Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

فصل اول: قرآن حکیم میں آیات استفہام کی ضرورت واہمیت
ARI Id

1695203136242_56118236

Access

Open/Free Access

قرآن مجید فصاحت و بلاغت کےاعتبار سے ایک مثالی کتاب ہے۔علم معانی ہو یا علمِ بیان یا علم بلاغت کے ماہرین نے اس کی لسانی وادبی خصوصیات کو نگارشات کا موضوع بنایا ہے۔ فصاحت و بلا غت کی انہی خوبیوں کی بنا پر قرآن مجید کو کلام مبین بھی کہا گیا ہے۔ قرآن مجید میں جہاں ایجاز و اطناب اور ربط و مساوات کے اسالیب نظر آتے ہیں، وہیں تقدیم و تاخیر اور حذف کے اسلوب بھی نمایاں ہیں۔ قرآن مجید کے مختلف و منفرد اسالیب میں سے ایک اہم اسلوب ِ استفہام ہے۔
استفہام عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی سوال کرنے، جاننے،فہم حاصل کرنے اور استفسار کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ادب میں استفہام کسی حقیقت سے مخاطب کو آگاہ کرنے ، مخاطب کو غورو فکر کی دعوت دینا، اور اپنی بات کا ثبات کرنا وغیرہ کے معنوں میں مستعمل ہے۔چنانچہ قرآن مجید میں بھی استفہام کا اسلوب بکثرت استعمال کیا گیا ہے۔
قرآن میں استفہامیہ اسلوب کے مقاصد
قرآن حکیم میں استفہام کا اسلوب کثرت سے استعمال کیا گیا ہے ۔ مخاطب میں آمادگی پیدا کرنے، غور وفکر کی دعوت دینے، مخاطب کو جواب سننے کےلیے آمادہ کرنے ، اور مخاطب سے کسی حقیقت کا اقرار کرانے کے لیے یہ اسلوب استعمال کیا گیا ہے ۔ استفہام ،اثبات کے ذریعے بھی کیا گیاہے اور منفی اندازِ استفہام بھی نظر آتاہے ۔علاوہ ازیں تاکید، ترغیب ،توبیخ،تحقیر، عبرت اندوزی، شان و شوکت کے اظہار اور التفات و نوازش کے لیے بھی اسے استعمال کیا گیاہے ۔ یہ اقرار و امر کےمعنی میں بھی آیاہے اوراظہار تعجب کے لیے بھی۔ حسرت کے انداز میں بھی اور بانداز استعجاب و استہزاء بھی۔ مسلسل استفہام بھی قرآن میں استعمال کیا گیا ہے ۔ مذکورہ بالا مقاصد وحکمتوں اور اس کے منفرد استعمال پر ذیل میں بحث کی گئی ہے ۔
استفہام ۔مخاطب کی توجہ و آمادگی کا حصول
قرآن نےمخاطب میں آمادگی پیدا کرنے کے لیے بعض اوقات اپنی گفتگو کا آغاز سوال سے کیا ہےاور پھر جواب کی صورت میں مدعا بیان کیاہے ۔ اس طرح سامعین کو متوجہ کرنے کے لیے بہترین موقع پیدا کیا ہے ۔ سورۃ المعارج میں آخرت اور احوال آخرت کاتفصیل کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے ۔ اتنے اہم مضامین کے لیے آمادگی اورتوجہ کی اشد ضرورت تھی جس کی بنا پر قرآن نے سوال سے آغاز کیا ہے اورانداز یہ اختیار کیا ہے کہ لوگ سوال سے زیادہ جواب کی طرف متوجہ ہوں۔ " سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ" " [1] (ایک مانگنے والے نے وہ عذاب مانگا ہے )اس کا جواب طویل دیا گیا جس کے سننے کے لیے مخاطبین میں دلچسپی پیدا ہونا فطری امر ہے ۔ قرآن حکیم نے سوال کر کے مخاطب کو جواب سننے کے لیے آمادہ کیا۔ یوں گویا قرآن نے اپنی دعوت اور تعلیم کے لیے ایک نفسیاتی تکنیک استعمال کی ۔[2]
حقیقت کا اقرار
استفہام کا ایک بلیغ موقع استعمال وہ بھی ہے جب مخاطب سے کسی ایسی بات کا اقرار کرانا ہو جس کی نوعیت ہو تو ایک بدیہی حقیقت کی لیکن مخاطب اس کو تسلیم کرنے کے باوجود عملاً اس سے منحرف ہو۔ جیسے آیت ذیل :
" هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا" "[3]
"انسان پر کبھی ایسا وقت آیاہے کہ نہیں جب وہ کوئی قابل چیز نہیں تھا" کی تفسیر میں مولانا امین اصلاحی کانقطہ نظر ہے یہ محض ایک سادہ خبریہ جملہ نہیں ہے بلکہ اس کے اندر بہت سے معانی مضمر ہیں۔ مثلاً:
۱۔ ایک عظیم حق کی یاددہانی ہے جو اس پر عائد ہوتا ہے اور جس سے اس کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہے لیکن اس کا رویہ اس کے منافی ہے۔
۲۔اس میں ملامت ' غصہ ' رنج اور اظہار حسرت کے بھی گوناگوں پہلو ہیں۔
۳۔اس میں نہایت مبنی برحقیقت گلہ و شکوہ بھی ہے اور نہایت موثر اپیل بھی۔
۴۔ استفہامیہ اسلوب نے اس حسن فکر کو بیدار کرنا چاہا ہے کہ انسان کی نظروں سے خدا اوجھل ہے تو اس کا اپنا وجود تو اوجھل نہیں ہے ' وہ خود اپنے اندر خدا کی قدرت و حکمت اور اس کے عدل و رحمت کی نشانیاں دیکھ سکتا ہے۔[4]
" قُلْ لِمَنْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلْ لِلَّهِ" "[5]
"ان سے پوچھوکہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کی ملکیت ہے(پھر اگر وہ جواب نہ دیں توخود ہی )کہہ دو کہ اللہ ہی کی ملکیت ہے"۔
مولانا امین احسن اصلاحی کی تحقیق کےمطابق قرآن مجید میں جہاں جہاں سوال کر کے مخاطب کے جواب کا انتظار کیے بغیر خود اس کا جواب دیا ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان مواقع میں اصل جواب سے مخاطب کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر اس کا کوئی عقیدہ یا عمل اس کے خلاف ہے تو وہ خود اس کے اپنے مسلمہ اصول کے خلاف ہے۔ جواب میں سبقت سے اس امر کا بھی اظہار ہوجاتا ہے کہ بہرحال اصل حقیقت کا اظہار کردیا جائے قطع نظر اس سے کہ مخاطب اس کے جواب میں کیا ہٹ دھرمی اختیار کرتا ہے۔[6]
اسی مصنف [7] کے نزدیک قرآن حکیم کی بعض آیات میں مذکور سوالیہ جملوں میں مقصود استفہام اورسوال و جواب نہیں بلکہ افہام،اتمام حجت اور زجر وتنبیہ ہوتا ہے ۔ متکلم پورے زور بیان کے ساتھ سوالیہ اندا ز میں حقائق کو پیش کرتاجاتاہے اور مخاطب کی طرف سے کسی جواب کا انتظار کیے بغیر آگے بڑھ جاتا ہے گویا اس کی تردید کے لیےکوئی گنجائش سرے سے ہے ہی نہیں ۔ جیسے درج ذیل آیت:
" أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ " ۔"[8]
"بھلا بتاؤ ؟ کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ کس نے آسمان سے بارش برسائی ؟ پھر اس سے ہرے بھرے بارونق باغات اگائے ؟ ان باغوں کے درختوں کو تم ہرگز نہ اگا سکتے، کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے ؟ بلکہ یہ لوگ ہٹ جاتے ہیں سیدھی راہ سے"۔
" هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ" "[9]
"کیا اللہ کے سوا اور کوئی بھی خالق ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی پہنچائے ؟"۔
مذکور آیت کے الفاظ کے ضمن میں عبید اللہ فہد فراہی کی تحقیق یہ ہے کہ یہاں خبر ''یرزقکم'' ہے جو فعل مضارع ہے اور یہ تجدید کا فائدہ دے رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خالق اللہ ہی ہے وہی زمین و آسمان سے نت نئے حالات میں بھی رزق دیتا ہے اور مسلسل رزق رسانی کا کام وہی انجام دے رہا ہے ، تو خلقت کی صفت کسی دوسری ہستی کی طرف کیسے منسوب ہو سکتی ہے ۔ اگر یہاں ''رازق لکم'' کے الفاظ ہوتے تو مفہوم بدل جاتا اس لیے کہ اسم توصفت کے ثبوت کا فائدہ دیتا ہے ۔ [10]
مثبت ومنفی استفہام اور دعوت غور وفکر
استفہام اثبات کے ذریعے بھی ہوتا ہے اور نفی کے ذریعے بھی سیاق و سباق سے اس کی تعیین ہوتی ہے مثلاً مثبت استفہام کے لیے قرآن مجید میں مندرجہ ذیل آیت دیکھیں:
" أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ" ۔[11]
"کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع کریں گے ہی نہیں"۔
قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات منفی انداز استفہام کی مثال پیش کرتی ہیں :
" أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ"۔ [12]
"کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا پھر وہ باریک بین اور باخبر ہو"۔
ڈاکٹر ظہیر احمد صدیق کےبقول قرآن پاک میں استفہام انکاری کا استعمال مخاطب کو اپنے اعتقادات کوشک کی نظر سے دیکھنے اور غور وفکر کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ [13] جیسے:
" أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارًا وَجَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ۔أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ ۔أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ، أَمَّنْ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَمَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ "۔ [14]
"بھلا بتاؤ ؟ کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ کس نے آسمان سے بارش برسائی ؟ پھر اس سے ہرے بھرے بارونق باغات اگائے ؟ ان باغوں کے درختوں کو تم ہرگز نہ اگا سکتے، کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے ؟ بلکہ یہ لوگ ہٹ جاتے ہیں (سیدھی راہ سے) ۔ کیا وہ جس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے درمیان نہریں جاری کردیں اور اس کے لیے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان روک بنادی کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے ؟ بلکہ ان میں سے اکثر کچھ جانتے ہی نہیں۔ بےکس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے، کون قبول کر کے سختی کو دور کردیتا ہے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بنانا ہے کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبود ہے ؟ تم بہت کم نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہو۔ کیا وہ جو تمہیں خشکی اور تری کی تاریکیوں میں راہ دکھاتا ہے اور جو اپنی رحمت سے پہلے ہی خوشخبریاں دینے والی ہوائیں چلاتا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے جنہیں یہ شریک کرتے ہیں ان سب سے اللہ بلند وبالا تر ہے۔ کیا وہ جو مخلوق کی اول دفعہ پیدائش کرتا ہے پھر اسے لوٹائے گا اور جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزیاں دے رہا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے کہہ دیجئے کہ اگر سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ"۔
" فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا"[15]
"سو کیا یہ اسی دستور کے منتظر ہیں جو اگلے لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے ۔ سو آپ اللہ کے دستور کو کبھی بدلتا ہوا نہ پائیں گے اور آپ اللہ کے دستور کو کبھی منتقل ہوتا ہوا نہ پائیں گے"۔یہاں ''ھل'' نفی کے معنوں میں ہے ۔
" أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ " "[16]
"کیا تم میں سےکوئی یہ پسند کرےگا کہ وہ اپنےمرے بھائی کا گوشت کھائے؟"۔
یہ استفہام انکاری ہے جو نفی کو پختہ کر رہاہے ۔[17]
حسب ذیل آیت میں سوالیہ اسلوب، غور وفکر کی دعوت لیے ہے :
" أَفَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ (۶۶)أُفٍّ لَكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ" [18]
"اللہ کے خلیل نے اسی وقت فرمایا افسوس ! کیا تم اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ بھی نفع پہنچا سکیں نہ نقصان۔ تف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ کیا تمہیں اتنی سی عقل نہیں "۔
یہاں استفہامیہ اسلوب خود اس امر کی دلیل ہے کہ آگے جوبات کہی جا رہی ہے وہ اہمیت رکھنےوالی ہے اس کو ہر شخص سنے اور گوش دل سےسنے۔
استفہام بمقصد تاکید
ڈاکٹر عبید اللہ فہد فراہی کی نظر میں بعض اوقات استفہام سےسوال کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ تاکید کےلیے بھی یہ اسلوب استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں استفہام کایہ اسلوب تاکید وتعظیم کے معنی میں بہت استعمال ہوا ہے ۔ [19] سورۃ القیامہ میں مندرجہ ذیل آیات میں استفہام کا زور دیکھیے:
" أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنَى ، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى ، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى ، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى "۔ [20]
"کیا وہ ایک گاڑھے پانی کا قطرہ نہ تھا جو ٹپکایا گیا تھا ؟ پھر لہو کا لوتھڑا ہوگیا پھر اللہ نے اسے پیدا کیا اور درست بنادیا۔ پھر اس سے جوڑے یعنی نر مادہ بنائے۔ کیا (اللہ تعالیٰ ) اس (امر) پر قادر نہیں کہ مردے کو زندہ کر دے"۔
: " هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا "[21]
"انسان پر کبھی ایسا وقت آیاہے کہ نہیں جب وہ کوئی قابل چیز نہیں تھا) اس سورۃ کی ابتداء استفہام ،تاکید ،تقریر اورانسانی قلب کو ایک نرم لمس کے ساتھ ہوئی ہے "۔ (۲۷)
استفہام بمقصد ترغیب وعبرت اندوزی
"وَلَقَدْ تَرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ "[22]
ہم نےاس واقعہ کو عبرت کے لیے رہنے دیا کیا کوئی نصیحت حاصل کرنےوالا ہے )۔ یہ استفہام ترغیبی ہے ۔ یعنی استفہام سےعبرت اندوزی پر آمادہ کرنا اورنصیحت پذیری کی ترغیب دینامقصود ہے ۔[23]
استفہام بمعنی اقرار
بعض اوقات استفہام اقرار کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ مقصد غور و تدبر کے بعد مخاطب کو اقرار واعتراف پر آمادہ کرنا ہے۔ قرآنی ادب میں اسلوب کے بڑے عمدہ طریقے سےاستعمال کیا گیا ہے ۔ جیسے :
"أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا"[24]
"کیاوہ بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو (١) تم میں سے جو بھی ایسا کرے، اس کی سزا اس کے سوا کیا ہو کہ دنیا میں رسوائی) اس آیت میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل سے ان کا یہ جرم باور کرانا چاہتاہے کہ تمہاری ازل سے یہ کوشش رہی ہے کہ تم کتاب کے اس حصے پر ایمان لاتے ہو جو تمہاری خواہشات کےمطابق ہو اور جو تمہاری ہوائےنفس کی تکمیل میں رکاوٹ بنے اس کا انکار کر دیتے ہو کیا تمہارے یہ رویہ نہیں رہا ہے" ۔
"أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ ، وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ"[25]
"کیا اس نے ان لوگوں کی ساری چالیں بیکار نہیں کر دی تھیں؟ او ران پرغول کے غول پرندے چھوڑ دیے تھے"۔
یہاں سوال کرنا مقصود نہیں بلکہ مخاطب کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ ایسا ہو چکاہے ۔
" قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ (۹۵) وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ"۔[26]
"تو آپ نے فرمایا تم انہیں پوجتے ہو جنہیں (خود) تم تراشتے ہو حالانکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے "۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی کی فکر کی مطابق یہاں سوال کرنا مقصود نہ تھا کیونکہ حضرت ابراہیم﷤ کو ان بتوں کی حقیقت معلوم تھی مقصد اس امر کا اعتراف کرانا تھا کہ یہ تمہاری عقل باختگی اور شامت زدگی ہے کہ اپنے ہی ہاتھوں کی گھڑی ہوی لکڑی اور پتھر کی مورتیوں کی پوجا کرتے ہو ۔
نمرودی قوم حضرت ابراہیم﷤سے اس طرح سوال کرتی ہے : "أَأَنْتَ فَعَلْتَ هَذَا بِآلِهَتِنَا يَاإِبْرَاهِيمُ"۔[27]
"وه بولے ابراہیم،کیا ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت تم نے ہی کی ہے؟"
یہاں قوم یہ اعتراف کروانا نہیں چاہتی تھی یہ بتوں کے توڑنے کا فعل سرزد ہو چکا ہے بلکہ یہ اقرار کروانا چاہتی تھی کہ ابراہیم نے انہیں توڑا ہے ۔
"أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا"۔ [28]
"کیا ہم نے زمین کو ایک بچھونا نہیں بنایا"۔
قاضی کی رائے میں یہ استفہام تقریری نہیں بلکہ استفہام کی غرض یہ ہے کہ مخاطب کو اقرار وعبادت پر آمادہ کیا جائے۔[29]
استفہام بمعنیٰ تعجب
استفہامیہ اسلوب تعجب کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے آیت کریمہ:
"يَاأَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ"۔ [30]
"اے انسان تجھے کس چیز نے اپنے اس پروردگار کے معاملے میں دھوکا لگا دیا ہے جو بڑا کرم والا ہے ) میں استفہامیہ اسلوب اظہار تعجب کے لیے ہے کہ اگر خدا تمہیں برابر ڈھیل دے رہا ہے تو تم نے اس ذات کریمی سے بہت سخت دھوکا کھایا"۔
" أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ"[31]
"کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو اکٹھا نہیں کر سکیں گے؟"
"أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى "[32]
"کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟"۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ حیرت و استعجاب کے ساتھ کہ رہا ہے کہ انسان آفاق وانفس کی تمام نشانیوں اور اپنی خلقت و ممات کو دیکھتے ہوئے بعث بعد الموت کے بارے میں شک میں پڑا ہوا ہے کیا اسے یہ پوری کائنات نظر نہیں آتی۔ کیا اسے غیر مسؤل چھوڑ دیا جائے گا۔
" مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ"[33]
"تمہیں کیا ہو گیا ہے ‎؟ تم کیسی باتیں طے کر لیتے ہو "۔
یہ متکبرین سے بانداز تعجب سوال ہے کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کس طرح کے فیصلے کرنے لگے ہو کہ آخرت اور جزا سزا کو نہیں مانتے ۔
" لِأَيِّ يَوْمٍ أُجِّلَتْ ، لِيَوْمِ الْفَصْلِ"۔ [34]
"اس معاملے کو کس دن کے لیے ملتوی کیا گیا ہے ؟ ( تو جواب یہ ہے کہ ) فیصلے کے دن کے لیے"۔
یہ استفہام نامعلوم چیز کو معلوم کرنے کےلیے نہیں بلکہ مجاز تعجب اور روز قیامت کی ہولناکی کو ظاہر کرنے کے لیے ہے ۔
"وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الْفَصْلِ"۔ [35]
"اور تمہیں کیا معلوم کہ فیصلے کا دن کیا چیز ہے "۔
یہ تعجب بالائے تعجب یوم الفصل کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔
استفہام بمعنی امر
بسااوقات استفہام امر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ذیل کی آیت:
"إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ"۔ [36]
"شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے ، اب بتاؤ کہ کیا تم ان چیزوں سے باز آ جاؤ گے"۔
اس آیت میں ''فھل انتم منتھون '' در اصل ''انتھوا عنھا'' کے معنی میں مستعمل ہے ۔
"فَإِلَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا أُنْزِلَ بِعِلْمِ اللَّهِ وَأَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَهَلْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ"۔[37]
"اس کے بعد اگر یہ تمہاری بات قبول نہ کریں تو (اے لوگو) یقین کر لو کہ یہ وحی صرف اللہ کےحکم سے اتری ہےاور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، تو کیا اب تم فرما بردار بنو گے"۔
جناب فلاحی کی رائے میں آیت مذکور میں ''فھل انتم مسلمون'' استفہام کے معنی میں نہیں بلکہ امر کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے یعنی ''اسلموا لھذا لاکتاب و آمنو '' ۔[38]
" قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَهْلَكَنِيَ اللَّهُ وَمَنْ مَعِيَ أَوْ رَحِمَنَا"[39]
"اے پیغمبر ان سے کہو کہ ذرا یہ بتلاؤ کہ چاہے اللہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کر دے یا ہم پر رحم فرما دے"۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی کے مطابق ''ارءیتم'' میں ابتدائی ہمزہ استفہام تقریری کے لیے ہے ۔ رؤیئت سے مراد ہے جاننا۔ رائیتم کا صیغہ اگرچہ ماضی ہے لیکن اس کا معنی ہے مجھے بتاؤ یعنی امر کے معنی میں ہے ۔ [40]
اس اسلوب میں امر کے ساتھ زجر ، موعظت ،تاکید و تنبیہ اور اتمام حجت کا مضمون بھی پیدا ہو جاتا ہے ۔ جیسے سورۃ مائدہ کی حسب ذیل آیت:
" يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ، إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ "[41]
"اے ایمان والو، شراب جوا، بتوں کے تھان اور جوئے کے تیر سب ناپاک شیطانی کام ہیں لہٰذا ان سےبچو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو، شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض کے بیچ ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے ، اب تباؤ کہ کیا تم ان چیزوں سے باز آ جاؤگے؟"۔
اس اسلوب کلام میں غور کرنے کے بعد مولانا اصلاحی نے رائے دی ہے کہ اسلوب کلام اعلان کر رہا ہے کہ شراب اور جوئے کے مفاسد کی تفصیل اتنے مختلف مواقع پر اور اتنے مختلف پہلوؤں سے تمہارے سامنے آ چکے ہیں کہ اب اس معاملے میں کسی اشتباہ کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ تو بتاؤ اب بھی اس سے بعض آتے ہو یانہیں؟ ظاہر ہے امر کے اس سادہ اسلوب میں یہ سارا مضمون نہیں سما سکتا تھا۔[42]
مولانا امین اصلاحی کی رائے میں جب امر کے اندر ترغیب و تشویق اور تحریض کا مضمون پیدا کرنا ہو تو وہ انشائیہ اسلوب کے قالب میں آنے کے بجائے خبر یہ اسلوب کے قالب میں آتا ہے اور اس پر حرف استفہام کا ورود اس میں مزید زور پیدا کر دیتا ہے ۔ اس اسلوب میں امر کی جگہ استفہام کو استعمال کرنے میں یہی حکمت اور بلاغت کار فرما ہے ۔ [43]
خطبات ِ استفہامیہ کے اسرار و حکم و امثال
قرآن مجید میں کثیر آیاتِ مبارکہ ہیں جن میں استفہامیہ اندازِ خطاب اپنایا گیا ہے ۔ چونکہ قرآنِ مجید کا یہ اعجاز ہے کہ اس میں بہت سے اسرار و رموز چھپے ہیں جو کہ گرائمر اور علوم و فنون کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ لہذا فصل ہذا میں قرآن مجید سےحروف ِ استفہامیہ اور اسمائے استفہامیہ پر مشتمل آیات کو نقل کیا جائے گا اور تفسیری اسرار و حکم کو بیان کیا جائے گا۔
حروفِ استفامیہ پر مشتمل آیاتِ قرآنی کے اسرار و حکم
قرآن ِ مجید کثیر آیات میں جملہ استفہامیہ میں اللہ نے خطاب فرمایا جن میں سے کچھ آیات کی امثال پیش کی جاتی ہیں:
۱۔ہمزہ استفہامیہ
حضرت ِ یوسف ﷤ کے بھائی جب یوسف ﷤ کے پاس گئے اوربھائیوں نے جب عزیز مصر کی زبان سے اس یوسف علیہ السلام کا تذکرہ سنا، جسے انہوں نے بچپن میں کنعان کے ایک تاریک کنویں میں پھینک دیا تھا، تو وہ حیران بھی ہوئے اور غور سے دیکھنے پر مجبور بھی کہ کہیں ہم سے ہم کلام بادشاہ، یوسف علیہ السلام ہی تو نہیں؟ ورنہ یوسف علیہ السلام کے قصے کا اسے کس طرح علم ہو سکتا ہے؟ چنانچہ انہوں نے سوال کیا کہ کیا تو یوسف علیہ السلام ہی تو نہیں؟ارشادِ ربانی ہے:
۱-"ءَاِنَّكَ لَاَنْتَ يُوْسُفُ قَالَ اَنَا يُوْسُفُ وَهٰذَآ اَخِيْ ، قَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا اِنَّه مَنْ يَّتَّقِ وَيَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ"۔ [44]
"کیا تو ہی یوسف ہے کہا میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے اللہ نے ہم پر احسان کیا بے شک جو ڈرتا ہے اور صبر کرتا ہے تو اللہ بھی نیکوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔"
دوسرے مقام پر اللہ نے ارشاد فرمایا:
۲-"ءَاَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَهَآ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِٔوْنَ "۔ [45]
"کیا تم نے اس کا درخت پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرنے والے ہیں"۔
کہا جاتا ہے کہ عرب میں دو درخت مرخ اور عفار ہیں اگران دونوں سے ٹہنیاں لے کر ان کو آپس میں رگڑا جائے تو اس سے آگ کے شرارے نکلتے ہیں ۔انہی سے متعلق اللہ نے استفہامیہ انداز میں فرمایا: کیا تم نے اس کا درخت پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرنے والے ہیں۔
۲۔ھل استفہامیہ
جب اللہ تعالیٰ مجرموں کو جہنم میں ڈالیں گے تو پھر اس سے پوچھیں گے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
۱-"هَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ هَلْ مِنْ مَّزِيْدٍ "۔[46]
"کیا تو بھر چکی اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے۔ "
اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ایک یہ کہ " میرے اندر اب مزید آدمیوں کی گنجائش نہیں ہے۔ " دوسرے یہ کہ " اور جتنے مجرم بھی ہیں انہیں لے آیئے " پہلا مطلب لیا جائے تو اس ارشاد سے تصور یہ سامنے آتا ہے کہ مجرموں کو جہنم میں اس طرح ٹھونس ٹھونس کر بھر دیا گیا ہے اس میں ایک سوئی کی بھی گنجائش نہیں رہی، حتیٰ کہ جب اس سے پوچھا گیا کی کیا تو بھر گئی تو وہ گھبرا کر چیخ اٹھی کہ کیا ابھی اور آدمی بھی آنے باقی ہیں؟
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جہنم سے اللہ تعالیٰ کے اس خطاب اور اس کے جواب کی نوعیت کیا ہے؟ کیا یہ محض مجازی کلام ہے؟ یا فی الواقع جہنم کوئی ذی روح اور ناطق چیز ہے جسے مخاطب کیا جا سکتا ہو اور وہ بات کا جواب دے سکتی ہو؟ اس معاملہ میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا ممکن کہ یہ مجازی کلام ہو اور محض صورت حال کا نقشہ کھینچنے کے لیے جہنم کی کیفیت کو سوال و جواب کی شکل میں بیان کیا گیا ہو، لیکن یہ بات بھی بالکل ممکن ہے کہ یہ کلام مبنی بر حقیقت ہو ۔ اس لیے کہ دنیا کی جو چیزیں ہمارے لیے جامد و صامت ہیں ان کے متعلق ہمارا یہ گمان کرنا درست نہیں ہو سکتا کہ وہ ضرور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی ویسی ہی جامد و صامت ہوں گی۔ خالق اپنی ہر مخلوق سے کلام کر سکتا ہے اور اس کی ہر مخلوق اس کے کلام کو جواب دے سکتی ہے خواہ ہمارے لیے اس کی زبان کتنی ہی ناقابل فہم ہو ۔دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا:
"هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ الْغَاشیَةِ۔ [47]
"کیا تمہیں اس چھا جانے والی آفت کی خبر پہنچی ہے ؟"۔
چھا جانے والی آفت سے مراد ہے قیامت ، یعنی وہ آفت جو سا رے جہاں پر چھا جائے گی۔ اس مقام پر یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ یہاں بحیثیت مجموعی پورے عالم آخرت کا ذکر ہو رہا ہے جو نظام عالم کے درہم برہم ہونے سے شروع ہو کر تمام انسانوں کے دوبارہ اٹھنے اور اللہ تعالی کی عدالت سے جزا و سزا پانے تک تمام مراحل پر حاوی ہے۔
آیاتِ قرآنی کے اسرار و حکم
قرآن ِ مجید میں متعدد مقامات پر مختلف اسمائے استفہامیہ کا استعمال کیا گیا ہے جو مختلف مقاصد کے پیش نظر بیان ہوئے ہیں، ذیل میں اہم اسمائے استفہامیہ کے استعمالات اور مقاصد و ضرورت کو بیان کیا جاتا ہے:
اسم ِ استفہامیہ :مَن (کون) عاقل کے لیے استعمال ہوتا ہےارشارِ ربانی ہے:
"مَنْ يَّاْتِيْكُمْ بِمَاءٍ مَّعِيْنٍ"۔ [48]
"کون ہے جو اس پانی کی بہتی ہوئی سوتیں تمہیں نکال کر لادے گا ؟ "۔
یعنی کیا خدا کے سوا کسی میں یہ طاقت ہے کہ ان سوتوں کو پھر سے جاری کر دے؟ اگر نہیں ہے، اور تم جانتے ہو کہ نہیں ہے، تو پھر عبادت کا مستحق خدا ہے، یا تمہارے وہ معبود جو انہیں کاری کرنے کی کوئی قدرت نہیں رکھتے؟ اس کے بعد تم خود اپنے ضمیر سے پوچھو کہ گمراہ خدائے واحد کو ماننے والے ہیں یا وہ جو شرک کر رہے ہیں؟
اسم ِ استفہامیہ :أي (کونسا) عاقل اور غیر عاقل دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہےارشارِ ربانی ہے:
"اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا "۔[49]
اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ کون زیادہ عمل کرتا ہے بلکہ فرمایا کون زیادہ اچھے عمل کرتا ہے۔ اس لیے کہ اچھا عمل وہ ہوتا ہے جو صرف رضائے الہی کی خاطر ہو اور دوسرا یہ کہ وہ سنت کے مطابق ہو ۔ ان دو شرطوں میں سے ایک شرط بھی فوت ہو جائے گی تو وہ اچھا عمل نہیں رہے گا، پھر وہ چاہے کتنا بھی زیادہ ہو، اللہ کے ہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔
اسم ِ استفہامیہ :ما/ماذا (کیا) غیر عاقل کے لیے استعمال ہوتا ہے:
ارشارِ ربانی ہے:
"وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ۔ [50]
"اور تو نے کیا سمجھا کہ کیا ہے شب قدر"۔
اس استفہام سے اس رات کی عظمت و اہمیت واضح ہے، گویا کہ مخلوق اس کی تہ تک پوری طرح نہیں پہنچ سکتی، یہ صرف ایک اللہ ہی ہے جو اس کو جانتا ہے۔
سو اس رات کی عظمت شان کے اظہار و بیان کے لیے بطور استفہام ارشاد فرمایا گیا کہ تم کیا جانو کیا ہے قدر کی وہ رات؟ استفہام تعظیم و تفخیم کے لیے ہے، یعنی وہ رات بڑی عظیم الشان رات ہے اتنی بڑی اس کی عظمت شان اور اس کے مرتبہ و مقام کا از خود اندازہ کرنا بھی کسی کے لیے ممکن نہیں، اسی لیے صحیح احادیث کی رو سے اس رات میں عبادت کرنا گزشتہ تمام گناہوں کی تکفیر و بخشش کا ذریعہ ہے۔
اسم ِ استفہامیہ :أین؟
(کہاں؟)
ارشارِ ربانی ہے:
"أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ"۔[51]
"کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم بڑا دعوی کرتے تھے؟"۔
یعنی وہ بت یا اشخاص ہیں، جن کو تم دنیا میں میری الوہیت میں شریک گردانتے تھے، انھیں مدد کے لئے پکارتے تھے اور ان کے نام کی نذر نیاز دیتے تھے، آج کہاں ہیں؟ کیا وہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں اور تمہیں میرے عذاب سے چھڑا سکتے ہیں؟ یہ تقریع وتوبیخ کے طور پر اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا، ورنہ وہاں اللہ کے سامنے کس کی مجال ہوگی؟
اسم ِ استفہامیہ :متی؟(کب)
ارشارِ ربانی ہے:
"مَتٰى ھٰذَا الْفَتْحُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ "۔ [52]
"یہ فیصلہ کب ہوگا، اگر تم سچے ہو تو بتلاؤ"۔
پہلے فرمایا تھا کہ ان کا فیصلہ قیامت کے دن کیا جائے گا۔ اس پر منکرین کہتے ہیں کہ قیامت قیامت کہے جاتے ہو، اگر سچے ہو تو بتاؤ وہ دن کب آچکے گا۔ مطلب یہ ہے کہ خالی دھمکیاں ہیں قیامت وغیرہ کچھ بھی نہیں ۔
اسم ِ استفہامیہ :کیف؟ (کیسے)
ارشارِ ربانی ہے:
"كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا"۔[53]
"لو بھلا ہم گود کے بچے سے باتیں کیسے کریں؟۔"
سیدہ مریم نے فرشتہ کی ہدایت کے مطابق ان کی کڑوی کسیلی باتوں میں سے کسی کا جواب نہ دیا بلکہ اس نومولود بچے کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ خود جواب دے گا۔ اس بات پر لوگ اور زیادہ برہم ہوئے اور کہنے لگے ایک تو خود مجرم ہو دوسرے ہمارا مذاق اڑاتی ہو ۔ یہ بچہ جو ابھی پیدا ہوا ہے بھلا ان باتوں کا کیا جواب دے سکتا ہے؟
اسم ِ استفہامیہ :کم؟(کتنا)
ارشارِ ربانی ہے:
"كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرْنٍ فَنَادَوْا وَلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ"۔ [54]
" کتنی ہی امتوں کو ہم (عذاب سے) ہلاک کر چکے ہیں سو انہوں نے (ہلاکت کے وقت) بڑی ہائے پکار کی اور وہ وقت خلاصی کا نہ تھا"۔
یعنی ان کو معلوم رہنا چاہیے کہ اسی غرور وتکبر کی بدولت انبیاء اللہ سے مقابلہ ٹھان کر بہت سی جماعتیں پہلے تباہ و برباد ہو چکی ہیں وہ لوگ بھی مدتوں پیغمبروں سے لڑتے رہے۔ پھر جب برا وقت آ پڑا اور عذاب الٰہی نے چاروں طرف سے گھیر لیا تو گھبرا کر شور مچانے اور خدا کو پکارنے لگے۔ مگر اس وقت فریاد کرنے سے کیا بنتا۔ خلاصی کا موقع گزر چکا تھا، اور وقت نہیں رہا تھا کہ ان کے شوروبکاء کی طرف توجہ کی جائے۔
اسم ِ استفہامیہ :أیان کب؟
ارشارِ ربانی ہے:
"يَسُلوْنَک اَيَّانَ يَوْمُ الدِّيْنِ"۔[55]
"پوچھتے ہیں کہ یوم جزا کب ہوگا ؟"۔
یعنی انکار اور ہنسی کے طور پر پوچھتے ہیں کہ ہاں صاحب! وہ انصاف کا دن کب آئے گا ؟ آخر اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے؟
اسم ِ استفہامیہ :أنّٰی کہاں؟
ارشادِ ربانی ہے:
"اَنّٰى لَهُمُ الذِّكْرٰى وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُوْلٌ مُّبِيْنٌ"۔ [56]
"ان کے لئے نصیحت کہاں ہے؟ کھول کھول کر بیان کرنے والے پیغمبر ان کے پاس آچکے"۔
رسولِ مُبین کے دو مطلب ہیں ۔
ایک یہ کہ اس کا رسول ہونا اس کی سیرت، اس کے اخلاق و کردار اور اس کے کارناموں سے عیاں ہے۔
دوسرا یہ کہ اس نے حقیقت کو کھول، کھول کر بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔اُس وقت یہ ماننے کا کوئی فائدہ نہیں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اس وقت ان کے لیے نصیحت کا کوئی موقع کہاں باقی رہا جبکہ اس سے پہلے آچکے انکے پاس کھول کر بیان کرنے والے ایک عظیم الشان رسول " ۔ ایسے عظیم الشان رسول جن کی صداقت و حقانیت روز روشن کی طرح واضح تھی۔ اور واضح ہے۔ مگر پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائے تو اس کے بعد اب کیسے اور کیا ایمان لائیں گے؟ سو اس وقت ان کی تذلیل و تخجیل کیلئے اللہ کی طرف سے انکو یہ جواب دیا جائے گا۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ اِعلانِ حق کے پہنچ جانے اور اس کے دیکھ لینے کے بعد ایمان لانے اور نصیحت قبول کرنے کا موقع کہاں باقی رہے گا۔ بالخصوص جبکہ انکے پاس اِتمامِ حجت کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا عظیم الشان رسول بھی پہنچ گیا جس نے انکے سامنے حق کو پوری طرح واضح کرکے اور نکھار کر بیان کر دیا تھا۔ لیکن انہوں نے اس کی بات کو مان کر نہ دیا سو ایمان لانے کا وہ موقع جب گزر گیا تو اب بے وقت کے اس ایمان سے ان کو کوئی فائدہ آخر کیسے اور کیونکر پہنچ سکتا ہے۔
نتیجہ بحث
فصل ہذا کے مطالعہ سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید فصاحت و بلا غت کے اعتبار سے بے مثل کتاب ہے۔ علم معانی، علمِ بیان اور علم بلاغت کے ماہرین نے اس کی لسانی و ادبی خصوصیات کو اپنی نگارشات کا موضوع بنایا ہے۔قرآن مجید کے اسالیبِ بیان اپنی اثر پذیری میں بے مثل ہیں۔التفات، تجانس ،تشابہ،تضاد، مغایرت، سجع، نظم اور استفہام اہم اسالیب شمار ہوتے ہیں۔اسلوبِ استفہام ، متعدد حِکم و فوائد کا حامل ہونے کے باوصف، ارسالِ دعوت کا منفرد اسلوب ہے۔ درحقیقیت سوالیہ انداز ، مخاطب کی توجہات کو پوری طرح مبذول کرنے اور حصولِ آمادگی کا اہم ذریعہ ہیں۔ قرآن مجید میں استفہام کسی حقیقیت کے اثبات اور نفی دونوں کیلئے استعمال کیا گیا ہے، اور غورو فکر پر آمادہ کیا گیا ہے۔تاکید واقرار ، ترغیب و عبرت پذیری،، تحقیر و توبیخ اور تعجب و نوازش کے مقاصد کے تحت اس کا استعمال ہوا ہے۔قرآن مجید میں آیات استفہام کا منفرد ادبی اسلوب موجود ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...