1695203136242_56118241
Open/Free Access
استفہام بمقصد تاکید
ڈاکٹر عبید اللہ فہد فراہی کی نظر میں بعض اوقات استفہام سےسوال کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ تاکید کےلیے بھی یہ اسلوب استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں استفہام کایہ اسلوب تاکید وتعظیم کے معنی میں بہت استعمال ہوا ہے ۔ [[1]] سورۃ القیامہ میں مندرجہ ذیل آیات میں استفہام کا زور دیکھیے:
" أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنَى ، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى ، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى ، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى "۔ [[2]]
"کیا وہ ایک گاڑھے پانی کا قطرہ نہ تھا جو ٹپکایا گیا تھا ؟ پھر لہو کا لوتھڑا ہوگیا پھر اللہ نے اسے پیدا کیا اور درست بنادیا۔ پھر اس سے جوڑے یعنی نر مادہ بنائے۔ کیا (اللہ تعالیٰ ) اس (امر) پر قادر نہیں کہ مردے کو زندہ کر دے"۔
: " هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا “[[3]]
"انسان پر کبھی ایسا وقت آیاہے کہ نہیں جب وہ کوئی قابل چیز نہیں تھا) اس سورۃ کی ابتداء استفہام ،تاکید ،تقریر اورانسانی قلب کو ایک نرم لمس کے ساتھ ہوئی ہے "۔ (۲۷)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |