Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

قرآنی استفہامی اسلوب کے مقاصد
ARI Id

1695203136242_56118271

Access

Open/Free Access

Pages

28

۹قرآنی استفہامی اسلوب کے مقاصد

قرآن مجید میں خدا اور مخلوق کے تعلق کو واضح کرنے کے لئے انسانی زبان میں سے زیادہ تر الفاظ بطور انداز بیان، مصطلحات اور استعارے استعمال کئے گئے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس کا اسلوب بیان بھی انسانی فکر و نظر اور ذوق سلیم کے مطابق ہے۔ یعنی قرآن مجید کا یہ منفرد اندازِ بیان ہر نفس کو فرداً فرداً یکساں طور پر متاثر کرتا ہے اور پڑھتے وقت یہی باور کراتا ہے کہ قرآن اس کے قلب پر نازل ہو رہا ہے۔ قرآن مجید کے مختلف اسالیب کی طرف خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرما یا :

"نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَيْنَـآ اِلَيْكَ هٰذَا الْقُرْاٰنَ" ۔[[1]]

" (اے محمدؐ) ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہترین پیرائے میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں"۔

قرآن حکیم کو دینی فیوض و برکات کے ساتھ ساتھ زبان و بیان اور منفرد اسلوب کے لحاظ سے بھی دنیائے علم و ادب میں غیر معمولی عظمت و بڑائی کا شرف حاصل ہے اور کفار‘ منکرین حق اور مشرکین کے فصحا و حکماء نور حق سے نابینا اور لذت و وحدت سے ناآشنا ہونے کے باوجود قرآن مجید فرقان حمید کی ادبی لسانی خوبیوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔تاریخی شواہد سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے بعد بڑے بڑے ادباء وشعراء کی زبانوں پرمہر لگ گئی۔ اس کی ایک عمدہ مثال جاہلی دور کے شاعر معلقات لبید بن ربیعہ ہے جس کے شعروں پر اس کے معاصرین نے کئی بار سجدۂ تہنیت کیا اور اُسے خراج تحسین سے نوازا، اور وہی شاعر قرآن پاک سے مسحور ہو کر شاعری ہی ترک دیتے ہیں اور اسلام قبول کرتے ہیں۔

قرآن کا اسلوب ایک منفرد اسلوب ہے ۔ اِس میں نثر کی سادگی اور ربط و تسلسل ہے، لیکن اِسے نثر نہیں کہا جا سکتا ۔ یہ نظم کا غنا ،موسیقی اور حسن تناسب اپنے اندر لیے ہوئے ہے ،لیکن اِسے نظم بھی نہیں کہہ سکتے ۔یہ اِس طرح کی کوئی کتاب بھی نہیں ہے، جس طرح کی کتابوں سے ہم واقف ہیں اور جن میں ابواب و فصول قائم کر کے کسی ایک موضوع یا موضوعات پر بحث کی جاتی ہے ۔اہل عرب اِسے کبھی شاعری کہتے اور کبھی کاہنوں کے سبحع سے مشابہ ٹھہراتے تھے ، لیکن اُن کا یہ تردد ہی واضح کر دیتا ہے کہ وہ خود بھی اپنی اِس بات سے مطمئن نہیں تھے۔ اِس منفرد کلام میں دریاؤں کی روانی ہے ، سمندروں کا زور ہے ، حسن استدلال کی ندرتیں ہیں، ربط معنی کی ادائیں ہیں ،مثالیں ہیں ،قصے ہیں ، تہدید و زجر اورعتاب کے گوناگوں اسالیب ہیں ،افسوس ہے ،حسرت ہے ،شدت یقین ہے ، اور اعراض کے مختلف انداز ہیں ۔

قرآن کے بلند پایہ اور اعلیٰ مقام کو سمجھنے کے لیے اس کے اسالیب کا مطالعہ ضروری ہے۔

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ قرآن مجید کے اسلوب استفہام کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں:

 "قرآن حکیم کا انداز بیان اور اسلوب ایک منفرد نوعیت کا اسلوب ہے یہ وہ اسلوب ہے جسکی مثال نہ عربی شاعری میں ملتی ہےنہ خطابت میں،نہ کہانت ہیں اور نہ کسی ایسے طرز کلام میں جس سے عرب اسلام سے پہلے مانوس رہے ہوں قرآن مجید میں شعر کی غنائیت اور موسیقیت بھی ہے، خطابت کا زور بیان بھی ہے،جملوں کا اختصار بھی ہے اور اسمیں جامعیت بھی پائی جاتی ہے اور معانی و مطالب کی گہرائی بھی,اس میں حقائق و معارف کی گہرائی بھی ہے اور حکمت و دانائی بھی۔ اس کتاب میں دلائل اور براہین کا تنوع اور استدلال کی جدت اور قوت بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اور ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ کلام وضاحت اور بلاغت کے اعلی ترین معیار پر بھی فائز ہے‘‘۔ [[2]]

 قرآن مجید کا انداز یہ ہے کہ جب وہ کسی قدیم واقعہ یا قصے کو بیان کرتا ہے یا کسی قوم یا شخص پر اللہ تعالیٰ کے انعام یا عذاب کا ذکر کرتا ہےتو اس کا انداز اور اسلوب نصیحت کا ہوتا ہےاور اس واقعے سے عبرت دلانا مقصود ہوتا ہےاس واقعے میں جو مقصد چھپا ہوتا ہےاس کا واضح کرنا ہی قرآن کا مقصد ہوتا ہے۔

قرآن مجید کا ایک اسلوب استفہامی میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے سوال کرتے ہیں ،جبکہ پیشِ نظر یہ مقصود ہوتا ہےکہ کبھی اپنے بندوں کو احکامات کی یاد دہانی کرائی جا رہی ہوتی ہےتو کہیں زجر و توبیخ، کہیں اپنی نعمتوں اور اپنے احسانات کو یاد کروانا مقصود ہوتا ہے تو کہیں گزشتہ واقعات سے نصیحت دلانا مقصود ہوتا ہے، مثلاً سورہ الانعام کی اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں سے سوال اس انداز میں کرتے ہیں:

"قُلْ مَن يُنَجِّيكُمْ مِّن ظُلُمَاتِ ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ هَـٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلشَّاكِرِينَ"۔ [[3]]

" (اے محمد!) ا ن سے پوچھو، صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتا ہے؟ کو ن ہے جس سے تم (مصیبت کے وقت) گڑ گڑا، گڑگڑا کر اور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو؟ کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے تو نے ہم کو بچا لیا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے؟"۔

 مذکورہ بالا آیت میں استفہامی اسلوب اپنانے کے بعد ہی اگلی آیت میں اس کا جواب دیتے ہیں:

"قُلِ ٱللَّهُ يُنَجِّيكُمْ مِّنْهَا وَمِن كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنتُمْ تُشْرِكُونَ"۔ [[4]]

"کہو، اللہ تمہیں اُس سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے پھر تم دوسروں کو اُس کا شریک ٹھہراتے ہو"۔

قرآن مجید کے استفہامی اسلوب کی حکمت و مصالح سے متعلق مناع القطان اپنی کتاب ’’مباحث فی علوم القرآن‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:

’’سوال میں کسی چیز کی معرفت مطلوب ہوتی ہےتو اس میں دو مفعول ہوتے ہیں دوسرا مفعول کبھی بلاواسط اور کبھی عن کے واسطے سے ذکر کیا جاتا ہے‘‘۔۲۴

قرآن مجید کی چھیانوے(۹۶) سورتوں میں آٹھ سو چونسٹھ(۸۶۴) استفہامی آیات ہیں ،جن میں دوسوبیالیس(۲۴۲) ایمانیات ، اکیانوے (۹۱)عبادات ،دوسو پچھتر(۲۷۵) معاملات ، اور دوسوچھپن(۲۵۶) آیات آخرت سے متعلق ہیں۔ مذکورہ بالا تمام آیاتِ استفہام قرآن مجید میں مختلف اغراض و مقاصد اور حکمتوں کے سبب بیان ہوئی ہیں جنہیں واقعات و قصص کی تفہیم میں آسانی اور مخاطبین کی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے بیان کیا گیا ہے۔



[[1]]    القرآن ، ۳:۱۲۔

[[2]]     غازی،ڈاکٹر محمود احمد،محاضرات قرآنی،الفیصل ناشران،لاہور، ۲۰۰۹ء، ص۳۱۵۔

[[3]]     القرآن ،۶ : ۶۳۔

[[4]]          القرآن ،۶: ۶۴۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...