پھاڑ دیتی ہے۔دوسری طرف ابو طالب ہیں جنھوں نے قریش مکہ کو صاف جواب دیا کہ وہ آنحضرتﷺ کی حمایت سے دست بردار نہیں ہوں گے اور نبی محتشم سے کہا‘ آپؐ اپنے مشن کو جاری رکھیں۔ صفوان بن امیہ مکہ کا رئیس تھا۔ابھی اسلام سے دور تھا۔ اسلام میں داخل نہیں ہوا تھا۔آپؐ نے اس سے سو زرہیں طلب فرمائیں۔ صفوان نے کہاجبراََ یا طوعاََ۔اگر جبراََ مانگتے ہو تو نہیں دیتا۔آپؐ نے فرمایا طوعاََ، جبراََ نہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ غصب یا عاریۃََ۔آپؐ نے فرمایا غصب نہیں بل کہ عاریتاََ۔جتنی لی جائیں گی اتنی ہی واپس کی جائیں گی اور اگر کوئی ضائع ہوجاتی ہے تو اس کا معاوضہ دیا جائے گا۔اتفاق سے جنگ میں کچھ زرہیں ضائع ہو گئیں۔جب واپس کیں تو ضائع شدہ کا معاوضہ پیش کیا گیا لیکن صفوان نے عرض کی‘ وہ وقت اور تھاجب میں نے یہ کہا تھا۔اب تو اسلام رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے ۔اب زرہیں کیا جان بھی حاضر ہے۔( خاتم النبیین۔۸۴۶)
یہ بھی واٹ جانتا ہوگا کہ اریقط کو مکہ سے مدینہ کے راستے سے با خبر تھاہجرت مدینہ میں آپؐ کو مکہ سے مدینہ لے جاتا ہے اور اپنی اجرت لے لیتا ہے ۔وہ بھی اس وقت مسلمان نہیں ہوا تھا۔
پنجم اعتراض: پہلی صدی کے آخر میں عباس بن عبد المطلب آنحضرت ؐ کی تعریف کرتے تھے۔پھر حضورؐ ایک شخص کو اجازت دیتے ہیں کہ مکہ کے باشندہ عباس کی ان قابل گرفت باتوں کی تردید کر دیں‘‘۔ واٹ کو خبر نہیں کہ حضرت عباس ۱۲ رجب بہ مطابق ۱۷ فروری ۶۵۳ ء میں فوت ہوئے۔آدھی صدی سے تین سال اوپر جسے واٹ پہلی صدی کا آخری حصہ قرار دیتا ہے۔آنحضرتؐ نے جنگ بدر میں فرمایا تھا کہ جو کوئی عباس کو دیکھے وہ انھیں قتل نہ کرے کیوں کہ وہ مشرکوں کے ساتھ مجبوراََ آئے ہیں۔حجاج بن عطاط کی حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے کہ حضرت عباس نے اپنا ایمان مخفی رکھا حتیٰ کہ اس کا اظہار فتح مکہ کے موقعہ پر کیا تھا۔ جنگ بدر ۲ھ میں ہوئی۔اور حضرت عباس ؓ کی وفات ۳۲ھ میں ہوتی ہے تو وہ تیس سال پہلے اسلام سے وابستہ تھے۔( تفہیم البخاری جلد ۵۔ص ۶۵۶)
اگر سن ۶۵۳ء سے تیس سال منہا کردیں تو سن ۶۲۳ء بنتا ہے جو پہلی صدی کا آخیر نہیں بل کہ پہلی صدی کا ربع اول ہے۔نہ جانے واٹ اس بات سے لاعلم کیوں رہا۔نیز ریاضی کے مسلّمہ جمع تفریق کے قانون سے یہ غفلت کیسی؟
ششم اعتراض: حضرت عباس کی باتوں کی تردید کے لیے ایک شخص کو اجازت دی۔وہ یہی اجازت تھی کہ عباس اسلام کی طرف مائل ہیں۔اسلام مخفی رکھے ہوئے ہیں لہٰذا جو کوئی جنگ بدر میں انھیں دیکھے تو قتل نہ کرے۔یہ نگاہ نبوت کا اعجاز ہے جہاں ایسوں ویسوں کی فکر کی پرواز کی رسائی ممکن نہیں تو ایسی فرضی داستانیں گھڑنے کا کیا فائدہ؟ سنین کے ادل بدل کرنے سے ان مستشرقین کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ واقعہ جو رونما ہوا اس سن کا واقعہ نہیں۔سرے سے بے بنیاد یا بعد کا اضافہ شدہ ثابت کرتے ہیں۔مگر یہ ان کی بھول ہے ایسا نہیں کہ ان کی گھڑی فرضی داستانوں کو مآخذ و مصادر رد نہ کرتے ہوں نیز مسلمان علما نے نہایت جان فشانی اور شبانہ روز سعی و محنت سے ہر واقعہ کو جانچ و پڑتال اور تحقیق و تفتیش کی بھٹی میں ڈال کر کھرا‘ صاف ستھرا اور کندن بنا کے تاریخ کے اوراق کی زینت بنا دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اب بھی تحقیق طلب واقعات ہیں۔ اللہ تعالیٰ توفیق بخشے ان مردان خدا کو جو اس تحقیق میں ہمہ وقت مصروف کار ہیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...