Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم |
حسنِ ادب
سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم

ہجرت مدینہ
ARI Id

1689956752314_56117773

Access

Open/Free Access

Pages

۲۲۵

ہجرت مدینہ
ہجرت مدینہ سے قبل کئی مسلمان اذیتوں اور تکلیفوں کے سبب حبشہ ہجرت کر چکے تھے۔وہاں بھی قریش نے پل بھر سکھ کا سانس نہ لینے دیا۔اپنا وفد بھیج کر شاہ حبش سے درخواست کی کہ انھیں اپنے ملک سے نکال دیں۔شاہ حبش نے درخواست مسترد ہی نہیں کی بل کہ مسلمانوں سے کہا کہ میرے ملک میں جہاں چاہو رہو۔اب ایک اور مقام کی طرف مسلمان بہ حکم رسولﷺ مدینہ ہجرت کرنے لگے۔ایک ایک دو دو موقع پاکر جانے لگے۔دوسری طرف قریش کے ظلم و ستم کی وارداتیں بڑھتی گئیں۔ طرح طرح کی اذیتیں دیں۔یہاں تک کہ قریشی بی بی کا شوہر جو غیر کفو ہوتا اس کی ہجرت کرنے کا پتہ چلتا‘پکڑ لاتے اور ظلم ڈھاتے نیز حفظ ما تقدم کے تحت اس کی بیوی کو ضمانت کے طور پر نظر بند کر دیتے۔بعض شوہروں کو ہجرت سے روکتے‘ نہ رکتے تو قید کر دیتے۔ مسلمان بچارے پٹتے تھے لیکن آہ و زاری نہیں کرتے تھے تکلیفیں سہتے مگر حر ف شکا یت زبان پر نہیں لاتے تھے جو جو ظلم کر سکتے تھے قریش نے روا رکھا لیکن ظالم کو کیا خبر کہ مظلوموں پر کیسی قیامت گزر رہی ہے ۔ ہر طرف دکھوں اور دردوں کے پہرے تھے پھر بھی وہ صبر کا پہاڑ تھے ڈٹے رہے اور زبان شکر گزاری کے ترانے الاپتی تھی ۔ خد اکا نام لینا جرم تھا ، نماز یا تلاوت قرآن کر نا موت کو دعوت دینا تھی ۔ آفات و آلام ان کے تعاقب میں تھے اور بقول انوری جو بلا آسمان سے آتی ہے انوری کے گھر کا پتہ پوچھتی ہے گویا رات کی سنگینی کا عالم یہ تھا کہ خود حضور ﷺ ( جن کی حفاظت کا ذمہ خود خدا نے لیا تھا ، خطرے سے باہر نہ تھے ۔غرض ہر ظلم سہتے رہے۔بے چارے مسلمان تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے ’’ کیوں اور کیا سوچ کر ظلم روا رکھا ہے؟ انھیں پوچھنے کی ضرورت ہی کیا تھی وہ بہ خوبی واقف تھے کہ کس جرم کی پاداش میں انھیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ صرف مسلمانوں کے قتل سے باز رہے کہ خانہ جنگی شروع نہ ہو جائے۔آخر کار آپﷺ بھی ۱۲ ربیع الاول دوشنبہ کے دن ہجرت کر کے قبا پہنچ گئے۔
اعتراض نمبر۲۲۹
شیری جونز (جیول آف مدینہ ۔ص ۔۳۱) رقم طراز ہے کہ ہجرت کی رات حضرت علی ؓ نے جب نبی کریم ﷺ کو بتایا کہ آج رات قریش کے ہر قبیلہ کے نو جوان آپ کو قتل کردیں گے تو یہ سن کر نبی کریم ﷺ کے چہرے کا رنگ اس طرح اُڑ گیا جیسے وہ پہلے ہی مر چکے ہیں ۔(ماہنامہ ضیائے حرم لاہور ۔فروری ۔۲۰۰۹)
جواب: اس اعتراض کی بنیادی غلطی تو یہ ہے کہ حضرت علی ؓ نے آپ ﷺ کو اس منصوبہ کے متعلق نہیں بتایا تھا بلکہ آپ ﷺ کو بذریعہ وحی علم ہوا ، اور آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو خود بتایا تھا ۔ کہ مجھے آج مکہ چھوڑ جانے کی اجازت مل چکی ہے ، آج تو میری سرخ یا سبزچادر اوڑ ھ کر سو جائیں ! بے شک تمہارے قریب ان کافروں کی طرف سے کوئی چیز ہرگز نہیں آ سکے گی جو تمہیں نا پسند ہو ۔آپ ﷺ حضرت علی ؓ کو باور کرا رہے ہیں کہ قریشی نو جوانوں کی تلواریں تمہارا بال بیکا نہیں کر سکیں گی ۔ آرام سے بستر پر سو جائو تو بھلا سوچیے کہ آپ ﷺ کیسے گھبرائے ہوں گے ۔
یہ مستشرقین کی ہرزہ سرائی کی دوسری غلطی اور تضاد دیکھئے کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ بڑے جنگ جو تھے ، اور تلوار کے زور سے اسلام پھیلانے والے تھے پھر یک دم پینترہ بدلا اور کہا کہ وہ کافروں کی اس سازش سے خوف زدہ ہو گئے تھے اور نوجوانوں کی تلواروں سے ان کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا ، سچ کہتے ہیں کہ ’’دروغ گو راخافظہ نباشد ‘‘ (جھوٹے کا حافظہ کمزور ہوتا ہے ۔ یہ بھی ان مستشرقین سے سوال کرنے کا حق بنتا ہے کہ آپ ﷺ ہجرت کی رات اپنے گھر کی چھت پھاڑ کر یا پچھلی جانب سے دیوار توڑ کر باہر نکلے تھے یا آپ اسی دروازہ سے باہر تشریف لائے جہاں قریشی نوجوان تلواریں اٹھائے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے تھے جب آپ ﷺ ان کے پاس سے گزر گئے انہوں نے آپ ﷺ کو نہ دیکھا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی مہر بانی تھی اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی حفاظت فرما رہا تھا اور اسی ذات نے آپ ﷺ کو ہجرت کرنے کا حکم فرمایا تھا ۔ ایک اور زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک گروہ آپ ﷺ کے سفر ہجرت کو دن کے وقت قرار دیتا ہے کہ آپ ﷺ رات کی بجائے دن کے وقت گھر سے روانہ ہوئے اگر ان کا خیال درست ہے تو پھر شیری جونز کا سارے کا سارا اعتراض ہی خاک بوس ہو جاتا ہے کیونکہ محاصرہ سے پہلے آپ ﷺ خانہ اقدس سے جا چکے تھے جبکہ نوجوان تلواریں لیے گھر کے باہر کھڑے رہے اس طرح سے نہ محاصرے ہوا نہ نوجوان تلواریں سونتے کھڑے ہوئے اور نہ ہی حضرت علیؓ آپ ﷺ کے بستر مبارک پر سوئے ۔ بہر حال آپ ﷺ کی شجاعت و بہادری کی دو مثالیں پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔
سن چار ہجری میں بنی غطفان کے قبائل بنی محارب اور بنی ثعلبہ کے مقابلہ کی نیت سے خود حضور ﷺنکلے ۔ بنی غطفان کی ایک بڑی جمعیت مقابل ہوئی مگر جنگ نہ ہوئی ۔ حضرت جابر ؓ سے صحیح مسلم میں روایت ہے کہ آپ ﷺ کی جگہ ایک سایہ دار درخت کے نیچے تھی اور آپ ﷺ کی تلوار درخت کے ساتھ لٹک رہی تھی اس دوران ایک مشرک آیا اور وہی تلوار نکال کر آپ ﷺ سے کہنے لگا کہ آپ ہم سے ڈرتے نہیں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ، اس نے کہا کہ نہیں ڈرتے ، میرے ہاتھ میں تلوار ہے آپ کو کون بچا سکتا ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ خدا بچانے والا ہے آخر اس نے تلوار پھر غلاف میں رکھ کر درخت سے لٹکا دی ۔ ابن اسحق کہتے ہیں کہ اس مشرک کا نام غورث تھا اور اپنی قوم سے کہہ کر نکلا تھا کہ میں محمد ﷺ کو قتل کرتا ہوں ۔ ( نعوذ بااللہ) آپ نے فرمایا مجھے تو میرے خدا نے بچا لیا اب تو بتا کہ تجھے کون بچائے گا ؟ اس نے کہا مجھے کوئی نہیں بچا سکتا آپ ہی مجھے معاف فرمادیں آپ نے فرمایا : کیا تو اسلام قبول کرتا ہے ؟ اس نے کہا یہ تو نہیں ہو سکتا مگر میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں آئندہ آپ ﷺ کے خلاف کسی جنگ میں شریک نہیں ہوں گا ۔ اس گفتگو کو سن کر صحابہ بھی آپ ﷺ کے گرد جمع ہو گئے اس وقت آپ چاہتے تو قتل کر اسکتے تھے لیکن آپ ﷺنے اسے معاف کر دیا اور جانے دیا اس نے واپس جا کر اپنے کافر ساتھیوں سے کہا کہ محمد ﷺ سب لوگوں سے بہتر انسان ہیں ۔ اس واقعہ میں بہادری و شجاعت کی دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں ۔اول یہ کہ آپ ﷺ کافر کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر اس کی للکار سے خوف زدہ نہیں ہوئے یہ بہادری کا اعلی نمونہ ہے اور اس سے بڑھ کر جرات و شجاعت کا بے نظیر نمونہ یہ ہے کہ طاقت کے ہوتے ہوئے آپ ﷺ نے اسے معاف کر دیا اور انتقام نہ لیا ۔نیز آپ ﷺ نہ گھبرائے اور نہ آپ ﷺ کسی سے ڈرنے والے تھے ۔
۲۔ غزوہ حنین میں جب مسلمان پیچھے رہ گئے تو پوری جرات اور ثابت قدمی سے دشمن کو للکارا اور بلند آواز سے فرمایا ’ ’ انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب ( میں اللہ کا سچا نبی ہوں اس میں ذرا جھوٹ نہیں میں عبدالمطلب کا فرزند ہوں ) لشکر پھر سے پلٹا اور پوری قوت سے حملہ کیا یہاں تک کہ دشمن کے پائوں اکھڑ گئے اور شکست کھا کر واپس لوٹے اس طرح آپ کی عدیم المثال شجاعت اور بے مثال ثابت قدمی نے مسلمانوں کی شکست کو فتح میں بدل دیا ۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہجرت کی ، اس کا سبب یہ بنا کہ انصار مدینہ نے آپ ﷺ کو اپنے شہر مدینہ آنے کی دعوت دی ، آپ ﷺ ان کی دعوت پروہاں تشریف لے گئے ۔
اعتراض نمبر ۲۳۰
مؤرخ ’’ میتھیو‘‘ متعدد الزامات عائد کرنے کے بعد تحریر کرتا ہے’’ انھوں ( محمدؐ)نے علی کا اونٹ لیا اور مدینہ چلے گئے‘ جب شہر کے باشندوں نے انھیں جلا وطن کر دیا‘‘۔ ( حوالا بالا۔۱۹۷)
جواب:یہ بات یکسر غلط ہے کہ آپؐ نے علی کا اونٹ لیا تھا۔ بلکہ ابو بکر ؓ کی دو اونٹنیوں سے ایک لی تھی۔ نہ جانے اسے ابو بکر ؓ سے کیا چڑ ہے کہ ان کی بجائے علی ؓ کا نام لیتا ہے اور یہ بھی جھوٹ بولتا ہے کہ علی کا اونٹ لیا تھا ۔دوم اہل مکہ نے انھیں جلا وطن نہیں کیا تھا بل کہ آپؐ خود انصار مدینہ کی دعوت پر ان کے ہاں تشریف لے گئے تھے۔ مدینہ کی ہوا اسلام کے پھیلنے میں نہایت ساز گار تھی کیوں کہ اوس و خزرج ایک دوسرے سے جنگیں کر کے تھک چکے تھے۔اب وہ کسی مسیحا کی تلاش میں تھے جس کی رہنمائی دونوں قبائل کو منظور ہو اور اس کے دم قدم سے امن ہو جائے۔وہ مسیحا آقا کریم ﷺتھے جس کی تعلیم و تربیت سے خون کے پیاسے اوس و خزرج ایک دوسرے کے بھائی‘ معاون و مددگار بن گئے۔ایک جھوٹ کے سچے کرنے میں ہزار ہا جھوٹ بولے جائیں تو وہ سچ نہیں بن جاتا بلکہ جھوٹ ہی رہتا ہے۔میتھیو نے ایک الزام کی جگہ کئی اور الزام لگا دئیے ۔ایک جھوٹ کو سچا کرنے کے لیے کئی اور جھوٹ بولتا ہے۔مگر بے سود !
جب مشرکین مکہ نے دیکھا کہ مسلمان ایک ایک کر کے اپنے بال بچوں اور مال و دولت کو سمیٹ کر مدینہ جا رہے ہیں تو انھیں بہت قلق ہوا۔انھیں روکنے کی سب تدبیریں ناکام ہو گئیں اور ان مہاجرین کے آقا و مولاﷺ جو تیرہ سال مصائب و آلام اور جبر و تشدد کی چکی میں پستے رہے وہ مدینہ چلے جاتے ہیں تو کفار کی مذہبی ساکھ اور اقتصادی طاقت خاک بوس ہوتی دکھائی دیتی ہے جب کہ اہل مکہ شام سے سالانہ تجارت اڑھائی لاکھ دینار سونے کے تناسب سے ہوتی تھی۔انھیں یہ بھی احساس تھا کہ مدینہ کے دو قبیلے اوس و خزرج طاقت ور ہیں ۔جنگی صلاحیتوں سے بھر پور ہیں اور یہ قبائل کئی سالہ خانہ جنگیوں سے تھک ہار کر صلح و آشتی کے خواہاں ہیں۔ مشرکین اس گھمبیر مسئلہ سے خائف تھے اور ان کے لیے زندگی اور موت کا سوال تھا۔اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے انھیں خیال آیا کہ اس کا کوئی مستقل علاج ڈھونڈا جائے اور وہ جانتے تھے کہ اس خطرہ کی بنیاد اسلام کے داعی پیغمبر اسلامﷺ ہیں۔ بیعت عقبہ کے تقریباََ اڑھائی ماہ بعد جمعرات کو دار الندوہ میں اجلاس بلاتے ہیں۔یہ سب سے خطر ناک تاریخی اجتماع تھا۔سب سے پہلے اس اجتماع میں ابو الاسود نے یہ تجویز پیش کی کہ اس شخص (محمد ﷺ ) کو اپنے درمیان سے نکال دیں اور اپنے اس مقدس شہر میں سے جلا وطن کر دیں۔پھر ہمیں ان سے کوئی تعلق نہیں کہ وہ کہاں جاتا ہے اور کہاں رہتا ہے ۔ ہمیں ہر طرح کا اطمینان اور چین نصیب ہو جائے گا اور جو لوگ باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر دین اسلام میں داخل ہو چکے ہیں وہ جب خودکو بے سہارا اس کے بغیر پائیں گے تو وہ اس دین کو چھوڑ کر دوبارہ ہم سے آملیں گے اور ہم میں بھی پھر پہلے جیسی وحدت و یگانگت پیدا ہو جائے گی۔ فوراََ کہا گیا کہ یہ تجویز ناقص ہے اس کی وجہ یہ کہ حضورؐ نہایت خوش اخلاق اور شیریں کلام ہیں۔جو بھی ملاقات کرتا ہے آپ کی شخصیت اور نظریات سے دل و جان سے متاثر ہو جاتا ہے ۔ اگر انھیں جلا وطن کر دیا گیا تو وہ اپنی ہمہ صفت و موصوف شخصیت سے عرب قبائل کو اپنا ہم نوا بنالیں گے اور مکہ پر حملہ آور ہوں گے۔پھر اس شہر کی پائمالی گھوڑوں کے سموں سے ایسی ہوگی کہ تمھارا نام و نشان حرف مکرر کی طرح مٹ جائے گا۔ تجویز ایسی ہو جو ہر لحاظ سے کامیابی کی راہ دکھائے۔میتھیو بے چارے کو اپنے بڑوں کی بات سے بھی اتفاق نہیں۔انھوں نے جلا وطنی کی تجویز آنے والے خطرات کے پیش نظر مسترد کر دی مگر یہ کہتا ہے کہ کفار نے انھیں جلا وطن کر دیا۔جسے اپنے بڑوں کی بات کا پاس و لحاظ نہیں وہ کسی اور کی کیا سنے اور مانے گا۔ بڑے چھوٹے ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔پھر بھی کسی کی عقل کی ترازوبرابر ہوتی ہے مگر نہ مانوں کا علاج نہیں ہے۔ بڑوں نے سوچا کہ آپ ؐ اپنی مقناطیسی شخصیت ، حقیقت بھری تعلیمات اور اعلیٰ اخلاق سے لوگوں کو اپنا گر ویدہ بنا لیں گے۔ جہاں بھی جائیں گے جان نثار کرنے والے پروانہ وار آئیں گے۔ اور لوگ جوق در جوق داخل اسلام ہوں گے اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں وہ ہم پر حملہ آور ہوں اور ہمارا نام و نشان تک نہ رہے۔ان وجوہات کی بنا پر کفار کا اپنے شہر سے انھیں جلا وطن کرنا میتھیو کا محض الزام دھرنا مقصود ہے جبکہ حقیقت میں غلط ہے۔کفار جانتے بھی ہیں کہ ان کے سارے منصوبے اور چالیں فضول اور بے کار ہیں مگر نفرت و تعصب کی لت نہیں چھوٹتی۔
اعتراض نمبر ۲۳۱
انسائکلو پیڈیا برٹانیکا میں اسلام اور محمد ﷺ پر بہتانات میں سے ہجرت کو فرار قرار دیا گیاہے۔ ( محمد رسول اللہ۔۶۰۸)
جواب:انسائکلو پیڈیا برٹانیکا میں دین اسلام اور داعی اسلام پر بہتانات لگائے گئے ہیں اس میں لکھا ہے کہ پیغمبروں اور مذہبی شخصیتوں میں سب سے زیادہ کامیاب حضرت محمدؐ ہیں ۔ پھر بھی اس میں حضورؐ اور اسلام پر کم از کم بائیس غلط بیانیاں موجود ہیں۔جن میں سے ایک نمونہ کے طور پر یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہجرت مدینہ کو ’’ فرار‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ مغربی لٹریچر میں لفظی ہیر پھیر سے مغالطوں کے انبار لگادئیے گئے ہیں۔مثال کے طور پر فرضی اضافہ کے نام ماہوئن۔ماہوند اور مہامٹ وغیرہ کو داعی اسلام کے نام ٹھہرا دیا۔اسپین کے ’’ الویرو‘‘ نے اللہ اکبر کے جو معنی پیدا کیے ہیں اس کی ذہانت اور نرالی منطق کا جواب نہیں‘ ساتھ ہی اس کی اسلام دشمنی کا حد و حساب نہیں۔اس کے خیال میں عرب’’ زہرہ‘‘ وینس ستارہ کو کَبَر یا کُبَر کہتے تھے۔ اس ستارے کی عزت و تکریم ہر صبح عبادت گاہ سے اللہ اکبر کا غلغلہ بلندہوتا ہے۔’’ الویرو‘‘ نے اللہ اکبر کا املا’’ اللہ ھو کَبَر کیا ہے اور اس املاء کی مدد سے یہ معنی پیدا کیے ہیںکہ اللہ ہی کبر ہے۔منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کواکب پرستی کا نام ہے۔( اسلام اور مستشرقین مغرب کا نداز فکر۔۱۸۸)گولڈ زیہر اسلام کو عرب جاہلیہ کا بدلہ ہوا نام قرار دیتا ہے ۔
اسی طرح بہت سے اہل مغرب مستشرقین لفظ ہجرت کو انگریزی زبان میں HEJRA لکھتے ہیں۔ اور اس کا ترجمہ ’’ فرار‘‘ قرار دیتے ہیں۔مگر ان مستشرقین کے خلاف ’’ لیوس‘‘ اس کا صحیح تلفظ hijra بتاتا ہے اور ترجمہ کے لیے انگریزی لفظ (move) استعمال کرتا ہے۔ گویاان کے اپنے الزام کی اپنے ہمنوا مستشرق نے تردید کر دی۔ عربوں کے نزدیک ہجرت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی خانہ بدوش صحرا نشین اپنے صحرا کو چھوڑ کر کسی شہر میں جا بسے۔گویا ہجرت کسی نعم البدل کا حصول ہے۔( محمد رسول اللہ۔۴۰۸) ’’ گولڈز یہر‘‘ اسلام کو عرب جاہلیہ کی مروۃ کا بدلا ہوا نام قرار دیتا ہے۔( مستشرقین مغرب کا انداز فکر۔۲۱۷) مستشرقین لفظ ہجرت کے معنی فرار کرتے ہیں جو کسی طرح عربوں کے نزدیک اس معنی میں مروج نہیں ہے۔اسلامی اصطلاح میں اگر مسلمان کو ایک شہر یا ملک میں ان عقائد پر عمل کرنے سے روکا جائے اور انھیں شہر یا ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا جائے اور وہ مسلمان کسی اور شہر یا ملک میں جا بسیں اسے ہجرت کہتے ہیں۔جیسے پاکستان ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا۔اس مملکت خداداد کے حصول میں مسلمانوں نے ہر دکھ سہا حتیٰ کہ گھر بار‘ مال، جائداد چھوڑی۔بچوں کی قربانیاں دے کر،جوانوں کو قربان کر کے‘ مائوں بہنوں کی ردائیں تار تار کرواکے،خون کی ندیاں بہا کر آخر ہجرت کر کے وہ اس خطہ میں چلے آئے جس کے حصول کے لیے انھوں نے سب کچھ پیش کر دیا تھا۔ مگر منکرین ہجرت کو عظیم قربانی کے بہ جائے محض پناہ گیری اور فرار تصور کرتے ہیں۔ عہد وسطی میں ہجرت کا تصور یہ تھا کہ کسی جرم کی سزا میں ملک بدر کر دیا جاتا تھا۔ہجرت اس نیت سے کی کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے ۔ مروی ہے ’’ انما الا عما ل با لنیات ‘‘اعمال کا ثواب نیت پر موقوف ہے جس کسی نے ہجرت دنیا یا عورت سے نکاح کرنے کی نیت سے کی تو اسے وہ کچھ ملے گا اور آخرت میں کچھ ثواب حاصل نہ ہوگا ۔ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہجرت فرمائی اور اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کی خاطر ہجرت کی اس کے اجر کا ضامن اللہ تعالیٰ ہے ۔ اس سے معلوم ہوا ہجرت فرار نہیں ہے بلکہ اسلام کی سر بلندی کی آئینہ دار ہے ۔
شبہ کا ازالہ: یہودیوں کا یہ دعویٰ قطعی بے دلیل ہے کہ ان کے قدیم آبائو اجداد نے مدینہ طیبہ کو آباد کیا تھا اور یہ ان کا آبائی اصل وطن ہے۔ کیوں کہ یہود کی مقدس کتاب تورات اور تاریخ سے ثابت ہے کہ موسیٰؑ بنی اسرائیل کے ساتھ حج بیت اللہ سے فارغ ہو کر جب مدینہ منورہ آئے تو ان میں ایک گروہ نے محض اس بناء پر مدینہ منورہ میں رہائش رکھ لی کہ تورات کی پیش گوئی کے مطابق اسی شہر میں حضرت محمدﷺ تشریف لانے والے ہیں ۔ یہ بنو قینقاع یہود کا معروف قبیلہ تھا جو یہود میں سب سے پہلے بازار قینقاع میں آباد ہوا۔یہ مسجد نبوی کی جنوب مغربی سمت کی طرف بنو قینقاع کے نام سے معروف تھا۔جہاں اب بڑا ڈاک خانہ ہے۔ اس کے ارد گرد کی جگہ یہ قبیلہ آباد ہوا تھا۔
بعد میں بنی نضیر یہود کا قبیلہ آباد ہوا۔ جو قبا اور اس کے ارد گرد وادی بطحا تک آباد ہوا۔یہ کھیتی باڑی کے ماہر تھے۔ عمالقہ کے بعد انھوں نے ہی مدینہ طیبہ میں کنویں کھودے تھے۔ اس کے بعد یہود کا تیسرا قبیلہ بنو قریظہ آباد ہوا۔ ان کا مسکن موجودہ عوالی سے حارۃ شرقیہ کے بلند علاقے تھے۔( انسائکلو پیڈیا مدینۃ النبی۔۷۶)
خروج دن کو ہوا یا رات کو
حدیث مبارکہ: ام المومنین سے مروی ہے کہ ایک روز ہم سب گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔عین دوپہر کا وقت تھا ۔اس وقت سرکار ِ دو عالمؐ ہمارے گھر تشریف لائے۔گھر کے کسی شخص نے آپؐ کو آتے دیکھ کر کہا کہ آپؐ سر ڈھانپے تشریف لا رہے ہیں( یہ سر ڈھانپنا یا تو گرمی کے سبب تھا یا لوگوں کی شناخت سے بچنے کے لیے تھا) آپؐ اس سے پہلے اس وقت کبھی تشریف نہیں لائے تھے۔ سیدنا ابوبکر ؓنے کہا ’’ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان آپ ضرور کسی اہم کام کے لیے تشریف لائے ہیں‘‘۔ رسول اللہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ اجازت پا کر آپؐ اندر تشریف لائے۔سیدنا ابوبکر ؓ سے فرمایا ’’ یہاں اس وقت جتنے لوگ ہیں انھیں یہاں سے ہٹا دو( کیوں کہ اہم بات کرنی ہے) سیدنا ابوبکرؓ نے عرض کیا’’ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان‘ یہ تو آپؐ ہی کے گھر والے ہیں‘‘۔ اس پر سرکار دو عالمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ مجھے یہاں سے باہر جانے ( ہجرت) کا حکم دیا گیا ہے‘‘۔ سیدنا ابو بکر ؓ نے کہا’’ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان مجھے بھی ساتھ لے لیجیے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا’’ ٹھیک ہے‘‘۔ سیدنا ابوبکر نے کہا’’ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ’’ ان دو اونٹنیوں میں سے ایک آپ لے لیں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: مفت نہیں قیمتاََ لوں گا‘‘۔
سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہم نے ان کے لیے جلدی جلدی سامان سفر اور زاد راہ تیار کیا۔کچھ کھانا چمڑے کے ایک تھیلے میں رکھ دیا۔ سیدہ اسماء بنت ابوبکر نے اپنا ازار بند کاٹا اور اس سے تھیلے کا منھ باندھا۔اس وجہ سے ان کا نام ذات النطاقین پڑ گیا۔ پھر رسول اللہؐ اور ابوبکرؓ اپنی سواریوں پر چل پڑے اور غار ثور میں تین رات چھپے رہے۔ جب رات کا اندھیرا ہوتا تو دودھ والی بکریاں ان کے پاس لے جاتے اور وہ دودھ پی کر رات گزارتے حتیٰ کہ اندھیرے میں عامر بن فہیرہ بکریاں ہانک کر لے جاتا۔تین راتیں ہر رات اسی طرح کرتے رہے۔آپؐ اور ابوبکر ؓ نے بنی دیل کے ایک آدمی کو جو بنی عبد بن عدی میں سے تھا ملازم رکھا ہوا تھا ۔وہ رہبر تھا۔اس نے آل عاص بن ویل سہمی سے حلف باندھ رکھا تھا جب کہ وہ کفار قریش کے دین پر تھا اسے امین بنایا اور دونوں اونٹنیاں اس کے حوالے کر دیں اور اس سے ( عبد اللہ بن اریقط سے) تین راتوں کے بعد تیسری شب کی صبح کو دونوں اونٹنیاں غار ثور میں پہنچانے کا وعدہ لیا اور عامر بن فہیرہ اور راہبر ان کے ساتھ چلے۔ ( بخاری شریف) کے اس جملہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ تین راتیں غار میں گزاریں اور اگلے دن ( یعنی چوتھے دن) غار سے مدینہ منورہ کو روانہ ہوئے ۔ اگلا دن یعنی چوتھا دن روانگی کا اس لیے پڑتا ہے کیوں کہ بعض سیرت کی کتب میں آپؐ اور ابوبکر کا غار ثور میں قیام تین دن کا ذکر بھی ہے۔ گویا یوں تین شبانہ روز غار میں رہے۔ دن میں ہجرت کرنے سے تمام امور میں مطابقتیں پائی جاتی ہیں۔ یعنی تین شبانہ روز غار ثور میں قیام اور چوتھے دن سوئے مدینہ شریف روانگی روایات کے مطابق ہیں۔ امکانی نقشہ جات کی امکانی صورتوں سے مذکورہ ممکنہ صورت درست ٹھہرتی ہے۔ جو روایات کے موافق ہے۔ امکانی نقشہ جات کی امکانی صورتوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ نے دن میں ہجرت فرمائی۔نقشہ آگے آ رہا ہے۔مذکورہ طویل حدیث کے اس ٹکڑے سے چند امور ثابت ہوئے ۔
۱: سفر ہجرت رات کو نہیں بل کہ دن کے وقت شروع ہوا لہٰذا جن روایات میں رات کے سفر کا ذکر ہے وہ بخاری کی اس حدیث کے مقابلہ میں کم زور ہیں۔
۲: ہجرت کا آپؐ کو جوں ہی حکم ملا آپؐ اسی وقت ابوبکرؓ کے مکان پر تشریف لائے۔ ابوبکر کو حکم سنایا۔ ابوبکر نے رفاقت کی درخواست کی جو آپؐ نے منظور فرمالی۔ ( اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آپ جس وقت ابوبکر ؓ کے مکان پر تشریف لائے، اس وقت پہلے کبھی نہیں آیا کرتے تھے۔ لہٰذا جوں ہی حکم ملا آپؐ ابوبکرؓ کے ہاں چلے آئے)
۳: اس وقت ابوبکرؓ کے گھر ہی پر زاد راہ سیدہ عائشہ ؓ اور سیدہ اسمائؓ دونوں بہنوں نے تیار کیا اور سیدہ اسماء نے اپنے ازار بند سے اس تھیلے کے منھ کو باندھا جس میں کھانا تھا۔
۴: ابوبکرؓ کے گھر ہی سے اسی وقت اور دوپہر کے وقت سیدنا ابوبکر اور رسول اللہ ہجرت کے لیے روانہ ہو گئے اور جبل ثور کے ایک غار میں تین رات چھپے رہے۔
یہ جو تاریخ و سیر کی کتب میں محمد ابن اسحاق وغیرہ کے حوالے سے روایات ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے سیدنا علیؓ کو اپنے بستر پر سلایا اور فرمایا کہ یہ سبز چادر اوڑھ کر سو جائو‘ تمھیں کوئی گزند نہیں پہنچے گا اور آپؐ نے رات کے وقت ہجرت فرمائی‘ بخاری کی اس حدیث کے مقابلے میں ان روایات کی ایک افسانے سے زیادہ حیثیت نہیں اور ان روایات کے خدوخال سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنائی گئی ہیں۔ ( خاتم النبیین۔ ۴۲۵۔۴۲۴)نیز اس میں یہ جملہ ’’رات کے وقت ہجرت فرمائی ‘‘ محل نظر ہے اور روایات اس کے خلاف ہیں۔
جیسا کہ بخاری کی روایت میں ہے کہ سرکار دو عالم ﷺدوپہر کے وقت سیدنا صدیق اکبرؓ کے گھر پہنچے وہیں زادراہ تیار کیا گیا اور پھر وہیں سے وہ سفر ہجرت کے لیے روانہ ہوگئے۔ دونوں حضرات ( رسول اللہﷺ اور سیدنا صدیقؓ) مکان کی عقبی کھڑکی سے نکلے۔ ( بہ حوالا بالا۔ ابن ہشام۔ البدایہ و النہایہ)
ابن اسحق کے حوالہ سے مارگولیس کہتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ دونوں اسی وقت (دن کو ) عقبی دروازے سے نکل گئے اور غار ثور میں پناہ لی جو مکہ کے جنوب میں ہے ۔ ( ن۔۲۔۱۵۳)
ابن سعد کہتا ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کو دار الندوہ کے اجلاس کی نیت اور ارادے کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے دوپہر ہی سے اقامت گاہ خالی کر دی ۔ ( ن۔۲۔۱۵۳)۔
حوالہ جات کتب
۱۲: ابن اسحاق کے بیان کے بہ موجب آنحضرتؐ اور ابو بکرؓ دونوں اسی وقت (دن کو) عقبی دروازے سے نکل گئے اور غار ثور میں پناہ لی جو مکہ کے جنوب میں ہے۔( مارگولیس) (ن۔۲۔۱۵۳)
۱۳: پیغمبر اسلام کو دارالندوہ کے اجلاس کی نیت اور ارادے کا علم ہوا تو آپ نے دوپہر ہی سے اقامت گاہ خالی کر دی۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ہم دوپہر کو ابوبکر کے گھر بیٹھے تھے ۔کسی نے ان سے کہا کہ رسول اللہﷺ چہرے پر مقنع ڈالے تشریف لاتے ہیں حال آنکہ معمولاََ آپ اس وقت کبھی تشریف نہ لاتے تھے۔( ن۔ ۲۔۱۵۳۔ بہ حوالہ بخاری شریف)
کتب کے حوالہ جات درج کرنے کی غرض یہ ہے کہ
۱۔ ظاہر ہو سکے کہ آپ ﷺ نے غار ثور میں جتنے دن قیام فرمایا ۔
۲۔ غار ثور میں جتنے دن یا راتیں یا کل جتنے دن اور راتیں گزاریں۔
۳۔ غار ثور میں قیام کے بعد کون سے دن مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ۔
۴۔ ان حوالہ جات سے مترشح ہوتا ہے کہ آپ ﷺ تین دن اور تین راتیں قیام فرما کر چوتھے دن عازم مدینہ منورہ ہوئے ۔
۵۔ اگر روانگی غار ثور سے مدینہ منورہ کو چوتھے دن ہو تو دیکھنا یہ ہے کہ خروج دن کو ہوتا ہے یا رات کو ۔اس کے لیے درج ذیل امکانی صورتوں اور نقشہ پر نگاہ ڈال لی جائے جس سے حل طلب مسئلہ کے سمجھنے میں آسانی پیدا ہو جائے ۔
مذکورہ نقشہ میں کہیں تین دن اور کہیں تین رات کے قیام کا ذکر ہے البتہ سیریل نمبر ۱۳میں تین شبانہ روز کا ذکر موجود ہے۔ بل کہ صراحتاََ غار ثور سے مدینہ شریف کو روانگی چوتھے روز ہوئی‘ کا ذکر بھی ہے۔ اسی طرح سیریل نمبر ۱۰ میں تین دن قیام اور چوتھے روز روانگی کا ذکر ہے۔
ان تمام میں تطبیق کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آپؐ نے غار ثور میں تین شبانہ روز قیام کیا اور چوتھے روز غار سے نکل کر سوئے مدینہ روانہ ہوئے۔ اس کی وضاحت کے لیے دن یا رات کو ہجرت کرنے کے دو نقشے پیش کرتے ہیں۔
اگر سفر دن کو شروع ہو تو۔۔۔۔ نقشہ اول
دن ۵
رات
دن۴
رات
دن۳
رات
دن ۲
رات
دن ۱
امکانی صورتیں:
۱: پہلے دن گھر سے ہجرت، اسی دن مدینہ کو روانگی ہوئی
۲: ۱یک دن قیام ،پہلی رات روانگی
۳: ا یک دن ایک رات قیام، دوسرے دن روانگی
۴: دو دن ایک رات قیام، دوسری رات روانگی
۵: ۲ دن ۲ رات قیام، تیسرے دن روانگی
۶: ۳ دن اور ۲ رات قیام، تیسری رات روانگی
۷: ۳ دن اور ۳ رات قیام، چوتھے دن روانگی +
۸: ۴ دن اور ۳ رات قیام، چوتھی رات روانگی
۹: ۴ دن اور ۴ رات قیام، پانچویں دن روانگی
خروج دن میں ہوا: نقشہ اول میں بھی نو ممکنہ صورتیں ہیں۔ ان ممکنہ صورتوں میں ایک تا چھ اور آٹھ نو خارج از بحث ہیں۔ یہ روایات کے خلاف ہیں۔ہاں مگر ایک ممکنہ صورت نمبر سات ہے جو روایات سے مطابقت رکھتی ہے۔
۱: تین دن کا قیام غار میں ۲: تین رات کا قیام غار میں
۳: چوتھے دن غار ثور سے مدینہ روانگی
اگر سفر رات کو شروع ہو تو۔۔۔۔ نقشہ دوم
رات
دن ۴
رات
دن۳
رات
دن ۲
رات
دن ۱
رات
امکانی صورتیں:
۱: پہلی رات گھر سے اور اسی رات روانگی
۲: ایک رات غار میںقیام، پہلے یا اگلے دن روانگی
۳: ایک رات اور ایک دن قیام ، دوسری رات روانگی
۴: دو رات اور ایک دن قیام، دوسرے دن روانگی
۵: دو رات اور دو دن قیام، تیسری رات روانگی
۶: تین رات اور دو دن قیام، تیسرے دن روانگی
۷: تین رات اور تین دن قیام، چوتھی رات روانگی +
۸: چار رات اور تین دن قیام، چوتھے دن روانگی
۹: چار رات اور چار دن قیام، پانچویں رات روانگی
خروج رات کو نہیں ہوا: اگر آپ ؐ اپنے خانہ مبارک سے رات کو روانہ ہوں تو نقشہ دوم کے مطابق نو ممکنہ صورتیں خروج کی بنتی ہیں ۔ ان ممکنہ صورتوں میں نمبر شمار ایک تا چھ اور آٹھ نو خارج از بحث ہیں کہ علاوہ دیگر وجوہ کے ان کی تائید میں کوئی روایت نہیں۔ رہ گئی ساتویں نمبر کی ممکنہ صورت جس میں تین دن اور تین راتوں کا قیام ظاہر ہوتا ہے لیکن غار ثور سے مدینہ منورہ کو روانگی چوتھی رات کو ہوتی ہے جیسا کہ نمبر آٹھ کی ممکنہ صورت میں ہے۔ یہ بھی روایات کے خلاف ہے۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نقشہ دوم کی تمام ممکنہ صورتوں میں کوئی بھی ممکنہ صورت روایات سے مطابقت نہیں کرتی ہے۔ لہذٰا آپؐ کا اپنے خانہ اقدس سے خروج رات کو نہیں ہوتا اور نہ رات کو غار ثور میں تشریف لے جاتے ہیں۔
یہ غلطی کیسے در آئی؟ غار ثور میں تین شبانہ روز قیام کے بعد چوتھے روز روانگی مدینہ منورہ کو ہوتی ہے ،یہ تب ممکن ہے جب خروج دن کے وقت ہو۔ اب تین شبانہ روز قیام اور چوتھے دن روانگی تو لکھ دی لیکن خروج رات کو ہوا لکھ دیا جس سے معاملہ گڈ مڈ ہو گیا۔ رات کے خروج کے قائل حضرات نے یہ تحقیق نہ کی کہ اس طرح تو خروج دن کو ہوتا ہے مگر بے احتیاطی سے خروج رات کو ہوا لکھ دیا اور ان کی دیکھا دیکھی دوسروں نے بھی اچک لیا اور یہ غلطی چلتی رہی۔ جس طرح ایک سیرت نگار لکھتے ہیں ’’ تین راتیں گزار کر اونٹنیاں غار پر لے آنا۔ پھر لکھتے ہیں کہ سفر غار ثور سے مدینہ کی طرف چوتھے روز شروع ہوا۔ اس حساب سے خانہ اقدس سے سفر رات کو شروع ہو تو تین راتیں گزارنے کے بعد اگلا دن روانگی کا آتا ہے ‘ وہ تیسرا دن ہوتا ہے چوتھا روز نہیں۔ یہ سیرت نگار رات کے خروج کا قائل ہے۔ سیرت نگار کو سیرت کے واقعات میں نہایت حزم و احتیاط سے قلم اٹھانا چاہیے۔ کسی بھی واقعہ کو بغیر تحقیق کے لکھ دینے سے اجتناب کرنا چاہیے ورنہ ایسی غلطیوں کے در آنے کا امکان ہوتا ہے۔ نیز ایسی بے احتیاطی سے پیدا ہونے والی غلطیاں مستشرقین کے لیے نہایت خوب اور مرغوب ہوتی ہیں جو مزید نمک مرچ لگا کر اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺکے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔اور واقعہ کے وقوع کی تعریف اور وقت میں شکوک پیدا کر کے واقعہ کے ہونے کا سرے سے انکار کر دیتے ہیں ۔
حکمتیں:
ہر ایک شے کو بے کار پیدا نہیں کیا گیا۔ ہر شے کی اپنی حیثیت اور اہمیت ہے ۔ ایک بزرگ اپنے مریدوں کو الفاظ کے اسرار و رموز اور اشارات سے متعلق وعظ فرما رہے تھے ۔ اس دوران ایک شخص آیا کھڑے ہوئے سنتا رہا آخر بولا یہ بھی کوئی کرنے کی باتیں ہیں ان الفاظ میں اثر کہاں ؟ بزرگ بولے ! اے خر ! تو چہ میدانی ،( اے گدھے تو کیا جانے ) وہ شخص غصے سے بھوت ہو گیا ۔ تو بزرگ بولے میاں ! کیا ہوا ؟ و ہ کہنے لگا کہ تم نے مجھے ’’ خر کہا ہے ‘‘ ۔ وہ فرمانے لگے دیکھا کہ خر کے دو حرف ہیں جنہوں نے تیرے تن بدن میں آگ لگا دی ہے ۔ بھلے مانس سمجھ لے کہ ٖحرفوں اور لفظوں میں تاثیر ہوتی ہے جو اکسیر کا درجہ رکھتی ہے ۔
اسی طرح ا عدادکی اپنی حیثیت ہے اور کسی کام کے لیے اعداد کا تعین اور تعداد و گنتی کی اپنی اہمیت ہے جس طرح حضرت موسیٰ ؑ نے چالیس دن گزارے اور تورات کے صحیفے سے نوازے گئے۔ اللہ تعالیٰ ہی ان کے اندر چھپے سربستہ راز اور حکمتوں کو خوب جانتا ہے ۔ نہ جانے تین دن اور تین راتیں غار ثور میں گزارنے کی کیا حکمتیں ہیں البتہ غار میں ہماری دانست کے مطابق چند حکمتیں یہ ہو سکتی ہیں ۔
۱۔ ماحول کی شدت میں کمی آ جائے ۔
۲۔ آنے والوں کے لیے یہ اقدام مشعل راہ ہو سکے ۔
۳۔انبیاء سے موافقت ۔
قرآن کریم کی سورت مریم میں ہے ’’ زکریا نے عرض کی میرے رب ! کیسے ہو سکتا ہے میرے ہاں لڑکا ، میری بیوی بانجھ ہے اور میں خود پہنچ گیا ہوں بڑھاپے کی انتہا کو ۔ فرمایا یو نہی ہے ، تیرے رب نے فرمایا ہے کہ بچہ دینا میرے لیے آسان ہے اور ( دیکھو) میں نے تمہیں بھی پیدا کیا تھا اس سے پیشتر حالانکہ تم کچھ بھی نہ تھے ۔ زکریا نے عرض کی اے میرے رب ! ٹھہرائو میرے لیے کوئی علامت فرمایا تیری نشانی یہ ہے کہ توتین رات دن لوگوں سے کلام نہ کرے بھلا چنگا ہو کر ۔‘‘ لہٰذا حضرت زکریا ؑ کے تین رات تک بات نہ کرنے میں اشارہ تین رات تک کا ہے حالانکہ اس سے کم اور زیادہ راتوں کا ذکر بھی ہو سکتا تھا ۔
حضرت یوسف ؑ کو بھائیوں نے کنویں میں گرا دیا ، ایک کارواں مدین سے بہ طرف مصر جا رہا تھا ۔ راستہ بھٹک کر اس جنگل میں آ پڑے جہاں آبادی سے بہت دور ایک کنواں تھا جب قافلہ کنویں کے قریب اترا اور مالک بن ذعر خزاعی نے اس کنویں میں ڈول لٹکایا ۔ حضرت یوسف ؑ اس سے چمٹ گئے مالک نے ڈول باہر کھینچا تو دیکھا کہ ایک چاند سا چہرے والانوجوان ہے اس کی اپنے ساتھیوں کو خبر دی حضرت یوسف ؑ اس کنویں میں تین روز رہے ۔
۳۔ حضرت یونس ؑ تین دن مچھلی کے پیٹ میں رہے پھر اللہ نے کرم فرمایا اور مچھلی نے زندہ یونس ؑ کو اگل دیا ۔اسی طرح نبی کریم ﷺ غار ثور میں تین دن رہے ۔ گویا یہ پیغمبروں کی موافقت ہے

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...