Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم |
حسنِ ادب
سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم

تحویل قبلہ
ARI Id

1689956752314_56117775

Access

Open/Free Access

Pages

۳۱۹

تحویل قبلہ:
تحویل کعبہ کی وجہ:آنحضرتؐ نے سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف نماز ادا کی لیکن جب اسلام پھیلا تو اب کوئی وجہ جواز نہ تھی کہ اصل قبلہ کو چھوڑ کر دوسری طرف رخ کر کے نماز پڑھی جاتی۔ اس پر یہ آیت اتری۔’’ فَوَلَّ وَجھَکَ شَطرالمسجدَ الحَرَامِ وَحَیثُ مَا کُنتُم فَوَلُّوا وَجُوھَکُم شَطرَہَ‘‘ ( البقرہ۔۱۴۴)’’ تو اپنا منھ مسجد الحرام کی طرف پھیرو اور جہاں کہیں رہو اسی طرح منھ پھیرو‘‘۔ اس پر یہودیوں کو دکھ ہوا اور غصہ میں لال ہو رہے تھے۔ اب تک قبلہ بیت المقدس تھا وہ فخر کرتے تھے۔ اب وہ فخر زمین بوس ہو گیا۔ اس پر انھوں نے طعن شروع کیا کہ پیغمبر اسلامﷺ ہر بات میں ہمارا مخالف ہے اس لیے قبلہ بدل لیا یا ان کو اس سے پھیر دیا؟ اس قسم کے دیگر اٹھنے والے سوالات کا جواب قرآن کریم نے فرمایا( بقرہ۔۱۴۲) ترجمہ: سفہا یہ اعتراض کریں گے کہ مسلمانوں کا جو قبلہ تھا اس سے ان کو کس نے پھیر دیا۔کہہ دو کہ مشرق و مغرب سب خدا ہی کا ہے‘‘ ’’ قل للہ المشرق و المغرب‘‘ قرآن کریم نے ایک اور وجہ بتائی’’ تیرا جو قبلہ پہلے تھا اس کو جو ہم نے پھر قبلہ کر دیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ معلوم ہو جائے کہ پیغمبر کا پیرو کون ہے اور پیچھے پھر جانے والا کون ہے؟ اور بے شبہ یہ قبلہ نہایت گراں اور ناگوار ہے بہ جز ان لوگوں کے جن کو خدا نے ہدایت کی ہے‘‘۔ بہت سے یہودی منافقانہ انداز اپنائے ہوئے تھے۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ نماز بھی پڑھتے لیکن اندر سے مسلمانوں کے دشمن تھے۔ جب تحویل قبلہ ہوا تو منافقت طشت ازبام ہو گئی۔کوئی یہودی کسی طرح گوارا نہیں کر سکتا تھا کہ جو چیز اس کی قومیت، مذہب بلکہ اس کی ہستی کی بنیاد ہے ( یعنی بیت المقدس) سے رشتہ توڑ کر مسلمانوں کے قبلہ کو قبول کر لے۔
ایک اور وجہ کی نشان دہی یوں ہے ارشاد ربانی ہے’’ پورب پچھم رخ کرنا یہ کوئی ثواب کی بات نہیں ثواب تو یہ ہے کہ آدمی خدا پر، قیامت پر، ملائکہ پر،خدا کی کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے اور خدا کی محبت میں عزیزوں ،یتیموں ،مسافروں اور غلاموں کو ( آزاد کرانے میں ) اپنی دولت دے‘‘۔ بہ قول شبلی نعمانی ان آیات سے خدا نے بتایا کہ قبلہ خود کوئی مقصود بالذات چیز نہیں۔خدا کی عبادت کے لیے پورب پچھم سب برابر ہیں۔خدا ہر جگہ ہے ہر سمت ہے ہر طرف ہے پھر قبلہ کے تعین کی ضرورت بتائی کہ وہ اختصاصی شعار ہے اور اصلی نمایشی مسلمانوں کو الگ کر دیتا ہے۔( ش۔۱۸۳)
حکمتیں : اول : یہ کہ لوگو ں کو معلوم ہوگا کہ مسلمان اصول کے پابند ہیں دنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں اپنے ہی قبلہ کی طرف منہ کر کے عبادت کرتے ہیں ۔
دوم: یہ کہ نیا قبلہ سے مسلمانوں کو امتیازی حیثیت حاصل ہو گی اور یہود و نصاریٰ جان لیں گے کہ مسلمان دین ابراہیمی کے پیروکار ہیں ۔
سوم: مسلمانوں کے دل سے خوف دور ہو گا اور ان کے مظالم کا عہد انجام پذیر ہو جائے گا بلکہ ظالموں کو مقابلے کی ہمت نہ ہوگی ۔اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل اعتماد پیدا ہو گا جس سے غیر اللہ کے خوف و خطر سے بے نیاز ہو جائیں گے ۔
چہارم: تحویل قبلہ سے مسلمانوں پر نعمت الہیٰ کا دروازہ کھل جائے گا اور وہ ہدایت و کامرانی سے سرفراز ہو ں گے ۔
پنجم : بنی اسرائیل سے منصب رسالت و نبوت آل اسماعیل کی طرف منتقل ہو گئی ۔ اقوام عالم کی تعلیم و ہدایت کا منصب رہتی دنیا تک اس کے سپرد ہو گا قدرتی طور پر امت کاایک مرکز ہدایت ہونا چاہیے تھا جو کعبۃاللہ ہی ہو سکتا تھا چنانچہ تحویل قبلہ نے اس مرکزیت اعلان کر دیا جو سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۴۴۔۱۴۳سے صاف ظاہر ہے ۔
ششم : ہر معاملہ میں امت وسط بنایا۔ وسط یعنی ہر چیز کا درمیانی حصہ ہی اس کا عمدہ ترین حصہ ہوا کرتا ہے اور انسان کی زندگی کا درمیانی حصہ ’’ عہد شباب ‘‘ اس کی زندگی کا بہترین وقت ہے ۔ دن کے درمیانی حصہ دوپہر میں روشنی اپنے عروج پر ہوتی ہے اسی طرح اخلاق میں درمیانی راہ قابل تعریف ہوتی ہے ۔بخل اور فضول خرچی کی درمیانی حالت کو سخاوت بزدلی اور طیش کے درمیانی حال کو شجاعت کہتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو اس عظیم کتاب سے سرفراز فرمایا ۔
ہفتم: ایک حکمت یہ ہے کہ میرے نبی ﷺ کی بے چوں و چرا ، اطاعت کرتے ہیں ان لوگوں سے ممتاز اور علیحدہ ہوجائیں جو بات بات پر اعتراض کرنے اور اپنی عقل کی سند حاصل کرنے کے خوگر ہیں ۔
آنحضرت ؐ کا معمول تھا کہ جس بارے میں حکم الہٰی نازل نہ ہوا ہوتا اس پر اہل کتاب سے موافقت فرماتے تھے۔ آغاز نبوت میں ہی نماز فرض ہو چکی تھی لیکن قبلہ کے متعلق حکم تا ہنوز نازل نہیں ہوا تھا۔ اس طرح مکہ کے تیرہ سال اور مدینہ میں ۱۶۔۱۷ ماہ تک بیت المقدس کو قبلہ بنائے رکھا۔ حال آنکہ آپؐ کا منشا ء یہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے قبلہ وہ مسجد بنائی جائے جس کے بانی آپؐ کے جد امجد ابراھیم ؑ تھے ۔ جسے مکعب شکل کی عمارت ہونے کی وجہ سے کعبہ اور صرف عبادت کے لیے بنائے جانے کی وجہ سے بیت اللہ اور عزت و عظمت کی وجہ سے مسجد الحرام کہا جاتا ہے ۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام جہات یکساں ہیں ’’ و للہ المشرق و المغرب فاینما تولو فثم وجہ اللہ ‘‘ اور عبادت کے لیے کسی نہ کسی طرف کا مقرر کر لینا آدمیوں میں رہا ہے۔ کسی طرف منہ کرنا اصل عبادت سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔’’ لیس البر ا ان تولوا وجوھکم قبل المشرق و المغرب‘‘۔ اصل تعین قبلہ کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک امتیازی علامت قرار دی جائے اور اللہ تعالیٰ نے قبلہ قرار دینے کی وجہ خود بیان فرمادی۔’’ ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبارکاََ وٰھو ء للعالمین‘‘۔ ترجمہ: یہ مسجد دنیا کی پہلی عمارت ہے جو عبادت الہٰی کی غرض سے مکہ میں بنائی گئی اور تمام عالموں کے لیے ہدایت ہے۔’’ یسعیاہ نبی کی کتاب باب ۶۰ ورس ۵ میں ہے،’’ سمندر کی فراوانی تیری طرف پھرے گی اور قوموں کی دولت تیرے پاس فراہم ہوگی۔‘‘
ورس۶: اونٹنیاں کثرت سے تجھے آکے چھپالیں گی۔مدیان، عیفہ کے اونٹ وے سب جو سبا کے ہیں ‘ آویں گے۔وے سونا اور لوبان لاویں گے اور خدا وند کی بشارت دیں گے‘‘۔
ورس۷: قیدار کی بھیڑیں تیرے پاس جمع ہوں گی۔نبیط کے مینڈھے تیری خدمت میں حاضر ہوں گے۔ میری منظوری کے واسطے میرے مذبح پر چڑھائے جائیں گے اور میں اپنے شوکت کے گھر کو بزرگی دوں گا‘‘۔( رحمت للعالمین۔ج اول۔۲۰۱)واضح ہو کہ شوکت کا گھر ٹھیک لفظی ترجمہ بیت الحرام کا ہے اور خانہ کعبہ کا یہی نام قرآن مجید میں مذکور ہے جس سے پہلے نوشتوں کی تصدیق ہوتی ہے ۔ اس گھر کو بزرگی دینے کا مطلب اسے قبلہ قرار دینا ہے ۔ یہ بات کہ اس مقام پر شوکت کو گھر سے مراد کعبہ ہے ، نا کوئی اور مقام ، اس دلیل سے صاف اور واضح ہو جاتی ہے کہ ورس ۶۔۷میں مدیان ، عیفہ ، سبا ، قیدار اور نبیط کے لوگوں کا جمع ہونا ، قربانیاں کرنا بتایا گیا ہے ۔یہ پانچوں حضرت ابراہیم ؑ کے بیٹے یا پوتے ہیں جو عرب میں آباد ہوئے اور جن کی نسل کے قبیلے صرف محمد ﷺ کے دین میں داخل ہوئے ۔ نہ عیسائی تھے نہ یہودی تھے اور ان سب نے مل کر صرف مذبح منیٰ ہی پر قربانیاں پیش کی تھی ۔ قوموں کے نام منیٰ کا پتہ عرب کا قاطبتا مسلمان ہو جانا ۔ حجۃ الوداع میں سب کا نبی ﷺ خدمت میں حاضر ہوتا ہے ایسے تاریخی واقعات ہیں جو مندرجہ بالا آیات کے معنی کو بالکل یقینی بنا دیتے ہیں ۔
دوم: حجی نبی (ق۔۵۲ سال) کی کتاب میں ہے ، اس پچھلے گھر کا جلال پہلے گھر سے زیادہ ہو گا ۔ رب الافواج فرماتا ہے اور میں اس مکان کو سلام یا سلامتی بخشوں گا ۔ رب الافواج فرماتا ہے ، باب ۲ ، ورس ۔۶
سوم: مکاشفات یوحنا باب ۳ ورس ۲ ۱میں ہے۔ میں اسے جو غالب ہوتا ہے اپنے خدا کی ہیکل کا ستون بنائوں گا اور اپنے خدا کے شہر یعنی نئے یروشلم کا نام جو میرے خدا کے حضور سے آسمان سے اترتی ہے اور اپنا نیا نام اس پر لکھوں گا جس کا کان ہے سنے کہ روح کلیسائوں سے کیا کہتی ہے ۔‘‘ یوحنا نے یروشلم اور نئے نام کا ذکر کیا ہے ۔ نیا یروشلم کعبہ ہے اور خدا کا نیا نام جس سے اہل عرب کی باوجود اہل زبان ہونے کے نا واقف تھے اسم پاک رحمان ہے جسے اسلام ہی نے ظاہر کیا ۔ نیا یروشلم کا آسمان سے اترنا یہ معنی رکھتا ہے کہ کعبہ کوقبلہ بنائے جانے کا حکم آسمان سے نازل ہو گا قرآن مجید میں بھی اسی طرف اشارہ ہے ۔’’ قد نریٰ تقلب ۔۔۔۔ترضھا ترجمہ : ہم نے دیکھا کہ تم آسمان کی طرف اپنا چہرہ کر کے دیکھ رہے ہو اس لیے حکم ہے جو قبلہ تمہیں پسند ہے اس کی طرف پھر جائو ۔
زبور۸۴ میں ہے: عربی
۴ ’’ طُوبٰی لِلسَّاکِنینَ فِی بَیتٖکَ اَبَداََ یُسَبِحُونَکَ‘‘ ۔
۵: ’’ ظُوبٰی لِاُنَاسِِ عُّزِ ھُم بِکَ طُرُق بِیتَک فِی قُلُوبِھِم‘‘۔
۶: ’’ عَا بِرینِ فِی وَادِی البَکَّا یُصیرُ ونَہ یَننبَو عاََ‘‘ ’’ اَیضاََ بِبَرَکَاتِِ یُغَظُّونَ مَو دَۃََ‘‘۔
اردو میں:
۴: مبارک باد وے ہیں جو تیرے گھر میںجو تیرے گھر میں بستے ہیں۔وے سدا تیری ستائش کریں گے۔
۵: مبارک وہ انسان جس میں قوت تجھ سے ہے ان کے دل میں تیری راہیں ہیں۔
۶: دے بکاکی وادی میں گزرتے ہیں‘اسے ایک کنواں بناتے‘‘
۷’’ یہی برسات اسے برکتوں سے ڈھانپ لیتی‘‘
انگریزی میں ـ:
4: pleased are they that dwell in thy house, they will be still praising thee"
5: Blessed is the man whose strength is in thee. in whose heart are the ways ofthem"
6: Who passing through the valley of Beca, make it a well, the rain also filleth the pools"
ان ہر سہ زبانوں کی عبارات سے جو ایک ہی مشن سوسائٹی نے شائع کی ہیں‘ متفق طور پر درج ذیل باتیں حاصل ہوتی ہیں۔
۱: ورس چہارم کی رو سے یہ کہ خدا کا ایک گھر ہے اور وہا ں کے باشندوں کو مبارک بتایا گیا ہے اور ان کی علامت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ ہمیشہ خدا کی تسبیح و ستائش کرتے ہوں گے۔
۲: ورس پنجم میں ہے کہ ان لوگوں کی عزت و قوت کا باعث اللہ تعالیٰ ہی ہوگا اور اسباب دینوی ان کی عزت و توقیر کا باعث نہ ہوں گے۔
۳: ورس ششم کی رو سے لفظ بکا عربی ، اردو، انگریزی تینوں زبانوں میں موجود ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بکا وہ اسم معرفہ ہے جو کسی زبان میں بھی نہیں بدلا گیا۔ اور انگریزی میں اسمائے معرفہ کا پہلا حرف بڑے حرف سے لکھے جانے کا جو قاعدہ ہے اسی کے مطابق بائبل میں لفظ ’’ بکا‘‘ کا پہلا حرف بی بھی بڑی B کے ساتھ لکھا ہے۔
۴: لفظ وادی عربی و اردو میں اور لفظ Valley جو بہ معنی وادی ہے، انگریزی میں لفظ بکا سے پہلے موجود ہے ۔
۵: ہر سہ زبان میں ہے کہ وہاں بسنے والے وادی بکا میں ایک کنواں بنائیں گے۔ ان کا ثبوت ملاحظہ کیجئے؛۔
الف: ساکنین بیت جس کا ذکر ورس ۴ میں ہے وہ اسمعیٰلؑ اور ان کی اولاد ہے۔ حضرت ابراھیمؑ کی دعا قرآن مجید میں ہے ’’ رب انی اسکنت من ذریتینی بوادِِ غیر ذی زرع عند بیتک المحرم‘‘ ترجمہ: اے خدا میں نے اپنی ذریت کو اس وادی غیر ذی زرع میں تیرے عزت والے گھرکے پاس آباد کیا ہے‘‘۔
ب: یہ وادی جس کی صفت آیت بالا میں غیر ذی زرع ہے اسی کا نام ایک دوسری آیت میں بکہ ہے ’’ ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ‘‘ (پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لیے بنایا گیا ہے وہ ہے جو بکا میں ہے)۔ اب قرآن و زبور میں پورا اتفاق ہو گیا کہ مکہ کانام خدا کے ہاں بکہ ہے۔
ج: ایک کنواں بنانے کا ثبوت باقی رہا جو وادی بکا میں ہے ۔بخاری کی حدیث ( کتاب الانبیائ) عن ابن عباس میں اسمعیل اور ان کی والدہ کے یہاں آنے ، آباد ہونے کی بابت ایک طویل حدیث ہے۔ اس کے فقرہ ۲۰ میں یہ عبارت ہے’’ فَلَماَّ بَلَغَتَ الوَادِی سَعَت‘‘۔ جب ہاجرہ اس وادی میں پہنچی تو وہاں ( پانی کے لیے) دوڑی۔پھر فقرہ نمبر ۲۹ہے ’’ وغمز عقبیہ علی الارض قال فا نتبق الماء فدھثت ام اسمعیل فجعلت تحفر ( اسمٰعیلؑ) نے ایڑیاں زمین پر ماری۔ پانی ابل پڑا۔ اسمعٰیلؑ کی ماں حیران ہو گئی۔پھر اسے کھود کر کنواں بنانے لگی۔ ناظرین! آپ نے دیکھا زبور کے اس مقام میں بکہ کا نام بھی نکل آیا۔ وہاں کی مسجد کا نام بیت اللہ بھی ثابت ہو گیا۔ وہاں ایک کنواں کا ہونا بھی تحقیق ہو گیا اور وہاں کے رہنے والوں کامبارک ہونا ، ہمیشہ یاد خدا میں رہنا ثابت ہو گیا۔ ہمارے مضمون تحویل کعبہ کی مناسبت سے یہ کافی دلیل ہمارے مدعا کی ہے‘‘۔ (حوالا بالا۲۰۲ تا ۲۰۴)اس کے بعد اس قدر اور بھی گزارش کر دینا چاہتا ہوں کہ ورس ۵ میں عربی کا مفہوم اردو اور انگریزی زبور کی عبارت اور مفہوم سے زیادہ صاف ہے ۔
چند اہم نکات:عربی کی عبارت میں ’’ طرق بیتک فی قلوبھم ‘‘ اس کا لفظی ترجمہ ہے’’ ان کے دلوں میں تیرے گھر کی راہیں ہیں‘‘ لیکن اردو زبور میں ہے ’’ ان کے دل میں تیری راہیں ہیں ‘‘ اور انگریزی میں " In whose heart are the ways of them" اردو اور انگریزی نے لفظ بیت کا ترجمہ صاف حذف کر دیا۔ اردو میں ’’ تیری راہیں‘‘ اور انگریزی میں ’’them ‘‘ ان کی راہیں لکھا۔ قرآن کریم صاف بیان کرتا ہے۔’’ ربنا انی اسکنت۔۔۔۔ یشکرون ‘‘ ( ۱۴۔۳۷) ترجمہ: ’’ اے میرے خدا! میں نے اپنی اولاد کو اس وادی غیر ذی زرع میں تیرے شوکت والے گھر کے پاس بسایا ہے ۔ اے خدا یا! اس لیے کیا کہ یہ سب ( بسنے والے) نمازوں کا قیام کریں اب تو لوگوں کے دلوں میں ان بسنے والوں کی محبت ڈال دے اور ان کو ہر طرح کے میوئوں کی روزی دیا کر کہ یہ شکر گزار رہیں‘‘۔
۲: ورس ۵ کا پہلا جزو عربی میں یوں ہے ’’ طوبی لاناس عزھم بک‘‘ اس میں لفظ اناس یہ صیغہ جمع ہے اور عزوھم میں بھی ضمیر جمع ہے لیکن اردو میں یہ الفاظ ہیں ’’ مبارک وہ انسان جس میں قوت تجھ سے ہے اور انگریزی میں یہ الفاظ ہیں " Blessed is the man whose strength is in thee" ۔ اردو میں لفظ انسان اور ’’ جس‘‘ ، انگریزی میں Man اور Whose واحد کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ عربی ترجمہ کی صحت اور اردو انگریزی ترجمہ کی غلطی اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ اسی ورس کے دوسرے جزو میں اردو میں ’’ ان کے‘‘ اور انگریزی میں ــ"Them" جمع کے لیے موجود تھے۔ عربی تورات کا فقرہ ’’ طوبیٰ لاناسِِ عزھم بک‘‘ دراصل فقرہ نمبر ۴ ’’ طُوبٰی لِلسَّاکِیننَ فِی بَیِتَکَ‘‘ ہی کی صفت ہے۔( حوالا بالا۔۲۰۵)
الغرض تورات کے اس مقام سے بکہ بیت اللہ، زم زم ، اولاد اسمٰعیل ؑصاف طور پر ثابت ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ احسان ہے جس نے مسلمانوں کے لیے ان کے جد امجد کے قبلہ کو مقرر فرمایا جو وادی بکہ میں ہے نہ کہ یروشلم کو ۔نیز وہ دین اسلام جس کو سب ادیان پر غلبہ حاصل ہونا تھا۔’’ لِیُظھِرَہ عَلَی الَّدِیِن کُلّہِٖ‘‘ اسی گھر کو قبلہ ہونا چاہیے تھا نہ کہ ایسا قبلہ جسے ہر کافر فاتح نے اجاڑا اور بالآخر سنڈاس کی جگہ بنایا اور وہاں کے باشندوں کو کئی دفعہ غلامی کی زنجیروں میں بہ طور قیدی رہنا پڑا یا انھیں جلا وطنی کی سزا کا ٹنا پڑی۔
ایک الجھن:قد نری تقلب وجھک فی السمائِ فلنو لینک قبلہ ترضا ھا قول وجھک شطر المسجد الحرام۔( سورہ۲۔ آیت ۱۴۴) ترجمہ: ’’ ہم دیکھ رہے ہیں (اے حبیب) تمھارے چہرے کا بار بار اٹھنا آسمان کی طرف، اس لیے تمھیں پھیر دیتے ہیں اس قبلہ کی جانب جوتمھیں پسند ہے، تو اب اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لو)۔ اس حکم خدا وندی کے بعد رہتی دنیا تک کے لیے کعبہ مکرمہ قبلہ بن گیانیز آیت کا ابتدائی حصہ ۔۔ قد نریٰ۔۔۔۔۔ترضا ھا تک صرف رضائے مصطفی کی شان عالی شان کا اظہار ہے ورنہ تحویل قبلہ کے لیے حکم تو آیت کا آخری حصہ کافی تھا۔’’فول وجھک شطرالمسجد الحرام ‘‘
الجھن یہ ہے ۔
۱: تحویل کعبہ کا حکم دوران نماز ہوا تھا۔
۲: کس مسجد میں یہ حکم نازل ہوا تھا؟
۳: وحی کا نزول کس حالت میں ہوا تھا۔
۴: وہ پہلی مسجد کون سی تھی جہاں پہلی نماز قبلہ ابراھیمی کی طرف پڑھی گئی۔
۵: ظہر کی نماز تھی یا عصر کی نماز۔
زیادہ تر انحصار ابن سعد کی روایت پر ہے جو انھوں نے واقدی کے حوالے سے بیان کی ہے اگرچہ وہ مختصر ہے مگر دیگر راویوں نے اس میں اضافہ کر دیا۔ روایت یہ ہے۔ ’’ ایک روز جان دوعالمﷺ حضرت بشر بن البرؓاء بن معرور کی والدہ سے ملاقات کے لیے ان کے گھر محلہ بنی سلمہ میں تشریف لے گئے تو بشر کی والدہ نے دوپہر کے کھانے کا انتظام کیا۔ اسی اثناء میں نمازِ ظہر کا وقت ہو گیا۔ چناں چہ آپؐ نے قبیلہ بنی سلمہ کی مسجد میں حسب معمول بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنی شروع کی۔ جب دو رکعتیں پڑھا چکے تو جبرئیل امین حاضر ہوئے اور اشارہ کیا کہ کعبہ کی طرف منھ پھیر کر بقیہ نماز مکمل کریں۔حکم الہیٰ ملتے ہی آپؐ نے نماز کی حالت میں اپنا رخ کعبہ کی طرف پھیر لیا اور آپؐ کی اقتداء میں تمام نمازیوں نے بھی بلا تامل اپنے منھ بیت المقدس سے پھیر کر کعبہ کی طرف کر لیے۔چوں کہ مدینہ طیبہ سے بیت المقدس شمال کی جانب ہے اور کعبہ اس کے مقابل جنوب میں ہے اس لیے اس تبدیلی کا نتیجہ یہ ہوا کہ پیچھے جہاں مستورات نماز ادا کر رہی تھیں وہاں مرد آکر کھڑے ہو گئے اور ان کی جگہ مستورا ت کھڑی ہو گئیں۔ اس وقت مذکورہ آیات نازل ہوئیں۔اس روایت میں تین باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ۱: وحی کا نزول دوران نماز ہوا۔۲: وہ نماز ظہر کی تھی۔۳: وہ مسجد بنو سلمہ کی تھی۔ لیکن اس سلسلہ میں حضرت براء بن عازبؓ سے منقول چار روایتیں ہیں جو بخاری شریف میں کتاب الایمان باب الصلوۃ من الایمان ،۲: کتاب الصلوۃ باب التوجہ نحو القبلۃ،۳: کتاب التفسیر باب ولکل وجہۃ،۴: کتاب الاخبار الاحاد باب ما جاء فی اجازۃ خیر الواحد۔
علامہ ابن کثیر قد نری تقلب وجھک۔۔۔۔ الآیہ کی تفسیر میں سنن نسائی کی یہ روایت لائے ہیں۔ ’’ حضرت ابو سعید بن المعلی بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺکے زمانہ میں ہر روز مسجد (نبوی) میں جایا کرتے تھے اور وہاں نماز پڑھا کرتے تھے۔ایک دن حسب معمول ہم مسجد کے پاس سے گزرتے ہوئے اندر گئے تو ہم نے دیکھا کہ آپؐ منبر پر تشریف فرما ہیں۔ میں نے کہا کہ آج ضرور کوئی واقعہ پیش آیا ہے جب ہم بیٹھ گئے تو رسول اللہ ﷺنے یہ آیات تلاوت فرمائی قد نری۔۔۔۔ الآیۃ تو میں نے اپنے ساتھی سے کہا ’’ آئو! ہم دو رکعت پڑھ لیں پہلے اس سے کہ رسول اللہ ﷺمنبر سے اتریں۔ اس طرح ہم وہ پہلے انسان ہوں گے جنھوں نے ( اس آیت کے نازل ہونے کے بعد) کعبہ کی طرف منھ کر کے نماز پڑھی۔چناں چہ ہم نے اوٹ میں ہو کر دو رکعتیں پڑھ لیں۔ پھر رسول اللہﷺ منبر سے اترے اور لوگوں کو نماز ظہر پڑھائی۔
اوپر بخاری کی چار روایتوں میں یہ ذکر نہیں کہ یہ واقعہ کس مسجد میں پیش آیا تھا اور نہ ہی یہ ذکر ہے کہ وحی کا نزول کس حالت میں ہوا تھا۔ ہاں یہ ضرور ہے ’’ کتاب الایمان باب الصلوۃ من الایمان‘‘ والی روایت میں ہے کہ نماز ظہر کی تھی۔ اسی طرح سنن نسائی کی روایت میں ظہر کی نماز کا ذکر ہے اور ابن سعد والی روایت میں صرف نماز ظہر کا ذکر ہے باقی تمام چیزوں میں اختلاف ہے۔کیونکہ اس روایت کے مطابق یہ واقعہ مسجد نبوی کا ہے نہ کہ مسجد بنی سلمہ کا ، کیونکہ ممبر صرف مسجد نبوی میں تھا اس میں یہ بھی واضح طور پر مذکور ہے کہ وحی کا نزول نماز کے دوران نہیں ہوا تھا اس سے خاصا پہلے ہو چکا تھا اس کے بعد آپ ﷺ نے باقاعدہ منبر پر بیٹھ کر یہ آیات حاضرین کو سنائیں پھر اتنی دیر تک منبر پر جلوہ افروز رہے کہ ابو سعید ؓ اور ان کو دوست دو رکعتیں پڑھ کر فارغ ہو گئے تب آپﷺ ممبر سے اترے اور نماز پڑھائی ۔
سنن نسائی کی روایت عقل و نقل کے مطابق ہے۔ آپ ؐ کو تحویل قبلہ کے حکم کا انتظار تھا۔ آخر آپ کی پسند اور مرضی پر قبلہ کعبہ بنا دیا۔
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمدؐ
نماز کے دوران وحی نازل ہوئی حال آنکہ اس موقعہ پر ضرورت نہ تھی کیوں کہ اس سے قبل حالت نماز میں وحی نہیں اتری۔ نیز نزول وحی کے وقت آپؐ پر جو کیفیت طاری ہوتی تھی وہ عام حالت سے بالکل مختلف ہوتی تھی اور پاس بیٹھنے والے محسوس کر لیتے تھے۔ نزول وحی کے وقت ایک گونہ دنیاوی اور مادی عالم سے الگ ہو جاتے تھے اور عالم قدس کے ساتھ ہمہ تن گو ش ہو جاتے تھے۔ لہذٰا ایسی حالت نماز میں ہونا بعید از قیاس ہے۔اگر ایسا کبھی ہوا ہوتا تو صحابہ کرام ؓ ضرور بیان کرتے کہ فلاں وقت اور فلاں مقام پر عین دوران نماز وحی کا نزول ہوا تھا ۔اہل علم جانتے ہیں کہ ایسا کوئی واقعہ منقول نہیں ہے تو پھر صرف تحویل قبلہ کے لیے تخصیص کیوں ؟
دوم: قبلہ بیت المقدس مدینہ سے شمال کی طرف ہے اور کعبہ جنوب کی طرف۔ نماز میں منھ پھیر لیا جائے تو مرد ، خواتین کو شمال سے جنوب کی طرف رخ کرنا ہو گا جس سے نمازیوں کی نماز کی کیفیت عجیب اور انوکھی ہو گی۔ امام سے متعلق نمازی بے خبر ہیں کہ وہ کدھر جا رہا ہے،کدھر جانا چاہتا ہے اور یہ سارے کام نماز کے اندر کر رہا ہے۔ ایسی صورت میں اقتداء ختم کر دیں گے اور امام کو دیکھنے لگیں گے۔ اس کی وضاحت امکانی نقشہ کی مددسے لی جا سکتی ہے جو رسالہ تحویل قبلہ میں ہے۔
سوم : روایت کے بارے میں محدثانہ نقطہ نظر سے:سنن نسائی اور ابن سعد کی اس روایت میں صرف ایک چیز مشترک ہے کہ دونوں میں نماز ظہر کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ تمام چیزیں مختلف ہیں کیوں کہ ابو سعید والی روایت کے مطابق یہ واقعہ مسجد نبوی کا ہے نہ کہ مسجد بنو سلمہ کا، کیوں کہ منبر صرف مسجد نبوی میں تھا۔
۱: امام شافعی نے فرمایا کہ ’’ ( محمد بن عمر الواقدی الاسلمی متوفی ۲۰۷ھ) کی تمام تصانیف جھوٹ کا انبار ہیں کتب سیرت میں اکثر بے ہودہ روایتوں کا سر چشمہ ان کی ہی تصانیف ہیں۔
۲: ایک ظریف محدث نے خوب کہا ہے کہ اگر واقدی سچا ہے تو دنیا میں کوئی اس کا ثانی نہیں اور اگر جھوٹا ہے تب بھی دنیا میں اس کا جواب نہیں۔ ( سیرت النبی۔ج اول ۔۴۱)
۳: جناب عبد الدائم لکھتے ہیں کہ حافظ عبد الرحمن احمد بن شعیب النسائی عظیم الشان محدث ہیں۔ ان کی سنن نسائی صحاح ستہ کی کتب میں شامل ہے جب کہ محمد ابن سعد نہ خود امام نسائی کے ہم مرتبہ ہیں نہ ان کی کتاب طبقات کبرٰی کی وہ حیثیت ہے جو سنن نسائی کی ہے ۔
۴: پھر ابن سعد نے بشر کی والدہ والا قصہ یُقاَلُ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ اور صیغہ مجہول سے بیان کردہ تعلیقات مردود ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ طبقات ابن سعد میں ایک اور بے سند تعلیق پائی جاتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ جان دوعالمﷺ کی اپنی مسجد یعنی مسجد نبوی کا ہے۔ ویقال رکعتیں من الظہر فی مسجدہِ بالمسلمین الخ‘‘ ( اور کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ ؐ نے اپنی مسجد میں لوگوں کو ظہر کی نماز کی دو رکعتیں پڑھائیں۔۔ الخ۔ ایسی متضاد اور متعارض تعلیقات پر بھلا کس طرح اعتبار کیا جا سکتا ہے؟۔ اس لیے ہمارے خیال میں صحیح بات وہی ہے اور اتنی ہی جتنی کہ نسائی کی روایت میں مذکور ہے۔( رسالہ تحویل قبلہ۔ قاضی عبدالدائم دائم سے ماخوذ)
علامہ غلام رسول رضوی ( تفہیم البخاری۔ج۱۔ص ۱۷۱) لکھتے ہیں کہ یہ کہنا صحیح نہیں کہ ظہر کی کچھ نماز پڑھنے کے بعد سید عالم ؐ کعبہ کی طرف متوجہ ہوئے ( یعنی منھ پھیر لیا تھا) کیوں کہ یہ صحیح روایات کے خلاف ہے۔ تحویل قبلہ ظہر اور عصر کے درمیان ہوئی تھی اور آپؐ نے سب سے پہلی نماز جو کعبہ شریف کی طرف پڑھی وہ عصر کی نماز تھی۔
ایک شبہ کا ازالہ:زُہیر نے کہا ہمیں ابو اسحاق نے خبر دی کہ انھوں نے اپنی حدیث میں کہا کہ تحویل قبلہ سے پہلے کچھ لوگ فوت ہو گئے یا شہید ہوگئے۔ ہم نے نہ جانا کہ ان کے حق میں کیا کہیں تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا کہ ’’ وَمَا کَانَ اللہ ُ لِیُضیعُ اِیماَنَکُم‘‘ ( اللہ تمھارا ایمان ضائع نہیں کرے گا) یعنی جنھوں نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھتے رہے پھر فوت ہوئے یا شہید ہوئے تو ان کی نمازیں مقبول ہیں کیوں کہ وہ بیت المقدس کی طرف نمازیں اللہ کے حکم سے پڑھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ضائع نہیں کیا۔(تفہیم البخاری۱۔۱۷۱) ایک روایت میں ہے کہ عبادہ بن بشر ؓ نے ظہر کی نماز آپؐ کی اقتداء میں ادا کی۔پھر وہ انصار کے محلہ بنی حارثہ میں گئے۔ عصر کا وقت ہو گیا تھا وہاں انصار نماز پڑھ رہے تھے کہ عبادہ نے کہا ’’ میں اللہ کے نام کی شہادت دیتا ہوں کہ میں نے حضور کی اقتداء میں بیت اللہ کی طرف منھ کر کے نماز پڑھی ہے یہ سنتے ہی سب نمازی بلا تامل جس حالت میں تھے اسی حالت میں کعبہ شریف کی طرف منھ کر کے نماز ادا کرنے لگے۔
ایک اور شبہ کا ازالہ:براء بن عازبؓ سے روایت کی کہ ایک شخص نے آنحضرتؐ کے ساتھ نماز پڑھی۔پھر وہ انصار کے پاس سے گزرا جب کہ وہ عصر کی نماز بیت المقدس کی طرف منھ کر کے پڑھ رہے تھے۔ جب ان سے ذکر کیا گیا کہ قبلہ تبدیل ہو گیا ہے تو وہ کعبہ کی طرف پھر گئے۔۲: بخاری، نسائی اور مسلم میں بھی کتاب الصلوۃ میں ابن عمر سے روایت کی کہ انھوں نے کہا ایک وقت لوگ قبا میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ کوئی شخص آیا جب کہ ان کے چہرے شام کی طرف تھے۔ اس نے تحویل کعبہ کی خبر دی تو وہ نماز میں کعبہ کی طرف پھر گئے۔۳: ان میں تعارض نہیں۔عصر اور صبح کی روایات میں جمع اور اتفاق کا یہ طریقہ ہے کہ اس شخص نے نبی کریم ؐکے ساتھ عصر کی نماز پڑھی تھی پھر وہ شخص انصار کے پاس سے عصر کی نماز کے وقت گزرا۔یہ براء کی روایت کے مطابق جمع ہے اور حضرت انس اور ابن عمر کی روایت کے مطابق وہ صبح کی نماز تھی‘ وہ دوسرے روز اہل قباء کی نماز ہے۔ اس طرح ان روایات میں اتفاق ظاہر ہے۔( تفہیم البخاری۔ج۱۔ص۱۷۱)ان دونوں مساجد (بنوسلمہ، قبا) میں نمازیوں کی تعداد کم ہوتی تھی جس کی وجہ سے ان کا دوران نماز کعبہ کی طرف رخ کر لینا آسان ہے۔ پہلی مسجدسے متعلق قاضی عبد الدائم دائم ( رسالہ تحویل قبلہ) لکھتے ہیں’’ واضح رہے کہ یہ ایک چھوٹی سی مسجد تھی اور زیادہ تر لوگ چوں کہ مسجد نبوی میں نماز پڑھتے تھے اس لیے اس مسجد میں گنے چنے چند نمازی ہوں گے اتنی مختصر سی جماعت کے مخالف سمت میں منھ پھیر لینے سے وہ الجھنیں پیدا نہیں ہوتیں جو مردوں، بچوں اور عورتوں کی کثیر تعداد کے رخ بدلنے سے آتی ہیں۔
ایک اور شبہ کا ازالہ:شارح بخاری بدر الدین عینی لکھتے ہیں’’ ھُومَسجِدُ بَنیِ سَلَمہَّ وَ یُعرَفُ بِمَسجِدِ اَلقَبلَتَین‘‘ ( وہ مسجد بنی سلمہ تھی جو قبلتین کے نام سے مشہور ہے) اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ تحویل قبلہ کا حکم مسجد بنی سلمہ میں نماز ظہر کے دوران ہر گز نازل نہیں ہوا تھا اگر ایسا ہوا ہوتا تو وہ لوگ عصر کی نماز لازماََ کعبہ کی طرف منھ کر کے پڑھتے ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تحویل قبلہ کا حکم ظہر کی نماز کے دوران بنی سلمہ ہی کی مسجد میں نازل ہوا اور آدھی نماز ظہر کعبہ کے رخ پر پڑھی بھی جا چکی ہو مگر عصر کے وقت مسجد بنی سلمہ کے نمازی پھر بیت المقدس کی طرف منھ کر کے کھڑے ہو جائیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مسجد قبلتین کا یہ نام اس لیے نہیں پڑا کہ اس میں جان دو عالمﷺ نے ایک ہی نماز دو قبلوںکی طرف منھ کر کے پڑھی تھی۔نماز کے دوران ہی اپنا رخ کعبہ کی طرف کر لیا تھااگرچہ ایسے واقعات چند اور مسجدوں میں بھی پیش آئے تھے مگر سب سے پہلا واقعہ چوں کہ اسی مسجد میں ظہور پذیر ہوا تھا اس لیے اس کا نام مسجد قبلتین پڑ گیا ۔( حوالا بالا۔۱۲۔۱۱)
بنی سلمہ کی مسجد ہو یا قبا کی مسجد ہر دو مساجد میں نمازیوں کو ایک آدمی نے آوازدے کر کہا کہ آپؐ نے بیت المقدس کے بہ جائے بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ہے تو انھوں نے دوران نماز اپنا رخ بیت اللہ شریف کی طرف کر لیا۔ نیز ان دونوں مساجد میں مسجد نبوی کی نسبت نمازیوں کی تعداد کم تھی اس لیے انھیں اپنا رخ بدلنے میں کسی الجھن کا سامنا نہیں تھا۔ اس کے علاوہ مسجد نبوی میں نمازیوں کو اطلاع بہ ذریعہ وحی دی جاتی ہے۔ اس صورت میں صرف وحی آپؐ پر نازل ہوتی ہے۔ اطلاع عام نہیں دی جاتی۔ اگر آپؐ بغیر مطلع کیے رخ بدل لیتے ہیں تو نماز ٹوٹ جاتی ہے کیوں کہ عورتوں کی جگہ مرد اور مردوں کی جگہ عورتوں نے لینی ہے اور پھر بغیر اطلاع کے ایسا ممکن ہی نہیں۔
ایک اور شبہ کا ازالہ : بخاری شریف کی صلاۃ العصر والی روایت کی جو توجیہہ بعض محدثین نے کی ہے وہ درست نہیں ہے کیونکہ اس کی بنیاد اس پر ہے کہ اس سے پہلے جو نماز ظہر کی پڑھی گئی تھی وہ آدھی بیت المقدس اور آدھی خانہ کعبہ کی طرف ۔۔۔ حالانکہ ایسا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں تھا بلکہ حکم تحویل کعبہ نماز سے پہلے نازل ہو چکا تھا اور وہ پوری نماز کعبہ کی طرف رخ کر کے ادا کی گئی تھی ، لہذا اس صورت میں کہا جا سکتا ہے کہ صلاۃ العصر میں ’’ عصر‘‘ کا لفظ کسی روای کی بھول چوک ہے اور صحیح صلاۃ الظہر ہے یعنی حکم تحویل کے بعد سب سے پہلی نماز جو آپ ﷺ نے ادا فرمائی وہ ظہر کی تھی ، لیکن اس میں الجھن یہ ہے کہ صلاۃ العصر میں امام بخاری منفرد نہیں ہیں بلکہ ترمذی کی روایت میں بھی صلاۃ العصر ہی مذکور ہے ۔ اگر کثرت روایات کی بنیاد پر صلاۃ العصر کو ترجیح دی جائے تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ سنن نسائی میں جو نماز ظہر کا ذکر ہے وہ کسی راوی کا اشتبا ہ یا تساہل ہے اور منبر پر سے اتر کر جان دو عالم ﷺ نے جو نماز پڑھائی تھی وہ درحقیقت ظہر کی نہیں ، بلکہ عصر کی تھی ۔‘‘ (رسالہ تحویل قبلہ ۔۱۱)
قبلہ پر اعتراضات:
اعتراض نمبر ۲۶۳
مستشرقین کہتے ہیں کہ آپؐ نے ابتداء میں یہودیوں کی دل جوئی کے لیے بیت المقدس کو اپنا قبلہ قرار دیا جو یہودیوں کا مقدس مقام تھا اور جب وہ ایمان نہ لائے تو آپ نے ان کی مخالفت میں اپنا قبلہ بدل دیا۔
۲: دوسرا الزام یہ ہے کہ یہودیوں کے کاروبار کا دارومدار سود پر تھا آپؐ نے ان کے کاروبار کو تباہ کر نے کے لیے سود کو حرام قرار دیا۔
جواب اول:آپؐ ہر کام میںسابقہ شریعتوں کے احکام کی پیروی کرتے تھے جب تک کہ وحی نہ آتی اس پر کار بند رہتے۔ سابقہ نبیوں کا قبلہ بیت المقدس تھا بایں سبب آپ نے بھی حکم خدا وندی کے نازل ہونے تک قبلہ اول ہی کو قبلہ قرار دیا۔ اس میں یہودیوں کی دل جوئی کا معاملہ نہ تھا۔صرف اور صرف وحی الہٰی کا انتظار تھا اور ہوا بھی ایسے جب حکم قبلہ کی تبدیلی کا نازل ہوا تو اسے قبلہ قرار دے دیا گیا ۔
دوم:دوستی دشمنی کی بات نہیں کہ یہود کی مخالفت کے لیے ہی قبلہ کو ہی کافی دیر تک قبلہ بنائے رکھا بل کہ ایسے بہت سے امور ہیں جو یہودیوں میں مروج ہیں آپؐ نے ان پر عمل کیا اور ان کی تبلیغ کی۔ جیسے خدا کا اقرار، عقیدہ رسالت و نبوت، جنت دوزخ، ثواب عذاب وغیرہ عقائد کی اسلام نے تبلیغ کی، اورپرچار کیا۔ نیز جو ہستیاں یہودیوں کے ہاں معزز و محترم تسلیم کی جاتی ہیں آپؐ نے یہودیوں سے بڑھ کر ان کا احترام کیا۔
سوم:اگر آپؐ نے یہودیوں کی مخالفت کی وجہ سے قبلہ بدل لیا ہوتا تو پھر چاہیے تو یہ تھا کہ آپؐ تمام یہودکے انبیاء کی مخالفت کرتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔ اسلامی تعلیمات سے آشنا شخص بہ خوبی اس بات کو جان لیتا ہے کہ قبلہ کی تبدیلی کا سبب یہود کی مخالفت نہ تھی بل کہ حکم خدا وندی تھا جس کو آپﷺ اور آپ کے پیروکاروں نے بہ دل و جان تسلیم کیا۔ حضرت ابراھیمؑ یہود کے لیے قابل عزت شخصیت تھے۔ آپؐ نے ان سے بڑھ کر عزت و احترام کیا۔یہودیوں کو ثابت کیا کہ وہ تمھارے ہی نبی نہیں ہمارے بزرگ بل کہ جد امجد ہیں۔ دیگر بنی اسرائیل کے اجداد کا بھی آپؐ نے احترام کیا اور اپنے پیرووں پر ان کے ادب واحترام کو فرض قرار دیا۔ ان کا احترام ایمان کی اساس ہے۔ اگر یہود سے مخاصمت ہی کرنا تھی تو ان سے ایسا نہ کرتے۔ ایسا ادب و احترام ہی نہیں بلکہ جز ایمان سمجھتے ہیں ۔ ’’ امنت باللہ و ملائکۃ و کتبہ ورسلہ و الیوم الاخروالقدر خیرہ و شرہ من اللہ تعالیٰ والبعث بعد الموت‘‘
الزام دوم: سود کا ذکر ضمناََ آگیا اس پر مختصر بحث کر تے ہیں ۔سود کی حرمت کا حکم بھی حکم خدا وندی تھی کسی دشمنی کا نتیجہ نہ تھا۔ یہودیوں کے کاروبار کو نقصان پہنچانے یا ان کا کاروبار ٹھپ کرنے کے لیے نہ تھا۔ بل کہ اس حرمت سے معاشی تباہیوں سے بچنے کے لیے اقدام کیاتھا اور اسلام کے احکام کی بجا آوری کے اول مخاطبین مسلمان تھے نہ کہ یہودی۔ یہ خوئے بدرابہانہ بسیار والی بات ہے کہ یہودی خود بھی باہمی لین دین میں سود کو حرام جانتے تھے۔ اسلام نے یہود کی دو غلا چال اور پالیسی کو یک سر ختم کر کے سود کی حرمت کا اعلان فرماکر حکم نافذ فرمادیا۔عیسائی بہت سے مذہبی احکام سے اپنی زندگی کو بے دخل کیے ہوئے ہیں۔ ان کے ہاں جو چیزیں حلال ہیںان کے مذہب میں وہ حرام ہیں ۔ یہود بھی اپنی مجموعی زندگی میں مکمل مذہبی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ اپنی خود ساختہ پالیسیوں کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہندووں کے ہاں بھی ایسا ہی ہے۔ برہمن اور شودر برابر نہیں لیکن ایک برہمن کا ووٹ اور شودر کے ووٹ کو برابر کا درجہ قرار دیا جاتا ہے۔ ادھر اسلام ہر قسم کے تضاد سے پاک ہے۔یہ الگ بات کہ عمل میں کوتاہی ہو سکتی ہے لیکن اسلامی اٹل اصولوں میں تضاد اور تبدیلی کی گنجائش نہیں اور نہ ہی اسلام اصولوں پر سودا بازی کرتا ہے۔
ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! سود کے بارے میں آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں ؟ یہ تو بالکل ہمارا ہی مال ہوتا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ تم اپنا اصل مال لے سکتے ہو ‘‘ دیکھو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے یا ایھا الذین امنو اتقو اللہ و ذرو اما یقی من الربوا ( بقرہ ۔)ترجمہ : اے ایماان والوں خدا سے ڈرو اور سود میں سے جو لینا رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو ‘‘
اعتراض نمبر ۲۶۴
یہود یہ بھی کہتے ہیں کہ محمد ﷺ ہماری ہر بات میں مخالفت کرتا ہے اس لیے قبلہ بھی مخالفت کے سبب بدل دیا۔
جواب: یہود و نصاریٰ کا تحویل قبلہ پر اعتراض محض گروہ پرستی ، تعصب اور حسد کا نتیجہ ہے اگر وہ حق پر ہوتے تو ایک دوسرے سے اختلاف کیوں کرتے ۔ یہودی عیسائیوں کو قبلہ نہیں مانتے اور عیسائی یہودیوں کا قبلہ نہیں مانتے جب ان فریقین نے اتباع حق کا راستہ ترک کر دیا تو پھر حق پرستوں کو کبھی بھی ان لوگوں سے اتفاق نہیں ہو سکتا کیونکہ کسی بات کا حق ہونا بھی اس کے حق ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔
آپ ﷺ کے اشتیاق میں اضافہ ہوا کہ بیت اللہ کی طرف رخ پھیرنے کے بارے وحی کا نزول ہو ۔ اس بات پر آپ ﷺ پر امید تھے کیونکہ یہ بیت اللہ دونوں قبلوں میں سب سے پہلا قبلہ تھا نیز آپ ﷺ کے جد امجد حضرت ابراہیم ؑ کا قبلہ تھا اور تمام عرب میں قابل قدر مقام تھا جہاں لوگ دور دراز سے حج کرتے اور زیارت کو آتے ، اس سے اہل عرب کا اسلام کی طرف متوجہ ہونا ممکن ہو سکتا تھا ۔ ارشاد ربانی ہے : ترجمہ اے نبی ! یہ تمہارے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں ، تو ہم اسی قبلہ کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں جیسے تم پسند کرتے ہو ۔ مسجد حرام کی طرف رخ پھیر لو ، اب جہاں کہیں تم ہواسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو ، یہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی تھی خوب جانتے ہیں کہ ( تحویل قبلہ) کا یہ حکم ان کے رب ہی کی طرف سے ہے اور برحق ہے مگر اس کے باوجود جو کچھ یہ کر رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہے ‘‘۔
یہود و نصاریٰ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ قبلہ کی تحویل برحق ہے مگر اپنی ہٹ دھرمی کے ڈگر پر گامزن ہیں حالانکہ ان کے پیغمبروں پر نازل شدہ کتابوں میں درج ہے کہ یقینا حضرت محمد ﷺ دو قبلوں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں گے اسور یہ آپ ﷺ اختراع نہیں ہے اور نہ ہی یہود ونصاری سے دشمنی کی بنیاد پر ہے ۔ ارشاد ربانی ( وان الدین اوتوالکتاب یعلمون انہ الحق من ربھم ) ’’ اور یہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی تھی خوب جانتے ہیں کہ( تحویل قبلہ کا) حکم ان کے رب ہی کی طرف سے ہے اور برحق ہے مگر اس کے باوجود جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اس سے غافل نہیں ہے ۔‘‘ کعبہ کی طرف منہ پھیر نے کی تاکید مزید کی ۔ قرآن شریف میں ہے تمہارا گزر جس مقام سے بھی ہو وہی سے اپنا رخ (نماز کے وقت ) مسجد حرام کی طرف پھیر دو کیونکہ یہ تمہارے رب کا بالکل برحق فیصلہ ہے اور اللہ تعالیٰ تم لوگوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے ۔اس میں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ مسجد حرام کی طرف رخ کرنا ہی برحق ہے پھر ایک دوسری آیت میں حکم فرمایا اور اس میں یہ حکمت و دانائی واضح ہو کر سامنے آئی جو اللہ نے اس حکم میں رکھی تھی اس معاملہ میں ضعیف الایمان لوگوں کی سوچ غلط راہ پر چل نکلی تھی ارشاد خدا وندی ہے ’’ اور جہاں سے بھی تمہارا گزر ہو اپنا رخ مسجد حرام کی طرف پھیرا کرو اور جہاں بھی تم ہو اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف کوئی حجت نہ ہو ۔ ہاں ان میں سے جو ظالم ہیں ان کی زبان کسی حال میں بند نہ ہوگی تو ان سے تم نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور اس لیے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کر دوں اور اس توقع پر کہ میرے اس حکم کی پیروی سے تم اس طرح فلاں کا راستہ پائو گے ) ۔ اس آیت کریمہ میں صریحا بیان کیا گیا ہے کہ لوگوں کی ان پر حجت کا خاتمہ کیا جا سکے اور یہ لوگ وہی تھے جن پر آسمانی کتب نازل ہوئیں یعنی یہود و نصاریٰ تھے ۔ بلا شبہ یہودی تورات میں مذکور اوصاف رسول اللہ ﷺ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کعبہ کی طرف تحویل کریں گے ۔ یہ اس دور کی بات ہے جب آپ ﷺ بیت لمقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے لہذا رسول کریم ﷺ کا کعبہ کی طرف رخ پھیرنا اس بات کی تائید کرتا تھا جو ان کی کتابوں میں لکھی ہوئی تھی اور بیت المقدس کی طرف کرنے کے دور میں عیسائی ، محمد ﷺ کے بارے کہتے تھے کہ محمد ﷺ کو کیا ہو گیا ہے یہ عجیب ہیں کہ ملت ابراہیمی کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کے قبلہ کو چھوڑے ہوئے ہیں لہذا کعبہ کی طرف رخ کرنا لوگوں کی حجت کے خاتمہ کرنے کا باعث تھا اور اس کا تقاضا تھا کہ وہ آپ ﷺ کی تصدیق کریں اور نبوت کو مان لیں لیکن انہوں نے حق کا انکار کیا اور اپنی سر کشی و بغاوت اور گمراہی میں سر گرداں رہے ۔ اسلام نے یہود کے خود ساختہ مذہب کی مخالفت کی لیکن ۱۶۔۱۷ ماہ تک یہودیوں کے قبلہ بیت المقدس ہی کو قبلہ بنایا۔ اسی طرف منھ کر کے نمازیں پڑھتے رہے لیکن آپؐ اپنے جد امجد ابراھیمؑ کے قبلہ کعبہ کو قبلہ بنائے جانے کے خواہاں تھے۔ نیز ہر گروہ، ہر قوم اور ہر مذہب کے لیے ایک امتیازی شعار ہوتا ہے جس کے بغیر اس قوم کی مستقل ہستی قائم نہیں ہو سکتی۔ اسلام نے یہ شعار قبلہ قرار دیا۔ جو اصل مقصد کے لیے اور بہت سے حکم و اسرار کا جامع ہے۔ مساوات اسلام کا نمایاں وصف ہے جس کے لیے مسلمانوں کا یک جہت قبلہ پر متحد ہونا ہے۔ اس قبلہ کی تبدیلی پر نہ صرف یہودی ناراض تھے بل کہ کچھ ضعیف الایمان مسلمانوں کو بھی یہ بات کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی۔ قبلہ بدلنے سے اعتقاد میں تزلزل اور بے یقینی کا اظہار ہوتا ہے۔ ایسی تمام الجھنوں کا جواب قرآن کریم نے بیان فرمادیا۔
’’ سیقول السفھاء ُ مِن النَّاسِ مَا وَلَّھُم عَن قِبلَتَھِم الَّتِی کَانُوا عَلَیھاَ قل للہ المشرق و المغرب‘‘۔ترجمہ: ( سفہا یہ اعتراض کریں گے کہ مسلمانوں کا جو قبلہ تھا اس سے ان کو کس نے پھیر دیا ۔کہہ دو کہ مشرق و مغرب سب خدا ہی کا ہے۔ (البقرۃ۔ ۱۴۲)
’’ وما جعلنا القبلۃ التی۔۔۔۔ الا علی الدین ھدی اللہ‘‘ ( البقرہ۔۱۴۳) ترجمہ:’’ تیرا جو پہلے قبلہ تھا ( کعبہ) اس کو جو ہم نے پھر قبلہ کر دیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ معلوم ہوجائے کہ پیغمبر کا پیرو کون ہے اور پیچھے پھر جانے والا کون ہے؟ اور بے شبہ یہ قبلہ نہایت گراں اور ناگوار ہے بہ جز ان لوگوں کے جن کو خدا نے ہدایت کی ہے ‘‘۔
’’ لیس البر ان تولوا۔۔۔۔ والسایلین وفی الرقاب‘‘۔ ( البقرہ۔۱۷۷) ترجمہ: ’’ پورب پچھم رخ کرنا ہی کوئی ثواب کی بات نہیں۔ ثواب تو یہ ہے کہ آدمی خدا پر ، قیامت پر، ملائکہ پر، خدا کی کتابوں پر، پیغمبروں پر ایمان لائے اور خدا کی محبت میں عزیزوں کو ، یتیموں کو ، مسکینوں کو، مسافروں کو، سائلوں کو ، غلاموں کو ( آزاد کرانے میں ) اپنی دولت دے‘‘۔
ان آیات میں ممکنہ اعتراضات کے جوابات موجود ہیں۔نیز بہت سے یہودی جو منافق تھے اور مسلمان بنے ہوئے تھے ان کا راز فاش ہو گیا اور روح عبادت کو محض قبلہ کی طرف رخ کرنا نہیں ٹھہرایا بل کہ حقیقت ایمان اور اعمال صالحہ قرار دیا۔
اعتراض نمبر۲۶۵
تم نے تحویل قبلہ والی آیت اور اس کا ترجمہ یو ں لکھا ہے : وما جعلنا القبلہ التی کنت علیھا اللہ ۔۔۔۔علی عقبیہ ( البقرہ : ۱۴۳)اور ہم نے وہ قبلہ جس پر اب تک تم تھے اس لیے مقرر کیا تھا تاکہ دیکھیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پائو ں پھر جاتا ہے ۔
اس کے متعلق تم لکھتے ہو کہ : مسجد حرام کو قبلہ قرار دینے سے پہلے مسلمانوں کا جو قبلہ تھا اسے قبلہ بنانے کا کوئی حکم قرآن میں نہیں آیا ۔ اگر آیا ہو تو تم اس کا حوالہ دے دیں ۔اگر اس کے متعلق خدا کی طرف سے کوئی حکم آیا ہوتا تو ضرور قرآن میں ہوتا لیکن جب حکم آیا ہی نہیں تھا تو بحث کا حوالہ قرآن سے کیسے دوں ؟ تم نے پہلے یہ فرض کر لیا ہے کہ پہلے قبلے کو خدا نے مقرر کیا تھا اور اس کے بعد تم اس آیت کا ترجمہ اسی مفروضے کے مطابق کرتے ہیں ۔ اس آیت میں ’’ کنت ‘‘ کے معنی ’’ تو تھا ‘‘ نہیں اس کے معنی ہیں ’’تو ہے ‘‘ یعنی ہم نے وہ قبلہ جس پر تو ہے اس لیے مقرر کیا تاکہ یہ دیکھیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پائوں پھر جاتا ہے ،ان معانی کی تائید خود قرآن سے ہوتی ہے ۔
جواب: اس آیت میں کنت کے معنی تو ہے صرف اس بنیاد پر کر ڈالے گئے ہیں کہ عربی زبان میں ’’ کان ‘‘ کبھی کبھی ’’تھا ‘‘ کے بجائے ’’ہے ‘‘ کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے لیکن جس شخص نے بھی سورہ بقرہ کا وہ پورا رکوع کبھی سمجھ کر پڑھا ہو جس میں یہ آیت وارد ہوئی ہے ،وہ یہاں کنت کے معنی ’’توہے ‘‘ ہرگز نہیں لے سکتا کیونکہ مضمون ما سبق و ما بعد یہ معنی لینے میں مانع ہے رکوع کی ابتدا اس آیت سے ہوتی ہے : سیقول السفھائ۔۔۔ کانوا علیھا ’’ نادان لوگ ضرور کہیں گے کہ کس چیز نے پھیر دیا ان کو ان کے اس قبلے سے جس پر یہ تھے ‘‘ یہاں کانو ا کا ترجمہ یہ ہیں ، کسی طرح بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ’’ کس چیز نے پھیر دیا ‘‘ کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ پہلے مسلمان کسی اور قبلے کی طرف رخ کرتے تھے اب اسے چھوڑ کر دوسرے قبلے کی طرف رخ پھیرنے والے ہیں اور اسی بنا پر مخالفین کی طرف سے اس اعتراض کا موقع پیدا ہو رہا ہے کہ اپنے پہلے قبلے سے کیوں پھر گئے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ اگر یہ مخالفین اعتراض کریں تو اس کا جواب کیا ہے۔ اس سلسلے میں دوسری باتوں کے ساتھ یہ فقرہ ارشاد فرمایا جاتا ہے : وما جعلنا القبلتہ التی کنت علیھا الا۔۔۔ ’’ اور ہم نے وہ قبلہ جس تم تھے نہیں مقرر کیا گیا مگر اس لیے کہ:‘‘ یہاں کنت علیھا سے مراد بعینہ وہی چیز ہے جس کے متعلق اوپر کی آیت میں کا نو ا علیھا فرمایا گیا ہے ۔ اس کے معنی ’’ تو ہے ‘‘ کسی طرح بھی نہیں لیے جا سکتے سابقہ آیت قطعی طور پر اس کے معنی ’’ تو تھا ‘‘ متعین کر دیتی ہے ۔ اس کے بعد تیسری آیت میں تحویل قبلہ کا حکم اس طرح دیا جاتا ہے : قد نری تقلب ۔۔۔ شطر المسجد الحرام ’’ ہم دیکھ رہے ہیں تمہارے چہرے پر بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ۔ پس ہم پھیر دیتے ہیں تم کو اس قبلہ کی طرف جسے تم چاہتے ہو ، اب موڑ دو اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف ۔‘‘ ان الفاظ سے صاف نقشہ نگا ہ کے سامنے یہ آتا ہے کہ پہلے مسجد حرام کے سوا کسی اور قبلہ کی طرف رخ کرنے کا حکم تھا ۔ رسول اللہ ﷺ یہ چاہتے تھے کہ اب وہ قبلہ بدل دیا جائے ۔ اس لیے آپ ﷺ بار بار آسمان کی طرف منہ اٹھاتے تھے کہ کب تبدیلی قبلہ کا حکم آتا ہے ۔ اس حالت میں فرمان آ گیا کہ لو اب ہم اس قبلہ کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں جسے تم قبلہ بنانا چاہتے ہو ۔ پھیر دو اپنا رخ مسجد حرام کی طرف ۔ اس سیاق وسباق میں آیت وما جعلنا القبلہ الخ کو رکھ کر دیکھا جائے تو ان الٹی سیدھی تاویلات کی کوئی گنجائش نہیں رہتی جو ڈاکڑ صاحب نے یہاں پیش فرمائی ہے ۔ اللہ تعالیٰ صاف فرما رہا ہے کہ مسجد حرام سے پہلے جو قبلہ تھا وہ بھی ہمارا مقرر کیا ہوا تھا اور ہم نے اسے اس لیے مقرر کیا تھا کہ یہ دیکھیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون اس سے رو گردانی کرتا ہے ۔یہ اعتراض منکر حدیث ڈاکڑ عبدالودود صاحب کا ہے جن کا مکالمہ مولانا موددی سے سنت کی آئینی حیثیت کے بارے میں ہوا تھا ۔اس کا جواب اوپر دیا گیا ہے جو مولانا صاحب نے دیا ہے ۔
اعتراض نمبر۲۶۶
قبلے کے معاملہ میں رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنے یا نہ کرنے کا سوال کیسے پیدا ہوتا تھا ؟
اگر تسلیم کیا جائے کہ پہلا قبلہ خدا نے مقرر کیا تھا تو اس ٹکڑے کے کچھ معنی بھی نہیں بنتے کہ ’’ ہم نے یہ اس لیے کیا تھا تاکہ یہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا اور کون الٹے پائوں پھر جاتا ہے ۔ ‘‘ اس لیے کہ پہلے قبلے کو تعین کے وقت الٹے پائو ں پھر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ حضور ﷺ ایک قبلے کی طرف رخ کرتے تھے جو شخص حضور ﷺ کے ساتھ شریک ہوتا تھا وہ بھی اسی طرف رخ کرلیتا تھا ۔ ’’ الٹے پائوں پھرنے ‘‘ کا سوال اس وقت پیدا ہوا جب اس قبلے میں تبدیلی کی گئی ۔ اس وقت اس کے پرکھنے کا موقع آیا کہ کون اسی پہلے قبلے کو زیادہ عزیز رکھتا ہے اور کون رسول کے اتبا ع میں ( جس نے بحکم خدا وندی یہ تبدیلی کی ہے ) نئے قبلے کی طرف رخ کرتا ہے ۔
جواب: یہ محض قلت فہم اور قلت علم کا کرشمہ ہے ۔ منکرین حدیث کو یہ معلوم نہیں ہے کہ زمانہ جاہلیت میں کعبہ تمام اہل عرب کے لیے مقدس ترین تیرتھ کی حیثیت رکھتا تھا ۔ اسلام کی ابتدا جب اس کی بجائے بیت المقدس کو قبلہ بنایا گیا تھا تو یہ عربوں کے لیے سخت آزمائش کا موقع تھا ۔ ان کے لیے اپنے مرکزی معبد کو چھوڑ کر یہودیوں کے معبد کو قبلہ بنانا کوئی آسان کام نہ تھا اسی کی طرف آیت زیر بحث ہے یہ فقرہ اشارہ کرتا ہے کہ وان کانت ۔۔۔ لیضیع ایمانکم ( بقرہ ۱۴۳)’’ اگرچہ وہ قبلہ سخت گراں تھا مگر ان پر نہیں ، جنہیں اللہ نے ہدایت بخشی تھی ، اور اللہ تمہارے اس ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں ہے ۔‘‘ ان الفاظ سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس قبلے کے معاملہ میں الٹے پھر جانے کا سوال کیوں پیدا ہوتا تھا ۔ مزید برآں یہی الفاظ اس حقیقت کو بھی ظاہر کرتے ہیں کہ جو حکم قرآن میں نہیں آیا تھا بلکہ رسول پاک ﷺ کے ذریعے سے پہنچایا گیا تھا ، اسی کے ذریعے سے لوگوں کی ایمان کی آزمائش کی گئی تھی ۔ اس حکم کی پیروی جن لوگوں نے کی ،انہی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ہم تمہارے اس ایمان کو ضائع کرنے والے نہیں ہیں ۔ کیا اب بھی اس امر میں شک کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ غیر از قرآن بھی رسول کے پاس کوئی حکم بذریعہ وحی آ سکتا ہے اور اس پر بھی ایمان کا مطالبہ ہے ۔؟
نبی ﷺپر خود ساختہ قبلہ بنانے کا الزام
اعتراض نمبر۲۶۷
کہ یہ بات کے اس نئے قبلے کا حکم بھی خدا کی طرف سے آیا تھا، پہلے قبلے کا نہیں ، دو ہی آیات کے بعد قرآن نے واضح کر دیا ، جہاں کہا ہے کہ : لئن اتبعت اھوا ء ۔۔۔ اضالمین ( ۲: ۱۴۵) یعنی اگر تم العلم آ جانے کے بعد ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع کرے گا تو اس وقت بے شک ظالموں میں سے ہو جائے گا ۔ اس سے صاف واضح ہے کہ العلم ( وحی خدا وندی ) نئے قبلے کے لیے آئی تھی ۔ اگر پہلا قبلہ بھی العلم کے مطابق مقرر ہوتا تو یہاں یہ کبھی نہ کہا جاتا کہ العلم کے آنے کے بعد تم پہلے قبلے کی رخ نہ کرنا ۔
جواب:مجھے شکایت تھی کہ منکرین حدیث میری عبارتوں کو توڑ مروڑ کر میرے ہی سامنے پیش فرماتے ہیں ، مگر اب کیا اس کی شکایت کی جائے جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیت کو توڑ مروڑ کر ان کے من مانے مطلب نکالنے میں اس قدر بے باک ہوں ان کے سامنے ماوشما کی کیا ہستی ہے ۔ جس آیت کا آخری ٹکڑ انقل کر کے اس سے یہ مطلب نچوڑا جا رہا ہے اس پوری آیت اور اس سے پہلے کی آیت کے آخری فقرے کو ملا کر پڑھئیے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ منکرین حدیث قرآن مجید کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں ۔ بیت المقدس کو چھوڑ کر جب مسجد حرام کو قبلہ بنایا گیا تو یہودیوں کے لیے اسی طرح طعن و تشنیع کا موقع پیدا ہو گیا جس طرح قبلہ سابق پر اہل عرب کے لیے پیدا ہو اتھا ۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : و ان الذین اوتو ا الکتب ۔۔۔۔ الذا لمن الظالمین (بقرہ ۔۱۴۴۔۱۴۵) ’’ اہل کتاب خوب جانتے ہیں کہ یہ ( یعنی مسجد حرام کو قبلہ بنانا ) حق ہے ، ان کے رب کی طرف سے ، اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے غافل نہیں ہے ۔تم خواہ کوئی نشانی ان اہل کتاب کے پاس لے آئو ، یہ تمہارے قبلے کی پیروی نہ کریں گے اور تم ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے نہیں ہو ، اور نہ ان میں سے کوئی کسی کے قبلے کی پیروی کرنے والا ہے اور اگر تم نے وہ علم آ جانے کے بعد جو تمہارے پاس آیا ہے ان کی خواہشات کااتباع کیا تو تم ظالموں میں سے ہوں گے ۔ ‘‘ اس سیاق وسباق میں جو بات کہی گئی ہے اس سے یہ مطلب آخر کیسے نکل آیا کہ پہلا قبلہ ’’ العلم ‘‘ کے مطابق مقررنہیں کیا گیا تھا اور صرف یہ دوسرا قبلہ ہی اس کے مطابق مقرر کیا گیا ہے اس میں تو صرف یہ کہا گیا ہے کہ جب خدا کا حکم بیت المقدس کو چھوڑ کر مسجد حرام کو قبلہ بنانے کے لیے آ گیا ہے تو اب اس العلم کے آ جانے کے بعد محض یہودیوں کے پرپیگنڈے سے متاثر ہو کر سابق قبلے کی طرف رخ کرنا ظلم ہو گا ۔ کسی منطق کی رو سے بھی اس کا یہ معنی نہیں پہنائے جا سکتے کہ پہلے جس قبلے کی طرف رخ کیا تھا وہ حضور ﷺ کا خود ساختہ تھا ۔ خصوصاََ جبکہ اس سے پہلے کی آیتوں میں وہ کچھ تصریحات موجود ہیں جو آیت نمبر ۱۴۳ ،۱۴۴ میں بھی نقل کی جا چکی ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ پر خود ساختہ قبلہ بنانے کا الزام رکھنا ایک بد ترین قسم کی جسارت ہے ۔
اعتراض نمبر۲۶۸
دوران نماز تحویل قبلہ کے لیے وحی کا نزول ہوا تھا ۔
جواب: مصنف سیرت طیبہ ( ۱۔۲۱۶) یوں بیان کرتے ہیں کہ ’’ قد نریٰ تقلب ۔۔۔ شطر المسجد الحرام ‘‘ ۔
ترجمہ: ہمیں معلوم ہے کہ آپ ﷺ بار بار منہ اٹھا کر آسمان کو دیکھ رہے ہیں ۔ لیجئے آپ کو اپنے پسندیدہ قبلہ کی اجازت دیتے ہیں آپ ﷺ اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیجئے ۔
یہ حکم رجب یا شعبان دو ہجری میں نازل ہوا ، حضور اکرم ﷺ حضرت بشر بن براء بن معرور کے یہاں دعوت پر تھے ، ظہر کی نماز میں جب دو رکعتیں پڑھی جا چکی تھیں یہ آیت نازل ہوئی ، چنانچہ اثنائے نماز ہی میں حضور ﷺ نے رخ بدل لیا ، بعدہ شہر میں منادی کرا دی اور اس طرح مسلمانوں نے شما ل سے جنوب کو رخ پھیر لیا کیونکہ بیت المقدس مدینے سے شمال کو ہے اور مکہ مکرمہ جنوب کو۔ ( دوران نماز وحی کے نزول کی دلیل یہ دیتے ہیں ) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب سے حضور اکرم ﷺ کے دل میں تحویل قبلہ کی خواہش پیدا ہوئی ہو گی آپ ﷺ نے بارہا صحابہ سے اس کا ذکر کیا ہو گا کہ تحویل قبلہ کا حکم آنے والا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دوران نماز میں حکم نازل ہوا اور حضور ﷺ شمال سے چل کر جنوب کی طرف آ گئے اور باقی دو رکعتیں کعبے کی سمت منہ کر ادا کیں ، تو نماز میں کوئی گڑ بڑ نہ ہوئی ۔ اگر آپ ﷺ نے صحابہ کو اس بارے میں نہ بتایا ہوتا اور ذہنی طور پر اس کے لیے تیار نہ ہوتے ، تو نماز میں حضور ﷺ کے چلنے اور خاموشی سے کعبے کی طرف منہ کر لینے سے صحابہ کیسے سمجھ سکتے کہ یہ تحویل قبلہ ہے ۔
مصنف مذکور کی یہ دلیل مفروضے پر قائم ہے آپ ﷺ کی زندگی کا بغور مطالعہ کرنے سے مترشح ہوتا ہے کہ آپ ﷺ پر جب سے وحی کا نزول ہوا تب سے مدت العمر کبھی بھی ایک موقع ایسا نہیں آیا کہ دوران نماز وحی کا نزول ہوا ہو ۔ نزول وحی کے وقت آپ ﷺ کی کیفیت بدل جاتی تھی اور صحابہ ؓ بھانپ لیتے تھے کہ وحی کا نزول ہو رہا ہے ۔ وحی کے نزول کی کیفیات کے شواہددوران نماز نہیں دیکھے گئے جو اس سے قبل وحی کی کیفیات کا ذکر صحابہ کرام ؓ کرتے ہیں ۔ اگر قبلے کی تبدیلی کا ذکر کیا بھی ہوتا تب بھی وحی کی وہ کیفیات اس وقت دیکھنے میں نہیں آئیں جن سے صحابہ کرام ؓ جان گئے ہوں گے کہ واقعی وحی کا حکم آ گیا ہے اور رخ پھیر لیا جائے ۔ صحابہ کرام ؓ کو اس دن اور اس نماز کے متعلق نہیں بتایا گیا تھا تو وہ کیسے بھانپ گئے کہ واقعی اس نماز کے دوران اپنا رخ کعبے کی طرف موڑ دینا ہے ۔
۱۔ اس کے علاوہ یہ دلیل صحیح احادیث کے خلاف ہے ۔ ایسی دلیل لانے کی ضرورت ہی کیا ۔
۲۔ ذرا اس منظر کو دیکھئے اگر کوئی اور امام نماز پڑھا رہا ہے تو ۔۔۔۔۔ کیا امام اور مقتدی اپنی اپنی جگہوں پر کھڑے ہوتے ہوئے جنوب کی طرف منہ کر لیں گے یا کوئی اور طریقہ اپنائیں گے ؟پہلی صورت تو ممکن نہیں ہے کیونکہ اس طرح امام پیچھے ہو جائے گا اور مقتدی آگے ۔ بصورت دیگر امام کو شمال سے جنوب کی سمت جانا پڑے گا ، تو کیا وہ صفوں کو درمیان سے چیرتا ہوا دوسری طرف جائے گا یا پہلی صف کے آگے سے گھوم کر صفوں کے کنارے کنارے چلتا ہوا عورتوں کی آخری صف سے بھی پیچھے کھڑ ا ہو گاا ور مرد عورتوں اور عورتیں مردوں کی جگہ جائیں گی ۔۔۔ لہذا یہ درست نہیں ہے کہ دوران نماز وحی کا نزول ہو ا تھا بلکہ خاصا وقت پہلے نزول ہو چکا تھا ۔
مولانا شبلی کا مغالطہ : وہ لکھتے ہیں کہ ہجرت سے پہلے حضور اکرم ﷺ مقام ابراہیم پر کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ، اور کیونکہ بیت المقدس مکے سے بہ جانب شمال واقع ہے ۔ اس مقام پر قیام کرنے سے کعبہ اور بیت المقدس دونوں سامنے آجاتے اور اس طرح حضور ﷺ بیک وقت دونوں قبلوں کی طرف منہ کر لیا کرتے تھے ۔ لیکن یہ خیال محل نظر ہے کیونکہ وہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ حضور ﷺ ہر نماز مقام ابراہیم پر کھڑے ہو کر ادا کرتے ، لیکن اگر کعبے سے شمال ، مشرق یا مغرب کی سمت میں ہوتے تو پھر یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا تھا ۔ اس میں مصنف سیرت طیبہ کو بھی سہو ہوا ہے کیونکہ مقام ابراہیم خانہ کعبہ کے مشرق میں ہے ، اس صورت میں آپ ﷺ جنوب کی طرف قیام فرمائیں تو دونوں کعبے سامنے آ جاتے ہیں ۔
۳۔ اسی طرح مولانا شبلی کا یہ خیال بھی درست نہیں معلوم ہوتا کہ حضور ﷺ کعبے کو بعد از بعثت ہی قبلہ قرار دینا چاہتے تھے ، لیکن چونکہ کفار مکہ کا قبلہ بھی کعبہ ہی تھا اور امتیاز کی گنجائش نہیں نکل سکتی تھی اس لیے اس خیال سے دست بردار ہو گئے ۔ دراصل حضور اکرم ﷺ قبل از نبوت ہی اپنے رجحان طبع کی بنا پر یہود و نصاریٰ سے زیادہ مانوس تھے کیونکہ بت پرستوں میں جو اخلاقی برائیاں پائی جاتی تھیں ، حضور ﷺ ان سے سخت متنفر تھے اور آپ ﷺ کا خیال تھا کہ دختر کشی ، شراب نوشی اور قمار بازی وغیرہ کا اصلی سر چشمہ صنم پرستی اور خدا ناشناسی ہی تھی اور یہی وجہ ہے کہ قبل از بعثت حضور ﷺ نے کافی عرصہ یا تو تنہائی میں بسر کیا اور یا عبادت الہی میں ۔ ۔۔۔ اگر حضور ﷺ آغاز کار ہی سے کعبۃ اللہ الحرام کو قبلہ قرار دے دیتے تو اسلام اور اہل کتاب میں کس چیز کو قدر مشترک قرار دیتے ، اس اقدام سے اہل کتاب بلک جاتے ، اور حضور اکرم ﷺ کی سکیم پروان نہ چڑھ سکتی کیونکہ وہ ایک ایسے نبیﷺ سے اشتراک عمل پر کیسے آمادہ ہوتے جس نے پہلے دن ہی سے اپنا راستہ علیحدہ کر لیا تھا اگرچہ اہل کتاب نے حضور اکرم ﷺ کی مکی زندگی کے دوران میں خلاف توقع ، اسلام کی کوئی امداد نہیں کی ، لیکن اشتراک قبلہ سے اتنا فائدہ ضرور ہوا ، کہ اگر وہ کفار قریش کے منہ نہیں آئے ، تو حضور اکرم ﷺ کا مد مقابل بننے سے بھی گریز کیا ۔
اعتراض نمبر ۲۶۹
حضورؐ کے لیے یہ قطعاََ زیبا نہ تھا کہ نبوت کے دعویٰ کے باوجود وہ کعب بن اشرف کو نا گہانی قتل کروا دیتے ہیں ان کو تو چاہیے تھا کہ اگر واقعی کوئی غلطی کی تھی عفو درگزر سے کام لیتے ہوئے اس کو معاف کر دیتے اور حضرت عیسیٰ ؑکے اسوہ پر کاربند رہتے اور ان کے ارشاد پر عمل پیرا ہوتے۔’’ من ضربک علیٰ خدک َ الاَیمَن فَاَدِر لَہ اَلاَیِسفَر‘‘( ضیاء النبی جلد سوم۔۴۴۸) ترجمہ: ’’ جو تیرے دائیں رخسار پر طمانچہ مارے تم اپنا بایاں رخسار اس کے سامنے کردو‘‘۔
جواب:کعب بن اشرف ایک فتنہ فساد پھیلانے والا شخص تھا۔ اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کی دشمنی میں بہت آگے تھا۔ یہ بدبخت حضورؐ کی ہجو کیا کرتا تھا اور اپنے غلیظ اشعار سے قریش مکہ کو حضورؐ کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے آگ بھڑکائے رکھتا تھا۔ بدر کی جنگ میں ۷۰کافر کام آئے ان میں بڑے بڑے سردار موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔یہ سن کر وہ بولا! اگر سردار واقعی مارے گئے ہیں تو زمین کی پشت پر زندہ رہنے سے بہتر ہے کہ ہمیں زمین کے شکم میں داخل کر دیا جائے۔
کعب اگر شریف اور امن خواہ شہری ہوتا تو جو اس نے معاہدہ کیا تھا اسے نہ توڑتا اور دیانت داری سے اس پر عمل پیرا رہتا۔ یہی نہیں پھر مسلمانوں کے خلاف ان کے دشمن قریش مکہ کے ہاں جا کر آگ نہ بھڑکاتا اور انھیں اپنے مقتولوں کابدلہ لینے کے لیے مدینہ پر لشکر کشی کی راہ نہ سجھاتا اور انھیں اپنے تعاون کی پیش کش نہ کرتا۔ ایک طرف معاہدہ شکنی کرتا ہے اوردوسر ی طرف حکومت وقت کے مخالف قوتوں کو ان پر حملہ کرنے کی دعوت دیتا ہے گویا یہ ریاست سے بغاوت ہے اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرنا ہے۔ ایسے میں ریاست کی نمائندہ حکومت اس کا سد باب نہ کرتی تو یہ فتنہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا اور نہ جانے کس کس کو اپنی لپیٹ میںلیتا‘ نیز ہر طرف بد امنی و خلفشار پھیل جاتا۔ لہٰذا عوام کو امن و امان ، ان کی جان و مال اور عزت کی حفاظت کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ یہی نہیں کہ وہ آپؐ اور آپ کے صحابہ کی ہجو کر کے دل آزاری اور دکھ دیتا بل کہ پاکیزہ و پارسا اور عصمت سے بھرپور خواتین خانہ کی طرف عشق بازی کی جھوٹ موٹ کی تہمتیں لگاتا رہتا ہے۔ ایسی صورت میں اس شخص کو ٹھکانے لگانا عین عدل و انصاف ہے۔ اس کو ڈھیل دے کر فتنہ و فساد کے مزید مواقع فراہم کرنا بڑی غلطی ہے۔ کیوں کہ ’’ الفتنۃ اشد من القتل‘‘ ( فتنہ قتل سے بھی سخت ہے)
حضرت موسیٰ ؑاللہ تعالیٰ کے اولو العزم رسولوں میں سے ہیں۔ ان پر تورات نازل ہوئی۔ انھوں نے اہل باطل سے جہاد کیا اور اس جلیل القدر کتاب میں دشمنان خدا کے خلاف جہاد کا حکم نہیں ہے۔ اگر دشمنان حق، معاشرہ کے نا سور اور فتنہ پروروں کو موت کے گھاٹ اتارنا جائز نہ ہوتا تو حضرت موسیٰؑ کبھی جہاد نہ کرتے نیز جہاد شان رسالت کے منافی نہیں لہذٰا کعب بن اشرف جیسے بدطینت اور فسادی کو قتل کرنا، حضورﷺ کی شان رحمۃ اللعالمینی کے منافی نہیں ہو سکتا بلکہ یہ تو رحمۃ للعالمینی کی شان ہے کہ اس بد بخت کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ورنہ اگر وہ زندہ رہتا تو مزید فتنہ پھیلانے کا باعث بنتا اور انسانیت کی تباہی کرنے یا کروانے سے ایک لمحہ بھی نہ چوکتا اچھا ہوا کہ وہ اس جہاں سے چل بسا اور اپنے لیے مزید آگ کا ایندھن اکٹھا نہ کیا ۔ کعب بن اشرف کے قتل کے بعد دوسرے شر پسند یہودی ابو رافع بن ابو الحقیق کو ہلاک کر ڈالا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب یہودیوں نے سارے معاہدے توڑ ڈالے تو آنحضرتؐ نے حکم فرمایا’’مَن ظَفَر ثُم بِہٖ رِجَال یَہُودِِ فَاقتُلُوہُ‘‘ ( جب کوئی یہودی تمھارے قابو میں آئے تو اسے زندہ نہ چھوڑنا)
غداری کی سزا:غداری کے جرم کی سزا رومی قانون سے لے کر برطانوی قانون تک ہر دور میں موت رہی ہے۔ برطانیہ کے مرڈر ایکٹ(Murder Act )۱۹۶۵ کے تحت موت کی سزا منسوخ کر دی گئی لیکن غداری کے جرم پر سزائے موت میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی
ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں مختلف ادوار میں غداری کی جو تعریفیں بیان کی گئی ہیں ان کی رو سے درج ذیل افعال غداری متصور ہوتے ہیں۔
۱: کسی قوم یا حکمران سے ایسے فعل کے ذریعے دغا کرنا جو اس کی سلامتی کے لیے خطرناک ہو۔
۲: کسی آئینی حکومت کے خلاف بغاوت کی تنظیم کرنا یا ترغیب دینا۔ اپنے فعل ‘ تحریر و تقریر کے ذریعے لوگوں کو مشتعل کرنا۔
۳: نویں صدی کے قانون کی رو سے ہر وہ فرد سزائے موت کا مستحق ہے جو سربراہ کی جان کے خلاف کسی کاروائی میں ملوث ہو۔
۴: غداری کی صحیح تعریف ۱۴ ویں صدی سے پہلے متعین نہ تھی اس لیے اس کا انحصار بادشاہ اور اس کے منصفین کے فیصلہ پر تھا۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...