Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > شاعر صدیقی کی فکری جہتیں > شاعرصدیقی کا اختصاص

شاعر صدیقی کی فکری جہتیں |
حسنِ ادب
شاعر صدیقی کی فکری جہتیں

شاعرصدیقی کا اختصاص
ARI Id

1689956774273_56117785

Access

Open/Free Access

Pages

۱۶۳

شاعر صدیقی کا اختصاص
دبستان کراچی کے شعری اْفق پر اْبھرنے والے ادباء و شعرانے اْردو شعری اور نثر ی ادب کے سرمایے میں ناقابل فراموش حصہ ڈالاہے۔جن میں اُن شعرا کا بھی اہم کردار رہا ہے جنہوں نے برصغیر کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے سرزمین پاکستان سے اپنی بے لوث محبت کا ثبوت دیا ۔شاعری کے میدان کے شہسواروں میں ایک اہم نام شاعرؔصدیقی کابھی ہے جنہوں نے محض ایک صنفِ سخن کو اپنی پہچان نہیں بنایا بلکہ ہرصنف میں خودکو ایک اعلیٰ درجے کا شاعر ثابت کیا ہے۔
شاعرؔصدیقی کی پرورش کلکتے کے ادبی ماحول میں ہوئی جہاں اْنہیں وطن کے معروف شعرا کی صحبت میں بیٹھے کا موقعہ ملا اور بہت کم سنی میں شاعری کی طرف مائل ہوئے۔اْن کے ابتدائی کلام میں ایک پختہ کار سخن ورکے آثار نظر آنے لگے جس کے سبب سے وہ بہت جلد مشہور ہونے کے ساتھ ساتھ مقبول بھی ہوئے اور اْن کی غزلیں مختلف ادبی جرائد میں شائع ہونے لگیں۔پاکستان بننے کے بعد شاعر نے ۱۹۵۰ء میں کلکتہ سے ڈھاکا ہجرت کی اوریہاں پہ سرکاری ملازمت کے ساتھ صحافت اور فلمی دنیا سے بھی وابستہ ہوگئے۔یہاں سے اْن کی شاعری کا دوسرا اورسنہرا دور شروع ہوتا ہے اس دورمیںاُن کی شاعری فکروفن کی پختگی کو پہنچی ہے۔ڈھاکا میں وہ ایک ممتاز شاعر،ادیب اور صحافی کی حیثیت سے مشہور ہوگئے۔فلم انڈسٹری کے لیے اْنہوں نے جو گیت لکھے وہ چار دانگ ِعالم مشہورہو ئے۔شاعرؔصدیقی کاشمار ۱۹۷۱ئسے قبل مشرقی پاکستان کے مقبول گیت نگاروں میں ہوتا تھا۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد شاعرؔصدیقی نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ نیپال سے ہوتے ہوئے کراچی ہجرت کی جو اْن کی زندگی کا سب سے بڑا سانحہ تھا کیوں کہ گھر بار اجڑنے کے ساتھ ساتھ اْن کا شعری اور نثری سرمایہ بھی اْس سانحہ کی نظر ہوگیا۔کراچی میں آکر اْن کا شعری ذوق کئی سال ماندپڑارہا ۔ پھر انھوں نے اس سفر کونئے سرے سے شروع کرنے کا عہد کیالیکن اس بار اْن کی فکر اس رومانی فضا سے نکل کر ایک ایسی دنیا سے جڑ گئی جو حقیقت کے قریب تھی۔
شاعرؔصدیقی کے ہاں بنیادی خوبی یہ ہے کہ وہ معاشرے میں ظلم وتشدد اور نانصافی کو برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔جہاں بھی معاشرتی شکستگی کو دیکھتے ہیں اس کے خلاف انقلابی نعرہ ضرور بلندکرتے ہیں۔لیکن اْن کے انقلابی نعروںمیں تہذیب اور اخلاقی اقدار کی پاس داری جھلکتی ہے جو اْن کی شخصیت کے مثبت پہلوؤں کا مظہر سمجھاجاتا ہے۔اْنہوں نے سچائی کو اپنا مذہب سمجھا ہے۔لبوں پہ حق بات لانے سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔اس حقیقت پسندانہ رجحان نے شاعرؔصدیقی کو ماضی کے بعض اکابرشعرا کی صف میں کھڑ ا کردیا ہے۔
شاعرؔکے کلام کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اْنہوں نے اپنے عہد کے خارجی اور سماجی مسائل کا بھر پوراحاطہ کیا ہے۔تقسیم ہندو مسلم فسادات سے لے کراچی کے عہد نو کے جدید مسائل کا نوحہ اْن کی شاعری میں ملتاہے۔اِن تمام عوامل کے اظہار میں شاعرؔ روایتی انداز کی پاس داری بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
شاعرؔصدیقی کی نظم گوئی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ ایک کامیاب نظم گو شاعر بھی ہیں۔اْن کی نظموں کی تعداد اگرچہ کم ہے لیکن یہ کئی ادوار کے عروج اور زاوال کا ایسا آئینہ ہے جس میں اْس عہد کے سماج کے ہر مثبت اور منفی پہلو ؤں کو دیکھا جاسکتا ہے۔شاعرؔکی نظموں میں موضوعات کا تنوع ہے۔ حمدو نعت کے علاوہ ان میں سقوط ڈھاکا،قومی وملی،فلسفہ زندگی،اتحادالمسلمین، جنگی، انقلابی، سیاسی اور مناظر فطرت کے علاوہ اور بھی داخلی اورخارجی عناصر دیکھے جاسکتے ہیں۔شاعرؔکی نظموں کے موضوعات فکری گہرائی وگیرائی،فکری بہاؤ اور وسعت اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔یہ نظمیں اْن کے زرخیزذہن کا ثبوت ہیں،جبکہ خوش اْسلوبی میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔وہ نئے مضامین کی تلاش میں اپنے قاری کو اپنے فکر وتخیل کے بہاؤ میں سمیٹ کرساتھ لے جاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جس موضوع کو زیر بحث لاتے ہیں وہ اس پر پوری طر ح سے علمی گرفت بھی رکھتے ہیں۔اُن کی نظموں کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ اْنہوں نے فیض احمد فیضؔ کی ڈکشن میںتوسیع کی ہے تاہم اْن کے ہاں کُلی طور پر تقلید کے آثار نظر نہیں آتے اور نہ یہ احساس ہوتا ہے۔کیوں کہ اْن کے ہاں تخلیقی جواہر کا فقدان نہیں۔وہ ہر مضمون کو جذبات کی حدت،احساس کی شدت کے ساتھ فکر وتخیل کی گہرائی میں اْتر کر کہتے ہیں۔نظم میں جہاں انہوں نے انقلابی اورملی وقومی نظمیں کہی ہیں وہاں اْن کے جذبے میںروانی اور شدت پائی جاتی ہے۔جس کا اثر قاری کو گرفت میںلے لیتا ہے۔اُنھوںنے زندگی کے حقائق کی عکاسی بڑی خوش اْسلوبی سے کی ہے۔سماجی مسائل پر طنز یہ اظہار اْن کی شاعری میں دیکھا جاسکتا ہے۔وہ معاشرے میں پھیلنے والی بے اعتدالیوں، ناانصافی اور ظلم وتشدد کو نوکِ قلم پر لانے کے قائل ہیں۔
شاعرصدیقی مشرقی پاکستان میں ایک رومانی شاعرؔکی حیثیت سے شہرت رکھتے تھے۔اُس دور کی تمام تر تخلیقات پر رومانی فکر غالب ہے۔رومان پسندی شاعرؔکی فکر کا وہ دریچہ ہے جس سے اْن کی داخلی کفیات و جذبات اور دورِ شباب کو دیکھا جاسکتا ہے۔اْن کی عشقیہ اوررومانی شاعری فکر ونظر کی بلندی اور تقدس کی متحمل ہے۔
شاعرؔصدیقی نے کافی تعداد میں دوہے،قطعات اور رباعیات بھی کہی ہیں جن میں فکر وفن کی ہم آہنگی ملتی ہے۔اْن کے دوہوں میں اخلاقی،مذہبی،معاشرتی،تہذیبی،ناصحانہ ،حقیقت نگاری اور عشقیہ مضامین شامل ہیں۔اْنہیں نظم اور غزل کے ساتھ ساتھ دوہاکہنے پر پورا عبور حاصل ہے۔دوہا نگاری میںاْن کا انداز دیگر دوہانگاروں سے مختلف ہے۔کیوں کہ ان کے دوہے شعری لذت سے لبریز ہیں جس کی تاثیرروح میں اترجانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔دوہوں میں شاعرؔ کا اندازِبیان نہایت سادہ اور دلکش ہے۔شاعرؔ صدیقی کے دوہوں میں قوم اور مٹی سے محبت کا جذبہ پوری شدت کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
شاعرؔصدیقی نے کافی تعداد میں قطعات بھی لکھے ہیں۔یہ قطعات بھی متنوع موضوعات پر مشتمل ہیں۔ان میں حمدیہ اور نعتیہ قطعات کے علاوہ شخصی قطعات بھی شامل ہیں۔انہوں نے عصری حالات کو بڑی سادگی اور عمدگی سے شعر کے قالب میں ڈھالا ہے۔زندگی میں وہ جن حالات اور تلخ تجربات سے گزرے ہیں اْنہیں سچائی کے ساتھ اپنے قطعات میں بیان کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اْن کے قطعات نے عوامی مقبولیت حاصل کی ہے۔
شاعرؔصدیقی نے رباعی پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔اْنہوں نے رباعی کی جانب بہت کم توجہ دی ہے۔قطعات کی طرح رباعیات بھی المیہ مشرقی پاکستان کے پس منظر میں لکھی گئی ہیں۔جن میں ہجرت کا دکھ درد،اپنوں سے دور ہوجانے کا غم اوردیگر سماجی اور معاشرتی واقعات وحادثات پر مضامین شامل ہیں۔ الغرض شاعرؔصدیقی کی ہر صنف سخن میں کرب کی آہ وفغاں سنائی دیتی ہے۔ان عمیق مشاہدات وتجربات نے اُن کی شاعری کو پر تاثیر بنادیاہے۔جس کے سبب اْن کاکلام پڑھنے سے دل پر نہ مٹنے والے نقوش ثبت ہوتے ہیں۔
شاعرؔصدیقی کے تمام شعری اصناف کے فکری وفنی زاویوں سے یہ بات ضرور عیاں ہوجاتی ہے کہ وہ ایک کامیاب اور قدآور شاعر ہیں،کیوں کہ اْنہوں نے جس صنف کو بھی اپنا وسیلہ اظہار بنایا ہے اس میں فکر کی عظمت اور فن کی پختگی واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔
شاعرؔصدیقی کو شہرت سے متصف کردینے والی چیزاْن کی گیت نگاری بھی ہے۔وہ۱۹۷۱ء سے پہلے مشرقی پاکستان کے ممتاز اور کامیاب گیت نگار کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔اس ضمن میں یہاں تک کہا جاسکتا ہے کہ اْن کے بعض گیت ایسے بھی ہیں جنہوں نے شاعرؔصدیقی سے بھی زیادہ شہرت حاصل کی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اْن کے بعض گیت ایسے ہیں جن کو لوگ جانتے اور سنتے ہیں لیکن کسی کو یہ نہیں معلوم کہ ان گیتوں کے خالق شاعرؔصدیقی ہیں۔شاعرؔکے زیادہ تر گیت فلمی گیت ہیں ۔اس سبب سے ان گیتوں میں نسوانی جذبوں اور اْمنگوں کا اظہار زیادہ ملتا ہے۔اس کے علاوہ شاعرکے گیتوں میں معاشرتی اور معاشی مسائل کے تذکرے بھی موجود ہیں جو شاعرکی اپنے سماج سے گہری وابستگی کے مظہر ہیں اْنہوں نے یہ مسائل کبھی طنز ومزاح کی صورت میں توکبھی سنجیدہ انداز میں بیان کیے ہیں۔شاعر وطن کی مٹی سے بے لوث عقیدت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے اْن کے گیت بھی حبِ وطن سے خالی نہیںہیں ،جن میں اْنہوں نے دیس کے موسموں،سوھنی دھرتی،شام کی لالی،چڑیوں کے چہکنے، سورج کی کرنوں اور خاک کے ہرذرّے سے پیارو محبت کا اظہار کیا ہے۔
ایک طرف اگر شاعرؔصدیقی نے اپنی شاعری میں فکری جہات کی دنیا آباد کی ہے تو دوسری طرف بہترین اْسلوب و روش اور فن کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا ۔شاعرؔنے اپنے کلام میں فنی تقاضوں کا پورا پورا خیال رکھاہے۔فنِ شاعری پر انہیں مضبوط گرفت حاصل ہے۔ان تمام فکری رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے شاعرؔنے اپنی فنی پختگی کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔جس نے اْن کی شعری تاثیر کو مزید جلا بخشی ہے۔کلام میں سادگی کے ساتھ پختگی بھی ہے۔کہیں اْن کا لہجہ تیز اور کہیں دھیما ہے لیکن جہاں پراْن کا انداز بیان دھیما وہاں پر اشعار میں غضب کی تاثیر پیداہوئی ہے۔کلام میں یہ فن کاری اْن کی شاعرانہ عظمت کی دلیل ہے ۔
اہل فن اور معلمین ادب نے شاعرؔصدیقی کو بنیادی طور پر غزل کا شاعر تسلیم کیا ہے جبکہ بعض نقادوں نے آپ کو ایک کامیاب گیت نگار گردانا ہے۔اس بات سے بڑی حد تک اتفاق کیا جاسکتا ہے کیوںکہ اْن کی شاعری فن وفکر کے ہر معیارپر پوری طرح اْترنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ویسے تو شاعرؔصدیقی ہر صنف پر پوری قدرت اور گرفت رکھتے ہیں اور کامیاب بھی نظرآتے ہیں لیکن اْن کا اصل میدان غزل ہے۔کیوں کہ دیگر اصناف کے مقابلے میں اْنہوں نے غزل گوئی پر زیادہ توجہ دی ہے۔ بلاشبہ شاعرؔصدیقی کی شاعری میں وہ تمام خصوصیات اور فنی محاسن پائے جاتے ہیں جو شاعری کوترفع اور بلندی سے ہمکنار کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...