Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

حقیقت کا اقرار
ARI Id

1695203136242_56118239

Access

Open/Free Access

حقیقت کا اقرار
استفہام کا ایک بلیغ موقع استعمال وہ بھی ہے جب مخاطب سے کسی ایسی بات کا اقرار کرانا ہو جس کی نوعیت ہو تو ایک بدیہی حقیقت کی لیکن مخاطب اس کو تسلیم کرنے کے باوجود عملاً اس سے منحرف ہو۔ جیسے آیت ذیل :
" هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا" “[ ]
"انسان پر کبھی ایسا وقت آیاہے کہ نہیں جب وہ کوئی قابل چیز نہیں تھا" کی تفسیر میں مولانا امین اصلاحی کانقطہ نظر ہے یہ محض ایک سادہ خبریہ جملہ نہیں ہے بلکہ اس کے اندر بہت سے معانی مضمر ہیں۔ مثلاً:
۱۔ ایک عظیم حق کی یاددہانی ہے جو اس پر عائد ہوتا ہے اور جس سے اس کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہے لیکن اس کا رویہ اس کے منافی ہے۔
۲۔اس میں ملامت ‘ غصہ ‘ رنج اور اظہار حسرت کے بھی گوناگوں پہلو ہیں۔
۳۔اس میں نہایت مبنی برحقیقت گلہ و شکوہ بھی ہے اور نہایت موثر اپیل بھی۔
۴۔ استفہامیہ اسلوب نے اس حسن فکر کو بیدار کرنا چاہا ہے کہ انسان کی نظروں سے خدا اوجھل ہے تو اس کا اپنا وجود تو اوجھل نہیں ہے ‘ وہ خود اپنے اندر خدا کی قدرت و حکمت اور اس کے عدل و رحمت کی نشانیاں دیکھ سکتا ہے۔[ ]
" قُلْ لِمَنْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلْ لِلَّهِ" “[ ]
"ان سے پوچھوکہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کی ملکیت ہے(پھر اگر وہ جواب نہ دیں توخود ہی )کہہ دو کہ اللہ ہی کی ملکیت ہے"۔
مولانا امین احسن اصلاحی کی تحقیق کےمطابق قرآن مجید میں جہاں جہاں سوال کر کے مخاطب کے جواب کا انتظار کیے بغیر خود اس کا جواب دیا ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان مواقع میں اصل جواب سے مخاطب کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر اس کا کوئی عقیدہ یا عمل اس کے خلاف ہے تو وہ خود اس کے اپنے مسلمہ اصول کے خلاف ہے۔ جواب میں سبقت سے اس امر کا بھی اظہار ہوجاتا ہے کہ بہرحال اصل حقیقت کا اظہار کردیا جائے قطع نظر اس سے کہ مخاطب اس کے جواب میں کیا ہٹ دھرمی اختیار کرتا ہے۔[ ]
اسی مصنف [ ] کے نزدیک قرآن حکیم کی بعض آیات میں مذکور سوالیہ جملوں میں مقصود استفہام اورسوال و جواب نہیں بلکہ افہام،اتمام حجت اور زجر وتنبیہ ہوتا ہے ۔ متکلم پورے زور بیان کے ساتھ سوالیہ اندا ز میں حقائق کو پیش کرتاجاتاہے اور مخاطب کی طرف سے کسی جواب کا انتظار کیے بغیر آگے بڑھ جاتا ہے گویا اس کی تردید کے لیےکوئی گنجائش سرے سے ہے ہی نہیں ۔ جیسے درج ذیل آیت:
" أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ " ۔“[ ]
"بھلا بتاؤ ؟ کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ کس نے آسمان سے بارش برسائی ؟ پھر اس سے ہرے بھرے بارونق باغات اگائے ؟ ان باغوں کے درختوں کو تم ہرگز نہ اگا سکتے، کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے ؟ بلکہ یہ لوگ ہٹ جاتے ہیں سیدھی راہ سے"۔
" هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ" “[ ]
"کیا اللہ کے سوا اور کوئی بھی خالق ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی پہنچائے ؟"۔
مذکور آیت کے الفاظ کے ضمن میں عبید اللہ فہد فراہی کی تحقیق یہ ہے کہ یہاں خبر ’’یرزقکم‘‘ ہے جو فعل مضارع ہے اور یہ تجدید کا فائدہ دے رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خالق اللہ ہی ہے وہی زمین و آسمان سے نت نئے حالات میں بھی رزق دیتا ہے اور مسلسل رزق رسانی کا کام وہی انجام دے رہا ہے ، تو خلقت کی صفت کسی دوسری ہستی کی طرف کیسے منسوب ہو سکتی ہے ۔ اگر یہاں ’’رازق لکم‘‘ کے الفاظ ہوتے تو مفہوم بدل جاتا اس لیے کہ اسم توصفت کے ثبوت کا فائدہ دیتا ہے ۔ [ ]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...