Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

استفہام بمعنی امر
ARI Id

1695203136242_56118245

Access

Open/Free Access

Pages

13

استفہام بمعنی امر

بسااوقات استفہام امر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ذیل کی آیت:

"إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ"۔ [[1]]

"شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے ، اب بتاؤ کہ کیا تم ان چیزوں سے باز آ جاؤ گے"۔

اس آیت میں ’’فھل انتم منتھون ‘‘ در اصل ’’انتھوا عنھا‘‘ کے معنی میں مستعمل ہے ۔

"فَإِلَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا أُنْزِلَ بِعِلْمِ اللَّهِ وَأَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَهَلْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ"۔[[2]]

"اس کے بعد اگر یہ تمہاری بات قبول نہ کریں تو (اے لوگو) یقین کر لو کہ یہ وحی صرف اللہ کےحکم سے اتری ہےاور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، تو کیا اب تم فرما بردار بنو گے"۔

جناب فلاحی کی رائے میں آیت مذکور میں ’’فھل انتم مسلمون‘‘ استفہام کے معنی میں نہیں بلکہ امر کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے یعنی ’’اسلموا لھذا لاکتاب و آمنو ‘‘ ۔[[3]]

" قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَهْلَكَنِيَ اللَّهُ وَمَنْ مَعِيَ أَوْ رَحِمَنَا”[[4]]

"اے پیغمبر ان سے کہو کہ ذرا یہ بتلاؤ کہ چاہے اللہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کر دے یا ہم پر رحم فرما دے"۔

قاضی ثناء اللہ پانی پتی کے مطابق ’’ارءیتم‘‘ میں ابتدائی ہمزہ استفہام تقریری کے لیے ہے ۔ رؤیئت سے مراد ہے جاننا۔ رائیتم کا صیغہ اگرچہ ماضی ہے لیکن اس کا معنی ہے مجھے بتاؤ یعنی امر کے معنی میں ہے ۔ [[5]]

اس اسلوب میں امر کے ساتھ زجر ، موعظت ،تاکید و تنبیہ اور اتمام حجت کا مضمون بھی پیدا ہو جاتا ہے ۔ جیسے سورۃ مائدہ کی حسب ذیل آیت:

" يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ، إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ “[[6]]

"اے ایمان والو، شراب جوا، بتوں کے تھان اور جوئے کے تیر سب ناپاک شیطانی کام ہیں لہٰذا ان سےبچو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو، شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض کے بیچ ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے ، اب تباؤ کہ کیا تم ان چیزوں سے باز آ جاؤگے؟"۔

اس اسلوب کلام میں غور کرنے کے بعد مولانا اصلاحی نے رائے دی ہے کہ اسلوب کلام اعلان کر رہا ہے کہ شراب اور جوئے کے مفاسد کی تفصیل اتنے مختلف مواقع پر اور اتنے مختلف پہلوؤں سے تمہارے سامنے آ چکے ہیں کہ اب اس معاملے میں کسی اشتباہ کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ تو بتاؤ اب بھی اس سے بعض آتے ہو یانہیں؟ ظاہر ہے امر کے اس سادہ اسلوب میں یہ سارا مضمون نہیں سما سکتا تھا۔[[7]]

مولانا امین اصلاحی کی رائے میں جب امر کے اندر ترغیب و تشویق اور تحریض کا مضمون پیدا کرنا ہو تو وہ انشائیہ اسلوب کے قالب میں آنے کے بجائے خبر یہ اسلوب کے قالب میں آتا ہے اور اس پر حرف استفہام کا ورود اس میں مزید زور پیدا کر دیتا ہے ۔ اس اسلوب میں امر کی جگہ استفہام کو استعمال کرنے میں یہی حکمت اور بلاغت کار فرما ہے ۔ [[8]]



[[1]]         القرآن ،۵: ۹۱۔

[[2]]          القرآن ،۱۱: ۱۴۔

[[3]]         فلاحی، ڈاکٹر عبید اللہ فہد، قرآن مبین کے ادبی اسالیب، ص ۱۳۷۔

[[4]]          القرآن ، ۶۷: ۲۸۔

[[5]]         پانی پتی، تفسیر مظہری، ۱۲/ ۲۱۔

[[6]]         القرآن ،۵: ۹۰۔ ۹۱۔

[[7]]         اصلاحی، تدبرِ قرآن، ۲/ ۵۹۱۔

[[8]]         فلاحٰ ڈاکٹر عبید اللہ فہد، قرآن مبین کے ادبی اسالیب، ص ۱۳۷۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...