Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم |
حسنِ ادب
سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم

مواخات مدینہ
ARI Id

1689956752314_56117774

Access

Open/Free Access

Pages

۲۵۳

مواخات مدینہ
مکہ سے مسلمان مہاجرین ہر شے تج کر خالی ہاتھ مدینہ منورہ چلے آئے تھے۔لیکن ہر شے سے قیمتی اعلیٰ اور زندگی کا حاصل یعنی دین اسلام اپنے دامن میں سمیٹ لائے تھے۔ اس دولت بے پناہ کے ہوتے ہوئے انھیں کسی چیز کے چھوڑنے اور دوسروں کے قبضے میں چلے جانے کا دکھ تھا نہ غم۔ وہ اللہ کی اطاعت اور رسول کی پیروی میں سب وابستگیوں سے دور جا چکے تھے۔ بس رسول اللہ کا دامن مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے۔
ان کے دامن سے ہو کے وابستہ
سب سے دامن چھڑا لیا ہم نے
بے سر وسامانی کے عالم میں آنحضرتؐ نے انصار و مہاجرین کے درمیان رشتہ اخوت قائم فرمایا۔ حضرت انسؓ کے مکان پر لوگوں کو جمع کر کے انصار سے فرمایا! یہ تمھارے بھائی ہیں ۔ پھر مہاجرین اور انصار میں سے ایک ایک شخص کو بلا کر آپؐ فرماتے گئے’’ یہ اور تم بھائی ہو‘‘۔ دو اجنبی بھائی بھائی بن گئے۔ ان میں سے چند کے نام حسب ذیل ہیں
۱۔ سید نا ابو بکر صدیق ؓ ، سید نا عمر فاروق ؓ
۲۔ سیدنا حمزہؓ کو سیدنا زید بن حارثہ ؓ
۳۔ سیدنا عثمان ؓ کو سید نا عبد الرحمن بن عوف
۴۔ سیدنا زبیر بن العوامؓ کو سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ
۵۔ سیدنا عبیدہ بن الحارثؓ کو سیدنا بلال بن رباح
۶۔ سیدنا مصعب بن عمیر کو سیدنا سعد بن ابی وقاص
۷۔ سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح کو سیدنا سالم مولا ابی حزیفہ
۸۔ سیدنا سعید بن زید کو سیدنا طلحہ بن عبیداللہ
۹۔سیدنا و مولانا محمد رسول ﷺکو سیدنا علی بن ابی طالب ۔ حضرت ابو بکرؓ کو خارجہ بن عرید، عمر کو عتبہ بن مالک اور زبیر کو سلمہ بن سلامہ کا بھائی بنایا۔
مواخات مکی:
شبہ کا ازالہ:بعض روایات میں ہے کہ مدینہ میں رسول اللہ ﷺنے علی ابن ابو طالب ؓکا ہاتھ پکڑا اور فرمایا یہ میرا بھائی ہے۔ حکیم محمود احمد ظفر ( امیر المومنین سیدنا علی) ابن سعد کے حوالہ سے لکھتا ہے کہ رسول اللہ نے علی ابن طالب اور سھل بن حنیف کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا تھا۔جن روایات میں ایسا آتا ہے کہ آپؐ نے حضرت علیؓ کو مدینہ مواخات میں اپنا بھائی بنایا تھا وہ روایات ، روایت و درایت کے لحاظ سے صحیح نہیں ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مدنی مواخات مہاجرین و انصار کے درمیان کی گئی تھی تا کہ مہاجرین کی گزر بسر کا انتظام ہو سکے۔ مہاجرین ان کے ساتھ کام کریں گے ۔انصار اپنے بھائیوں کا ہاتھ بٹائیں گے۔لیکن آپؐ اور حضرت علی دونوں مہاجر ہیں اور اخوت کا رشتہ مہاجرین و انصار کے درمیان تھا۔مہاجر کا مہاجر سے رشتہ اخوت جوڑنا روح مواخات مدینہ کے خلاف ہے۔مکی مواخات میں بھائی بنانا درست بنتا ہے۔ مواخات مدینہ میں ارباب اسیر نے نوے یعنی ۴۵ انصار اور ۴۵ مہاجرین تعداد لکھی ہے مگر ابن سعد اس تعداد کو بتا کر یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی تعدادسو تھی یعنی پچاس مہاجرین اور پچاس انصار ، مگر محمد ابن حبیب کتاب المجر میں ۵۵ کے نام بڑی وضاحت سے لکھے ہیں اس سلسلہ میں چند وضاحتیں کر دینا ضروری ہیں۔
۱۔ مکہ سے ہجرت کر آنے والے صحابہ کرام ؓ کی کل تعداد تقریباََ ڈیڑھ سو ہے لیکن مواخات ۴۵ یا پچاس کے درمیان ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے ۔
(الف)مواخات ان لوگوں کے درمیان کرائی گئی جو مکہ سے ہجرت کر کے آئے تھے ۔ اتفاق سے ان کے نام وغیرہ کو مورخین نے نقل و محفوظ نہ کیا ۔
(ب) مواخات صرف انہی مہاجرین و انصار کے درمیان ہوئی جو حضرت انس بن مالک ؓ کے گھر میں موجود تھے اور جو وہاں موجود نہیں تھے ان کی مواخات نہیں کرائی گئی ۔
(ج) یہ مواخات کا پہلا مرحلہ تھا ممکن ہے بعد میں باقی بچے کھچے مہاجرین و انصار کے درمیان بھی مواخات کر ا دی جاتی مگر شاید پھر مسجد نبوی کی تکمیل اور میثاق مدینہ کی تسوید کے بعد ضرورت نہ سمجھی گئی ہو اس لیے کہ مسجد نبوی میں ۔۔۔۔ مرکزیت پیدا کرنے کے سلسلہ میں انتہائی اہم اور موثر کردار ادا کیا ۔ اسی طرح میثاق مدینہ میں رہنے والے تمام عناصر کے درمیان حقوق و فرائض کا تعین ہو گیا یا پھر یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ حضور ﷺ اور صحابہ ؓ کی غزوات و سرایا میں مصروفیات نے اس کا موقعہ نہ دیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ انما المو منون الخوۃ کی اصولی ہدایت کے بعد نام بنام رشتہ اخوت استوار کرنے کی حاجت باقی نہ رہ گئی ہو ۔
(۲) دوسری وضاحت یہ کرنا ہے کہ حضور ﷺ کے ہاتھوں اس رشتہ میں منسلک ہونے والے مہاجرین و انصار کے ناموں میں اختلافات اور رشتوں میں فرق بھی پایا جاتا ہے مگر تاریخ اسلامی کے بیشتر ماخذوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم نہ صرف یہ کہ بعض ناموں کا اضافہ کر سکتے ہیں بلکہ مہاجرین و انصار کی فہرست کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں یعنی ! پہلے حصہ میں ان صحابہ کے نام آتے ہیں جن کی مواخات کے بارے میں اتفاق ہے ۔ اس فہرست میں انچاس مہاجرین اور انچاس انصار کے نام ہیں ۔
(ب) دوسرے حصہ میں ایسے صحابہ ؓ شامل ہیں جن کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں یہ کل چودہ صحابہ ہیں ۔ اب سب سے پہلے ہمیں پہلے حصہ کو دیکھنا ہے جس سے ہماری بحث مقصود ہے ۔ پہلے حصہ میں ان صحابہ کرام ؓ کے مکمل اسماء درج ذیل ہیں ۔
نمبر شمار مہاجرین مواخاۃ ہمراہ انصار
۱۔ حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد حضرت سعد بن خیثمہؓ
۲۔ عامر بن ربیعہ یزید بن المنذر بن سرحؓ
۳۔ عبداللہ بن جحش الاسدی عاصم بن ثابت بن ابی الافلحؓ
۴۔ محرزبن نضلہؓ عمارہ بن حزمؓ
۵۔ زید بن خطاب ؓ معن بن عدیؓ
۶۔ خنیس بن حزافہ ؓ ابو عبس بن جبیرؓ
۷۔ واقد بن عبداللہ التمیمی بشر بن براء بن معرورؓ
۸۔ ایاس بن ابی البکیر حارث بن خزیمہؓ
۹۔ عاقل بن ابی البکیر مجذزبن زیادؓ
۱۰۔ خالد بن ابی البکیرؓ یزید بن دثنہؓ
۱۱۔ عامر بن ابی البکیرؓ ثابت بن قیس بن شماسؓ
۱۲۔ ابو مرثد الغنویؓ عبادہ بن صامتؓ
۱۳۔ مرثد بن الغنویؓ اوس بن الصامت ؓ
۱۴۔ عبیدہ بن حارثؓ عمیر بن الحمام السلمیؓ
۱۵۔ حصین بن حارث بن المطلب رافع بن عنجدہؓ
۱۶۔ طلیب بن عمیر بن وہبؓ منذر بن عمرو خزرجی ؓ
۱۷۔ ابو سبرۃ بن ابی رہم سلمہ بن سلامہ بن وقشؓ
۱۸۔ مصعب بن عمیر ؓ ابو ایوب انصاریؓ
۱۹۔ ابو حزیفہ بن عتبہ ؓ عباد بن بشرؓ
۲۰۔ سالم بن مولیٰ ابی حزیفہؓ معاذ بن ماعصانصاریؓ
۲۱۔ عتبہ بن غزوان بن جابرؓ ابو دجانہ سماک بن خرشہؓ
۲۲۔ عثمان بن عفانؓ اوس بن ثابت ؓ
۲۳۔ ابو بکر صدیق ؓ خارجہ بن زید بن ابی زہیرؓ
۲۴۔ زید بن حارثہ ؓ اُسید بن حضیرؓ
۲۵۔ عبدالرحمن بن عوفؓ سعد بن ربیعؓ
۲۶۔ عمار بن یاسر حزیفہ بن الیمانؓ
۲۷۔ بلال حبشی مکی ؓ ابو رویحہ عبداللہ بن عبدالرحمن
۲۸۔ شجاع بن واہب اسدیؓ اوس بن خولی ؓ
۲۹۔ سعد مولیٰ عتبہ ؓ تمیم مولیٰ خراشؓ
۳۰۔ عبداللہ بن مسعود ؓ معاذ بن جبلؓ
۳۱۔ عمیر بن عمرو بن نضلہ یزید بن حارثؓ
۳۲۔ مقداد بن عمرو کندیؓ جبیر بن عتیک ؓ
۳۳۔ عمیر بن ابی وقاصؓ عمرو بن معاذ ؓ
۳۴۔ مسعو د بن ربیع القاریؓ عبید بن التیحانؓ
۳۵۔ عامر بن فہیرہؓ حارث بن اوس بن معاذؓ
۳۶۔ شماس بن عثمان ؓ حنظلہ بن ابی عامرؓ
۳۷۔ ارقم بن ابی الارقم مخزومیؓ ابو طلحہ زید بن سہل انصاریؓ
۳۸۔ معتب بن حمراء الخزاعیؓ ثعلبہ بن حاطبؓ
۳۹۔ عبداللہ بن مظعون ؓ سہل بن عبید بن المعلیؓ
۴۰۔ سائب بن عثمان جمحیؓ حارثہ بن سراقہؓ
۴۱۔ معمر بن الحارث ؓ معاذ بن عفرائؓ
۴۲۔ عبداللہ بن مخرمہ بن عبد العزی فروۃ بن عمرو بیاضیؓ
۴۳۔ وہب بن سعد بن ابی سرحؓ سوید بن عمرو ؓ
۴۴۔ صفوان بن بیضاء ؓ رافع بن المعلیؓ
۴۵۔ حویصہ ابو سعید خدریؓ
۴۶۔ مقداد بن اسد کندی عبداللہ بن رواحہؓ
۴۷۔ مسطح بن اثاثہ ؓ زید بن المزینؓ
۴۸۔ مہجع مولیٰ عمرؓ سراقہ بن عمرو بن عطیہؓ
۴۹۔ صہیب بن سنان رومیؓ حارث بن القمہؓ
مذکورہ فہرست میں ایک نام شامل نہیں ہے جس سے تشویش پیدا ہوتی ہے کیونکہ اس نام کو عام طور پر شامل کیا جاتا ہے یعنی خود حضور ﷺ کی ذات مبارکہ ، جن کا عقد مواخات مشہور روایات کے مطابق آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے قائم فرمایا تھا۔ ابن ہشام نے یہی لکھا ہے لیکن ابن سعد اور دوسرے مورخین اس رشتہ کو تسلیم نہیں کرتے اور وہ حضرت علیؓ کی مواخات بجائے نبی ﷺ کے حضرت سہل بن حنیف سے قرار دیتے ہیں ۔علامہ ابن کثیر اور بقول امام زرقانی ، علامہ ابن تیمیہ نے بھی اس مواخات کا انکار کیا ہے اور یہاں تک دعویٰ کر دیا ہے کہ ۔انذلک من الاکا ذیب وانہ لم یواخ بین مہاجری ومہاجری ، اسی طرح سے بعض دوسروں نے مواخات کی اغراض و مقاصد ، مصلحتوں اور خواص کے پیش نظر اسے رد کر دیا ہے اور علامہ ابن قیم نے بطرز مناظرہ یہ بحث اصولی طور پر کی ہے کہ اول تو ایک مہاجر سے دوسرے مہاجر کی مواخات ہی نہ قابل قبول ہے اور دوسرا یہ کہ اگر نبی ﷺ مہاجرین میں سے بھی کسی کو اپنا بھائی بناتے تو تمام لوگوں سے زیادہ تو اس کے مستحق حضرت ابو بکر ؓ تھے ۔ حضورؐ کے محبوب ترین ساتھی ، رفیق ہجرت ، انیس غار دیگر تمام صحابہ سے افضل و اکرم ہے اور جن کے بارے میں آپ ﷺ یہ فرما چکے تھے کہ ’’ دنیا والوں میں سے اگر کسی کو اپنا دوست بناتا تو ابو بکر ؓ کو بناتا مگر یہ کہ اسلامی اخوت سب سے بہتر ہے ‘‘ غرض ان دلائل کے پیش نظر جو خاصے وزنی اور قوی ہیں ۔ مدینہ میں حضور ﷺ اور حضرت علی ؓ کی مواخات نا قابل فہم معلوم ہوتی ہے ۔ اصل میں مورخین کو اس رشتہ مواخات میں التباس ہو گیا ہے اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ حضور اور حضرت علی ؓ کے درمیان مواخات یقیناََ ہوئی ہے مگر مکہ میں نہ کہ مدینہ میں ۔ یہ بات درست ہے کہ حضرت علیؓ کی مواخات حضور ﷺ سے نہیں بلکہ حضرت سہل بن حنیف ؓ سے قائم کی گئی تھی اور حضرت علیؓ کی یہ مواخات اس عمل کومستلزم نہیں ہے کہ اب نبی ﷺؑ کا بھی رشتہ مواخات متعین طور پر کسی نہ کسی انصاری سے ضرور جوڑا جائے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ دوسرے بہت سے مہاجرین کی طرح ( اگر مواخات میں شرکاء کی تعداد اور کیفیت روایتی طور پر ۴۵ یا ۵۰ تسلیم کر لی جائے )حضور ﷺ کی بھی کسی سے مواخات نہیں ہوئی ۔ دوسرا یہ کہ حضور ﷺ تمام انصار سے بحیثیت مجموعی بیعت عقبہ کبیرہ یہ کہہ چکے تھے کہ تمہارا خون میرا خون ، تمہاری جان میری جان ہے تم اطمینان رکھو جس سے تم لڑو گے اس سے میں لڑوں گا اور جس سے تم صلح کرو گے اس سے میں بھی صلح کروں گا ، تمہارا ذمہ میرا ذمہ ہے اور تمہاری حرمت میری حرمت ، میرا جینا اور مرنا تمہارے ساتھ ہو گا ۔ تو پھر ظاہر ہے کہ دوبارہ انفرادی طور پر کسی انصاری سے رشتہ اخوت قائم کرنا محض ایک تکلف اور غیر ضروری امر ہوتا نیز اگر حضور ﷺ کسی ایک انصاری سے بھی مواخات کر لیتے تو شائد یہ عقد دوسرے انصار کی دل شکنی کا باعث بنتا علاوہ ازیں آپ ﷺ کی نبوت کی انفرادیت کا تقاضہ یہی تھا کہ آپ ﷺ کسی ایک سے وابستہ ہونے کی بجائے سب سے وابستہ رہیں ۔
غلطی کیسے در آئی؟ وہ یوں کہ مکی مواخات میں آپؐ نے حضرت علی ؓ کو اپنا بھائی بنایا تھا جس کو کئی سیرت نگاروں نے تحقیق کے بغیر مواخات مدینہ پر محمول کر دیا جو غلط ہے اور مقصد مواخات مدینہ کے بالکل خلاف ہے جس کے تحت یہ بھائی چارہ قائم ہوا تھا۔( تفصیل کے لیے بدایہ والنہایہ کا مطالعہ فرمائیں)
صاحب مدارج النبوۃ کی تقریر:مواخات مدینہ کا رشتہ ۴۵۔۴۵ اور ایک قول ۵۰۔۵۰ انصار و مہاجرین کے درمیان جوڑا گیا تھا۔ عقد مواخات باہمی یگانگت اور حق توارث میں مر بوط کرنا تھا۔یہ سب آیت کریمہ ’’ اُولُو الاَرحَامِ بَعضُھُم اَولٰی بِبَعضِ فیِ کِتٰبِ اللہ‘‘ (انفال۔۷۵) (رحمی رشتے والے،اللہ کے فرائض میں ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہیں) کے نازل ہونے سے پہلے تھا۔اس آیت کریمہ کے نازل ہونے کے بعد عقد مواخات منسوخ ہو گئی۔ سابق ذکر کردہ روایت کہ مدینہ میں آپؐ نے علی ؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا’’ یہ میرا بھائی ہے‘‘ کے متعلق مدارج النبوۃ ص۔۱۰۳۔۱ پر روضۃ الاحباب میں شیخ ابن حجرسے اور فتح الباری میں ابن عبد البر سے منقول ہے کہ ایک مواخات اور ہے جو مہاجرین کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ عقد باندھتے ہیں مخصوص ہے ۔ چنانچہ ابوبکرؓ، عمرؓ اور حضرت طلحہؓ و زبیرؓ اور عثمانؓ و عبد الرحمن بن عوفؓ کے درمیان عقد مواخات باندھا گیا تھا۔ اس پر حضرت علی ؓ نے عرض کی یا رسول اللہ! آپؐ نے صحابہ کے درمیان تو برادری کا رشتہ باندھ دیا اور مجھے تنہا چھوڑ دیا۔میرا بھائی کون ہے؟ حضور ؐ نے فرمایا! تمھارا بھائی میں ہوں اور فرمایا ’’ اَنتَ اَخِیُ فِی الدُّنیاَ وَالآ خِرَۃِ‘‘۔( تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مدینہ مواخات میں علیؓ کو بھائی نہیں بنایا تھا بل کہ اس سے پہلے مواخات جو مواخات مکہ ہوا تھا‘ اس میں علی کو بھائی بنایا تھا۔
اخوت کی حکمت اور منسوخی: علامہ سید احمد دھلان ( السیرۃ النبویہ۔۱۔۴۱۷) بہ حوالہ امام سہیلی لکھتے ہیں کہ ’’ اس اخوت کا مقصد یہ تھا تا کہ مہاجرین کی اجنبیت دور ہو سکے۔ اہل و عیال کی جدائی اور فراق برداشت کرنا آسان ہو سکے اور مہاجرین و انصار ایک دوسرے کے کام آسکیں۔جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت و عطیہ فرمایا اور اجنبیت ختم ہو گئی اور وراثت کے قوانین سے مواخات منسوخ ہو گیا تو سارے اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی بن گئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔’’ اِنَّماَ المُومِنُونُ اِخوَۃُ‘‘ ( الحجرات۔۱۰) ترجمہ : بے شک اہل ایمان بھائی بھائی ہیں۔ کچھ مہاجرین کا بھائی چارہ بھی قائم کیا گیا تھاجس طرح حضرت حمزہ اور حضرت زید بن حارث کے درمیان قائم کیا تھا۔یہ دونوں مہاجر تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے مہاجرین جن کی مالی حالت خوب تھی ان کے ساتھ غریب مہاجرین کو جوڑ دیا اور ہو سکتا ہے کہ اب انصار میں مہاجرین کو سنبھالا دینے والے نہ رہے ہوں ۔تب یہ نوبت آئی۔
آپؐ نے حضرت علی کو بھائی کیوں بنایا:اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حضرت علیؓ آپؐ کے رشتہ میں بھائی لگتے تھے ( یعنی چچا زاد بھائی) دوسری وجہ یہ کہ آپؐ اگر کسی اور مسلمان کو بھائی بناتے جو رشتہ دار نہ ہوتا یعنی رشتہ داری کے ناطے سے تو آئندہ طرح طرح کی مشکلات جدیدہ پیدا ہونے کا احتمال تھا۔( رحمۃ اللعالمین جلد اول۔۱۹۸)
اُم معبد کے ہاں
ہجرت کا مختصر قافلہ قدید کے مقام سے گزرا۔اس جگہ حضرت ام معبد عاتکہ بنت خالد خزاعیہ کا خیمہ تھا۔یہ خاتون بڑی مہمان نواز تھی۔ ان کی قوم قحط کا شکار تھی۔ہجرت کی مقدس ہستیوں نے ان سے گوشت ،دودھ یا کھجور طلب کی تا کہ قیمتاََ خرید لیں لیکن ام معبد کے پاس کچھ نہ تھا۔ایک بکری ریوڑ کے ساتھ چرنے سے رہ گئی تھی کیوں کہ وہ لاغر کم زور تھی۔اس کی کھیری میں دودھ نہ تھا۔آپؐ نے فرمایا تم اجازت دیتی ہو کہ ہم اس کا دودھ نکال لیں؟ ام معبد نے کہا نکال سکتے ہیں تو نکال لیجئے۔اللہ تعالیٰ کا نام لیا تھنوںکو دست مبارک سے مس کیا تو تھنوں میں دودھ اتر آیا۔ آپؐ نے برتن طلب فرمایا۔آپؐ نے اس میں دودھ نکالا تو سب سے پہلے ام معبد کو پلایا۔پھر دیگر مسافروں کو حتیٰ کہ سارے سیراب ہو گئے‘ سب سے آخر میں خود نوش فرمایا اور فرمایا ’’ قوم کو پلانے والا سب سے آخر میں پیتا ہے‘‘۔ ( السیرۃ النبویہ۔ علامہ دھلان۔۳۹۵) پھر دوسری مرتبہ بکری کو دوہا اور دوسری مرتبہ پلایا۔پھر تیسری مرتبہ دوہا اور وہ ام معبد کے خاندان کے لیے چھوڑ دیا۔
اعتراض نمبر ۲۳۵
ماہر حیوانات اسے نہیں مانتے کہ ایک لاغر و کم زور بکری اتنا دودھ دے کہ چار آدمی سیر ہوں اور پھر دوہا اور برتن بھر کر ام معبد کو دیا‘‘۔
جواب:ہجرت مدینہ کے دوران ام معبد کے خیمہ میں سستانے لگے۔خیمہ کے ایک کونے میں لاغر اور کم زور سی بکری تھی جو ریوڑ کے ساتھ چرنے سے لاغری کی وجہ سے رہ گئی تھی۔آپؐ نے ام معبد سے اس کا دودھ نکالنے کی اجازت طلب کی۔اجازت لے کر دوہا۔اپنے میزبان کو پلایا( ام معبد) پھر ساتھیوں کو پلایا بعد میں خود نوش فرمایا۔تمام لوگ سیر ہو گئے۔پھر دوہا اور برتن بھر کر ام معبد کے خاندان کے لیے دے دیا۔ یہ اعجاز نبوت ہے اور ایسے معجزات انبیاء سے وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ماہرین کی عقل میں یہ آنے والی بات نہیں بل کہ اکثریت اہل علم کی دیگر ہستیوں کے ایسے محیر العقول واقعات تسلیم کرتے ہیں۔ نیز ایسے واقعات کا قرآنی آیات شہادت دیتی ہیں مثلاََ من و سلویٰ جو صحرا میں قوم بنی اسرائیل کی خورو نوش کا سامان بنا۔من و سلویٰ کا ذکر قرآن میں آتا ہے۔’’ وَاَنزَلناَ عَلَیکُم المَنَّ وَ السَّلوَیٰ‘‘ ’’ اور ہم نے اتارا من و سلویٰ‘‘ اور عصائے کلیمی کی ضرب سے پتھر سے بارہ چشمے پھوٹے جس سے ایک مدت تک بنی اسرائیل کی قوم سیراب ہوتی رہی۔ ’’وَاِذاِستَسقیٰ موسٰی لقومہٖ فقلنا اضرب بعَصَاکَ الحَجَرَ فَانفَجَرَت مِنہُ اثنَتَا عِشرِۃَ عَیناََ‘‘ ( البقرہ۔۶۰)
ترجمہ: اور یاد کرو جب پانی کی دعا مانگی موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے تو ہم نے فرمایا ،مارو اپنا عصا فلاں چٹان پر تو فوراََ بہہ نکلے اس چٹان سے بارہ چشمے‘‘۔
حضرت عیسیٰ ؑ مادرزاد اندھوں اور کوڑھیوں کو تن درست کر دیتے تھے بہ فضل تعالیٰ۔ ہم مانتے ہیں۔ہمارا ایمان ہے۔یہ واقعات سچے اور سُچے ہیں ۔اللہ تعالیٰ اپنے بر گزیدہ بندوں کو ایسے انعامات سے سرفراز فرماتا ہے۔سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ اپنے پیغمبروں کے معجزات کو تسلیم کرتے ہیں اور ببانگ دہل ان کا اعلان اور تذکرہ کرتے ہیں لیکن رسول مقبول ؐ کے معجزات کی بات ہوتی ہے تو علم و عقل‘ تجربات و مشاہدات کو آڑ بنا کر صاف مکر جاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ انبیاء سے ایسے معجزات کا صادر ہونے میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔ یہ معجزات مبنی بر حق ہیں۔ماہر حیوانات روشن خیال عقل کے پجاری لوگوں کی بات ناقابل تسلیم ہے۔
حضرت حلیمہ سعدیہؓ کی اونٹنی اور بکریاں بھی دودھ کا قطرہ تک نہیں رکھتیں مگر حضورؐ کے نزول اجلال سے ایسی برکتیں نازل ہوئیں کہ دوسرے لوگوں کو کہنا پڑا کہ اپنے مال مویشی وہاں چرایا کرو جہاں سعدیہؓ کی بکریاں چرتی ہیں۔ مگر اس جگہ چرانے سے کیا فائدہ؟ ایمان والے سمجھتے ہیں کہ یہ سب بر کتیں تو سرکار دو عالم ﷺکے دم قدم سے تھیں۔
تم جہاں پیار سے قدم رکھ دو
وہ زمیں آسمان ہوتی ہے
ماہر حیوانات تسلیم نہیں کرتے کہ لاغر اور کمزور بکری کیسے چار آدمیوں کو سیر ہو نے کا دودھ مہیا کر سکتی ہے اور دوسری بار دوہنے سے برتن بھر گیا ہو ؟ وہ کم از کم چار پانچ افراد کی شہادت تھی کہ بکری کا دودھ اتنا دوہا گیا کہ مہمان و میزبان سیر ہو گئے لیکن اس کی گواہی تو ان گنت افراد نے دی ہو گی کیونکہ بکری کافی عرصہ بعد تک زندہ رہی ۔ابن الجوزی ( الوفا۔۲۹۶) لکھتے ہیں کہ ’’ وہ بکری جس کے تھنوں کو رسول اللہ ﷺ نے دست مبارک سے مس کیا تھا اس کی عمر میں وہ برکت پیدا ہوئی کہ وہ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں رونما ہونے والے قحظ جس کو ’’ عام افادہ ‘‘ کہا جاتا تھا یعنی ہجرت کے بعد اٹھارہ سال تک صحیح و سالم رہی اور ہم اس زمانہ میں بھی اس کو صبح وشام دوہا کرتے اور اس کے دودھ سے سیراب ہوا کرتے تھے جبکہ زمین میں جانوروں کو کوئی شے کھانے کی ملتی ہی نہیں تھی اس سے بھی شائد ماہرین حیوانات انکار کریں اور اتنا ہی کہہ دیں کہ جانوروں کی اتنی طویل عمر کیسے ہو سکتی ہے ؟ اور درج ذیل واقعہ سے بھی مکر جائیں وہ یہ ہے کہ ایک درخت جو راہب کے صومعہ کے پاس تھا اس کے نیچے سوائے نبی کے کوئی نہیں بیٹھے گا ، صدیوں تک وہ درخت موجود رہا اگرچہ اس کی شاخیں خشک ہو گئیں اور پتے جھڑ گئے آخر کار جب نبی آخر الزماں ﷺ تشریف لائے اس شجر تلے تشریف فرما ہوئے تو وہ ازسر نو برگ و بار سے لہلا اٹھا تو کیا ایک بکری جسے آپ ﷺ کے دست مبارک نے مس کیا تھا وہ اتنا دودھ دے سکتی ہے اور نہ ہی اتنی طویل عمر پا سکتی ہے ؟
اعتراض نمبر ۲۳۶
بعض کہتے ہیں کہ مکی دور میں ایمان و کفر کی واضح اجتماعیت سامنے نہیں آئی تھی۔ (نقوش۵۔۷۳)
جواب:قرآن مجید میں ہجرت سے قبل جو سورتیں مکہ میں نازل ہوئیں ان میں دو گروہوں کی واضح نشان دہی موجود ہے ۔اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ مکی دور میں ایمان و کفر کی واضح اجتماعیت سامنے نہیں آئی تھی۔ مکی سورتوں میں متعدد فقرے اور الفاظ سے اہل ایمان اور کفر میں امتیاز موجود ہے۔بل کہ ان ہر دو کی خصوصیات بھی بتائی گئی ہیں۔ حضرت جعفرؓ کی شاہ حبش کے دربار میں تقریر سے بھی صاف نظر آتا ہے کہ صاحبان ایمان کا ایک گروہ جاہلی معاشرہ میں پیدا ہو گیا تھا۔
اجتماعیت کی دلیل میں نیا معاشرہ حسب و نسب،نسل و وطن،زبان و لسان اور جاہلی عزت و وقار اور دیگر امتیازات و تعصبات سے پاک بنیادوں پر قائم ہوا جس کی اساس ایمان پر قائم ہے۔اس سلسلہ میں ایک اور اہم قدم اٹھایا کہ بالکل ابتدائی مکی دور میں ایمان والوں کے درمیان ایک عقد مواخات قائم کیا جو اس وقت ایمان لا چکے تھے۔ یہ پہلی مواخات ہے۔ چند ایک نام یہ ہیں
۱: رسول اللہ اور حضرت علیؓ کے درمیان۔
۲: حضرت حمزہ ؓاور زید بن حارثؓ۔
۳: حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ۔
۴:حضرت عثمانؓ اور عبد الرحمن بن عوفؓ۔
۵: حضرت زبیرؓ اور عبد اللہ بن مسعودؓ۔
۶: معصب بن عمیر ؓاور سعد ابی وقاصؓ۔
۷: ابو عبیدہ بن الجراحؓ اور سالم بن ابی حذیفہؓ۔
۸:حضرت سعید بن زیدؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ۔یہی فہرست ابن سید الناسؓ نے بھی نقل کی ہے۔البتہ زرقانی المواہب میں ہے کہ زبیرؓ اور طلحہؓ کے درمیان مواخات ہوئی اور بھی مسلمان تھے جن کے درمیان عقد مواخات ہوئی تھی۔
کہاں مواخات ہوئی:اس کا ذکر مورخین نے نہیں کیا لیکن یہ بالکل واضح ہے کہ اس کا انعقاد یقیناََ دار ارقم میں ہوا ہوگا۔ اس لیے کہ مذکور ہے کہ صحابہ میں سے عمرؓ،حمزہؓ،معصب بن عمیرؓ اس وقت ایمان لائے جب آپ دار ارقم میں موجود تھے۔اس مواخات سے اجتماعیت کو فروغ حاصل ہوا ۔
فوائد:۱:اس مواخات کے ذریعے ایک آدمی کو دوسرے کا بھائی محض دین و ایمان کی بنیاد پر اور بغیر کسی ذاتی یا نفسیاتی غرض و غایت کے، صرف اللہ کی خاطر بنایا گیا۔ ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ ایک نسل اور دوسری نسل اور ایک رنگ دوسرے رنگ پر اللہ کا رنگ غالب آگیا اور اللہ کے رنگ سے بہتر بھلا کون سا رنگ ہے۔
۲: اس مواخات کے ذریعے رسول اللہﷺ نے اپنے تمام دعوئوں کو قانونی شکل دے دی اور عملاََاس بات کا ثبوت ہے کہ ایمان کی اساس پر بننے والا معاشرہ سب سے الگ ہے اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جاہلی معاشرہ کی تمام اقدار کو پامال کرتے ہوئے حضرت حمزہؓ کا بھائی آزاد کردہ غلام زید بن حارثؓ، ابو عبیدہ کو سالم مولیٰؓ اور عبیدہ بن حارثؓ کو بلال ؓکا بھائی بنایا جاتا ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ پستی و بلندی، شرافت و ذلت اور خوب نا خوب کے پیمانے بدل گئے۔ سب نے دیکھا کہ دین کے رشتہ میں بندھنے والے افراد متضاد معاشرتی منصب کے مالک تھے۔ مگر اخوت کے نظم میں مساوی طور پر پرو دیے گئے ۔ مواخات نے سب کو ایک سطح پر لا کھڑا کیا۔
۳: اس اخوت و مساوات کے نتیجہ میں اصولی طور پر ایک جدید سیاسی مجتمع ممتاز و ممیز ہو گیا۔
۴: مواخات نے مکہ کے ہمت شکن حالات میں اہل ایمان کو ایک دوسرے کے نفع و نقصان رنج و غم اور خوشی و مسرت میں برابر کا شریک قرار دیا اور حالات کے مقابلہ کا انفرادی اور اجتماعی حوصلہ بخشا۔
مختصر یہ کہ مندرجہ بالا اقدامات کے ذریعہ رسول اللہ ﷺنے اولاََ مکہ میں تمام صاحبان ایمان کی ایک وحدت بنائی۔ ( نقوش۔۵۔ ۷۴۔۷۳)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...