Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم |
حسنِ ادب
سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم

صلح حدیبیہ
ARI Id

1689956752314_56117776

Access

Open/Free Access

Pages

۳۴۰

صلح حدیبیہ
ذوالقعدہ سن ۶ ہجری میں آنحضرت ﷺ ۱۴۰۰ صحابہ کرام کے ساتھ عمرے کی نیت سے مکہ کو روانہ ہوئے۔ آپؐ نے اس خیال سے کہ قریش مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روک نہ دیں‘ ایک شخص کو مکہ بھیجا تا کہ وہ حالات کا جائزہ لے۔ پتہ چلا کہ کفار مکہ نے تمام عرب قبائل کو جمع کر کے یہ طے کیا ہے کہ مسلمانوں کو ہر گز مکہ میں داخل نہ ہو نے دیں گے۔ کفار قریش نے ایک دستہ فوج لے کر مسلمانوں کا راستا روکنے کے لیے مکہ سے نکل کر مقام ’’ بلاح‘‘ میں ڈیرے ڈال دئیے ۔ خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابو جہل دو سو سواروں کا دستہ لے کر مقام غنیم تک پہنچ گئے۔ آپؐ نے شاہراہ سے ہٹ کر سفر کرنا شروع کر دیا اور عام راستے سے کٹ کر کے مقام حدیبیہ پر پڑائو کیا۔ حدیبہ کے مقام پر آپ ﷺ کی ناقہ قصویٰ بیٹھ گئی لوگوں نے خیال کیا کہ تھکاوٹ کے سبب بیٹھ گئی ہے لیکن آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ حسبھا حابس الفیل عن مکہ ‘‘ آپؐ نے مناسب سمجھا کہ مصالحت ہو جائے۔ بدیل بن ورتاء آپؐ کا پیغام لے کر کفار قریش کے پاس گیا۔ اس پر عروہ بن مسعود ثقفی نے قریش سے کہا کہ آپؐ نے نہایت بھلائی کی بات کی ہے ۔ لہذٰا اجازت دو تا کہ میں ان سے معاملات طے کروں۔ قریش نے یہ بات مان لی۔
معاہدہ کی کاروائی
آنحضرت ﷺنے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم ، اس پر قریش کانامزد سفیر سہیل بن عمرو سیخ پا ہو گیا اور کہنے لگا کہ ہم رحمن کو نہیں جانتے ، وہ لکھو جو ہم لکھا کرتے ہیں یعنی باسمک اللھم ، مسلمانوں کو یہ بات سخت ناگوار گزری ، انہوں نے کہا بے شک اللہ تعالیٰ رحمن ہے اور ہم یہی لکھیں گے ، اس نے کہا اگر تم اس بات پر غصے ہو تو ہم اس بات چیت کو یہی ختم کرتے ہیں۔ حضور ﷺ نے حکم دیا کہ لکھ : با سمک اللھم ۔ حضرت علی ؓ نے فرمان رسالت کے مطابق لکھا باسمک اللھم ۔ آپ ﷺ نے فرمایا لکھو! محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ، یہ وہ معاہدہ ہے ، رسول اللہ ﷺ کا لفظ سن کر سفیر پھر تڑپ اٹھا اور کہا ، جھگڑا تو یہی ہے ، اگر ہم آپ کو رسول اللہ ﷺ مانتے تو آپ ﷺ کی مخالفت کیوں کرتے ؟ تم لکھو ! کہ محمد بن عبداللہ ! مسلمان ، سہیل کی پہلی تجویز پر غضب ناک تھے اب اس بات نے جلتی آگ پر تیل چھڑک دیا اور مسلمان سراپا احتجاج ہو گئے ، سب نے کہا ، محمد رسول اللہﷺ ہی لکھا جائے ۔ فریقین کی تلخ کلامی اور سخت جملوں کا تبادلہ ہو رہا تھا آوازیں آسمان کو چھو رہی تھیں ، حضور ﷺ فریقین کو خاموش ہونے کی ترغیب دے رہے تھے اور دست مبارک سے خاموش ہونے کا اشارہ کر رہے تھے ۔ سہیل کا ایک ساتھی حویطب اس منظر پر تصویر حیرت بنا ہوا تھا اور اپنے تیسرے ساتھی سے کہہ رہا تھا : میں نے کسی قوم کو اپنے دین کے بارے میں اس شدت سے احتیاط کرے والا نہیں پایا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا : اے علیؓ ! میں محمد بن عبداللہ ہوں ، تم یہی لفظ لکھو ۔
مسلمانوں پر صلح حدیبہ کی شرائط سخت نا گوار گزریں حتیٰ کہ حضرت عمرؓ اپنے جذبات کی رو میں بہہ گئے اور اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکے جب سہیل کے ساتھ شرائط طے ہو گئیں اور معاہدہ تحریر کر دیا اس وقت حضرت عمر ؓ آپ ﷺکے پاس آئے اور کہنے لگے ۔ یا رسول اللہ ﷺ ، کیا آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : بے شک میں اللہ کا سچا نبی اور رسول ہوں ۔ حضرت عمر ؓ نے کہا ، کیا ہمارے مقتول جنت میں نہیں اور کیا ان کے مقتول دوزخ میں نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا بے شک ایسا ہی ہے ۔ پھر عمر ؓ بولے کہ ہم دین کے معاملہ میں یہ ذلت کیوں گوارہ کریں اور عمرہ کیے بغیر لوٹ جائیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بھی ہمارے درمیان اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا بے شک میں اللہ کا رسول اور اس کا بندہ ہوں میں اس کی نا فرمانی نہیں کرتا ، وہ مجھے ہرگز ضائع نہیں کرے گا اور وہ میرا مدد گار ہے ۔ عمر ؓ بولے کیا آپ ﷺ نے نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کی زیارت کریں گے اور اس کا طواف کریں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں ایسا ہی کہا تھا مگر میں نے تمہیں یہ نہیں کہا تھا کہ تم اس بار خانہ کعبہ کا طواف کرو گے تو آپ ﷺ نے فرمایا: یقینا کعبہ شریف کے پاس جانے والے ہو اور اس کا طواف کرنے والے ہو ۔
یہ کلمات جو حضرت عمر ؓ کی زبان سے نکلے ، وہ کہتے ہیں کہ ان کی تلافی کے لیے صدقے کرتا رہا ، روزے رکھتا رہا ، نوافل پڑھتا رہا اور غلام آزاد کرتا رہا تاکہ جو لغزش مجھ سے اس دن سرزد ہوئی تھی وہ معاف کر دی جائے ۔ یہ سلسلہ میں نے جاری رکھا یہاں تک کہ مجھے اللہ تعالیٰ سے رحمت و بھلائی کی قوی امید ہو گئی ۔
معاہدہ کی شرائط
۱: فریقین کے درمیان دس سال تک لڑائی موقوف رہے گی۔
۲: مسلمان اس سال بغیر عمرہ ادا کیے واپس چلے جائیں ۔
۳: آئندہ سال عمرہ کے لیے آئیں اور صرف تین دن مکہ میں ٹھہر کر لوٹ جائیں۔
۴: تلوار کے سوا کوئی دوسرا ہتھیار لے کر نہ آئیں۔ تلوار بھی نیام کے اندر رکھ کر، تھیلے وغیرہ میں بند ہو۔
۵: مکہ میں جو مسلمان پہلے سے مقیم ہیں ان میں سے کسی کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں اور مسلمانوں میں سے اگر کوئی مکہ میں رہنا چاہے تو اس کو نہ روکیں۔
۶: کافروں یا مسلمانوں میں سے کوئی شخص اگر مدینہ چلا جائے تو واپس کر دیا جائے لیکن اگر کوئی مسلمان مدینہ سے مکہ میں چلا جائے تو وہ واپس نہیں کیا جائے گا۔
۷: قبائل عرب کو اختیار ہوگا کہ وہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہیں دوستی کا معاہدہ کر لیں۔
۸: بد عہدی اور خیانت نہ کی جائے گی۔
اعتراض نمبر ۲۷۰
اس واقعہ سے بعض یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ آپ لکھنا پڑھنا جانتے تھے کیوں کہ آپؐ نے رسول اللہﷺ کا لفظ مٹا کر محمد بن عبد اللہ لکھ دیا۔
جواب: زبان کے آگے خندق نہیں لیکن کوئی جتنا شور برپا کرے ، حقائق کو بدلا نہیں جا سکتا ۔ آولاََ تو آپ ؐ کا یہ معجزہ ہے کہ لکھنا پڑھنا نہ جاننے کے باوجود یہ الفاظ تحریر فرمائے۔ دوسرا یہ کہ بے شبہ اُمی ہونا آپﷺ کا شرف و فخر ہے اور خود قرآن میںیہ وصف عزت و شرف کے موقع پر استعمال ہوا ہے۔ ’’ اَلَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الَّرسُولَ الَّنبِیَّ الاُ مّیَّ‘‘ ( الاعراف۔۱۵۷ ) تیسرا مو لانا شبلی فرماتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ لکھنے پڑھنے کا کام روزمرہ جب نظر سے گزرتا ہے تو ناخواندہ شخص بھی اپنے نام سے آشنا ہو جاتا ہے۔ اس سے امیت میں فرق نہیں آتا۔ واقعی آج کل ایسے اشخاص دیکھنے میں آتے ہیں جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے لیکن اپنا نام لکھ لیتے ہیں۔ اپنے نام سے چیک پر دست خط کر کے بنک سے رقم نکلواتے ہیں۔ شناختی کارڈ فارم پر دست خط کر کے شناختی کارڈ بنواتے ہیں ۔ اس قسم کی اور دستاویزات پر بھی اپنا نام ثبت کرتے ہیں ۔یہ کوئی ان ہونی یا اچنبھے کی بات نہیں۔ ابن منظور ’’بعثت فی الامین رسولا منھم ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں’’ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا اور آپ بھی لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے۔ قرآن کی تلاوت کرنا ان کا معجزہ تھا۔ امام ابن جریر طبری ’’ الذین لایکتبون ولا یقرء ون‘‘ یعنی وہ لوگ جو لکھ نہ سکیں اور پڑھ نہ سکیں ‘‘ زمخشری بھی’’ امی‘‘ کے مفہوم میں لکھتے ہیں کہ امی کی نسبت عربوں کی طر ف ہے جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ امام قرطبی کہتے ہیں کہ امی کا لفظ ان پڑھ لوگوں کی طرف منسوب ہے اور امی وہ لوگ ہیں جو اسی حالت پر ہوں جس حالت میں مائوں نے انھیں جنم دیا۔ امام بیضاوی۔ امام شوقانی، شیخ علی المہائمی، مفتی محمد عبدہ، علامہ مراغی مرحوم، عصر حاضر کے محمود حمزہ، حسن علوان اور احمد برانق، استاد ابو زہرہ اور احادیث کی کتب میں امی کا مفہوم ایسا ہے جیسا اوپر مذکور ہوا۔ سیرت نگارابن حبان، حزام اندلسی، علامہ سہیلی، ابن خلدون وغیرہ بھی وہی مفہوم لیتے ہیں۔ امام سہیلی نے صاف لکھ دیا کہ آپ نے رسول اللہ کا لفظ اپنے ہاتھ سے مٹا کر محمد بن عبد اللہ لکھنے کا حکم دیا۔( تفصیل دیکھئے۔ ن۴۔۷۰۸ تا ۷۱۳)
جب صلح نامہ لکھا جا رہا تھا تو اس میں یہ لکھا کہ ’’ اس پر محمد رسول اللہﷺ‘‘ نے صلح کی۔ کافروں نے کہا ہم اس پر اقرار نہیں کرتے۔ اگر ہم مانتے کہ آپ ﷺاللہ کے رسول ہیں تو آپ کو کسی شے سے منع نہ کرتے لیکن آپ محمد بن عبد اللہ ہیں۔ آپ نے فرمایا میں اللہ کا رسول اور محمد بن عبد اللہ ہوں ۔پھر حضرت علی ؓسے فرمایا’’ لفظ رسول اللہ مٹا دو ‘‘ انھوں نے کہا بہ خدا! میں آپ کو کبھی بھی نہیں مٹائوں گا۔ آپؐ نے مکتوب کو پکڑا حال آنکہ آپ اچھی طرح نہ لکھتے تھے۔ چناں چہ آپؐ نے لکھا یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبد اللہ نے صلح کی ہے۔ ( بخاری کتا ب المغازی باب عمرۃ القضاہ۔۳)
صحیح مسلم میں ہے جب صلح نامہ لکھا جانا شروع ہوا ( حضرت علیؓ کاتب تھے) انھوں نے یہ لکھا یہ صلح نامہ ہے جس پر اللہ کے رسول محمدﷺ نے یہ فیصلہ کیا ہے مکہ کے کافروں نے کہا اس کو ہم نہیں مانتے۔ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول سمجھتے ہوتے تو آپ کو روکتے ہی کاہے کو۔یوں لکھو جس پر محمد عبداللہ کے بیٹے نے فیصلہ کیا۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور محمد بن عبد اللہ ہوں ۔ آپ نے حضرت علیؓ سے فرمایا رسول کا لفظ مٹا دیں۔ انھوں نے کہا خدا کی قسم کبھی بھی اس کو نہیں مٹائوں گا۔ آخر آپ نے ان سے کاغذ لے لیا۔ آپ اچھی طرح لکھنا نہیں
جانتے تھے لیکن آپ نے ( معجزے کے طور پر) یوں لکھ دیا یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد بن عبد اللہ نے فیصلہ کیا ہے۔ ( صحیح مسلم۔ ج۲ کتاب الجہاد باب عمرہ قضتاص۔۶۷۲)
اَلَّذِینَ یَتَّبِعُو نَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الاُمِّ اَلَّذِینَ یَجِدُونہَ مَکتُوباََ عِندَھُم فِی التَّورَاۃِ والاِنجِیلِ ۔ (الاعراف۔۱۵۷)
ترجمہ: ’’ یعنی وہ لوگ جو حضرت محمد ﷺ کو جو امی نبی ہیں ، پیروی کرتے ہیں جن کے اوصاف کو وہ اپنے ہاں تورات و انجیل میں لکھا پاتے ہیں ‘‘۔علامہ زرقانی شرح مواہب لدنیہ میں لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ امی تھے ۔ آپ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے ۔ صلح حدیبہ کے موقع پر حضرت علیؓ کے بتانے پر آپ ﷺ نے ’’ رسول اللہ ‘‘ کے الفاظ مٹا کر ابن عبداللہ لکھنے کا حکم دیا چناں چہ حضرت علیؓ نے عبارت یوں بنا لی ، محمد بن عبداللہ ۔ پھر ایک دلچسپ واقعہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ کی ایک روایت کے ظاہر الفا ظ کی بناء پر اندلس کے ایک عالم ابو الولید باجی (۴۰۳۔۴۷۴ھ) نے اس بات کا اظہار کیا کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے ہاتھ سے ابن عبداللہ تحریر فرمایا تھا ، بس اتنا کہنا تھا کہ اندلس میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا اور علمائے اندلس نے اس پر زندیق کا فتویٰ لگایا اس کے اس عقیدے کو قرآن کے خلاف قرار دیا ، چنانچہ ابو الولید باجی نے اس موضوع پر ایک خط کے ذریعے شام ، مصر اور عراق کے علماء سے فتوی پوچھا : اس کے جواب میں جو،اور علماء نے یہ فتویٰ دیا کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے ہاتھ سے قطعاََ نہیں لکھا تھا بلکہ بخاری کے الفاظ بطریق مجاز ہیں یعنی لکھنے کا حکم دیا ۔ امام ابن حزم نے بھی یہی لکھا کہ آپ ﷺ نے ’’محمد رسول اللہ ﷺ‘‘ اپنے ہاتھ سے مٹا دیا اور کاتب کو حکم دیا کہ وہ محمد بن عبداللہ لکھیں اسی پر سیرت نگاروں اور مورخین کا اتفاق ہے ۔
اعتراض نمبر ۲۷۱
’’واٹ‘‘ ( ضیاء النبی ۴۱۲۔۴۱۳) ’’ کہتا ہے کہ حضور (ﷺ)نے کفار مکہ کے ساتھ کیے جانے والے حدیبیہ معاہدے کو بھی توڑا تھا اور یہودیوں سے آپؐ نے جو معاہدے کیے تھے ان کو توڑنے کے بھی آپ ذمہ دار ہیں۔ نعوذ باللہ
جواب:کفار نے معاہدہ حدیبیہ کو توڑا جس کی وجہ یہ تھی کہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف تھا۔ بنو بکر نے شب خون مارا اور حدود حرم میں ان کا قتل عام کیا اور قریش کا حلیف ہونے کا اعلان کیا۔صلح نامہ حدیبیہ دس سال کے لیے تھا اسے توڑ دیا اور معاہدہ شکنی کا الزام مسلمانوں کے سر تھوپ دیا۔ حال آنکہ یہ معاہدہ اہل مکہ نے توڑا تھا۔ بنو خزاعہ نے مدینہ پہنچ کر تمام صورت حال آنحضرتؐ سے بیان کر دی۔ اب صورت حال یہ رہ گئی تھی کہ ۱: مقتولین کا خون بہا ادا کیا جاتا بہ شرطیکہ قریش کا غرور اس کی اجازت دیتا اور بنو خزاعہ بھی قبول کرتے۔
۲: قریش بنو بکر کی حمایت سے کنارہ کش ہوجائیں تا کہ بنو بکر سے بدلہ لیا جا سکے۔
۳: پہلی دو شرطیں قریش کو منظور نہ تھیں اور تیسری یعنی جنگ کی قریش میں طاقت نہ تھی۔ صرف وہ یہ کر سکتے تھے کہ مسلمانوں سے تجدید معاہدہ کیا جائے۔ ابو سفیان تجدیدمعاہدہ کے لیے مدینہ جاتا ہے اس کا جانا اس امر کا ثبوت ہے کہ قریش نے جارحیت کی ہے اور انھوں نے معاہدہ شکنی کی ہے۔تو معاہدہ شکنی کا الزام مسلمانوں پر لگانا غیر اخلاقی اور ناانصافی ہے۔
کفار جو چاہے کرتے رہیں وہ آزاد ہیں اور ان پر کسی قسم کی قانونی ، اخلاقی پابندی لاگو نہیں ہوتی اور نہ ہی کو ئی اعتراض وہ اپنے سر ڈالتے ہیں۔ ان کا اپنا قصور بھی مسلمانوں کے کھاتے ڈالاجاتا ہے۔ واٹ نے بھی یہی طرز اپنائی ہے حال آنکہ وہ بہ خوبی جانتا ہے کہ معاہدہ حدیبیہ کفار نے توڑا تھا۔ اگر معاہدہ نہ توڑتے تو اس کی تجدید کے لیے ابوسفیان مدینہ کیوں جاتا؟ ابو سفیان مایوس لوٹا اور تجدید معاہدہ نہ ہو سکی۔ کفار کی یہی معاہدہ شکنی فتح مکہ کاباعث بنی۔
جہاں تک یہودیوں کے ساتھ معاہدات کا تعلق ہے ۔یہودیوں نے بار بار عہد شکنی کی۔ کفار نے مدینے والوں پر جتنے حملے کیے ان میں یہودیوں کا کسی نہ کسی طرح حصہ تھا۔ یہودی مسلمانوں کے مخالف گروہوں کے ساتھ ساز باز کرتے رہتے تھے۔ مسلمانوں کو ٹھکانے لگانے کی ہر ممکن کوشش بھی کی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ان کی تدبیر پر تقدیر خنداں کناں تھی(تدبیر کند بندہ تقدیر زند خندہ)۔ اگر واٹ کو نظر نہ آئے تو یہ جانب داری ہے اور تاریخی حقائق کے ساتھ اس سے بڑا مذاق کیا ہو سکتا ہے؟ معاہدہ کی تما دفعات بقول مخالفین مسلمانوں کے حق میںنہ تھیں لیکن چار و ناچار ، کفار سے ڈر کر معاہدہ کیا کمزور بے بس لوگ معاہدہ شکنی نہیں کرتے ، طاقت ور ہی ایسے عہدو پیمان سے منحرف ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کفار نے مسلمانوں کے ساتھ کئے گئے معاہدے کو توڑ دیا ۔
اعتراض نمبر ۲۷۲
بعض کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے یہ معاہدہ قریش سے دب کر کیا تھا، کیوں کہ صلح حدیبیہ کی شرائط ان کے حق میں نہ تھیں۔( مستشرقین کا انداز فکر۔۳۱۱)۔ ۲: بنی غطفان اور اہل خیبر نے صلح حدیبیہ کی نرم شرائط سے یہ مطلب اخذ کیا کہ حضورؐ نے قریش کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
جواب:صلح حدیبیہ کا پس منظر یہ ہے کہ سید المرسلینﷺ چودہ سو صحابہ کرامؓ کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے لیے ، قربانی کے جانور لیے روانہ ہوئے۔ حدیبیہ کے مقام پر ٹھہرے۔ قریش کو اپنے نمائندوں کے ذریعے یقین دہانی کرائی کہ ہم بہ غرض جنگ نہیں آئے‘ عمرہ ادا کرنے آئے ہیں۔ قریش حرمت والے مہینوں میں کسی دشمن کو بھی خانہ کعبہ میں مراسم عبادت ادا کرنے سے روک نہیں سکتے تھے۔ جنگ کرتے تو بدنام ہو جاتے بل کہ عوام الناس میں منفی رد عمل اور پراپیگنڈہ شروع ہوتا نیز اگر وہ عمرہ ادا کرنے دیتے تو ان کے نام نہاد عزت و وقار کو ٹھیس لگتی۔ ان کی ناک کٹ جاتی اور عزت دو کوڑی کی نہ رہتی ۔ اس خیال سے انھوں نے مسلمانوں کو ہر ممکن اشتعال دلایا۔غصہ دلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تا کہ ماہ حرام کاا لزام مسلمانوں کے سر تھوپ سکیں ۔ کفار کے ایک دستہ نے حملہ کیا مسلمانوں نے پکڑ لیا۔ کچھ بھی نہیں کہا بل کہ سید المرسلینﷺ نے انھیں رہا کر دیا۔ خالد بن ولید کی قیادت میں ایک اور دستہ مسلمانوں پر حملہ کرنے آیاتھا مگر آپﷺ نے راستا بدل لیاقریش معاہدہ کو سبوتاژکرنے کے خواہش مند تھے ۔ اب کفار کے پاس سوائے معاہدہ کرنے کے اور کچھ نہ بچا تھا۔ کفار نے معاہدہ کے وقت بھی حالات کو بگاڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ مثلاََ بسم اللہ الرحمن الر حیم لکھنے کی بہ جائے با سمک اللھم کے الفاظ لکھوائے۔ محمدرسول اللہ کی بہ جائے محمد بن عبد اللہ لکھوایا ۔ مسلمانوں کو اس معاہدہ میں اپنی بے بسی ، سبکی اور کم زوری محسوس ہوئی لیکن چشم نبوت بہ ظاہر پسپائی کے بڑی کامیابی دیکھ رہی تھی جب کہ کفار کو اتنا فائدہ رہا کہ تجارت کرنے میں کوئی خطرہ باقی نہ رہا نیز مسلمانوں کو عمرہ کیے بغیر واپسی سے ان کی جھوٹی انا اور عزت خاک میں ملنے سے بہ ظاہر بچ گئی اور ان کے تعصب و نفرت کو تسکین ملی اوریہی وجہ ہے کہ بنی غطفان اور اہل خیبر نے صلح حدیبیہ کی شرائط سے یہ مطلب اخذ کیا کہ پیغمبر اسلام ﷺنے قریش کے آگے ہتھیار ڈال دئیے ہیں ۔ ان کی یہ بھول ہے جب کہ مستقبل کے واقعات و حالات اس کے بر عکس مسلمانوں کی کامیابی کے گواہ ہیں۔
اول: ایک صحابی کو شہید کیا اور چلتے بنے ۔یہ غزوہ ذی قرد کے نام سے مشہور ہے۔ غزوہ ذی قرد میں آپﷺ چودہ سو صحابہؓ کے ہمراہ رجیع جا پہنچے۔ بنو غطفان و خیبر کے رابطہ کو کاٹ دیا۔ غطفان یہ سمجھے کہ مسلمانوں کی کاروائی ہماری طرف ہے اس طرح اہل خیبر ، قریش اور غطفان سمیت سب حلیفوں سے کٹ کر رہ گئے۔ ڈیڑھ دو ماہ میں خیبر کے سارے قلعے فتح ہو گئے۔
دوم: صلح کے بعد صرف دو سال میں اتنے آدمی مسلمان ہوئے جتنے ۱۹ سال میں دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی آپؐ کا لشکر دس ہزار صحابہ پر مشتمل تھا۔ گھروں میں موجود مسلمان ملا کر بہت تعداد بن جاتی ہے۔
سوم: چند مسلمان جو معاہدہ کو اپنی کم زوری اور کفار کی جیت سمجھتے تھے اپنی اس کمی کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت جابر بن عبد اللہؓ اور حضرت براء بن عازبؓ نے یوں اعتراف کیا ’’ لوگ فتح مکہ کو فتح سمجھتے ہیں حال آنکہ ہم اصل فتح حدیبیہ کو سمجھتے ہیں۔ قرآن کریم نے اسے فتح مبین کہااور یہ سورت نازل ہوئی’’ اِنَّا فَتٰحنَا لَکَ فَتحاََ مُبیناََ‘‘۔( بے شک ہم نے آپ کو فتح مبین عطا کی) حضرت عمر ؓ جن کے دل میں یہ خلش تھی کہ یہ معاہدہ دب کر کیا گیا ہے اس لیے انھوں نے عرض کی یا رسول اللہ! کیا یہ فتح ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ’’ ہاں یہ فتح ہے‘‘۔
چہارم: دس سالہ جنگ بندی کے معاہدہ سے اسلام کو پھلنے پھولنے کا موقعہ ہاتھ لگا۔ اس دوران آپؐ نے اندرون و بیرون عرب میں تبلیغی خطوط اپنے سفیروں کے ذریعہ بھیجے۔ حاکم مصر ، شاہ عمان ، والی بحرین ، امیر شام ، یمامہ کے حاکم ، بادشاہ ایران اور ہر قل روم کو دعوتی خطوط روانہ کیے۔ بعض نے اسلام کی طرف نر می دکھائی اور بعض نے معاندانہ رویہ اپنایا۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ عرب میں اسلام کے نفاذ کو عالمی طاقتیں برداشت نہیں کریں گی اور یہ بھی ظاہر تھا کہ مسلمانوں کی یہ تحریک صرف عرب تک محدود نہیں رہی بل کہ بین الاقوامی تحریک بن گئی ہے۔ ان تبلیغی خطوط سے بیرون ملک غزوات و سرایا میں مسلمانوں کے لیے بالخصوص اور دوسروں کے لیے بالعموم یہ ہدایت موجود تھی کہ اسلام کوئی علاقائی یا قومی مذہب نہیں بل کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری عالمی پیغام ہے۔
پنجم: اگر دب کر معاہدہ کیا گیا تھا تو عورتوں کو بھی کفارکے حوالے کر دیتے کیونکہ چند عورتیں مکہ سے مدینہ آئی تھیں لیکن آپ ﷺ نے انہیں اہل مکہ کے سپرد نہ کیا اور نہ ہی انہیں کفار مکہ کے رحم و کرم پر نہیںچھوڑا ۔ ایسا نہیں ہوا لہذٰا ان کا الزام باطل ہے۔مکہ سے فرار ہو کر مسلمان عیص کے مقام پر جمع ہوتے رہے کیوں کہ مدینہ جاتے تو انھیں کفار کے حوالے کر دیا جاتا۔ ان کے اکٹھ سے قریش کی تجارت کو خطرہ لاحق ہوا بل کہ اجتماع نے بے بس کر دیا اور مدینہ والوں سے کہا کہ انھیں اپنے پاس بلائیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ قریش نے اس شق کو منسوخ کر نے کی درخواست کی۔وہ معاہدہ جسے مخالفین مسلمانوں کی کمزوری کا نام دیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ معاہدہ دب کر کیا لیکن مستقبل میں خود قریش نے اس معاہدہ کی شق ’’ اگر مسلمانوں یا کافروں میں سے کوئی فرد مکہ آئے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا مگر مدینہ آئے تو واپس کیا جائے گا ‘‘کو منسوخ کرنے کی بارگاہ نبوی میں درخواست پیش کی ۔ اندھا کیا جانے بسنت کی بہار ، واقعی کفار معاہدہ میں چھپی حکمتوں سے بے خبر تھے ۔
معاہدے کی ایک شق یہ ہے کہ ’’ مسلمان اس سال واپس چلے جائیں ‘‘ قریش اس کشمکش میں مبتلا تھے کہ اگر مسلمانوں نے مکہ میں داخلے کا عزم کیا تو انہیں جان پر کھیل جانے کے بغیر اور کوئی چارہ کار نہیں رہے گا ۔دوسری بات یہ کہ بدر ‘احد اور خندق کے غزوات میں اپنی بھاری اکثریت کے باوجود منہ کی کھائی اورمسلمانوں کو اپنے موقف سے ہٹا نہ سکے تھے ۔ اب مسلمان ان کے گھروں کے دروازوں پر پہنچ آئے ہیں اگر یہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو پورے عرب میں وہ منہ دکھانے قابل نہیں رہیں گے لہٰذا اس توہین اور بے عزتی اور نام کو بٹہ لگنے سے بچنے کے لیے یہی ترکیب سوجھی کہ صلح کے پہلو کو اختیار کیا جائے ، چنانچہ اپنے آدمیوں کو بطور سفیر ‘بارگاہ نبویﷺ میں بھیجا اس کے مقابلے میں بارگاہ نبوت نے صلح و آشتی کی راہ اپنائی اور یہ فرمایا ’’ کہ ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے بلکہ ہمارا مقصد صرف عمرہ کرنا ہے قریش کو جنگوں نے نہایت کمزور کر دیا ہے اور انہیں تھکا کر رکھ دیا ہے لہذا وہ اگر چاہیں تو ان کے لیے مدت صلح مقید کر دوں کہ اس مدت میں کوئی ایک دوسرے سے تعرض نہ کرے اور مجھ کو اور عرب کو چھوڑ دیں ، اگر اللہ کے فضل سے میں غالب ہو گیا تو وہ چاہیں تو اس دین میں شامل ہو جائیں اور فی الحال وہ آرام کرلیں اور اگر بالفرض عرب غالب آ گئے تو تمہاری تمنا پوری ہو جائے گی ، لیکن میں تم سے کہہ دیتا ہوں اللہ تعالیٰ ضرور اپنے اس دین کو غالب کر کے رہے گا اور اس دین کے غلبہ اور نصرت کا جو وعدہ اس نے کیا ہے وہ ضرور پورا ہو کر رہے گا اور اگر انہیں لڑائی کے سوا کچھ منظور نہیں تو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ، میں ضرور ان سے جنگ کروں گا یہاں تک کہ میری گردن الگ ہو جائے یا جب تک اللہ تعالیٰ اپنا امر نافذ نہ کر دے۔ ارشاد ربانی ہے ’’ اے رسول جو کچھ بھی تمہاری طرف آپ کے رب کی طرف نازل ہوا ہے اس کو لوگوں تک پہنچا دو اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اپنا حق رسالت ادا نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا ‘‘۔
۲۔ آپ نے ہر قیمت پر جنگ و جدل سے کنارہ کشی اختیار فرمائی اور پر امن ماحول میں اپنے مشن کو جاری رکھنے کی حکمت عملی اپنائی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صلح حدیبہ کے بعد دو سال کے اندر مسلمانوں کی تعداد میں کثیر اضافہ ہوا ، ایک اندازہ کے مطابق چار گناہ سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ۔ اسلام کو اس قدر طاقت ملی کہ قریش نے لڑے بغیر ہتھیار ڈال دئیے آپ نے ان شرائط ’’ اس سال واپس چلے جائیں اور اگلے سال عمر کی ادائیگی کے لیے آئیں ، سوا تلوار کے اور آلات حرب نہ ہوں اور تلوار بھی نیام میں اور نیام جلبان میں ، مان کر کفار کو پیغام دیا کہ وہ اس سال بھی عمرہ کی نیت سے آئے ۔ مخالفین ان شرائط کے بارے کہتے ہیں کہ کفار سے دب کر قبول کیں جبکہ ان کے دور رس نتائج برآمد ہوئے ۔ ایک تو مسلمانوں کو دین اسلام کی اشاعت اور دوسروں تک پہنچانے کا موقع ملا دوسرا مدینہ کے اطراف و اکناف کے قبائل اور بادشاہوں کو خطوط لکھے اور دین اسلام کی حقانیت کا اظہار کیا نیز اس معاہدہ کی وجہ سے فریقین میں آمد ورفت کا سلسلہ چل نکلا کفار مکہ تجارتی اور خاندانی تعلق کے سبب مدینہ آتے اور کئی کئی دنوں تک قیام کرتے مسلمانوں سے میل جول رکھتے ان کے اخلاق ، اخلاص اور اعلیٰ درجہ کی خوبیوں سے متاثر ہوئے اور اسلام کی طرف کھچے چلے آئے ۔
۳۔ یہ شق کہ ’’ قریش کا جو آدمی مسلمانوں کے ہاں آ جائے مسلمان اسے واپس کریں گے ، لیکن مسلمانوں میں سے جو شخص پناہ کی غرض سے بھاگ کر قریش کے پاس آئے گا قریش اسے واپس نہیں کریں گے ۔بظاہر مسلمانوں کے لیے یہ تکلیف دہ تھی مگر مستقبل میں یہ نعمت ثابت ہوئی اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی مسلمان مدینہ میں رہتے ہوئے راہ فرار اختیار نہیں کر سکتا تھا ، اس لیے کہ مدینہ مرکز ایمان ہے اور ایماندار ہوتے ہوئے کوئی بھی شخص مرکز ایمان سے دور نہیں رہ سکتا اگر بھاگے گا تو صرف مرتد ہو کر ۔ فرمان رسول ہے ’’ بے شک جو ہیں چھوڑ مشرکین کی طرف بھاگا ، اللہ نے اسے دور کر دیا یعنی تباہ و برباد کر دیا ۔ ‘‘ ( مسلم شریف جلد ۲۔ص ۱۰۵)ابو جندل بھاگ کر معاہدہ کی جگہ پر پہنچا تو قریش نے اسے واپس کرنے کا مطالبہ کیا آپ نے ابو جندل کو قریش کے حوالے کر دیا انہوں نے مسلمانوں کے کیمپ میں مشکیں باندھیں ، پائوں میں بیڑیاں ڈالیں اور کشاں کشاں واپس مکہ لے گئے ۔ جاتے وقت آپ ﷺ نے فرمایا: ابو جندل ! خدا تیری کشائش کے لیے کوئی سبیل نکال دے گا ‘‘ ابو جندل نے مکہ پہنچ کر قید خانہ میں ہی تبلیغ شروع کر دی ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک سال میں قریبا تین سو شخص مسلمان ہو گئے اب قریش پچھتائے اوربہ دست افسوس ملے کہ انہوں نے عہد نامے میں ان ایمان والوں کو واپس دینے کی شرط درج کرائی ؟
خدا خدا کر کے ابو بصیر بھاگ کر مکہ سے مدینہ آیا ۔ معاہدہ کی رو سے آپ ﷺ نے مکہ سے آنے والے دو آدمیوں کو ابو بصیر واپس کر دیا ، معاہدہ کی پاس داری کی ۔ ابو بصیر نے راستے میں ایک کو قتل کر دیا دسرا شخص بھاگ نکلا ، ابو بصیر مدینہ سے نکلا اور ساحل سمندر پر قیام کرلیا ۔ اس راستے پر ٹھہرے جس راستے سے قریش کے تجارتی قافلے آتے رہتے تھے ۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ، مکہ کے لا چار اور غریب لوگوں کو ابو بصیر کی سکونت کا پتہ چلا تو وہ بھی اکادکا پہنچنے لگے ان کی تعداد ستر اور ایک روایت کے مطابق تین سو تک پہنچ گئی ۔ انہوں نے قریشی قافلوں کو لوٹنا شروع کر دیا قریشی قافلوں کا آنا جانا مشکل ہو گیا ، ان کی تجارت خطرے میں پڑ گئی تو قریش آپ ﷺ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ ہم آپ کو اللہ اور قرابت کا واسطہ دیتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ آپ ان لوگوں کو مدینہ بلا لیں ، اس کے علاوہ اب جو بھی آپ کے پاس مدینہ آئے گا ہم اس کو ہرگز واپس نہیں لیں گے گویا یہ شق جو بظاہر نہایت کمزور تھی اور آج بھی نام نہاد روشن خیال اس شق کی بنیاد پر خاص طور پر یہ کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ دب کر کیا تھا حالانکہ چاند چڑھا کلُ عالم دیکھے‘ واقعی سب نے دیکھا کہ کفار نے اس شق کی منسوخی کے لیے مدینہ آ کر بارگاہ نبوی میں درخواست پیش کی ۔ یہی شرطیں مسلمانوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئیں اور کفار کے لیے گلے کا پھندا ۔
دس سال جنگ نہیں کریں گے ، اس شک سے مسلمانوں کو اپنی اقدار اور مذہبی روایات پر عمل کرنے کی آزادی نصیب ہوئی مسلمان آزادانہ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے ، تلاوت قرآن مجید پر سزا ملتی ، اسلام اختیار کرنے کا مسلمان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جاتا تھا اب اس معاہدہ سے وہ سزائیں اور تکلفیں ایک مدت معین تک ختم ہو گئیں ۔
اعتراض نمبر ۲۷۳
ام کلثوم بنت عقبہ نے ہجرت کی۔ اس کے بھائیوں نے اس کا تعاقب کیا۔ ان کے بھائیوں کو ام کلثوم واپس کرنے سے انکار کر دیا گیا جو کہ معاہدہ کی روسے درست نہیں۔ ( مستشرقین کا انداز فکر۔۳۱۲)
جواب: اس خاتون کے دو بھائی اس کے تعاقب میں مدینہ پہنچے۔ وہ ہجرت کر کے مدینہ چلی آئی تھی۔ کفار کے حوالے نہ کرنے پر انھیں دو ٹوک جواب دیا گیا کہ ام کلثوم کو واپس نہیں کریں گے۔ قریش نے اس کو معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا جو محض تعصب یا عربی نا فہمی اور کم علمی کا باعث تھا اور معاہدہ کو اچھی طرح نہ سمجھنے کا نتیجہ تھا۔ متن معاہدہ میں صرف مردوں کا ہی ذکر ہے۔ عربی متن حسب ذیل ہے’’ وعلی انہ من الی محمد من قریش بغیر اذن ولیہ ردہ علیھم‘‘( ترجمہ: اور یہ کہ جو کوئی(مرد) محمدؐ کے پاس اپنے ولی کی اجازت کے بغیر آئے گا اس (مرد) کو انھیں لوٹایا جائے گا) اس شق کی تما م ضمیریں مذکر کے لیے استعمال ہوئی ہیں اور خواتین پر ان کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ان کی شمولیت کے لیے لازمی مونث ضمیریں استعمال ہو نی چاہیے تھیں جس سے صراحت ہوتی۔ نیز قریش نے اس پر اصرار نہ کیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ عورتیں اس معاہدے سے مستثنیٰ ہیں۔
پروفیسر محمد اکرم طاہر( محمد رسول اللہ۔۷۵) فرماتے ہیں کہ اگر یہ بات درست ہے کہ سیاسی مدبر اپنی لچک دار انگلیوں سے ایک پرندہ کی آغوش سے ایک ایک کر کے سارے انڈے یوں نکال لیتا ہے کہ پر ندے کو خبر تک نہیں ہوتی تو صلح حدیبیہ اس لحاظ سے ایک بے مثال دستاویز ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد کچھ مسلمان عورتیں مدینہ پہنچ گئیں ۔کفار نے مطالبہ کیا کہ معاہدے کے مطابق انھیں واپس کر دیا جائے۔ حضور ﷺنے ایسی عورتوں کو یہ کہہ کر واپس کرنے سے انکار کر دیا کہ معاہدے میں ’’ رجل‘‘ یعنی مرد کا ذکر ہے عورت کا نہیں ۔معاہدے کا متن دیکھا گیا تو اس کے صریح الفاظ کفار کی ذہنی افلاس کی چغلی کھا رہے تھے یعنی: ’’ وعلی ان لایاتیک منا رجل وان دینک الا رددتہ علینا‘‘ (ترجمہ ُآپﷺ کے پاس جائے گا آپ اسے لازماََ واپس کریں گے خواہ وہ آپ ہی کے دین پر ہی کیوں نہ ہو) اسی اثناء میں سورہ الممتحنہ کے ذریعے بھی مومن عورتوں کو دار الکفر میں واپس بھیجنے سے منع کر دیا گیا۔
واٹ اس شق کہ’’ مکہ کا کوئی فرد مدینہ جائے تو اسے مکہ والوں کو واپس کرنا ہوگا اور مدینہ والوں کا مکہ آئے تو واپس نہیں کیا جائے گا‘‘ کے متعلق کہتا ہے’’ یہ بات کہ معاہدہ کی مذکور شرط سراسر یک طرفہ تھی ۔محمد ﷺکے اسلام کی برتر جاذبیت کے بارے یقین کامل کی مظہر ہے۔ مزید کہتا ہے کہ ’’ صلح حدیبیہ کو سیرت طیبہ اور اسلامی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔عسکری مہمات کے بل پر مسلمانوں کو جھکانے کی کوششیں دم توڑ چکی تھیں۔پس منظر میں مسلمانوں اور کفار مکہ کے مابین جنگ بندی کا دس سالہ معاہدہ طے ہواتھا۔ اس کی اصل آفرینی مقناطیسی کشش کی طرح ہے کہ کوئی مسلمان مدینہ چھوڑ کر مکہ کی راہ نہیں لے گا ہاں مگر مکہ سے کوئی بھی اور کسی وقت بھی کفار کو چھوڑ کر مدینہ آ سکتا تھا ، اور یہی ہوا ، عورتیں مدینہ آئیں ، کفار نے اپنے بندے بھیج کر خواتین کی واپسی کا مطالبہ کیا ۔ آپ ﷺ نے واپس کرنے سے انکار کر دیا ، انہیں آگاہ کیا کہ معاہدہ میں مردوں کی واپسی کا ذکر ہے ، عورتوں کا نہیں ، وہ منہ اپنا سا لے کر پھر گئے ، طوفان شیطان اللہ نگہبان !
اعتراض نمبر ۲۷۴
عمرہ محض بہانہ تھا۔دراصل مقصد مکہ پر چڑھائی تھا نیز بدوی قبائل کو اس مہم میں لوٹ مار کی توقع نہ تھی۔فتح تو درکنار زندگی کی بقا بھی خطرے میں تھی۔ اس لیے شرکت نہ کی۔اگر جنگ ہی کرنا مقصود تھا تو مسلمانوں نے حملہ آور دشمن کے ایک دستہ کو گرفتار کر کے بارگاہ نبوی میں پیش کیا ، چاہیے تھا کہ ان کو موت کے گھاٹ اتار دیتے سامان چھین لیتے اور مکہ پر بغیر تاخیر کے چڑھ دوڑتے لیکن مسلمانوں نے حملہ آوار دستے کو بحکم نبوی رہا کر دیا ۔
جواب:دونوں مفروضے غلط اور ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اگر جنگ مقصد تھا تو ایک کے حصہ میں فتح اور دوسرے کے حصہ میں شکست آتی ہے۔ لوٹ مار کی امید بھی لازماََ ہو تی ہے اور اگر بدوی قبائل کی شرکت لوٹ مار کی توقع نہ ہونے کے سبب تھی تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قبائل جانتے تھے کہ یہ سفر بہ غرض عمرہ ہے نہ کہ بہ غرض جنگ۔ انھوں نے جنگ بدر،احد میں اپنا حال دیکھ نہیں لیا تھا۔مسلمان موت سے نہیں ڈرتا اسے ڈر ہے تو اللہ تعالیٰ سے کہ اس کے احکام کی بجا آوری میں کہیں کوئی کوتاہی نہ ہو جائے اور فتح و شکست بھی اللہ کی طرف سے سمجھتے ہیں نہ کہ اپنی طرف سے اندازہ کر کے اپنے ذمے لے لیتے ہیں۔مسلمان کو غنیمت کا لالچ اور نہ ہی سلطنت کی وسعت پسندی کا چسکا ہوتا ہے بلکہ وہ تو اعلیٰ و ارفع کردار کا مالک ہوتا ہے ، اس کا مطمع نظر سوائے شہادت کے اور کچھ نہیں ہوتا ۔
مسلمان ‘کفار کا ایک دستہ گرفتار کر لیتے ہیں انہیں بارگاہ نبویﷺ میں پیش کیا جاتا ہے آپ ﷺ انہیں رہا کر دیتے ہیں ، اگر عمرہ کی ادائیگی مقصد نہ ہوتا تو اس دستہ کو قیدی بناتے یا کہتے کہ رخت سفر باندھ لو ۔ اگر عمرہ بہانہ تھا تومعاہدہ کیوں کیا گیا ؟ یہی وجہ ہے کہ عمرہ کرنے سے مسلمانوں کو روک دیا گیا اور معاہدہ کی نوبت آئی ۔ معاہدہ میں یہ بھی طے پایا تھا کہ اس سال مسلمان عمرہ کیے بغیر لو ٹ جائیں اگر مکہ پر حملہ کرنا ہی مقصد تھا تو اس شرط کو مسلمان قبول نہ کرتے اور ان کی کوئی شرط نہ مانتے بلکہ لڑائی کرتے ۔ اگر جنگ کے خواہش مند تھے تو دشمن کے حملہ آور دستے کو قیدی بنا لیتے یا سب کو تہ تیغ کر دیتے انہیں تو جنگ کرنے سے غرض تھی نیز ان کا سارا سامان چھین لیتے یا انہیں قیدی بناتے ۔ ان کی رہائی جنگی حکمت عملی کے خلاف نظر آتی ہے دشمن کے دستے کی گرفتاری سے کئی ایک مطالبے منوائے جا سکتے تھے ، جس غرض یعنی عمرہ کی ادائیگی کے لیے آئے تھے وہ پوری کرتے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ، اس کے برعکس مسلمان اگر ان کے ہتھے چڑھ جاتے تو ان کی خیر نہ تھی ۔ لڑائی کرنے والوں کو صرف بہانہ چاہیے لیکن مسلمان اس سے بھی بے پروا ہیں مثال کے طور پر ابو جندل مسلمانوں کے پاس آتا ہے اور آپﷺ ابو جندل کو کفار کے حوالے کر دیتے ہیں اور معاہدہ کی اس شق ’’ مکہ میں جو مسلمان پہلے سے مقیم ہیں ان میں سے کسی کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں ‘‘ پر عمل کر کے جہاں معاہدہ کی پابندی کی وہاں بجائے آگ پر تیل ڈالنے کے آگ پر پانی ٹپکایا اور صلح و آشتی کو ترجیح دی لیکن دوسری طرف مسلمانوں میں اضطراب و بے چینی اور بے قراری بڑھی لیکن معاہدہ کی پاسداری کی گئی ۔ مختصر یہ کہ اگر مان لیا جائے کہ مسلمان بغرض جنگ آئے تھے ، تو کیا کوئی حملہ آوار دستہ یا فوج ہتھیاروں کے بغیر نہتے آتی ہے حالانکہ ہمیشہ اپنے دشمن پر کاری ضرب لگانے کے لیے مسلح اور اسلحہ سے لیس ہو کر آتی ہے تاکہ اپنے مخالف کا قلع قمع کر دے مگر مسلمانوں کے پاس آلات حرب میں سوائے تلوار کے اور کچھ نہیں البتہ قربانی کے اونٹ جن گلے میں قلاوے جو عمرہ کی ادائیگی کا اظہار ہے ۔
اعتراض نمبر ۲۷۵
۶۲۸ء کے موسم بہار میں محمدؐ نے اپنے آپ کو قوی سمجھتے ہوئے مکہ پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ راستے ہی میں یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ کوشش قبل از وقت ہے چناں چہ اس مہم کو ایک پر امن عمرے کا نام دے دیا گیا۔
'In the early spring of 628 Muhammad felt strong enough to attempt an attack on Meeca. On the way however, it became clear that the attempt was premature and the expedition was converted in to a peaceful pilgramage"
جواب: بہ قول برنارڈ لیوس اپنے آپ کو قوی سمجھتے ہوئے مکہ پر حملہ کی کوشش کی۔ راستے میں ہی معلوم ہو گیا کہ یہ کوشش قبل از وقت ہے۔ کیا یہ مستشرق بتا سکتے ہیں کہ ہدی ( قربانی کے جانور) کے جانور لڑائی کے لیے لے گئے تھے۔ اگر وہ کھانے کے لیے انتظام کر کے لے گئے تھے تو ان کے گلے میں ہدی کے جانوروں کی طرح قلاوے وغیرہ کیوں تھے؟
دوم: اگر مسلمان حملہ آور تھے تو مسلمانوں کو حملہ کرنا چاہیے تھا نہ کہ قریش کو ۔ پھر قریش کے حملہ آور دستہ کو پکڑا گیا اور رہا کر دیا گیا۔ اگر جنگ کے لیے آئے تھے تو انھیں تہ تیغ کر دیتے یا قریش سے اپنی مرضی کا کوئی مطالبہ منو الیتے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔کیا مسلمان مکہ پر چڑھ دوڑنے کے لیے سامان حرب سے لیس تھے؟ کیا ان کے پاس صرف ایک ہی تلوار نہ تھی؟ یہی جنگ لڑنے کا طریقہ ہوتا ہے کہ نہتے چلے آئیں۔ دراصل مسلمان عمرہ کی ادائیگی کے لیے آئے تھے۔ قریش کی بے جا مزاحمت نے انھیں عمرہ کرنے سے روک دیا۔ فریقین کے درمیان معاہدہ طے پایا۔ حملہ کی ناکام کوشش پر معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ قریش کہہ سکتے تھے کہ تم مکہ پر چڑھ دوڑے اب عمرہ کا بہانہ بنا لیا مگر معاہدہ میں اس قسم کی کسی عبارت یا الفاظ کا ذکر نہیں ملتا۔ معاہدہ میں یہ شق ہے کہ اس سال مسلمان عمرہ کیے بغیر چلے جائیں۔مدعی تو سمجھتا ہے کہ بہ غرض عمرہ مسلمان آئے تھے لیکن گواہ چست یعنی لیوس مسلمانوں کو حملہ آور سمجھتا ہے۔ معاہدہ کے بعد جانِ دو عالمﷺ نے قریش پر سے تجارتی پابندیاں ہٹا دیں ۔حال آنکہ معاہدہ میں اس امر کا ذکر نہیں ملتا۔
شبہ کا ازالہ: اگر مسلمانوں نے یہ دب کر معاہدہ کیا تھا تو معاہدہ کے علاوہ قریش کو رعایتیں کیوں دیں جیسے تجارتی پابندیاں ختم کر دیں۔ گویا جس چیز کا قریش نے دعویٰ ہی نہیں کیا وہ بھی عطا کر دیا جاتا ہے۔
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
دوم: اگر حضرت عثمان غنیؓ ایک فردِ واحد کے لیے بیعتِ رضوان ہو سکتی ہے جب ان کے قتل کی افوہ اڑی تو ان کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے بیعت لی گئی تو کیا دینی مفادات کی خاطر تلواریں نیام میں رہتیں؟ معترض کی بھول ہے کیوں کہ مسلمانوں کا اوڑھنا بچھونا سب کچھ دین اسلام ہے۔جو اللہ کے ہاں پسندیدہ دین تھا اور اسے تمام ادیان پر غالب کرنا مقصود تھا ۔
اعتراض نمبر ۲۷۶
اہل مغرب یہ بھی کہتے ہیں کہ حج اور عمرہ کا ذکر قرآنی تعلیمات میں اس واقعہ سے قبل نہیں ملتا۔
جواب: خانہ کعبہ کو ابتداء ہی سے بیت اللہ کی حیثیت حاصل تھی۔ سورہ قریش میں اسے بیت اللہ کہا گیا ہے۔ یہاں لوگ آکر مناسک حج ادا کرتے تھے۔ قربانی کی رسم بھی ادا کرتے تھے جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے۔ ’’ انا اعطینک الکوثر۔ فصل لربک و انحر۔ ان شائنک ھو الابتر‘‘۔
دوم: مکی دور میں سید المرسلین ﷺاور آپؐ کے اصحاب کے طواف کے تذکرے موجود ہیں۔ انصار سے بیت عقبہ اولیٰ و ثانی و ثلاثہ ہوئیں ۔یہ منیٰ کی ایک گھاٹی ہے جو حج کے دنوں میں آباد ہوتی ہے۔ اگر آپؐ اور آپؐ کے صحابہؓ عقبہ میں موجود تھے تو کیسے یہ مان لیا جائے کہ انصار کو مناسک حج مقصود نہ تھا۔ جب کہ حج کے واضح احکامات نہ ہونے کے باوجود ہجرت سے پہلے حج کو اسلامی عبادت کا مرتبہ و مقام حاصل تھا۔
اعتراض نمبر ۲۷۶ کا دوسرا جز
آپ صرف عرب کے لیے مبعوث ہوئے تھے ۔
اسلام کو بیرونی مذہب کہا جاتا ہے۔
جواب: آپ ﷺ سے پہلے تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کے لیے مبعوث ہوتے رہے ، اس لحاظ سے ان کی نبوت کا دائرہ کار محدود تھا ، وسیع نہ تھا ۔ بدھ مت اور عیسائیت ایسے دین تھے جن کی تبلیغ کا سلسلہ بہت دیر بعد ہوا ، بدھ مت تبلیغی دین نہ رہا وہ جمود کی تہوں میں دب گیا البتہ عیسائیت دین تبلیغ ہے اگرچہ اس کا دائرہ بھی بنی اسرائیل تک محدود تھا ۔ اسلام کی خوبی باقی ادیان سے بالا تر ہے ، یہ عالمگیر ، زمان و مکان سے آزاد اور جملہ انسانی نسل کے لیے ہے ۔ اس کی ایک دوسری شہکار خوبی یہ ہے کہ دنیا کے تمام سچے ادیان کی تصدیق کرتا ہے ، ان کی الہامی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور ان پر ایمان لانے کو نا گزیر سمجھتا ہے مسلمانوں کا عقیدہ یہی ہے ’’ امنت باللہ و ملائکتہ و کتبہ و رسولہ ۔۔۔ ‘‘ دین اسلام کے پیغمبر تمام انسانیت کے لیے نبی و رسول ہیں ۔ ارشاد خدا وندی (سورہ النساء ۔۷۹) ’’ ( اے محمد ﷺ ہم نے تجھے بنی نوع انسان کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ ہی گواہ کافی ہے ۔‘‘ چونکہ آپ پر سلسلہ نبوت و رسالت اور نزول وحی ختم ہونا تھا اس لیے آپ ہی نبوت کے فیضان کو ہمہ گیر اور عالم گیر بنایا گیا ۔ قرآن کریم میں ہے ’’ وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین ‘‘ اور سورہ صبا میں اس کی مزید صراحت فرما دی کہ آپ جملہ بنی نوع انسان کے لیے مبعوث ہوئے ہیں ، اس لحاظ سے کوئی قوم کوئی گروہ یا جماعت آپ کے حلقہ نبوت و رسالت سے باہر نہیں ہے ۔ ارشاد ربانی ہے ، ترجمہ : اے محمد ! ہم نے تمہیں جملہ بنی نوع انسان کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ‘‘ ۔(سورۃ سبا۔۲۸)
اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے اسے غیر مسلموں کے مذموم عزائم کی خبر تھی کہ مستشرقین لوگوں کو یہ غلط تاثر اور شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش نا تمام اور سعی ناکام کریں گے ، کہ پیغمبر آخر ﷺ صرف عرب کے لیے مبعوث ہوئے تھے جبکہ اوپر ذکر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو تمام بنی نوع انسان کے لیے مبعوث فرمایا اور دین اسلام زمان و مکان کے لحاظ سے محدود و علاقائی نہیں ہے ۔ اسلام کو بیرونی مذہب قرار دیا ، حقیقت عظمیٰ کا وجود ، عزت و توقیر ، ہدایت پر عمل ، عبادت ، تزکیہ نفس نیکی ، ہمدردی ثابت قدمی اور صبر و رضا وغیرہ وہ مشترک اقدار ہیں جو تمام مذاہب میں موجود ہیں اس لحاظ سے مذاہب میں ایک قسم کی مماثلت ہے ، ایک اصل میں مماثلت فطری ہے اور کسی ایک کو دوسرے کی عاریت قرار دینا مضحکہ خیز ہے
اسلام عالمگیر مذہب ہے اور وہی دین جو آدم ؑ سے شروع ہو تا ہے اور آپ پر اس کی تکمیل ہوئی ۔ نسلی ، وطنی ، رنگ برادری حسب و نسب ، اور قوت و اقتدار کے امتیازات کو ملیا میٹ کر دیا اور اعلان کیا ’’ اِنَّ اَکرَمَکُم عِندَاللہ اَتقَکُم‘‘بے شک تم سب سے زیادہ قابل تکریم و عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ عالم اسلام میں مختلف اقوام نے ہمیشہ ایک ملت کی حیثیت سے گزران کی ، اس سے بین الاقوامی برادری کا قیام اور اس کا استحکام ثابت ہوتا ہے ، اسلام ایک بین الاقوامی مذہب ہے ، یہ تمام امتیازات سے با لاتر اور ہر ایک کے لیے قابل عمل نظام ہے نیز اس میں جابریت اور مطلق العنانی کی گنجائش نہیں ہے بلکہ قادر مطلق کے آگے جواب دہ ہونا ہے ۔
پچھلی صدی میں عالمی جنگیں ہوئیں جس پر اقوام عالم نے جنگوں کی تباہی سے بچنے کے لیے ایک عالمی برادری کے قیام کا سوچا جہاں عالمی مسائل پر گفتگو کر کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے ۔ یہ حل اسلام نے چودہ سو سال پہلے بتا دیا تھا اور اس برادری کو ایک اعلیٰ منشور اور ضابطہ اخلاق عطا کیا لہٰذا اسلام ایک عالمی اور اس کی فکر بین الاقوامی ہے جو عالمی معاشرہ پیدا کرنے کی اساس ہے، دیگر مذاہب میں عالمگیر یت نہیں پائی جاتی جس کے سبب وہ صرف ایک مخصوص نسل اور علاقے کی ترجمانی کرتے ہیں ، اس کے نتیجہ میں یہ مذاہب تما م نسلوں کے لیے قابل قبول نہیں ہیں اور اپنے دائرہ کار کو محدود کر کے انسانیت کو طبقات میں منقسم کرتے ہیں جس سے نفرت و تعصب پھیلتا ہے ، اس لحاظ سے صرف اسلام ہی وہ مذہب ہے جو انسانیت کو ایک مکمل نظام عطا کرتا ہے ۔ یہ تمام مذاہب سے الگ ایک اعلیٰ نظام فراہم کرتا ہے ، ایک عالمگیر برادری کے قیام اور عالمی قوانین کی بنیادیں فراہم کرتا ہے اس لیے اسے بیرونی مذہب کہنا درست نہیں ۔بیرونی کہہ کر معترض یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ یہ کسی اور مذہب سے اخذ شدہ ہے جبکہ یہ سچے مذاہب کی تصدیق کرتا ہے اور خود ساختہ کی نفی کرتا ہے ٍیہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ دین ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ دین اسلام ہے اور چاند چڑھے اور کل عالم دیکھے ، واقعی سب نے دیکھ لیا کہ اسلام ہی سچا دین ، اور عالمی دین ہے اور بیرونی نہیں ہے ۔ اسلام کوئی نیا یا بیرونی مذہب نہ تھا بل کہ اصل میں عرب کا مذہب تھا جس میں خرافات شامل ہو گئیں۔گویا جسم تو تھا روح پرواز کر چکی تھی۔ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کفار جان جائیں کہ اسلام مکہ کی عظمت کا نشان ہے ، دشمن نہیں۔ یہ بات تب قابل تسلیم ہوتی جب اسلام کو کسی مرحلہ پر بیرونی مذہب کہا ہوتا یہ Imported نہیںتھا۔ اسلام میں داخل ہونے والے عرب تھے کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ مذہب غیر ملکی ہے؟ اسلام اللہ کا دیا ہوا پسندیدہ دین ہے اسے دین ابراھیمی کہتے ہیں جب کہ ابراھیمؑ تو باہر سے آئے تھے پھر بھی کسی نے اعتراض نہیں کیا کہ یہ بیرونی مذہب ہے۔یہ ایک عالمی مذہب ہے نہ عربی ہے نہ عجمی۔ اس کا تعلق کسی خطے، نسل سے نہیں یہ عربوں کے آبائو اجداد کا مذہب تھا۔ یعنی آدم ؑ سے لے کر ختمی المرتبت محمد ﷺ تک ایک ہی مذہب رہا ہے۔
اعتراض نمبر ۲۷۷
مکہ سے فرار ہونے والے افراد کو مدینہ والوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ (اندازفکر۳۱۳)
جواب:مکہ میں جو لوگ اسلام قبول کر چکے تھے معاہدہ حدیبیہ کی رو سے مدینہ میں پناہ نہیں لے سکتے تھے۔ کفار نے ان کے لیے مدینہ جانے کے دروازے بند کر رکھے تھے۔ انھوں نے کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ہجرت کی راہ لی اور مدینہ میں نہیں بل کہ مقام عیص کو اپنی پناہ گاہ بنایا جہاں سے قریش کے تجارتی قافلے گزرتے تھے۔ان پر حملے کیے۔ان کو بے بس کر دیا اور تجارت کو مسدود کر دیا۔ ان حالات میں قریش نے خود درخواست کی کہ اس شق کومنسوخ کیا جائے اور انھیںو اپس مدینہ بلا لیا جائے عیص سے یہ گروہ مدینہ آیا۔ اس گروہ کی کاروائیوں میں معترضین کو اہل مدینہ کی شہ نظر آتی ہے جب کہ یہ گروہ مکہ سے تھا اور کفار کے ظلم سے تنگ آکر عیص میںجاگزیں ہوا۔ مدینہ والوں کی اس گروہ کی پشت پناہی کا جہاں تک تعلق ہے تو کیا ان لوگوں کو مسلمانوں نے عیص میں اکٹھے ہونے کی راہ دکھائی تھی؟ کیا وہ مسلمانوں کے کہنے پر مکہ چھوڑ آئے تھے یا کہ کفار کے ظلم و ستم نے ان کا جینا حرام کر دیا تو وہ اپنے وطن کو خیر باد کہ چکے تھے؟ کیا مسلمانوں نے اس گروہ کو قریش کے تجارتی قافلوں پر حملے کرنے کو کہا تھا؟ ۔کفار نے مکہ میں رہنے والے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا ۔ مدینہ میں معاہدہ حدیبیہ کی رو سے جا نہیں سکتے ، اگر جاتے تو مسلمان انہیں اہل مکہ کو واپس کرنے کے ذمہ دار تھے ۔ ابو بصیر مدینہ آیا انہیں کفار کے دو آدمیوں کے سپرد کر دیا ، راستے میں ابو بصیر نے ایک کو قتل کر دیا ، دوسرا بھاگ نکلا ، ابو بصیر نے خود اپنی پناہ گاہ مقام عیص کو بنایا ۔ جب مکہ میں مسلمانوں کو یہ بھنک پڑی تو وہ بھی وقتا فوقتا عیص جانے لگے ۔ خاصی تعداد ہو گئی ، اب انہوں نے اپنے دشمن سے بدلہ لینے کے لیے انتقامی کاروائیاں شروع کیں اور ان کے تجارتی قافلوں پر حملے کرنے لگے جس سے کفار کو اپنی تجارت کے ٹھپ ہونے کا خطرہ لاحق ہوا ۔ اس صورت کی شدت اور سنگینی کو بھانپ کر اہل مکہ نے حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضری دے کر عرض کی کہ عیص میں موجود مسلمانوںکو مدینہ بلا لیں ، ہمیں اعتراض نہیں ہے اور ہم از خود اس شق کو منسوخ کرتے ہیں ۔ کفار نے ہی مکہ کے مسلمانوں کو تنگ کیا اور وہ عیص چلے گئے یعنی وہ خود بھیجنے والے تھے اور پھر ان کی مدینہ واپسی پر رضا مندی طاہر کرنے والے بھی خود کفار تھے ، اس میں مسلمانوں کا ذرا عمل دخل نہیں ہے خواہ مخواہ الزام مسلمانوں کے سر کرتے ہیں ۔ اس قسم کے سوالات کے جوابات مستشرقین کے پاس نہیں ہیں ۔لہذٰا یہ الزام باطل ہے
اعتراض نمبر ۲۷۸
یہ الزام بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جان دو عالم ﷺکے عمرہ کرنے کا خواب اگر صحیح تھا تو اس خواب کی تعبیر غلط نکلی۔( مغرب کا انداز فکر۔۳۱۱)
جواب:اس سے نتیجہ یہ نکالا جارہاہے کہ انبیاء کے خواب الہامی نہیں ہوتے ہیں اور اس خواب کے پورا نہ ہونے سے نبوت پر حرف آتا ہے
کسی کے خواب کی تکذیب کرنا درست نہیں ۔اس کا مشاہدہ کر نے والے سوائے دیکھنے والے کے اور کوئی نہیں ہوتا ۔خواب اس کے دیکھنے والے کے بیان پر تسلیم کیا جاتا ہے۔اس طرح یہ کہنا کہ خواب واقعی دیکھا گیا بھی یا نہیں۔سوائے دماغی فتور کے اور کچھ نہیں ۔خواب کی تعبیر اگر غلط نکلی تو یہ بات اس وقت درست مانی جاتی جب اس خواب میں عمرہ کی کسی مدت کا تعین ہوتا اس کی بھی یہی صورت ہے کہ مدت معین نہیں تھی۔ انبیاء کرامؑ کے بہت سے خواب اور پیشگوئیاں مدتوں بعد پوری ہوئیں۔ جیسے حضرت یوسف ؑنے خواب میں دیکھا کہ چاند سورج اور گیارہ ستارے انھیں سجدہ کر رہے ہیں۔یہ خواب پورا تو ہوا لیکن تقریباََ پچیس سال کے بعد۔ جب خواب دیکھا اسی دن اسی ماہ اسی سال پورا نہ ہوا تو کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ حضرت دانیال ؑ نبی نے جو خواب دیکھے وہ کب پورے ہوئے ، کیا اس میں شک ہے کہ ان خوابوں کی تعبیر صدیوں بعد ملی ، یوحنا کے مکاشفات کا یہ عالم ہے کہ ہزاروں سال گزر گئے اور وہ اب تک پورے نہیں ہوئے تو آپ ﷺ پر تو آپ پر انگشت نمائی چہ معنی دارد ۔دراصل اعتراض تو تب کیا جاتا یا اعتراض تب صحیح ہوتا اگر یہ خواب مدت مقررہ میں پورا نہ ہوتا یا کبھی بھی پورا نہ ہوتا۔قرآن کریم نے اس خواب کاذکر روایت صادقہ بر حق کے طور پر کیا اور عمرہ کی ادائیگی کا مثردہ پر امن طور پر ہونے کااشارہ بھی دے دیا۔
ڈاکڑ ودود کہتے ہیں ’’ جب اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو پہلے ہی بتا رکھا تھا کہ یہ معاملہ آخر تک یوں ہوگا تو پھر صحابہ کرام ؓ کے دریافت کرنے پر اللہ تعالیٰ کو یہ کہنے کی ضرورت کیا پڑی تھی کہ اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا تھا ، تو مسجد حرام میں ان شاء اللہ ضرور داخل ہو ں گے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ (معاذ اللہ ) خود حضور ﷺ کو تردد ہو گیا تھا کہ معلوم نہیں خدا نے مجھے سچا خواب دکھایا تھا یا یوں ہی کہہ دیا تھا کہ مکہ چلے جائو ، تم مسجد حرام میں داخل ہو جائو گے اس تردد کو دور کرنے کے لیے خدا کو بارے دیگر یہ یقین دلانا پڑا کہ آپ ﷺ متردد ہو جائیے ۔ ہم نے سچا خواب دیکھا تھا آپ ﷺ ضرور مسجد حرام میں داخل ہو ں گے ‘‘۔ اس کا جواب مولانا موددی صاحب دیتے ہیں کہ اعتراض کے شوق میں ڈاکڑ صاحب کو یہ ہوش بھی نہ رہا کہ ’’ تو مسجد حرام میں ضرور داخل ہوں گے کا خطاب رسول اللہ ﷺ نے نہیں بلکہ مسلمانوں سے ہے ‘‘۔ ’’ لقد صدق اللہ رسولہ الرویا با لحق لتدخلن المسجد الحرام ۔۔۔ ذالک فتحاََ قریبا ‘‘ اس میں ’’ لتد خلن ‘‘ صیغہ جمع ہے ، صلح حدیبہ کے موقع پر جو صحابہ ؓ حضور ﷺ کے ساتھ آئے تھے ان کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اپنے رسول ﷺ کو سچا خواب دکھایا تھا، تم لوگ ضرور مسجد حرام میں داخل ہو ںگے ۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول مقبول کو سچا خواب دکھا یا تھا کہ وہ مسجد حرام میں داخل ہو ں گے مگر یہ نہیں فرمایا تھا کہ اسی سال عمرہ ادا کریں گے ۔ اس میں مدت مقرر نہ تھی مدت مقرر نہ ہونا خواب کے سچا ہونے کی قطعی دلیل ہے ۔ خواب میں اس سال عمرہ کی ادائیگی کا ذکر نہیں ہے تو از خود اسی سال کا تعین کر کے سچے خواب کو جھٹلانا محض غیر واضح تعصب نفرت اور دشمنی محض ہے ۔
اعتراض نمبر۲۷۹
رسول اللہ ﷺ مدینے میں خواب دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کیا ہے ۔ آپ ﷺ یہ خبر صحابہ کرام ؓ کو دیتے ہیں اور پھر عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ روانہ ہو جاتے ہیں ۔ کفار مکہ آپ ﷺ کو حدیبیہ کے مقام پر روک لیتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں صلح حدیبیہ ہوتی ہے ، بعض صحابہ اس خلجان میں پڑ جاتے ہیں اور حضرت عمر ؓ ان کی ترجمانی کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ یا رسو ل اللہ ! کیا ٓآپ ﷺ نے ہمیں خبر نہ دی تھی کہ ہم مکہ میں داخل ہوں گے اور طواف کریں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں نے یہ کہا تھا کہ اس سفر میں ایسا ہو گا ؟ اس تشریح پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ ( معاذ اللہ ) خود حضور ﷺ کو اپنی وحی کا مفہوم سمجھنے میں غلطی لگ گئی تھی ۔
جواب: مسلمان مکہ سے جبراََ نکالے گئے تھے ۔ ان کفار کی ظلم و ستم کی انتہا نہ رہی اس لیے وہ ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ چلے آئے تھے لیکن ان کے دل و دماغ میں اپنے محبوب وطن کی یاد ہمیشہ انگڑائیاں لیتی رہتی تھی ،اس کے علاوہ وہ اپنے اس حق سے بھی بخوبی واقف تھے ، وہ حق یہ تھا کہ کعبہ پر ان کا بھی کم از کم اس قدر حق ہے جس قدر دیگر قبائل کا ہے ۔ وہ اپنے فرائض سے بھی واقف تھے ، وہ فرض اسلام کے ایک رکن اعظم حج سے با خبر تھے ۔ آپ ﷺ نے ارادہ عمرہ فرمایا ، عمرہ کا احرام باندھا اور قربانی کے اونٹ ساتھ لیے ، یہ بھی حکم دیا کہ کوئی شخص ہتھیار باندھ کر نہ آئے ، صرف تلوار پاس ہو مگر وہ بھی نیام میں بند ہو ۔ یہ تمام باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ مسلمان ارادہ عمرہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے تھے ۔ یہ نہیں کہ مکہ پر چڑھائی کرنے کے ارادے سے آئے تھے لیکن ایک معاہدہ ہوتا ہے جس کی دفعہ اول کے مطابق ’’ مسلمان اس سال واپس چلے جائیں ‘‘ کے سبب مسلمانوں میں اس قدر بے چینی پھیلی کہ حضرت عمر ؓ نے آپ ﷺ سے پوچھ ہی لیا ’’ کیا آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم لوگ کعبہ کا طواف کریں گے ؟ آپ ﷺ کے فرمان کو سمجھنے میں کوتاہی ہوئی ۔ آپ ﷺ کا بیان کردہ خواب برمبنی سچ اور حق ہے اور ان خواب کی باتوں کے استفسار پر حضرت عمر ؓ کے سامنے اعتراف کیا ۔ آپ ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا : ’’ لیکن یہ تو نہیں کہا تھا کہ اسی سال ( طواف ) کریں گے ۔ مذکورہ اعتراض کی عبارت سے یہ ظاہر نہیںہوتا کہ خود حضور ﷺ کو وحی کا مفہوم سمجھنے میں غلطی لگ گئی تھی ( معاذ اللہ ) بلکہ آپ ﷺ کے فرمان’’ یہ تو نہیں کہا تھا کہ اسی سال (طواف ) کریں گے ‘‘سے اعتراض ختم ہو جاتا ہے ، مگر آپ ﷺ اسی سفر میں مکہ میں داخلہ اور کعبہ کے طواف کے متعلق فرماتے تو اور بات تھی مگر آپ ﷺ نے یہ فرماکر کہ ’’ یہ تو نہیں کہا تھا کہ اسی سال طواف کریں گے ‘‘ صحابہ ؓ کے خلجان کو دور فرما دیا نیز بعد میں آنے والے مخالفین کے اعتراض کو پیوند کاک کر دیا ۔ نیز حضورﷺ کا خواب سن کر یہ سمجھا تھا کہ اسی سفر میں عمرہ ہو گا اور جب نہ ہو سکا تو خلجان میں پڑ گئے ۔
اعتراض نمبر۲۸۰
معترض ایک بھونڈی سی تاویل کر کے نبی مکرم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ پر الزام لگاتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ رسول اللہ ﷺ کو شروع ہی سے اللہ کی طرف سے اطلاع مل گئی تھی کہ آپ ﷺ اس سال روکے جائیں گے اور اگلے سال مکہ میں داخلہ ہو گا ۔
۲۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی اطلاع صحابہ ؓ میں سے کسی کو نہ دی بلکہ انہیں یہ غلط تاثر دیا کہ مکہ میں داخلہ اسی سفر میں ہو گا ، جبھی تو صحابہ ؓ خلجان میں پڑ گئے اور حضرت عمر ؓ جیسے قریبی صحابی کو یہ کہنا پڑا کہ آپ ﷺ نے تو ہم سے کہا تھا کہ ہم مکہ میں داخل ہوں گے اور طواف کریں گے ۔ کیا اس سے حضور ﷺ پر یہ الزام نہیں آتا کہ آپ ﷺ نے صحابہ ؓ کو دھوکا دیا ( معاذ اللہ )
جواب: جزیرہ نمائے عرب جو جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ، کوئی ایسی برائی نہ تھی جو اس معاشرہ میں نہ پائی جاتی تھی ۔ اخلاق سے عاری اور شرم و حیا سے محروم تھے ۔ اس دور میں بھی آپ ﷺ نے اپنے دامن کو تمام آلائشوں سے بچائے رکھا ۔ وہ عرب جو قعرمذلت میں گھرے ہوئے تھے ، آپ ﷺ کو ’’ الصادق اور الامین ‘‘ کے القابات سے نوازتے تھے ۔ وہ ہستی جسے اپنے تو کیا ، غیر بھی سچا اور ایماندار کہیں ، اس کی زبان مقدس صحابہ کو غلط تاثر دے سکتی ہے ؟ نہیں ۔۔۔ ہر گز نہیں ! وہ تو بعض صحابہ ؓ نے از خود سمجھ لیا تھا کہ عمرہ اسی سال ہو جائے گا حالانکہ جب حضور ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا گیا کہ آپ ﷺ نے ہمیں خبر نہ دی تھی کہ ہم مکہ میں داخل ہوں گے اور طواف کریں گے تو حضور ﷺ نے جواب میں فرمایا ’’ کیا میں نے یہ کہا تھا کہ اسی سفر میں ایسا ہو گا ۔‘‘ ظاہر ہے کہ اگر حضور ﷺ نے واقعی لوگوں کو یہ کوتاثر دیا ہوتا کہ اسی سفر میں عمرہ ہوگا تو حضور ﷺ ان کے جواب میں یہ بات کیسے فرما سکتے تھے ؟
رسو ل اللہ ﷺ خواب میں دیکھتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کیا ہے ، یہ خواب آپ ﷺ ہو بہو صحابہ کرام ؓ کو سنا دیتے ہیں اور صحابہ ؓ کے ہمراہ بغرض عمرہ مکہ روانہ ہوجاتے ہیں اس موقع پر آپ ﷺ نے یہ تصریح نہیں فرمائی کہ عمرہ اس سال ہو گا یا نہیں ہو گا ۔ اس پر غلط تاثر دینے کا الزام عائد نہیں ہو سکتا ہے ۔ مولانا موددی اس کی وضاحت میں ایک مثال دیتے ہیں ، وہ کہتے ہیں ، فرض کیجئے کہ ایک سپہ سالار کو حکومت بالا دست ایک مہم پر فوج لے جانے کا حکم دیتی ہے ، سپہ سالار کو معلوم ہے کہ یہ مہم اس سفر میں پوری نہیں ہو گی اور سپہ سالار فوج پر یہ ظاہر نہیں کرتا ، وہ صرف اتنا بتاتا ہے کہ مجھے یہ مہم سر کرنے کا حکم ہوا ، کیا اس کو یہ معنی پہنائے جا سکتے ہیں کہ اس نے فوج کو دھوکا دیا ؟ کیا ایک سپہ سالار کے لیے واقعی یہ ضروری ہے کہ حکومت عالیہ کے پیش نظر جو اسکیم ہے وہ پوری کی پوری فوج پر پہلے ہی کھول دے ، اور اس بات کی پرواہ نہ کرے کہ اس کے ظاہر ہو جانے سے فوج کے عزم پر کیا اثر پڑے گا ؟ اگر سپہ سالار فوج سے یہ نہ کہے کہ یہ مہم اسی سفر میں پوری کی جائے گی اور نہ یہ کہے کہ اس سفر میں پو ری نہیں کی جائے گی ، تو اسے آخر کس قانون کی رو سے جھوٹ قراردیا جائے گا ۔ـ
ایک شبہ کا ازالہ:عمرۃ القضائ:کفار مکہ نے مشہور کر دیا کہ مدینہ کی آب و ہوا مسلمانوں کو راس نہیں آئی مسلمان عام طور پر بیمار ہیں اور طواف کعبہ کے قابل نہیں ہیں۔ ( محمد رسول اللہ)
جواب:سن چھ ہجری میں کفار نے مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روک دیا تھا۔ایک معاہدہ ہوا جو صلح حدیبیہ کے نام سے تاریخی کتب میں مشہور ہے۔ اس میں یہ طے پایا تھا کہ اس سال عمرہ کیے بغیر مسلمان واپس چلے جائیں گے۔اگلے سال عمرہ ادا کرنے آئیں گے۔اس لحاظ سے ؁۷ ہجری کو عمرۃ القضا کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ اس موقع پر آپﷺ نے جا نثاروں سے فرمایا اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے گا جو آج اپنی قوت و جرات کا مظاہرہ کرے گا۔ اس لیے آپ صحابہ کے ساتھ تیز تیز اور لپک لپک کر چلنے لگے تا کہ مشرکین کو بتایا جا سکے کہ کوئی کمزوری آب و ہوا سے پیدا نہیں ہوئی۔ یہ تیز رفتاری اس وقت مشرکو ں کو نظر آئی جب تک آپ بیت اللہ کی آڑ میں نہ پہنچ گئے۔ اس عمل کو اصطلاح میں رمل کہتے ہیں او ر یہ مناسک حج میں آپ کی سنت کے طور پر شامل ہے۔
عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں لوگوں کا خیال تھا کہ یہ (ہرولہ) یعنی لپک لپک کر تیز رفتار سے چلنا واجب نہ تھا۔ رسول اللہﷺ نے یہ اقدام قریش کے طعنہ کی وجہ سے جو آپ کو معلوم ہو گیا تھا، کیا تھا لیکن آپ نے حجۃ الوداع میں اسی طرح طواف کیا تو یہ لازم ہو گیا اور اسی پر سنت قائم ہو گئی۔ ( ابن ہشام ج۲ ص ۴۳۴)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...