Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > شاعر صدیقی کی فکری جہتیں > شاعر صدیقی کی نظم گوئی

شاعر صدیقی کی فکری جہتیں |
حسنِ ادب
شاعر صدیقی کی فکری جہتیں

شاعر صدیقی کی نظم گوئی
ARI Id

1689956774273_56117783

Access

Open/Free Access

Pages

۷۱

شاعرؔصدیقی کی نظم گوئی
نظم دراصل نثرکی متضاد ہے یعنی وہ کلام جس میں وزن ،بحر،ترنم اور نغمگی کا خیال رکھا جائے نظم کہلاتا ہے۔لغوی اعتبار سے نظم پرونا،ترتیب دینا وغیرہ کے معنوں میں آتا ہے اصطلاح میں نظم شاعری کی وہ صنف سخن ہے جس میںفکروخیال کے لحاظ سے تمام اشعار کسی ایک موضوع اور ایک خیال کے تحت فکری گہرائی اورشدید جذبے کے ساتھ لکھے جاتے ہیں نظم کے تمام مصرعے باہم مربوط ہوتے ہیں۔
اُردو شعری اصناف میں غزل کے بعد نظم کی اہمیت مسلمہ ہے۔اْردو میں نظم گوئی کی ابتدا قلی قطب شاہ کے زمانے سے ہوئی ہے۔قطب شاہی کے دور میں جن شعرا نے نظمیں کہی ہیں اُن میں جانمؔ،ابن نشاطیؔ،ملاوجہیؔ،رستمیؔ،غواصیؔ،نصرتیؔ ،ہاشمیؔ اور عبدلؔ جیسے اکابر شعرا کے نا م قابل ذکر ہیں۔بعد میں یعنی اٹھارویں صدی کی چوتھی دہائی میں نظم کے اس ارتقائی سفر میں نظیراکبر آبادی نے سب سے اہم رول اداکیا ہے۔نظیرؔنے نظم کو ایک عوامی صنف سخن کی حیثیت سے متعارف کرایا اور پہلی مرتبہ محاسن مناظر فطرت کے علاوہ دیگر عوامی سرگرمیوں کو جگہ دی۔
نظم کا سنہرا اور جدید دور۱۸۵۷ئکے بعد شروع ہوتا ہے۔اس دور میں نظم کے کینوس میں بہت وسعت پیدا ہوگئی اور نظم کو قومی اصلاح اور تربیت کا ایک مؤثر ذریعہ سمجھنے کی حیثیت سے خاص اہمیت دی گئی۔بالخصوص آزادؔاور حالیؔ کی کوششوں سے نظم نے ترقی کی ایک اور کروٹ لی۔جس میں بہت نئے خیالات اور موضوعات نے جگہ پائی۔اس زمانے کے ایک اوراہم شاعر اکبرالہ آبادی بھی ہے جس کا کلام اْس عہد کا آئینہ دار ہے۔اکبرؔنے اپنی نظموں میں مغربی تعلیم،تہذیب ومعاشرت کی پرزور مذمت کی ہے۔حالیؔ نے جدیدنظم کی جو بنیاد رکھی تھی اْس پر علامہ محمداقبال نے نظم کی ایک ایسی عمارت کھڑی کردی جس کے بنا پر اقبالؔ اْردو کے ایک معتبر نظم گو شاعرکہلا نے لگے۔
قیام پاکستان کے بعد اْردو شعری اْفق پر ایسے ستارے نمودار ہوئے جنہوں نے اْردو نظم کو بام گردوں سے ہمکنا ر کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی۔قیام پاکستان کے بعداْردو نظم نے خوب ترقی کی۔نظم کے دامن کو مزید وسعت ملی اور بہت سے سماجی ،معاشی،معاشرتی اور تہذیب رجحانات اور موضوعات کو جگہ دی گئی۔نظم کے حوالے سے اس دور میں فیض احمدفیضؔ،احمدندیم قاسمیؔ،جوش ملیح آبادی،حفیظ جالندھری اور اخترلایمان جسے شعرا قابلِ ذکر ہیں۔
اْردو نظم کے حوالے سے اس عہد نو سے تعلق رکھنے والا ایک اہم شاعر، شاعرؔصدیقی بھی ہیں۔ شاعرؔمحض غزل یا نظم کا شاعر نہیں بلکہ ایک اعلیٰ پائے کا نظم نگار بھی تسلیم ہوچکے ہیں۔اْن کی نظموں کا یہ محدود سرمایہ اپنے دور کا و ہ دریچہ ہے جس میں اْس عہد کے تمام واقعات ،سانحات اور دیگر سماجی ، معاشرتی،تہذیبی رجحانات کو دیکھے جاسکتے ہیں۔ان کی نظم متنوع موضوعات پر مشتمل ہیں۔جن میں قومی وملی، انقلابی ،زندگی کی بے ثباتی ،سقوط دھاکا ،اتحاد اْمت جسے کئی رنگ شامل ہیں جو اْن کے عصری شعور کے مظہر ہیں۔شاعرؔصدیقی کی بعض نظمیں اس بات کا واضح پتہ دیتی ہے کہ اْن کی فکرواْسلوب پر فیضؔ کا رنگ شاعری نمایا ں ہے۔لیکن اس کے باوجود انہوں نے تقلیدی روش سے اپنے دامن کو بچانے کی بھر پور کوشش کی ہے اور اپنے لیے ایک الگ راستے کا انتخاب کیا ہے۔
سقوط ڈھاکا
۱۹۴۷ئکے بعد پاکستان کو درپیش واقعات میں سب سے بڑا اور انسانیت سوزواقعہ سانحہ مشرقی پاکستان ہے۔المیہ سقوط ڈھاکا میں قتل عام اور ظلم اور بربریت کے ایسے مناظر دیکھنے کوملے ہیں جن کی نظیر پوری دنیا میںنہیں ملتی۔ان ناگفتہ بہ حالات کے تلخ اثرات معاشرے کے ہر خاص وعام پر پڑنے کے ساتھ ادب نے بھی قبول کیے۔اور بطورِ خاص وہ اہل قلم طبقہ جو ذاتی طورسے اس کرب سے گزر چکے تھے۔یہی وجہ ہے کہ اْس عہدسے وابستہ شعراکے کلام میں اس کی جھلک کسی نہ کسی صورت میں ضرور دکھائی دیتی ہے۔ شاعرؔصدیقی جیسے حساس اور دردمند دل رکھنے والے شخصیت کے لیے اس کرب کو نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا۔دیگر شعرا کے مقابلے میں شاعرؔصدیقی کے لیے یہ حالات زیادہ تکلیف دہ اورکٹھن ثابت ہوئے۔ اْن کا شعری مجموعہ ’’پانی کا ملک پتھر کے لوگ‘‘ اس دوآتشہ کے تناظر میں لکھا گیاہے۔اس المیے نے شاعرؔصدیقی کو ذہنی طور پر مفلوج کردیا تھا۔وہ اپنی رُوداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’سانحہ مشرقی پاکستان یعنی ڈھاکا کافال ہونے کے بعد۱۹۷۲ء میں جب میں جان بچاکر اور اپنا سب لْٹا کر (اپنے ایک معتبر دوست شمس الدین مامون جو مکتی باہنی کا سیکٹری انچارج بھی تھا) کی مہربانی اور دست نوازی کی وجہ سے کلکتہ سے اپنی مختصر سی فیملی کے ساتھ پہنچا ہی تھا کہ ایک اور سانحے نے مجھے بالکل توڑکے رکھ دیا۔جس کے نتیجے کے طور پر میں’’نیم باگل ‘‘ ہوگیاتھا۔اس سانحہ کا تعلق مال ودلت اور نام ونمود سے نہیں بلکہ خاص دل ودماغ سے تھا جس کی وجہ سے میں اپنے ہوش وحواس تقریباً کھو چھکاتھا‘‘ (۱)
اس سانحے میں شاعرصدیقی کے کلام کا بیشتر سرمایہ مسودوں کی شکل میں ضائع ہوگیا۔ جس میں گیتوں کے علاوہ نثر کی کتابیں بھی شامل تھیں۔اس وجہ سے وہ معاشی طور پر بدحالی کے شکار ہوگئے۔یہاں تک کہ اْنہوں لکھنا بھی ترک کردیا۔اس حوالے سے شاعرؔصدیقی تحریر کرتے ہیں:
’’سانحہ مشرقی پاکستان کی وجہ سے میں اس قدر دل برداشتہ ہوا کہ لکھنے پڑھنے سے دل اْچاٹ ہو گیا تھا اور میں نے ادب لکھنا ترک کردیا‘‘(۲)
مشرقی پاکستان کے دیگرادیبوں اور شاعروں کے کلام سے اس آسیب زدہ دورکی کچھ نہ کچھ نقوش ضرور عیاں ہوتے ہیں لیکن شاعرنے اس سانحے کو کچھ زیادہ سنجیدگی سے لیاتھا یہی وجہ ہے کہ اْن کاایک مکمل مجموعہ اسْ دور کا عکس ہے انور فرہاد اس حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
’’شاعرؔصدیقی طبیعتاً بہت زیادہ حساس ہیں اس لیے وہ اس المیے سے بہت زیادہ متاثر ہوئے اور یہ اس کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اس دور میں جو کچھ کہا ہے اس میں اس دورکا دکھ بہت واضح نمایاں ہے۔اس دور کی یادگار ان کا غیرمطبوعہ کلام’’پانی کاملک پتھر کے لوگ‘‘ہے۔جو حقیقتاً نظم نہیں بلکہ کئی نظموں کا مجموعہ ہے۔‘‘(۳)
معاشرتی،سیاسی انتشار اور بد امنی ابتدا ہی سے اْن کی شاعری کا محورہاہے کیوں کہ شاعرؔصدیقی کی شاعری۱۹۴۷ئکے ہندو مسلم فسادات سے لے کر سقوط ڈھاکا کا احاطہ کرتے ہوئے عہد حاضر میں کراچی کے بد امنی پر اپنے پایہ تکمیل تک پہنچتی ہے۔لیکن اْن کے ہاں جو کرب سب سے زیادہ نمایا ں طور پر دکھائی دے رہا ہے وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ہے۔کیوں کہ مشرقی پاکستان میں اْردو بولنے والے خاص کرمہاجروںپر قتل و غارت گری اورجو مظالم کے پہاڑ ڈھائے گیے ان تین سالوں کے روداد یعنی ۱۹۷۱ء سے۱۹۷۳ئتک بہ تفصیل بیان کیے گیے ہیں۔
۱۹۷۱ئمیں مشرقی پاکستان جن بد تر حالات سے گزرا شاعرؔصدیقی نے وہ درد ناک حوادث بہت قریب سے نہ محض دیکھے ہیں بلکہ ان حالات سے بذات خود گزر بھی چکے ہیں۔اس حوالے سے یہ اشعار دیکھئے۔جس میں خون کی ہولی کھیلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
یہ سولہ دسمبر کی وہی رات ہے اے دوست
جس رات میں پانی کی طرح خون بہا ہے
یہ واقعہ تاریخ میں ہے اپنی مثال آپ
انسان نے شرمندہ درندوں کو کیاتھا
(۴)
پرچھائیاں بن بن کے اْبھرتے ہیں مناظر
وہ خونی مناظر کہ نظر کانپ رہا ہے
وہ خون، وہ خنجر ، وہ تڑپتی ہوئی لاشیں
پھر آج ہر ایک راہ گزر کانپ رہا ہے
(۵)
تصویر قیامت ہے یہ سولہ دسمبر
تاریخ نہ دہرائے کبھی سولہ دسمبر
(۶)
اس دورکے قیامت خیزی اور تڑپادینے والے مناظر نمایاں طور پر شاعرؔصدیقی کے اشعار میں عیاں ہیں۔ اْن کی نظموں میں خون میں لت پت معصوم لاشیں،تلواریں اور بندوقیں بہ دست جلاد،بندوق کی نالی سے اْگلتی ہوئی آگ اور جسموں سے خون کے دھارے نکلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔شاعرؔصدیقی ایک جگہ پہ لکھتے ہیں کہ مجھے ایسے مناظر دیکھنے کو ملے جن کو بیان کرنا میرے دسترس سے بالاتر ہے۔
بنگالیوں کی طرف سے مہاجر اور اْردو بولنے والوں پر جو ظلم اور بربریت کے پہاڑ ٹوٹے اور اْن کاخون پانی کی طرح جس طور سے بہایا گیا کہ چنگیزیوں کے ظلم کی مثال ایک بار پھر زندہ کی گئی۔وہی حالات شاعرؔکچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
بولتے ہیں یہ پیار کی بولی
کھیلتے ہیں یہ خون کی ہولی
ہیں یہ انسانیت سے بے بہرہ
رنگ چنگیزیت کا ہے گہرا
ظلم کرنے میں اس قدر ہیں تیز
سچ ہے کہیے جو وارث چنگیز
ظلم کی ان کے ایک زندہ مثال
ہے یہ انیس سو اکہتر سال
(۷)
مشرقی پاکستان کی گلی کوچوں میں تڑپتی ہوئی لاشیں اور قتل و غارت کی بازارگرمی کا ذکر کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:
خون ہی خون ہے نگاہوں میں
مسجدوں میں گھروں میں راہوں میں
خونِ انسانیت سے کھیت ہے سرخ
اور سمندر کی ساری ریت ہے سرخ
ہر طرف خون ہے مہاجر کا
بھاگ جاگا لہو کے تاجر کا
(۸)
برصغیر کی تاریخ کا وہ المیہ جس میں خود مسلمانوں نے ایک دوسرے کا خون پانی کی طرح بہایا۔قتل عام ، ظلم اور بربریت کے وہ مناظر دیکھنے کو ملے کہ تاریخ اقوام میں ان کی مثال ڈھونڈنا محال ہے۔ شاعرؔصدیقی ساری زندگی اس المیہ کے کرب سے نہیں نکل پائے اس موضوع کو اگر ان کی شاعری کا محور کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔یہ المیہ اگرایک طرف مسلمانوں کی تاریخ کی ایک عبرت انگیز داستان ہے تو دوسری طرف شعری پیکر میں ان حالات وواقعات کا اظہاراْن کے کلام میں ایک الگ باب کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔انہوں نے انسانی اقدار کی شکست اور ظلم وتشدد ،سیاست دانوں کی سازش،عیاری ،دغابازی اور منافقت کو جس طور سے بیان کیا ہے ،اردو شاعری میں اس کی مثال ڈھونڈناشایدمشکل ہو۔مشرقی پاکستان میں اْنہیں ایک پرسکون ماحول میسر آگیا تھا لیکن بہت جلد ظلم واستبداد کے ایک ایسے خباثتوں نے سر اْٹھا یا کہ مسلمان نے مسلمان کے خون کی ہولی کھیلی۔شاعرؔصدیقی کے کلام کو پڑھ کر یہ درد اچھی طرح محسوس کیا جاسکتا ہے۔
حب ِ وطن
وطن سے محبت کرنا ہرانسان کافطری خاصاہے۔خاص کر وہ مٹی جہاں انسان کابچپن اورجوانی گزری ہوانسان اس سے بے حدپیار کرتا ہے۔وطن سے محبت ایمان کاحصہ سمجھا جاتا ہے۔انسان کی آزادی وطن سے محبت کامتقاضی ہے۔ بلندپایہ شاعراور ایک اچھے انسان ہونیکا ساتھ ساتھ شاعرؔصدیقی ایک محب وطن شہری بھی ہے۔اْن کو وطنِ عزیز سے بے پناہ محبت ہے۔جس کااظہارانہوں نے اپنے ہردور کی نظموں میں کیا ہے۔وطن سے جداہو نے کادکھ انہیں عمر بھررہا ہے۔اکرم کنجاہی شاعرؔصدیقی کی حب الوطنی کے حوالے سے یوںلکھتے ہیں:
’’اپنے دیس کے صحرا،پربت،مست سمندر،دریا،ندیاں،اور جھرنے گویا ذرّہ ذرّہ شاعرکی آنکھ کا تارا ہے۔دھرتی ماں کی طرح ہوتی ہے اورماں سے پیارکس کو نہیں ہوتا۔دیس کاہرموسم پیارالگتا ہے۔بادل تو بادل لو بھی اچھی لگتی ہے۔پردیس میں ہیرے موتی کیوں نہ مل جائیں اپنا وطن توخوبصورت جزیرے کی طرح ہوتا ہے۔شاعرؔکو شام کی لالی سہاگن کی جوڑے کی طرح اور بھورے سمے چڑیوں کا چہکنا سہانے گیتوں جیسا لگتا ہے۔اپنے وطن میں جب کاچاندجھیل پراْترتاہے تووہ منظر محسور کردیتا ہے۔سورج کی کرنیں جب پربتوں کو چومتی اور دمن میں اْترتی ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ دھرتی اور آکاش میں ضرور کوئی گہرا رشتہ ہے۔شاعرؔصدیقی نے غزل نظم گیت اور جنگی ترانے لکھ کروطن سے بے پایا محبت کا اظہار کیا ہے‘‘(۹)
شاعرؔصدیقی کی ابتدائی زمانے کی شاعری سے لیکر عہد حاضر تک ان کے کلام میں وطن سے محبت کاجذبہ کارفرما نظر آتاہے۔دو ہجرتوں کا دْکھ سہہ کر اْنہیں اپنے وطن کی اہمیت اندازہ ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ اْن کی شاعری میں مٹی سے اْن کی محبت شدت سے محسوس کی جاسکتی ہے۔وطن کے وجود پر اْن کا دل دْکھتا ہے۔اس لیے وطن میں بدامنی،نفرت،عداوت،غربت و افلاس کو جب وہ دیکھتے ہیں تو کْڑھتے ہیں اور وطن کے پراگندہ نظام کوبدلنے اور امن وآشتی کا ماحول بنانے کی آرزو رکھتے ہیں۔اپنے ابتدائی دورکی شہرہ آفاق نظم ’’مادر ہندسے‘‘ میں مادر ہند سے محبت کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں:
مادر ہند تیری حشمت و عظمت کی قسم
تیری عزت کی قسم تیری محبت کی قسم
شکل سیلاب مچلتی ہوئی نفرت کی قسم
تیرے ہرگوشے کی خوں ریز حکایت کی قسم
ہم بدل دیں کے زمانے کا پراگندہ نظام
(۱۰)
شاعرؔصدیقی جب مشرق پاکستان کے ہولناکیوں سے گزرے اور کراچی میں رہائش اختیار کی تو اس شہرسے اْن کو فطری لگاؤ اور دلی وابستگی پیدا ہوگئی لیکن افسوس کہ یہاں بھی شاعرؔکواطمینان نصیب نہیں ہوا کیوں کہ یہ شہر بھی وہی خون ریزی ،قتل وغارت،عصمت دری اور لْٹیروں کا گڑھ تھا۔جس کی وجہ سے یہاں کی روشنیاں غارت ہوگئیں تھیں۔ اور سڑکیں سنسان اور گلیاں ویران پڑی تھیں۔شہر کا ہر باسی خوف وہراس اور آسیب میں مبتلا نظر آتا ہے۔شاعر نظم ’’شہر کوہ ندا‘‘ میں اس شہر سے والہانہ محبت کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں:
اے مرے شہر
اے رو شنی کے شہر
تجھ کو کس کی نظر کھا گئی
تیری راتوں پہ ہوتا تھا دن کا گماں
ہر طرف نغمہ و رنگ کا کارواں
مثل آب رواں
زندگی ہر قدم پہ جواں
تیری ہر رہ گزر مثل کاہکشاں
اب کہاں۔۔۔۔۔۔۔اب کہاں؟(۱۱)
شاعرؔصدیقی اپنی سرزمین سے جتنا پیار کرتے ہیں اْتنا ہی وطن کے محافظوں سے بھی کرتے ہیں۔ جنہوں نے جذبہ شوق شہادت لے کر پاک بھارت جنگ میں وطن کی حفاظت میں اسلاف کی تاریخ کوایک مرتبہ پھر زندہ کیا تھا۔جن کو نذر عقیدت پیش کرتے ہوئے شاعرؔ صدیقی ایک نظم میں مجادین وطن کو نذرِ عقیدت پیش کرتے ہوئے یوں پکارتے ہیں:
مجاہدان وطن اے مجاہدان وطن
تمہیں وطن کی فضائیں سلام کہتی ہے
ہمالیہ کی چٹانوں کو رشک ہے تم پر
تمہیں تمہاری وفائیں سلام کہتی ہیں

پھر ایک بار زمانے پہ کردیا روشن
حسین و خالد و طارق کی یادگار ہو تم
صدائے حق کبھی باطل سے دب نہیں سکتی
نقیبِ امن وامان وقت کی پکار ہو تم
(۱۲)
شاعرؔصدیقی نے وطن سے ماں کی طرح پیار کیا ہے۔وطن کی گود اْن کے لیے سب سے بیش قیمت شے ہے۔انہیں اپنا وطن پوری کائنات میں حسین لگتاہے۔دیس کی جھومتی گھٹا،کوہسار صف بہ صف،مسکراتی وادیاں،گنگناتی ندیوں کا بانکپن اور ڈولتی ہوئی بہارکی کلیوں نے شاعرؔکو اپنا اسیر بنالیا ہے جس کاذکر انہوں نے ایک نظم میں بہت دل فریب اندازمیں کیا ہے۔
مرے وطن کی سرزمیں۔۔۔۔۔۔۔
مرے وطن کی سرزمیں، تراجواب ہی نہیں
جہاں میں تیری گود سے نہیں کوئی شے حسیں
مرے وطن کی سرزمیں
یہ جھومتی ہوئی گھٹا،قدم قدم رواں رواں
یہ کوہسار صف بہ صف،یہ مسکرتی وادیاں
چناب وسندھ کی یہ گنگناتی ندیاں
یہ ندیوں کا بانکپن نظرنواز دل نشیں
مرے وطن کی سرزمیں (۱۳)
مندرج بالا اشعار سے اْن کی حب الوطنی کا اندازہ بخوبی لگا جاسکتا ہے۔یہ محبت اْن کی رگ وپے میں بسی ہوئی ہے۔شاعرؔصدیقی بھی فیض کی طرح وطن کو اپنے محبوب سے کم تر نہیں سمجھتا۔جہاں انہوں نے محبوب سے ہجر وفراق کا اظہار کیا وہاں وطن عزیزسے جدائی کا درد بھی جلوہ گر ہے۔وہ طن اور وطن کی مٹی سے وابستہ ہر چیز سے بے پناہ اْلفت رکھتے ہیں۔اْنہوں نے وطن کی بربادی اوراور تنزلی پر ہمیشہ خون کے آنسوبہائے ہیں۔ہم وطنوں کی خستہ حالی،مفلسوں کی بے بسی اور ناداری،قوم کی عزت وناموس،بھوک اور خون کی ارزانی کو جب دیکھتے ہیں تو تڑپتے ہیں۔وطن اْن کی بیشتر نظموں اور گیتوں کا موضوع رہا ہے۔شاعرؔصدیقی اگر وطن سے پیار نہ کرتا تو اْن کی وہ شاعری جو ہجرت اور سقوط ڈھاکا کے تناظرمیں ہے درد و کرب اور تاثیر کی حامل کبھی نہ ہوتی۔جس کو وہ اپنی زیست کا سب سے بڑا المیہ سمجھتے ہیں۔
عزم وانقلاب
روایتی ڈگر پرچلنے کے ساتھ شاعرؔصدیقی ترقی پسند سوچ کو لے کے آگے بڑھ چکے ہیں۔ترقی پسندوں کے تمام تر مثبت افکار اْن ہاں دیکھے جاسکتے ہیں جن میں عزم وانقلاب کا جذبہ بھی نمایاں ہے۔اس حوالے سے وہ فرار اور بغاوت کا قائل نہیں ہیں بلکہ زندگی کی حقیقت کا سامنا کرنا اْن کا وطیرہ ہے۔ اْن کو بیک وقت رومان اور انقلاب کا شاعر کہاجاسکتاہے کیوں اْن کے ہاں مقصدیت،رومانیت، خارجی اور داخلی واردات قلبی مشترک طور پر نمایاں ہیں۔جو اْن کی فکر کے دو خوبصورت جھرو کے ہیں۔
شاعرؔصدیقی نے معاشرتی استحصال،ظلم وجبراور ناانصافی کے خلاف آواز اْٹھانا اپنا دین سمجھا ہے۔وہ وطن دوستی اور محبت وروداری کا درس دیتے ہوئے فرسودہ نظام کو بدلنے کی خواہش رکھتے ہیں۔وہ غلامی کو موت سے بھی سخت تر سمجھتے ہیں۔آزادی سے محبت اور غلامی سے نفرت اْن کی سرشت میںشامل ہے۔
شعری سفر میں شاعرؔصدیقی کی فکری رجحانات میں حالات کیمناسبت سے تغیرات رونماہوئے ہیں۔کبھی انہوں نے انقلاب سے رمان کی طرف سفر کیاہے اور کبھی رومان سے انقلاب کی جانب۔اگرچہ ابتدائی دور کی شاعری کو دیکھا جائے تو اس میںایسے اشعار کافی تعداد میں موجود ہیںجو اْن کی انقلابی طرزِفکرکی کے ترجمان ہیں اسی طرح مشرقی پاکستان میں قیام کے دوران جو شاعری انہوں نے کی ہے خاص کرگیت نگاری کواگردیکھاجائے تواس میںرومانیت،نسوانیت نسوانی اْمنگوں آرزوؤں، فراق، وصل جدائی اور دخلی واردات کا غلبہ دیکھا جاسکتاہے۔اس سلسلے میںامیرحسین چمن یوں لکھتے ہیں:
’’قدرت نے پوری فیاضی کے ساتھ شاعرؔصدیقی کو تخلیقی صلاحیتیں ودیعت کی ہیں۔معاملات حسن وعشق ہو یا سسکتی زندگی کی تلخ حکایات۔ اْنہوں نے اپنے عہد میں ہونے والے تمام تر انسانی اور تہذیبی شکست وریخت جس سے وہ خود بھی متاثر ہوئے،اپنے احساس اور جذبات کو فکراور جذبے کے ماہرانہ توازن کے ساتھ اس طرح اپنی شاعری میں سمودیا جیسے ہر ٹوٹے دل کا دکھ، آنسو بن کران کی آنکھ سے بہہ نکلا ہو‘‘(۱۴)
خواجہ ریاض الدین عطشؔ نے اس ضمن میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے یوں لکھا ہے:
’’ان کی شاعری حسن و عشق کی داخلیت تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کا شعور اپنی ان کے شعور سے باہر نکل کر کہیں سسکتی انسانیت کہیں معاشرہ کی بدحالی،کہیں اخلاقیات کی زوال پذیری کہیں ملک کی سماجی ابتری کہیں قوم کی زبوحالی غرض کہ ان کی شاعری اپنی ذات اور اپنے حالات پر پئے بہ پئے گزرے ہوئی پامالی کے ادوار اور اس کے سوز کے ساتھ بہت سے دوسرے دکھ درد کو بھی شامل مضمون رکھتی ہیں‘‘(۱۵)
شاعرؔصدیقی نے وطن کے نوجوانوں کو آزادی،مساوات اور حب الوطنی کا پیغام دیا ہے۔ انہوں نے ہردور میں ظلم کے خلاف آواز اْٹھا ئی اور اْس کے خلاف عزم کو اپنادھرم وایمان سمجھا ہے۔اْن کے ہاں غم جاناں کے مقابلے میں غم دوراں کا پلڑا باری رہا ہے۔شاعرؔکے ابتدائی دور کے چند اشعار دیکھئے جن میں اْن کا انقلابی شعور کو دیکھا جاسکتا ہے:
میرے محبوب میرے فکر تخیل پہ نہ جا
مجھ کو ماضی کے تصور سے نہ غمگین بنا
نہ سنا مجھ کو محبت کے ترانے نہ سنا
ہاں بدلنی ہے ابھی دہر کی حالت مجھ کو
میرے محبوب نہ دے دعوت عشرت مجھ کو
(۱۶)
ساری دنیا کے غریبوں کو جگانا ہے مجھے
انقلاب ایک نیا دہر میں لانا ہے مجھے
زیست کو موت کے پنجے سے چھڑانا ہے مجھے
ختم کرنی ہے بہیمانہ حکومت مجھ کو
میرے محبوب نہ دے دعوت عشرت مجھ کو
(۱۷)
شاعرؔدرج بالا اشعار میں اپنے محبوب سے مخاطب ہے کہ اب مجھے تیری ضرورت نہیں ہے کیوں کہ میرا مقصد محض تجھ سے محبت واْلفت نہیں ہے بلکہ ملک سے غربت و افلاس ختم کر کے مجھے غاصب اور بہیمانہ حکومت کوبھی ختم کرنا ہے۔اس ضمن میں مزید اشعار ملاحظہ کریں جن میں شاعر نے مجاہدانِ وطن کو خراج عقیدت پیش کیا ہے:
شبوں کے راج دلاروں کو فکر ہے شب کو
لہوں کو دیپ جلائے ہیں تم نے راہوں میں
ہے کون ایسا جو اب روک لے تمہارا قدم
بہار منزل مقصود ہے نگاہوں میں

بھلا سکے گی نہ تاریخ عظمت آدم
تمہیں سے آیا ہے عالم میں انقلاب نیا
جہاں جہاں بھی گرے گی تمہارے خون کی بوند
وہاں وہاں سے طلوع ہوگا آفتاب نیا
(۱۸)
شاعرؔصدیقی نے اپنی نظموں میںدیس کے محنت کشوں کو بھی عزم واتحاداور حوصلے کادرس دیا ہے جنہوں نے اپنے خون سے اس دھرتی کی آبیاری کی ہے۔جو فصلیں کاٹ کر بھی فاقے کاٹ رہے ہیں۔شاعرؔ اْنہیں ظلم کے خلاف چٹان بننے کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں:
صدیوں اپنے خون سے اس دھرتی کو سینچا ہم نے
لیکن فصلیں کاٹ کے بھی ہم سدا رہے ہیں بھوکے
جس میںاونچ اور نیچ ہو ساتھی توڑ دو وہ فرمان
روک سکے تو روک لے کوئی یہ بڑھتا یہ طوفان
ہاتھ سے ہاتھ ملا کر رکھنا دیکھو چھوٹ نہ جائے
دور نہیں سپنو ں کا سویرا ہمت ٹوٹ نہ جائے
ظلم کی ہر آندھی کے آگے بن جاؤں چٹان
جاگ اْٹھے ہیں اس دھرتی کے محنت کش انسان
(۱۹)
رومان پسند شعرا کے ہاں انقلابی رجحان کسی نہ کسی صورت میں ضرورکار فرما ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شاعرؔمحض رومانی شاعر نہیں بلکہ ایک انقلاب پسند شاعر بھی مانے گئے ہیں۔وہ انقلاب برپاکرنے کی خواہش مند ہے۔وہ مکروفریب،ظلم وجبر، اور منافقت کی دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں۔سماج کے رنجیدہ مسائل خاص کر انسانوں کے کشت وخوں،بدامنی،انتشار،انفراق سے دل برداشتہ ہوکر وہ یادِ ماضی کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔لیکن پھر منحرف ہوجاتے ہیں اور سماج کی نبض پر ہاتھ رکھ کر رومان اور انقلاب کی کشمکش میں پھنس جاتے ہیں۔شاعرؔصدیقی نے فیض احمدفیضؔ کی طرح اپنے ایک ہتھیلی پررومان اور دوسری پر انقلاب کا دیپک فروزاں کیا ہے۔جس کی وجہ سے اْن کے کلام میں شگفتگی کے ساتھ رنگینی اور لہجے میں غنائیت اور تاثیربھی پیدا ہوگئی ہے۔
فلسفہ زندگی
زندگی کیا ہے اور اس کی حقیقت کیاہے ہر شاعر اور ادیب نے اپنی فہم و فراست اور فکر کے بل بوتے پر اس کی تشریح وتوضیح کی ہے۔کسی کے نزدیک پانی کا بلبلا ہے توکسی نے ماندگی کا وقفہ قراردیاہے اور کسی نے جبرمسلسل سمجھی ہے۔غالبؔ کے نزدیک زندگی غموں کا گہوارا ہے جس سے سوائے موت کے فرار حاصل نہیں کیا جاسکتا۔بہر حال زندگی کے تصور نے ہر دانشور کے ہاں ایک الگ روپ دھارلیا ہے۔ہرانسان زندگی کو اپنے سمجھ بوجھ کے آئینے میں دیکھتا ہے اور پرکھتاہے۔کسی کے لیے کرب کی گھڑی ہے تو کسی لیے عشرت اور مسرت کی۔
بہرکیف ایک شاعر زندگی کو اپنی بصیرت اور بصارت کی بنیاد پر جس طرح مختلف زاویوں سے دیکھتا ہے اور پرکھتا ہے اسی طرح زندگی کی باریکیوں کوبھی اپنے شعر کے آئینے میں پیش کرنے کی کوشش میں مگن رہتا ہے اور زندگی کے پوشیدہ گوشوں کو بے نقاب کرنے کوشش کرتاہے۔
شاعرؔصدیقی کا سامنا ہمیشہ سے زندگی میں محرومیوںاور ناکامیوں کے ساتھ رہا ہے۔لیکن پھربھی انھوں نے زندگی کو قابل قدر سمجھا اور کبھی بھی مایوسی کے شکار نہیں ہوئے ہیں۔شاعرنے زندگی کو اپنے فکر کے چراغ کی پرتوں کے موافق زندگی کوکبھی زہرہلا ہل کہاہے اورکبھی جام شراب تصور کیا ہے۔ زندگی اْن کے لیے کبھی ایک انمول موتی کی مانندہے اور کبھی کانچ کا ٹکڑا۔ان کا کہنا ہے کہ زندگی اگر خوشیوں اور مسرتوں کی بیچ سے گزرتی ہے تو پھولوں کا تاج ہے۔اگر رنج والم کا گہوارا بنے تو پھر کانٹوں کے بستر کے سواکچھ بھی نہیں۔اس حوالے سے اْن کی نظم’’زندگی نامہ سے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:
بے خودی جاتی ہے اور آتا ہے انساں ہوش میں
زندگی جب کھیلتی ہے موت کی آغوش میں

زندگی ہے اک حقیقت، زندگی ہے ایک خواب
زندگی زہر ہلاہل ، زندگی جامِ شراب

زندگی شبنم کا نغمہ زندگی شعلوں کا ناچ
زندگی انمول ہیرا، زندگی بس ایک کانچ
(۲۰)
شاعرؔصدیقی کے نزدیک زندگی اللہ کی جانب سے انسان کے لیے ایک بیش قیمت نذرانہ ہے یہ زندگی اللہ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے۔وہ زندگی کی قدر ومنزلت کے قائل ہیں۔اُن کے ہاں زندگی خوشی،مسرت اور محبت کا نام ہے لیکن ہم نے اسے ایک ظالم سماج کے روپ میں تبدیل کی ہے۔زندگی جنت کی خوشبو ہے لیکن ہم نے اپنے لیے دوزخ کی آگ بنادی ہے۔زندگی کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے شاعرؔصدیقی نے مزید کچھ یوں بیان کیا ہے:
زندگی پھولوں کا بستر، زندگی کانٹوں کا تاج
زندگی اللہ کی نعمت، زندگی ظالم سماج

زندگی سینے کی دھڑکن، زندگی پائل کا گیت
زندگی خاموش دیپک، زندگی بھونرے کی جیت

زندگی جنت کی خوشبو، زندگی دوزخ کی آگ
زندگی بیوہ کا سپنا، زندگی ہنستا سہاگ
(۲۱)
بعض جگہوں پرا یسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعرؔصدیقی نے غالبؔ کی طرح زند گی کو محض جاگتے لمحو ں کا عذاب سمجھا ہے۔لیکن شاعرؔکے ہاں ایک مثبت پہلو یہ نظر آتا ہے کہ انھوں نے اصل زندگی وہ سمجھی ہے جو حق گوئی اور سچائی کے لیے بیت جائے اور جس میں ابن آدم کا احساس رکھا جائے۔
زندگی جاگتے لمحوں کا عذاب
بند ہونٹوں میں سسکتی ہوئی
حق کی آواز
ایک نئے دور کا خاموش آغاز
دست دردست تہ سنگ
نگاہیں پْرنم
ابنِ آدم کا بھرم (۲۲)
شاعرؔصدیقی کی نظموںمیں زندگی کا گہرا مطالعہ ملتا ہے۔انہوں زندگی کو اپنے مشاہدات، تجربات، تخیلات بلکہ ہر زاویے سے دیکھنے اور پرکھنے کی کو شش کی ہے اور زندگی کی حقیقی تصویر کو نمایاں کی ہے کہ اصل میں زندگی کیا ہے اور اس کا بنیادی مقصد کیا ہے۔اْن کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا میں انسانی روحیں محض پیار کے لیے ہیں۔نفرت کو وہ زندگی کا حصہ نہیں سمجھتے اْن کے نزدیک زندگی کا حاصل پیار ومحبت ہے۔کیوں کہ وہ فطری طور پر پیار کا پیاسا ہے۔اْن کا کہنا ہے کہ زندگی میں خوشی اپنا نا چاہیے اور ہر لمحہ خوشی کیساتھ گزارنا چاہیے۔
بذات خود شاعرؔصدیقی کا ماضی زندگی کی ناہمواریوں اور تلخیوں سے عبارت ہے لیکن اْن کے ہاں مایوسی قطعاً نہیں ہے۔کیوں کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ رنج والم،دکھ اور تکلیف زندگی کا حصہ ہے۔شاعرؔصدیقی کہتا ہے کہ زندگی انسان کے ہاتھ ایک مہرہ ہے جسے جس طرح چاہے گزارسکتا ہے۔ زندگی ناول بھی ہے اور قرآن بھی زندگی ایک حیوانی روپ بھی ہے اور انسانیت بھی ۔
حق گوئی
کوئی بھی فن پارہ اس وقت تک زندہ نہیں رہ سکتا جب تک اس کو حق گوئی،سچائی اور بے باکی سے ہمکنا رنہ کیا جائے۔اسی سبب شاعر معاشرے میں ایک امتیازی حیثیت کا حامل ہوتا ہے کیوں کہ معاشرے کو حق کا پیغام دینا اور سدھارنے کی ذمہ داری معاشرے کے دوسرے افرد کے بہ نسبت ایک شاعراورادیب پر زیادہ عائد ہوتی ہے کیوں کہ وہ دیگر افراد سے زیادہ دوراندیش اور بابصیرت ہوتا ہے۔ ان ذمہ داریوں کو کوئی نبھاتا ہے اور کوئی نہیں ،لیکن جوبھی ہووہ کسی نہ کسی صورت میں اپنے خارجی یاداخلی عوامل کو مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں زندگی کی اصلیت،ماہیت، اور حقائق کی نشاندہی کرتے ہیں۔
شاعرؔصدیقی اپنے عہد میں حق کی تلقین کواپنا مطمع قرار دینے والوں میں ایک نمایاں نام ہے۔ شاعرؔصدیقی کے اشعار محض گل و بلبل کے مضامین تک محدود نہیں بلکہ اس میں جووصف زیادہ نمایاں ہے وہ حق گوئی اور بے باکی ہے جس کا اعتراف تقریباً بیشترناقدین نے کیا ہے اور سچائی کو اْن کے کلام کا بنیادی وصف قرار دیا ہے۔سماج کے تمام تر تلخ حقائق کا ذکر اْن کی نظموں میں نظر آتا ہے۔انھوں نے قوم کی بے بسی اور ظلم کے خلاف حق کی آواز کو بلند کیاہے۔ترقی پسند فکرسے وابستگی کے بنا پر شاعرؔصدیقی کے ہاں یہ عکس اپنی اپنے پوری آب تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔اس ضمن میں شاعرؔصدیقی کی فکر فیض احمد فیض سے مماثلث رکھتی ہے کیوں کہ شاعرؔنے حق گوئی اور سچائی کے ساتھ ساتھ غم جاناں کا بھی خیال رکھا ہے۔اس سلسلے میںشبیر ناقد یوںرقم طراز ہیں:
’’شاعرِ موصوف کے ہاں حقیقت پسندی کا غالب عنصر نظر آتاہے کچھ تلخ حقائق کا بیان ذیشان ہے ان کے ہاں عندالبیا ں مفلوک الحال طبقے کی غمازی ملتی ہے جو ان کی ترقی پسند فکر کی ترجمان ہے ان کی زیست کے تجربات مشاہدات کی عکس جمیل بھی ہے غم ہستی کے پہلو بہ پہلو غم جاناں کے شواہد بھی بھر پور اندازمیں پائے جاتے ہیں جس سے اس کے افکار کا حسن دوچند ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے‘‘(۲۳)
سلمان صدیقی نے بھی اس ضمن میںاظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’شاعرؔصدیقی کی شاعری کا بنیادی وصف سادگی اور سچ ہے کہ امنگوں بھری جوانی کے جذبات کے اظہار کی ابتدا کاہو یا پھر’’پانی کا ملک پتھر کے لوگ‘‘ کے عنوان سے المیہ مشرقی پاکستان کے رونما ہونے والے دردناک واقعات کی منظوم دستاویز رقم کرنے کا ہو۔شاعرؔصدیقی نے کسی مرحلے سچ کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔انھوں نے جو دیکھا جو محسوس کیا۔بغیر کسی پس وپیش کے اسی طرح رقم کردیا‘‘(۲۴)
شاعرؔصدیقی نے انسان کی شیشہ صفتی پرہمیشہ افسوس کیا ہے۔خاص طور پر وہ اپنے عہد کے سیاسی رہنماؤں پر شدید تنقید کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔جواقتدار کا سہارا لے کر انسانوں کی مجبوری سے کھیلتے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو ملک وقوم کا ہمدرد سمجھتے ہیں لیکن ان کی اصلیت ایسی نہیںبلکہ یہ مزدوروں کی لاشوں سے کفن بھی چھین لیتے ہیں۔شاعرؔصدیقی نے ایسے درندہ صفت انسانوںکو مخاطب کرکے اپنی نظم ’’انتباہ‘‘ میں کچھ یوں لکھاہے:
ملت و قوم کے ہمدرد وطن کے ہبر
کھیل لو کھیل لو انسان کی مجبوری سے
چند روز اور حکومت کا سہارا لے کر
رشک چنگیز بنو قوم کی مظلومی سے
شیش محلوں کی فضاؤں میں سنوارنے والو
چھین لو شوق سے مزدور کی لاشوں سے کفن
(۲۵)
ایک اور نظم ’’جواب دو‘‘ میں شاعر وطن کے رہبروں کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کچھ یو ں کرتے ہیں:
قصور کیا ہے ہمارا، ہمارے رہبرو!
ذرا بتاو تو کس جرم کی سزا ہے یہ
یہ ہم پہ ظلم و ستم کی نوازش پیہم
ہمارے بیش بہا خون کا صلہ ہے یہ
(۲۶)
شاعرؔصدیقی کی نظمیں بلند فکر اور گہرے جذبات کی آئینہ دار ہیں۔ حق پرستی اْن کی فکر کے آئینے میں اْن کے دل کش اشعار کے توسط سے دیکھی جاسکتی ہے۔اْن کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں انصاف غریبوں سے ابھی دورہے۔مظلوموں اور بے بسوں پر ظلم کو روا رکھا جاتا ہے:نظم’’ گریز‘‘ سے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:
اب بھی انصاف غریبوں سے جدا ہے اے دوست
اب بھی مظلوم پہ ہر ظلم رواہے اے دوست
اب بھی آلام سے مغموم فضا ہے اے دوست
اب مظلوم نظر آتی ہے خلقت مجھ کو
میری محبوب نہ دے دعوت عشرت مجھ کو
(۲۷)
اس حوالے سے مزید مثالیں دیکھئے:
عصمتیں بھی وہی لوٹ کے بازار وہی
ہر سیاہ کار وستم گار کے کرداروہی
نالہ و آہو وہی، ظلم کے آثار وہی
ایسے ماحول میں جینا بھی ہے ذلت مجھ کو
میرے محبوب نہ دے دعوتِ عشرت مجھ کو
(۲۸)
شاعرؔصدیقی کے نظمیہ کلام کا اگربنظرِ عمیق جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آ جائے گی کہ یہ سچائی اورحق پرستی ابتدا سے اْن کی شاعری کا محور رہی ہے۔وہ کسی صورت میں سچائی کے دامن کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔انہوں نے جو دیکھا جیسے محسوس کیا اس کو بغیر کسی رکاوٹ کے اسی طرح رقمکیا۔یہی وجہ ہے کہ دردمندی،رواداری اورانسان دوستی اْن کی شاعری کے بنیادی مآخذ رہے ہیں۔ سچائی سے وابستگی اْن کی سرشت میں دور اوائل سے موجودہے ابتدائی دورسن۱۹۵۰کی ایک نظم ’’مادرِ ہند‘‘ میں وہ یوںلکھتے ہیں:
اْف وہ لٹتی ہوئی عصمت سرِ بازارِ غضب
زندگی موت کے پھندے میں گرفتارِ غضب
نالہ و آہ پہ تلوار کی جھنکار غضب
آہ! انسان کے بدلے ہوئے کردار غضب

بھول جائیں اسے ارباب وطن ناممکن
نہ مٹائیں یہ درندوں کا چلن ناممکن
(۲۹)
شاعرعلی شاعرؔ نے شاعرؔصدیقی کی حقیقت پسندی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’میں نے بحیثیت پبلشرز اس سے پہلے بھی شاعرؔصدیقی کی حقیقت پسندانہ شاعری سے متاثر ہوکر کئی کتابیں شائع کی ہے اور یہ کتاب (سندربن میں آگ) بھی اسی بات کا موجب بنی ہے کہ ایک اْداس شخص کی اْداسی کو دور کرنے میں میرا بھی کچھ حصہ ہو‘‘(۳۰)
سچائی نے ان کی شاعری میں اعلیٰ معیار کی ایک ایسی سطح قائم کی ہے جو قابل ستائش بھی ہے اور قابل رشک بھی۔شاعرؔصدیقی کا جذبہ کبھی بھی سرد نہیں پڑا ہے انہوں نے اپنی زندگی کے تجربے کی بنیاد پر انسانی رویوں اور معاشرتی بے حسی کی تصویر کشی جس انداز سے کی ہے عہد حاضر میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔سچ کہنا اْن کی فطرت میں شامل ہے وہ سچ کہے بنا نہیں رہ سکتے۔زیب النساء زیبیؔ لکھتی ہیں:
’’وہ عہد شناسی اور حقیقت نگاری کی قوت سے پوری طرح بہرہ ور ہیں۔‘‘(۳۱)
بہر کیف شاعرؔصدیقی نے حق کی آواز کو عوام تک پہنچا نے کی بھر پور کوشش کی ہے۔انھوں نے اْس حقیقت کو سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے جو عام لوگوں کی فہم و فراست سے بالاتر ہے ۔وہ ایک باشعور شاعر اور نباض کی طرح قومی عارضے کی تشخیص کرنا بھی جانتے ہیں اور علاج بھی۔ وہ بحیثیت شاعر اپنے منصب پر پوری طرح اْتر چکے ہیں اوراْن کی توجہ قومی مفاد سے نہیں ہٹتی اورنہ وہ اس پر کسی بھی طورپر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
رومانیت
رومانیت ہمارے ہاں ادبیات کا ایک ایسا مظہررہاہے جس کا پرتوتقریباً اْردو کے ہر جید شاعر اور ادیب کے ہا ں دیکھا جاسکتاہے۔رومانیت میں جذبات اور تخیلات کا زور ہوتاہے۔عام اصطلاح میں رومانیت اس جذبے کانام ہے جس میں شاعریا ادیب اپنی عاشق مزاجی،جذبات انگیزی اور تخیل پرستی کا مظاہرہ کریں رومانیت کہلاتی ہے۔رومانیت ایک وسیع المفہوم لفظ ہے اس کی اصطلاحی معنویت کو رد نہیں کیا جاسکتا۔اس سلسلے میںڈاکٹر محمد خاں اشرف یوں تحریر کرتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ فن وادب اب تک جس مقام پر پہنچ چکے ہیں اور رومانیت کو فنون وادبیات میں جو مقام حاصل ہے اس کے پیش نظر یہ ممکن نہیں کہ اس اصطلاح کوترک یا نظر انداز کیا جاسکے۔‘‘(۳۲)
ڈھاکہ شہر میں شاعرؔصدیقی کے قیام کا دورانیہ تقریباًبیس سالوں پر محیط ہے اسی دوران جو شاعری تخلیق ہوئی ہے اس میں رومانیت کا غلبہ قدرے زیادہ نظرآتاہے۔کیوں کہ وہاں شاعرؔصدیقی ایک فلمی ماحول میں زندگی گزار رہے تھے اورڈھاکافلم انڈسٹری کے لیے گیت نگاری بھی کررہے تھے۔یہی وجہ ہے کہ اْن کے کلام پررومانی اثرات اس زمانے میں زیادہ دیکھے جاسکتے ہیں۔خاص کر شاعرؔصدیقی کے گیت رومانوی شاعری کے ایک شاہکار ہے۔یہ رومانیت محض گیتوں تک محدود نہیں بلکہ انھوں نے جتنی اصناف سخن پرقلم آزمائی کی ہے سب میں نمایاں ہے۔رومانیت کا اظہار اْن کے ہاں بھر پور انداز میں ملتا ہے لیکن اس کے اظہار میں جذبے کی پاکیزگی اور تقدس کا خاص بھرم رکھا گیا ہے۔ان کی ایک نظم سے بطور نمونہ چند اشعار دیکھیے:
تیری زلفیں ہیں کہ ساون کی گھٹا آوارہ
تیرا چہرہ ہے کہ کھلتے ہوئے نسرین وگلاب
تیری آنکھیں ہیں کہ دوجام شرابِ رنگیں
کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ حقیقت ہے کہ خواب
وہ حسیں خواب کہ تعبیر نہیں بن سکتی

چال ایسی کہ دھنک ڈول رہی ہو جیسے
شرم ایسی کہ بہاروں کا تبسم جیسے
ناز ایسا ہے کہ غنچوں کا بھی دل دھڑکائے
ایسی آواز کہ جھرنے کا ترنم جیسے
وہ سجل روپ کی تفسریر نہیں بن سکتی
تیری تصویر بناتا ہے مٹا دیتا ہوں
(۳۳)
ڈھا کا میں قیام کے دوران رومانوی جذبہ اْن کی شاعری کا خاص محور رہا ہے۔ماحول کے اثرات کو قبول کرتے ہوئے انہوں نے اس عنصر سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔اس سلسلے میں پروفیسر اظہر قادری یوں لکھتے ہیں:
’’وہ فطری طور پر شاعر رومان ہیں۔لیکن بعض دوسرے رومانی شاعروں کی طرح وہ اخلاقی اقدار کو نذرانداز نہیں کرتے۔جب تک ڈھاکے میں رہے ان کی شاعری کا محورعشق اوررومان ہی رہا۔کراچی آکران کے اشعار میں فکری عناصرکا اضافہ ہوگیا۔گزشتہ بیس پچیس سال سے انہوں نے جوغزلیں کہی اْن میں فکر وفن کا حسین امتزاج ملتا ہے۔حقائق حیات کی عکاسی بڑی خوبی سے کرتے ہیں بھرتی کے اشعار نہیں ہوتے۔ان کی اس خوبی نے ان کے اشعار کو چارچاندلگا دیے ہیں۔ان کے آخری دور کے عشقیہ اشعار توخاص طور پر فکر ونظر کی بلندی اور پاکیزگی کا مظہر ہیں‘‘(۳۴)
کلکتے کے فسادات سے نکل کرڈھاکا میں انہیں ایک ایسا ماحول میسر آیا جو قدرے اطمینان بخش تھا۔ایک فلمی ماحول اور رنگین فضا میں رہنے کی وجہ سے اْن کی فکر میں یکسر تبدیلی واقع ہوئی جس سے اْن کی رومان پسندی میں اضافہ ہوا۔بقول انور فرہاد:
’’ڈھاکا آنے کے بعد جب شاعر کو کلکتے کی نسبت زیادہ اطمینان بخش زندگی گزارنے کا موقع ملا اور جب لڑکپن گزرنے کے بعد اْنھوں نے نوجوانی کی دیلیز پر قدم رکھا تو ان کو اپنے ارد گرد کے ماحول میں رومان پرور رنگینی نظر آئی جس کے نتیجے میں اْس دور کی شاعری میں رومان انگیزی کااثرغالب نظرآتاہے‘‘(۳۵)
شاعرؔصدیقی جذبات کے شاعر ہیں جس چیز نے شاعر کے کلام کوممتاز بنادیا ہے وہ جذبات کی گہرائی اور فکر کی بلندی ہے۔اْن کی رومان پسندی عمومی روایت سے مربوط ہے۔ابتدائی دور میں اْن کے کلام میں اْن کا تصور عشق بھی روایتی ہے۔ وہ اپنے محبوب سے محبت کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں:
یہ جادو بھری نگاہیں تری
لبوں میں دبی یہ چنچل ہنسی
مہکی مہکی زلفوں کے سائے
تجھے جب بھی دیکھوں تو پیار آئے
میرے دل جگر کو قرار آئے
یہ لب ریشمی،یہ نین کنول
تراروپ ہے سراپا غزل
عاشقی کا نغمہ ہے
یہ قاتل ادا، شرمیلا پن
کسی میں نہیں ہے ترا بانکپن
کبھی دلبری،کبھی بے روخی
کہو جان جاں خطا کیا ہوئی
ابھی تو محبت کا آغازہے (۳۶)
شاعرؔصدیقی کی شاعری کئی ادوار پر محیط ہے لیکن رومانی جذبہ ہر دور میں اْن کی شاعری میں جلوہ گر ہے۔بعض ادوار میں اگرچہ یہ جذبہ قدرے ماند توپڑ گیا ہے لیکن یکسر ختم نہیں ہوا ہیکیوں کہ رومانیت اْن کی فطرت میں رچی بسی ہوئی ہے۔وہ محبوب کے ریشمی لب گلاب جیسا چہرہ،نشیلی آنکھیں،مہکی مہکی زلفوں میں کبھی کبھار ضروراسیر ہوجاتے ہیںاور اس کے مدح بیان کیے بے بغیرنہیں رہ سکتے۔
اتحاد المسلمین
اتحاد المسلمین ہر دور میں شعرا کے ہاں ایک اہم موضوع رہا ہے۔اسی طرح اْردو ادب میں بھی تمام بڑے شعرا نے امت مسلمہ کے اتحاد کے متعلق اپنے گہرے جذبات واحساسات کا اظہار کیا ہے۔حالیؔسے لے کر اقبالؔ تک اور قبالؔ سے عہد حاضرہ تک جتنے بھی شعرا گزرے ہیں تقریباًسب نے شاعری میں اس موضوع کو جگہ دی ہے۔سب نے اپنی اپنی طرز نگارش کے موافق اْمت مسلمہ کو اتحاد واتفاق کا درس دیا ہے۔
شاعرؔصدیقی کے کلام کے مطالعہ سے ہمیں قومی یکجہتی اور قومی اتحاد کا جذبہ ابتدائی دور سے کارفرما نظر آتا ہے۔اْنہوں نے قوم کوہر غاصب اور جابر کے خلاف متحد ہونے کا درس دیا ہے۔وہ مسلمانوں کو ماضی کی روایات کو پھر سے زندہ کرنے کی تعلیم دیتے ہیں تاکہ وہ اْخوت کے اس سبق کو پھر سے دہرائے۔حال اور مستقبل کو ماضی سے جوڑے۔سانحہ مشرقی پاکستان نے شاعرؔصدیقی کے ہاں اس جذبے کو مزید جلابخشی کیوں کہ اْنہوں نے مسلمان کو مسلمان کو خون بہاتے ہوئے دیکھا جس سے اْن کو بہت گہرا صدمہ پہنچا تھا۔شاعرؔنے اس ظلم اور بربریت کا سب سے بڑا سبب قومی نفاق سمجھااور اس واقعے کوتاریخ عالم اسلام کاسب سے بڑا سانحہ قرار دیاکیوں کہ اس میں مسلمانوں کے خون کا دریا بہانے والے خود مسلمان ہی تھے۔اْمت میں یکجہتی اْن کی خواہش ہے یہ اْن کی سرشت میں ابتدا ہی سے موجود ہے۔وہ قومی انفراق سے دلبرداشتہ ہوجاتے ہیں۔اْن کے انداز کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کا شرازہ بکھرنے پر آنسوں بہاتے ہوئے دکھائے دے رہے ہیں۔انہوں نے ہمیشہ انسانی قدروں کا خیال رکھا ہے۔جو ایک طرح سے اْن کی انسانی دوستی کا بھی مظہر ہے۔شاعرؔصدیقی نے اس بات پر بھی دْکھ کا اظہار کیا ہے کہ اْمت میں ایسا کوئی رہنما نہ رہا جو ان میں اتحاد و اتفاق قائم کرنے کے لیے کوشش کریں۔
شاعرؔصدیقی کے ہاں اس ضمن جو مثبت رویہ ملتا ہے وہ اْمید ہے۔نااْمیدی اْن کی فطر ت میں نہیں ہے۔وہ کبھی بھی۔مایوس نہیں ہوئے ہیں۔وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے اْخوت کا جو سبق چودہ سو سال پہلے حاصل کیا تھا وہ رشتہ اب بھی قائم ہے۔شاعرؔصدیقی اپنی نظم جو اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر لاہور میں منعقد ہواتھا ’’تیسری دنیاکا سورج‘‘ میں شرکت کرنے والے رہنماؤں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عالم اسلام کے اے کاررواں خوش آمدید
راز تقدیر اْمم کے رازداں خوش آمدید
ملت اسلام کا شیرازہ تھا بکھرا ہوا
رنگ خوں کی ٹولیوں میں تھے مسلماں منتشر
اب سے چودہ سو برس پہلے لیا تھا جو سبق
دھیرے دھیرے یاد پھر آنے لگا باچشمِ تر
ہوگئیں اک بار پھر زندہ روایاتِ قدیم
مشرق و مغرب کے مسلم ایک مرکز پر ملے
سطوت اسلام کا پرچم ہوا ہے پرفشاں
مل گئے ہیں حال سے ماضی کے سارے سلسلے
(۳۷)
شاعرؔصدیقی نے ایک اْمید ظاہر کی ہے کہ ملت اسلام کا جو شیرازہ بکھرہوا پڑا تھا مسلمان رنگ وخوں میں بٹے ہوئے تھے۔لیکن آج اتفاق واتحاد کی اْن قدیم روایا ت نے ایک بار پھر کروٹ لی ہے۔ تمام اْمت مسلمہ کے قائدین پھر ایک فارم پر جمع ہوگئے ہیں۔شاعرؔصدیقی نے مزید لکھا ہے:
پھرمسلمانوں نے دْہرایا اْخوت کا سبق
آج سے پھر ایک زریں دور کا آغاز ہے
ساری دنیا کی نگاہیں اس طرف مرکوز ہیں
آج پھرسارا زمانہ گوش بر آواز ہے
مشرق و مغرب سے آنے والے مہمانو!سلام
تم پہ اے ناموس ملت کے نگہبانو!سلام
تم کہ دین مصطفی کے غازیان سرفروش
جن سے دریاؤں کے دل ڈوبے وہ طوفانو!سلام
(۳۸)
شاعرؔصدیقی نے اس موقع پر نہایت خوشی کا اظہار کیا ہے کہ مشرق ومغرب سے اسلامی سربراہی کانفرنس میں اْمت مسلمہ کے قائدین عالم اسلام کی کامیابی کے لیے سرزمین پاکستان پر جمع ہوئے تھے۔ اور شاعرِمشرق علامہ اقبال نے اْمت مسلمہ میں اتحاد اور یکدلی کا جو حسین خواب دیکھا تھا اس خواب کو تعبیر ملنے کی گھڑی آگئی ہے۔اگر چہ سب کا تعلق دنیا کے مختلف خطوں سے تھا لیکن سب ایک رشتہ اْخوت میں بندھے ہوئے تھے۔جورشتہ کلمہ توحید پر استوار تھا۔
شاعرؔکہتا ہے کہ تیسری دنیا کا سورج پھر سے کروٹیں لے رہا ہے اور صبح نوکی آہٹیں ایک مرتبہ پھر سے تیزی پکڑ رہی ہے۔اتحاد المسلمین اْن کی ایک روحانی خواہش ہے وہ چاہتے ہیں کہ یہ قوم پھرسے ایک منظم اور ترقی یافتہ قوم بن جائے اور ماضی کی روایات سے اپنے مستقبل کا چراغ منور کریں۔
شاعرؔصدیقی کو اس بات سے بھی صدمہ پہنچتا ہے کہ پاکستان جو کہ ایک نظریے کے تحت معرض وجود میں آیا تھا اس کے خاطر بے شمار لوگوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا تھا جس کے لیے بہنوں اور بیٹیوں نے اپنی آبرو گنوائی تھی۔لیکن پاکستان کی وہ متحدہ قومیت رنگ ونسل کی ٹولیوںمیںبٹ گئی ہیں۔ شاعرؔصدیقی اپنے رہنماؤں سے بصد خلوص سوال کرتے ہوئے کہتے ہیں:
بصد خلوص وادب ہم سوال کرتے ہیں
ہمارے رہنماؤ، ہمیں جواب تو دو
بتاؤ کیا اسی کارن بنا تھا پاکستان
کہ رنگ ونسل کی ٹولی میں لوگ بٹ جائیں
ہم اپنے اہل وطن بھائیوں کے ہاتھوں سے
زباں کے نام پر یوں بے زبان کٹ جائیں
بتاؤکیا اسی کارن کئی برس پہلے
دیا تھا اپنا لہو بے شمار لوگوں نے
یہی وہ ملک ہے جس کے قیام کی خاطر
گنوائی آبرو اپنی جوان بہنوں نے
(۳۹)
شاعرؔصدیقی سمجھتے ہیں کہ قوم کی انفراق اور اختلاف کی اصل وجہ دین سے دوری ہے۔ہماری جمیعت جس چیزسے مستحکم ہے وہ دراصل دین مصطفوی ﷺہے۔ہم اسلامی روایات کو بھول چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے درمیان قومی،نسلی اور لسانی تعصب نے جنم لیا ہے۔سندھی،بلوچی،پنجابی غرض ہر ایک کے چہرے پر صوبائیت کاغازہ ہے:
کوئی ہے سندھی بلوچی کوئی ہے پنجابی
ہر ایک چہرے پہ صوبائیت کا غازہ ہے
یہ مسئلہ نہیں بنگالی اور بہاری کا
ہمارے دوش پر اسلام کا جنازہ ہے
(۴۰)
شاعرؔصدیقی کا کہنا ہے کہ اقبال کے اْس تصور کو ہم بھول چکے ہیں اور نہ یہ قائداعظم کے خواب کی وہ تعبیر ہے :
بتاؤ کیا یہی اقبال کا تصور تھا
یہی ہے قائد اعظم کے خواب کی تعبیر
خطا معاف نہیں یہ قیام بنگلہ دیش
ہر ایک گام نئے کربلا کی ہے تصویر
(۴۱)
الغرض شاعرؔصدیقی نے قومی انفراق اور انتشار کا سب سے بڑا سبب یہ بتایا ہے کہ عالم اسلام اپنے ماضی کی روایات ، اپنی مذہبی تعلیمات اور اپنے اسلاف کے کارناموں کو بھول چکے ہیں جس کا نتیجہ باہمی اختلاف کی صورت میں نکلا ہے۔اور اْمت مسلمہ تنزل اور بربادی کا شکار ہوگیاہے۔شاعرؔصدیقی کے ہاں موضوعات کا تنوع پایاجاتا ہے لیکن اْن کے بعض موضوعات اْن کے کلام کے مقصدی پہلوؤں کے مظہر ہیںجو اْن کی فکری زرخیزی کا ثبوت ہے۔یہ مقصدیت اور فکری کی گہرائی محض نظم تک محدود نہیں بلکہ پوری شاعری پرا اپنا اثر دکھا تا ہوا نظر آتا ہے۔ شاعرکے ہاں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ جس موضوع کو چھیڑتا ہے اس پر پوری طرح علمی گرفت بھی رکھتے ہیں۔اقبال کی طرح ملت وقوم کے لیے دل میں وہ جو درد رکھتے ہیں اْس نے اْن کے کلام کو اہمیت کا حامل بنادیا ہے۔
شہر آشوب
لفظ ’’شہر آشوب‘‘ فارسی زبان سے مآخذہے جو فتنہ،فساد،طوفان،سرکشی اورغدروغیرہ کے معنوں میں مستعمل ہیں۔اصطلاح میں شہرآشوب کسی ایسے فن پارے کو کہتے ہیں جس میں کسی شہر یا ملک کے انتشار،بدامنی،الغرض وہ تمام حادثات جس کے بْرے اثرات معاشرے کے ہر فرد اور ہر طبقے پر پڑتے ہیں شہر آشوب کہلاتا ہے۔بقول ڈاکٹر سلیم اختر:
’’شہر آشوب ایسی نظم جس میں کسی ملک خطہ حکومت کی تباہی کے حوالے سے وہاں کی تہذیب وتمدن اور مجلسی زندگی کے ابتر ہونے اور اہل علم،اہل خرد،اہل قلم،اہل حرفہ،اہل ہنر کے برباد ہونے کا ماتم کیا گیاہو‘‘(۴۲)
اْردو میں شہر آشوب کے ابتدائی نمونے مسعود سعد سلمان کے کلام سے دریافت کیے گئے ہیں۔اس کے بعد امیرخسرو کے ہاں بھی رباعیات کی شکل میں شہر آشوب ملتے ہیں۔شہر آشوب فارسی شعرا کی ایجادہے۔لیکن اْردو کے بعض بیشتر شعرا نے شہر آشوب لکھے ہیں اس حوالے سے حاتم،سودا،اور نظیرؔاکبر آبادی کے نام قابل ذکر ہیں۔
شہر آشوب کے حوالے سے شاعرؔصدیقی کی شاعری بھی اہمیت کی حامل ہے۔کیوں کہ اْن کا شعری سفر کئی ادوار پر مشتمل ہے۔ایک طرف اگر انہوں نے کلاسیکی روایت کو برقرار رکھا ہے دوسری طرف اْنھوں نے شہر کی بدحالی،معاشرتی پراگندگی کے خوب تذکرے بھی چھیڑے ہیں۔شاعرؔصدیقی کی شاعری کا پہلا دور ہندو مسلم فسادات سے شروع ہوتا ہے۔پہلے دور کا کلام اگرچہ مقدار میں اتنا زیادہ نہیں ہے لیکن پھر بھی اْن کے اشعار میں اس دور کی خونچکاں اور دردناک حالات کی تصویریں دیکھی جاسکتی ہیں۔
زمانی انتشار کا آسیب اْن کے کلام پر ابتدا ہی سوار نظرآتا ہے۔کلکتہ سے ہجرت کے بعد یعنی ڈھاکا میں شاعرؔ صدیقی کی شاعری کا دوسرا اور طویل دور شروع ہوتا ہے۔یہ زمانہ شاعر کے لیے قدرے آسودگی اور فارغ البالی کا ثابت ہوا یہی وجہ ہے کہ اس دور کے تخلیق پاروں میں رومانیت کے عناصر نمایاں ہیں۔
شاعرؔصدیقی کے تیسرے دور کی شاعری کاموضوع سانحہ مشرق پاکستان ہے۔یہ دور شاعرؔ صدیقی کی شاعری کا مختصرترین دور ہے۔ڈھاکا فال ہونا اْن کے لیے کسی بڑے سانحے سے کم نہ تھا۔ شاعرؔصدیقی کا مختصر شعری مجموعہ’’پانی کا ملک پتھر کے لوگ‘‘ اْس سانحہ کے نا مساعدہ حالات اور و واقعات کی قلمی تصویر ہے جس کے تقریباً سارے اشعار شہر آشوب کے زمرے میں آتے ہیں۔
پاکستان آکر شاعرؔصدیقی کی شاعری کاچوتھا اور آخری دور کا آغازہوتا ہے۔اس دور کی شاعری میں پاکستان کی سیاسی بدحالی ملک میں جان لیوا واقعات،تلخ وشیریں تجربات،نازک احساسات اور دیگر نامساعدہ حالات کا گہرا اثر اْن کی شاعری پر دیکھا جاسکتا ہے۔جن سے وہ دلبرداشتہ ہوگئے تھے۔اُنھوں نے جوکچھ محسوس کیا،دیکھا اُسے اسی طرح رقم کیا ہے۔شاعرؔصدیقی ایک جگہ خود اپنی شاعری کے بارے میںلکھتے ہیں:
’’اپنی شاعری کے بارے میں صرف اتنا کہنے کی جرأت کروں گاکہ برائے شعر گفتن میں کسی خاص ’’ازم‘‘ پر یقین نہیں رکھتا۔شاعری پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے اور اس میں رونما ہونے والے واقعات اور حالات کی عکاس ہوتی ہے۔زندگی کے مختلف ادوار میں جس نشیب و فراز سے گزراہوں اور ارد گرد کے ماحول نے مجھے جس طرح متاثر کیا ہے وہ فطرت کے حسین مناظرہو یا صنف نازک کا پیکر جمیل،زندگی کے تلخ تجربات ہو یا معاشرے میں پھلیے ہوئے ناہمواریاں اپنوں کی بے وفائیاں ہو،یا غیروں کی بے اعتنائیاں جس طرح میں نے محسوس کیا اسے سچائی کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی ہے‘‘(۴۳)
بھارت میں ہندو مسلم فسادات کے دوران کہی گئی نظم ’’رات کٹ جائے گی‘‘ سے چند اشعار پیش خدمت ہیں جس میں شاعرنے اس دوشیزہ کا ذکر کیا جو ہندومسلم فسادات کے دوران سماج کی بھینٹ چڑھ گئی تھی:
مجھ کو معلوم ہے لوٹی ہے لٹیروں نے بزور
تیری رخسار کی سرخی ترے ہونٹوں کی شراب
چند حیوانوں نے مذہب کا سہارا لے کر
تجھ کو برباد کیا چھین لیا تیرا شباب
دیکھنا ہے کہ آئین شرافت کب تک
اور آزاد حکومت کی یہ حالت کب تک
(۴۴)
اْس دور کے خون آلودہ فسادات،آسیب زدہ چہرے،چشم گریاں کی حکایات بیان کرتے ہوئے شاعرؔاپنی ایک اورنظم ’’مادرِہندسے‘‘ میں اظہار کرتے ہیں:
خشک ہونٹوں کی شکایاتِ گزشتہ توبہ
خون آلودہ فساداتِ گزشتہ توبہ
چشم گریاں کی حکایاتِ گزشتہ توبہ
اب بھی رقصاں ہے تخیل میں وہ خونی ساعت
چہرۂ زیست پہ چھائی ہوئی غم کی ظلمت
(۴۵)
شاعرؔصدیقی حالات کی ہنگامہ خیزی سے دلبرداشتہ ہوکر ایسے ماحول میں وہ جینا اپنے لیے باعث ذلت اور رسوائی سے کم نہیں سمجھتے جس میں عصمتیں لوٹی جاتی ہیں۔
عصمتیں بھی ہیں وہی لوٹ کے بازار وہی
ہر سیاہ کار و ستم گارکے کردار وہی
نالہ و آہ وہی، ظلم کے آثار وہی
ایسے ماحول میں جینا بھی ہے ذلت مجھ کو
(۴۶)
نومبر۱۹۷۰ ء مشرقی پاکستان میں آنے والے طوفان جس کی وجہ معاشرے کا ہرخاص و عام جانی ومالی غرض ہر لحاظ سے تبا ہی سے دوچار ہوچکا تھا شاعرؔ نے ان قیامت خیزحالات کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
سینچتے تھے جو زمیں کو خون سے
نذرِ آغوش زمیں وہ ہوگئے
جن کی دم سے مسکراتی تھی حیات
موت کی وادی میں جا کر سو گئے
کیا بچا دل سوز منظر کے سوا
جابجا طوفاں شکن لاشوں کا ڈھیر
راستوں پر چلتی پھرتی زندہ لاش
جھاڑیوں میں بے کفن لاشوں کا ڈھیر
دھان کے کھیتوں کا جوبن لوٹ گیا
لٹ گئی سر سبز وادی کی بہار
رہ گئی تصویر بن کر رہ گئی
اَنگنت معصوم روحوں کی پکار
(۴۷)
سقوطِ مشرق پاکستان کے موقع پر شاعرؔصدیقی کے سامنے جتنے مناظر گزرے اور جوکچھ اْنہوں نے محسوس کیا، اْن خونی مناظر اورتصویر ِقیامت کوعیاں کرنے سے وہ خود کو قاصرسمجھتے ہیں۔وہ خون میں لت پت تنِ معصوم،ماوں کے سامنے بچوں کا قتل عام،فضا میں گولیوں کی صدا اور خون میں تڑپٹی ہوئی لاشوں کا ذکرکرتے ہوئیکہتے ہیں:
سرایک طرف خون میں لت پت تنِ معصوم
وہ سامنے ایک کا جگر گوشہ پڑا ہے
بندوق کسی ہاتھ میں، تلوار کسی میں
ہر موڑ پر ایک لشکرِ جلاّد کھڑا ہے
کتنے ہی مناظر ہیں میں کس کس کروں ذکر
جو دیکھ رہا ہوں وہ بیاں کر نہیں سکتا
احساس کے تنور میں جلتی ہے میری روح
محسوس جو کرتا ہوں عیاں کر نہیں سکتا
تصویر قیامت ہے یہی سولہ ستمبر
تاریخ نہ دْہرائے کبھی سولہ دسمبر
(۴۸)
شاعرؔصدیقی کی نظمیں اْن کی زندگی کی افسردہ کہانی ہے جوماضی کرب انگیزی سے معمور ہے۔ تقسیم ہند سے لے کر سقوط ڈھاکا اور کراچی کی گلیوں میں معصوموں کی خونریزیاں،بھتہ خوری ،دہشت گردی ، قتل وغارت گری سیاست دانوں کے ہاتھوں عوام الناس کے استحصال تک کے تمام تلخ واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔
کراچی چوں کہ ایک بین الاقوامی اور صنعتی شہر تھا۔لیکن بدقسمتی سے ایک خدا اور ایک رسول کے ماننے والے ایک دوسرے کاخون بہانے لگے قتل بھتہ خوری،اغوا،سیاسی لوگوں کی مفاد پرستیاں،ان سب عوامل نے مل کر اس شہر کو وحشی درندوں کا جنگل بنادیا۔شاعر نے اپنی نظموںمیں اِن حالات کی خوب عکاسی کی ہے۔اس کرب کو شاعرؔصدیقی نے محسوس کیا اور اپنی شاعری میں شہر کودرپیش حالات کو پیش کیا۔امیرحسین چمن بیان کرتے ہیں:
’’شاعرؔکی زندگی ماضی میں جن حادثوں سے کھیلتی رہی ہے اسکے پس منظر سے کسی حد تک واقف ہونے کے ناطے ان قیامتوں کے پیش نظر یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ جب سمندر کی بھپری ہوئی موجوں سے دست گریباں ہونے کی صدیوں سے عادی سنگلاخ چٹنانیں ان کے ظلم پیہم سے چٹخ سکتی ہیں تو شاعرؔکے سینے میں بھی بہر حال ایک دردمند اور حساس انسان کا دل دھڑکتا ہے جو ٹوٹ بھی سکتا ہے،بکھر بھی سکتاہے،ٹوٹنے کا یہی عمل دھڑکن کی صداوں کو سنگینی احساس کے اس نشیب وفراز سے گزرتا ہے کہ جس سفر کی منزل کانام شاعری ہے‘‘(۴۹)
اس ضمن میں شاعرؔصدیقی کی نظم’’شہرِ کوہ ندا‘‘ کے چند اشعاردیکھئے جس میں شہرِ کراچی کی سنسان سڑکیں،ویران گلیاں اور فضا میں بارود کی بو محسوس کی جاسکتی ہے۔
اے میرے شہر
اے روشنی کے شہر
تجھ کو کسی کی نظر کھاگئی
تیری رواتوں پہ ہوتا تھا دن کا گماں
ہر طرف نغمہ رنگ کا کارواں
مثل آبِ رواں
زندگی ہر قدم پہ جواں
تیری ہر رہ گزر مثل کا ہکشاں
اب کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔اب کہاں؟
آج کیوں پیار کی روشنی کے دیے
ٹمٹمانے لگے
اور اندھیروں کی عفرت کیوں
مسکرانے لگے
آج حد نظر تک ہے ویرانیاں
اور خاموشیاں
سڑکیں سنسان ہیں
تیرے بازار گلیوں میں
آوارہ کتوں کی پیہم صدا
خامشی کا جگر چیرتی
پیار کی خوشبووں سے بھری رہ گزر
آج بارود کی بو سے بوجھل ہیں
ہر طرف ہوکا عالم ہے اورکچھ نہیں
یہ سراسیمگی
اور یہ بے چارگی
روشنی کا یہ شہر حسیں
دیکھتے دیکھتے بن گیا
شہرِ کوہ ندا (۵۰)
شاعرؔصدیقی کا کہنا ہے کہ جولوگ شہرکے امن کو بربادی میں مگن ہیں اورقتل غارت گری کررہے ہیں یہ دراصل ابلیس کے کارندے ہیں۔جو ایک دوسرے کے خون بہانے سے دریغ نہیں کرتے۔الغرض سارے شہر میں رقص ابلیس جاری ہے:
اک دھماکا ہوا
روشنی بجھ گئی
چاند سورج بھی گہنا گئے
تیرگی چھا گئی
رقص ابلیس جاری ہوا
شہر بغداد بھی شہر بیروت بھی
نگاساکی بنا،ہیرشیما بنا
اور افغان میں لاش ہابیل کی
دفن ہوتی رہی
ہاںمکراب کے قابیل ہنستا رہا
مسکراتا رہا
آدمی کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اک تماشا ہوا
دست ابلیس میں ابنِ آدم کھلونا بنا (۵۱)
شاعرؔکا ماضی جبرمسلسل سے معمور ہے۔شہرآشوب اْن کی شاعری میں ایک اہم باب کی حیثیت رکھتاہے۔اْنہوں نے اپنی آنکھوںسے جودیکھا اسے محسوس کیا اور زندگی میں درپیش آنے والے تلخ واقعات کے ہر گوشے کو اپنی شعور آگہی کے ذریعے سے بے نقاب کیا ہے۔ان کی نظمیں ماضی اور حال کے سانحات سے لہولہان ہیں۔شہرآشوب کے موضوع پر شاعرؔ کی نظموںمیں اس کے ذاتی احساسات، ذہنی، کیفیات اور بیان کے تجربات کی جھلک نمایاں ہے۔
یاد ماضی
شاعرؔصدیقی کا حال ماضی سے جڑا ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اْن کا کلام بھی یادماضی کی تلخ وشیریں یادوں سے خالی نہیں ہے ۔تنہائی کا یہ گہرا حساس اْن کے تمام صنف شاعری پر چھایا ہواہے ۔وہ بھی عہد رفتہ کی یادوں میں مقید ہے۔جن سے وہ کسی صورت باہر نہیں نکل سکتے۔وہ تو بعض موقعوں پر یاد ماضی کو ایک عبث مشغلہ سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اْن کے پاس اگرکچھ بچا ہے تو وہ ماضی کی یادوں کا سہارا ہے۔
دوہجرتوں کے الم ناک لمحوں کے علاوہ المیہ 1971ء کی کرب ناکی بھی اْن کے عہد رفتہ سے وابستہ ہے۔شاعرایک نظم میں مشرقی پاکستان کے دلخراش حالات کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں:
کھینچ کر جس سے اک اک ملبوس
یوں نکالا گیا ہے ان کا جلوس
بربریت کی دیکھ کر یہ گھٹا
چرخ کو چاہیے تھا پھٹ پڑنا
بند جینے کی ساری راہیں تھیں
قتل گاہیں ہی قتل گاہیں تھیں
لائے جاتے تھے ایک اک کرکے
سارے افراد ایک اک گھر کے
یوں دکھاتے تھے ظلم کا جوہر
مارتے تھے اذیتیں دے کر
اک فسانہ حقیقتیں لاکھوں
ایک جاں اور اذیتیں لاکھوں
تن سے پہلے لہو نچوڑتے تھے
بعد میں ہڈیوں کو توڑتے تھے
آہ تاریخ کا یہ باب سیاہ
شرم سے اب نہ اْٹھ سکے گی نگاہ
(۵۲)
مندرجہ بالا اشعار میں شاعرنے اس دور کی کرب ناک صورتِ حال کی عکاسی بہت دل خراش انداز میں کی ہے۔وہ قاری کو بھی اپنے ساتھ ماضی کے غم میں مبتلا کردیتا ہے اور وہی حالات واقعات قاری کی نظروں کے سامنے رو نما ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔یادِماضی نے شاعر کے غم کو جلابخشی ہے۔اْن کے پاس چند یادوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔وہ زندگی میں اذیتوں کے عادی ہوچکے ہیں۔کلیم رحمانی اس حوالے سے کہتے ہیں:
’’اْن کی بے قراری زندگی کی سنگلاخیوں کا خوگر ہونے لگی۔اب اْن کی شاعری اْن لفظیات،امیجری،تراکیب اور پیچ وخم سے آشنا ہوئی جن سے میر،شاد عظیم آبادی ،آصغرگونڈوی،جگرمرادآبادی،فراق،منیر نیازی قتیل شفائی،حمایت علی شاعر،جمیل مظہری، وفابراہی، اختر شیرانی مجازلکھنوی،فیض احمدفیض،ناصرکاظمی،دیگرحضرات آشناتھے۔اس موڑ پرشاعرصدیقی کے لہجے میں درد،ہجر،فراق،اوریادماضی،کی داستانیں آگئیں ہیں۔پھر بھی دل کشی باقی رہی۔‘‘(۵۳)
ماضی سے وابستہ شاعر کی کچھ یادیں ایسی بھی ہیں جن کو وہ کسی حال پر بھی کھونا نہیں چاہتے۔جن کے سہارے وہ جیتے ہیں۔جن سے شاعر نے اپنے ذہن کو تابندہ رکھا ہے:
ہاں مگر ذہن میں تابندہ رکھا ہے میں نے
روج افروز تری یاد کا ہر نقش حسین
یاد قصداً بھی کیا میں نے کہ اندیشہ تھا
وقت کی گرد میں یہ نقش نہ کھوجائے کہیں
اورآنکھوں میں بسارکھی ہے تصوری تری
وہ کنول نین وہ نینوں کا رسیلا کا جل
میری قسمت کی طرح میری شب غم کی طرح
وہ سیہ زلف وہ زلفوں کا گھنیرا بادل
یاد مٹ جائے گی احساس اگر مٹ جائے
یاداحساس کے پیکر سے جدا کچھ بھی نہیں
اور احساس کی قندیل اگر بجھ جائے
زندگی صرف اندھیروں کے سوا کچھ بھی نہیں
(۵۴)
شاعرؔ کامحبوب جب سرمگیں اور دل نشیں آنکھوں سے مسکراتا ہے تو اس کے ذہن میں ماضی کی تصویریں رقص کرنے لگتی ہیں:
اْٹھی میری طرف لجائی ہوئی
خواب آلودہ سرمگیں آنکھیں
نشہ آگئی ہے کائنات تمام
مسکراتی ہیں دل نشیں آنکھیں
ذہن میں پردۂ سیمیں کی طرح
کتنی تصویریں رقص کرتی ہیں
(۵۵)
نظم میں شاعرکے ماضی کی یادوں کو نہایت دل نشین انداز میں بیان کرتے ہوئے بے خواب ستاروں اور خاموش نظاروں سے اپنے ماضی کے بارے میں کچھ یوں پوچھتے ہیں :
پیتل کے درختوں کے سائے اور چاند کی وہ شیتل کرنیں
وہ چاندنی راتیں اب ہیں کہاں جب خواب نہ تھا ان آنکھوں میں
جب دل میں کروٹ لیتی تھیں جذبات کی بے پایاں لہریں
خاموش ہو کیوں اتنا تو کہو وہ جان محبت اب ہے کہاں
وہ غنچہ دہن وہ سیم بدن وہ منبع نکہت اب ہے کہاں
سپنوں کا مرے وہ تاج محل،وہ خواب کی جنت اب ہے کہاں
خاموش نظارو کچھ تو کہو
بے خواب ستارو کچھ تو کہو
(۵۶)
ماضی سے گہری وابستگی نے شاعر کے کلام کی رنگینوں میں اضافہ کیا ہے۔جس سے سوز وگداز اور تڑپادینے والی کیفیت نے اْن کے ہاں جنم لیا ہے۔مندرجہ بالا مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ شاعرؔنے لطیف اور نرم لہجے سے ماضی کو یاد کیا ہے۔اْن کے ہاں ایک ایسی کیفیت پیدا ہوگئی ہے جو قاری کو بھی اپنے غموں میں گھیر لیتا ہے۔شاعر ؔنے اپنی نظموں میںنرم اور نازک اندازسے دل میں اْترجانے والے مضامین کو بیان کیے ہیں۔
سیاسی شعور
شاعر کے افکارکی جڑیںاْس سماج سے پیوست ہوتی ہیں جس میں وہ گزربسر کررہا ہوتا ہے۔ کوئی شاعر گہرے احساس کے بنا اپنی شعر میں جان نہیں ڈال سکتا ہے۔سماج سے جڑی شاعری میں زندہ رہنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔اگر کوئی شاعر،ادیب ذات کے خول میں مقید رہے تو وہ کسی صورت شاعری میں عظمت پیدا کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔شاعرؔکی نظموں میں بھی ایک جیتا جاگتا سیاسی شعور موجود ہے۔جس کا اندازہ اْن کے ابتدائی اور آخری دور کے کلام سے لگا یا جاسکتا ہے۔خواجہ ریاض الدین عطشؔ لکھتے ہیں:
’’جب ہم شاعرؔصدیقی کی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں اور پہلی نظرمیں جو جہتیں سامنے آتی ہیں ان سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر نے اپنے ہی خیالاتِ زندگی کے تاثر اور وارداتِ قلبی کے ہاتھوں اپنے مشاہدات اور زندگی کے تجربوں کے دائرے میں رہتے ہوئے خارجی یا داخلی جذبوں کا احساس اور ادراک کیا ہے اور اسی راستے پر چل کر حیات وکائنات کی موہوم حدوں کو چھونے کی کوشش کی ہے۔ان کی شاعری روایتی ڈگرپر گامزن تو ہے لیکن پروگریسو سوچ اور رجحان رکھتی ہے اس لیے یہ پرانے اقدار اور نئی فکر کے سائے سائے چلتی ہے‘‘(۵۷)
شاعر کے ہاں اپنے عہد کی بھر پور ترجمانی ملتی ہے۔گرد وپیش میں رونمانے ہونے والے واقعات کو شاعر نے شاعری کے پہلو میں مقید کردیے ہیں۔شاعرکی ایک نظم سے چند اشعار دیکھیے جن میں اُنھوں نے وطن کے سیاست دانوں سے قوم کے لہوکا حساب مانگا ہے جو اْن کی سیاسی آگہی پر دلالت کرتے ہیں:
خموش یوں ہو یہ موقع نہیں خموشی کا
ہمارے رہنماؤ ہمیں جواب تو دو
جو بہہ رہا ہے ابھی تک جو بہہ گیا اب تک
ہمارے محسنو !اس خون کا جواب تو دو
(۵۸)
نظم ’’تیسری دنیا کا سورج‘‘جو شاعرنے 22جون 1971کے اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد پر لکھی تھی اس سیچند اشعار بطور نمونہ دیکھیے:
رومیؔ و حالیؔ کے دل کا سوز کام آہی گیا
منکشف ہونے لگے ہیں آج اسرارِ خود ی
شاعرؔ مشرق نے جو دیکھا تھااک خوابِ حسیں
آگئی اس خواب کی تعبیر ملنے کی گھڑی
تیسری دنیا کا سورج لے رہا ہے کروٹیں
تیز تر ہونے لگیں ہیں صبحِ نو کی آہٹیں
(۵۹)
کلام کے فکری گوشوں میں سیاسی آگہی اْن کی ذہنی زرخیزی کا ثبوت بہم پہنچاتی۔زندگی کے دیگر معاملات اور معمولات کے علاوہ شاعرؔ کی نظریں اپنے عہد کی سیاست پر بھی گہری رہی ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعرنے اپنے کلام میں زندگی کے ہراُس پہلو کو اُجاگر کیا ہے جس کاتعلق سماج سے ہے۔
شاعرؔصدیقی ایک ہنرمند نظم گو شاعرہیں۔دیگر شعری اصناف کی بہ نسبت اْن کی نظموں میں فکرو تخیل کی بلند پروازی زیادہ نمایاں ہے کیوں کہ یہ نظمیں اْس وقت کی تخلیق کردہ ہیں جب شاعرؔکی سوچ اور فکر میں پختگی اور توانائی پوری آب وتاب کے ساتھ نمو پارہی تھی۔ان میں سانحہ مشرقی پاکستان کا دْکھ درد،غم وغصہ اور آہ وفغاں بھی موجود ہیںاور انسانی زندگی سے وابستگی رکھنے والے بہت سے مسائل کے تذکرے بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔اْنہوں نے تلخ وشیریںتجربات،نازک احساسات، اور عمیق مشاہدات کو بے حد سلیقے سے پیش کرکے خود کو ایک ہنرمند اور کامل نظم گو شاعر ثابت کیا ہے۔وہ اپنے مافی الضمیر کو جیسا چاہتے ہیں اسی طرح بیان کرنے پر کامل عبور رکھتے ہیں۔
شاعرؔصدیقی کی نظموں میں فکر کی گہرائی کا اصل سبب یہ ہے کہ اْنہوں نے اپنی ذات کے دائرے سے نکل کراْن مضامین کو زیر شعر لائے ہیں جن کی جڑیں کسی نہ کسی صورت میںسماج سے پیوست ہوتی ہیں۔ ان نظموںمیں شاعر کی داخلی کیفیات ملت،سماج، سیاست، اتحاد،آمن اور آشتی نے جگہ لے لی ہے۔وہ نئے نئے مضامین کو تلاش کرتے ہیں اورہر ایک مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کے ہنر سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔وہ ہر موضوع پر علمی گرفت رکھتے ہیں۔اس لیے ہر شعر میں اْن کی تخلیقی توانائی پوری طرح سے جلوہ تاب ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭

حوالہ جات
۱۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،اگست ۲۰۱۹ء ،ص۳۹۷
۲۔ایضاً،ص۴۹۷
۳۔ رنگ ادب،شاعرؔصدیقی نمبر،مشمولہ،انورفرہاد،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،جولائی تاستمبر۲۰۰۶، ص۹۳
۴۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،اگست ۲۰۱۹ئ،ص۴۶۵
۵۔ایضاً،ص۴۵۶ ۶۔ایضاً،ص۴۵۶ ۷۔ایضاً،ص۴۶۰
۸۔ایضاً،ص۴۶۱ ۹۔ایضاً،ص۵۳ ۱۰۔ایضاً،ص۳۹۷
۱۱۔ایضاً،ص۴۱۶ ۱۲۔ایضاً،ص۴۶۶ ۱۳۔ایضاً،ص۳۹۶
۱۴۔شاعرؔصدیقی،بجھتے سورج نے کہا،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۰۹ء ص۱۷
۱۵۔ رنگ ادب،شاعرؔصدیقی نمبر،جولائی تاستمبر۲۰۰۶ء ،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،ص۱۰۸
۱۶۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،اگست ۲۰۱۹،ص۳۲۴
۱۷۔ایضاً،ص۴۲۵ ۱۸۔ایضاً،ص۴۲۵ ۱۹۔ایضاً،ص۵۲۴
۲۰۔ایضاً،ص۳۹۰ ۲۱۔ایضاً،ص۳۹۱ ۲۲۔ایضاً،ص۴۰۰
۲۳۔شبیرناقدؔ،نقد فن،گرافکس میڈیا پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۱ئ، ص۲۰۱
۲۴۔شاعرؔصدیقی،جگر لخت لخت،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،ص۱۱۵
۲۵۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،اگست ۲۰۱۹ئ،ص۴۱۹
۲۶۔ایضاً،ص۴۲۴ ۲۷۔ایضاً،ص۴۲۴
۲۸۔ایضاً،ص۴۲۴ ۲۹۔ایضاً،ص۳۹۷
۳۰۔شاعرؔصدیقی،سندبن میں آگ،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۶ء ص۳۴۲
۳۱۔شاعرؔصدیقی،جگر لخت لخت،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،ص۱۱۷
۳۲۔محمدخاں،اشرفؔ،ڈاکٹر،رومانیت،سنگ میل پبلی کشینز لاہور،۲۰۲۱ئ،ص۴۱
۳۳۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،اگست ۲۰۱۹ء ،ص۵۱۲
۳۴۔شاعرؔصدیقی،بجھتے سورج نے کہا،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،ص۷۱
۳۵۔رنگ ادب،شاعرؔصدیقی نمبر،مشمولہ،انورفرہاد،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،جولائی تاستمبر۲۰۰۶ ، ص۳۸
۳۶۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،اگست ۲۰۱۹ء ،ص۶۷۸
۳۷۔ایضاً،ص۴۳۸ ۳۸۔ایضاً،ص۴۳۸
۳۹۔ایضاً،ص۴۴۰ ۴۰۔ایضاً،ص۴۴۰
۴۱۔ایضاً،ص۴۴۰
۴۲۔سلیم،اختر،ڈاکٹر،اْردو ادب کی مختصرترین تاریخ،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور۲۰۱۳،ص۱۷۶
۴۳۔شاعرؔصدیقی،آنکھوں میں سمندر،پرنٹ میڈیا پبلی کیشنز،اسلام آباد،۲۰۰۴ئ،ص۳۱
۴۴۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،اگست ۲۰۱۹ء ،ص۳۳
۴۵۔ایضاً،ص۳۳۲ ۴۶۔ایضاً،ص۴۲۴
۴۷۔ایضاً،ص۴۳۵ ۴۸۔ایضاً،ص۴۳۵
۴۹۔شاعرؔصدیقی،آنکھوں میں سمندر،پرنٹ میڈیا پبلی کیشنز،اسلام آباد،۲۰۰۴ئ،ص۱۹
۵۰۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،اگست ۲۰۱۹ء ،ص۴۱۶
۵۱۔ایضاً،ص۴۱۷ ۵۲۔ایضاً،ص۴۶۳
۵۳۔سہ ماہی،رنگ ادب،شاعرؔصدیقی نمبر،جولائی تا ستمبر،ص۸۷
۵۴۔شاعرؔصدیقی۔کلیات شاعرصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی،اگست ۲۰۱۹ء ،ص۴۷۷
۵۵۔ایضاً،ص،۴۸۱ ۵۶۔ایضاً،ص۴۸۹
۵۷۔ایضاً،ص۱۰۷ ۵۸۔ایضاً،ص۴۴۱
۵۹۔ایضاً،ص۴۳۹
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...