Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم |
حسنِ ادب
سیرتِ سرور عالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات حصہ دوم

وصال مبارک
ARI Id

1689956752314_56117779

Access

Open/Free Access

Pages

۵۰۳

وصال مبارک
آنحضرتؐ کی تاریخ وفات میں اختلاف پایا جاتا ہے البتہ جن امور پر علماء کا اتفاق ہے ۔ وہ یہ ہیں۔ اول سال وفات ۱۱ ھ ہے۔ دوم مہینہ ربیع الاول کا تھا۔ سوم یکم سے ۱۲ ربیع الاول تک کوئی تاریخ تھی۔ چہارم دو شنبہ کا دن تھا۔ اس سلسلہ میں مولانا شبلی ( سیرت النبی۔ج۲۔ ص۔۱۱۲ ) حاشیہ لکھتے ہیں کہ ارباب سیّر کے ہاں تین روایتیں ہیں یکم ربیع الاول‘ دوم اور ۱۲ ربیع الاول۔ ان تینوں روایتوں میں باہم ترجیح دینے کے اصول روایت و درایت دونوں سے کام لینا ہے اور روایت دوم ربیع الاول کی‘ ہشام بن محمد سائب کلبی اور ابو مخنف کے واسطے سے مروی ہے۔ اس روایت کو اکثر قدیم مورخوں ( مثلاََ یعقوبی و مسعودی وغیرہ) نے قبول کیا ہے لیکن محدثین کے نزدیک یہ دونوں مشہور دروغ گو اور غیر معتبر ہیں۔ یہ روایت واقدی سے بھی ابن سعد و طبری نے نقل کی ہے( جزء وفات) لیکن واقدی کی مشہور ترین روایت جس کو اس نے متعدد اشخاص سے نقل کیا ہے وہ ۱۲ ربیع الاول کی ہے۔ البتہ بیہقی نے دلائل میں مسند صحیح سلیمان التیمی سے دوم ربیع الاول کی روایت نقل کی ہے( نور النبراس ابن سید الناس‘ وفات) لیکن یکم ربیع الاول کی روایت ثقہ ترین ارباب سیر موسیٰ بن عقبہ سے اور مشہور محدث امام لیث مصری سے مروی ہے۔ امام سہیلی نے روض الانف میں اسی روایت کو اقرب الی الحق لکھا ہے اور سب سے پہلے امام مذکور ہی نے روایتاََ اس نکتہ کو دریافت کیا کہ ۱۲ ربیع الاول کی روایت قطعاََ ناقابل تسلیم ہے کیوں کہ وہ باتیں یقینی طور پر ثابت ہیں‘ روز وفات دو شنبہ کا دن تھا۔ اس سے تقریباََ تین مہینے پہلے ذوالحجہ ۱۰ ھ روز جمعہ سے ۱۲ ربیع الاول ۱۱ ھ تک حساب لگائو‘ ذی الحج، محرم، صفر ان تینوں مہینوں کو خواہ ۲۹، ۲۹ خواہ ۳۰، ۳۰ کسی حالت اور کسی شکل سے ۱۲ ربیع الاول کو دو شنبہ کا دن نہیں پڑ سکتا۔ اس لیے درایتاََ بھی یہ تاریخ قطعاََ غلط ہے۔ دوم ربیع لاول کے حساب سے اس وقت دو شنبہ کا دن پڑ سکتا ہے جب تینوں مہینے ۲۹ کے ہوں۔ جب دو پہلی صورتیں نہیں ہیں تو اب صرف تیسری صورت رہ گئی ہے جو کثیر الوقوع ہے یعنی یہ کہ دو مہینے ۲۹ کے اور ایک مہینہ ۳۰ کا لیا جائے۔اس حالت میں یکم ربیع الاول کو دو شنبہ کاروز واقع ہو گا اور یہی ثقہ اشخاص کی روایت ہے۔ ذیل کے نقشہ سے معلوم ہوگا کہ ۹ذوالحجہ کو جمعہ ہو تو اوائل ربیع الاول میں اس حساب سے دو شنبہ کس کس دن واقع ہو سکتا ہے۔
نمبر شمار
صورت مفروضہ
دو شنبہ
دوشنبہ
دو شنبہ
۱
ذی الحجہ‘ محرم اور صفر سب ۳۰ دن کے ہوں
۶
۱۳
۔۔
۲
ذی الحجہ‘ محرم اور صفر سب ۲۹ دن کے ہوں
۲
۹
۱۶
۳
ذی الحجہ۲۹ محرم۲۹ اور صفر سب ۳۰ دن کے ہوں
۱
۸
۱۵
۴
ذی الحجہ ۳۰ محرم ۲۹ صفر ۲۹ کاہو
۱
۸
۱۵
۵
ذی الحجہ۲۹ محرم ۳۰ صفر ۲۹ کا ہو
۱
۸
۱۵
۶
ذی الحجہ ۳۰ محرم ۲۹ صفر ۳۰ کا ہو
۷
۱۴
۔۔
۷
ذی الحجہ ۳۰ محرم ۳۰ صفر ۲۹ کا ہو
۷
۱۴
۔۔
۸
ذی الحجہ ۲۹ محرم ۳۰ صفر ۳۰ کے ہوں
۷
۱۴
۔۔
ان مفروضہ تاریخوں میں سے ۶، ۷،۸، ۱۳، ۱۴،۱۵ خارج از بحث ہیں کہ علاوہ اور وجوہ کے ان کی تائید میں کوئی روایت نہیں‘ رہ گئیں یکم اور دوم تاریخ صرف ایک صورت میں پڑ سکتی ہے جو خلاف اصول ہے۔ یکم تاریخ تین صورتوں میں واقع ہو سکتی ہے اور تینوں کثیر الوقوع ہیں اور روایت ثقات ان کی تائید میں ہیں اس لیے وفات نبوی کی صحیح تاریخ ہمارے نزدیک یکم ربیع الاول ۱۱ ھ ہے اس حساب میں فقط رویت ہلال کا اعتبار کیا گیا ہے جس پر اسلامی قمری مہینوں کی بنیاد ہے۔ اصول فلکی سے ممکن ہے کہ اس پر خدشات وارد ہو سکتے ہوں ۔ کتب تفسیر میں تحت آیت ( الیوم اکملت لکم دینکم) حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اس آیت کے یوم نزول ( ۹ ذی الحجہ ۱۰ ھ سے روز وفات تک ۸۱ دن ہیں) ۔ ہمارے حساب سے ۹ ذی الحجہ ۱۰ ھ سے لے کر یکم ربیع الاول تک دو ۲۹ اور ایک مہینہ ۳۰ لے کر جو ہماری مفروضہ صورت ہے پورے ۸۱ دن ہوتے ہیں۔( یعنی ذوالحج کے ۲۲ محرم و صفر کے ۲۹،۲۹ اور ربیع الاول یکم= ۸۱ دن)
ابو نعیم نے بھی دلائل میں بہ سند یکم ربیع الاول تک تاریخ وفات نقل کیا ہے۔ سید فیض الرسول شاہ ایم فل سکالر لکھتے ہیں کہ بخاری شریف میں ہے سیدنا عمرؓ ( نبی کریم کا یوم ولادت اور یوم وصال) روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے ان سے کہا کہ اے امیر المومنین! آپ کی کتاب (قرآن) میں ایک آیت ہے جس کی آپ تلاوت کرتے ہیں اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن عید مناتے۔حضرت عمر ؓ نے فرمایا وہ کون سی آیت ہے ؟ یہودی کہنے لگا وہ آیت ’’ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا‘‘ ترجمہ:’’ آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمھارے لیے اسلام کو پسند کیا‘‘۔ ( یہودی کہنا چاہتاتھا کہ ’’ اکملت دین‘‘ پر ہم ایسی خوشی مناتے جیسا کہ یوم عید ہو)
حضرت عمر ؓ نے فرمایا ہم اس دن اور اس مقام کو پہنچانتے ہیں جب یہ آیت مبارک نازل ہوئی۔ رسول اللہﷺ اس دن عرفات کے میدان میں تھے اور جمعہ کادن تھا۔ ( یعنی ۹ ذوالحجہ یوم عرفہ)جمعہ ہونے کے سبب عید کا دن تھا۔
تمام امت مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی کریم نے خطبہ حج ۹ ذوالحج ۱۰ ہجری کو دیا جسے خطبہ حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ اس خطبہ کے چند ماہ بعد ۱۱ ہجری میں آپؐ اپنے خالق حقیقی سے جاملے یعنی ربیع الاول ۱۱ ہجری میں آپ ﷺکا وصال مبارک ہوا۔ اب ربیع الاول کی ۱۲ تاریخ کو دیکھا جائے تو ۱۲ ربیع الاول کو پیر نہیں پڑتا۔ لہذٰا آپ کا انتقال ۱۲ ربیع الاول کو ثابت نہیں ہوتا۔ممکنہ نقشہ سے آسانی سے معلوم ہوجائے گا۔
ذوالحجہ ۳۰، محرم۳۰، اور صفر بھی ۳۰ دن کا ہوتو:
ذوالحج محرم صفر ربیع الاول
جمعہ
۹
۱۶
۲۳
۳۰
۔
۷
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۵
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۳
۱۰
ہفتہ
۱۰
۱۷
۲۴
۔
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۶
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۴
۱۱
اتوار
۱۱
۱۸
۲۵
۔
۲
۹
۱۶
۲۳
۳۰
۔
۷
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۵
۱۲
پیر
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۳
۱۰
۱۷
۲۴
۔
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۶
۱۳
منگل
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۴
۱۱
۱۸
۲۵
۔
۲
۹
۱۶
۲۳
۳۰
۔
۷
۱۴
بدھ
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۵
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۳
۱۰
۱۷
۲۴

۱
۸
۱۵
جمعرات
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۶
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۴
۱۱
۱۸
۲۵

۲
۹
۱۶
ذوالحجہ ۲۹ محرم ۲۹ سفر کا مہنہ بھی ۲۹ دن کا ہوتو
ذوالحج محرم صفر ربیع الاول
جمعہ
۹
۱۶
۲۳
۱
۔
۸
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۷
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۶
ہفتہ
۱۰
۱۷
۲۴
۲
۹
۱۶
۲۳
۔
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۷
۱۴
اتوار
۱۱
۱۸
۲۵
۳
۱۰
۱۷
۲۴
۔
۲
۹
۱۶
۲۳
۔
۱
۸
۔
پیر
۱۲
۱۹
۲۶
۴
۱۱
۱۸
۲۵
۔
۳
۱۰
۱۷
۲۴
۔
۲
۹
۔
منگل
۱۳
۲۰
۲۷
۵
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۴
۱۱
۱۸
۲۵
۔
۳
۱۰
۔
بدھ
۱۴
۲۱
۲۸
۶
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۵
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۴
۱۱
۔
جمعرات
۱۵
۲۲
۲۹
۷
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۶
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۵
۱۲
۔
ذوالحجہ ۲۹ محرم ۲۹ سفر کا مہینہ بھی ۳۰ دن کا ہوتو
ذوالحج محرم صفر ربیع الاول
جمعہ
۹
۱۶
۲۳
۱
۔
۸
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۷
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۵
۱۲
ہفتہ
۱۰
۱۷
۲۴
۲
۹
۱۶
۲۳
۔
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۶
۱۳

اتوار
۱۱
۱۸
۲۵
۳
۱۰
۱۷
۲۴
۔
۲
۹
۱۶
۲۳
۳۰
۔
۷
۔

پیر
۱۲
۱۹
۲۶
۴
۱۱
۱۸
۲۵
۔
۳
۱۰
۱۷
۲۴
۔
۱
۸
۔

منگل
۱۳
۲۰
۲۷
۵
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۴
۱۱
۱۸
۲۵
۔
۲
۹
۔

بدھ
۱۴
۲۱
۲۸
۶
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۵
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۳
۱۰
۔

جمعرات
۱۵
۲۲
۲۹
۷
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۶
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۴
۱۱
۔

ذوالحجہ ۳۰ محرم ۲۹ سفر کا مہنہ بھی ۲۹ دن کا ہوتو
ذوالحج محرم صفر ربیع الاول
جمعہ
۹
۱۶
۲۳
۳۰
۔
۷
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۶
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۵
۱۲
ہفتہ
۱۰
۱۷
۲۴
۔
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۷
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۶
۱۳
اتوار
۱۱
۱۸
۲۵
۔
۲
۹
۱۶
۲۳
۔
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۷
۱۴
پیر
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۳
۱۰
۱۷
۲۴
۔
۲
۹
۱۶
۲۳
۲۹
۔
۱
۸
منگل
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۴
۱۱
۱۸
۲۵
۔
۳
۱۰
۱۷
۲۴
۳۰
۔
۲
۹
بدھ
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۵
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۴
۱۱
۱۸
۲۵
۔
۳
۱۰
۱۷
جمعرات
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۶
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۵
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۴
۱۱
۱۸
ذوالحجہ ۲۹ محرم ۳۰ سفر کا مہنہ بھی ۲۹ دن کا ہوتو
ذوالحج محرم صفر ربیع الاول
جمعہ
۹
۱۶
۲۳
۱
۔
۸
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۷
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۵
۱۲
ہفتہ
۱۰
۱۷
۲۴
۲
۹
۱۶
۲۳
۔
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۶
۱۳
۲۰
اتوار
۱۱
۱۸
۲۵
۳
۱۰
۱۷
۲۴
۔
۲
۹
۱۶
۲۳
۳۰
۔
۷
۱۴
۲۱
پیر
۱۲
۱۹
۲۶
۴
۱۱
۱۸
۲۵
۔
۳
۱۰
۱۷
۲۴
۔
۱
۸
۱۵
۲۲
منگل
۱۳
۲۰
۲۷
۵
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۴
۱۱
۱۸
۲۵
۔
۲
۹
۱۶
۲۳
بدھ
۱۴
۲۱
۲۸
۶
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۵
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۳
۱۰

جمعرات
۱۵
۲۲
۲۹
۷
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۶
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۴
۱۱

ذوالحجہ ۳۰ محرم ۲۹ سفر کا مہنہ بھی ۳۰ دن کا ہوتو
ذوالحج محرم صفر ربیع الاول
جمعہ
۹
۱۶
۲۳
۳۰
۔
۷
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۶
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۴
۱۱
ہفتہ
۱۰
۱۷
۲۴
۔
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۷
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۵
۱۲
اتوار
۱۱
۱۸
۲۵
۔
۲
۹
۱۶
۲۳
۔
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۶
۱۳
پیر
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۳
۱۰
۱۷
۲۴
۔
۲
۹
۱۶
۲۳
۲۹
۔
۷
۱۴
منگل
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۴
۱۱
۱۸
۲۵
۔
۳
۱۰
۱۷
۲۴
۳۰
۱
۸
۱۵
بدھ
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۵
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۴
۱۱
۱۸
۲۵
۔
۲
۹
۱۶
جمعرات
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۶
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۵
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۳
۱۰
۱۷
ذوالحجہ ۳۰ محرم ۳۰سفر کا مہنہ بھی ۲۹ دن کا ہوتو
ذوالحج محرم صفر ربیع الاول
جمعہ
۹
۱۶
۲۳
۳۰
۔
۷
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۵
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۴
۱۱
ہفتہ
۱۰
۱۷
۲۴
۔
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۶
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۵
۱۲
اتوار
۱۱
۱۸
۲۵
۔
۲
۹
۱۶
۲۳
۳۰
۔
۷
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۶
۱۳
پیر
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۳
۱۰
۱۷
۲۴
۔
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۷
۱۴
منگل
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۴
۱۱
۱۸
۲۵
۔
۲
۹
۱۶
۲۳
۳۰
۔
۸
۱۵
بدھ
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۵
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۳
۱۰
۱۷
۲۴

۲
۹
۱۶
جمعرات
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۶
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۴
۱۱
۱۸
۲۵

۳
۱۰
۱۷
ذوالحجہ ۳۰ محرم ۳۰سفر کا مہنہ بھی ۲۹ دن کا ہوتو
ذوالحج محرم صفر ربیع الاول
جمعہ
۹
۱۶
۲۳
۳۰
۔
۷
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۵
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۴
۱۱
ہفتہ
۱۰
۱۷
۲۴
۔
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۶
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۵
۱۲
اتوار
۱۱
۱۸
۲۵
۔
۲
۹
۱۶
۲۳
۳۰
۔
۷
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۶
۱۳
پیر
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۳
۱۰
۱۷
۲۴
۔
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۷
۱۴
منگل
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۴
۱۱
۱۸
۲۵
۔
۲
۹
۱۶
۲۳
۳۰
۔
۸
۱۵
بدھ
۱۴
۲۱
۲۸
۔
۵
۱۲
۱۹
۲۶
۔
۳
۱۰
۱۷
۲۴

۲
۹
۱۶
جمعرات
۱۵
۲۲
۲۹
۔
۶
۱۳
۲۰
۲۷
۔
۴
۱۱
۱۸
۲۵

۳
۱۰
۱۷
نوٹ: مذکورہ نقشہ میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ۱۲ ربیع الاول اتوار کے دن بنتی ہے۔ اسی طرح ذوالحجہ ۳۰،محرم ۳۰، صفر ۲۹ کا ہوتو ۱۲ ربیع الاول ہفتہ کے دن ہوتی ہے۔ اگر ذوالحجہ ۳۰ محرم و صفر ۲۹ دن کے ہوں تو ۱۲ ربیع الاول جمعہ کے دن پڑتی ہے۔ اگر ذوالحجہ ۲۹ اور صفر ۳۰ کا ہو یا ذوالحجہ ۲۹محرم ۳۰ اور صفر ۲۹ دن کا ہوتو بھی یہی دن بنتا ہے۔ اگر ذوالحجہ ۲۹ محرم ۲۹ اور صفر بھی ۲۹ کا ہو تو حساب سے ۱۲ ربیع الاول جمعرات کے دن بنتی ہے۔ پیچھے مولانا شبلی نعمانی کے نقشہ صورت مفروضہ کے حساب سے پیر یکم ربیع الاول کو آتا ہے۔ ۱۲ ربیع الاول پیر کے دن کی تاریخ درست نہیں ہے اور مذکورہ نقشہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ۱۲ ربیع الاول کو پیر کا دن نہیں پڑتا ۔( نقوش۔۲۔ ۱۹۹) میں ہے کہ ابن سعد کا بیان ہے کہ ’’ انحضرتؐ ۲۵ ذی قعدہ کو ہفتے کے دن مدینہ سے روانہ ہوئے‘‘۔
(WUSTENFELDS) نے ذیقعدہ ۱۰ کی پہلی تاریخ کو چہارشنبہ قرار دیا ہے جس کی رو سے ۲۵ کو ٹھیک ہفتہ پڑتا ہے جو روایت کے عین مطابق ہے ’’ جب یہ قافلہ مرالظہراں پہنچا تو دوشنبہ تھا‘‘۔ ابن عباس ؓ اور جابرؓ کی روایت کے مطابق یہ ذوالحجہ کی ۴ تاریخ تھی۔ جابرؓ فرماتے ہیں ’’ آنحضرتؐ ۴ ذوالحجہ کو تشریف لائے‘‘۔ عبد اللہ بن عباس کا بیان ہے ’’ اور آنحضرت نے حج کی تحلیل فرمائی تو آپ ۴ ذوالحجہ کو تشریف لائے‘‘۔ ویسٹن فیلڈ کے بہ موجب اگرچہ یہ دونوں بیانات صحیح ہیں کیوں کہ از روئے حساب ذوالحجہ ؁۱۰ کی پہلی تاریخ کو جمعہ تھا۔ اس لیے دوشنبہ کو ذوالحجہ کی چار تاریخ ہی ہونا چاہیے لیکن روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس سال حج جمعہ کو ہوا تھا( جیسا کہ اوپر بخاری شریف کی حدیث بیان ہوئی) یعنی جمعہ کو ۹ تاریخ تھی اور جمعہ ۲ ذوالحج کو پڑتا ہے نہ کہ یکم ذوالحج کو۔ جن کی رو سے دوشنبہ بجائے چار کے پانچ تاریخ کو ہونا چاہیے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ مکہ معظمہ میں ذوالحج کا چاند ۲۹ دن کا تسلیم کر کے بجائے جمعہ کے جمعرات کی پہلی تاریخ قرار دے دی گئی اور حج اسی حساب سے ادا کیا گیا تھا۔یہ ایک دن کا فرق نہیں جو قمری مہینوں میں بنا یا کوئی اہمیت رکھتا ہو۔ نشان زدہ جملہ محل نظر ہے۔ ایک دن کے فرق سے آنے والے واقعات کی ترتیب درست نہ رہنے سے اختلاف پیدا ہوتا ہے جس سے عوام میں فرقہ وارانہ اختلافات جنم لیتے ہیں جو ختم ہونے کا نام تک نہیں لیتے۔ مثلاََ ایک گروہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کے قربان جائیے کہ وصال نبی مکرم کے دن کو بھی جشن مناتے ہیں ۔جشن ولادت تو سمجھ آتا ہے لیکن وصال کے دن جشن منانے کے کیا معنی ہوئے۔
علماء کے نزدیک جن امور پر اتفاق ہے وہ یہ ہیں کہ آپؐ کی وفات کا سال ۱۱ ھ ہے۔ ربیع الاول کا مہینہ تھا اور ربیع الاول کی کوئی تاریخ تھی۔ ربیع الاول کی کوئی تاریخ تھی اس پر تحقیق ہوئی۔ روایت و درایت سے ثابت کیاگیا کہ کسی صورت میں بھی آپ کا وصال ۱۲ ربیع الاول کو نہیں ہوتاجو آپؐ کی تاریخ ولادت ہے، تاریخ وصال نہیں ہے۔ لہذٰا مخالفین کا وہ اعتراض جاتا رہا کہ مسلمان تو وصال نبی کا بھی جشن مناتے ہیں۔
اعتراض نمبر ۳۱۲
مستشرقین جولین کیلنڈر کے مطابق ۷ جون ۶۳۲ء کو تاریخ رحلت قرار دیتے ہیں۔
جواب:مارگولیتھ اور ایچ جی ویلز نے مذکورہ تاریخ ۷ جون ۶۳۲ء رحلت ٹھہرائی ہے جو اس لیے غلط ہے کہ ۷ جون ۶۳۲ء کو پیر کا دن نہیں پڑتا۔ روایات سے ثابت ہوتا ہے اور علماء کرام کااس پر اتفاق ہے کہ آپ کا وصال دوشنبہ ( پیر) کو ہوا یعنی ۷ جون ۶۳۲ء کو پیر کا دن نہیں پڑتا بل کہ پیر کا دن ۸ جون ۶۳۲ء کو آتا ہے۔
علامہ نور بخش توکلی بہ حوالا وفا الوفا( سیرت رسول عربی۔۱۶۰) پر لکھتے ہیں’’ حضرت سلیمان تیمی ابتدائے مرض ۲۲ صفر کو ہوئی اور وفات شریف یوم دو شنبہ ۱۲ ربیع الاول کو ہوئی‘‘۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ ابو مخفف کا قول ہی معتمد ہے کہ وفات شریف ۱۲ ربیع الاول کو ہوئی ۔دوسروں کی غلطی کی وجہ ہوئی کہ ثانی کو ثانی عشر خیال کر لیا گیا پر اسی وہم میں بعضوں نے بعض کی پیروی کی ۔( رسول عربی پانچواںباب۔ص۱۶۰) پیچھے ذکر ہو چکا ہے کہ ۱۲ ربیع الاول صرف ایک صورت ہو سکتی ہے جو کہ خلاف اصول ہے یعنی سارے مہینے ۲۹ کے شمار کرنے ہوں گے جب کہ تین ماہ مسلسل نہ ۲۹ کے اور نہ ۳۰ کے ہوتے ہیں۔ پیچھے نقشہ ملاحظہ کریں۔
ربیع الاول صفر
جمعہ
۱۲
۵
۔
۲۰
۱۳
۶
۔
ہفتہ
۱۳
۶
۔
۲۱
۱۴
۷
۔
اتوار
۱۴
۷
۔
۲۲
۱۵
۸
۱
پیر
۱۵
۸
۱
۲۳
۱۶
۹
۲
منگل
۱۶
۹
۲
۲۴
۱۷
۱۰
۳
بدھ
۱۷
۱۰
۳
۲۵
۱۸
۱۱
۴
جمعرات
۱۸
۱۱
۴
۲۶
۱۹
۱۲
۵
ابتدائے مرض= ۲۲ اتوار
۲۳ پیر
۲۴ منگل
۲۵ بدھ
علم سازی/ واقعہ قرطاس ۲۶ جمعرات
۲۷ جمعہ
روانگی لشکر کا حکم/ آخری خطبہ ۲۸ ہفتہ
شدت مرض ۲۹ اتوار
رحلت یکم ربیع الاول پیر

اعتراض نمبر ۳۱۳
بعض لوگ کہتے ہیں کہ وصال نبی کریم ﷺ کے دن کو بھی جشن مناتے ہیں ۔جشن ولادت تو سمجھ میں آتا ہے لیکن وصال کے دن جشن منانا چہ معنی دارد مخالفین کا یہ الزام بہت قوی ہے کہ وصال کے دن جشن مناتے ۔
جواب:لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا( آل عمران۔۱۶۴)ترجمہ: تحقیق اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر احسان کیا ہے ان میں انہی سے رسول کو مبعوث فرمایا۔ اس اللہ تعالیٰ کی نعمت کبریٰ کے یوم وصال کے سلسلہ میں عوام ابہام کا شکار ہیں خاص طور پر تقسیم ہند کے بعد تو کچھ افراد نے یوم ولادت کو ہی یو م وصال قرار دینے کی سر توڑکو شیشیںکیں جو تا حال جاری ہیں ۔ لہذا اس سے عوام کو با خبر کر کے ان کے اذہان سے شک و شبہ کی گرہ کو کھولا جائے ۔ آقا کریم ﷺ کا یو م ولادت بارہ ربیع الاول شریف ہے لیکن یوم وسال بارہ ربیع الاول کو نہیں پڑتا ۔ صحابہ ، تابعین تبع تابعین قرون اولیٰ سے عصر حاضر تک عرب و عجم کے مورخین و محدثین اور موجودہ دور میں بھی مختلف مکاتب فکر کے کثیر اہل علم اور سیرت نگاروں کا موقف اور جمہور امت کا اتفاق رہا ہے کہ حضور ﷺ کا یوم ولادت بارہ ربیع الاول ہے اور وصال کی یہ تاریخ نہیں ہے ۔
نمبرشمار نام تاریخ ولادت یوم ولادت
۱ ابن جریر طبری ۱۲ ربیع الاول پیر
۲ امام برہان الدین حلبی ۱۲ ربیع الاول
۳ ابن حبان ۱۲ ربیع الاول
۴ امام ابو بکر ابن ابی شیبہ ۱۲ ربیع الاول پیر
۵ امام بیہقی ۱۲ ربیع الاول پیر
۶ ابن ہشام ۱۲ ربیع الاول
۷ ابن حجر مکی ۱۲ ربیع الاول پیر
امام زرقانی ( بحوالا ابن کثیر ) کہتا ہے کہ یہ تاریخ ولادت جمہور کے نزدیک ہے ابن جوزی الجزار نے بھی اس پر اجماع نقل کیا ہے
۸ نواب محمد صدیق حسن ۱۲ ربیع الاول پیر
۹ علامہ محمد صادق سیالکوٹی ۱۲ ربیع الاول پیر
۱۰ مولانا اشرف علی تھانوی ۱۲ ربیع الاول
۱۱ سید سیلمان ندوی ۱۲ ربیع الاول پیر
۲ ۱ سید آل احمد رضی ۱۲ ربیع الاول پیر
ان کے علاوہ ابن سید الناس ، ملا علی قاری، ابن خلدون محمد صادق ابرہیم ، امام سخاوی ، امام ذاہبی ، امام ابو الحسن الماوردی، علامہ یوسف نبھانی وغیرہ نے بھی اپنی کتب میں ولادت بارہ ربیع الاول پیر کے دن عام الفیل کے سال تحریر فرمائی ہے ۔
اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ آپ ﷺ کی تاریخ وصال ۱۲ ربیع الاول ہے تو اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ ۱۲ ربیع الاول کو سرکار ﷺ کی ولادت کا دن خوشی اور دھوم دھام سے نہ منایا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت اور وصال دونوں امت کے لیے باعث رحمت ہیں ۔امام مسلم حضرت ابو موسیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی امت پر رحمت کا ارادہ فرماتا ہے تو اس امت سے پہلے اس کے نبی کو اٹھا لیتا ہے اور اس نبی کو اس امت کے لیے اجر اور پیشرو بنا دیتا ہے جب کسی امت پر ہلاکت کا ارادہ فرماتا ہے تو اس نبی کی زندگی میں اس امت کو ہلاک کر کے اپنے نبی کی آنکھوں کو ٹھنڈک عطا کرتا ہے کیونکہ انہوں نے اس نبی کی تکذیب اور اس کی نا فرمانی کی ہے ۔(مسلم شریف ج۔ ۶۔ص ۔۱۹)اس حدیث مبارکہ میں نبی مکرم ﷺ نے وصال کو بھی رحمت قرار دیا اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے اس امت کے لیے حضور ﷺ کو شفیع بنا دیا جب یہ بات واضح ہو گئی کہ آپ ﷺ کا میلاد اور وصال دونوں رحمت میں امت کے لیے تو جو بڑی ہو خوشی اس کی کرنی چاہیے تو لازمی بات ہے کہ حضور ﷺ کی ولادت نعمت عظمیٰ ہے کیونکہ دوسری رحمت تو اس کے صدقے سے حاصل ہوئی اور پھر وصال کے بعد حزن کی وضاحت آپ ﷺ نے خود فرما دی ۔ مسلم شریف میں ام حبیبہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے منبر پر جلوا افروز ہو کر فرمایا جو عورت اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے البتہ خاوند کی موت کی صورت میں چار ماہ دس دن سوگ کرے ۔۔۔ اب اگر بارہ ربیع الاول کو سوگ منائیں کہ یہ سرکار کے وصال کا دن ہے تو فرمان خدا اور فرمان رسول کی خلاف ورزی ہو گی کیونکہ ولادت کی خوشی نہ منا کر اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا نہ کیا اور غم کی صورت میں حدیث رسول کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ تم سواد اعظم کی پیروی کرو جو اس سے الگ ہوا وہ جہنم میں گیا ۔(ماہنامہ انوار لا ثانی نومبر۲۰۱۸)
الجامع الصحیح اللبخاری میں ہے کہ سیدنا عمر فاروقؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے ان سے کہا کہ اے امیر المومنین آپ کی کتاب ، قرآن ،میں ایک آیت ہے جس کی تم تلاوت کرتے ہو ۔ اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا وہ کونسی آیت ہے ؟ یہودی کہنے لگا وہ آیت ’’ الیوم اکملت لکم دینکم اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا‘‘ ترجمہ : آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو پسند کیا ۔ ( یہودی کہنا چاہتا تھا کہ ’’ اکملت دین ‘‘ پر ہم خوشی ایسی مناتے جیساکہ یوم عید ہے ) حضرت عمر فاروق ؓ فرمانے لگے ہم اس دن اور اس مقام کو پہچانتے ہیں جب یہ آیت مبارک نازل ہوئی رسول اللہ ﷺ اس دن عرفات کے میدان میں تھے اور جمعہ کا دن تھا (یعنی ۹ ذوالحج یو م عرفہ جمعہ ہونے کے سبب عید کا دن تھا )
تمام امت مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی کریم ﷺ نے خطبہ حج ۹ ذوالج دس ھ کو دیا جسے خطبہ حجۃ الوداع کہا جاتا ہے اس خطبہ کے چند ماہ بعد ( ۱۱ ھ میں ) آپ ﷺ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے یعنی ربیع الاول ۱۱ ھ میں آپ ﷺ کا وصال مبارک ہوا ۔ اب حضرت عمر فاروق ؓ والی حدیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ کیا پیر کے روز ( جو احادیث مبارکہ میں واضح ہے کہ یہی نبی ﷺ کا یوم وصال ہے ) ربیع الاول کی ۱۲ تاریخ بنتی ہے ؟ ربیع الاول کی ۱۲ تاریخ کو دیکھا جائے تو قطعا ثابت نہیں ہوتا کہ یوم وصال ختم المرتبت ﷺ ہے کیونکہ صحیح احادیث کثیرسے ثابت ہے کہ یوم وصال ’’ پیر‘‘ ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...