Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > شاعر صدیقی کی فکری جہتیں > شاعر صدیقی کی غزل گوئی

شاعر صدیقی کی فکری جہتیں |
حسنِ ادب
شاعر صدیقی کی فکری جہتیں

شاعر صدیقی کی غزل گوئی
ARI Id

1689956774273_56117782

Access

Open/Free Access

Pages

۲۷

شاعرؔصدیقی کی غزل گوئی
غزل اْردو شاعری میں روح کی مانند ہے۔ یہ دراصل قصیدے کا ابتدائی حصہ تشبیب ہے جوعموماًعشق ومحبت کے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک الگ صنف سخن کے طور پر ایرانی شعرا نے اس کورواج دیاعربی زبان میں غزل نام کوئی شعرِ صنف موجود نہیں ہے۔شمس رازیؔ نے غزل کی تعریف کچھ اس طرح کی کہ ہرن کو جب شکاری کتے دبوچھ لیتے ہیں اور بے بسی کی حالت میں اس کے منہ سے جو کرب ناک چیخ نکلتی ہے وہ غزل ہے۔معلمین ادب نے اب تک غزل کی جو تعریفیں کی ہیں ان میں سب سے مقبول تعریف یہ ہے کہ’’ عورتوں سے باتیں کرنا ،عورتوں کے متعلق باتیں کر نا ،عورتوں سے عشق بازی کرنا‘‘۔عربی زبان میں غزل سے مراد ’’کاتنا‘‘ لیا جاتا ہے۔عرب میں نوجوان لڑکیاں گھر کی مصروفیت سے جب فارغ ہوجاتی سوت کاتتی تھی اور جوگیت گھاتی اس کو غزل سے معنون کیا جاتا تھا۔شاعری کی اصطلاح میں غزل وہ شعری صنف ہے جس کے ہر شعر میں الگ مضمون باندھا گیا ہوجامعیت اور اختصار غزل کے ہر شعر کا خاصہ ہوتا ہے غزل کا ہر شعر اپنے مفہوم کے لحاظ سے سالم ہوتا ہے۔عشق و عاشقی کے مضامین غزل کے بنیادی عناصر سمجھے جاتے ہیں۔ڈاکٹر محمد عبدالحفیظ قتیلؔ نے اس حوالے سے کچھ یوں اظہار خیال کیا ہے:
’’غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنے ،ان کے ساتھ خوش طبعی سے پیش آنے اور عاشقی کرنے کے ہیں۔اور اصطلاح میں اس صنف سخن کو کہتے ہیں جو حسن جمال کی تعریف اور عشق وعاشقی کے ذکر کے لیے مخصوص ہے‘‘ (۱)
ہیئت کے اعتبارسے غزل کے تمام مصرعے ایک ہی وزن وبحر میں ہوتے ہیں۔ہرشعر مفہوم کے اعتبار سے دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔اشعار کی تعداد کم ازکم پانچ سے سات ہونی چاہیے۔غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہتے ہیں جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں باقی اشعار کے آخری مصرع قافیہ کا التزام ضروری ہوتا ہے آخری شعر کو مقطع کہاجاتا ہے جس میں شاعر اپنا تخلص لاتا ہے۔علاوہ ازیں ردیف کا استعمال بھی غزل میں کثرت سے ہوتا ہے۔مذکورہ بالا عناصر غزل کے بنیادی اجزائے ترکیبی سمجھے جاتے ہیں۔
غزل کی ابتدئی سوتے سرزمین ایرن سے پھوٹے ہیں۔اْردو ادب کے دیگر اصناف سخن کی طرح اْردو میں غزل بھی فارسی ادب سے وارد ہوئی ہے۔اْردو شعری ادب میں جومقبولیت صنف غزل کے حصے میں آئی ہے کسی اور صنف کو نصیب نہیں ہوئی۔ اْردو کے تقریباً تمام معتبر شعرا نے غزل میں طبع آزمائی کی ہے بلکہ اکثر شعرا ایسے ہیں جن کے نام صرف غزل کی وجہ سے زندہ جاوید ہے۔ریختہ میں غزل کے جو قدیم ترین نمونے دریافت ہوئی ہیں وہ امیر خسرو کے ہیں۔جس کی زبان فارسی اور ہندی کی اختلاط پر مشمل ہیں جوغزل کی ہیت سے مشابہہ ہیں۔ڈاکٹر سعداللہ کلیم رقم تراز ہیں:
’’اْردو غزل عربی آمیزفارسی کے زیر اثر وجود میں آئی اور اس کے ابتدائی نقوش ان ریختوں کی صورت میں محفوظ ہیں جن کاایک مصرعہ فارسی اور ایک ہندی زبان کا ہے اور یہ بھی مان لیاجائے جیسے کہ موجود مواد کا تقاضا ہے ،کہ قدیم ترین ریختہ جو غزل کی ہئیت پر پورا اترتا ہے وہی ہے جو امیر خسرو سے منسوب ہے(۲)
قیام پاکستان کے بعد اْردو غزل گو شعرا کی بڑی تعداد منظرعام پر موجود ہے۔ جنہوں نے اثاثہ ٔ اْردوغزل میں بیش بہا اضافہ کیا ہے۔ان شعرا نے عموماًلب ورخسار، گل وبلبل ،مینا وجام اور محبوب جیسے روایتی تصورات کے بجائے تہذیبی و سماجی عوامل کی عکاسی کی ہے۔اس نئی نسل کے شعرا نے نئے خیالات کے اظہار کے لیے نئی علامات نئے لفظیات اور نئے تصورات کو غزل میں جگہ دی ہے ۔اس دور کی غزل کا رشتہ ہمارے تہذیبی و معاشرتی مزاج سے بڑی حد تک جڑاہواہے۔
عصرِ حاضر کے قابل ذکر شعرا میں سے ایک نام شاعرؔصدیقی کا بھی ہے۔جنہوں نے اپنے ہم عصر شعرا میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔شاعرؔ صدیقی اْردو ادب کے ایک کہنہ مشق شاعرہیں جن کا شعری سفر تقریباً سات دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔انہوں نے اپنی غزل میں ذاتی حالات کے علاوہ اپنے عہد کی تہذیب و معاشرت کا بھرپور نقشہ کھینچا ہے۔شاعرؔصدیقی کی شاعری کے معیار پر بات کرتے ہوئے شاعرعلی شاعرؔیوںلکھتے ہیں:
’’اگر شاعرؔصدیقی اوران کے ہم عصروں کے کلام کا موازنہ کیا جائے تو شاعرؔصدیقی کے معیار کا پلہ بھاری رہے گاان کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شاعرصدیقی اپنے ہم عصروں کی طرح دولت ،شہرت یا عیاشی کے پیچھے نہیں بھاگے اور نہ ہی کبھی اْنھوں نے مشاعروں میں شرکت کے لیے مشاعرہ انتظامیہ کی چاپلوسی کی۔وہ اپنی سچی تخلیق میں ہمہ تن مصروف رہے اور ان کا کلام سفر کرتا رہا‘‘(۴)
شاعرؔصدیقی ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں جنہوں نے حمد،نعت،غزل،نظم،گیت،دوہا،قطعات کے علاوہ رباعیات میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔اْن کا کلام اپنے منفرد اسلوب کے بنا پر بے حدمشہور ومقبول ہے۔شاعرؔصدیقی نے اپنی شاعری میں حقیقت کی ترجمانی کی ہے۔شاعرؔ صدیقی کی غزل فکری تناظر میں کثیر الجہت موضوعات پر مبنی ہے۔ اس میں درد وغم،ہجرت،سقوط ڈھا کا،عظمت انسان، رجائیت ، جمالیاتی رنگ،عزم وانقلاب،فریب دنیا،بے ثباتی حیات،احساس تنہائی،روایت پسندی اورحقیقت نگاری بنیادی طور پر نمایاں ہیں۔
دردوغم
غم انسانی زندگی سے جڑا ہواوہ حصہ جس سے کبھی بھی انسان فراغ حاصل نہیں کرسکتا ہے۔ شاعری اور غم کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔شعراوادبانے اپنے اپنے طرز فکرکے موافق غم کاتصور پیش کیا ہے اور اپنے گہرے احساس کی بدولت معاشرے میں اْبھرنے والے واقعات و حوادث کا احاطہ کرتے ہوئے اپنے خارجی اور داخلی دْکھ درد کا اظہار کیا ہے۔ادب سماج وماحول سے کسی نہ کسی صورت میں تلخ وشریں اثرات ضروراخذ کرتاہے۔گویا شاعری اس عہدکی سماجی اور معاشرتی تصویر ہوتی ہے جس میں وہ لکھی جاتی ہے۔دْکھ درد ادبیات کا ایک ایسا موضوع رہا ہے جس کا بھرم تقریباً تمام شعرا وادبا نے رکھا ہے۔درد وغم کے جذبات شاعری میں تاثیر کے محرک بنتے ہیں۔پروفیسر انور جمال شاعری میں دردو وغم کی اہمیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے یوںتحریرکرتے ہیں:
’’ادبیات عالم کے عظیم فن پارے وہ ہیں جن کی رگوں میں PATHOSکی لہریں ہیں افسردگی کی ہلکی ہلکی آنچ،دھیما دھیما لہجہ اور نرم سلگاؤکا عمل شعر کو موثر بنانے کے مضامین ہیں‘‘(۵)
شاعرؔ صدیقی کی ساری زندگی رنج والم،دْکھ درد اور مصیبتوں سے عبارت ہے۔وہ ایک درد منداور حساس شخصیت کے مالک ہیں اس لیے ان کے ہاں درد و غم کے عناصر کچھ کم نہیں ہیں۔ان کی غزل تحریک پاکستان اور ہندومسلم فسادات سے لے کر سانحہ مشرقی پاکستان تک کے درپیش حوادث اور واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔انہوں نے اپنی زندگی کی کہانی کو غم کا روپ دے کر پیش کیا ہے۔ان کی حیات کی تلخی زندگی بھر ان کی زباں پر رہی ہے۔وہ اپنے طویل شعری سفرمیں جہاں جہاں ذہنی اذیت اور معاشرتی و سماجی کرب سے گزرے وہ سوز و گداز اورتلخی ان کی غزل میں جابجا نظر آتی ہے۔امیر حسین چمنؔ ان کے شعری مجموعہ ’’آنکھوں میں سمندر‘‘ میں اس حوالے سے یوںاظہار خیال کرتے ہیں:
’’زیرنظر مجموعہ کلام میں شامل ان گنت اشعار آپ کو ایسے ملیں گے جس میں شاعر کے لہو لہان احساس کی دردناکی قاری کی آنکھوں میں دکھ کی نمی بن کر ستاروں کی طرح جھلملانے لگتی ہے اور بعض جگہ احساس کی طغیانی اور شدت جذبات سے لفظ لرزتے اور کانپتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں‘‘(۶)
شاعرؔ صدیقی نے اپنے کلام میں درو وغم کااظہاربہت دل گداز اور منفرد انداز میں کیا ہے۔بطور نمونہ چند اشعار دیکھیے:
تمہارا غم جو ملے گا غم زمانہ سے
مئے حیات کو دو آتشہ بنا دے گا
(۷)
میں نے ہر درد کو پہلو میں دبا رکھا ہے
ضبط کا میرے بھرم دیدۂ گریاں رکھنا
(۸)
کچھ اس طرح سے غم زندگی گوارا کیا
جو اشک آنکھ میں آیا اسے شرارہ کیا
(۹)
مجھ سے شاید غم دوراں کا پتہ مل جائے
دیکھئے مجھ کو کہ حالات کی تصویر ہوں میں
(۱۰)
شاعرؔ صدیقی کے ہاں غم دوراں کے ساتھ ساتھ غم جاں کے تذکرے بھی نہایت دل فریب انداز میں ملتے ہیں۔ لیکن ان تذکروں سے ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے بھی فیض احمد فیضؔ کی طرح غم جاناں کو غم دوراں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کا حامل نہ سمجھا۔ان کی غزلوں میں ہجر وفراق ،بے وفائی اورشب تنہائی جیسے موضوعات کثرت سے موجود ہیں:
غمِ دنیا ، غمِ عقبیٰ ، غمِ جاناں
انھی خانوں میں میرا دل بٹا ہے
(۱۱)
تمہارے غم بھی بہر طور جھیل جائے گا
ہے مجھ کو ناز بہت غم سے آشنا ہے دل
(۲۱)
شاعرؔصدیقی کی غزلوں میں غم دوراں اور جاناں کا ایک حسین امتزج بھی ملتاہے۔ ان کی غزل اس تہذیب ومعاشرت کی کھلی تصویرہے جس میں وہ اپنی زندگی کی شب وروز بسر کررہے ہیں۔حالات اور ماحول کے گہرے اثرات نے ان کی جذباتی کیفیت کو جلابخشی جو ان کی غزل میں سوز و گداز کے محرک بنے۔شاعرؔ صدیقی وہ شخصیت ہیںجنہوں نے دو ہجرتوں کے دکھ برداشت کیے ہیں۔دوسری ہجرت ان کے لیے ایک ایسا سانحہ ہے جن کے کرب انگیزی ان کے ذہن پر ساری زندگی سوار رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی زبان پر یہ تلخی ہمیشہ رہی ہے۔
ہجرت
شاعرؔ صدیقی دو ہجرتوں کے اہل قلم میں سے ایک معتبرنام ہے۔اْن کے ہاں یہ موضوع کافی اہمیت کاحامل ہے۔ اُن کی غزل کا بیشتر حصہ ہجرت کے گرد گھومتا نظر آتا ہے۔انھوں نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ مشرقی پاکستان میں گزارا تھا شاید یہی وجہ ہے کہ اس خطے سے ان کا فطری لگاؤ تھا جس کا دکھ درد ان کے کلام میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔اس عہد شباب میں شاعر صدیقی کی شعری بصیرت بام عروج پر تھی اور وہ اپنے بلند پایہ تخلیق پاروں کے بنا پر سارے ملک میں مشہور ومقبول ہوگئے تھے۔ بدقسمتی سے اچانک ڈھاکا پامال ہوگیا اور انہیں ایک بارپھر سے رخت سفر باندھنا پڑا اوروہ بہت مشکل حالات سے گزرکر نیپال سے ہوتے ہوئے کراچی پہنچے۔اصل وجہ یہی ہے کہ دوسری ہجرت کادکھ انہیں زندگی بھر رہاہے کیوں کہ ان کا گھر بار لٹ گیا اور بے سر وسامانی کی حالت ایک دفعہ پھر ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اس ضمن مین محمود اختر خان یوں لکھتے ہیں:
’’اسی دوران اُن(شاعرؔصدیقی )کی شاعری سانحۂ مشرقی پاکستان کے گرد گھومتی نظر آتی ہے مگر بہت جلد وہ خود کو سنبھالتے ہیں لیکن افسوس پاکستان میں آتے ہی امریت کے اثرات سے دل برداشتہ ہوکر زندگی گزانے لگتے ہیں اورجمہوریت کا مسخ چہرہ دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتے ہیں،امریت سے جان چھوٹتی ہے تو پاکستان میں سیاسی ولسانی نامساعدہ حالات کے واقعات ان کے دل و روح کو گھائل کردیتے ہیں۔’’(۱۳)
شاعرؔصدیقی کے لیے وطن چھوڑنا کسی بڑے سانحے سے کم نہ تھاکیوں کہ وہ ایک حساس طبیعت کے مالک ہیں اس لیے ان کے اردگرد جو کچھ ہورہا تھا وہ گہرائی سے محسوس کر رہے تھے۔انہوں نے سقوط ڈھاکا کے وہ درد ناک حالات بہت قریب سے دیکھے اور اشعارمیں سموئے۔شاعر صدیقی کے مجموعہ کلام میں بیشتر اشعار ایسے ہیں جن کو پڑھ کر آنکھیں پر نم ہوجاتی ہیں۔اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
گھر کی تقسیم جب ہوئی شاعر
اپنی قسمت میں بے گھری آئی
(۱۴)
نہ جانے کون سی رت میں چلے تھے ہم شاعر
نصیب پھر نہ ہوا اپنے گھر قدم رکھنا
(۱۵)
ہوئی جو شام پرندے بھی لوٹ کر آئے
میں کن رتوں میں چلا تھا سدا سفر میں رہا
(۱۶)
اس زمانے میں شاعرؔ صدیقی پر مشرقی پاکستان میں کئی الزامات لگائے گئے ان میں سے ایک یہ کہ وہ ڈھاکا سے شائع ہونے والے ادبی و ثقافتی میگزین ’’چترالی‘‘ کے ایڈیٹر تھے، اْردو فلموں کے لیے سکرپٹ اور گیت بھی لکھتے تھے۔لہٰذا وہ مشرقی پاکستان میں اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے کام کررہے ہیں۔اس کے علاوہ اُردو دانشور اوربنگال میں اْردو فلموں کے فروغ کے لیے کام کرنے کی وجہ سے معتوب ٹھہرے۔شاعرؔ نے اس الزام کو استعارہ بنادیا ۔جس کا اظہار انہوںنے کچھ یوں کیا ہے:
آپ کے در سے ہمیں درد کی خیرات ملی
جس کی قسمت میں نہیں صبح وہی رات ملی
(۱۷)
ہم نے دنیا کے لیے دل کو جلایا شاعرؔ
اور دنیا سے ہمیں غم کی سیہ رات ملی
(۱۸)
شاعرؔ صدیقی کی اس دورکی غزل میں داخلی عناصر کے بجائے زیادہ تر خارجی عناصر پائے جاتے ہیں۔اس عہد کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی حالات کے گہرے نقوش شاعر ؔصدیقی کی شاعری میں دیکھے جاسکتے ہیں۔جو کچھ ان پر گزرا اورجوکچھ انہوں نے محسوس کیا ہے۔شاعرؔنے نئے نئے واقعات ، مشاہدات اورتجربات کو تحریک میں لاکر اپنے شعر کے سانچے میں سموئے جن سے وہ ذہنی وفکری طور پر متاثرہوئے۔شاعرؔصدیقی کہتے ہیں کہ یہ میرے لیے ایک ایسا درد ہے جس نے مجھے دربدر کیا اور اس درد کو میں نے غزل کے پردے میں آشکار کیا ہے۔
عظمت انسان
رب کریم نے اس کائنات میں انسان کوجس احسن تقویم کے شرف سے نوازا ہے اور جومرتبہ و مقام اور اعزاز بخشا ہے اس سے باقی تمام مخلوقات محروم ہیں کیوں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسی خوبیوں اورصلاحیتوں سے نوازا ہے جس کی وجہ سے انسان کا مقام و مرتبہ فرشتوں سے بھی بڑاہے۔
شاعرؔصدیقی کی غزلوں میں انسان دوستی کا برملا اظہار ملتا ہے۔انہوں نے ہمیشہ انسان کی عظمت کے ترانے گائے ہیں۔ابن ادم سے محبت ان کی سرشت میں کثرت سے موجود ہے وہ کہتے ہیں کہ میں اس نفرتوں کی دنیا میں پیار ومحبت کا دیا بن کر جل رہا ہوں۔ انہوں نے فلسفہ ٔ انسان پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانی وجود کے لیے دوام ہے ۔ یہ کبھی بھی ختم نہیں ہوگا۔انسانوں کو اس جہاں فانی میں امن وسکون سے رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کا سہارا بنو اور انسانی دْکھ درد کومحسوس کرو کیوں کہ ایک انسان دوسرے کاسہارا ہے اورہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جن کے دلوںمیں انسانیت کے لیے درد نہیں ہے لیکن ہوسِ دنیا اور لالچ کی وجہ سے یہ احساس دب گیاہے۔ شاعرؔ نے عصرحاضر کے ادیبوں پر بھی طنز کیا ہے کہ ہمارے معاشرے کے بے بس اورغریب طبقہ جن حالات سے گزر رہا ہے وہ توجہ کے قابل ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ادیب لوگ اب بھی افسانے لکھنے میں مگن ہیں۔حقیقت ان کو نظر نہیں آتی۔ڈاکٹر حنیف فوقؔلکھتے ہیں:
’’ان کی غزل انسان کا درد لیے ہوئے ہے۔دوسروں کے غم سے ان کی آنکھیں بھر آتی ہیں اور اس لیے وہ آنکھوں میں سمندر لیے ہوئے ہیں۔ وسیع انسانیت کے غم کو شاعر نے اپنا غم سمجھا ہے اور اسی سے ان کی شاعری کا لہجہ متعین ہوا ہے‘‘(۱۹)
شاعرؔ صدیقی ایک حساس اور دردمند دل رکھتے ہیں ان کے غزلوں میں ایسے اشعار ا چھی خاصی تعداد موجود ہیں جن میں انسانی عظمت کا اظہار پْرتاثیرلفظوں میں ملتا ہے۔چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
لوح محفوظ پر لکھی ہوئی تحریروں میں
ڈوب سکتا نہیں ظلمت میں کہ تنویر ہوں میں
میں نے انسان کی عظمت کے ترانے گائے
سچ کہا آپ نے لائق تعزیر ہوں میں
(۲۰)
ابن ادم کی نئی نسل پر احسان رکھنا
امن کی شمع بہر طور فروزاں رکھنا
(۲۱)
اس حسین وادی میں ،نفرتوں کے آندھی میں
جل رہے ہیں ہم تنہا پیار کا دیا بن کر
(۲۲)
شاعرؔ نے موجودہ عہد کے حکمران طبقہ پر بھی نشتر برسائے ہیں کہ وہ اقتدار کے نشے میں انسانوں کے دکھ درد کا احساس نہیں رکھتے بلکہ ان کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔شاعرؔصدیقی سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی انسانیت کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں تواس کی یہ موت زندگی سے کئی گنا بہتر ہے:
اے شیش محل کے شہزادو، انسان کی عظمت کو سمجھو
انسان کے بس میں سب کچھ ہے،یہ کہکشاں یہ شمس وقمر
(۲۳)
وہ موت جس میں معراج آدمیت کی
وہ موت زیست سے پیاری ہے زندگی کی قسم
(۲۴)
مہر و اخلاص کا دامن نہ کبھی چھوڑ سکا
اپنے بچپن کا سبق یاد ہے ازبر جیسے
(۲۵)
شاعرؔ کی غزلوں میں ایسے اشعار کافی تعداد میں ملتے ہیں جن میں انہوں نے انسانی عظمت اور انسان سے اپنی بے پنا محبت کااظہار کیا ہے۔شاعرؔصدیقی نے میردردؔکی طرح انسان کو فرشتوں پرفوقیت دی ہے اوروہ اس بات کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں کہ انسان کو فرشتہ کہنا مناسب نہیں ہے کیوں کہ انسان کا مقام و مرتبہ دراصل میں فرشتوں سے بڑا ہے اس لیے کہ انسان بننا اس کہیں زیادہ مشکل ہے۔وہ انسانی فطرت پربات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان اچھائیوں اور برائیوں کا مجموعہ ہے انسان مکمل طور پر بْرا نہیں ہوسکتا اس میں اچھائیاں بھی بہت ہوسکتی ہیں۔
شاعرؔصدیقی ایک ایسے معاشرے کی تلاش میں ہیں جہاں نفرتوں کے بجائے محبتوں اور دشمنوں کے بجائے مسیحاؤں کا راج ہو جہاں امن،آشتی اور انسان سے محبت کا بھرم رکھا جاتاہو۔وہ معاشرے میں انسانیت کے فروغ کے خواہاں ہیں۔وہ تمام انسانوں کو بھائی بھائی سمجھتے ہیں لیکن انہیں اس بات کاگہرا افسوس ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ وہ سلوک کرنے پر آمادہ ہیں جو یوسفؔ کے ساتھ ان کے بھائیوں نے کیا تھا۔وہ سمجھتے ہیںکہ ہم زمیں پر خود جینے کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن دوسروں کو جینے نہیں دیتے،اپنے گھروں کو آباد کرنے کے لیے اوروں کے گھروں کو اُجاڑتے ہیں۔
شاعرؔصدیقی کی غزل کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی کہ وہ انسان کی عظمت کے قائل ہیں اوروں کے دکھ درد کووہ اپنا غم سمجھتے ہیں اورساتھ وہ انسان کی عظمت کوسمجھانے کا درس بھی دیتے ہیں۔ انہیں اس بات کابڑا دکھ ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کے باسی ہیں جہاں کے مکیں انسان کی قدرومنزلت سے غافل ہیں۔شاعرؔ کی غزل کو جس چیز نے بلند و ارفع کردیا ہے وہ انسانی عظمت کا فکری رجحان ہے۔
رجائیت پسندی
’’رجا‘‘عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ’’اْمید‘‘ کے ہیں۔اس کے ساتھ ’’یت‘‘ بطور لاحقہ لگاکر جس سے اْمید وبیم کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے۔شعری اصطلاح میں ’’رجائیت‘‘ سے مراد ادب میں مختلف واقعات وحالات،کے متعلق پْرامید خیالات کا اظہار کرناہے۔پروفیسر انورجمال رجائیت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’شاعری میں خاص طورپر ایسے موضوعات اختیار کرنا جس سے عزم، ولولہ، حوصلہ اور اْمیدکے جذبات پیدا ہوں رجائیت ہے‘‘(۲۶)
رجائیت عموماً قومی ادب کے لیے ایک ضروری عنصر سمجھا جاتا ہے۔معلمین ادب نے اس کی دواقسام بیان کی ہیں ایک رجائیت مجہول ہے جس میں شاعر یا ادیب غیرمتحرک طور پر نامساعدہ حالات کو خود سے بدلنے کا منتظر ہوتا ہے۔دوسری قسم فعال رجائیت ہے جس کا کردار مستقبل میں بہتری لانے کے لیے ایک عزم اور ولولہ کے ساتھ کوشش میں مگن رہتا ہے۔اُردوادب کے دیگر شعرا کے مقابلے میں علامہ اقبال کے ہاں یہ رجحان زیادہ غالب نظر آتاہے۔
رجائیت پسندی بھی شاعرؔصدیقی کی شاعری کاایک امتیازی وصف ہے۔انہیں ساری زندگی مصائب اور مشکلات کا سامنا رہا ہے۔لیکن وہ کبھی بھی اپنی زندگی سے مایوس نہیں ہوئے۔یہ اُن کی شخصیت کا مثبت اور منور پہلو ہے جو ان کے ہاں جابجا جلوہ گر ہے جس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ وہ ایک بلند پایہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پر امید انسان بھی ہیں جنہیں باری تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین ہے اس لیے زندگی کے مصائب وآلام سے دل برداشتہ نہیں ہوتے۔اس حوالے سے اکرم کنجاہی یوںرقم طراز ہیں:
’’ان کے ہاں رجائیت کا فقدان نہیں ہے۔رجائیت ایک مثبت انداز فکراور شعری خوبی ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ رجائیت اْن کے مزاج کا خاص حصہ ہے اور محض تصنع اور ستائش کے لیے کلام میں نہیں ہے۔خوش فکری کو کلام میں زبردستی سے مسلط نہیں کیا گیا ہے‘‘(۲۷)
شاعرؔ صدیقی مسلسل دوہجرتوں کے کرب سہنے کے بعد بھی وہ زندگی سے دل برداشتہ نہیں ہوئے ہیں۔ وہ کامل یقین کے ساتھ ایک درخشاںمستقبل کے لیے پُرامید ہیں۔وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ تیرگی کا راج تاابد قائم نہیں رہتا۔ روشنی آنے میں دیر تو لگتی ہے لیکن آتی ضرور ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک نئی صبح کا آغاز ہورہا ہے اور ظلمت شب کا طلسم ٹوٹنے کو ہے جس کے سبب لوگ مصائب و آلام ،ظلم اور بربریت کے شکار تھے۔جو لوگ غفلت کی نیند سو رہے تھے ان کے جگانے کا وقت آن پہنچاہے۔شب پرستوں کی زبانیں بند رہ جائیں گی کیوں کہ اندھیرے کا جگر چاک ہونے کو ہے۔اس ضمن میں چند اشعار ملاحظہ ہوں:
نظر نظر میں فروزاں تھے جو چراغ اْن سے
سیاہ شب کا جگر چاک ہوگیا کہ نہیں
(۲۸)
یہ جشن تیرہ شبی صبح کو صدا دے گا
اندھیرے خود نئے سورج کو راستا دے گا
(۲۹)
پیدا نئی سحر کے آثار ہوگئے ہیں
جو لوگ سورہے تھے بیدار ہوگئے ہیں
(۳۰)
طلسم ظلمت شب ٹوٹنے کو ہے شاعرؔ
سحر کا جلوہ ذرا آنکھ مل کے دیکھو تو
(۳۱)
شاعرؔصدیقی کے ہاں آس و اُمید پوری آب و تاب کے ساتھ نمایاں ہے۔یہ ُان کی شاعری کا ایک تعمیری اور روشن پہلو ہے۔انہوں اپنی غزلوں میں قنوطیت سے دامن چھڑانے کی بھرپور کوشش کی ہے جس سبب سے ان کی غزل ایک سنگ میل اور نشان راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جب معاشرے میں ظلم وستم حد سے بڑھ جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صبح نو اور شبِ غم کی بیچ کا فاصلہ ختم ہونے کو ہے۔وہ اپنی غزلوں میںاس بات کادرس بھی دیتے ہیں کہ جس طرح خزاں کے بعد بہار کی آمد ہوتی ہے، اسی طرح سیاہ رات ایک منور صبح اپنے ساتھ لے آتی ہے غم کے بعدخوشی کا آنا ،کھٹن اورمشکل حالات ایک خوش کن مستقبل میں بدلتے ہیں۔ ایسا وقت آتا ہے جو دل کے گہرے زخموں کو بھر دیتے ہیں۔اس سلسلے میںشبیرناقدیوںلکھتے ہیں:
’’شاعر مذکورہ کا ایک فطری اعجاز یہ بھی ہے کہ ان کا حزن والم یاسیت آمیز نہیں بلکہ ان کے ہاں لطیف احساسات کی بارہ دری بھی ہے جس سے باد نوبہاری کے تازہ جھونکے اقلیم وخردکومعطر ومعنبرکرتے ہیں انہوں نے ایک خوش گوار شعری روایت کو پروان چڑھانے کی سعی بلیغ کی ہے رنج وملال کا بیان طربیہ پیرئیہ اظہار میں انتہائی خوش آئند ہے‘‘(۳۲)
شاعرؔصدیقی کے ہاں انفعالیت کے بجائے فعالیت نمایاں ہے۔ وہ خود سے حالات بدلنے کے قائل نہیں ہیں بلکہ جِدوجْہد پر یقین رکھتے ہیں۔شاعرؔصدیقی کے ہاں زندگی کاایک پراْمید اورخوش آئین مستقبل کا تصور موجود ہے۔جو ان کی شخصیت میں ،جواں مردی ،بلند حوصلہ ،عزم، اورذہنی آزادی کا ایک واضح ثبوت مہیا کرتا ہے۔
جمالیاتی رنگ
جمال کا لفظ عربی زبان سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی حسن اور خوب صورتی کے ہیں۔ اصطلاح میں جمال کی کلیت یعنی جمالیات فنون لطیفہ کا وہ علم جس میں حسین چیزوں کے جانچنے اور پرکھنے کے اصول وضوابط کے متعلق بحث ہوتی ہے۔ادبیات عالم میں یہ اصطلاح پہلی مرتبہ ایک جرمن فلسفی بام گارٹن نے ۱۷۵۰ء میں استعمال کی جس سے علم حسیات مراد لیا۔ جمالیاتی فلسفے کی ترقی میں بام گارٹن کے جمالیاتی تجزیے کو ایک اہم موڑ کے طور پر دیکھا جاسکتاہے۔اس سے پہلے لفظ ’’جمالیات‘‘ قدیم مصنفین کے استعمال میں ’’حساسیت‘‘ یا’’حواس‘‘ کے رد عمل کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔جدید نظریے کے مطابق جمالیات وہ فلسفہ ہے جو نقدونظر تجربہ حسن اور تخلیقی تجربہ کے قدر ومعیار کے متعلق بحث کرتی ہے۔بحر حال علمائے ادب نے اب تک جمالیات کی جتنی توضیع وتشرح کی ہے اس سے لفظ جمالیات کی حتمی تعریف سامنے نہیں آتی۔
حسن پرستی انسان کی فطرت ہے۔کائنات میں جہاں بھی خوبصورتی کودیکھتا ہے اس سے روحانی طور پر متاثر ہوتا ہے۔اْردو کے تقریباً تمام اکابر شعرا کے ہاں جمالیاتی رجحان موجود رہاہے۔
جمالیات شاعرؔصدیقی کی شاعری کی اہم خصوصیت ہے ان کی غزل جمالیاتی حس سے معمور ہے۔ان کی ہاں حسن کی ہمہ گیری نظر آتی ہے۔اس جمالیاتی رجحان نے ان کے کلام میں جاذبیت اور اثر آفرینی پیداکی ہے۔انہوں نے اپنی غزل کو سوقیانہ پن اور ابتذال سے محفوظ رکھا ہے۔جس کی وجہ سے ان کی جمالیاتی فکر میں تقدس اور پاکیزگی پیدا ہو گئی ہے۔ان کے ہاں روایتی انداز میں گل وبلبل،لب ورخسار اور قدرعنا جیسے مضامین کا اظہار ملتا ہے۔ ان کو اپنا محبوب چاند اور کنول سے بھی خوبصورت نظرآتاہے۔ جب وہ خوبصورت چہروں،رسیلے ہونٹ اور پیار بھرے شرمیلے نین دیکھتے ہیں تو ان کی نیندیں اْڑجاتی ہے۔کبھی وہ محبوب کی خوبصورتی گل وبلبل میں تلاش کرتے ہیں توکھبی اس کے لہجے کی مٹھاس کو خط کے لفظوں میں محسوس کرتے ہیں اور کبھی اس کے بانہوں میں مرجانے کی خواہش رکھتا ہے۔جب وہ اپنے محبوب کی شوخ اور چنچل آنکھیں یاد کرتے ہیں تو ان پربے خودی طاری ہوجاتی ہے اور جب ساتھ ہوتاہے تووہ چاند کو رات کے ماتھے پہ جھومر سمجھتا ہے ان کو کائنات کی ہر چیز حسین لگتی ہے۔اْن کے کلام میں رعنائی اور لطافت بالکل فطری طور پر نمایاں ہے ۔ اس حوالے سے اکرم کنجاہی یوں رقم طراز ہے:
’’ اْن کے غزلیہ دشت میں چوکڑے بھرتے ہوئے آہوؤں،غزالوں اور آہو چشموں کی کمی نہیں۔کئی ایک غزلیات مکمل طور پر جمالیاتی رنگ میں کہی گئی ہیں۔یہ ان کے جذبے اور شدت احساس کی نہیں فکر وخیال افروزی کی کارفرمائی لگتی ہے۔ایسی مسلسل غزلیات کی تعداد ان کے کلام میں کم نہیں۔مسلسل غزل کا ان کے ہاں ورود وحدت تاثیر پیدا کرتا ہے‘‘ (۳۳)
جمالیاتی تناظرمیں شاعرؔکے ہاں ایسے نمونے موجود جنہیں پڑتے ہی قاری پر اپناسحر طاری کردیتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہو:
اس کی صورت کی بدل چاند ستارہ نہ کنول
اس کے لہجے کی کھنک گیت، رباعی نہ غزل
(۳۴)
خط کے لفظوں میں رچی ہے ترے لہجے کی مٹھاس
دل میں دھڑکن کی طرح،پھول میں خوشبوں کی طرح
آج بھی راہ دکھاتی ہیں وہ آنکھیں مجھ کو
ظلمت شب میں چمکتے ہوئے جگنو کی طرح
(۳۵)
جنم لینے لگی ہیں کچھ عجب سی خواہشیں شاعرؔ
کسی کی مرمری بانہوں میں مرجانے کو جی چاہا
(۳۶)
شاعرؔصدیقی کی بعض غزلیں ابتدا سے آخر تک ایک خاص جاذبیت اور دل چسپی رکھتی ہے۔جو قاری کی طبیعت پر بوجھ کا باعث نہیں بنتی۔مثال ملاحظہ ہو:
ہمارے شہر میں کچھ حسن خال خال نہ تھا
مگر یہ سچ ہے کسی میں ترا جمال نہ تھا
میں آگیا جو تمہاری حسین آنکھوں میں
کمال عشق تھا مرا کوئی کمال نہ تھا
(۳۷)
ایک اور مثال ملاحظہ ہو:
ہم نے دیکھی ہیں وہ کافر آنکھیں
کتنی چپ چاپ سخنور آنکھیں
ڈوب جاؤں تو ابھرنا مشکل
جھیل آنکھیں وہ سمندر آنکھیں
(۳۸)
وہ حسن کو کائنات میں تلاش کرتے نظرآتے ہیں۔ان کے اشعار ایک شدید جذبے کے ساتھ ان کے جمالیاتی فکر کے مظہر ہیں۔ شاعرؔنے محبوب کے حسن وجمال اوررعنائی کے جس طریقے سے تصویر کشی کی ہے وہ لاجواب ہے:
گلاب ہونٹوں کی چنگاریاں مجھے دے دو
رہ حیات میں تاریکیاں تو ہوتی ہے
(۳۹)
وقت رخصت وہ نگاہوں میں ایک افسانہ شوق
اشک وہ عارض گلنار پہ ڈھلکا ڈھلکا
(۴۰)
عصرِ حاضر میں شاعرؔصدیقی کو اگرایک جمال دوست شاعر کے لقب سے نوازاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔حسن ان کے رگ وپے میں بسی ہوئی ہے۔ان کی شاعری میں جمالیاتی حس اپنی پوری آب تاب سے نمودار ہے وہ محبوب کی خوبصورتی کاذکرایسے مؤثر انداز سے کرتے ہیں کہ قاری تحسین وآفرین دئے بنا نہیں رہ سکتا۔شاعرؔصدیقی کی شاعری کو دلکشی،نغمگی اور جمالیاتی حسن نے چارچاند لگا دئے ہیں۔انہوں نے سادگی،اعتدال اور پختگی سے اپنی داخلی جذبات کا اظہارکرنے کے ساتھ روایت کا بھرم بھی رکھا ہے جس سے ان کی شخصیت کا جمالیاتی گوشہ بے نقاب ہوگیاہے۔ان کی شاعری پر جمالیاتی رجحان چھایا ہوا ہے۔ ان کی زندگی دو ہجرتوں کے کرب کے علاوہ دیگر سماجی،معاشرتی اورمعاشی دکھوں سے بھی مملو ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی جمالیاتی فکر کے ساتھ الفاظ کی ترتیب ونشست کا بھی پاس رکھا ہے جو ان کی فنی وفکری پختگی کا ثبوت بہم پہنچاتی ہے۔
عزم وانقلاب
عزم کے لغوی معنی قصد یا ارادے کے ہیں جبکہ انقلاب زمانی گردش،تبدیلی اور تغیر کانام ہے۔ شاعر اورتخلیق کار عموماً حساس ہوتے ہیں اور انہیں اپنے شدید احساسات،جذبات،اور مشاہدات کی بدولت معاشرے میں وہ کچھ نظر آتا ہے جو عام لوگوں کی فہم وفراست اور بصارت سے بالاتر ہوتا ہے۔اْردو میں ایسے شعرا کی تعدادبہت زیادہ ہے جنہوں نے اپنے عہد کے موافق معاشرتی ناہمواریوں،ظلم وجبراور غربت وافلاس جیسے مسائل کے خلاف آواز اْٹھائی ہے۔
شاعرؔصدیقی نے معاشرے کے جابرانہ نظام کے خلاف عزم مستقل اور یقین محکم کے ساتھ آواز بلند کیا ہے۔وہ اس جابرانہ نظام کو بدلنے کے آرزومند ہیں۔ملکی نا انصافیاں،بے اعتدالیاں اور ظلم ستم شاعر کے برداشت سے باہر ہے۔لیکن انہوں نے اپنی انقلابی نعروںمیں اخلاقیات کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس سلسلے میںپروفیسر ہارون الرشید یوںتحریر کرتے ہیں:
’’ملک ومعاشرے میں پھیلے ہوئے ناانصافیوں،بے اعتدالیوں اور ظلم وستم پران کا دل کڑھتاہے اور ان کے خلاف آواز کیے بغیر نہیں رہتے لیکن ان کے اشعار نعرہ یا پروپیگنڈا نہیں بنتے بلکہ یہ اشعار بھی شعریت میں ڈوبے ہوئے اور دل میں اتر جانیوالے ہوتے ہیں‘‘(۴۱)
شاعرؔ صدیقی کی شخصیت کا ایک اور روشن پہلو عزم وانقلاب ہے۔وہ آزادی کی قدر وقیمت کو سمجھتے ہیں۔معاشرے میں عدل و انصاف،مساوات، انسان دوستی اوروطن پرستی کے خواہاں ہیں۔ان کی غزل انقلابی مزاج کی حامل ہے ۔زندگی کے دکھوں،تکالیف اور مشکلات نہ ان کے حوصلے پست کرسکے نہ انہیں ٹوٹ کر بکھرنے دیابلکہ انہوں نے اپنا عزم سفر جاری وساری رکھتے ہوئے بلند ہمتی اور اولعزمی کا مظاہرہ کیا ہے۔اس حوالے سے عشرت رومانی یوںاظہار خیال کرتے ہیں:
’’شاعرؔصدیقی زندگی تلخ حقائق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آگے بڑھتے رہے انہوں نے تیزی کے ساتھ بدلتی ہوئی تہذیبوں ،قدروں، انسانی رشتوں کی شکستگی،منافقت اور ٹوٹ پھوٹ کو کھلی آنکھ سے دیکھا اپنے وجودکو برقرار رکھ کر نفی میں بھی اثبات کے راستے تلاش کیے اور فکر وفن کی ارتقائی سیڑیوں پر چڑھتے رہے انہوں نے زندگی کے تضادات کو محرک فن بناکرانسانی رشتوں کو محبت کی مالا میں پروکے انسان دوستی کا ثبوت دیا اپنی شاعری میں رنگ خوشبو،نغمہ،جھنکاراور غنائیت کے علاوہ نمو کے بے شمار چراغ روشن کیے‘‘(۴۲)
شاعرؔ ایک ایسی زندگی کے قائل ہیں جو دوسروں کی فلاح وبہبود کے لیے کام آجائے۔وہ دوسروں کے لیے جینے کے خواہاں ہیں۔ایثار اور قربانی جیسے رجحانات ان کے کلام میں کثرت سے ملتے ہیں۔ وہ کہتے ہیںکہ ہم مشعلِ رہ گزار ہیں، ہمارا کام جلنا ہے کیوں کہ ہم شمع کائنات ہیں، ہم دیے جلاتے رہے ہیں اور ہمیشہ جلاتے رہیں گے ۔وہ زندگی کوایک مٹی کے دیے کی مانندقرار دیتے ہیں۔ رات کی تاریکیوں سے لڑنااُن کا کام ہے۔معاشرے میں ظلم وبربریت کے خلاف آواز بلند کرنا اندھیروں کو للکارنا ہم وطنوں کو حوصلہ دینا اْن کا محبوب مشغلہ ہے۔اس ضمن میں چند اشعار ملاحظہ ہوں:
تیرگی کی آندھیاں رات بھر چلتی رہیں
رات بھر لڑتا رہا، ایک مٹی کا دیا
میں کہ شاعرہوں مری جنگ ہے ظلمات کے ساتھ
میری ہستی اور کیا، ایک مٹی کا دیا
(۴۳)
ہم مشعل حیات ہے ہم شمع کائنات
شاعر ہمارا کام یہی ہے جلا کریں
(۴۴)
زہے نصیب اندھیروں میں تھا سفر اپنا
لہوجلاتے رہے ہم بھی رات بھر اپنا
(۴۵)
شاعرؔصدیقی کے ہاں زبان کی تلخی سے اُن کی حیات کے درد و کرب کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے دوہجرتوں کے دکھ سہنے کے باوجود زندگی کو راہ راست پرلانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔زندگی ایک سفر کی مانند کٹ جاتی ہے خوشی اور غم اس سفرمیں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ شاعرؔ صدیقی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات ایک شاعر کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ سوسائٹی میں درپیش مظالم اور ناانصافیوں کے خلاف علمِ جہاد بلندکریں۔حق کا ساتھ دیں اورحق کی آواز بلند کریں اور ہمیشہ حق کی برتری اور فتح کو دیکھیں۔وہ درج ذیل اشعار میں زمانے کو بدلنے کی خواہش رکھتے ہوئے کہتے ہیں:
مجھے دے رہی ہے دعوت تری طرزِ جارہانہ
کہ بساطِ غم الٹ دوں بہ طریقِ باغیانہ
مری آنکھ میں ہیں شعلے،مرے دل میں درد عالم
میں پیمبرِ بغاوت کہ ہوں شاعرِ زمانہ
مرا عزم مستقل ہے، مرا ہے یقین محکم
میں بدل کے ہی رہوں گا یہ نظام جابرانہ
(۴۶)
کبھی خوشی کبھی غم ساتھ ساتھ چلتے ہیں
یہ زندگی بھی گزرتی ہے اک سفر کی طرح
(۴۷)
مری حیات کی تلخی مری زباں پر ہے
یہ اور بات ہے حسن ِبیاں نہیں جاتا
(۴۸)
شاعرؔ صدیقی کے خیال میںمعاشرے میں ظلم کرنے والے سے ظلم سہنے والا بڑا مجرم ہوتا ہے کیوں کہ وہ کبھی بھی ظلم کے خلاف آواز نہیں اْٹھا تا۔ شاعرؔاس حوالے سے مزید کہتے ہیں کہ اگر ہم میں جرأت فغاں ہوتی تو آج ہم جن حالات سے گزررہے ہیں یہ کبھی نہ ہوتے کیوں کہ ہم میں معاشرتی برائیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی جسارت نہیں ہے۔
مرے وطن کی یہ حالت بھلا کہاں ہوتی
ہمارے دل میں اگر جرأت فغاں ہوتی
(۴۹)
بھول بھی سکتا ہوں کیا اس عہدِ وحشت خیز کو
آشیاں جلتا رہا اور باغباں ہنستا رہا
(۵۰)
جیوں تو ظلم کی آنکھوں میں ڈال کر آنکھیں
ملال کیسا ابھی دوش پر ہے سر اپنا
(۵۱)
شاعرؔصدیقی نے نوجواں نسل میں جوش وجذبہ بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ کوشش اورجہدِ مسلسل کی تلقین بھی کی ہے۔وہ یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہمارا تعلق ایک ایسے پرعزم اور جسارت آفریں قبیلے سے ہے جنہوں نے ساحلوں پر واپسی کی کشتیاں تک جلائی ہیں۔ہم ایسے دیوانے ہیں جو ہر نوع کے طوفان سے ٹکرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ہم اپنے مقصد کو انجام تک پہنچانے میں آخری حد تک جانے کی عادی تھے۔لیکن بد قسمتی سے ہم اب ویسے نہ رہے۔
شاعرؔصدیقی کی غزلوں میں ایسے اشعار کافی تعداد میں ملتے ہیں جو ان کے عزم وحوصلے اور انقلابی طرزفکر کی ترجمانی کرتے ہیں۔ان کے ذ ہن میں جو انقلابی کیفیت نموپارہی ہے اس میں شور و غوغا کے بجائے اعتدال، اور عمل کرنے کی کوشش پائی جاتی ہے۔وہ اپنا پیغام پہنچاتے ہوئے کہتے ہیں کہ معاشرے میں ظلم واستبداد کا مقابلہ کیا جائے ،حق گفتنی ،سچائی اور اچھائی کا ساتھ دیا جائے۔
فریب دینا
مکروفریب ایک ایسی سماجی برائی ہے جس سے دنیا کا کوئی بھی معاشرہ محفوظ نہیں ہے معاشرے کا ہر فردضرور کسی نہ کسی صورت اس کا شکار ہوتا ہے۔شاعرؔ صدیقی کے ہاں فریب دنیا اور اپنے دوستوں کے منافقانہ سلوک کا ذکر بھر پور انداز میں ملتاہے۔ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے وہ قدرے مایوسی کا شکار ہوگئے ہیں۔وہ سمجھ رہے ہیں کہ اس دنیا میں کوئی قابل اعتبار نہ رہا۔اس سلسلے میں اکرم کنجاہی یوںرقطراز ہیں:
’’اْن کا دل اگرتمناوں سے خالی ہوچکا ہے اور اْمید کا تارا ٹوٹ چکا ہے، فلک کی محفل سونی سونی ہے،شام غم تاریک ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ مہر وفاکے بندوں کا دنیا میں کہیں کوئی ٹھکا نہ نہیں حسن اسیر دام ہوس ہے اور عشق شکار ِرسوائی(۵۲)‘‘
شاعرؔصدیقی اس بات کوسمجھتے ہیں کہ معاشرہ لالچ اور فریب کا گڑھ بن چکاہے اب کوئی کسی کے خلوص کا اعتبارمیں بھی نہیں کرسکتا کیوں کہ یہاں قدم قدم پرمنافقت اور فریب رچ بس گئے ہیں۔یہ دنیا کا ریت بن چکا ہے اب دنیا میں بس یہی ہوتاہے۔وفا کا بھرم رکھنے والے اس دنیا سے فنا ہوچکے ہیں۔بطور نمونہ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
قدم قدم پہ دیے ہیں فریب دنیا نے
تیرے خلوص کا ہم اعتبار کیا کرتے
(۵۳)
ملا ہے جو بھی وہی دے گیا مجھے ایک داغ
یہ مرا دل تھا کوئی کاسۂ سوال نہ تھا
(۵۴)
شاعر ؔصدیقی کواس بات کا بہت دْکھ ہے کہ اْن کے قریبی دوستوں نے بھی انہیں بار بار دھوکا دیا ہے۔وہ دوست جن پر انہیں کامل اعتماد تھا شاعرؔکہتے ہیں ضروری نہیں کہ جان لینے والا تیر صرف صف دشمناں کی طرف آیا ہوا ہوبلکہ ایسے دوستوں کی بھی کمی نہیں ہے جو دشمن کا روب دھارلیتے ہیں اور پیچھے سے وار کرتے ہیں۔ان خیالات کی عکاسی وہ کچھ یوں کرتے ہیں:
تھے جو محکم قطب نما کی طرح
رخ بدلنے لگے ہوا کی طرح
(۵۵)
غلط کہ تیر صف دشمناں سے آیا ہے
حضور دوست ہی پیچھے سے وار کرتے ہیں
(۵۶)
نام پر دوستی کے پھر شاعر
زخم اک اور کھا لیا ہم نے
(۵۷)
شاعرؔ صدیقی جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں کا ہر فرد ظلم اور بربریت کے ساتھ ساتھ خود فریبی اور خود غرضی کابھی شکار ہیں۔جہاں وفا،محبت،ایمان اور شرافت سیم وزر کی طرح بکاؤ ہے۔شاعرؔکہتے ہیں کہ یہاں اگر میں پیکر وفابن جاؤ تو کوئی فائدہ نہیں۔کیوں کہ یہاں آستینوں میں سانپ پالنے والوں کی کمی نہیں ہے۔یہاں پر ظاہر اور باطن ایک بڑے تضادکاشکار ہے۔
لوگ آستینوں میں سانپ لے کے چلتے ہیں
کیا کرو گے تم شاعرؔ پیکرِ وفا بن کر
(۵۸)
حصارِ ذات میں ہر شخص ہے مقید کیوں
یہ کس مقام پر ہم آگئے ہیں سوچو تو
(۵۹)
شاعرؔصدیقی کوبعض دوستوں کی طرف سے خلوص اورمحبت وعقیدت کا عوض ایک فریب کی صورت میں ملا ہے جس کا اظہار شاعر کے ہاں گہرے صدمے کے ساتھ ملتاہے شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اس معاملے میں قنوطیت کا شکار نظر آتا ہیں۔اورانہیں دنیا میں قدم قدم پر دھوکا ،فریب اورمنافقت نظرآتی ہے۔ شاعرؔایسے معاشرے کا فرد ہیں جہاں کا ہر آدمی پتھر بن چکا ہے۔یہاں کسی کو اپنے سودو ذیاں کا احساس نہیں ہے۔جہاں کا مسیحا بھی سیم وزر کے پابند ہے۔
بے ثباتی حیات
زندگی کی بے ثباتی شاعری میں ایک ایسا موضوع رہاہے جس کا تذکرہ عموماً اْرود کے اکثرشعرا کے ہاں ملتاہے۔ہر شاعر نے اپنے اپنے فہم وفراست کے مطابق زندگی کی حقیقت کو بیان کیا ہے۔کسی نے زندگی کو پانی کا بلبلا کہا ہے توکسی نے نقشِ آب اور کلی کے تبسم سے تعبیر کیا ہے۔
شاعرؔصدیقی نے اپنی غزلوںمیں کئی خوبصورت رنگ بھردیے ہیں۔جس میں آروزئے حیات وجاں کے علاوہ انہوں زندگی کی حقیقی ترجمانی بھی کی ہے۔ انہوں نے حیات وکائنات کی بہت سی سچائیوں کو اپنے اشعارکے روپ میں دکھائے ہیں۔انہوں نے انسانی زندگی کی حقیقت سے متعلق بہت بہترین انداز میں اشعارکہے ہیں جو ان کے فلسفیانہ اور حکیمانہ ذہن کی ترجمانی کرتے ہیں۔ان کے ہاں زندگی کی ناپائیداری اور بے ثباتی حیات کے جذبات بہت لطیف انداز میں ملتے ہیں۔شاعرؔ کی غزلوں میں انسان کی بے بسی اور زندگی کی ناپائیداری کے مضامین کثرت سے شامل ہیں۔وہ زندگی میں جن حالات و واقعات سے گزرچکے ہیں اس عہد کا انسان قدم قدم پر زندگی کے کمزور ہونے کا احساس رکھتا تھا۔خاص کر مشرقی پاکستان میں قتل وغارت گری کے جو واقعات ان کے سامنے گزرے ہیں جس نے شاعرؔکے دل ودماغ پر گہرا ثر چھوڑا ہے۔جوانہوں نے شعر کے لبادے بیان کیے ہیں۔
شاعرؔصدیقی کے ہاں دنیاوی زندگی ناقابل اعتبار ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی فطرت میں غرور،حسد،لالچ اور حرص جیسے جذبات معدوم ہوچکے ہیں۔وہ ایک ناصح ہونے کی حیثیت سے اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ موت زندگی کے تعاقب میں ہے اور ایک نہ ایک دن اس جہاں فانی سے کوچ کرجاناہے۔اس بات کا اظہار انہوں بہت ہی دلکش انداز میں کیا ہے ،بطور نمونہ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
موت ہے زیست کے تعاقب میں
اور میں بھاگ رہا ہوں پیہم
(۶۰)
یہ بھول جاتے ہیں ایک روز خاک ہونا ہے
مزاج رکھتے ہیں شاعرؔ جو عرش پر ا پنا
(۶۱)
شاعرؔصدیقی کے ہاں دنیا کی بے ثباتی کا شدید احساس ملتا ہے۔ انھوں نے اس ضمن میں اپنے صوفیانہ ذہنیت کی ترجمانی بالکل سیدھے سادے اور سلیس اندز میں کی ہے۔جس سے ان کے قلندر انہ مزاج کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔اس ضمن میں چند مثالیں ملاحظہ کیجئے:
تمہیں خبر ہے جو طوفان آنے والا ہے
غرور کج کلہی خاک میں ملا دے گا
(۶۲)
کسی کے واسطے یہ وقت کب ٹھہرتا ہے
گزر گیا جو زمانہ پلٹ کے مت دیکھو
(۶۳)
شاعرؔصدیقی نے یہ بات واضح کردی ہے کہ زندگی کی قید میں جتنے بھی اسیر ہیں،ایک دن آئے گا کہ یہ سب کے سب رہا ہوجائیں گے اور صرف ان کے نقش ونگار رہ جائیں گے۔ آج جو لمحات میسر ہیں انھیں غنیمتسمجھو۔
ایک دن آخر رہا ہو جائیں گے سارے اسیر
اور درودیوار پر گل کاریاں رہ جائیں گی
آج جو کچھ ہے غنیمت جانیے شاعرؔ انھیں
کل انھیں لمحات کی پرچھائیاں رہ جائیں گی
وقت کی موجیں بہا لے جائیں گی سارے گہر
ریت پر ساحل کی خالی سیپیاں رہ جائیں گی
(۶۴)
ایک اور مثال دیکھئے جس میں شاعرنے بہت سلیس انداز میں انسان کو زندگی اورموت کے سامنے بے بس ولاچاردکھایاہے۔
نہ زندگی پہ ہے قابو،نہ موت پرقابو
بساطِ دہرمیں انسان ہے کس قدر مجبور
(۶۵)
شاعرؔنے زندگی کی بے ثباتی کا اظہار کرتے ہو ئے حیات وکائنات کو ایک جھوٹے سپنے اور موت کو ایک انجانے سے خوف سے تعبیر کیا ہے جس نے جینے کا لطف زائل کردیاہے۔
بادل ، بجلی ، برکھا کیا ہے
سب کچھ نظروں کا دھوکا ہے
جیون ایک سندر سپنا ہے
سپنا کب سچا ہوتا ہے

انجانا سا خوف ہے طاری
سناٹا کچھ بول رہا ہے

کیوں جینے کی چاہ کریں ہم
اب جیون میں رکھا کیا ہے
(۶۶)
شاعرؔکے نزدیک زندگی کا آج اور کل قابل اعتبار نہیں ہے۔ کیوں کہ موت برحق ہے۔انسان کائنات کے اس نظام کے سامنے بے بس ولاچارہے کیوں کہ موت انسان کے ساتھ ایک چلتا پھرتا ساتھی ہے جو کسی بھی صورت اس سے فرار اختیار نہیں کرسکتا۔زندگی ان کے ہاں ایک ایسا دیپک ہے جو پل بھر میں ْگل ہوجائے گا۔
حقیقت پسندی
ہرشاعریاادیب اپنے عہدوماحول سے کسی نہ کسی صورت میں مرعوب ضرور ہوتا ہے اوراس میں جنم لینے واقعات و حوادث کوگہرائی سے محسوس کرتے ہیںاور معاشرے کی کج روی پر شعریانثر کے لبادے میں تنقید بھی کرتے ہیںاورمعاشرے میں ہر بے راہروی کے خلاف آوازبھی بلند کرتے ہیں۔ شاعرؔ نے کراچی میں سکونت اختیار کرنے کے بعد جو شاعری کی ہے اس میں فکروفن کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔انہوں نے زندگی کے حقائق کی عکاسی بڑی خوش اسلوبی اور کھلی ہوئی آنکھوں سے کی ہے ۔انہوں نے مجازسے حقیقت کی طرف سفر کیا ہے یہی وجہ ہے ان کے آخری دور کی شعرگوئی میں حقیقت پسندانہ رجحان زیادہ غالب نظر آتاہے۔ان کے ہاں تلخ حقائق کابیان جابجا نمایاں ہے۔جو ایک خستہ حال طبقے کی غمازی بھی کرتاہے اور ان کی ترقی پسند فکر کی ترجمانی بھی اور ساتھ ان کی زندگی کے تجربات ومشاہدات کا مظہر بھی ہے۔اس حوالے سے شفیق احمد شفیق یوںرقم طراز ہے:
’’ان(شاعرؔصدیقی) کے ہاں حقائق کونظر انداز کرنے کا رویہ نہیں ملتا۔وہ اپنے آس پاس اور دور دراز کے محرکات سے غافل نہیں، انہوں نے صداقت کا دامن بڑی مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔اس کی شاعری میں زندگی کے خوش کن لمحات کے اظہار کے ساتھ ساتھ اداس کردینے والے حادثوں اور واردتوں کی بھی پرچائیاں اپنے شعری امکانات کے ساتھ موجود ہیں ‘‘(۶۷)
انہوں نے کبھی حالات سے سمجھوتا نہیں کیا ہے۔وہ کہتے ہیں اگر اس معاشرے میں سچائی کا ساتھ دینا اور سچ بولنا جرم ہے توہم اس جرم کوبار بار کریں گے۔انہیں زندگی میں حقیقتوں کی تلاش ہے۔جس کا اظہار انھوں نے اپنی غزلوں میں بھی بھرپور انداز میں کیا ہے:
نہ کرسکے کبھی حالات سے جو سمجھوتا
انھی میں ہوتا ہے شاعرؔ شمار ہمارا بھی
(۶۸)
تمہارے عہد میں سچ بولنا ہے جرم مگر
یہ جرم ایسا ہے ہم بار بار کرتے ہیں
(۶۹)
شاعرؔ خود کو ایک آزاد مرد تصورکرتے ہیں۔وہ جو کچھ دیکھتے ہیں بلاخوف و خطر بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ جرم صداقت کی سزا بھگتنے میں وہ دار ورسن پرچڑھنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔وہ کہتے ہیں ہم نے وہ لکھا ہے جو محسوس کیا ہے۔سچ بولنا اگر جرم ہے تو پھر ہم اس کے سزاوار ہیں۔
جو دیکھتاہوں وہ بولتاہوں،نہ خوف کوئی نہ کوئی لالچ
کبھی سوچتاہوں یاروں،عجیب آزاد مرد ہوں میں
(۷۰)
یہ جرم ہے شاعر تو سزایاب ہیں ہم لوگ
ہم نے وہی لکھاہے جو محسوس کیاہے
(۷۱)
سچ اگر جرم ہے تواس کی سزا دی جائے
دور سقراط کی پھر یاد دلا دی جائے
(۷۲)
عشرت رومانی شاعرؔصدیقی کی حقیقت پسندانہ فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’زندگی کی مکمل سچائی تک پہنچنے کے لیے شاعرؔ صدیقی نے نظریۂ حیات پر مضبوط گرفت رکھی اور دروں بینی کے عمل سے گزرتے ہے۔اْنہوں نے ذات کے سمندر میں ڈوب کر انسانی رشتوں کے حوالوں سے ساحلِ حیات پرآنے والے زمانوں کے لیے شاعری کی جو شمع روشن کی ہے وہ نئی نسل کے لیے لازوال ہونے کے علاوہ باعثِ افتخار ہے۔‘‘ (۳۷)
حق گوئی وبے باکی شاعرؔکے کلام کا وہ خاصہ جو اُن کو ہم عصر شعرا میں ایک منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ان کے ہاں زمین سے وابستگی،ماحول وفضاکی سنگ دلی،منافقت،انسانی استحصال،امن وآشتی اور دیگر سانحات وحادثات ایک جذباتی اظہار کے ساتھ جلوہ گر ہیں جو اْن کی حقیقت پسندانہ ذہنیت کے عکاس ہیں۔
سماجی مسائل
کسی قوم کی رہن سہن تہذیبی ،معاشرتی،ثقافتی اور اقتصادی معمولات سماج یا معاشرہ کہلاتا ہے۔یہ ایک فطری امر ہے کہ تخلیق کار اپنے سماج سے کسی نہ کسی صورت جڑا ہواہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ارد گرد ہونے والے سماجی اور معاشرتی تغیرات کو صرف نظر نہیں کرسکتا۔شعرا اور ادبانے ہردور میں اپنی تہذیب وثقافت اور معاشرتی و سماجی مسائل کو نثر یا شعر کے لبادے میں بیان کیا ہے۔
شاعرؔصدیقی دوسرے شعرا کی طرح اپنے عہد سے وابستہ سماجی مسائل کو بھرپور انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ معاشرتی مسائل سے خوب آگاہی رکھتے ہیں اور اس کو شعر کا جامہ پہناکر بیان کرتے ہیں۔ان کی شاعری میں اس دور کی تصویر دکھائی دے رہی ہے جس میں وہ زندگی بسر کررہے ہیں۔ پروفیسر اظہرقادری اس ضمن میں یوں لکھتے ہیں۔
’’ انہوں نے طبقاتی سماج میں جنم لینے والے مسائل کے کڑے تیور کو فنی شائستگی سے جس طرح رام کرنے کی کوشش کی ہے وہ ہر اعتبار سے ایک مستحسن عمل ہے۔ان کے یہاں ایسے اشعارکی کمی نہیں جو اس بات کا واضح پتہ دیتے ہیں کہ انہوں نے سماج کے جدید مسائل اور فکر کے جدید گوشوں کو اپنی تخلیقی کاوشوں کا حصہ بنانے میں اپنی فہم وفراست سے اچھی طرح کام لیاہے‘‘(۴۷)
شاعرؔصدیقی نے معاشرے میں غربت و افلاس،بد امنی ،بے روز گاری،نفرت وعداوت،اور انسانی استحصال جیسے مسائل کو شعر کے سانچے میں سمودیئے ہیں۔انہوں نے معاشرے میں جنم لینے والے مسائل پر نہ صرف تنقید کی ہے بلکہ ان کی اصلاح کرنے کوشش بھی کی ہے۔شاعرؔ کہتے ہیں کہ موجودہ معاشرہ اس سطح پر آچکا ہے کہ ہم عبرت کے نشان بن چکے ہیں:
ہم ہیں عبرت کے نشاں
بے زمیں ، بے آسماں
ہر نفس آتش فشاں
زندگی دھواں دھواں
قصۂ جرم و فا
داستاں در داستاں (۷۵)
شاعرؔ صدیقی کا واسطہ ایک ایسے معاشرے سے ہے جہاں درِندوں کا دوردورا ہے ایک انسان دوسرے انسان سے خوف محسوس کرتا ہے۔جہاں ایمان،شرافت اور محبت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ایک ایسامعاشرہ جہاں انسانیت ناپید ہوچکی ہے۔
درندہ سونگھتا پھرتا ہے کوئی
کوئی انسان ملے تو پھاڑ کھائے
(۷۶)
دیدنی ہے نظام دنیا کا
آدمی آدمی سے کترائے
(۷۷)
انسانیت کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں ہم ضرور
انسانیت کا شور بہ ظاہر وطن میں ہے
(۷۸)
شاعرؔنے وقت کے رہنماؤں پر بھی طنز کیا ہے جوہمیشہ عوام کو دھوکہ دے کر اقتدار میں آتے ہیں اور پھر عوام کا استحصال کرتے ہیں۔
نہ واپسی کا ہے رستہ ،نہ جادۂ منزل
یہ کس مقام پہ لے آیا راہبر اپنا
(۷۹)
تم نے منزل پہ لاکے لوٹا ہے
ایک عیار رہنما کی طرح
(۸۰)
رہبروں نے دام پھیلائے بہت
کہیے اب راہر و کدھر جائے
(۸۱)
شاعرؔصدیقی کہتے ہیں اب اس قوم میں وہ سطح آچکی ہے جو نشیمن میں روشنی لانے کے لیے نشیمن ہی کو آگ تک لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
لگا کے آگ نشیمن میں روشنی کے لیے
ہم اس طرح سے بھی جشن بہار کرتے ہیں
(۸۲)
صبا نے آگ لگائی کلی کی آنکھ ہے نم
چمن چمن نے منایا بہار کا موسم
(۸۳)
شاعرؔنے اپنی غزلوں میں جابجا اپنے شہر کراچی کے ناگفتہ بہ حالات کے تذکرے بھی کیے ہیں۔جوایک طرح ان کی عصری شعور کی غماضی بھی کرتی ہیں:
ان دنوں شہر کراچی کا ہے وہ حال کہ بس
شاخِ زیتون پہ ہو زخمی کبوتر جیسے
(۸۴)
جس شخص کو دیکھو یہاں آسیب زدہ ہے
یہ شہر ترا شہر یا کوہِندا ہے
(۸۵)
شاعرؔمعاشرے میں غربت وافلاس کا گہرا احساس رکھتے جہاں لوگ رزق کی تلاش میں ساری رات جاگتے رہتے ہیں۔جہاں انسان مشین کی مانند کام میں مگن رہتا ہے اور معاش سے زیادہ مکان کی فکر کرتے ہیں۔
کتنا عجیب شہر ہے، کتنے عجیب لوگ
راتوں کوجاگتے ہیں یہاں خوش نصیب لوگ
فکر معاش تو نہیں فکر مکان ہے
اس شہر میں ہیں ایسے بھی کچھ بدنصیب لوگ
(۸۶)
بعض موقعوں پر ایسا بھی لگتا ہے کہ شاعر ؔمعاشرتی حالات سے دل برداشتہ ہوگیا ہے۔اور وہ اس دنیا سے اپنی فکری ہم آہنگی سمیٹ کراپنے تخیل میں عالم بالا کی طرف کوچ کرنے کے خواہاں ہیں:
سکون ہے نہ تحفظ ہے اور نہ آزادی
ہماراگھربھی عجب گھر ہے کیا کیا جائے
(۸۷)
اب یہ دنیا تو جہنم سے بھی بدتر ٹھہری
چاند تاروں میں بسالیں چلو دنیا کوئی
(۸۸)
شاعرؔصدیقی نے سماج میں اْبھرنے والے مسائل اپنے عصری شعور کی روشنی میں بیان کیے ہیں۔انہوں نے معاشرے میں جوکچھ دیکھا اورمحسوس اورجس سے متاثر ہوا اس کو ایک سادہ وسلیس روش میں ذکر کیا ہے۔امیرحسین چمن لکھتے ہیں:
’’شاعرؔصدیقی اسی دور کے مبتدی شاعر ہونے کے باوجودہمیں اپنی شاعری میں ایک نئے لب ولہجے کے ساتھ ہمارے عہد کے سنگین طبقاتی مسائل اور فکری رجحانات کی ترجمانی کرتے دکھائی دیتے ہیں اور یہی خصوصیات اس دور کے مایہ ناز غزل گوشعرا کے حوالے سے آہنگ نو کے ساتھ ان غزلوں میں بھرپور طریقے سے نمایاں ہے‘‘(۹۸)
ان کے ہاں ایک ایسے خستہ حال معاشرے کی تصویردیکھی جاسکتی ہے جہاں کسی کو اپنے سود وزیاں کااحساس تک نہیں ہوتا جہاں کا ہرفرد ایک پتھر کی مانند ہے۔جہاں محبت ترازو میں تولی جاتی ہے جہاں ظالم اور غدارانِ وطن کو معزز سمجھا جاتاہے اور حق گوئی اور سچائی جرم تصور کی جاتی ہے۔
احساس تنہائی
شاعرؔصدیقی کی غزلمتنوع موضوعات کی حامل ہے لیکن ان کے ہاں ہجرت اور سقوط ڈھاکا کے بعد جس جذبے کا زیادہ غلبہ رہا ہے وہ ان کی احساس تنہائی ہے۔شاعرؔصدیقی کی غزلوں میںہمیں وہ انسان ملتاہیجو مسلسل ہجراورہجرتوں کے دْکھ سہہ کرتھک چکا ہے اور وہ اپنے دل کا درد لیے ہوئے ایک ایسے ہم سفرکی تلاش میں ہے جو اس کے دکھ درد اور تنہائی کو مٹاسکے۔لیکن اسے ایسافردمعاشرے میں کہیں نظر نہیں آتا۔وہ حوادث زمانہ سے اسی طرح دل برداشتہ ہوچکا ہے کہ بعض اوقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو ختم کرنے پر آمادہ ہوگیا ہے۔اس کا دل موجودہ سماج کے انسان سے متنفر ہوگیا ہے اور وہ تنہا جینا چاہتاہے۔
شاعرؔتن تنہا مقابلِ خارزارِ حیات ہے۔وہ سماج سے سائباں کے لیے ترس رہاہے۔ہرطرف نفرت کی صدائیں ہیں۔ اس نفرت کی آندھی میں وہ اپنے آپ کو تنہا فرد سمجھ رہے ہیں اور پیار ومحبت کے سرگم چھیڑنے میں مگن ہے۔شاعرؔنے اپنے عہد کے محبوب سے بھی شکوہ کی ہے جس نے ان کو اکیلا چھوڑ دیا ہے اور اس میں وفا کی بو تک نہیں ہے۔شاعر حوادث زمانہ سے بھی دل برداشتہ ہوچکا ہے۔شاید یہی وجہ ہے جس نے شاعرؔکو اکیلے پن کا احساس دلایا ہے:
یہ دل تنہا مقابل خار زارِ حیات ہے
گھرا ہوا ہے جو کانٹوں میں وہ گلاب ہوں میں
(۹۰)
اکیلے پن کا یہ احساس کیوں نہیں جاتا
یقین کیوں نہیں آتا کہ ہم سفر تم ہو
(۹۱)
اس حسین وادی میں نفرتوں کی آندھی میں
جل رہے ہیں ہم شاعر پیار کا دیا بن کر
(۹۲)
شاعرٍؔصدیقی اس دنیا میں خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ انہیں کوئی ہم درد اور مسیحا نہیں ملتا جس کو وہ اپنے دل کا حالت زار بیان کرسکے۔وہ اس دنیاسے اکتا گئے ہیں۔انہیں یہاں جس آسودگی کی تلاش ہے وہ روپوش ہے جوڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔اس لیے ان کا اعتبار اٹھ گیا ہے۔اس حوالے سیچند اشعار ملاحظہ ہوں:
میں اپنا حال دل کس کو سناؤں
بھری دنیا میں تنہا بہت ہوں
(۹۳)
انگنت پرچھائیاں اور مری تنہائیاں
پھر چمن مہکا مرا زخم جگر تازہ ہوا
(۹۴)
شاعرؔکی تنہائی میں فراق محبوب نے بھی اضافہ کیا ہے۔وہ محبوب سے شکوہ تو کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی شب تنہائی محبوب کی یاد سے خالی نہیں ہیکیوں کہ محبوب کی یاداُن کے دل میں اسی طرح آتی ہے جس طرح شام کوکوئی پرندہ اپنے نشیمن میں لوٹ آتاہے۔جب انہیں وصال محبوب میسر ہوتا ہے تو کائنات کی ہر چیز حسین لگتی ہے۔اس عالم میں وہ تنہائی سے ڈر محسوس کرنے لگتے ہیں۔
شب تنہائی میں آتی ہے تیری یاد بہت
پلٹ آتاہے جیسے شام کو طائر نشیمن میں
(۹۵)
مجھے یہ ڈر ہے کہ اب ٹوٹ ہی نہ جائے کہیں
وہ ایک درد کا رشتہ جو درمیان میں ہے
(۹۶)
مری تنہائیوں میں بھی اکثر
ساتھ رہتی ہیں رات بھر آنکھیں
(۹۷)
تنہائی کا احساس شاعرؔ صدیقی کے تخلیقی سفر میں معاون ثابت دکھائی دیتا ہے۔وہ ناصر کاظمیؔکی طرح اپنے تنہائی پر نازاں معلوم ہوتے ہیں۔شاعرؔکا حال ان کے سنہرے ماضی کی داستان سناتا ہے اور ان کی تنہائی کانوحہ نغمۂ محفل بن جاتا ہے:
اپنی بربادی میں بھی ہے ایک آبادی کی شان
میری تنہائی کا نوحہ، نغمۂ محفل ہوا
(۹۸)
مارے گئے ہیں زیست کی تاریک راہ میں
وہ لوگ اب کہاں ہے جنہیں ہم نواکریں
(۹۹)
شاعرؔاپنی ابتدائی زندگی میں بہت خوش معلوم ہوتے ہیںجس کو انہوں نے سونے سے تعبیر کیا ہے۔وہ جب ماضی کو یاد کرتے ہیں تو ان کی احساس تنہائی شدت اختیار کرتی ہے۔انہیںاپنی ماں سے محرومی کا بہت گہر احساس ہے جس سے انہوں نے اپنی والہانہ محبت کا اظہارکیا ہے لیکن وہ ماں سے شکوہ بھی کرتے ہیں۔کہ اس نے بھی شاعرکو پیاسا چھوڑدیا:
سوچو! ہم نے ایک معما چھوڑ دیا
مٹی کے بدلے میں سونا چھوڑ دیا
مانا اس کی ذات سمندر جیسی تھی
اْس نے بھی شاعرؔ کو پیاسا چھوڑ دیا
(۰۰ا)
شاعرؔصدیقی اپنی زندگی میں جن واقعات وحوادث سے گزرے وہ ان کے احساس تنہائی کے محرک بنے۔اُنہوں نے ساری زندگی ہجرت میں قدم جمائے رکھا۔ ڈھاکا چھوڑ کر کراچی ہجرت کی۔ مشرقی پاکستان کی غارت گری کی وجہ ان کے دل ودماغ میں تنہائی ،دردغم،خوف اور افراتفری جیسے حزنیہ عناصرنے جنم لیا دوست و احباب بچھڑ گئے۔ وطن کو چھوڑنا پڑا جس میں شاعرؔ صدیقی خود کوتن تنہا محسوس کرنے لگا۔وہ زندگی کے ہر موڑ پر محرومیوں کے شکار رہے ہیں۔ان کے کلام میں نغمگی اور غنائیت نے اس احساس کو مزید جلا بخشی ہے۔وہ رات کی تاریکیوں میں تنہائی زہر سمجھتے ہیں۔جب وہ اکیلاہوتا ہے تو ایک سایے کی طرح تنہائی ساتھ ہوتی ہے۔جس کے باعث ان کی اداسی اور بڑھ جا تی ہے۔ علاوہ ازایںزمانے کے ناگفتہ بہ واقعات وحوادث نے بھی ان کے کلام میں تنہائی کے گہرے احساس کو جنم دیا ہے۔
روایت پسندی
شاعرؔصدیقی کا کلام جدیدیت اور کلاسیکیت کا سنگم ہے۔ انہوں نے جہاں شاعری میں عصری تقاضوں کا خیال رکھا ہے وہاں روایتی روش سے بھی بھر پوراستفادہ کیا ہے۔ اس معاملے میں وہ اندھی تقلید کے قائل نہیںبلکہ انہوں نے اپنے جذبات اور احساسات کے بنا پر اپنے دور کے معاشرتی مسائل، واقعات و حوادث اور دیگرسماجی تقاضوں کابھی پورا خیال رکھا ہے۔ایک طرف اگر شاعر نے کلام کوتازگی اور نیاپن بخشا تو دوسری جانب انہوں نے کلاسیکی روایت سے بھی بھرپور فائدہ اْٹھایا ہے۔اس حوالے سے اکرم کنجاہی یوںرقطراز ہیں:
’’شاعرؔصدیقی نے ابتدائے شعر گوئی میں کلاسیکی روایت سے استفادہ کیا۔طویل مترنم بحور،جذبات محبت کے سوزگداز سے مملو مضامین جیسے ہجر فراق کی شام ہے، عاشق کعبہ بھی چھوڑ بیٹھا ہے اور بت خانہ بھی،دنیا سے آنکھ چرا کرشاعر غرقِ صہبا ہے،عشق بے تاب ہے کہ میراغم آشکارا ہونے سے کہیں رسوا نہ ہوجائے‘‘(۱۰۱)
اس روایتی انداز فکر اور جدید لب ولہجہ کو ساتھ لیے ہوئے شاعرؔنے پْرجوش انداز میں اپنے داخلی واردات وجذبات کو بھرپور طریقے سے بیان کیے ہیں۔انہوں نے جہاںسراپائے محبوب کے تذکرے کیے ہیں تو وہاںاُن کا اندازفکر روایت سے بالکل ہم آہنگ نظرآتی ہے۔ادب کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے اُنھوں نے اْردو کے کلاسیکی شعری ادب کا خاصا مطالعہ کیا تھا۔ اس وجہ سے انہوں نے یہ اثرات براہ راست قبول کیے ہیں۔شاعرؔ صدیقی کی غزلوں میںشراب،ساقی، مے خانہ،دیر وحرم،مسجد ومندر،لب ورخسار،گیسو جانان،خم وکاکل،ڈوبتی ناؤ،یورش طوفاں اور گردش دوراں جیسے روایتی استعارات وعلامتیں ملتی ہیں۔کلیم رحمانی لکھتے ہیں:
’’شاعرؔصدیقی نے اپنے اشعار میں کسک کو ایک نمایا ں جگہ دی اور رویتی انداز فکر کو بھی اپنایاہے لیکن اْن کی شاعرمیں جدید لب لہجہ کا فقدان نہیں‘‘(۱۰۲)
شاعرؔصدیقی کی غزلوںمیں ان کی روایتی طرز فکر کی اُٹھان دیکھی جاسکتی ہے۔روایت اور جدت کے مخلوط اثرات ان کی غزلیات پرنمایاں ہیں۔محبوب کی رخصتی کا لمحہ شاعر کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ہوتی۔انہیں محبوب کا غم بھی عزیز ہے جس کی رسوائی وہ گوارا نہیں کرسکتے:
پکارتے ہی رہے ساغر و صبوح لیکن
مجھے قبول نہ تھی تیرے غم کی رسوائی
(۱۰۴)
یاد ہے اب تک وقتِ سفر اْف وہ قیامت کا منظر
زلف پریشاں،پھیلا پھیلا کا جل اور لرزتے ہونٹ
(۱۰۵)
تیری کیا نگاہ بدل گئی نہ وصبح ہے، نہ وہ شام ہے
یہی زندگی کی تھی جام مے،یہی آج زہرِ جام ہے
(۱۰۶)
شاعرؔ صدیقی کے کلام سے ملاحظہ کیجئے جن میں وہ کلاسیکی اور روایتی طرز کے حامل دکھائی دیتے ہیں:
میری عرض محبت پہ جو دفعتاً سر سے آنچل کسی کا ڈھلکنے لگا
پھول کھلنے لگے،چاند ہنسے لگا،سارا گلشن کا گلشن مہکنے لگا
ایک سیمیں بدن بنت ماہتاب سے،یک بیک جو کبھی سامناہوگیا
ساز بجھنے لگے،گیت ڈھلنے لگے،آنکھ جھکنے لگی،دل دھڑکنے لگا
اْف وہ گلنار لب ریشمی ریشمی اْف وہ چشمِ حسیں مے چکاں مے چکاں
پھر مجھے یاد آنے لگا وہ سماں پھرسے تصور میں ساغر چھلکنے لگا
(۱۰۷)
شاعرؔنے طویل بحور کا استعمال بھی کیاہے۔جو نغمگی اور ترنم کے ساتھ ساتھ روایتی مضامین، استعارات اور کنایات سے بھی معمور ہیں۔اس حوالے سے چند مثالیں ملاحظہ ہو:
تم کو آناتھا اور تم نہ آئے مگر آرزو دل کی دل میں مچلتی رہی
چاند اپنا سفر ختم کرتا رہا، شمع جلتی رہی، رات ڈھلتی رہی
عشق میں ہے وہی سوز درد واثر،حسن میں ہے وہی نغمہ وکیف ورنگ
ہم بدلتے رہے،تم بدلتے رہے،یہ نہ سمجھو کہ دنیا بدلتی رہی
(۱۰۸)
یہ گرم آنسو، یہ سرد آہیں، یہ سوز غم، مضمحل تبسم
یہی تو ہے حاصل محبت ا نھی کودل سے لگا رہا ہوں
وہ جام آنکھوں کا چھلکا چھلکا، لبوں کا وہ شبنمی تبسم
تصوروں کی حسین شمعیں جلا رہا ہوں، بجھارہا ہوں
(۱۰۹)
شاعرؔصدیقی نے اگرچہ اپنی غزلوں میں کافی حد تک روایت کی پاسداری کی ہے تو دوسری طرف وہ شعور آگہی کے بنا پر حالات کی نشیب وفراز اوردیگرعصری تلازمات سے بچ نہیں نکلا ہے۔عارف منصور اس ضمن میںتحریر کرتے ہیں:
’’رچے رچائے لہجے میں شاعرؔکی غزل اسے بلند مراتب سے آشنائی دیتی نظرآتی ہے کیوں کہ ان کے اشعار میں روایت سے فیض یابی کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کے تلازمات بھی نمایاں جگہ پانے میں کامیاب رہے ہیں۔‘‘(۱۱۰)
ان کا طرز نگارش، ہیئت اور دیگر فکری و فنی عناصر کے اعتبار سے روایتی ہے۔اْنہوں نے جہاںفنی پختگی کا مظاہرہ کیا ہے وہاں روایت سے بھی بھرپور مستفید ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اسی طرح اْن کی شاعری میں قدیم اور جدید کا ایک خوبصورت اور خوشگوار امتزاج ملتاہے۔شاعرؔصدیقی شعروادب کے مزاج اور مختلف رجحانات سے خوب واقفیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے روایتی ڈگرپر چل کر ان مختلف رجحانات کو اپناکر اُردو شاعری کادامن مالامال کردیا ہے۔
خارجیت
شاعری زندگی اور زندگی میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کی عکاس ہوتی ہے۔وہ شاعری زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رہ سکتی جس پر شاعرکے داخلی جذبات غالب ہوں۔شاعر یا ادیب فکر و تخیل جب اپنی ذات کے خول سے باہرنکل کر دنیا کے نشیب و فراز اور حسن وقبح میں صرف ہوجاتا ہیتو بقائے دوام سے متصف ہوجاتا ہے۔
شاعرؔصدیقی کا کلام خارجی مظاہر سے معمور ہے۔ابتدائی شعرگوئی کے نسبت ان کی موجودہ دور کی شاعری میں داخلی عناصرکم اور خارجی تجربات اور مشاہدات زیادہ غالب ہیں۔یہ اظہار ان کے ہاں ایک منفر پیرائے میں ملتا ہے۔ایک طرف اگر وہ دکھ درد کا احساس رکھتے ہیں تو دوسری طرف وہ دنیا کے حسن سے بھی شناسا ہیں۔ان کی شاعری سورج،چاندستاروں،سمندروں،جنگلوں،ڈھلتی راتوں،ڈوبتاہوا سفینہ،جھرنے،صحراہی صحرا اور اجڑی ہوئی بستی کی شاعری ہے۔امیرحسین چمن ؔتحریر کرتے ہیں:
’’شاعرؔصدیقی کا کلام دیکھ کر ایسا لگتاہے جیسے شاعر نے دھڑکن کی انہی مدھم اور تیز آرزؤں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کرشاعری کی تمام تر خصوصیات سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔دل پر چھوٹ لگنے کی آواز ہو یاحسین کلیوں کے چٹکے کی صدا،سرسبزوشاداب مترنم وادیوں کے دلکش نظارے ہوں یادرختوں کے جھنڈ میں چہچہاتے پرندوں کی کانوں میں رس گھولنے والی حیات آفریں آوازیں شاعرنے زندگی کے ہر گوشے اوراپنی دنیا کی ہر آواز کو اسی بصارت وسماعت سے دیکھا اور سناہے جو قدرت نے انسان کووہ شے دیکھنے اور سننے کے لیے عطاکی ہے۔رنج والم سے ہٹ کرجہاں شاعر صدیقی نے قدرت کے حسین نظاروں یاانسان کی طربیہ کیفیت کی بات کی ہے وہاں ان کی قوت مشاہدہ اپنی تمام تر جولانیوں کے ساتھ کہکشاں کی مانند قرطاس فکرپر اْتر آئی ہے۔‘‘(۱۱۱)
شاعرؔصدیقی کا کلام عصرحاضر کا آئینہ ہے ان کی غزلوں میں محض اپنے احساسات و جذبات نہیںبلکہ ملک ِپاکستان اور خاص کر شہر کراچی میں کشت وخوںکی گرمی،تڑپتی لاشیں، بارود کی گھن گرج اور بم دھماکوں کی خوفناک گونج بھی سنائی دیتی ہے۔سیاستدانوں کے ہاتھوں عوام کا استحصال اور ان کی مفاد پرستیاں،غربت فکر معاش جیسے عوامل کا اظہاربھی ملتاہے۔انہوں نے سارے اشک غم دوراں کے لیے بہائے ہردرد کو اپنے پہلومیں سمیٹا اوردوسروں کے غم کودیکھ کران کی آنکھیں بھرآتی ہیں۔وہ حصار ذات سے نکل کر حالاتِ انسان کی بات کرتے ہیں۔جس میں ہرشخص کا چہرۂ ورق مصور دکھائی دے رہا ہے۔ ہرفرد خوف اور آسیب کا شکار ہے۔لوگوں نے خود کوگھر کی چاردیواریوں میں مقید کرلیا ہے۔ایسے حالات جس میں قاتل اورمسیحاکا امتیاز ناممکن ہوچکا ہے۔جہاں کی فضا بارود کی بو سے بوجھل ہوگئی ہے۔ان حالات و واقعات کی عکاسی شاعرؔ صدیقی کچھ یوں کرتے ہیں:
آج بارود کی بو سے ہیں فضائیں بوجھل
کیسے بیٹھے گا سرِ شاخ پرندہ کوئی
(۱۱۲)
بارود کے اک ڈھیر پر بیٹھے ہوئے تھے لوگ
میں امن و آشتی کی فضا ڈھونڈتا رہا
(۱۱۳)
علاوہ ازیں شاعر کے کلام میں فطری عناصر کا اظہار بھی شگفتہ انداز میں جلوہ گر ہے۔
دھرتی اپنی ماں ہوتی ہے، ماں سے کس کو پیار نہیں
اس کی زمیں کا ذرّہ ذرّہ آنکھ کا تارا لگتا ہے
شام کی لالی یوں لگتی ہے جیسے سہاگن کا جوڑا
بھور سمے چڑیوں کا چہکنا گیت سہانا لگتا ہے
یہ صحرا، یہ مست سمندر، یہ پربت، جھرنے،دریا
غور کرو شاعرؔ تو سب کچھ ایک تماشا لگتا ہے
(۱۱۴)
شاعرؔنے خار جی منظرنامے کو گہرے احساس کے ساتھ دیکھا اور بیان کیا ہے۔یہ منظرنامہ ان کے ہاںپھیلا ہوا ہے۔ذات کے علاوہ انہوں نے زندگی کے ہرپہلو کا اجاگر کیا ہے۔ان کی خارجیت فطری ہے۔جس کی اصل وجہ شاعر پرگزرے ہوئے ناگفتہ بہ حالات ہیں۔شاعرنے سقوط ڈھاکہ کی غارت گری بھی دیکھی اورہجرت کے بعدشہر کراچی کی صورت حال بھی دیکھا جس کا سوچنا بھی انسان گورا نہیں کرسکتا ہے۔لیکن پھر بھی وہ زندگی میں پر اْمید نظر آتے ہیں۔
محبت اور حسن پرستی کا جذبہ شاعر?صدیقی کی روح میں بسا ہوا ہے۔ان کی شاعری میں بھیگی پلکیں،چنچل آنکھیں، پیالے اور پیمانے ہونٹ جیسے الفاظ کی کمی نہیں جس کے ذریعے انہوں نے محبوب کے نقوش اجاگر کیے ہیں اوریہ الفاظ و تراکیب ان کے خارجی رجحان کی ترجمانی کرتے ہیں۔
پاکستان میں اْردو غزل کے ساتھ بہت سے شعرا کے نام منسوب ہیں۔ہرایک نے اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے۔اس حوالے سے شاعرؔصدیقی کا گوشہ نشینی میں یاپس منظر میں چلے جانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ غزل کہنے کے معاملے میںاپنے ہم عصریا دیگر شعرا سے کم نظر آتے ہیںبلکہاْن کی غزل میں ایک پختہ کار شاعر کے ایسے آثار جلوہ گر ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شاعرؔ صدیقی غزل کا ایک کامیاب شاعر ہے۔اْن کی غزلوں کی عظمت اس بات میں ہے کہ یہ صرف اْن کے داخلی واردات کے اظہار تک محدود نہیں ہیں بلکہ اپنے عہد کے سیاسی،سماجی،معاشی اور معاشرتی موضوعات سے معمور ہیں۔ان میں درد وغم کے علاوہ انسان دوستی،حق گوئی،انقلابی فکر،دنیا کی مکر وفریب اور دیگر سماجی مسائل کے تذکروں نے اْن کی غزل کو ہمیشہ کے لیے زندہ وجاید کردیا ہے۔
دیگر اصناف کے برعکس غزل میں اْن کی شخصیت کل کرسامنے آتی ہے۔کیوں کہ شاعری اور شخصیت کا آپس میں جو رشتہ ہوتا ہے وہ اْن کا غزل کے ساتھ زیادہ مستحکم معلوم ہوتا ہے۔جہاں تک میں سمجھتا ہوں شاعرؔنے اپنے جذبات کے اظہار کے لیے صنفِ غزل کا انتخاب کیا تھا جواْن کاسب سے پسندیدہ صنف ہے۔اْردو غزل سے اْن کی رحانی وابستگی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اْن کی شاعری کا بیشتر حصہ غزل پر مشتمل ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭

حوالہ جات
۱۔محمدعبدلحفیظ،قتیلؔ،ڈاکٹر،معیار غزل،اعجازپرنٹنگ پریس چھتہ بازارحیدرآباددکن،۱۹۶۱ء ص ۹
۲۔سعد کلیم اللہ،ڈاکٹر،اْردو غزل کی تہذیبی و فکری بنیادیں،گنج شکرپریس،لاہور،ئ۲۰۱۵ص۱۳۱
۳۔سلیم اختر،ڈاکٹر،اْردو ادب کی مختصرترین تاریخ،طبع سوم،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور۲۰۱۳ء ص ۶۷۱
۴۔شاعرؔصدیقی،بجھتے سورج نے کہا،رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی پاکستان،۲۰۰۹ء ص۳
۵۔انور جمال پروفیسر،ادبی اصطلاحات،طبع سوم،نشنل بک فاونڈیشن اسلام آباد،۲۰۱۳ء ،ص۱۲۱
۶۔امیرحسین چمنؔ،’’عبدالرازق سے شاعر صدیقی تک‘‘،رنگ ادب،سہ ماہی ،شاعرؔصدیقی نمبر،رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی،۲۰۰۶ئ،ص۴۳
۷۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۹ء ص۴۷۱
۸۔ایضاً ،ص۱۷۵ ۹۔ایضاً،ص۲۴۶
۱۰۔ایضاً ،ص۱۸۳ ۱۱۔ایضاً،ص ۲۴۰
۱۲۔ایضاً،ص۱۱۷
۱۳۔محموداخترخان،عرض مرتب،مشمولہ،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی، ۲۰۱۹ء ص۹۵
۱۴۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۹ص۱۶۴
۱۵۔ایضاً،ص۲۵۷ ۱۶۔ایضاً،ص۲۵۷
۱۷۔ایضاً،ص۳۸۳ ۱۸۔ایضاً،ص۳۸۳
۱۹۔حنیف فوقؔ،ڈاکٹر،آنکھوں میں سمندرایک جائزہ،رنگ ادب سہ ،ماہی شاعرؔصدیقی نمبر جولائی تاستمبر ۲۰۰۶ ص ۲۵
۲۰۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۹ء ص۱۸۳
۲۱۔ایضاً،ص۱۵۶ ۲۲۔ایضاً،ص۱۸۱
۲۳۔ایضاً،ص۲۲۵ ۲۴۔ایضاً،ص۳۷۳
۵۲۔ایضاً،ص۱۳۶
۲۶۔انورجمال،پروفیسر،ادبی اصطلاحات،نشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد،۲۰۱۲ ص۱۰۴
۲۷۔اکرم کنجاہی،مقدمہ،مشمولہ،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنزکراچی ۲۰۱۹ ص۳۰
۲۸۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۹ص۱۹۵
۲۹۔ایضاً،ص۱۳۷ ۳۰۔ ایضاً،ص۱۹۳
۳۱۔ایضاً،ص۱۹۳
۳۲۔شبیر،ناقدؔ،نقدفن،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،س،ن،ص۲۰۲
۳۳۔اکرم کنجاہی،مقدمہ،مشمولہ،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنزکراچی ۲۰۱۹ ص۴۳
۴۳۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۹ء ص۲۶۰
۳۵۔ایضاً،ص۱۷۵ ۳۶۔ایضاً،ص۱۰۵
۳۷۔ایضاً،ص۹۹ ۳۸۔ایضاً،ص۱۵۸
۳۹۔ایضاً،ص۱۲۹ ۴۰۔ایضاً،ص۲۹۹
۴۱۔ہارون الرشید،پروفیسر،آنکھوں میں سمندر،ایک تجزیہ،رنگ ادب،شاعرؔصدیقی نمبرجولائی تاستمبر ۲۰۰۶ ص۶۶
۴۲۔عشرت،رومانیؔ،آنکھوں میں سمندر کاشاعر،،رنگ ادب،شاعرؔصدیقی نمبرجولائی تاستمبر۲۰۰۶ئ۵۰۲
۴۳۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۹ء ص۱۵۱
۴۴۔ایضاً،ص۱۲۹ ۴۵۔ایضاً،ص۱۶۴
۴۶۔ایضاً،ص۳۵۸ ۴۷۔ایضاً،ص۱۰۶
۴۸۔ایضاً،ص۷۹ ۴۹۔ایضاً،ص۳۳۱
۵۰۔ایضاً،ص۳۳۰ ۵۱۔ ایضاً،ص۱۴۷
۵۲۔اکرم کنجاہی،مقدمہ،مشمولہ،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنزکراچی ۲۰۱۹ء ص۴۱
۵۳۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۹ء ص۲۹۵
۵۴۔ایضاً،ص۹۹ ۵۵۔ایضاً،ص۱۷۹
۵۶۔ایضاً،ص۱۳۴ ۵۷۔ایضاً،ص۱۲۵
۵۸۔ایضاً،ص۱۲۸ ۵۹۔ایضاً،ص۱۰۲
۶۰۔ایضاً،ص۱۰۰ ۶۱۔ایضاً،ص۱۷۴
۶۲۔ایضاً،ص۱۷۴ ۶۳۔ایضاً،ص۱۰۲
۶۴۔ایضاً،ص۲۷۱ ۶۵۔ایضاً،ص۳۱۶
۶۶۔ایضاً،ص۱۰۸
۶۷۔شفیق احمدشفیق،آنکھوں میں سمندر کاتجزیاتی مطالعہ،رنگ ادب،شاعرؔصدیقی نمبرجولائی تاستمبر ۲۰۰۶ ص۲۳۰
۶۸۔ایضاً،ص۱۷۸ ۶۹۔ایضاً،ص۱۳۵
۷۰۔ایضاً،ص۱۶۰ ۷۱۔ایضاً،ص۱۶۲
۷۲۔ایضاً،ص۲۴۲
۷۳۔عشرت،رومانی،آنکھوں میں سمندر کا شاعر،رنگ ادب،شاعرؔصدیقی نمبرجولائی تاستمبر۲۰۰۶ ء ، ص ۲۰۵
۷۴۔اظہرقادری ،پروفیسر،قدیم وجدیدکا حسین امتزاج،رنگ ادب،شاعرؔصدیقی نمبرجولائی تاستمبر ۲۰۰۶ ء ص۶۵
۷۵۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۹ء ص۱۱۲
۷۶۔ایضاً،ص۱۲۰ ۷۷۔ایضاً،ص۳۶۱
۷۸۔ایضاً،ص۳۵۷ ۷۹۔ایضاً،ص۱۶۴
۸۰۔ایضاً،ص۰۸۱ ۸۱۔ایضاً،ص۱۶۳
۸۲۔ایضاً،ص۱۵۳ ۳۸۔ایضاً،ص۳۷۳
۸۴۔ایضاً،ص۱۳۷ ۸۵۔ایضاً،ص۱۶۱
۸۶۔ایضاً،ص۱۲۳ ۸۷۔ایضاً،ص۱۴۵
۸۸۔ایضاً،ص۱۱۵
۸۹۔امیرحسین چمن،عبدلرازق سے شاعرؔصدیقی تک،رنگ ادب،شاعرؔصدیقی نمبرجولائی تاستمبر ۲۰۰۶ ، ص۳۳
۹۰۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۹ ص۹۱
۹۱۔ایضاً،ص۱۰۳ ۹۲۔ایضاً،ص۱۸۱
۹۳۔ایضاً،ص۱۱۰ ۹۴۔ایضاً،ص۱۵۵
۹۵۔ایضاً،ص۱۰۰ ۹۶۔ایضاً،ص۱۴۱
۹۷۔ایضاً،ص۱۹۸ ۹۸۔ایضاً،ص۲۰۲
۹۹۔ایضاً،ص۱۹۲ ۱۰۰۔ایضاً،ص۱۶۶
۱۰۱۔اکرم کنجاہی،مقدمہ،مشمولہ،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنزکراچی ۲۰۱۹ئ،ص۱۹
۱۰۲۔کلیم رحمانی،دھوپ چاو کا سچاشاعر،رنگ ادب،شاعرؔصدیقی نمبرجولائی تاستمبر۲۰۰۶ئ،ص۳۹
۱۰۳۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۹ئ، ص۱۲۰
۱۰۴۔ایضاً،ص۲۶۳ ۱۰۵۔ایضاً،ص۲۰۸
۱۰۶۔ایضاً،ص۲۰۹ ۱۰۷۔ایضاً،ص۲۲۰
۱۰۸۔ایضاً،ص۱۹۳ ۱۰۹۔ایضاً،ص۳۳۳
۱۱۰۔عارف منصور،جگرلخت لخت،شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز ،کراچی۲۰۱۲ء
۱۱۲۔امیرحسین چمن،عبدلرازق سے شاعرؔصدیقی تک،رنگ ادب،شاعرؔصدیقی نمبرجولائی تاستمبر۲۰۰۶ ، ص۳۵
۱۱۳۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۹ء ص۱۱۵
۱۱۴۔ایضاً،ص۱۱۹ ۱۱۵۔ایضاً،ص۲۶۷
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...