Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > شاعر صدیقی کی فکری جہتیں > شاعر صدیقی(شخصیت و تصانیف)

شاعر صدیقی کی فکری جہتیں |
حسنِ ادب
شاعر صدیقی کی فکری جہتیں

شاعر صدیقی(شخصیت و تصانیف)
ARI Id

1689956774273_56117781

Access

Open/Free Access

Pages

۹

شاعرؔصدیقی:شخصیت و تصانیف
خاندانی پس منظر
شاعرؔ صدیقی کے آبائو اجداد کا تعلق افغانستان سے ہے۔ ان کے بزرگ دراصل سپہ گیری کے پیشے سے وابستہ تھے۔جنہوں نے کسی زمانے میں ہجرت کرکے خیبر پختون خواہ چلے آئے اور پشاورمیں اپنا کاروبار شروع کیا۔اس کے بعد یہ خاندان پشاور سے دہلی منتقل ہوا اور وہاں سکونت اختیار کرلی بقول شاعرؔصدیقی یہ غالباً نادر شاہ افشار کا زمانہ تھا۔شاعرؔصدیقی اپنے خاندانی پس منظرکے متعلق کچھ یوںلکھتے ہیں:
’’ہمارا خاندان جو ہے یہ دراصل افغانستان سے تعلق رکھتا ہے۔اس لیے ہم ذات کے پٹھان ہیں۔ اس کے بارے کچھ زیادہ علم اس لیے نہیں ہے کہ ہمارے بزرگوں نے اس پر زیادہ روشنی نہیں ڈالی۔سنی سنائی جو بات تھی ہمارے خاندان میں بلکہ ہماری اپنی دادی کی زبانی تو وہ مجھے کچھ یاد ہے اور کچھ اس طرح یاد ہے کہ اس نے میری والدہ سے بعض گفتگو کی تھی زیادہ کہ ہمارا خاندان اس طرح کا تھا۔تووہاں سے پشاور یا سرحد کی طرف رخ کیا تو سرحد یا غالباً پشاور میں کچھ کاروبار کیا۔پھر وہا ں سے ہجرت کرکے وہ لوگ دہلی آئے۔یہ غالباً نادرشاہ افشار کا زمانا تھا۔‘‘(۱)
بیرونی حملہ آ وروں کی وجہ سے جب دہلی کے شہر میں قتل غارت گری شروع ہوئی اور شہر اْجڑ گیا تو شاعرؔصدیقی کے دادا فخراللہ خان نے اپنے خاندان کے ہمراہ دہلی سے ہجرت کرکے لکھنوچلے آئے جہاں اْن کی وفات ہوئی۔اس ضمن میں شاعر صدیقی لکھتے ہیں:
’’جب دہلی میں قتل غارت گری شروع ہوئی تو میرے داد فخراللہ خان نے اپنے چھوٹے سی فیملی کو لے کر دہلی سے لکھنو ہجرت کی۔جب لکھنو پہنچے تو کافی عرصہ تک لکھنو میں رہے۔‘‘(۲)
فخراللہ خان کی تین اولاد میں دوبیٹے اور ایک بیٹی تھی۔شاعرؔصدیقی کے والدعبدالغفار خان ان کے چھوٹے بیٹے تھے۔فخراللہ خان کے دونوں بیٹے (عبدالرحمان خان اور عبدالغفار خان) ایسٹرن ریلوے میں ملازم تھے جس کا ہیڈکواٹر بنگلہ دیش کے شہر کلکتہ میں واقع تھا۔شاعرؔصدیقی لکھتے ہیں:
’’جہاں تک مجھے یا د ہے اْن کی دو اولاد تھی عبدالرحمان خان اور عبدلغفار خان جومیرے والد تھے۔اس کے بعد ایک بہن تھی اْن کی۔اس کاا صل نام تو پتہ نہیں لیکن سلونی کہہ کر پکار تے تھے اس کو۔‘‘ (۳)
شاعرؔصدیقی کے داد اکی وفات کے بعد اْن کی دادی لکھنو سے کلکتہ آئیں اورباقی زندگی کلکتہ ہی میں گزاری کلکتہ شہر میں اپنا کاروبا شروع کیا۔یہاں اْنھوں نے تمام بچوں کو خوب پڑھایا اور بچوں کی تعلیم اور تربیت میں اہم کردار اداکیا اس ضمن میں شاعرؔ صدیقی یوں لکھتے ہیں:
’’ہماری دادی دوبچے اور ایک بیٹی کو لے کے وہاں سے اپنے خاندانی نوکر کے ساتھ کلکتے آئیںاور کلکتے میں انھوں نے نئی زندگی شروع کی اور کلکتے میں رہے اور کلکتے میں ہمارے دادی نے اپنا کچھ کاروبار کیا۔جس میں خاندانی نوکر نے خوب ساتھ دیا اور اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا۔شروع میں میرے والد کا کیا کام تھا پتہ نہیں لیکن برٹش کے دور میں انہوں نے ریلوے میں ملازمت کرلی۔بلکہ دونوں بھائیوں یعنی میرے والد اور چچا نے ریلوے میں ملازمت اختیاری کرلی‘‘(۴)
شاعرؔصدیقی کے والد عبدالغفارخان کی شادی کلکتہ کی رہائشی خاتون سیدہ فروزی بیگم سے ہوئی جو شاعرؔصدیقی کی والدہ تھیں۔سیدہ فروزی بیگم کچھ زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھیں لیکن انھوں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔شاعرؔصدیقی اپنی والدہ سے بے اتنہا محبت کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ اْن کی شاعری میں ماں سے جدائی کا کرب محسوس کیا جاسکتاہے۔
پیدائش
شاعرؔ صدیقی مغربی بنگال کے شہرکلکتہ میں یکم فروری۱۹۳۳ء کوپیدا ہوئے(بمطابق میٹرک سرٹیفکیٹ)۔اْن کااصل نام عبدالرزاقہیجبکہ شاعرؔصدیقی اْن کا قلمی نام ہے۔اْن کے والدکانام عبدالغفارخان اور والدہ کانام فیروزہ خانم تھا۔ جن کا تعلق چوں کہ لکھنو سے تھا لیکن تلاش معاش کے سلسلے میں کلکتہ ہجرت کرکے مستقل سکونت اختیار کرلی تھی۔اس حوالے سے شاعرؔصدیقی اپنے ایک مضمون بعنوان ’’حالات زندگی‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’میری کہانی میرے پیدائشی نا عبدالرزاق سے کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ میرے والد محترم عبدالغفارخان لکھنو کے رہنے والے تھے اور میری والدہ ماجدہ پٹنہ کی تھیں۔پیدائش بنگال کے شہر کلکتہ میں ہوئی۔ پہلی درگاہ مدرسہ عالیہ تھی۔‘‘(۵)
شاعرؔصدیقی ایک انٹر ویومزید کہتے ہیں:
’’میرا اصل نام عبدالرزاق خان ہے اور میرے والد کا نام عبدالغفار خان ہے۔ہم ذات کے پٹھان ہیں۔صدیقی کا لاحقہ اتفاق سے میرے نام کے ساتھ جڑ گیا۔اور چوں کہ میری پہلی غزل ہی نے ہم عصرشعرا کو چونکا دیا تھا۔اس لیے صدیقی کا لاحقہ اتفاقاً جڑگیا۔جو اب تک قائم اور ایسا قائم ہیکہ اس کو اپنے نام سے الگ بھی نہیں کرسکتا‘‘(۶)
بقول پروفیسر ہارون الرشید:
’’عبدالرزاق خان نام اور قلمی نام شاعرؔصدیقی،۱۹۳۳ء میں (میٹرک کے سرٹیفیکٹ کے مطابق) کلکتہ(مغربی بنگال ) میں پیدا ہوئے۔یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ان کے والدعبدالغفار خان لکھنو کے رہنے والے تھے۔ملازمت کے سلسلے میں کلکتہ آئے اور وہیں مستقل رہائش اختیار کرلی۔‘‘(۷)
شاعرؔصدیقی نے اپنے شباب کے شب و روز کابڑا حصہ کلکتہ میں گزارا۔کلکتہ مغربی بنگال کا گنجان آباد اور صنعتی شہر تھا۔تقسیم ہند کے بعدجب یہ شہر ہندوستان کے حصے میں آیا۔ تو شاعرؔصدیقی نے اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکا میں مقیم ہوئے جہاں انہوں اپنی آدھی زندگی گزاری۔سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت ۱۹۷۳ء میں نیپال کے راستے سے ہجرت کرکے بے سروسامانی کی حالت میں پاکستان کے شہر کراچی پہنچے اور زندگی کا باقی حصہ یہاں پر گزارہے ہیں۔ اب ان کی عمر ۹۰ برس کو پہنچ چکی ہے۔
تعلیم وتربیت
شاعرؔصدیقی نے کلکتے کے ایک علمی وادبی ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔جہا ں سے اْن کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہوا ہے لیکن اْن کی عملی زندگی کا آغازڈھاکاسے ہوا ۔ انھوں نے زندگی کا زیادہ حصہ مشرقی پاکستان میں گزارا اورساتھ اپنی تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ابتدائی تعلیم انھو ں نے مدرس عالیہ کے نام سے ایک سکول سے حاصل کی جہاں سے انہوں نے ۱۹۴۹ء میں میٹرک کا امتحان بھی پاس کیا۱۹۵۰ء میں مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکاہجرت کرکے چلے آئے ۔ڈھاکا میں قیام کے دوران سٹی کالج ڈھاکا سے انٹرکیا اورپھر قائد اعظم کالج سے بی۔اے کا امتحان پاس کیا۱۹۶۳ء میں ایم اے (اْردو) ڈھاکا یونیورسٹی سے پرائیویٹ طور پر کرلیا اور پھرمحکمہ جنگلات میں ملازمت اختیار کرلی۔اس سلسلے میں شاعرؔ صدیقی یوںلکھتے ہیں:
’’میٹرک کلکتہ یونیورسٹی سے ۱۹۴۹ء میں کیا اس وقت میٹرک کا امتحان یونیورسٹی کے تحت ہوتا تھا۔باقی تعلیم سابق مشرقی پاکستان کے دارلحکومت ڈھاکا میں ہوئی‘‘(۸)
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ شاعرؔصدیقی خود کفالت تھے انھوںنے سخت مشقت کے دن گزارے ہیں ۔ انھوں نے بے حد مصروفیت کے باجود اپنی تعلیم کاسلسلہ اور ادبی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ جزوقتی ملازمت بھی کرتے رہے۔پروفیسر ہارون الرشید کچھ یوں لکھتے ہیں:
’’سرکاری ملازمت ،صحافت ،ادبی سرگرمیاں،فلمی ذمہ داریاں سب ایک ساتھ چل رہی تھیں۔انھیں مصروفیتوں کے درمیان انھوں نے ڈھاکا یونیورسٹی سے انٹر،بی۔اے اور ایم۔اے (اْردو) کے امتحانات پاس کرلیے۔‘‘(۹)
پروفیسر ہارون الرشید مزید فرماتیہیں:
’’شاعرؔصدیقی کی تعلیم وتربیت کلکتے کے علمی وادبی ماحول میں ہوئی۔ انھوں نے علامہ رضاعلی وحشت،حکیم ناطق لکھنوی،آرزو لکھنوی،حبیب النبی صولت،اکمل کلکتوی،آصف بنارسی،شاکر ?لکھنوی اور پروفیسر جمیل مظہری وغیرہ کی ادبی محفلوں کو دیکھا اور فطری رجحان کے تحت کم عمری میں خود بھی شعر کہنے لگے‘‘(۱۰)
شاعرؔصدیقی کا علم وادب سے بے حد شغف تھا وہ بے حد ذہین بھی تھے ۔جب اپنی نصابی سرگرمیوں سے فارغ ہوتے تومدرسہ عالیہ کی لائبریری میں جاکر مختلف شعرا کے کلام کو پڑھتے تھے۔ مدرسہ عالیہ میں بیت بازی کے مقابلوں میں بھر پور حصہ لیتے تھے اور اپنی ذہانت ،شوق اور محبت کے بنا پر ہمیشہ مقابلہ جیت جاتے تھے۔بیت بازی کی جس ٹیم میں وہ شامل ہوتے تھے اْس ٹیم کی جیت یقینی ہوتی تھی۔
آغاز شاعری
انسان پر ماحول کے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو کہ ایک فطری بات ہے۔شاعرؔصدیقی کاتعلق ایک ایسے ماحول سے رہا ہے جو شعر وادب کا مرکز تھا۔کلکتے کے علمی وادبی ماحول نے اْن کے شعری ذوق کو اْبھارا۔شاعرؔصدیقی ایک کہنہ مشق شاعر ہے جن کا شعری سفر تقریباً۷۵ برس پرپھیلاہوا ہے۔ویسے توانہوں نے اپنی شاعری کا آغاز تقسیم ہند سے پہلے کیا تھا۔لیکن باقاعدہ آغاز۱۹۴۹ء میں ہوا تھا۔وہ طبیعتاً بچپن ہی سے شاعری کی طرف مائل تھے۔جب وہ مدرسہ عالیہ کے طالب العلم تھے۔اس حوالے سے وہ کہتے ہیں:
’’شاعری کے جراثیم میرے اندر غیر شعوری طور پرورش پارہے تھے۔میرے والدنہ شاعر تھے نہ موسیقار تھے مگر موسیقی سے بڑا شغف تھا وہ کلکتہ میں منعقد ہونے والے میوزک کنسرٹ میں باقاعدہ بحیثیت سامع شریک ہوتے تھے۔‘‘(۱۱)
مدرسہ عالیہ کلکتے کا ایک معروف علمی ادارہ ہے جہاں اکثر بیت بازی کے مقابلے منعقد ہوتے رہتے تھے۔جس کی وجہ سے طلبا میں شعری ذوق پروان چڑھتاتھا۔اسی ادارے کے طالب العلم ہونے کی وجہ سے شاعرؔصدیقی میں بھی بیت بازی اور پھر شعر گوئی کا شغف پیدا ہوگیااوریو ں طبع زاد شاعری کی طرف مائل ہوگئے۔شاعرؔصدیقی اس حوالے سے مزید کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
’’بیت بازی سے شاعری کا شوق تو پرون چڑھ چکا تھا۔پھر میں ٹیویشن پڑھنے کے لیے جس استاد کے پاس جاتا تھا وہ کلکتہ کے مشہور شاعر کاملؔ کلکتوی تھے۔جب وہ کمرے نہ ہوتے تو میں ان کی بیاض اکثر پڑھتا تھا۔لہٰذا میرے دل میں بھی شعر کہنے کی تحریک پیدا ہوتی تھی مگر میں نے ابھی تک کو ئی شعر نہیں کہا تھا،لیکن اساتذہ کے شعر پڑھنے کا سلیقہ مجھے خوب آتا تھا۔‘‘(۱۲)
شاعرؔصدیقی کی شعری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں اْن کے دوستوں کا بھی بڑا حصہ ہے۔جن میں نمایا ں نام مطیع الرحمان کا ہے جو شاعرؔصدیقی کے لڑکپن کے قریبی دوست تھے۔جنہوں نے شاعرؔکی ابتدائی شاعری کی ہمیشہ پذیرائی کی ہے۔اور اس کی ہمت افزائی کی وجہ سے شاعرؔصدیقی میں شعر کہنے کا جذبہ پروان چڑتا رہا۔
اس شعری سفر میں جن حضرات نے شاعرؔصدیقی کے شعری ذوق کو نکھارنے میں اہم کردار اداکیا ان میں عقیل الرحمٰن خان بھی ہیں جو شاعرؔصدیقی کے چچاذاد بھائی ہیں۔جنہوں نے اْن کی شاعری کے ہرموڑ پر پذیرائی کی تھی۔اس کے علاوہ شاعر صدیقی کا بڑابھائی جس کا نام عبدالستار خان ہے جو خود بھی شاعر تھے۔ انہوں نے بھی شاعر کے کلام کی پذیرائی کی ہے۔جس کے بنا پر شاعرؔصدیقی کے شعری ذوق کو جلاملتی گئی اور آگے بڑتے رہے۔شاعرؔصدیقی کہتے ہیں:
’’میرے شعری ذوق کو سنوارنے اور نکھارنے کے لیے میرے تایازاد بھائی عقیل الرحمان خان کا بڑ اہاتھ ہے جو مجھے لڑکپن میں اپنے پاس پاکستان میں بلاکر اپنے ساتھ رکھا۔اور شعری ذوق کی ہمیشہ پذیرائی کی۔اس سلسلے میںمیرے اپنے بڑے بھائی عبدالستارخان جو راشد الناصری کے نام سے شاعری کرتے تھے اْنہوں نے بھی میرے شعری ذوق کی پذیرائی کی اور جب سابق مشرقی پاکستان میں اْردو بولنے والوں کے خلاف قتل عام شروع ہوا اور گھربار لٹا تو اْنہوں نے اپنے پاس میرے کلام کا ذخیرہ جو سنبھال کر رکھا ہواتھا مجھے مغربی پاکستان آنے کے وقت دیا۔اس طرح میرے کلام کا ایک حصہ تبا ہ ہونے سے بچ گیا۔‘‘(۱۳)
اس ضمن شاعرؔصدیقی بے حد خوش قسمت تھے کہ ایک تو انہیں ایسا ماحول میسرآیا جو شروع سے علم وادب کا مرکرزرہاتھا۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اْن کے دوست و احباب اور عزیز واقارب ہمیشہ اْن کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
شاعرؔصدیقی نے جب شعر کہنا شروع کیا تواس وقت کلکتے میں کاملؔ کلکتوی،وحشت علی رضاؔ، آزاد لکھنوی،حکیم نانق لکھنوی،شاکرؔلکھنوی اور پروفیسر جمیل مظہر جیسے بڑے بڑے شعر ا موجو تھے۔اس وقتکلکتے میںآل انڈیاریڈیوکے مشاعرے منعقد ہوتے تھے۔جس میںبرصغیر کے بڑے بڑے شعرا ساحرؔلدھیانوی، حفیظ ؔجالندھری، مجروح سلطان پوری،کیفی اعظمی اور سردارجعفری جیسے معروف ومقبول شعرا شرکت کرتے تھے۔اس ماحول کی وجہ سے اْن میں شاعری کا ایک فطری رجحان بڑتا گیا اور وہ طبع زاد شعر گوئی کی طرف مائل ہوگئے۔
میٹرک سے فارغ ہونے کے بعداْنہوںنے اپنی شاعری کاباقاعدہ آغاز کردیا۔۱۹۴۹ء میں اْنہوں نے شاکرؔکلکتوی کے گھر منعقد ہونے والے ایک مشاعرے میں اپنی پہلی غزل سنائی۔جس پر محفل میں ہر جانب سے واہ واہ کی آوازیں گونجنے لگیں۔ اْس وقت شاعرؔصدیقی کی عمر۱۶ سال تھی۔یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کے تقسیم ہونے کا سلسلہ جاریتھا اور ملک میں ہرطرف ہندو مسلم فسادات عروج پر تھے۔
شاعرؔصدیقی نے جب شاعری شروع کی تواس وقت کلکتے کے ادبی ماحول میں دو طرز فکر کے شعرا موجودتھے ایک طرف ترقی پسند ادب کا چرچا تھا اور دوسری جانب روایتی اور کلاسیکل ادب کے پیرورکار بھی بہت تھے۔شاعرؔصدیقی ترقی پسند تحریک سے متاثرتھے جن کے نقوش اْن کے کلام میں جا بجا نظر آتے ہیں۔
آغاز ملازمت
شاعرؔصدیقی نے بہت مشکل زندگی گزاری ہے تلاش معاش کے مسئلے نے انہیں عمر بھر جکڑ لیاتھا۔میٹرک پاس کرنے کے بعد شاعرؔصدیقی ملازمت کی تلاش میں تھے۔اس جستجو میں انہوں نے کمرشل کالج کلکتہ میں شارٹ ہینڈ اور ٹائپنگ سیکھنے کے لیے داخلہ لیا یہ کورس جب ایک سال میں مکمل ہوا تووہ ملازمت کی غرض سے ڈھاکا آئے اور ایک ماہ بعد انہیں بورڈ آف ریوینیو کے ذیلی ادارے میں (اپلی کیشن کمیونٹی)میں بحیثیت سٹینوگرافر نوکری مل گئی۔تعلیم و تربیت کے بعد شاعرؔصدیقی نے عملی زندگی کا آغاز سرکاری ملازمت سے کیا اس کے بعد تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اورایگریکلچر ڈولپمنٹ کارپوریشن(ADC)سے وابستہ ہوگئے اور اسی طرح ملازمت میں آگے بڑھتے گئے ۱۹۶۴ء میں شاعرؔصدیقی جز وقتی طور پر جگن ناتھ کالج ڈھاکا میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بحیثیت اْردو لیکچرر تعینات ہوئے۔اس عہدے پراْنہوں نے بہت قلیل عرصہ گزارا۔کیوں کہ وہ اس میں خوش نہ تھے جسپر انہوں نے گیت اور فلمی دنیا کوتر جیح دی اور درس وتدریس کو ہمیشہ کے لیے خیرآبادکہہ دیا۔سقوط ڈھاکا کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور اْنہیں ایک بار پھر ملازمت کا مسئلہ درپیش آیا۔جس کی وجہ سے اْن کادل لکھنے سے کافی عرصہ اْچاٹ ہوگیا تھا۔لیکن جب کراچی میں انھیں۱۹۷۲ء میں واپڈا کے ایک پروجیکٹ میں ملازمت مل گئی تو اْنھوں نے اپنی ادبی سرگرمیاں ازسر نو شروع کی۔اور مشق سخن کو جاری رکھا۔واپڈا میں ملازمت ملنے کی وجہ سے اْن کی معاشی مسئلہ حل ہوگیا۔شاعرؔصدیقی اس ملازمت سے ۱۹۹۳ء میں سبکدوش ہوگئے۔لیکن اپنی محنت اور مشقت کا سفر جاری رکھتے ہوئے پرائیویٹ نوکریاں بھی کرتے رہے۔شاعرؔصدیقی کا کہنا ہے:
’’میں نے ۱۹۹۳ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد Pakistan PharmaceuticalManufactures Assocation(P.P.M میں بہ حیثیت اسسٹنٹ سیکریٹری جوائن کرلیا بعد میں پھر میں سیکرٹری جنرل کے عہدے تک پہنچا اور ۲۰۰۹ء میں یہاں سے بھی ریٹائرڈ ہوگیا۔‘‘(۱۴)
شاعرؔصدیقی زندگی میں تن آسانی کے قائل نہیں تھے۔وہ محنت اور جہد مسلسل پر یقین رکھتے تھے۔ جب تک اْن کی صحت نے اْن کا ساتھ دیا اْس وقت تک وہ ملازمت کرتے رہے۔
ازدواجی زندگی
شاعرؔصدیقی کی شادی ۱۹۶۹ء کو ڈھاکا میں ہوئی جہاں سے اْن کی ایک کامیاب ازدواجی زندگی کا آغاز ہوتاہے۔اْن کی بیوں کا نام ذکیہ سلطانہ ہے جو ڈھاکا کی رہائشی تھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ماں کی وفات کے بعد شاعرؔصدیقی کی زندگی میں اہمیت کی حامل شخصیت اْن کی شریک حیات ہیں۔ شاعرؔصدیقی نے اپنی ساری زندگی اْن کے نام کردی ہے۔وہ اْن سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔اس کااندازہ کچھ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ شاعرؔصدیقی نے اپنے پہلے شعری مجموعے ’’آنکھوں میں سمندر‘‘ کا انتساب اپنی شریک حیات ذکیہ سلطانہ کے نام کرتے ہوئے لکھا ہے:
کتاب زیست کا میں انتساب لکھتا ہوں
تمہارے نام یہ اپنی کتاب لکھتا ہوں
(۱۵)
شاعرؔصدیقی کی شریک حیات ذکیہ سلطانہ کی وفات حال ہی فروری ۲۰۲۱ء بمقام کراچی گلستان جوہر میں ہوئی۔جو اْن کے لیے ضعیف العمری میں کسی بڑے سانحے سے کم نہ تھی۔کیوں کہ اْن کے ساتھ شاعرؔصدیقی نے اپنی زندگی کے تقریباً ۲۵ سال گزارے تھے۔
اولاد
شاعرؔصدیقی کی تین اولاد ہے جس میں ایک بیٹا ہے جس کا نام جاوید فردوس خان ہے جو سعودی عرب میں ملازمت کرتا ہے اورشاعرؔصدیقی کے بڑھاپے کا سہارا ہے۔دوبیٹیاں’’کنول‘‘ اور ’’رباعی‘‘ ہیں سب کی شادیاں ہوچکی ہیں اور سکون کی زندگی بسر کررہی ہیں۔وہ بیان کرتے ہیں:
’’میری تین اولاد ہے۔ایک بیٹا جس کا نام جاید فردوس خان ہے جو آجکل سعودی عرب میں ایک فرم کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہے اور انجینئر ہے۔ایک بیٹی جس کانام ’’کنول‘‘ ہے اسکی شادی ایک وکیل کے ساتھ ہوئی ہے جوGLAXO WELLCOME میں COPY RIGHT ADVISERہے۔جبکہ دوسری بیٹی کا نام رباعی ہے۔جس کی شادی محمدمبین خان سے ہوئی ہے۔اور وہACCOUNTANT CHARTER ہے اور دبئی میں ملازم ہے۔‘‘(۱۶)
شاعرؔصدیقی نے اپنی اولادکی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔اْن کے سارے بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔شاعرؔصدیقی اب نانا اور دادا بھی بن چکے ہیں۔جن کو وہ اپنا سرمایہ حیات سمجھتے ہیں۔وہ بچوں سے بے حد محبت رکھتے ہیں۔جس کااندازہ اس لگایاسکتاہے کہ انہوں اپنے کلیات کا انتساب اپنے بچوں کے نام کردیا ہے۔جس میں جایدفردوس خان ،کنول اور رباعی کے علاوہ انہوں اپنے نواسوں اور پوتوں کے نام شامل کیے ہیں۔
سیرت اور شخصیت
شاعری اور شخصیت کاآپس میں بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے۔شاعرؔصدیقی ایک بڑے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان بھی ہیں۔اُن کی شخصیت اْن کی شاعری میں نکھری ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔وہ ایک باوقار شخصیت ہیں۔سیرت و کردار کے حوالے سے شاعرؔصدیقی ایک ہمدرد اور انسان سے محبت کرنے والے ہیں۔وہ ہمیشہ دوسروں کی فلاح کے لیے سوچتے ہیں جس میں کبھی اْنہوںنے دوست اور دشمن کا امتیاز روا نہیں رکھا ہے۔جس کا پتہ اْن کے کلام کے مختلف گوشوں سے چلتا ہے۔وہ شرافت،عاجزی و انکساری،خوش مزاجی،حق گوئی اور بردباری جیسے اعلیٰ اوصاف کے مالک ہیں۔اس ضمن میں پروفیسر ہارون الرشیدیوںتحریر کرتے ہیں:
’’شاعرؔصدیقی ایک شریف ،خداترس،ملنسار،ہمدرد،خوش مزاج اور حق گو انسان ہیں۔ان میں انکساری بہت زیادہ ہے۔غرور تکبرنام کونہیں۔دکھ درد صبر وتحمل سے برداشت کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔ان کی شخصیت کی یہ خوبیاں ان کی شاعری میں جلوہ گر ہیں‘‘(۱۷)
شاعرؔ صدیقی نے زندگی کی مصروفیات کے باوجود بھی اپنی انکساری،خوش اخلاقی،خوش مزاجی برقرار رکھی ہے۔دوسروں کے کا م آنا اور مددکرنا ایک اہم مشغلہ ہے۔امیرحسین چمنؔ اْ ن کی شخصیت کے حوالے سے اظہار خیا ل کرتے ہیں:
’’بحیثیت انسان شاعرؔصدیقی ایک مخلص درد مند،خودار اور شیرف النفس انسان ہیں۔دوست تو دوست دشمن کی بہتری اور فلاح کے لیے بھی اگر کچھ کرسکتے ہو توپیچھے نہیں رہتے‘‘(۱۸)
شاعرؔصدیقی نے ہمیشہ محنت اور مشقت پر یقین رکھا ہے۔سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی اْنہوں نے اپنی بسر اوقات کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔وہ اپنی گرتی ہوئی صحت کے باوجود بھی ذمہ داری سے پیچھا چڑانے کے قائل نہیں تھے۔ اور بہت رسید ہ عمر میں جب صحت نے بالکل ساتھ نہ دیا تواْنہوں نے پرائیویٹ ملازمت سے ۲۰۰۹ئمیں ریٹائر منٹ لے لی۔
شاعرؔصدیقی ایک غیر متعصب انسان ہیں وہ کبھی بھی کسی کا بْرا نہیں چاہتے ہیں۔وہ پوری انسانیت کے لیے دل میں ایک گہرا درد اور احساس رکھتا ہے۔اْن کی شاعری میں انسان دوستی کا برملا اظہار ملتاہے۔اپنے شعور وآگہی کے بنا پر انہوں نے بہت ہی کم عمری شاعر ی شروع کی تھی۔اْن کی شاعری اس وقت کے معاشرے کے افرادپر گزے ہوئے دل سوز واقعات اور حادثات کا آئینہ ہے۔اْن کے فکر وتخیل پر ہمیشہ کے لیے ایثار کا جذبہ غالب رہاہے۔ زندہ دلی اْن کی شخصیت کی بہترین خوبی ہے۔وہ جب بھی کسی سے ملتے ہیں تو ہنسی ہمیشہ اْن کی لبوں پر ہوتی ہے۔لیکن اس میں سنجیدگی برقرار رہتی ہے۔اپنی شاعری کے وساطت سے انہوں نے ہمیشہ معاشرے کی اصلاح چاہی ہے۔وہ اپنی شاعری کے ذریعے حالات کی کروٹ سے اپنے قاری کو آگاہ کرتے ہیں۔انہوں نے ہمیشہ علم کی روشنی پھیلانے کی پرچار کی ہے اور علم وہنر کی دولت بانٹی ہے۔وہ علم وہنر کا پیکر ہیں۔اْن کا ہر کام علم وادب سے وابستہ ہے۔
علاوہ ازایں شاعرؔصدیقی کی وابستگی دین اور مذہب سے بھی بہت مضبوط ہیں۔وہ ایک راسخ عقیدے کے مالک ہیں۔وہ ایک سچے عاشق رسولﷺ بھی ہیںجس کا اندازہ اْن کے تقریباً تمام شعری اصناف سے لگایا جا سکتاہے۔
شاعرؔصدیقی نہ صرف ایک بڑے شاعرہیں بلکہ ایک عمدہ نثر نگار بھی ہیں۔ادب کے دنیامیں اوہ اپنی غزل گوئی کی وجہ سے شہرت اور مقبولیت رکھتے ہیں جبکہ فلمی دنیا میں وہ ایک کامیاب گیت نگار تسلیم کیے جاتے ہیں۔اپنے اس شعری ذوق کی بنا پر اْن کا نام مشرقی پاکستان میں بھی عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔شاعرؔصدیقی کو اللہ تعالیٰ نے بے پنا ہ شہرت دی ہے لیکن اْس کی شخصیت کا ایک اور مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اْنھوں نے کبھی بھی اپنی شہرت کے لیے کسی بھی لالچ اور خود غرضی کا مظا ہرہ نہیں کیاہے۔وہ دنیاوی شہرت کے پیچھے بھاگنے والوں میں سے نہیں ہے۔حق گوئی اور بے باکی اْن کا وطیرہ ہے۔سچ کہنا اور سچ لکھنا اْن کی فطرت ہے۔
دوست و احباب
شاعرؔصدیقی اپنی زندگی میں دوستی اور دوستوں سے محبت کاایک الگ باب رکھتے ہیں۔وطن چھوڑنے کی احساس محرومی نے دوستوں کے ساتھ اُن کی محبت اور عقیدت میںبے پناہ اضافہ کیا ہے۔اور اسی محبت نے ’’میرے ہمدم میرے دوست‘‘ کے عنوان سے ایک کتابی شکل اختیار کر لی ہے۔جس میں شاعرؔصدیقی نے تقریباً تمام قریبی دوستوں پر صراحت کے ساتھ مضامینلکھے ہیں۔شاعرؔصدیقی کے دوست تو بہت زیادہ ہیں لیکن اْن کے لڑکپن کے دوستوں میں سب سے عزیزدوست مطیع الرحمان تھے۔مطع الرحمان کا تعلق کلکتہ سے ہے ۔ شاعرؔصدیقی ان کے حوالے سییوں لکھتے ہیں:
’’مطیع الرحمان (جو اب کلکتہ بھارت میں ہیں) میر ے سب سے عزیزدوست ہیں جسے عرف عام میں جگری دوست کہتے ہیں۔لڑکپن اور جوانی کی بہت ساری یادیں اس سے وابستہ ہیں‘‘(۱۹)
شاعری کے سفر میں مطیع الرحمان نے شاعرؔصدیقی کے شعری ذوق بڑھانے اور ہمت افزائی میں بہت اہم کردار اداکیا ہے۔اس زمانے کے اہم ساتھیوں میںحامد اور ظفرؔ صدیقی بھی شامل ہیں،جو شاعرؔصدیقی کے شعری سفر میں معاون ثابت ہوئے۔شاعرؔصدیقی کے دوستوں میں اکثریت شعرا اور ادیبوں کی ہے۔جو علم وادب سے وابستہ ہیں۔مشرقی پاکستان میں قیام کے وقت اْن کے قریبی دوستوں میں اخترؔ لکھنوی،حبیب حسن،خواجہ ریاض الدین عطشؔ،واحدنظامی شامل ہیں۔ڈھا کا میں شاعرؔصدیقی کے پہلے دوست اخترؔلکھنوی تھے،جو خود بھی ایک ممتاز شاعر تھے۔شاعرؔصدیقی اْن سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔شاعرؔصدیقی، اخترؔ کے حوالے سے رقطراز ہیں:
’’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ۵۲۔۱۹۵۱ئمیں کلکتہ سے ڈھا کا ہجرت کرکے گیا تو ڈھاکا میں وہ میرا پہلا دوست بنا۔یوں تو اخترؔ مجھ سے عمر میں تین چار سال بڑا تھا مگر اس نے کبھی بھی اپنے بڑے ہونے کا رعب ڈالنے کی کوشش نہیں کی‘‘(۲۰)
حال میں شاعرؔصدیقی کے دوستوں میں نمایاں نام امیرحسین چمنؔ کا ہے جو ایک افسانہ نویس ہیں۔ امیرحسین چمنؔکے ساتھ شاعرؔصدیقی کی دوستی کا دورانیہ تقریباً ۳۳ برس پر محیط ہے جو پاکستان میں اْن کا سب سے عزیز دوست ہے۔امیرحسین چمن کا نام اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ اْنہوں شاعرؔصدیقی کا پہلا مجموعہ کلام ’’آنکھوں میں سمندر‘‘۲۰۰۴ئمیں اسلام آباد پرنٹ میڈیا سے شائع کروایا تھا۔جس کی وجہ سے شاعرؔصدیقی کا کلام ضائع ہونے سے بچ گیا۔امیرحسین چمن کے اس احسان و کارنامے کو شاعرؔصدیقی نے ہمیشہ سراہا ہے۔
ان کے علاوہ عصر حاضر میں شاعرؔصدیقی کے قریبی دوستوں میں ڈاکٹر زاہد حسین،سہیل غازی پوری،شاداب صدیقی ،شاعرعلی شاعرؔ،ڈاکٹرمحمد ظفرخان ظفرؔ اور نورجاوید شامل ہیں۔جن کے خاکے شاعرؔصدیقی نے اپنی کتاب ’’میرے ہمد میرے دوست‘‘میں تحریر کیے ہیںجو اس بات کا ثبوت ہے کہ شاعرؔصدیقی اپنے دوستوں سے بے لوث محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔
دوست انسا ن کی زندگی کا اہم حصہ ہوتا ہے۔زندگی میں دوستوں کے سہارے کی ضرورت ہرموڑ پر ضرور محسوس کی جاتی ہے۔دوستوں کے بنا زندگی ادھوری اور بے معنی سمجھی جاتی ہے۔اچھے دوست انسان کی کامیابی و کامرانی میں مدد گار و معاون ثابت ہوتے ہیں۔
شاعرؔصدیقی کو گم نامی کے گوشوں سے نکالنے میں اْن کے مخلص دوستوں کا ہاتھ ہے،جنہوں نے اْن کی ہمت افزئی کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً اْن کا کلام بھی شائع کیا ہے،جس کی وجہ سے ہر خاص وعام اْن کے فکر و فن کے جو ہرسے آشنا ہوگیا ہے اور اْنہیں شہرت کے ساتھ بے پناہ مقبولیت سے بھی ہم کنار کیا۔
تصانیف کا تعارف
ایک ممتازشاعرہونے کے ساتھ شاعرؔصدیقی ایک بلند پایہ نثرنگار اور صحافی بھی ہیں۔اْنہوں نے بہت سے افسانے بھی لکھے ہیںاور صحافت کے میدان میں آنے کے بعد مضامین ،فیچر،کالم اور اداریے بھی لکھ چکے ہیں۔اْن کی تحریریں اْسلوب کے معیار کے لحاظ کافی اہمیت کی حامل ہیں۔لیکن جس چیز نے شاعرؔصدیقی کو گوشہ گم نامی سے نکالا وہ اْن کی شاعری ہے۔شاعرؔصدیقی کے شعری اور نثری سرمائے کابڑاحصہ مسودوں کی شکل میں سقوط ڈھاکا کے وقت ضائع ہوچکاہے جن میں ’’شیشہ وسنگ‘‘،’’پانی کاملک‘‘،’’ پتھرکے لوگ‘‘ کے علاوہ نثری سرمایہ بھی شامل تھا۔تاہم پاکستان آنے کے بعد اْن کے پاس جوکچھ بچا تھا ان کو اپنے پہلے مجموعہ کلام بعنوان ’’آنکھوں میں سمندر‘‘ ۲۰۰۴ء میں شائع کروایا۔شاعرؔصدیقی لکھتے ہیں:
’’یوں تو میرا پہلا مجموعہ کلام ’’شیشہ وسنگ‘‘ تھا جو قاری تک پہنچنے سے پہلے ہی ۱۹۷۱ئمیں المیہ یا سانحہ مشرقی پاکستان کا نذرہو گیا،دوسرا مختصر سا مجموعہ کلام ’’پانی کاملک پتھر کے لوگ‘‘جو مشرقی پاکستان کے سانحہ کے پس منظرمیں تھا اور۱۹۷۱ئکے آرمی ایکشن سے ۱۹۷۳ء میں کراچی پہنچنے تک کے کلام پر مبنی تھا کسی پبلشر کی عدم دستیابی اور سرمایہ کی کمی کے باعث شائع نہ ہوسکا۔اسی طرح پہلی بار شائع ہونے والے میرے اس مجموعہ کلام’’آنکھوں میں سمندر ‘‘ کو آپ میرا تیسرا مجموعہ کلام بھی کہہ سکتے ہیں۔‘‘(۲۱)
بہر حال شاعرؔصدیقی کا زیور طباعت سے آراستہ ہونے والاپہلا مجموعہ ’’آنکھوں میں سمندر‘‘ ہے۔جو پرنٹ میڈیا پبلی کیشنز اسلام آباد سے۲۰۰۴ئمیں شائع ہوچکا ہے۔اس مجموعے کے مرتب شاعرؔصدیقی کے ایک مخلص دوست امیر حسین چمن ہیں۔جنہوں نے اس پہلے مجموعہ کو شائع کرنے میں شاعرؔکیساتھ اپنی دوستی کا پورا پورا حق ادا کیا ہے۔اس مجموعے میں تقریباً۶۰ غزلیں اور۱۴ نظموں کے علاوہ گیت،دوہے،قطعات، اور رباعیات بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ اس مجموعے میں شاعرؔصدیقی کے فن اورشخصیت کے حوالے مختلف مشاہرفن کے مضامیں بھی شامل ہیں۔یہ مجموعہ۲۱۶ صفحات پر مشتمل ہے۔
بجھتے سورج نے کہا
شاعرؔصدیقی کا دوسرا مجموعہ کلام ’’بجھتے سورج نے کہا‘‘ہے۔یہ مجموعہ ستمبر۲۰۰۹ء میں رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی سے شائع ہوا تھا۔یہ مجموعہ۱۶۰ صفحات پر مشتمل ہے۔اس میں تقریباً ۷۵ غزلیں اور۱۴ نظموں کے علاوہ حمدیہ اور نعتیہ قطعات بھی شامل ہیں۔
جگر ِلخت لخت
شاعرؔصدیقی کا تیسرا مجموعہ کلام ’’جگرِ لخت لخت ‘‘جو محض رباعیات اور قطعات پر مشتمل ہے۔ اس مجموعے کا سن اشاعت ستمبر ۲۰۱۲ئہے جو رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی سے شاعرعلی شاعرؔ کی نگرانی میں شاٰئع ہواتھا۔اس مجموعے کا انتساب شاعرؔصدیقی نے اپنے لڑکپن کے ایک عزیزدوست مطیع الرحمان کے نام کیا ہے۔کتاب کاآغاز حمدیہ اور نعتیہ قطعات سے ہوا ہے۔اس کے علاوہ اس میں ۱۳۲ قطعات عام موضوعات پراور۱۵ شخصی قطعات کے علاوہ ۲۰رباعیات بھی شامل ہیں۔شاعرؔصدیقی رقمطراز ہیں:
’’اس مجموعے میں شامل پچھتر فی صد قطعات ایک خاص دور کی پیداوار ہیں۔جیسے میں’’دور جنوں‘‘ سے تعبیر کرتاہوں۔باقی پچیس فی صد مختلف اوقات میں حالات ومشاہدات کے پیش نظروجود میں آئے ہیں‘‘(۲۲)
پانی کا ملک پتھر کے لوگ
’’پانی کاملک پتھر کے لوگ‘‘ شاعرؔصدیقی کا چوتھااور مختصر مجموعہ کلام ہے جو بہت تاخیر کے ساتھ مئی ۲۰۱۵ئمیں شائع ہوچکا ہے۔یہ دراصل سانحہ مشرقی پاکستان کے پس منظر میں ایک طویل نظم ہے جو سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد لکھی گئی ہے۔اس کتاب کی شاعری مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن کے بعد۱۹۷۱ء تا ۱۹۷۳ئکے دورانیہ پر مشتمل ہے۔
سندربن میں آگ
’’سندر بن میں آگ‘‘ شاعرؔصدیقی کاپانچواںشعری مجموعہ ہے۔اس میں گیت،نغمات اور دوہے شامل ہیں۔علاوہ ازیں شاعرؔصدیقی کی حیات وجہات کے ضمن میں معروف شاعروں اور ادیبوں کے چند مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں۔کتاب میں گیتوں کی تعداد دیگر اصناف کے مقابلے میں زیادہ ہے۔اس میں شاعرؔصدیقی کے فلم ، ٹیلی ویڑن ،ریڈیو،کیسٹ اور ادبی رسائل وجرائد میں شائع ہونے والے مقبول گیتوں کو یکجا کرکے شامل کیا گیا ہیں۔کتاب کے آخر میں شاعر کا مختصر تعارفی مضمون بھی ہے۔
شاعرؔصدیقی کا یہ مجموعہ’’سندر بن میں آگ‘‘ مارچ ۲۰۱۶ئمیں رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی سے زیور طباعت سے آرستہ ہوا۔جو تقریباً۲۵۶ صفحات پر مشتمل ہے۔
شام کا سورج(کلیات شاعرؔصدیقی)
’’شام کا سورج‘‘ شاعرؔصدیقی کا آخری اور چھٹا مجموعہ کلام ہے۔جو غیر مطبوعہ ہے اور پہلی دفعہ کلیات شاعرؔصدیقی میں دیگر مجموعہ ہائے کلام کے ساتھ یکجا ہوکر شائع ہوا۔کلیات شاعرؔصدیقی میں شاعر کے مذکورہ بالا مجموعے اگست۲۰۱۹ء میں ایک ساتھ رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی سے شائع ہوئے ہیں۔کلیات کی ترتیب محمود اخترخان نے کی ہے اورکتاب کامقدمہ اکرم کنجاہی نے لکھا ہے جو عصر حاضر ایک معروف شاعر اور نقاد ہے۔یہ کلیات ۸۰۰ صفحات پر مشمل ہے۔
میرے ہمدم میرے دوست
’’میرے ہمدم میرے دوست‘‘ شاعرؔصدیقی کی نثری تصنیف ہے۔جو مارچ ۲۰۱۸ئمیں منظرعام پرآئی ہے۔اس کتاب میں شاعر نے اپنے ہم عصر دوست واحباب کے حوالے مضامین اور کچھ خاکے تحریرکیے ہیں۔اس کتاب میں شامل مضامین کے حوالے سے شاعرؔصدیقییوں لکھتے ہیں:
’’یہ مضامین وقتاًفوقتاً لکھے گئے یا لکھوائے گئے رسالوں اور کتابوں میں شائع بھی ہوئے۔چند احباب کا مشورہ یا اصرار بھی تھا کہ ان مضامین کو محفوظ کرنے کے لیے کتابی شکل میں آنا ضروری ہے۔لہٰذا جو مضامین دستیاب ہوئے وہ اس کتاب میں شامل ہیں‘‘(۳۲)
کتاب میں جن شاعروں اور ادیبوں کے حوالے سے مضامین شامل ہیں ان میں اخترلکھنوی، اخی بیگ،رشیدالزمان خلشؔ،زخمی کانپوری،سہیل غازی پوری،شاداب صدیقی، واحدنظامی، عارف ہوشیار پوری، ظفرمحمد خان ظفرؔ،امیرحسین چمن اور شاعرعلی شاعرؔ وغیرہ شامل ہیں۔
شاعرؔصدیقی کی زندگی غم اور مسرت کے ساتھ ساتھ بہتا ہوا ایک ایسا دریا ہے جس میں خوشی اور شادمانی کی ہرلہر کو وقت کی آندھی نے ہمیشہ غارت کردیاہے۔اْن کے خاندانی پس منظرپر اگر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ محض شاعرؔصدیقی نے ہجرت کے دکھ نہیں سہے بلکہ اْن کاپورا خاندان اس کرب سے گزراہوا معلوم ہوتا ہے۔جنہوں نے ایک شہر سے دوسرے شہر اور پھر اس طرح مستقل طور پرکلکتہ شہر میں مقیم ہوگئے۔جوشاعرؔکا پیدائشی وطن بھی اور یہاں شاعر?صدیقی کی شعری سفر کا آغاز بھی ہوتا ہے۔ یہاں پراْن کو ایسا ماحول میسر آیا جس نے اْن کی شعری ذوق اور پوشیدہ صلاحیتوں کو اْبھارا۔یہ ایک ادبی ماحول تھا جس میں اْس وقت جید شعرا موجود تھے جن کے چرچے محض اس خطے تک محدود نہ تھے بلکہسارے ملکمیں بھی اْن کانام عزت اور وقار کے ساتھ لیا جاتا تھا۔
کلکتہ سے ڈھاکا شہر ہجرت کے بعد شاعرؔنے بڑی مشقت کی زندگی بسر کی ہے۔ملازمت کے ساتھ ساتھ اْنہوں نے مزید تعلیم بھی جاری رکھی اور مشق سخن بھی جاری رکھی۔دوسری ہجرت اْن کے لیے کرب ناک سانحہ تھا جس میں اْنہوں نے اپنے،دوست واحباب کے ساتھ اپنا ادبی سرمایابھی کھودیا۔جس کارنج اْنہیں ساری زندگی رہا۔شاعرؔصدیقی کی شخصیت کے پوشیدہ گوشے اْن کی شاعری کے جھروکوں میں عیاں ہیں۔اْن کی داخلی کیفیات کا اندازہ اْن کے کلام سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭

حوالہ جات
۱۔شاعرصدیقی،انٹرویوو،کراچی،۵فروری۲۰۱۲ء
۲۔شاعرؔصدیقی،انٹرویوو،ایضاً ۳۔شاعرؔصدیقی،انٹرویوو،ایضاً
۴۔شاعرؔصدیقی،انٹرویوو،یضاً
۵۔شاعرؔصدیقی،مشمولہ،حالات،زندگی،رنگ ادب شاعرؔصدیقی نمبرجولائی تاستمبر۲۰۰۶ء ص۵۱
۶۔شاعرصدیقی،انٹرویوو،کراچی،۷۱ اگست ۲۰۲۰ء
۷۔ہارون الرشید،پروفیسر،چند معاصر،گرافکس میڈیا،پبلی کیشنز کراچی،۲۰۱۱ء ص۴۶
۸۔شاعرؔصدیقی،مشمولہ،حالات،زندگی،رنگ ادب شاعرؔصدیقی نمبرجولائی تاستمبر۲۰۰۶ء ص۵۱
۹۔ہارون الرشید،پروفیسر،چند معاصر،گرافکس میڈیا،پبلی کیشنز کراچی،۲۰۱۱ء ص۲۷
۰۱۔ایضاً
۱۱۔شاعرؔصدیقی،مشمولہ،حالات،زندگی،رنگ ادب شاعرؔصدیقی نمبرجولائی تاستمبر۲۰۰۶ء ص۱۵
۱۲۔شاعرؔصدیقی،سندربن میں آگ،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۶ئ،ص۳۲
۱۳۔شاعرصدیقی،انٹرویوو،کراچی،۷۱ اگست ۲۰۲۰ء
۱۴۔شاعرؔصدیقی،سندربن میں آگ،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۶ئ،ص۴۴
۱۵۔شاعرؔصدیقی،آنکھوں میں سمندر‘‘پرنٹ میڈیا پبلی کیشنز،اسلام آباد۲۰۰۴ئ،ص۵
۱۶۔شاعرصدیقی،انٹرویوو،کراچی،۱۷ اگست ۲۰۲۰
۱۷۔ہارون الرشید،پروفیسر،رنگ ادب شاعرؔصدیقی نمبرجولائی تاستمبر۲۰۰۶ء ص۶۵
۱۸۔امیرحسین چمن،رنگ ادب شاعر?صدیقی نمبرجولائی تاستمبر۲۰۰۶ء ص۳۵
۱۹۔شاعرؔصدیقی،انٹرویوو،۲۹ جولائی۲۰۲۰ء
۲۰۔شاعرؔصدیقی،میرے دوست ہمدم میردوست،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۸ء ص۱۱
۲۱۔شاعرؔصدیقی،آنکھوں میں سمندر‘‘پرنٹ میڈیا پبلی کیشنز،اسلام آباد،۲۰۰۴ء ص۳۶
۲۲۔شاعرؔصدیقی،جگرلخت لخت،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۲ء ص۸
۲۳۔شاعرؔصدیقی،میرے ہمدم میرے دوست،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۸ء ص۷

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...