Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > شاعر صدیقی کی فکری جہتیں > شاعر صدیقی کی متفرق شاعری

شاعر صدیقی کی فکری جہتیں |
حسنِ ادب
شاعر صدیقی کی فکری جہتیں

شاعر صدیقی کی متفرق شاعری
ARI Id

1689956774273_56117784

Access

Open/Free Access

Pages

۱۱۳

شاعرؔ صدیقی کی متفرق شاعری
حمد
یہ شعری ادب کی وہ صنفِ سخن ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی جائے ۔عطاء الرحمٰن نوری اپنی کتاب ’’اْردو اصناف ادب‘‘ میں حمد کی تعریف کرتے ہوئییوں لکھتیہیں:
’’حمد ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی ’’تعریف‘‘ کے ہے۔اللہ کی تعریف میں کہی جانے والی نظم کو’’حمد‘‘کہتے ہیں‘‘(۱)
اردو کی دیگر اصنافِ سخن میں حمد کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ حمد کا تعلق چوں کہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی ذاتِ گرامی سے ہے اس لیے اردو زبان کے شعرا نے حمد کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اردو کے دیگر شعرا کی طرح شاعرؔ صدیقی نے بھی حمدیہ شاعری کی ہے۔ اُن کی حمدیہ شاعری اْن کی مذہبی عقیدت مندی اورجذبات کی عکاسی کرتی ہے۔اگر چہ اْن کا حمدیہ کلام اتنا زیادہ نہیں ہے تاہم جوبھی ہے وہ معیار کے لحاظ اپنی مثال آپ ہے۔شاعرؔنے خالق حقیقی کی ثنا وتوصیف بیان کرنے میں ہنر مندی کے ساتھ ساتھ اپنے عجز اور انکساری کا مظاہر ہ بھی کیا ہے۔شاعرؔکے حمدیہ اشعار خالق کائنات پرکامل یقین واعتماد کے مظہر ہیں۔ اْنہوں نے بڑی عقیدت مندی کیساتھ اپنے رب کی تعریف وتوصیف بیان کی ہے۔اللہ سے بے پناہ محبت وعقیدت کی یہ جھلک محض نظموں تک محدود نہیں بلکہ دیگر اصنافِ سخن یعنی قطعہ ،باعی،اور دوہے میں بھی پوری شان کے ساتھ نمایاںہے۔حمد لکھنے کے لیے جو علمیت اور مطالعہ اسلام درکا ہوتا ہے شاعرؔصدیقی اس سے خوب بہرور ہے۔
مناجات
کلیات کے آغازمیں مناجات شامل ہیں جس میں شاعرؔنے اللہ سے دل کی وسعت اور فکر کی گہرائی مانگنے کے ساتھ ایسی بینائی مانگنے کی دْعا کی ہے جو اللہ کے جلوؤں کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہو:
دل میں وسعت دے میرے فکرکو گہرائی دے
ساتھ جو دے تیرے جلووں کا وہ بینائی دے
میری تقدیر میں رسوائی اگر لکھ دی ہے
پھر مجھے اپنی محبت میں ہی رسوائی دے
یورشِ غم سے ہوا ہے میرا جینا دوبھر
دے مجھے حوصلۂ صبر و شکیبائی دے
میں بدلتے ہوئے حالات کے تیور دیکھو
آگہی دے مجھے ایسی مجھے دانائی دے
(۲)
اس مناجات کے آخر میں شاعرنے اللہ سے فریاد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانیت کی توہین مجھ پر گراں ہوگئی ہے۔مجھے جرأت گویائی دے تاکہ میں اس کے خلاف آواز اْٹھا سکوں کیوں کہ بحیثیت شاعر حق کی تلقین کرنا میرا فریضہ ہے۔شاعرؔنے اللہ سے اپنے اشعار میں احساس کی سچائی مانگتے ہوئے کچھ یوں لکھا ہے:
آدمیت کی میں توہین کہاں تک دیکھوں
یا زباں چھین لے یا جرأتِ گویائی دے
میں کہ شاعر ہوں میرا کام ہے حق کی تلقین
میرے اشعار میں احساس کی سچائی دے
(۳)
عظمت الٰہی
حمد کا اصل وصف یہ ہے کہ اس میں شاعر خود کوکمزور،بے بس اورلاچار دکھاتاہے جبکہ اللہ کی عظمت ،شان وشوکت اور بڑائی کا اعتراف کرتا ہے۔ شاعرؔصدیقی کی حمدیہ شاعری میں بھی یہ رنگ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔شاعرؔبیان کرتے ہیں کہ اے اللہ تیری ثنا کو بیان کرنا ہماری بس کی بات نہیں ہے اور نہ یہ حق ہم پوری طور پر ادا کرسکتے ہیں۔کیوں کہ تو واحد لاشریک اور بے مثال ذات ہے:
تیری ثنا کا حق بھی کیا ادا کرے
واحد ہے ، شریک ہے، تو بے مثال ہے
قائل ہوا ہوں عشق کا دریا دلی کا میں
دل میرا آج بحرِ غمِ لازوال ہے
(۴)
شاعرؔکا عقیدہ ہے کہ انسان کائنات میں سب سے افضل ہے۔کیوں کہ انسان ذات باری تعالیٰ کی ذات کا عکس جمال ہے:
افضل ہے کائنات میں شاید اسی لیے
انسان تیری ذات کا عکس جمال ہے
(۵)
اللہ تعالی کی ذات کے علاوہ کائنات میں تمام مخلوقات کے لیے کوئی اورسہارا نہیںہے۔ اگر مشکلات کو حل کرنے والا،عزت،ذلت اورنور ہدایت سے بہرہ ور کرنے والی صرف اللہ ہی کی ذات گرامی ہے تو پھر انسان کس بات پر غرور کرتا ہے۔ شاعرؔ نے ایک نظم میں کہا ہے کہ اے اللہ جنہیں تو نے طاقت دی ہے انھیں نور ہدایت سے بھی بہرہ ور فرما:
تیرادر چھوڑ کر جائیں کہاں مشکل کشا تو ہے
نہیں جس کا کوئی دنیا میں اْس کا آسرا توہے
جسے چاہے تو عزت دے جسے چاہے تو ذلت دے
مگرطاقت جنہیں دی ہے اْنہیں نورِ ہدایت دے
لیے پھرتے ہیں سر میں غرور و کبر کا سودا
عجب کیا ہے کہ کر بیٹھیں کبھی دعویٰ خدائی کا
انھیں توفق دے یارب کہ سمجھیں کبریا تو ہے
(۶)
شاعرؔصدیقی نے شعر میں خیال وفکر کو ترجیح دی ہے۔اُن کے حمدیہ اشعار اْن کے صوفیانہ طرز فکر ،مذہبی عقیدت مندی اور عشق الٰہی کے عکاس ہے۔انہوں نے حمد میں مختلف موضوعات کو بروئے کار لاتے ہوئے باری تعالیٰ کو عبادت اور مدد کی واحد ہستی گردانا ہے۔اللہ کی شان کریمی اور اور رحیمی پر کامل یقین رکھتے ہوئے بارگاہ الٰہی میں اپنے گناہوں کی بخشش کی استدعا کی ہے۔ایک حمد میںشاعرؔصدیقی قوم کی انفرادی اوراجتماعی حالت زار کو بہتر اور خوشگوار بنانے کے لیے یوں بارگاہِ حق تعالیٰ میں دعا مانگتے ہیں:
کرم کا وقت ہے یارب غریبوں کا خدا تو ہے
ترا در چھوڑ کر جائیں کہاں مشکل کشا تو ہے
(۷)
نعت
نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی صفت وثنا اور تعریف وتوصیف کے ہیں۔اصطلاحاً نعت اس نظم کو کہا جاتا ہے جس میں ذات حضور نبی کریم ﷺ کی صفات بیان کی جائیں۔نعت میں آپﷺکی حیات مبارکہ، اخلاق حسنہ،سیرت و کردار کے تذکرے ہوتے ہیں۔ماہرینِادب نے اپنے اپنے اندازکے موافق نعت کی تعریف کی ہے۔رفیع الدین ہاشمی کے بقول:
’’نعت وہ صنف نظم ہے جس میں رسول پاکﷺکی ذات،صفات، اخلاق اور شخصی حالات کا بیان ہوتاہے اور آپﷺ کی ہمہ پہلو مدح کی جاتی ہے‘‘(۸)
نعت کی تعریف کرتے ہوئے شہزاد احمد کچھ یوں لکھتے ہیں:
’’نعت(ن ع ت)عربی زبان کا معروف سہ حرفی لفظ ہے۔ جس کی لغوی معنی تعریف وتوصیف بیان کرنے کے ہیں۔نعت عربی کا اسم اور مؤنث ہے۔عرف عام منظوم کلام کے علاوہ نثر میں بھی مستعمل ہے۔ یعنی لفظ نعت کا اطلاق نظم ونثر دونوں میں مروج ہے‘‘(۹)
شاعرؔصدیقی اگردیگر اصناف سخن کی طرح نعت کی طرف زیادہ توجہ دیتے تو یقیناً وہ اْردو نعت کے ممتاز شعر اکے صف میں جگہ پاسکتے تھے کیوں کہ اْنھوں نے جس صنف سخن پر بھی طبع آزمائی کی ہے اْس میں اپنی ہنرمندی کا لوہا منوایا ہے۔ اْن کی نعتیہ شاعری کے محدود سرمایے نے اتنی شہر حاصل کی ہے کہ بعض نعتیں آج تک محافل نعت کی تزئین بنی ہوئی ہیں اوربڑی عقیدت سے پڑھی اور سنائی جاتی ہیں۔اس حوالے سے شاعرعلی شاعرؔیوںرقم طراز ہیں:
’’شاعرؔصدیقی نے جس جس صنف ادب میں اپنے تخلیقی جوہر دکھائے ہیں،اْس اْس صنف ِ سخن کو ناقدین نے اْنہیں اپنانے کا مشورہ ضرور دیا ہے‘‘(۱۰)
حبِ رسولﷺ
ترقی پسند شعرا اور ادیبوں کو ہمیشہ اس الزام کے مرتکب سمجھے گئے ہیں کہ وہ مذہب سے دور ہیں لیکن شاعرؔصدیقی اس سے مستثنیٰ ہے کیوں کہ ایک ترقی پسند ذہن رکھنے کے باجودوہ نعت کی سعادت حاصل کیے بغیر نہیں رہ سکے جوحضورﷺ سے اْن کی بے لوث عشق ومحبت کی واضح ثبوت بہم پہنچاتی ہے۔احمد رشدی کی آواز میں اْن کی مشہور زمانہ نعت سے چند اشعار دیکھئے جو نعتیہ شاعری کے میدان میں اْن کی پہچان بنی :
مدینے والے پر میر اسلام کہہ دینا
تڑپ رہا ہے تمھارا غلام کہہ دینا
مدینے سے گزر جب ہو صبا صلِّ علیٰ پڑھ کر
ادب سے روضہ اقدس کو اْن کے چومنا بڑھ کر
میں خادم ہوں شہِ دیں کا مجھے دنیا سے کیا مطلب
اْن ہی کے جلوے رہتے ہیں میری آنکھوں میں روز شب
(۱۱)
شاعرؔصدیقی جب عمرے پرگئے تو اْنھوں وہ گلیاں اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھی جنہوں نے حضور کے قدم مبارک چھومے تھے اْنھوں نے وہ زمین دیکھی جہاں شب وروز حضورﷺ کے فیض سے رحمتیں برستی ہیں۔شاعرؔ کے کلام میں حضور کے ساتھ عشق ومحبت کا رنگ بہت گہرا نظر آتا ہے:
نظر میں شہر مدینہ بسا کے لایا ہوں
میں آج نور کے سانچے میں ڈھل کے آیا ہوں
میرا نصیب کہ مکہ بھی اور مدینہ بھی
میں اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں
وہ سرزمیں کہ جہاں رحمتیں برستی ہیں
گل مراد سے دامن کو بھر کے لاہا ہوں
جمال روضۂ اقدس کی بات کیا کیجئے
سرور و کیف کی دنیا سمیٹ لایا ہوں
بتاؤ کیا تمھیں شاعرؔ حضور سے اپنے
جو بات دل میں تھی وہ بات کہہ کے آیا ہوں
(۱۲)
شاعرؔصدیقی کے نعتیہ اشعار میں حضور سے اْن کی بے پنا ہ پیار ٹھاٹھیں مارتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔گلزار مدینہ اْن کے لیے اس نسبت سے دنیا ومافیہا سے افضل وبہتر ہے کہ وہاں روضۂ اقدس واقع ہے۔روئے زمین کے اْس خطے کو اْنھوں نے جنت پر بھی فوقیت دی ہے۔وہ جب روضہ اقدس کو دیکھتے ہیں تو ایک جشن چراغاہوتا ہے اور پلکوں پر دیے جلنے لگتے ہیں:
آنکھوں کے مقابل ہوتی ہے جب روضہ اقدس کی جالی
ایک جشن چراغاں ہوتا ہے پلکوں پہ دیے جب جلتے ہیں
گلزار مدینے کو شاعر ہم جنت ارضی کیوں نہ کہیں
دن رات برستی ہے رحمت خوش رنگ نظارے پلتے ہیں
(۱۳)
شاعرؔحضورﷺ کی فیض وعظمت بیان کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:
جس پہ لطف کرم سید والا ہو جائے
زندگی اْس کی حریف غم دنیا ہو جائے
دستگیری جو کریں آپﷺ ہمارے آقاؐ
بحرِ ظلمات کا منجدھار کنارا ہو جائے
میرا ویرانہ دل شہر مدینہ ہوجا ئے
آپ ﷺ اگر سامنے ہوں آپ ؐٔؐکے جلوؤں کی قسم
میں نہ دیکھوں درِجنت بھی اگر وا جا ئے
میرے آقاؐ کی اگر مجھ پہ نظر ہوں شاعرؔ
رشک خورشید مقدر کا ستارا ہو جائے
(۱۴)
شاعرؔصدیقی کی نعتیہ شاعری میں خیال بندی کے ساتھ معنی آفرینی کا عنصر بھی غالب نظر آتاہے۔اْنھوں نے دوسرے نعت گو شعرا کی طرح حضور سے اپنی داخلی جذبات کو کافی ہنرمندی کے ساتھ قلم بند کر نے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔شاعرؔکی نعت کے جذباتی پہلو میں حضورﷺ سے اپنے والہٰانہ عشق ومحبت کی طرف بھر پور توجہ مرکوزکی ہے۔سردار دوجہاں سے اس والہا نہ عقیدت کے ساتھ ساتھ انھوں نے روضہ اقدس کے دیدارکا اشتیاق بھی ظاہر کیا ہے۔ایک شعر میں وہ اس والہانہ عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
مدینے جب گیا تھا میں عجب سی دل کی حالت تھی
مِرے آقا کے روضے پہ بکھر جانے کو جی چاہا
(۱۵)
الغرض پیغمبر اسلامﷺ اور سرورکائنات کا پیار اور بے لوث محبت اْن کی مذہبی عقیدت مندی اور دین اسلام سے گہری وابستگی کا مظہر ہے۔
فضائل رسولﷺ
شاعرؔحضورﷺ کی ذات ِرحمت سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں اوراْن کی آنکھیں شہر انوار (مدینہ)کو دیکھنے کے لیے ہر لمحہ ترستی ہیں۔وہ اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپﷺ کی ذات چراغ ضوفشاں ہے جس کی آمدکی وجہ سے کون و مکاں روشن ہوگئیاورکائنات کی تخلیق ہو گئی:
آپﷺ سے روشن ہوئے کون ومکاں
’’آپﷺ کی ہستی چراغِ ضوفشاں‘‘
آپﷺ ہی کے فیض سے جاری ہوا
رحمتوں کا ایک بحرِ بیکراں
آپﷺ ہی رحمت اللعالمین
دو جہاں میں آپ کا ثانی نہیں
(۱۶)
شاعرؔصدیقی کا کہنا ہے کہ حضورﷺ کی ذات مبارک رحمتوں کا ایک ایسا دریا ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں،حضورﷺ کا کائنات میں کوئی ثانی نہیں کیوں کہ وہ دونوں جہانوں کے لیے رحمت وشفقت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔آپﷺ کی رحمت وشفقت کی ضوفشانی نے دنیا کے ہر کونے کو منور کیا ہے۔
خصائل رسولﷺ
شاعرؔنے حضورﷺکی خصوصیا ت بہت احسنطریقے سے بیان کی ہیں۔وہ حضورﷺکی خوبیاں بیان کرتے ہوئے کچھ یوں اظہار کرتے ہیں:
آپ کا ہر قول فرمانِ خدا
آپ کی باتیں گلستاں بوستاں
آپﷺ کا ادنیٰ سا یہ اعجاز ہے
بول اْٹھے سنگ ریزے بے زباں
معجزہ معراج کی شب یہ ہوا
ہوگئے ساکت زمیں و آسماں
(۱۷)
شاعر نے آپﷺ کوبراہ راست مخاطب کرتے ہوئے معجزات کا تذکرہ کیا ہے کہ آپ کا ادنی سا اعجاز یہ ہے کہ بے زباں سنگ ریزوں کی زبان پر بھی کلمہ توحید جاری ہوگیا ہے۔اور جب آپ شب معراج پر تشریف لے جارہے تھے تو یہ اتنا عظیم معجزہ تھا کہ زمین وآسماں یعنی تمام کا ئنا ت پر سکتہ طاری ہوگیا تھا۔
دوہے
اْردو میں دوہا دیگرا صناف کی طرح ہندی زبان سے ماخوذہیجو بنیادی طور ہندی صنف ہے۔ آزادی کے بعد دوہے نے بہت ترقی کی ۔ اردو ادب میں الیاس عشقی،جمیل الدین عالی،ڈاکٹر طاہر سعید ہارون ، تاج قائم خانی ، ڈاکٹر جمیل ، محسنِ اعظم ،محسن ملیح آبادی اور شاعرؔ صدیقی جیسے شعرا صنف دوہے کے حوالے سے قابل ذکر ہیں۔ شاعرؔصدیقی کے دوہے اگرچہ تعداد میں زیادہ نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود یہ فن اور فکر کے اعتبارسے اپنی مثال آپ ہیں۔شاعرؔصدیقی کے دوہے رومانی،تہذیبی ،معاشرتی اور اخلاقی مضامین پر مشتمل ہیں۔
رومانیت
شاعرؔصدیقی بنیادی طور پر ایک رومانوی شاعر ہے ۔اگر رومانوی تناظر میں اُن کی شاعری کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے تو ان کی کہی ہوئی غزلوں،نظموں،گیتوں،دوہوں،قطعات اور رباعیات میں بھی یہ جذبہ پورے شباب کے ساتھ نظر آتاہے۔ان کے بیشتر اشعار میں رومانیت کی ٹھان دیکھی جاسکتی ہے۔ انہوں نے اپنے جذبات کا بے باکی سے اظہار کیا ہے۔خواہ وہ داخلی ہو یاخارجی دونوں حوالوں سے انہوں نے دل کی بات کو شعر کے پردے میں ڈال کرحق گوئی اور بے باکی کا ثبوت بہم پہنچائی ہے۔ ان کے ہاں رومانیت کے غالب رجحا ن کے حوالے سے شاعرؔ کے رومانوی رویے کی دووجوہات سامنے آتی ہیں ایک تو یہ کہ شاعرؔصدیقی براہ راست رومانوی اورترقی پسند تحریک سے متاثر نظر آتے ہیں کیوں کہ ان کے اکثریت اشعار ایسے ہیں جن کے مطالعے سے لگتا ہے کہ شاعرؔصدیقی ترقی پسند تحریک کے زیر اثر میدان میں اْترنے والے شخص ہے۔ دوسری بات ان کا فلمی ماحول سے وابستگی کی ہے جس کی وجہ سے ان کے رمانوی طرزفکر کو نشوونما حاصل ہوئی ہے۔اور اُن کی پوری شاعری میں ایک رومانوی فضاقائم ہوئی ہے۔یہ وہ دور تھا جب ڈھاکا فلم انڈسٹری میں روایتی اور رمانوی فلمیں بنتی تھیں۔عارف منصور لکھتے ہیں:
’’وہ اس ماحول سے کیسے فرار حاصل کرسکتا تھا۔نتیجتاً اس کی شاعری کی پوری فضا رومانوی انداز فکر میں ڈوبی ہوئی ہے۔ لیکن خصوصیت یہ ہے کہ اْن کے استفسار میں فلمی فضا بہت کم ہے،(۱۸)
شاعرؔ صدیقی نے اپنے دوہے میں رومانوی مضامین کوبہت خوب صورتی سے نظم کیا ہے۔جب وہ محبوب کی خوبصورتی کی منظر کشی کرتے ہیں تو کمال کرتے ہیں۔ شاعرؔصدیقی کو محبوب کے رسیلے ہونٹ اور شرابی نین سپنوں میں یاد آتے ہیں جو اس کا چین اور سکھ حرام کرتے ہیں۔محبوب کی متوالی آنکھوں کو جب وہ دیکھتا ہے تو وہ جیون کے تمام دکھ بھول جاتے ہیں۔اس کے سانولی رنگت اور سوہنا مکھڑے سے ان پر قیامت بپا ہوتی ہے۔اس ضمن میں شاعرصدیقی کے دوہے قابل دید ہے:
سپنوں میں آآکے میرے چھین گئے سکھ چین
اْف وہ رسیلے ہونٹ کسی کے اْف وہ شرابی نین
(۱۹)
متوالے نینوں میں کجرا اور جوڑے میں پھول
دیکھ کے تم کو دکھ جیون کے آج گئے ہم بھول
(۲۰)
بان چلایا کس نے من پر یہ نہ پوچھو ہائے
سانولی رنگت،سوہنا مکھڑا،دل پہ قیامت ڈھائے
(۲۱)
اپنی رومانوی فکراور جذبے کی بنا پر وہ اپنے محبوب کے حسن کی تعریف بہت دل کش اورشگفتہ طریقے سے کرتے ہیں۔محبوب کی مدماتی آنکھوں پر کاجل کی لکیر اْن کے دل پر کٹار کی طرح لگتی ہے:
ایک تو یہ مدماتی آنکھیاں پھر کجرے کی دھار
جب جب تجھ کو دیکھوں میرے من میں لگے کٹار
(۲۲)
سجنی اب تک یاد ہیں مجھ کو تیرے میٹھے بول
من کی گرہ پھر کھول مرے کانوں میں پھر رس گھول
(۲۳)
کلام میں رومانوی فضا قائم کرنے کی وجہ سے ان کے ہاں ایسی دلکشی پیدا ہوگئی ہے کہ قاری شعر کوایک دفعہ پڑھ لیں تو باربار پڑھنے کے لیے جی مائل ہوجاتاہے کیوں کہ ان کے ہاں جو جذبہ پروان چڑھا ہے وہ انسانی روح کو چو لے لینے والا ہے۔
اخلاقیات
ہر شاعر کا کردار اور شخصیت اس کی شاعری کے آئینے میں جھلکتی نظرآتی ہے۔شاعرؔصدیقی ایک بااخلاق اور صاحب کردارشخصیت کے مالک ہیں۔ شاعرؔکے کلام میں جواخلاقی درس ملتاہے وہ اُن کی شخصیت کے مثبت پہلو ؤں کی نمائندگی کرتاہے۔ان کی شخصیت کی تمام خوبیاں ان کی شاعری میں جلوہ گر ہیں۔اپنے داخلی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے وہ اخلاقی اقدار کو نظرانداز کرنے کا قائل نہیں ہے۔کیوں کہ وہ معاشرے میں خیر وفلاح کی فروغ کے خواہاں ہیں۔ان کے جذبوں میں ایک نفاست پائی جاتی ہے۔جذبات کی اس طہارت وشرافت نفسی نے ان کی شاعری کوایک اعلیٰ درجے پر فائز کی ہے۔وہ بھٹکتے ہوئے انسانیت کی اخلاقی اصلاح اور راہ راست پر لانے کی آرزو رکھتے ہیں۔شاعرؔصدیقی نے اپنے کلام کو ابتذال اورسوقیانہ فن سے بچانے کی بھرپور کوشش کی ہے جس میں وہ کامیاب بھی نظرآتے ہیں۔یوں تو انہوں نے غزل ،نظم ،گیت غرض ہرجگہ اپنے اخلاقی معیار کا خیال رکھا ہے۔اخلاقی تناظر میں اْن کے دوہے قابل دید ہیں جس سے شاعر کی اخلاقی رفعت کااندازہ بخوبی لگایاسکتاہے۔
وہ اپنے دوہے میںانسان کو درس دیتے ہوئے اظہار خیا ل کرتے ہیں کہ انسا ن کواپنی خودی کو پہچاننے اور اپنے خاکی جسم پر فخروغرور نہیں کرنی چاہیے۔شاعرؔ نے انسان کو اس کی بے بسی کا احساس دلایا ہے کہ تیرے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔کو ئی اگراس نظریے کے حامل ہے تو یہ اس کی بے وقوفی ہے۔کوئی اگر کانٹے بوئے گا تو اس کے راستے میں کانٹے ہی آئیں گے۔یہاں صرف نیکی کے لیے دوام ہے۔باقی سب چیزیں تن،من اور سنسار مٹی میں ملنے والی ہیں:
ماٹی آگ ہوا اور پانی کا سنگم انسان
کاہے اتنا مان کرے ہے اپنے کو پہچان
(۲۴)
تن ہے ماٹی ، من ہے ماٹی ماٹی ہے سنسار
ماٹی میں سب مل جائے گاکس سے کرے ہے پیار
(۲۵)
سب کچھ تیرے بس میں ہیں سن یہ ہے تیری بھول
پھول کہاں سے پائے گا تو بوئے اگر ببول
(۲۶)
سچائی ایک اخلاقی خوبی ہے جس کی تلقین کرتے ہوئے شاعرکہتے ہیں کہ سچ بات کہنا اور سچائی کا ساتھ دینا زہر کا پیالہ پینے کے مترادف ہے۔لیکن اس سچائی سے گھبرانا نہیں ہے ہر حال میں اس کی پاسداری رکھنی ہے۔اگر چہ یہ دنیا دکھ اوردرد کی نگری ہے اس کا سمجھانا کٹھن کام ہے۔
اس دھرتی کی ریت یہی ہے پھر کیسا گھبرانا
سچ کے زہر کا پیالہ پینا اور امر ہو جانا
(۲۷)
گھائل من کا پاگل پنچھی پگ پگ ٹھوکر کھائے
یہ نگری ہے دکھ کی نگری کون اسے سمجھائے
(۲۸)
لالچی ایک انسانی فطرت ہے جس کا ذکر شاعر نے جابجا کیا ہے۔انسان ہمیشہ دنیا حاصل کرنے کی تگ ودو میں رہتاہے۔شاعرکا خیال ہے کا دنیا کا مال واملاک کسی صورت بھی ساتھ دینے والے نہیں ہے جس طرح خالی ہاتھ تو آیا اسی طرح خالی ہاتھ تمہیں اس جہاں فانی سے کھوج کرنا ہے۔ان کی نظر میں دنیا کے مال متاع کی کو ئی وقعت نہیں ہے آج جو چیزمیری ہے وہ کل کسی اور کی ہوجائے گی:
دھن دولت کی بھیڑ لگا لے جائے گاکچھ نہ ساتھ
خالی ہاتھ ہی آیا تھا تو جائے گا خالی ہاتھ
(۲۹)
آج اگر یہ میرا تو کل ہوگا تیرا ڈیرا
نہ میرا نہ تیرا پیارے جگ ہے رین بسیرا
(۳۰)
سماجی مسائل
شاعریاادیب کسی نہ کسی صورت میں سماج سے وابستہ ہوتا ہے۔سماج کے اچھے یا بْرے اثرات اس کی تخلیقات پر براہ راست مرتب ہوتے ہیںکیوں کہ ادب زندگی کا عکاس ہوتا ہے۔ادب میں داخلی اور خارجی عناصر کا مآخذ سماج یا معاشرہ ہوتا ہے۔جس طرح انسان کا تعلق سماج سے ہے اسی طرح انسانی زندگی کسی خاص علاقے،یا شہر کے ماحول تک محدود نہیں ہوتی۔بلکہ سارے ملک اور باہر کی دنیا میں جو سیاسی اورسماجی تبدیلیاں جنم لیتی ہیں اْن تمام سے ضرور اثر قبول کرلیتی ہے۔
شاعرؔصدیقی کے دوہے کا ایک اہم ترین موضوع اْن کا سماجی شعور ہے۔سماجی شعور کے حوالے شاعرؔصدیقی کے دوہیمیں وسعت پائی جاتی ہے۔وہ معاشرے میں جنم لینے والے تمام جدید مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔اس حوالے سے پروفیسر اظہرقادری یوں رقم طراز ہیں:
’’ان کے یہاں ایسے اشعار کی کمی نہیں جو اس بات کا واضح پتہ دیتے ہیں کہ انہوں نے سماج کے جدیدمسائل اور فکر کے جدید گوشوں کو اپنی تخلیقی کاوشوں کی حصہ بنانے میں اپنی فہم وفراست سے اچھی طرح کام نہ لیا ہو‘‘(۳۱)
شاعرؔکے ہاں معاشرتی آگہی کی اصل وجہ یہ ہے کہ جس وقت اْن کی شعری تخلیق عروج پرتھی تو مشرقی پاکستان میں بربادی کے آثار نمودار ہوگئے تھے۔ایک طرف اگرمعاشرہ سیاسی انتشار کے شکنجے میں آگیا تھا، ہر جانب قتل وغارت گری کا میدان گرم تھاتودوسری طرف لوگ معاشرتی اور معاشی زوال سے دوچار تھے۔اس زمانے میں شاعر کی شاعری سقوط ڈھاکہ کے کرب ناک المیے پر ماتم کررہی ہے اور رومانیت کا غلبہ ان کے اشعار میں معدوم ہوجاتا ہے اور ان کے ہاں ظلم وجبر اور استحصالی رویوں کے خلاف شدید احتجاج نظرآتا ہے۔اسی طرح جب وہ ہجرت کرکے کراچی میں آکر قیام پزیر ہوتے ہیں تو یہاں کی سیاسی درماندگی اور سماجی پستی کی جھلک بھی نمایاںہے۔کراچی کی گلی کوچوں میں عام شہریوں کے ساتھ جوسلوک روارارکھا جاتا ہے۔جس طرح نامعلوم قاتلوں کے ہاتھوں مظلوموں کا خون بہتاہے۔شاعران سب دل سوز واقعات کااحساس رکھتے ہیں۔ان حالات پرشاعر ؔکا بیان دیکھئے:
اس نگری سے بھاگ مسافر اس نگری سے بھاگ
بستی بستی شیر چھپے ہیں گلی گلی میں ناگ
(۳۲)
جنگل میں انسان بسے ہیں اور شہروں میں شیر
یہ کیسا اندھیر ہے بابا یہ کیسا اندھیر
(۳۳)
شاعرؔنے ہمارے سماج کی ہیبت ناک تصویر دکھائی ہے ،جہاں کی گلیوں میں انسانوں کے روپ حیوانوں نے بسیرا ڈال دیا ہے۔جوچند پیسوں کے لیے انسانی زندگی کے دشمن بن جاتے ہیں۔شاعر نے ایسی خوفناگ گلیوں سے مسافروں کو نکل جانے کی تلقین کی ہے کیوں کہ انسانوں کی بستی نے ایک جنگل کا روپ دھار لیا ہے اور وہاں پہ خونخوار وں کا دور دورا ہے۔شاعرؔ مشرقی پاکستان میں گزرے ہوئے دنوں کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں:
تیرے دیس میں ہم پر بیتے ایسی بھی کچھ گھڑ یاں
منہ پر تالے،پاؤںمیںبیڑی،ہاتھوں میںہتھ کڑیاں
(۳۴)
اْردو بولنے والے سارے بنگلہ دیش کے باسی
چھوڑو شہر، بساؤ جنگل بن جاؤ سنیا سی
(۳۵)
شاعرؔصدیقی نے وہ معاشرہ بھی دیکھا تھا جب مشرقی پاکستان میں اْردو بولنے والوں پر زمین کو تنگ کردیا گیا تھا۔گرفتاریاں ہورہی تھی،حق پرستوں کے منہ پر تالے لگائے گئے تھے اور انہیں قید میں ڈالا جاتا تھا۔شاعرؔ نے بنگلہ دیش میں اْردو بولنے والوں کو براہ راست مخاطب کیا ہے کہ بنگلہ دیش کا یہ معاشرہ چھوڑ دو جہاں تم کو جینے کے حق سے محروم کیا جاتا ہے۔
حقیقت نگاری
شاعر جب اپنے گرد ونواح،معاشرے اور سماج کی سچی تصویر کشی کرتاہے تو اسے حقیقت نگاری کہتے ہیں۔کلام میں حقیقت نگاری رومانویت کے متصادم ہوتی ہے کیوں کہ اس میں تخلیق کار اپنی شخصیت کے جھروکے سے باہر جھانکتا ہے۔اس میں رومانوی طرز فکر کی طرح خواب و خیال،تصوراتی دنیا اور مافوق الفطرت عناصرکے لیے جگہ نہیں ہوتی بلکہ اس میں باطنی روداد کو نظر انداز کردیا جاتاہے۔اس میں خارجی حقائق کو منظرعام لانا ہوتا ہے اورزندگی کے مسائل کی ترجمانی ہوتی ہے۔اس ضمن میںابولاعجازحفیظ صدیقی یوں رقم طراز ہیں:
’’ادب میں اشیاء ، اشخاص اور واقعات کو کسی قسم کے تعصب، عینیت، موضوعیت اور رومانیت سے آلودہ کیے بغیر دیانت وصداقت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش حقیت پسند ی یاحقیقت نگاری کہلاتی ہے‘‘(۳۶)
حقیقت نگاری کے بیان میں شاعر یا ادیب کے لیے جرأت اوربے باکی کا مظاہر کرنا پڑتا ہے کیوں کہ غیرت جہانِ تگ و دو میں بڑی چیز سمجھی جاتی ہے۔حقائق پر مبنی شاعری زیادہ دیر تک زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اْردو میں ترقی پسندادیبوں نے ادب میں حقیقی رجحان کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔جس کے نتیجے میں ایسے شعرا منظرعام پرآگئے جنہوں نے محض اپنی حقیقت پسندانہ جذبات کے بنا پر مقبولیت حاصل کی ہے اور برسوں سے شعرا اور افسانہ نویسوں کے اعصاب پرسے سوار عورت کے تذکرے اْتر گئے۔جس کی بنیاد تخیلاتی اور تصوراتی دنیا پر استوار تھی۔حق گوئی کسی بھی شاعر یا ادیب کا بنیادی وصف ہونا چاہئے۔اس حق گوئی کا جذبہ اْردو کے بیشتر شاعروں کے ہاں کارفرما ہے۔
عصر حاضر میں شاعرؔصدیقی بھی اپنی حق گوئی اور بے باکی کے حوالے سے ایک اہم نام ہے۔ جبکہ موجودہ دور میں بلندپایہ نقادوں نے اْن کو بطور حق گو تسلیم کیا ہے۔ایک ترقی پسند شاعرہونے کی حیثیت سے اْن کے کلام پر حقیقت پسندانہ رجحان غالب نظر آتاہے۔انہوں جو کچھ جس طرح دیکھا اسی طرح بیان کیا ہے۔خواہ وہ مشرقی پاکستان میں قتل وغارت کی گرم بازاری ہویا شہر کراچی میں کشت وخون کے بازار میں تڑپتی ہوئی لاشیں،لْٹے ہوئے گھرانے اور نقل مکانی کرتے ہوئے خاندان،تنگ دستی اور غریبی ہو۔ شاعرؔصدیقی نے کسی بھی حقیقت کو لکھنے سے دریغ نہیں کیا ہے۔اس حوالے سے انور فرہاد لکھتے ہیں:
’’شاعرؔصدیقی طبیعت کے بے حد حساس ہیں۔اپنے ارد گردجوکچھ دیکھتے ہیں اسے شدت سے محسوس کرتے ہیں اورجو کچھ بھی محسوس کرتے ہیں بڑی سچائی کے ساتھ اس کا اظہارکرتے ہیں۔ وہ جذبوں کو مصلحت کے سانچے میں ڈال کر پیش کرنے کوشاعری نہیں سمجھتے اور نہ ہی شاعری میں کسی طرح نعرہ بازی کو ضروری تصور کرتے ہیں غالباًیہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری ان کے جذبات اور احساسات کی سچی ترجمانی اور صحیح عکاسی کرتی ہے‘‘(۳۷)
شاعرؔ کے ہاں بڑی پتے کی بات یہ ہے کہ ان کی بے باکی میں رکاکت یا ابتذال نہیں پایا جاتا بلکہ وہ ہربات میں اخلاق کا مظاہر کرتے ہیں۔اْن کے طنز ونشتریت کے بھی کچھ حدود متعین ہیں۔حالات کے ساتھ ان کی شاعری بھی اپنا رنگ بدلتی رہی ہے۔لیکن سچائی کی تصویر ہر دور میں ان کی شاعری میں جلوہ گر ہے۔انہوں نے یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ یہاں سچائی لکھنے والے کے ہاتھ کاٹ دیے جاتے ہیںبلکہ اہل قلم اْن کوگردانا جاتا ہے جنہوں نے سچائی کی ایک سطر بھی نہ لکھی ہو:
سچی باتیں لکھنے والا ہاتھ قلم کروائے
جس نے ایک بھی سطر نہ لکھی اہل قلم کہلائے
(۳۸)
اس دھرتی کی ریت یہی ہے پھر کیسا گھبرانا
سچ کے زہر کا پیالہ پینا اور امر ہو جانا
(۳۹)
شاعرؔصدیقی سچائی کو زہر کا ایک پیالہ تو سمجھتے ہیں لیکن زہریلے گھونٹ پینے کا درس دیتے ہیں اورسچائی کی راہ میں موت سے نہیں گھبراتے بلکہ وہ سچائی کی راہ میں قتل ہونے کو لازوال زندگی سمجھتے ہیں:
خون پسینہ ایک کرے جو اور اناج اْگائے
اس کے گھرمیں بھوک کے کارن کنیا بھی بک جائے
(۴۰)
اپنے گوٹھ کی پیاسی دھرتی بوند بوندھ کو ترسے
اور بادل شہروں میں جاکر راج محل پر برسے
(۴۱)
شاعرؔصدیقی نے مندرجہ بالااشعار میںاپنے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت کا پر دہ فاش کیا ہے۔جہاں پر کسان اپنا خون پسینہ بہاکر محنت اور مشقت کرکے اناج اْگاتا ہے وہ بھی فاقے کاٹتا ہے۔ ہمارے ملک میں اب بھی کسان بھوک اور افلاس کے سبب اپنی بیٹیاں بیچنیپر مجبور ہوجاتے ہیں۔کسان کی محنت کی کمائی جاگیرداروں کی تجوریوں کی زینت بن جاتی ہے۔جو زمینیں فصل اْگاتی ہے وہ پانی کے بوندھ بوندھ کے لیے ترستی ہے اور بادل شہروں میں جاکر راج محلوں پر برستا ہے۔یہ ظلم اور استحصال کی روایت اس خطے پر صدیوں سے چلی آرہی ہے۔جس کا ذکر شاعرؔنے اپنے کلام میں بھی کیا ہے:
قطعات
اْردو میں رباعی کے بعد قطعہ کوبھی بہت اہم اصناف میں شمار کیا جاتا ہے۔ قطعہ کم از کم دو شعروں کے مجموعے کو کہتے ہیں یا ایسے کچھ اشعار کا مجموعہ جن میں کوئی خیال تسلسل کے ساتھ پیش کیا جائے قطعہ کہلاتا ہے قطعہ کے ہر شعر کے دوسرے مصرعہ میں قافیہ اور ردیف کے ساتھ ساتھ ہئیت کا اہتمام بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ قطعہ رباعی کی مانند کسی مخصوص بحر کا پابند نہیں بلکہ یہ کسی بھی بحر میں کہا جاسکتا ہے شاعرؔ صدیقی نے بڑی تعداد میں قطعات کہے ہیں جومختلف موضوعات پرمشتمل ہیں۔جن میں حمدیہ،نعتیہ اور شخصی قطعات وغیرہ شامل ہیں۔
حمدیہ قطعات
شاعرؔصدیقی نہایت انکسار،عاجزطبیعت اور مؤدب شخصیت کے مالک ہیں۔اْن کے ہاں حمدیہ موضوع نظموں اور غزلوں کے علاوہ رباعیات اور قطعات میں بھی موجود ہے۔شاعرؔ نے حمدیہ شاعری محض رسمی نہیں کی ہے بلکہ انہوں نے ذات باری تعالیٰ سے اپنی سچی عشق اور محبت کا اظہار نہایت خلوص سے کیا ہے۔ اْن کا یہ رجحان سراسر عشق حقیقی پر مبنی ہے۔شاعرؔصدیقی کی حمدیہ شاعری سرتاپا عشق الٰہی میں ڈوبی ہوئی ہے۔شاعرؔصدیقی نے حب الٰہی کا اظہار انتہائی شستہ اور پاکیزہ انداز میں کیا ہے جوفصاحت و بلاغت سے معمور ہے۔وہ ذات باری تعالیٰ سے اپنی بے لوث محبت اور اللہ تعالی کی کبریائی کااظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں:
نہیں معلوم اے مالک تیرا جلوہ کہاں تک ہے
جہاں تک دیکھ سکتی ہی مری نظریںوہاں تک ہے
تیری وسعت کو پانا کیا! سمجھنا بھی ہے ناممکن
مرے دل میں مکیں ہوکر مکاں سے لامکاں تک ہے
(۴۲)
شاعرؔ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور برتری کو بے حدسہل وسادہ انداز میں بیان کرتے ہوئے گویا ہیں کہ اے اللہ تعالیٰ تیرا جلوہ ساری کائنات پر محیط ہے۔بلکہ جہاں تک میری نظریں جاتی وہاں تک تمہاری فطرت چائی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔تیری وسعت کو سمجھنا ناممکن ہے۔اے اللہ تو میرے دل میں بھی موجود ہے،مکاں اورلامکاں میں بھی۔
شاعرؔصدیقی کے قطعات میں حمدیہ فکر اتنی دل کش ہے کہ ایک دفعہ پڑھ لینے کے بعد قاری کے دل میں زبانی یاد کرنے حسرت پیدا ہوتی ہے۔ مزید دیکھئے:
موت دیتا ہے رات کو ہر روز
اور پھر صبح زندگی کا مزا
کون قادر اس پہ سوچو تو
ہاں وہی رب ہے، ہاں وہی ہے خدا
(۴۳)
تیری صنّاعی سے انکار کوئی کیسے کرے
اپنی دنیا کو دھنک رنگ بنایا تْو نے
دن کو سورج کے اْجالوں سے کیا ہے روشن
رات کو چاند ستاروں سے سجایا تْو نے
(۴۴)
شاعرؔصدیقی کو ذات الٰہی پر کامل یقین ہے۔وہ سمجھتے کہ اس کائنات میں جو تغیرات رونما ہوتے ہیں وہ صرف ایک ہی اللہ کے زیرتصرف ہیں۔ پہلے قطعہ میں شاعر کا اظہارِ حب الٰہی دیدنی ہے۔وہ بہت انوکھے انداز میں کہتے ہیں کہ کائنات کا نظام چلانے والی ایک ہی ہستی ہے۔دن کو رات اور رات کودن میں تبدیل کرناصرف اللہ کا کام ہے یہ کسی اور کی بس کی بات نہیں ہے لہٰذا وہی اس کائنا ت کا مالک ہے۔کوئی انسان اللہ کی صنعت گری کا منحرف نہیں ہوسکتا۔جس نے کائنات کو حسن دیا۔دن کو اجالوں سے روشن کیااور رات کو چاند اور ستاروں سے سجایا۔اس ضمن میں ایک اور قطعہ ملاحظہ کیجئے:
اے خدا! اے مالک کون و مکاں
حمد تیری کیا کرے کوئی بیاں
تیرے جلوے ہر طرف دیکھو جدھر
تیری الفت تیری رحمتِ بے کراں
(۴۵)
شاعرؔصدیقی نے مندرجہ بالا قطعہ میں عاجزی اور انکساری کے ساتھ اللہ کی عظمت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ کی حمدوثنا بیان کرنا انسان کے دسترس سے باہر ہے۔ان کو فطرت کے حسن وخوبصورتی میں باری تعالیٰ قدرت نظرآتی ہے۔وہ جدھر بھی دیکھتاہے اللہ کے جاہ وجلال ان کی نظروں کے سامنے ہوتاہے۔وہ اللہ کے رحم وکرم سے ناامید نہیںہوئے۔تخلیق کائنات کے حوالے سے شاعرؔ صدیقی کچھ اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں:
جس نے یہ کائنات کی تخلیق
ہاں وہی لائقِ پرستش ہے
پیڑ پودے سبھی ہیں سجدہ کناں
اب بھی شک کی کوئی گنجائش ہے؟
(۴۶)
شاعرؔصدیقی صرف اْس ہستی کو لائق پرستش گردانتے ہیں جس نے کائنات کی تخلیق کی ہے۔ کائنات کے تمام مخلوقات اللہ کی وحدانیت کا پتہ دیتی ہے۔انہوں نے اس قطعہ میں یہ بھی درس دیا ہے کہ پیڑاورپودے بھی بارگاہ الٰہی میں سر بسجود ہیںاوراللہ کی معبودیت میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
نعتیہ قطعات
شعرائے کرام نعت شریف میں حضورنبی کریمﷺسے اپنی بے لوث محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔نعت گوئی کا سلسلہ عربی زبان سے شروع ہوا ہے۔محققین کے مطابق عربی زبان میں میمون بن قیس کو نعت کا اولین شاعر مانا جاتاہے۔ لیکن ہمارے ہاں اْردب ادب میں بھی نعتیہ شاعری کا سرمایہ کافی زیادہ موجود ہیں اْردو کے تقریباً تمام شعرا نے کم یا زیادہ نعتیں ضرور کہی ہیں۔ بلکہ بعض شعرا توایسے بھی ہیں جن کا نام صرف نعت گوئی کے حوالے سے مشہور ہوگیا ہے۔
اگر چہ شاعرؔصدیقی کااصل میدان غزل اورنظم کا ہے۔اس لیے نعتیہ شاعری ان کے ہاں زیادہ دکھائی نہیں دیتی۔لیکن فکری اور فنی معیار کے لحاظ سے شاعرؔصدیقی کا یہ قلیل سرمایہ بے مثال ہے۔ان کے نعتوں میں جدت طرازی بھی ہے اور فکرکی بلندپروازی بھی۔ ان کی نعتیہ شاعری لفظی اور معنوی خوبیوں سے بھی مالامال ہے۔وہ ایک سچے عاشق رسول ہونے کی حیثیت سے حضورنبی کریمﷺسے بے پنا محبت وعقیدت رکھتے ہیں۔وہ مؤدبانہ انداز میں حضورنبی کریمﷺسے اپنی بے مثال محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
پیار پھیلاؤ زمانے میں جہاں تک پھیلے
میرے مسلک میں ہے چاہت کا چھپانا معیوب
میں محبت میں رقابت کا نہیں ہوں قائل
جو ہے اللہ کا محبوبﷺ، وہ میرا محبوب
(۴۷)
اسی دنیا کے دوزخ کو بنانا ہے اگر جنت
تواے لوگو ! رسول اللہ ﷺ کا پیغام کافی ہے
شفاعت کے لیے میدانِ محشر میں میرے شاعرؔ
محمد مصطفیٰ صلّ علیٰ کا نام کافی ہے
(۴۸)
حضورﷺ سے محبت و عقیدت رکھنے کا تقاضا یہ ہے کہ دنیامیں حضورﷺسے پیار ومحبت کا درس دیاجائے اورحضورمبارکﷺ سے اپنی محبت کا برملا اظہار کیا جائے۔شاعرؔصدیقی اسی محبت کوچھپانا معیوب سمجھتا ہے وہ محبت میں رقابت کاقائل نہیں ہے اللہ کے محبوب کو وہ سچے دل سے اپنا محبوب سمجھتے ہیں۔وہ اس بات پرکامل یقین رکھتے ہیں کہ دنیا اور آخرت کو سنوارنے کے لیے حضورﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا ناگزیر ہے۔شاعر کے محبت بھرر لہجے میں حضورﷺ کے لیے جو سوز اور تڑپ ملتا ہے وہ ان کی اندرونی جذبات کی عکاسی کرتاہے۔اس ضمن میں یہ اشعار قابلِ توجہ ہیں:
ایک حسیں خواب جاگتی آنکھیں
دیکھتی ہیں کئی مہینے سے
مجھ کو شاعرؔ بلا رہا ہے کوئی
شہر انوار سے، مدینے سے
(۴۹)
اے خدا وہ زمیں دِکھادے جہاں
روز وشب رحمتیں برستی ہیں
میری پْرشوق و مضطرب آنکھیں
جس کے دیدار کو ترستی ہیں
(۵۰)
شاعرؔصدیقی نے فکر و تخیل میں اپنی مختلف تمناؤں کا اظہار کیاہے۔ان کی بے چین اور بے قرار آنکھیں دیدارِ روضہ الرسولﷺ کے لیے ترس رہی ہیں۔وہ اللہ سے دْعا مانگتے ہیں اورشہر انوار میں جانے کے لیے تڑپ رہے ہیں جہاں شب وروز اللہ کی رحمتیں برستی ہے۔
تاجدار کائنات حضورﷺ تمام مخلوقات کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔وہ حسن کائنات ہیں۔ کل کائنات میں خدا کے بعد اگر کسی کو برتری اور فوقیت حاصل ہے تو وہ آقائے نامدارﷺ ہیں۔جن کے فیض سے تاریکیوں کے دلدل میں پھنسی ہوئی دنیا امن و آشتی اور محبت کے انوارسے بھر گئی۔شاعرا ظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
آپﷺ رحمت بنا کر بھیجے گئے
آپﷺ کی شان ہی نرالی ہے
اپنے دیدار سے تو بھر دیجئے
میرا دامن ابھی بھی خالی ہے
(۵۱)
خدا کے بعد اگر کل جہان سے پہلے
مرے حضور کا رتبہ بلند و بالا ہے
اْنہی کے فیض سے روشن یہ چاند سورج ہے
خدا نے نور کے پیکر میں اْن کو ڈھالا
(۵۲)
شاعرؔصدیقی اپنے قطعات میں حضورﷺ کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے شفاعت کی آس لگاتے ہیں۔ان کے ہاں جذبوں کی طہارت ہے اور عقیدے کی سچائی اور گہرائی ملتی ہے جو نعت گوئی کے لیے جز اوّل سمجھا جاتاہے۔تخلیقی صلاحیتوں کوبروئے کار لاتے ہوئے شاعرؔنے اپنے پاکیزہ جذبوں کا بھرپور انداز میں اظہار کیا ہے۔انہوں نے فکر وتخیل کے امتزاج سے نئی فضا کو پروان چڑھایا ہے۔ان کے نعتیہ کلام میں بوجھل اورثقیل الفاظ کا استعمال قطعاً نہیں ملتابلکہ انھوں نے اپنے کلام کو عام فہم سادہ اور سلیس بنا یاہے۔شاعرؔصدیقی حضورؐسے جو عشق ومحبت رکھتے ہیں اس کا اندازہ ان کے کلام سے بخوبی لگایا جاسکتاہے۔وہ کسی لحاظ سے بھی اْردو کے دیگر نعت گو شعرا سے کم نہیں معلوم ہوتے۔
شخصی قطعات
شاعرؔصدیقی کے قطعات میں چند معروف شخصیات کا تذکرہ ملتاہے جواپنے عہد میں سچائی، بے باکی،صداقت اورحق گوئی کے حوالے مشہورومقبول تھے ۔اپنی زندگی میں وہ جن اشخاص سے فکروفن کے لحاظ سے متاثرتھے ان کے متعلق انھوں نے اپنی محبت،عقیدت اور احترام کا اظہار کیاہے جن سے ان کی وفا اور خلوص کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ان شخصیاتمیں اکثریت ان کے قریبی دوست ہیں۔ان میں سے اکثریت کا تعلق مشرقی پاکستان سے ہیں جن سے شاعرؔصدیقی کے سنہرے دور کی یادیں وابستہ ہیں۔اس دورمیں کچھ دوست توایسے بھی تھے جنہوں نے شاعرؔ کے ساتھ فریب ،دغا اور منافقت کا سلوک روا رکھا جس کا اندازہ ان کے بعض اشعار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ سارے دوست ایک جیسے نہیں ہوتے ان میں چند دوست واحباب ایسے بھی تھے جن کی حسین یادیں شاعرؔ کے دل ودماغ پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہوگئیں تھیں۔اُن کو اپنے دل میں سمیٹ کر وہ پاکستان چلے آئے۔ ایک طرف اگرچہ وہ دوستوں کے منافقانہ سلوک کے گلے،شکوے کرتے ہیں لیکن دوسری جانب وہ اپنے دوستوں کے احترام،محبت ،وفا اور حسن سلوک کا بھی معترف ہیں۔شاعرؔصدیقی نے اپنے عزیز دوستوں کو اپنے اشعار میں ایک منفر لہجے اور اْسلوب کیساتھ خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
شاعرؔصدیقی کے قطعات میں’’شخصی قطعات‘‘ کے عنوان سے الگ گوشہ مختص ہے،جس میں رفیع احمد فدائیؔ، نوشاد نوریؔ،رشید الزمان خلشؔ کلکتوی،پروفیسر اظہرؔقادری اور سوز حیدر آبادی جسے معروف شخصیات کے فکروفن کے حوالے سے توصیفی قطعات موجود ہیں۔رفیع احمدفدائی کی تعریف میں لکھتے ہیں:
جو ہیں اہل نظر وہ جانتے ہیں اس حقیقت کو
بہت دشوار ہے بے باک ہونا اک صحافی کا
صحافت ہی پہ کیا موقوف افسانہ نگاری پر
بڑا احسان ہے یارو، رفیع احمد فدائی کا
(۵۳)
نوک قلم سے دل کی گرہ کھولتا رہا
زہر اپنی زندگی میں سدا گھولتا رہا
وہ شخص وہ ادیب فدائی ہے جس کا نام
ہر دور کی تحریر میں سچ بولتا رہا
(۵۴)
حقیقت اور صداقت کی ہمیشہ جستجو رکھنا
تقاضائے ہنر کے آئینے کو روبرو رکھنا
قلم کو بیچنے والے بہت اہل قلم دیکھے
فدائی سے کوئی سیکھے قلم کی آبرو رکھنا
(۵۵)
رفیع احمد فدائی مشرقی پاکستان کے ایک معروف اور حق گو صحافی،افسانہ نگار،مترجم اور ایک بلند پایہ شاعر تھے۔شاعرؔصدیقی نے ان کے اوصاف کے بیان میں جس انداز سے کام لیا ہے اس سے رفیع احمد فدائی کی شخصیت کے مخفی گوشے کلی طور پرنمایاں ہوگئے ہیں۔جس میں ان کی ایمانداری،خوداری،حق گوئی اوربے باکی شامل ہیں جوایک صحافی کے لیے اپنانا دشوارترین کام ہوتا ہے۔لیکن فدائی دل کی باتوں کونوک قلم پرلاتا رہا اور ہردور میں سچ بولتا رہا ہے۔وہ ہمیشہ حقیقت اور صداقت کے راستے پر چلے۔فدائی کی دیانت داری کا ذکر کرتے ہوئے شاعرؔنے یہ بات واضح کی ہے کہ میں نے قلم کے بیچنے والے بہت دیکھے ہیں لیکن یہ وہ شخصیت ہے جس نے زندگی بھر قلم کی آبرو کا خیال رکھا ہے۔شاعرؔصدیقی اپنے ایک اور دوست رشید الزمان خلشؔکلکتوی کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں:
آپ کا طرز سخن آپ کا حصہ ہے خلشؔ
فکر و جذبات کی سچائی بیانِ رنگین
اہلِ دل، اہل نظر اہل ہنر یکجا ہیں
پیش کرنے کے لیے آج خراجِ تحسین
(۵۶)
آپ کے اشعار میں ہیں کرب کی پرچھائیاں
فن کی گیرائی میں ہیں افکار کی گہرائیاں
مختصر سی بات کہنا چاہتا ہو میں خلشؔ
آپ کی سچائیاں، جذبات کی سچائیاں
(۵۷)
رشید الزماں کلکتوی شاعرؔصدیقی کے قریبی دوست اور مشرقی پاکستان کے مشہور شاعر ہیں۔ جنہوں نے بعد میں ہجرت کرکے مغربی پاکستان میں سکونت اختیا کرلی تھی۔جس کو شاعرؔصدیقی نے اپنی کتاب ’’میرے ہمدم میرے دوست ‘‘ میں ’’انسان دوست‘‘ شاعر کہا ہے۔جس کا اندازہ درج بالا اشعار سے بھی کیا جا تاہے جو شاعرؔصدیقی نے ان کا مجموعہ غزل ’’سچائیاں‘‘ کی رونمائی تقریب کے موقع پر رشید الزماں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہے تھے۔ان کی تعریف سے خلشؔ کے کلام فن وفکر گہرائیوں کا اندازہ لگاجاسکتا ہے۔خلشؔکی شاعری ان کے فکری جذبات کاآئینہ ہے۔جس میں کرب کی پرچھائیاں اور جذبات کی سچائیاں بھی ملتی ہیں۔ایک اور دوست پروفیسر اظہر قادری کو داد وتحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
غزلوں کے بادشاہ ہیں نظموں کے تاجدار
میدانِ نقد میں بھی مہارت ہے آپ کا
عصرِ جدید کے بھی ہیں شیدائیوں میں وہ
دورِ قدیم سے بھی عقیدت ہے آپ کو
(۵۸)
نقادِ فن بھی ، ماہر علم عروض بھی
بزمِ سخن میں شوکت محفل کہیں جسے
کیا خوبیاں ہیں حضرتِ اظہرؔمیں کیا کہوں
اک شخص ہے کہ جوہرِ قابل کہیں جسے
(۵۹)
درج بالا اشعار میں شاعرؔصدیقی نے اپنے دوست اظہرؔقادری کو ایک زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ان کی شخصیت کی تمام خوبیاں اجاگر کی ہیں۔شاعرؔنے ان کوغزلوںاور نظموںکا تاجدار، شوکت محفل اور جوہرقابل جیسے خوبصورت القابات سے نوازا ہیں۔
پروفیسر اظہر قادری کے علاوہ جن شخصیات کا ذکر شاعرؔصدیقی کے قطعات میں ملتاہے ان میں معرف شاعر نوشاد نوریؔ اور سوز حیدرآبادی وغیرہ شامل ہیں۔نوشاد نوریؔ شاعرؔصدیقی کے دوست تھے اور بقول شاعرؔ نہایت خوش طبع انسان تھے۔نوریؔ کی پہلی برسی پراْنہوں نے دوقطعات کہے تھے جو کلیات میں شامل ہیں۔سوز حیدر آبادی کے حوالے سے ایک قطعہ شامل ہے جوایک نوجوان شاعر تھے۔جس نے محبت میں ناکامی کے سبب خودکشی کرلی تھی۔جس کا شاعرؔ کو بہت دکھ ہوا تھا چوں کہ ایک طرف تو وہ نوجوان تھے اور دوسری طرف اپنی محبت میں ناکام ہوئے اور محرومیوں سے تنگ ہوکر زندگی کا خاتمہ کردیا تھا۔شاعرؔصدیقی کہتے یہ وہ زمانہ تھا جس سال انسان نے پہلی مرتبہ چاند پرقدم رکھا تھا۔
سوز وگداز
شاعرؔصدیقی غم کو اپنا مقدر سمجھ بیٹھے ہیں ،اس لیے اُن کی شاعری دْکھ درد اورنج و غم سے مربوط ہے۔جس چیز نے شاعرؔکے کلام میں روح ڈال دی ہے ۔درد و غم کے عناصر جس طرح ان کی غزل اور نظم میں کثرت سے ملتے ہیں۔اسی طرح یہ داخلی اور خارجی واردات قلبی ان کی دیگر شاعری پر بھی نمایاں ہوئے۔وہ اوروں کا غم بھی اپنا غم سمجھتے ہیں۔سماجی اور سیاسی ہنگاموں نے ان کی رنجش میں مزیداضافہ کیا ہے۔جس کا اثر براہ راست ان کی شاعری پرپڑا۔غم کا احساس اُن کے ہاں ہمیشہ پُر بہار رہا ہے۔اُنہوں نے غم دوراں اور غم جاںکو ایک سانچے میں جس طرح ڈالا ہے وہ دادوتحسین کے لائق ہے۔بعض اشعار یہ پتہ دیتے ہیں کہ ْمسرتِ زندگی ان کے لیے محض ایک خواب رہ گئی ہے۔گلشن زیست میں محض خار ان کی قسمت ہے۔زندگی کی نشیب وفراز میں اْنہیں جہاں سانحاتِ درد وغم کا سامنا رہا ہے وہ ان کے قلم سے آنسو کی مانند ٹپکا ہے۔وہ اپنے ہر غم آشکار کرتے چلے جاتے ہیں۔لیکن اس معاملے جس چیز نے شاعرکو بڑا بنا دیا ہے وہ ان کی اْمید وبیم ہے۔ وہ غم کا شاعر ضرور ہے مگرمیرؔ کی طرح ان کا غم یا سیت آمیز نہیں ہے۔
حسیاتی فکریت نے ان کے کلام کو جلا بخشی ہے۔انہوں نے فکرواحساس کوایک شعری پیکر بخشا ہے۔کیوں کہ آزادی کے فسادات سے لے کر سقوط ڈھاکا اور پھر کراچی کے ناگفتہ بہ حالات تک کے سانحات ان کی نظروں کے سامنے سے گزرے ہیں۔جس کی وجہ سے شاعرؔ کے کلام میں رنج وغم کے جذبات آمادہ حرکت و عمل ہیں۔شاعرؔصدیقی کی شاعری میں ان کے دل کی چوٹیں اْبھرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ ان کی شاعری میں جان ڈال دینے والی اہم چیز ان کا اظہار غم ہے۔غم ان کی زندگی کا ایک خاص جز بن چکا ہے۔شاعرؔصدیقی کی زندگی کی ہرگھڑی درد و غم سے لبریز ہے۔اس سلسلے میںشبیر ناقدیوں لکھتے ہیں:
’’شاعرؔصدیقی کے کلام میں حْزنیہ عوامل لازوال اورابدی رنگ میں دکھائی دیتے ہیں۔مسرت شادمانی کے تمام امکانات معدوم نظرآتے ہیں اس پر طرفہ یہ بھی ہے کہ عالمِ ہجراں بھی قیامتِ صغریٰ کامثل ہے تصورِ یار اتنا راسخ ہوچکا ہے کہ لیل ونہار رتجگوں کی داستان بن گئی ہے اْنہوں نے غمِ ذات اور غمِ جاناں کو انتہائی خوبصورتی سے ایک ساتھ نبھایا۔‘‘(۶۰)
احساسِ غم کا بیان ان کے ہاں ملاحظہ کیجئے:
مسکراہٹ مجھے نصیب نہیں کہاں
میں اسیر غمِ زمانہ ہوں
میں اْڑاتا ہوں اپنے غم کی ہنسی
تم سمجھتے ہو مسکراتا ہوں
(۶۱)
غم ان کی زندگی کا ساتھی ہے اس لیے وہ قدرے یاسیت کا شکار نظر آتے ہیں۔لیکن اس حساسیت میں اْمید کی کرن نظرآتی ہے۔وہ اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے اسیر غم توسمجھتے ہیں مگر خوشی کی آمد سے نااْمید نہیں ہوتے۔ وہ غالبؔ کی طرح اپنے غم کی ہنسی اْڑا تے ہیں۔ مزید مثالیں دیکھیے:
دل میں ناکام آرزو کا جہاں
قالب یاس و غم میں ڈھلتا ہے
خونِ دل اور خونِ ارماں ہے
زندگی کا چراغ جلتا ہے
(۶۲)
دل تو ویران ہو چکا کب کا
اب بھی روشن ہیں حسرتوں کے یہ داغ
جیسے صحرا میں کھل رہے ہوں گلاب
دشت میں جیسے جل رہے ہوں چراغ
(۶۳)
شاعرؔکی زندگی کا چراغ ان کے خونِ دل اور خونِ ارماں سے جلتاہے۔اْن کے دل میں ناکام حسرتوں نے بسیرا کررکھا ہے۔حسرتوں کے داغ اْن کے دل پر صحرا میں گلاب اور دشت میں چراغ کی مانندروشن ہیں۔
ہجر وفراق
شاعری وسیلہ اظہارِ جذبات،مشاہدات،تجربات اور احساسات ہے۔شاعر کا دل عموماً ہجر وفراق کے کرب واحساس سے خالی نہیں ہوتا۔شاعرؔصدیقی کے محسوسات میں ایک احساس اْن کا درد جدائی بھی ہے جس نے ان کے اشعارمیں عناصررنج والم کو بڑھا دیاہے۔اس ضمن میں اگران کا کلام دیکھا جائے تولگتا ہے کہ انہوں نے بھی فیضؔ وفرازؔکی طرح غم دوراں اور غم جاناں کو ایک لڑی پرونے کے ایک کامیاب کوشش کی ہے۔اْنہوں نے محبوب کی جدائی کا درد سہا ہے۔لیکن شاعر کا درد ہجروفراق کی وجہ محض ایک تصوراتی محبوب نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت سے دوچار ہے۔ اس میں مشرقی پاکستان کی حسین یادیں بھی نمایاں ہیں۔جہاں شاعر نے اپنے شباب کے شب وروز گزرارے تھے۔وہ دوست واحباب اور وہ محفلیں جنہیں ہجرت کے وقت شاعر کو چھوڑنا پڑا۔یہ ایک فطری امرہے کہ جہاں پر انسان کی زندگی اچھی گزری ہو جن جن لوگوں سے واسطہ پڑا ہو وہاں کی یادیں دل پر ضرورنقش ہوجاتی ہیں۔شاعرؔ کی زندگی میں بچپن کے دوستوں کا بچھڑ جانا سب سے بڑا المیہ بن کر سامنے آتا ہے اور یہ کیفیت ان کے لیے بہت درد ناک ثابت ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اْنہیں زندگی کے لمحہ بہ لمحہ جدائی کا احساس ہوتاہے۔ اپنوں کا بھی اور محبوب کابھی شاعرؔصدیقی کا درد جدائی ماضی کی یادوں سے وابستہ۔اْن کی یاد ماضی میں روٹھے ہو ساجن کا عکس جلوہ گر ہے۔شاعرؔصدیقی کے ہجروفراق میں چاندنی رات،ٹوٹے ہوئے تارے،شب تنہائی،عارض گلنارپر ڈھلکے ہوئے پرافسانہ شوق جیسے موضوعات کثرت سے موجود ہیں۔وہ پریت کا ماراہوا ہجرکی تنہائی میں ناصر کاظمی کی طرح بے آواز گلی کوچوں میں گھوم رہے ہیں۔جب اْن کو وصل محبوب میسر نہیں ہوتا تو اْمیدوں کے پھول مرجھا جاتے ہیں۔جدائی کا درد لیے ہوئے شاعرمحبوب سے ملنے کی اْمیدمیں اس کی گلیوں میں آوارہ پھرتاہے۔ ہجر کادرد وغم اْن کے صبح و شام کا ساتھی ہے۔محبوب کی یادیں شاعر کا چین و سکھ زائل کرتی ہے:
دور ہے گو میری نگاہوں سے
پھر بھی تو آس پاس رہتی ہے
پورن ماشی کے چاند میں اکثر
تیری پرچھائیں میں نے دیکھی ہے
(۶۴)
بربط دل کے انہیں ٹوٹے ہوئے تاروں سے
تیری آواز سنی رات کی تنہائی میں
دن کے ہنگامے کسی طور گوارا تھے مگر
چاندنی زہر بنی رات کی تنہائی میں
(۶۵)
شاعرؔاپنے محبوب کی یاد میں تڑپتا ہے۔وہ محبوب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے کہ اگرچہ تو میرے نگاہوں سے دور ہے لیکن پھر بھی تو میرے دل میں رہتا ہے۔چاندنی رات میں انہیں وصل یار میسر نہیں ہوتا تو وہ محبوب کا چہرہ چاند میں دیکھتاہے۔ہر وہ چاندنی رات جو شاعر کے لیے ہجر وفراق پر مبنی ہوزہر کی ایک پیالی کی مانند ہوتی ہے۔ایسا لگتاہے کہ شاعر نے محبوب کی جدائی کو نہایت گہرائی سے محسوس کیا ہے۔جس چیزنے ان کے دن اور رات کو بوجھل کردیا ہے وہ ان کی شب جدائی ہے جس میں اْن کوکسی طور بھی قرار نہیں آتا:
فراق یار میں دل سوز نغمہ
کوئی بنسی کی لے پر گا رہا ہے
مجھے محسوس کچھ ہوتا ہے ایسا
مرا ماضی کوئی دہرا رہا ہے
(۶۶)
کوئی ہم دم نہ کوئی ہے دم ساز
بات کیا کیجئے سہاروں کی
دل کی ہر آس ٹوٹ جاتی ہے
جب جھپکتی ہے آنکھ تاروں کی
(۶۷)
یاد آتا ہے وہ منظر تو تڑپ اْٹھتا ہوں
فرط جذبات میں آنکھوں سے چھلکتا کاجل
اور سینے پہ وہ سر رکھ کے کسی کا کہنا
’’میں بھلا دوں گی تمھیں تم بھی ہو کتنے پاگل‘‘
(۶۸)
درج بالا قطعات سے ایسامعلوم ہوتا ہے کہ شاعر کا درد فرقت اْن کی یاد ماضی سے وابستہ ہے۔ جب کوئی فراق یار کا نغمہ گاتاہے تو اْن کو اپنا ماضی یاد آجاتاہے۔شاعر تنہائی کا شکار ہے۔اْن کے دل کے اْمید کا تارہ ٹوٹ چکا ہے۔ان کو سہارا دینے کے لیے کوئی دم ساز اور ہمراز نہیں ہے۔ انہیں جب محبوب کی یا آتی ہے توان کا چین و سکون ختم ہوجاتا ہے۔جدائی کامضمون اْن کی رباعیات میں بھی کارفرما نظر آتاہے۔ بطور نمونہ ایک مثال دیکھیے:
پھر آج مجھے یاس و الم نے گھیرا
پھر دل میں کیا آج غموں نے ڈیرا
آدوست ذرامجھ کو سہارا دے دے
میں چاہتا ہوں آج سہار تیرا
(۶۹)
شاعر کو ایک مرتبہ پھر یاس والم نے گھیر لیا،غموں نے پھر سے اس کے دل میں بسیر ڈال دیا۔اسی عالم میں انہیں محبوب کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔؎محبوب کے غم جدائی نے ان کو ہر حال میں گھیرلیا ہے۔زندگی کے ہر موڑ پراْنہیں جدائی کا احساس ہوتاہے۔شاعر کی چاندنی راتیں اور دن کے ہنگامے بھی محبوب کے فراق کے غم سے خالی نہیں ہے۔
رومانیت
ایک رومانی سوچ رکھنے کی بنا پر شاعرؔ صدیقی کے قطعات بھی رومانوی جذبے سے مبر ا نہیں ہیں۔ جس میں شاعر نے ایک تصوراتی دنیا آباد کی ہے۔چند مثالیں ملاحظہ کریں:
آسماں پر جگمگاتے ہیں ستاروں کے دیے
چاندنی برسا رہا ہے چاند فرشِ خاک پر
اور اس رنگیں فضا میں کون جانے کس لیے
مسکراتا ہوں میں اپنے دیدۂ نمناک پر
(۷۰)
دور ہے گو میری نگاہوں سے
پھر بھی تو آس پاس رہتی ہے
پورن ماشی کے چاند میں اکثر
تیری پرچھائی میں نے دیکھی ہے
(۷۱)
درج بالاقطعات سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ شاعر قیود شام سحراور ہنگامہ زمانہ سے دلبرداشتہ اور اکتایاہوا نظر آتاہے ۔ وہ سہانی اور چاندنی رات،ستاروں کی چمک،بلبل کی چہک اور پھولوں کی مہک میں قرب محبوب کے آرزومند ہے۔وہ رات کی تنہائی اور اندھیروں سے بھی محظوظ نظر آتاہے کیوں کہ وہ اپنے محبوب کی آمدکی خواہش مندرہتاہے۔جب شاعرزندگی کی تنگ راہوں میں خود کواْلجھا ہوا محسوس کرنے لگتاہے تو اپنی یاد ماضی کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔
جب بھی ساون کی رات میں اے دوست
گیت برہا کے کوئی گاتا ہے
مجھ کو محسوس ہوتا ہے جیسے
میرا ماضی پلٹ کے آتا ہے
(۷۲)
بحیثیت ایک کامیاب فلمی گیت نگار رومانیت پسندی کا رجحان اْن کے رگ وپے بسا ہوا ہے۔ یہ رومانوی جذبہ ان کے فنی جوہر کو ابھارنے میں معاون ثابت ہوتا ہوا نظر آتا ہے، جس کی گہری چھاپ اْن کی غزل ،نظم،دوہوں اور رباعیات میں بھی نمایاں ہے۔جہاں کہیں اُنہوں نے ذاتی دکھ درد ،انقلاب پسندی اور دیگر سماجی مسائل کو جگہ دی ہے وہاں شاعرنے اپنے رومانی جذبے کا بھی بھر م رکھا ہے۔شاعرؔ نے کلاسیکی ادب سے فائدہ اْٹھا تے ہوئے بھی رومانوی انداز فکر کا دامن تھامے رکھا ہے۔ان کی شاعری کوکلاسیکیت اوررومانیت کا سنگمکہنا بے جا نہ ہوگا۔
راست گوئی
شاعرؔ صدیقی کے قطعات میں حق گوئی کا بھی ایک غالب رجحان رہا ہے چند اشعار دیکھئے جن سے اُن کی حقیقت پسندانہ طرزفکرکا اندازہ لگایاجاسکتاہے:
گل بیچنے والے تھے چمن بیچنے والے
ہم گئے دیوار چمن دوست تھے ہم لوگ
اس جرم کی پاداش میں کیا کیا نہ سہے ظلم
غداروں کی بستی میں وطن دوست تھے ہم لوگ
(۷۳)
کانٹوں کی طرح دل میں کھٹکتے ہیں تمہارے
کس واسطے ہم لوگ یہ جان گئے ہیں
بیچا ہے لہو جس نے رفیقانِ وطن کا
تم لوگ وہی ہو تمہیں پہچان گئے ہیں
(۷۴)
شاعرؔصدیقی نے اپنے قطعات کے ذریعے وطن کے غداروں کاپردہ بھی فاش کیا ہے۔اُن کے قطعات وطن فروشوں کے خلاف ایک آوازبن گئے ہیں۔جس کی پاداش میں اُنھیں ظلم وستم اور جلاوطنی بھی برداشت کرنی پڑی۔شاعر کہتا ہے کہ غداروں کی اس بستی میں واحد ہم ہی وطن سے محبت کرنے والے موجود تھے۔لیکن یہ حب الوطنی ہمارے حق میں جرم سمجھا گیا۔اْنہوں نے وطن فروشوں پر برملا طنز کیا ہے۔جنہوں نے اْن لوگوں کے خون کا بھی سودا کیا جو رفیقانِ وطن تھے:
ظلم کی پشت پناہی کے لیے
حق و انصاف کو پھانسی دی ہے
قوم اور ملک کے غدّاروں کو
صدر نے عام معافی دی ہے
(۷۵)
شاعرؔصدیقی نے ان حکمرانوں پر بھی تنقید کی ہے جو ظلم وبربریت کی پشت پناہی کرتے ہوئے حق اور باطل میں امتیاز نہیں کرتے ۔ وہ ملک میں عدل ، انصاف اور مساوات کا گلا گھونٹتے ہوئے اْن لوگوں کومعافی دیتے ہیں جو ملک،قوم اور امن کے سوداگر ہوتے ہیں۔
شاعرؔصدیقی کے ہاں ان کی سچائی اور حق گوئی اْن کی شخصیت کی تصویر ہے۔وہ ظلم اور ظالم کا ساتھ کبھی نہیں دیتے۔شاعر کے کلام میں ایسے اشعار میں کافی تعداد میں موجود ہے جن میں معاشرے کی حقیقی صورتیں جلوہ گر ہیں۔اْن کا قلم جرأت اور بے باکی کے ساتھ سچائیاں لکھتاہے۔حق گوئی کے معاملے میں وہ جان کی قربانی دینے پر آمادہ نظرآتے ہیں۔وہ حق بات کو نظرانداز کرنے کا قائل نہیں ہے۔وہ راست گوئی میں ذلت و رسوائی کی پروا نہیں کرتے۔
قومی تنزل
شاعر کے کلا م میں قوم کی بربادی کا درد بھی نمایاں ہے۔قومی تنزل کے بارے میں شاعر کے چند قطعات دیکھئے:
قوم بھٹکی ہوئی ہے سڑکوں پر
سامنے راہبر نہیں آتا
قریہ قریہ میں ڈھونڈ آیا ہوں
کوئی انساں نظر نہیں آتا
(۷۶)
اک اْداسی ہے ہو کا عالم ہے
آنکھیں پْرنم ہیں جس طرف دیکھو
اب درندوں کا راج ہے ہر سو
آدمی کم ہے جس طرف دیکھو
(۷۷)
بھٹکی ہوئی قوم کا دُکھڑا روتے ہوئے شاعرنے قوم کا سب سے بڑا المیہ بیان کیا ہے کہ ہماری قوم رہنمائے حق سے محروم ہے۔قوم کو راستہ دکھانے والا بھی کوئی نہیں ہے۔معاشرہ انتشار کا شکار ہے۔ انسانیت نہ ہونے کے برابر ہے اور قوم پر رہنماؤںکے بجائے درندوں کا راج ہے۔پورے معاشرے پر اْداسی چھائی ہوئی ہے۔انسانیت کہیں پر نظر نہیں آتی۔وہ ملک کی سیاسی صورت حال پربھی نظر رکھتے ہیں۔جس میں زندگی عام آدمی کے لیے موت،ذلت اور رسوائی بن چکی ہے:
دھرنے، جلسے، جلوس، ہڑتالیں
عہدِ نو کی یہی سیاست ہے
زندگی عام آدمی کے لیے
موت ہے، بے بسی ہے، ذلت ہے
(۷۸)
اس حوالے سے مزیدقطعات دیکھئے جو شاعرکی عصری بصیرت کی نمائندگی کرتے ہیں:
کبھی تو سوچو وطن سے اگر محبت ہے
جو راہ تم نے نکالی ہے کیا سیاست ہے
یہ خود کشی، یہ دھماکے، یہ نفرتوں کی زباں
یہ ملک و قوم کی خدمت نہیں عداوت ہے
(۷۹)
خوف و دہشت ہے ہر طرف طاری
جانے کب کسی کی آئے گی باری
اے خدا امن کی کرن دے دے
آج کی رات ہے بہت بھاری
(۸۰)
سماج میں جس چیز کا فقدان وہ حرکت و عمل ہے جس کا اظہار شاعر نے کیا ہے۔کہ ہم محض گفتار کے غازی بن بیٹے ہیں عملی میدان میں ہماری کوئی کارکردگی نہیں ہے۔اسلام تعلیمات اورنظام زندگی ہم دوسروں کے لیے پسند تو کرتے ہیں لیکن خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔
شاعرؔ کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے نے عجیب کروٹ لی ہے۔ایسی سطح پر آچکا ہے جہاں نہ کوئی طوفان سے ڈرتا اور نہ موجوں سے بلکہ انسان سے انسان خوف کھاتا ہے۔سماج میں سب سے سستی چیز انسان ہے۔
یاد ماضی
حال سے قطع نظرذہنی طور پر ماضی کی طرف بڑھنے کو یاد کہتے ہیں۔ فطری طور پر انسان اپنے بیتے ہوئے دنوں کو یاد کرتاہے خواں وہ خوشیوں میں گزرے ہو یا غم میں لیکن ماضی کی یادیں انسان پر تڑپا دینے والی کیفیت ضرور طاری کردیتی ہے۔حال کی ناآسودگی،بے چینی اور تلخیوں سے جب انسان دلبرداشتہ ہوجاتاہے۔تو وہ ماضی کی رنگینوں اور حسین یادوں میں میں غرق ہونے کی آروز رکھنا شروع کردیتا ہے۔ماضی پرستی دراصل ایک رمانوی جذبہ ہے جس میں شاعر حال سے فرار اختیار کرتا ہے اور ایک تخیلاتی دنیا آباد کرلیتا ہے۔
شاعرؔصدیقی چوں کہ ایک رومانی شاعرہے اس لیے وہ بہت حسین لفظوں میں اپنے ماضی کی یادوں کو دہراتے ہیں اور ان پر آنسو بہاتے ہیں۔وہ زندگی کے حسین لمحات کو بھولنے کے قائل نہیں ہے ان سے شاعرکی خوشی اور غم دونوں وابستہ ہے۔بعض اور قات ایسا لگتا ہے کہ یاد ماضی ان کے لیے ایک عذاب بن گئی ہے کیوں ان کی یادوں میں قوت احساس کا رنگ شامل ہے۔وہ ماضی کی یادوں سے محبت کرتے ہیں۔وہ گزرے ہوئے لمحات کی پرچھائیوں کو غنیمت سمجھتے ہیں۔وہ دل کو بہلاتے ہوئے کہتے ہیں:
مطربہ ہائے کیا کیا تو نے
گیت تھے یا وفا کی تفسیریں
پھر رہی ہیں مری نگاہوں میں
عہد ماضی کی چند تصویریں
(۸۱)
نغمے بے تاب ہیں نکلنے کو
ساز دل کے شکستہ تاروں سے
آج گھبرارہا ہے جی بے حد
کوئی ماضی کا تذکرہ چھیڑے
(۸۲)
مندرجہ بالا قطعات سے ایسا لگتاہے کہ شاعرؔصدیقی کے دل کا سکون اْن کی یاد ماضی کے تذکروں سے وابستہ ہے۔وہ بیتے ہوئے لمحات کو واپس لانے کی خواہش کرتاہے۔جب وہ مطربہ کی گیت سنتے ہیں تو عہد ماضی کی حسین تصویریں اْن کی آنکھوں کے سامنے پھرہی ہیں۔سازِدل کے شکستہ تاروں سے اْن کا دل گھبرانے لگا تاہے۔اوروہ اپنی ماضی کے تذکرے کو چھیڑنا چاہتاہے۔ماضی کی رنگینوں کو یاد کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں:
میرا ماضی کہ جذب ہیں اس میں
کتنی رنگینیاں بہاروں کی
اب بھی وہ دن ہیں یاد جب اے دوست
زندگی چھاؤں تھی ستاروں کی
(۸۳)
شاعرؔصدیقی اپنے ماضی کویاد کرتے ہیں اور کسی صورت بھی بھولانے کو تیار نہیں۔اْن کاکہنا اس میں میری زندگی کی رنگینیاں جذب ہیں۔ماضی کے ساتھ اْن کی ہر خوشی وابستہ ہے جس کو بھولنا گوارا نہیں کرتا۔گزرے ہوئے دنوں کی ہر یاد ان کے دل نقش ہوچکی ہے۔جس کو مٹانا اس کے دسترس بالاتر ہوچکا ہے:
عہد رفتہ کو بھلاؤں تو بھلاؤں کیسے
دل پہ جو نقش پڑا اس کو مٹا یا نہ گیا
کوششیں کیں تو بہت ہم نے مگر جانِ جہاں
چاہ کے تم کو کسی اور کو چاہا نہ گیا
(۸۴)
شاعرؔصدیقی چاہ کر بھی اپنے ماضی کو بھلا نہ سکے۔ کیوں کہ عہدہ رفتہ کی یادیں اْن کے دل ودماغ نہ مٹنے والی تصوریں بن گئیں ہیں۔
اگر چہ اس حوالے سے شاعر کے ہاں ایک تضاد پاہا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی کی یادیں اْن کے جینے کا سہارا وہ زندگی کے حسین لمحات کو یاد کیے بنا نہیں رہ سکتاہے۔یہ اْن کی زندگی کا وہ حصہ جس کے بل بوتیپراْنہوں نے اپنی زندگی کا سفر جاری رکھا ہے۔
رباعیات
کلیات شاعرؔ صدیقی میں بیس کے قریب رباعیات بھی شامل ہیں۔رباعی کہنا ایک مشکل فن ہے۔لیکن شاعر کے ہاں قطعاً یہ احساس نہیں ہوتا کہ اْن کی رباعیات فن اور معیار سے گری ہوئی ہیں۔ رباعی کے فن سے وہ خوب واقفیت رکھتے ہیں۔لیکن دیگر اصناف کی طرح رباعی کی طرف اْن کارجحان زیادہ نہیں رہا ہے۔تعداد میں قلیل ہونے کے باجود اْن کی رباعیوں میں فکر ی بلند ی دیکھی جاسکتی ہے۔
خمریات
خمریات سے وہ شاعری مراد لیا جاتا ہے جس میں شراب نوشی یا لوازماتِ شراب اوراوصاف کے متعلق بحث کی گئی ہومثلاًساغر وسبو،ساقی ومینا،مے خانہ،میکدہ وغیراس قبیل کے الفاظ ؎ہیں۔شاعر جب اس قسم کے الفاظ کا ذکر چھیڑتا ہے تو کلام خمریہ شاعری کے زمرے آتا ہے۔لیکن خمریہ شاعری میں ضروری نہیں کہ شراب کا مطلب محض شراب ہی ہوکیوں کہ عموماً شعراکے ہاں شراب اور اس کے متعلقات کے تذکرے مجاز پر مبنی ہوتے ہیں۔جیسا کہ اقبال نے ’’شراب کہن‘‘ معرفت الٰہی کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ابو الا اعجازحفیظ صدیقی کہتے ہیں:
’’خمریات یا خمریہ شاعر ی سے مرادوہ شاعری ہے جس میں شراب اور کے متعلقات کا ذکر ہو‘‘(۸۵)
اْردو کے تقریباً ہر شاعر کے ہاں خمریات کاکچھ نہ کچھ اظہار ملتا ہے لیکن اس حوالے سرِفہرست نام ریاض خیر آبادی کا ہے اس کے علاوہ سید عبدالحمید عدمؔ اور جدید شعرامیں جوشؔملیح آبادی کا نام بھی مشہور ہے۔
جدیدیت کے ساتھ روایت کی پاسداری کرتے ہوئے اْردو کے دیگر شعرا کی طرح شاعرؔ صدیقی کے اشعار میں بھی شراب کا ذکر جگہ جگہ نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔لیکن اس ضمن میں شاعر کی خوبی یہ ہے کہ جوشؔ کی طرح اْن کی طبیعت میں بغاوت کا جذبہ نہیں ملتا۔خمریات کا ذکر ان کی ہاں صرف مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔شاعرصدیقی کی رباعیات میں ساقی،جام،پیمانہ،مستانہ،میخانہ ساغر وصہبا اور مدہوشی جیسے الفاظ توملتے ہیںمگر ان الفاظ کا استعمال محض مجاز پر مبنی ہے۔مثلاً اْنہوں نے ساقی کالفظ محبوب کے لیے اورساغرو صہبا محبوب کی آنکھوں اور ہونٹوں کے لیے بہ طور استعارہ استعمال کیاہے۔ اسی طرح شراب عاشقان کے لیے محبوب کی محبت ہے۔وہ حقیقت میں شراب نوش نہیں ہیں۔اْن کے ہاں متعلقات شراب کاذکرصرف روایتی ہے۔
بعض اوقات جب وہ اپنے محبوب سے محبت کا تقاضا کرتے ہیں تو ساقی کہہ پکارتے ہیں۔ جب وہ ہنگامۂ زمانہ سے دل برداشتہ ہوجاتا ہے تو دردِدل ہلکا کرنے کے لیے شراب پینے کی آرزو کرتے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ خوشی کے عالم میں بھی بادہ کشی کرنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں:
ہر سمت مسرت کی گھٹا چھائی ہے
دنیائے محبت پہ بہار آئی ہے
آ ساقیا ہم کیوں نہ کریں بادہ کشی
کیا عیش کا سامان گھٹا لائی ہے
(۸۶)
پلادے ایک ایسا جام ساقی
کہ میں پھر ہوش میں آنے نہ پاؤں
کبھی میں تھا کسی کا، کوئی میرا
یہ دل آزار باتیں بھول جاؤں
(۸۷)
ہاں رخ سے نقاب آج اْٹھا دے ساقی
ہر ذرّے کو مدہوش بنادے ساقی
ساغر نہیں، صہبا نہیں تو غم کیا ہے
آنکھوں ہی سے اک جام پلا دے ساقی
(۸۸)
شاعر کی مندرجہ بالا رباعیات میں ان کادور شباب جھلکتا ہوا اوراْبھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ شراب کے نشے میں وہ محبوب کی جدائی کے غم کو بھی بھلانا چاہتا ہے اور خوشی کوبھی دوبالا کرنے کی آرزو رکھتا ہے۔وہ ساقی کومخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ انھیں ایسی شراب پلائی جائے کہ ان پر نہ اْترنے والی مدہوشی طاری ہوجائے۔شاعرؔصدیقی کے لیے محبوب کی آنکھیں ساغر وصہبا سے کم نہیں ہے۔جن کو وہ محبوب کی آنکھوں کی مانند سمجھتاہے۔اس حوالے سے مزید مثالیں بھی دیدنی ہیں:
پھر کیف و مسرت کا پلا پیمانہ
پیمانہ پلا اور بنا مستانہ
دیتا ہے تجھے دل سے دعا یہ شاعرؔ
ساقی تیرا آباد رہے میخانہ
(۸۹)
آئی نہ مجھے راس محبت ساقی
افسانہ بنی میری حقیقت ساقی
مرنے کی تمنا میں جیے جاتا ہوں
ہستی ہے مری دہر میں عبرت ساقی
(۹۰)
شاعرؔصدیقی مے نوشی میں کیف وسْرور تلاش کرتے ہیںاور باربار ساقی سے شراب مانگنے کاتقاضا کرتے ہیں۔ساقی دراصل شاعر کا محبوب ہوتا ہے جس کو وہ دعا بھی دیتے ہیں کہ ساقی تیرا یہ میخانہ سدا آباد رہے۔
شاعرؔصدیقی کی شاعری میں خمریات پر مبنی اشعار بکھرے ہوئے ملتے ہیں۔اْن کے ہاں اس جہت کی بنیاد محض روایتی ہے۔اس ضمن میں وہ کلاسیکی طرز تحریر اپنائے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔لیکن ایسا لگتاہے کہ وہ آداب مے نوشی سے آگاہ ہیں۔شاعر صدیقی کی نظموں،غزلوں،قطعات اور رباعیات میں شراب اور اس کے متعلقات کاذکر ملتاہے۔لیکن اس حوالے سے اْنہوں نے جس چیزکا خیال رکھا ہے وہ ان کا اخلاقی معیارہے۔اْن کے خمریہ شاعری اخلاق سے گری ہوئی نہیں ہے۔وہ اخترؔ شیرانی کی طرح شراب کے نشے میں ہوش وخرد سے بے گانہ نہیں ہوتے۔اْن کی زندگی سوز کی آواز میں ڈوبی ہوئی ہے۔وہ صرف اپنے دل کے بہلاوے کے واسطے شراب،جام،ساقی،صراحی،پیمانہ اورمینا کا ذکر چھیڑتے ہیں۔اْن کے کسی بھی شعر سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ وہ شراب کے عادی تھے۔ریاض خیر آبادی کی طرح وہ محض شراب کے تذکرے کرتے ہیں۔جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
اخلاقیات
شاعرکی رباعیات میں بھی اخلاقی اقدار کی پاسداری موجود ہے۔اس ضمن میں چند مثالیں قابل دید ہیں۔ ملاحظہ کیجئے:
حالات سے انکار بہت کرتے ہیں
خوفِ رسن و دار بہت کرتے ہیں
ہم لوگ کہ گفتار کے غازی بن کر
اسلام کا پرچار بہت کرتے ہیں
(۹۱)
مٹ سکتی ہے تقدیر کی تحریر اگر
کٹ سکتی ہے آلام کی زنجیر اگر
رونے کو میں تیار ہو ایک عمر تلک
رونے سے بدل سکتی ہے تقدیر اگر
(۹۲)
مندرجہ بالا رباعیات سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ شاعرؔصدیقی تماشائے لب بام کے قائل نہیں ہیں۔وہ حرکت و عمل کی تاکید کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم کردار کے بجائے گفتار کے غازی ہیں۔ اسلامی اقدار اور تعلیمات ہم ضرور پسند کرتے ہیں لیکن اوروں کے لیے۔حرکت وعمل کی تلقین کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ رونے دھونے سے تقدیریں بدل نہیں جایاکرتی اسی طرح اگر زندگی کی مصائب وآلام سے نجات حاصل کی جاسکتی تھی تو زندگی بھررونے کے لیے تیار ہوجائیں۔
باتوں میں زمانے کی نہ آنا ہرگز
اعزازِ محبت نہ گھٹانا ہرگز
چاہت ہے بڑی پاک امانت اے دوست
چاہت پہ کوئی حرف نہ لانا ہرگز
(۹۳)
بے درد زمانے سے شکایت نہ کرو
اس شکل میں توہین محبت نہ کرو
الفت میں مصائب کی فراوانی ہے
الفت میں کبھی خواہش عشرت نہ کرو
(۹۴)
شاعرؔصدیقی محبت میں بھی پاک دامنی کا درس دیتے ہیں کہ اظہار محبت بھی ایک اخلاقی دائرے میں مقید ہوناچاہیے۔ وہ چاہت کو ایک پاک امانت سمجھتے ہیں۔اس لیے وہ یہ نامناسب سمجھتے ہیں کہ ہر کسی کے سامنے اس کا ظہار کیا جائے۔ اس سے محبت کے اعزاز میں کمی آتی ہے۔شاعر کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جو محبت کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اس کے سامنے محبت کے تذکرے کرنا توہین محبت ہے۔محبت میں مشکلات اورتکالیف ہوتی ہیں۔محبت کرنے والے کو عیش ونشاط کی آرزو نہیں رکھنی چاہیے۔شاعرؔصدیقی کے اشعار اخلاقی اقدار شائستگی اور متانت پرمبنی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اْن کے اشعار قاری کو کردار وعمل کی طرف مائل کرتے ہیں۔شاعرؔصدیقی قناعت،توکل،عجز وانکساری،بردباری ،خوداری،مذمت تکبروغرور،مذمت حرص وطمع جیسی اخلاقی قدروں کے نہ صرف خود حامل ہیں بلکہ کہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے ہیں۔ بقول شاعرعلی شاعرؔ:
’’جناب شاعرؔصدیقی بااخلاق،صاحب کردار،ملنسار،ہونے کے ساتھ ساتھ باوقار شخصیت کے مالک بھی۔ان کی زندگی کامطالعہ کرنے سے معقول ہونے اور کلام پڑھنے سے ان کے معروف ہونے کا ثبوت ملتاہے۔کیوں کہ کسی شخص کا معروف ہونا اہم نہیں ہوتا بلکہ اس کا معقول ہونابڑی بات ہوتی ہے۔شاعرؔصدیقی معروف بھی ہے اور معقول بھی۔‘‘(۹۵)
شاعرؔصدیقی چوں کہ ایک فلمی ماحول سے بہت عرصے تک وابستہ رہے ہیں۔لیکن اس ماحول نے شاعرؔکے اخلاقی معیارکو نقصان نہیں پہنچایا ہے۔اْن کا اخلاقی جذبہ ہمیشہ قائم رہا ہے۔شاعرؔصدیقی کا کلام اخلاقی عناصرکے حوالے کافی اہمیت کاحامل ہے۔اْنہوں نے اپنے کلام کوتہذیب و شائستگی کے دائرے میں مقید رکھا ہے۔وہ غرور،تکبر،خودستائی،لالچ،حرص،عداوت،دنیا پراعتبارجیسی برائیوں کی ایک پرخلوص انداز میں اصلاح و مذمت کرتے ہیں جوانسانی ذہن میں فطری طور پر پرورش پارہی ہیں۔مذکورہ بالا عناصر سے وہ انسان کو بازرکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔کہ دنیا کسی صورت میں انسان سے وفانہیں کرتی لہٰذا یہاں صرف سچائی اور اچھائی کام آتی ہے۔شاعرؔصدیقی چوں کہ ایک مخلص انسان ہیں اس لیے انہوں نے ہمیشہ معاشرے کی اصلاح وفلاح کے لیے آواز بلند کی ہے۔
اگرچہ شاعرؔصدیقی کی رباعیات تعداد کے لحاظ کم ہیں لیکن معیار کے لحاظ سے رباعیات کا یہ محدود سرمایہ اپنے فکری موضوعات کے اعتبار سے کافی اہمیت کا حامل ہے۔
گیت
گیت دراصل ایک ہندی صنف ہے۔گیت غنائیہ شاعری کی سب سے پسندیدہ صنف سخن تسلیم کی جاتی ہے۔گیت میں موسیقیت اور شدت جذبات پر زیادہ تر زور دیا جاتاہے کیوں کہ گیت شاعر کے داخلی کفیات کا مظہر ہوتا ہے۔موضوعات کے لحاظ سے گیت کادامن کافی وسیع ہے جس میں عشق ومحبت نسوانی کیفیات کے علاوہ زندگی کی دیگر معملات اور معمولات کو باآسانی بیان کیا جاسکتا ہے۔
گیت میں نغمگی اور موسیقیت کے اختلاط سے سراپائے محبوب اور نسوانی حسن کی تصور کشی کی جاتی ہے۔دیگر اصناف سخن کے مقابلے میں گیت کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ یہ صنف عورت کے حسن ودلکشی اور دل آویزی سمانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔
اْردو گیت کے حوالے شاعرؔصدیقی ایک معروف نام ہے۔اُنھوںنے اُردو کی دوسری اصناف کی طرح گیت بھی لکھے ہیں اور ایک کامیاب گیت نگار تسلیم ہوچکے ہیں۔انھوں نے اْردو فلموں کے لیے بے شمار گیت بھی لکھے ہیں جو برصغیر پاک وہند میں چار دانگ مشہور ومقبول ہوئے۔شاعرؔ نے گیت نگاری کاباقاعدہ آغاز مشرقی پاکستان میں قیام کے دوران کیا تھا جب وہ ڈھاکا فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے۔اْن کے گیتوں نے ہندوستان اور پاکستان کے کئی گلوکاروں کو شہرت کی بلندیوں سے ہمکنار کیا ہے
شاعرؔصدیقی نے اپنے جذبات اور احساسات کا گیت میں جس طرح اظہار کیا ہیان میں انسان کی ذات اور فطرت عیاں ہوچکی ہے۔وہ گیتوں میں انسانی جذبات،احساسات اور خواہشات کے ساتھ ساتھ مناظر فطرت کوبھی بڑی مہارت اور خوش اْسلوبی سے بیان کرتے ہیں۔کلیم رحمانی اْن کی گیت نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’گیت کے سلسلے میں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ گیت کا مزاج اور لب لہجے میں نسوانیت اور نسوانی اْمنگوں،آروزوں ،فراق،وصل،اور جدائی کااظہار ملتا ہے،شاعرؔصدیقی کے گیتوں میں یہ بات نمایاںہے کہ حسین مناظر فطرت عورت کی بے کلی میں اضافہ کرے ہیں اور وہ اپنی محبوب کی آگ میں لگتی رہتی ہے‘‘(۹۶)
عارف منصورشاعرؔکے مجموعہ کلام ’’آنکھوں میں سمندر‘‘پرتبصرہ کرتے ہوئے اْن کے گیتوں کے حوالے سے یوںرقم طراز ہیں:
’’اس مجموعہ کلام میں غزلوں کے علاوہ بہت سی نظمیں،دوہے اور گیت بھی شامل ہیں اور بہت سے گیت وہ ہیں جنہیں صدانصیب ہوچکی ہے اور اپنے ترنم ،طرزادا اور خوبصورت شاعری کے باعث قبول عام کی سند بھی پاچکے ہیں۔حالاں کہ شاعرؔنے خود اعتراف کیا ہے کہ گیت اْنہوں نے دھنیں بنائے جانے کے بعد دیئے ہوئے سانچے میں ڈھالے ہیں۔لیکن میرے خیال میں اْنکی شاعری ان پابندیوں میں بھی عمومی نہیں ہوئی‘‘(۹۷)
شاعر ؔکے گیتوں میں وطن سے محبت،نسوانیت ،طنز ومزاح اور دیگر سماجی مضامین موجود ہیں۔
نسوانیت
شاعرؔکے گیت سراپائے محبوب اور نسوانی حسن سے مملو ہیں۔گیت دراصل نسوانی حسن اور اْمنگوں کے اظہار کا ذریعہ ہے۔اس لیے رومانی جذبہ شاعرکی فکر پر غالب ہوتا ہے۔شاعرؔچوں کہ ایک رومانی شاعر ہیاس لیے اْن کی گیتوں پر بھی رمانی رنگ کافی گہرا دکھائی دیتا ہے:
تمھیں کھینچ لایا مرا جذبۂ دل
نگاہیں چراکر گزرنا ہے مشکل
یہ مہتاب عارض،یہ شب تاب گیسو
یہ شرمیلی آنکھوں میں چاہت کا جادو
مہکتے بدن کی یہ سوندھی سی خوشبو
جھکے کیوں نہ سر خوبصورت ہے قاتل
اجازت اگرہوقدم چوم لوں میں
دھڑکتے ہوئے دل کا پیغام دوں میں
تمہیں میرے محبوب اپنا کہوں میں
تم ہی ہوتم ہی میرے خوابو ںکی منزل (۹۸)
شاعرؔصدیقی اْردو گیت نگاروں میں ایک کامیابگیت نگارمانے گئے ہیں۔ اُن کاشمار ۱۹۷۱ئسے پہلے سابقہ مشرقی پاکستان کے صف اول کے گیت نگاروں میں ہوتاہے۔ان کے گیت اپنے منفر د اسلوب کے بنا پر کافی مشہور ومقبول ہوئے۔ شاعرؔ صدیقی نے فلموں کے لیے ایسے گیت لکھے ہیںجو نورجہاں، فردوسی بیگم، احمد رشدی، عالمگیر اور شہناز بیگم جیسے فنکاروں نے گائے ہیں اور شبنم، ندیم،شبانہ جیسے بڑے اداکاروں پر فلمائے گئے ۔ان گیتوںکا شمار اپنے وقت کے شہرت یافتہ گیتوں میں ہوتا ہے اور آج بھی پسند کیے جاتے ہیں۔ بطور نمونہ ایک مثال دیکھیے جس میں محبوبہ اپنے محبوب کی فرقت میں تڑپتی ہے:
میرے سپنوں میں آکے ،نیندیں چرا کے
دل میرا تڑپاتے ہو
کہوتم مرے کون ہوتے ہو
میری راتوں میں اکثر چاندنی بن کر
سامنے تم آجاتے ہو
جب جب تم کو دیکھتی ہوں میٹھا میٹھا درد جگر میں ہوتا ہے
تم ہی بتاو کون ہے جواپنے دل کا چین خوشی سے کھوتا ہے
میری دھڑکن میں چھپ کے
سانسوں میں بس کے
پیار مجھے سکھلاتے ہو (۹۹)
طنز ومزاح
شاعر کے گیتوں میںعشق وعاشقی کے تذکروں کے ساتھ ساتھ بعض موقعوں پر مزاحیہ عناصر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس ضمن میںاخی بیگؔیوں لکھتے ہیں:
’’شاعرؔصدیقی کے ذخیرے میں عشق ومعاشقے کی چھلیں اٹکھیلیاں کرتی ہے۔طنز ومزاح کے تیر بھی ترکش سے جھانکتے نظر آتے ہیں۔‘‘(۱۰۰)
گیت کا یہ حصہ دیکھئے:
بھوک انسان کو دیوانہ بنادیتا ہے
پیٹ کی آگ جوانی کو جلادیتی ہے
جان من جانِ جگر،خالی پیٹ میرابھردے
لے کے آجا،جان تمنا،حلوہ روٹی اور انڈے
بھلا کرے گا خداتمہار ہم بھوکے کو کھانا کھلاؤ
لاو پراٹھا،شاہی ٹکڑا،مرغ مسلم اور پلاو (۱۰۱)
وطن دوستی
شاعرؔنے شاعری کی جس صنف میں بھی طبع ازمائی کی ہے سب میں وطن سے محبت وعقیدت کاجذبہ ہر جگہ پر پوری شدت کے ساتھ محسوس کیا جاسکتا ہے۔اْنہیں اپنے دیس میں شام کی لالی،سوھنی دھرتی،رنگین فضا،چڑیوں کا چہکنا الغرض ہر موسم پیارا اور سوہانا لگتاہے۔وطن کی مٹی کا ہر ذرہ اْن کی آنکھوں کا تارا ہے:
اپنے دیس کا ہرایک موسم ہم کو پیار لگتاہے
لوبھی اچھی لگتی ہے بادل بھی اچھا لگتا ہے

دھرتی سوھنی دھرتی ہے اس دھرتی کی بات نہ پوچھ
اس کی خاک کا ذرہ ذرہ آنکھ کا تارا لگتا ہے

شام کی لالی یوں لگتی ہے جیسے سہاگن کو جوڑا
بھورے سمے چڑیوں کا چہکنا گیت سہانا لگتا ہے

وہ دیکھو سورج کی کرنیں چوم رہی ہیں پربت کو
دھرتی اور آکاش میں کوئی پیار کا رشتہ لگتاہے
(۱۰۲)
شاعرؔصدیقی نے اُردو کی مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کرتے ہوئے اپنی فکری وفنی پختگی کامظاہر کیاہے۔غزل اورنظم کے بعد انھوں نے اْردوادب کی دیگر مقبول اصناف دوہے،قطعات، رباعیات اور گیتوں کو اپنا وسیلۂ اظہار بنایا ہے۔اْنہوں نے اچھی خاصی تعداد میں دوہے بھی کہے ہیں جو ذاتی کرب کے علاوہ معاشرتی ،تہذیبی،اخلاقی،ناصحانہ اور رومانیت جیسے مختلف مضامین کے آئینہ دار ہیں۔ شاعرؔصدیقی کے قطعات اور رباعیات بھی کثیر الجہت موضوعات پر مبنی ہیں۔اُن کی متفرق شاعری خوبصورت رنگوں کا ایک مرقع ہے اس میں فکر وفن اپنی پوری توانائی کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭

حوالہ جات
۱۔عطاء الرحمٰن،نوریؔ،اْردو اصناف ادب،سیفٹی آفیسٹ،پریس،مایگاوں،۲۰۱۶ء ص۱۱
۲۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،اگست ۲۰۱۹ء ،ص۶۷
۳۔ایضاً،ص،۷۵ ۴۔ایضاً،ص۷۹
۵۔ایضاً،ص۷۹ ۶۔ایضاً،ص۸۰
۷۔ایضاً،ص۸۱
۸۔رفیع الدین ،ہاشمی،اصناف ادب،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۸ئ،ص۲۵
۹۔شہزاداحمد،ڈاکٹر،اْردو نعت پاکستان میں،حمد ونعت ریسرچ فاونڈیشن،اْردو بازار،کراچی،طبع اول،۲۰۱۴ ء ص۰۵
۱۰۔شاعرؔصدیقی،جگرلخت لخت،رنگ ادب بپلی کیشنر کراچی،۲۰۲۱ء ص۵
۱۱۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،اگست ۲۰۱۹ء ،ص۲۸
۱۲۔ایضاً،ص،۸۵ ۱۳۔ایضاً،ص۸۶
۱۴۔ایضاً،ص۸۶ ۱۵۔ایضاً،ص۱۰۸
۱۶۔ایضاً،ص۸۳ ۱۷۔ایضاً،ص۸۴
۱۸۔منصور،عارف،مٹی کادیا،مشمولہ،،، رنگ ادب،شاعرؔصدیقی نمبرجولائی تاستمبر۲۰۰۶ء ص۱۰۱
۱۹۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،اگست ۲۰۱۹ء ،ص۷۲۷
۲۰۔ایضاً،ص۷۲۷ ۲۱۔ایضاً،ص۷۲۷
۲۲۔ایضاً،ص۷۲۷ ۲۳۔ایضاً،ص۷۲۷
۲۴۔ ایضاً،ص۷۳۴ ۲۵۔ ایضاً،ص۷۳۴
۲۶۔ ایضاً،ص۷۳۴ ۲۷۔ ایضاً،ص۷۳۴
۲۸۔ ایضاً،ص۷۳۴ ۲۹۔ ایضاً،ص۷۳۵
۳۰۔ایضاً،ص ۷۳۵
۳۱۔ اظہرقادری،پروفیسر،مشمولہ،قدیم وجدید کا حسین امتزاج، رنگ ادب،شاعرؔصدیقی نمبرجولائی تا ستمبر ۲۰۰۶ ء ص۶۵
۳۲۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،اگست ۲۰۱۹ء ،ص۷۲۳
۳۳۔ایضاً،ص۷۳۳ ۳۴۔ ایضاً،ص۷۳۲
۳۵۔ ایضاً،ص۷۳۲
۳۶۔ ابولاعجاز،صدیقیؔ،کشاف تنقیدی اصطلاحات،مقتدرہ قومی زبان،اْردو،اسلام آباد پاکستان،ص۷۰
۳۷۔انور،فرحادؔ،مشمولہ،شاعرؔصدیقی کی شاعری جذبات کی سچی ترجمانی، رنگ ادب،شاعرؔصدیقی نمبرجولائی تاستمبر۲۰۰۶،ص۳۷
۳۸۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،اگست ۲۰۱۹ء ،ص۷۳۳
۳۹۔ایضاً،ص۷۳۴ ۴۰۔ ایضاً،ص۷۳۴
۴۱۔ ایضاً،ص۷۳۳
۴۲۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،اگست ۲۰۱۹ء ،ص۷۳۶
۴۳۔ایضاً،ص۷۳۶ ۴۴۔ ایضاً،ص۷۳۶
۴۵۔ ایضاً،ص۷۳۷ ۴۶۔ ایضاً،ص۷۳۶
۴۷۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،اگست ۲۰۱۹ء ،ص۷۳۸
۴۸۔ایضاً،ص۷۳۸ ۴۹۔ ایضاً،ص۷۳۸ ۵۰۔ ایضاً،ص۷۳۸
۵۱۔ ایضاً،ص۷۳۰ ۵۲۔ ایضاً،ص۷۳۰ ۵۳۔ ایضاً،ص۷۷۹
۵۴۔ ایضاً،ص۷۷۹ ۵۵۔ ایضاً،ص۷۷۹ ۵۶۔ ایضاً،ص۷۸۲
۵۷۔ ایضاً،ص۷۲۸ ۵۸۔ ایضاً،ص۷۸۳ ۵۹۔ ایضاً،ص۷۸۳
۶۰۔شبیر،ناقدؔ،نقدفن،رنگ ادب پبلی کیشنز ،کراچی پاکستان،ص۲۰۲
۶۱۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،اگست ۲۰۱۹ء ،ص۷۴۲
۶۲۔ ایضاً،ص۷۴۴ ۶۳۔ ایضاً،ص۷۴۵
۶۴۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،اگست ۲۰۱۹ء ،ص۷۹۲
۶۵۔ایضاً،ص۷۹۲ ۶۶۔ایضاً،ص۷۴۴ ۶۷۔ ایضاً،ص۷۴۴
۶۸۔ ایضاً،ص۷۴۳ ۶۹۔ ایضاً،ص۷۴۷ ۷۰۔ ایضاً،ص۷۴۷
۷۱۔ ایضاً،ص۷۸۷ ۷۲۔ایضاً،ص۷۸۶ ۷۳۔ایضاً،ص۷۸۸
۷۴۔ایضاً،ص۷۶۰ ۷۵۔ ایضاً،ص۷۷۶ ۷۶۔ ایضاً،ص۷۷۶
۷۷۔ ایضاً،ص۷۷۷ ۷۸۔ ایضاً،ص۷۵۷ ۷۹۔ ایضاً،ص۷۵۷
۸۰۔ ایضاً،ص۷۴۱ ۸۱۔ ایضاً،ص۷۸۹ ۸۲۔ ایضاً،ص۷۸۹
۸۳۔ایضاً،ص۷۴۶ ۸۴۔ ایضاً،ص۷۴۷ ۸۵۔ ایضاً،ص۷۵۴
۸۶۔ ایضاً،ص۷۶۰
۸۷۔ابولاعجاز،صدیقیؔ،کشاف تنقیدی اصطلاحات،مقتدرہ قومی زبان،اْردو،اسلام آباد پاکستان، ص ۷۹
۸۸۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،اگست ۲۰۱۹ء ،ص۷۸۵
۸۹۔ ایضاً،ص۷۴۷ ۹۰۔ ایضاً،ص۷۸۵ ۹۱۔ ایضاً،ص۷۸۵
۹۲۔ ایضاً،ص۷۵۵ ۹۳۔ ایضاً،ص۷۸۹ ۹۴۔ ایضاً،ص۷۸۹
۹۵۔ ایضاً،ص۷۸۸ ۹۶۔ ایضاً،ص۷۸۸
۹۷۔شاعرعلی،شاعرؔ،ادرایہ،مشمولہ،رنگ ادب،شاعرؔصدیقی نمبرجولائی تاستمبر۲۰۰۶ء ص۸
۹۸۔شاعرؔصدیقی،رنگ ادب شاعرؔصدیقی نمبر،رنگ ادب پبلی کیشز کراچی،جولائی تاستمبرص۹۶
۹۹۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،اگست ۲۰۱۹ء ،ص۵۰۸
۱۰۰۔ایضاً،ص۵۵۹
۱۰۱۔شاعرؔصدیقی،جگرلخت لخت،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۲ء ص۱۱۸
۱۰۲۔شاعرؔصدیقی،کلیات شاعرؔصدیقی،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۹ء ،ص۵۴۷
٭٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...