Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

استفہام بمعنی اقرار
ARI Id

1695203136242_56118243

Access

Open/Free Access

Pages

10

استفہام بمعنی اقرار

بعض اوقات استفہام اقرار کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ مقصد غور و تدبر کے بعد مخاطب کو اقرار واعتراف پر آمادہ کرنا ہے۔ قرآنی ادب میں اسلوب کے بڑے عمدہ طریقے سےاستعمال کیا گیا ہے ۔ جیسے :

"أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا”[[1]]

"کیاوہ بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو (١) تم میں سے جو بھی ایسا کرے، اس کی سزا اس کے سوا کیا ہو کہ دنیا میں رسوائی) اس آیت میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل سے ان کا یہ جرم باور کرانا چاہتاہے کہ تمہاری ازل سے یہ کوشش رہی ہے کہ تم کتاب کے اس حصے پر ایمان لاتے ہو جو تمہاری خواہشات کےمطابق ہو اور جو تمہاری ہوائےنفس کی تکمیل میں رکاوٹ بنے اس کا انکار کر دیتے ہو کیا تمہارے یہ رویہ نہیں رہا ہے" ۔

"أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ ، وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ"[[2]]

"کیا اس نے ان لوگوں کی ساری چالیں بیکار نہیں کر دی تھیں؟ او ران پرغول کے غول پرندے چھوڑ دیے تھے"۔

یہاں سوال کرنا مقصود نہیں بلکہ مخاطب کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ ایسا ہو چکاہے ۔

" قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ (۹۵) وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ"۔[[3]]

"تو آپ نے فرمایا تم انہیں پوجتے ہو جنہیں (خود) تم تراشتے ہو حالانکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے "۔

قاضی ثناء اللہ پانی پتی کی فکر کی مطابق یہاں سوال کرنا مقصود نہ تھا کیونکہ حضرت ابراہیم﷤ کو ان بتوں کی حقیقت معلوم تھی مقصد اس امر کا اعتراف کرانا تھا کہ یہ تمہاری عقل باختگی اور شامت زدگی ہے کہ اپنے ہی ہاتھوں کی گھڑی ہوی لکڑی اور پتھر کی مورتیوں کی پوجا کرتے ہو ۔

نمرودی قوم حضرت ابراہیم﷤سے اس طرح سوال کرتی ہے : "أَأَنْتَ فَعَلْتَ هَذَا بِآلِهَتِنَا يَاإِبْرَاهِيمُ"۔[[4]]

"وه بولے ابراہیم،کیا ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت تم نے ہی کی ہے؟"

 یہاں قوم یہ اعتراف کروانا نہیں چاہتی تھی یہ بتوں کے توڑنے کا فعل سرزد ہو چکا ہے بلکہ یہ اقرار کروانا چاہتی تھی کہ ابراہیم نے انہیں توڑا ہے ۔

"أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا"۔ [[5]]

"کیا ہم نے زمین کو ایک بچھونا نہیں بنایا"۔

قاضی کی رائے میں یہ استفہام تقریری نہیں بلکہ استفہام کی غرض یہ ہے کہ مخاطب کو اقرار وعبادت پر آمادہ کیا جائے۔[[6]]



[[1]]         القرآن ،۲: ۸۵۔

[[2]]          القرآن ، ۱۰۵: ۲۔۳۔

[[3]]         القرآن ،۳۷: ۹۵۔ ۹۶۔

[[4]]          القرآن ،۲۱: ۶۲۔

[[5]]         القرآن ،۷۸: ۶

[[6]]         پانی پتی، ثناء اللہ، تفسیر مظہری، ۱۱/ ۱۷۹۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...