Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

ایمان بالملائکہ
ARI Id

1695203136242_56118293

Access

Open/Free Access

Pages

53

فرشتے اللہ کی نورانی مخلوق ہیں نہ مرد اور نہ عورت اللہ کی ذرہ برابر نا فرمانی نہیں کرتے۔

 ایمان بالکتب

ایمان بالکتب سے مراد اللہ کی بھیجے ہوئے نبیوں پر جو کتابیں نازل کی گئیں ان پر ایمان رکھنا۔جیسا کی انجیل حضرت عیسیء پر نازل ہوئی ۔زبور حضرت داؤدء پر نازل ہوئی۔توریت حضرت موسیٰ پر نازل ہوئی ۔اور قران مجید آخری نبی حضرت محمد مصطفئ پر نازل کی گئی۔

ایمان بالرسالت

ایمان بالرسالۃ کا مطلب ہے رسولوں پر ایمان لانا۔ اللہ رب العزت نے انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کے لیے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے ہی رسولوں اور نبیوں کا سلسلہ شروع فرمایا ہے، سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام تھے، اور سب سے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس دوران اللہ تعالی نے بے شمار انبیاء کرام مبعوث فرمائے، اور وہ سب انسانیت کو اللہ کی طرف بلاتے رہے۔ ایمان بالرسالۃ میں یہ بات بھی داخل ہے کہ گزشتہ انبیاء کرام پر ایمان رکھا جائے۔ ایمان بالرسالۃ کا اہم ترین جزو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان رکھنا بھی شامل ہے۔" [[1]]

قرآن مجید میں مختلف مقامات پر ایمانیات کے ضمن میں استفہامی آیات وارد ہوئیں ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔

(۱) اللہ تبارک وتعالیٰ سورة آل عمران میں ارشاد فرماتے ہیں:

"اِن يَّنصُركُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ لَـكُم‌ وَاِن يَّخذُلكُم فَمَن ذَا الَّذِى يَنصُرُكُم مِّنۢ بَعدِهٖ ‌ وَعَلَى اللّٰهِ فَليَتَوَكَّلِ المُؤمِنُونَ "[[2]]

"اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں، اور وہ تمہیں چھوڑ دے ، تو اسکے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کر سکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئیے"۔

اس آیت کے تفسیر میں مولانا مودودی یوں رقمطراز ہیں:

"اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے احسان اور قدرت کا ذکر فرما رہے ہیں کہ اگر اللہ تمہاری مدد کرنا چاہے تو کوئی بھی تم پر غالب نہیں آ سکتا کیونکہ اللہ کے اذن کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔ اور اگر اللہ تم کو رسوا کرنا چاہے تا کوئی بھی تمہاری مدد کرنے کا اختیار نہیں رکھتا اور مومن انسان تو وہی ہے جو اللہ پر بھروسہ رکھے "[[3]]

اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں سے سوال فرما رہے ہیں کہ اللہ کے سوا کون ہے جو تمہاری مدد کا اختیار رکھتا ہو اگر اللہ تمہیں رسوا کرنا چاہے تو کوئی بھی تمہیں عزت نہیں دے سکتا اور اگر اللہ تمہاری مدد کرنا چاہے تو کوئی بھی اسے نہیں روک سکتا اللہ کے اذن کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہے اور جو ایمان والے لوگ وہ سب اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے قدرت کے اثبات کے لئے سوال فرما رہے ہیں اور ساتھ ہی مومنین کے توکل علی اللہ کا ذکر فرما دیا۔

(۲) سورة النساء میں فرمان باری تعالیٰ ہے:

"اَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ القُراٰنَ‌ وَلَو كَانَ مِن عِندِ غَيرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اختِلَافًا كَثِيرًا "[[4]]

"کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی"۔

ایمان بالکتب ایمانیات کاایک اہم رکن ہے۔ اس آیت میں وضاحت کی جا رہی ہے کہ اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے نہ ہوتا کسی انسان کا خود ساختہ ہوتا تو اس میں بہت سے اختلافات پائے جاتے کیونکہ انسانی ذہن وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے اور انسان کا حافظہ بھی اتنا مضبوط نہیں ہے کہ وہ ہر بات کو یاد رکھ سکے۔ احکامات، واقعات ان تمام چیزوں کی وضاحت کرنا اور زندگی کا لائحہ عمل پیش کرنا کسی بھی انسان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور یہ صرف ایسی ہستی ہی کر سکتی ہے جو کہ حی لا یموت ہو، جس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہو تو یہ ہستی صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے۔

اسکی تفسیر میں صاحب تفسیر لکھتے ہیں:

"منافقین کو قرآن کے منجانب اللہ ہونے میں شک تھا۔ انہیں یقین نہ آتا تھا کہ رسول پر واقعی وحی اترتی ہے اور یہ جو کچھ ہدایات آرہی ہیں وہ منجانب اللہ ہیں ۔تو اللہ پاک فرماتے ہیں: یہ لوگ قرآن پر غور ہی نہیں کرتے ورنہ یہ کلام تو خود شہادت دے رہا ہے کہ یہ خدا کے سوا کسی دوسرے کا کلام ہو نہیں سکتا۔ کوئی انسان اس بات پر قادر نہیں ہے کہ سالہا سال تک وہ مختلف حالات میں، مختلف مواقع پر، مختلف مضامین پر تقریریں کرتا رہے اور اول سے آخر تک اس کی ساری تقریریں ایسا ہموار، یک رنگ، متناسب مجموعہ بن جائیں جس کا کوئی جز دوسرے جز سے متصادم نہ ہو، جس میں تبدیلی رائے کا کہیں نشان تک نہ ملے، جس میں متکلم کے نفس کی مختلف کیفیات اپنے مختلف رنگ نہ دکھائیں، اور جس پر کبھی نظر ثانی تک کی ضرورت نہ پیش آئے''[[5]]

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے معجزے قرآن کے بارے میں اپنے احکامات کو یقینی بنانے کے لئے سوال فرما رہے ہیں کہ کیا تم قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے؟ کہ اگر یہ کسی انسان کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت اختلاف پایا جاتا اس میں کسی بھی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا سمجھنے والوں اور عقل والوں کے لئے یہی دلیل کافی ہے۔

قرآن پاک ایسی کتاب ہے جس میں ہر چیز کا بیان ہے، ماضی کے تمام واقعات کو بیان کیا گیا ہے، اس میں احکام کا مکمل بیان ہے، ہر عمل میں رہنمائی موجود ہے تو یہ کسی انسان کا کلام کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا انسانی عقل ان تمام چیزوں کا احاطہ کر سکتی ہے، قطعاً نہیں تو اس کلام کے منجانب اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔

(۳)سورة الاعراف میں ارشاد خداوند متعال ہے"

'اَوَلَم يَنظُرُوا فِى مَلَـكُوتِ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِن شَىءٍ ۙ وَّاَن عَسٰٓى اَن يَّكُونَ قَدِ اقتَرَبَ اَجَلُهُم‌ فَبِاَىِّ حَدِيثٍۢ بَعدَهٗ يُؤمِنُونَ "[[6]]

"کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا؟ اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کی مہلتِ زندگی پوری ہونے کا وقت قریب آلگا ہو؟ پھر آخر پیغمبر ؐ کی اِس تنبیہ کے بعد اور کون سی بات ایسی ہو سکتی ہے۔ جس پریہ ایمان لائیں؟"۔

جو شخص بھی آسمان و زمین کے انتظام پر غور کرے گا وہ پکار اٹھے گا کہ یہ کائنات بے غایت و بے مقصد اور عبث پیدا نہیں کی گئی بلکہ یہ جزا و سزا پر ایک روز منتہی ہونے والی ہے جنہوں نے راستی و پاکبازی کی زندگی بسر کی وہی لوگ فلاح پائیں گے اور جن لوگوں نے اس راستے کو چھوڑا وہ لوگ دہکتی ہوئی آگ کا ایندھن بنیں گے، اس میں جو چیز بھی موجود ہے وہ اللہ کی قدرت، حکمت اور رحمت کا مظہر ہے۔ اور ان تمام کے لئے ایک وقت مقررہ ہے۔ ہو سکتا ہے وہ وقت مقررہ قریب آگیا ہو جس سے پیغمبر ان کو متنبہ فرما رہے ہوں تو پھر اس تنبیہ کے ماسوا اور ایمان لانے کے لئے کونسی بات قابل اعتبار ہوسکتی ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی تحریر فرماتے ہیں:

 '' اگر یہ آسمان و زمین کے نظام پر غور کرتے، یا خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کو بھی بنظر تامل دیکھتے تو انہیں خود معلوم ہوجاتا کہ شرک کی تردید، توحید کے اثبات، بندگی رب کی دعوت اور انسان کی ذمہ داری و جواب دہی کے بارے میں جو کچھ ان کا بھائی انہیں سمجھا رہا ہے اس کی صداقت پر یہ پورا نظام کائنات اور خلق اللہ کا ذرہ ذرہ شہادت دے رہا ہے۔یعنی نادان اتنا بھی نہیں سوچتے کہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہے، کچھ خبر نہیں کہ کب کس کی اجل آن پوری ہو۔ پھر اگر ان میں سے کسی کا آخری وقت آگیا اور اپنے رویہ کی اصلاح کے لیے جو مہلت اسے ملی ہوئی ہے وہ انہی گمراہیوں اور بداعمالیوں میں ضائع ہوگئی تو آخر اس کا حشر کیا ہوگا''۔[[7]]

اس آیت میں اللہ تعالیٰ توحید کے اثبات اور شرک کی تردید کے لئے سوال فرما رہے ہیں کہ کیا یہ اس کائنات کے نظام آسمان و زمین میں غور نہیں کرتے کہ اللہ پاک نے کس طرح یہ چیزیں بنائیں ہیں کہ ان میں کسی بھی قسم کا کوئی نقص بھی پایا نہیں جاتا، کیا یہ اپنے ہی لوگوں کو موت سے ہمکنار ہوتے ہوئے نہیں دیکھتے کہ ان میں سے ہی کتنے لوگ ہیں جو کہ اس صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے ہیں اتنی بڑی بڑی نشانیوں کے باوجود یہ ایمان لانے میں تردد کا شکار ہیں، ان لوگوں کی موت کے بعد انکے تمام اعمال ضائع ہو جائیں گے۔ نبی کریمﷺ جو بات ان کو سمجھا رہے ہیں یہ جان بوجھ کر اس کی تردید کرتے ہیں، اگر کائنات میں غور و فکر کریں تو ان کو معلوم ہوجائے گا کہ اس کائنات کا نظام ایک تسلسل سے چل رہا ہے، ہر چیز اپنے مقررہ وقت پر ہو رہی ہے، کہیں بھی کسی بھی قسم کے تسلسل میں کمی نہیں ہے تو پھر کیونکر یہ لوگ اتنی نشانیوں کے بعد پھر ایمان لانےسے گریزاں ہیں۔

(۴) سورة يونس میں اللہ عزوجل کا قول مبارک ہے:

"قُل هَل مِن شُرَكَآئِكُم مَّن يَّبدَؤُا الخَـلقَ ثُمَّ يُعِيدُهٗ‌ قُلِ اللّٰهُ يَـبدَؤُا الخَـلقَ ثُمَّ يُعِيدُهٗ‌ فَاَنّٰى تُؤفَكُونَ‏ "[[8]]

"اِن سے پوچھو، تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ہے جو تخلیق کی ابتداء بھی کرتا ہو اور پھر اس کا اعادہ بھی کرے؟۔۔۔۔ کہو وہ صرف اللہ ہے جو تخلیق کی ابتداء کرتا ہے اور اس کا اعادہ بھی، پھر تم یہ کس اُلٹی راہ پر چلائے جا رہے ہو؟"

اس آیت میں مشرکین کے عقیدہ ٔشفاعت کی تردید کی جا رہی ہے کہ مشرکین جو یہ سوچ رکھتے ہیں کہ قیامت کے دن ان کے شرکاء ان کو اللہ کے عذاب سے بچالیں گے دنیا میں وہ صرف اپنے شریکوں کو ہی خوش کرنے پر لگے ہوئے ہیں، تو اللہ پاک فرما رہے ہیں کہ جن لوگوں کو تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو وہ انسان کیا کسی بھی مخلوق کی تخلیق کرنے پر قدرت رکھتے ہیں؟غور کرو کہ کیا انہوں نے کوئی چیز پیدا کی ہے؟ اگر نہیں تو کیسے تم انہیں شفاعت کا اختیار دیتے ہو۔ مشرکین قربِ قیامت کے بارے میں کچھ تردد کا شکار تھے کہ اگر قیامت ہوگی تو ہمارے شرکاء ہم کو بچالیں گے تو اللہ پاک ان سے سوال فرما رہے ہیں کہ کیسے تم اس رب کا شریک ٹھہراتے ہو جو تمہارا بھی خالق ہے اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ان کا بھی تخلیق کرنے والا وہ وحدہ لاشریک ہے۔

چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں مولانا یوں رقمطراز ہیں:

"تخلیق کی ابتدا کے متعلق تو مشرکین مانتے ہی تھے کہ یہ صرف اللہ کا کام ہے، ان کے شریکوں میں سے کسی کا اس کام میں کوئی حصہ نہیں۔ رہا تخلیق کا اعادہ تو ظاہر ہے کہ جو ابتداء پیدا کرنے والا ہے وہی اس عمل پیدائش کا اعادہ بھی کرسکتا ہے، مگر جو ابتداء ہی پیدا کرنے پر قادر نہ ہو وہ کس طرح اعادہ پیدائش پر قادر ہوسکتا ہے۔ یہ بات اگرچہ ایک معقول بات ہے، اور خود مشرکین کے دل بھی اندر سے اس کی گواہی دیتے تھے کہ بات بالکل ٹھکانے کی ہے، لیکن انہیں اس کا اقرار کرنے میں اس بنا پر تامل تھا کہ اسے مان لینے کے بعد انکار آخرت مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اوپر کے سوالات پر تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ خود کہیں گے کہ یہ کام اللہ کے ہیں، مگر یہاں اس کے بجائے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ارشاد ہوتا ہے کہ تم ڈنکے کی چوٹ پر کہو کہ یہ ابتدائے خلق اور اعادہ خلق کا کام بھی اللہ ہی کا کام ہے۔یعنی جب تمہاری ابتدا کا سرا بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور انتہا کا سرا بھی اسی کے ہاتھ میں، تو خود اپنے خیر خواہ بن کر ذرا سوچو کہ آخر تمہیں یہ کیا باور کرایا جا رہا ہے کہ ان دونوں سروں کے بیچ میں اللہ کے سوا کسی اور کو تمہاری بندگیوں اور نیاز مندیوں کا حق پہنچ گیا ہے۔"[[9]]

اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی عظیم قدرت انسان کی تخلیق کے بارے میں باطل کا رد کرنے کے لئے سوال فرما رہے ہیں کہ تمام انسانوں کی تخلیق اللہ پاک نے فرمائی ہے اس بات کا مشرکین بھی اعتراف کرتے ہیں مگر مشرکین قیامت کے بارے میں شک کرتے ہیں ان کے لئے یہ حیران کن کیسے ہے کہ جو اللہ ایک دفعہ پیدا کرنے پر قادر ہے وہ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر کیوں نہیں ہو سکتا؟ اس کے باوجود اگر تم اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہراؤ گے تو اللہ تبارک وتعالیٰ شرک کو کسی صورت بھی معاف نہیں کریں گے۔ مشرکین کی عقل پر پردہ پڑگیا ہے کیونکہ کوئی بھی چیز پہلی دفعہ بنانی بغیر ماڈل کے مشکل ہوتی ہے جبکہ دوسری مرتبہ بنانی تو بہت آسان ہوتی ہے، یہ لوگ حق کو قبول کرنا ہی نہیں چاہتے۔

(۵)سورة بنى اسرائیل میں فرمان باری تعالیٰ ہے:

"اَوَلَم يَرَوا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِى خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ قَادِرٌ عَلٰٓى اَن يَّخلُقَ مِثلَهُم وَجَعَلَ لَهُم اَجَلًا لَّا رَيبَ فِيهِ فَاَبَى الظّٰلِمُونَ اِلَّا كُفُورًا "[[10]]

"کیا ان کو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے زمین اور آسمانو ں کو پیدا کیا ہے وہ اِن جیسوں کو پیدا کرنے کی ضرور قدرت رکھتا ہے؟ اس نے اِن کے حشر کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس کا آنا یقینی ہے، مگر ظالموں کو اصرار ہے کہ وہ اس کا انکار ہی کریں گے۔"

اس آیت میں اللہ پاک آخرت کے یقین کے لئے لوگوں سے انکی ذہنی استعداد کو جانچنے کے لئے سوال فرما رہے ہیں کہ جس طرح اللہ پاک سب کچھ بنانے پر قادر ہے وہ ان چیزوں کو دوبارہ بنانے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔ کافروں کا دعویٰ ہے کہ جب ہم مر جائیں گے ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو ہماری تخلیق کیسے ممکن ہے؟ صرف انکی ہٹ دھرمی ہے جس وجہ سے یہ آخرت کا انکار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ عقل نہیں رکھتے۔

(۶) سورة المومنون میں اللہ پاک کا ارشاد مبارک ہے:

"قُلْ لِّمَنِ الاَرضُ وَمَن فِيهَا اِن كُنتُم تَعلَمُونَ "[[11]]

"ان سے کہو، بتاؤ اگر تم جانتے ہو، کہ یہ زمین اور اس کی ساری آبادی کس کی ہے؟"

"سَيَقُولُونَ لِلّٰهِ‌ قُل اَفَلَا تَذَكَّرُونَ "[[12]]

"یہ ضرور کہیں گے ، اللہ کے لئے،کہو، پھر تم ہوش میں کیوں نہیں آتے؟"

"قُل مَن رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبعِ وَرَبُّ العَرشِ العَظِيمِ‏ "[[13]]

"ان سے پوچھو، ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟"

"سَيَقُولُونَ لِلّٰهِ‌ قُل فَاَنّٰى تُسحَرُونَ "[[14]]

"یہ ضرور کہیں گے کہ یہ بات تو اللہ ہی کے لیے ہے۔ کہو، پھر کہاں سے تم کو دھوکا لگتا ہے؟"

اللہ تبارک و تعالیٰ کافروں کی روش بیان فرما رہے ہیں کہ وہ سب جانتے بوجھے بھی انجان بنتے ہیں، اللہ کی قدرت کی تمام نشانیوں کو دیکھتے ہیں اور ان سے ان کی تخلیق کے بارے میں سوال کیا جائے تو یہی جواب دیتے ہیں کہ اللہ نے بنایا ہے، مگر اس کے باوجود اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق کو ہی اس کا شریک ٹھہراتے ہیں تو گویا یہ گمان ہے کہ ان کا حال ایسے ہے جیسے ان پر جادو کردیا گیا ہو۔

اس آیت کی تفسیر میں صاحب تفسیر لکھتے ہیں:

''ان آیات میں اللہ پاک اپنے قدرت کی نشانیوں کا تذکرہ فرماتے ہوئے کافروں سے مخاطب ہیں کہ ان سے آسمان و زمین اور اس میں جو کچھ ہے اسکے بارے میں سوال کروگے تو یہ جواب یہی دیں گے کہ اللہ نے بنایا ہے مگر پھر بھی اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں کیا ان پر سحر کیا گیا ہے۔ سحر اور جادو کی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک چیز کو اس کی اصل ماہیت اور صحیح صورت کے خلاف بنا کر دکھاتا ہے اور دیکھنے والے کے ذہن میں یہ غلط تاثر پیدا کرتا ہے کہ اس شے کی اصلیت وہ ہے جو بناوٹی طور پر ساحر پیش کر رہا ہے۔ پس آیت میں جو سوال کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’کس نے تم پر یہ سحر کردیا ہے کہ یہ سب باتیں جاننے کے باوجود حقیقت تمہاری سمجھ میں نہیں آتی ؟ کس کا جادو تم پر چل گیا ہے کہ جو مالک نہیں ہیں وہ تمہیں مالک یا اس کے شریک نظر آتے ہیں اور جنہیں کوئی اقتدار حاصل نہیں ہے وہ اصل صاحب اقتدار کی طرح، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تم کو بندگی کے مستحق محسوس ہوتے ہیں ؟ کس نے تمہاری آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے کہ جس خدا کے متعلق خود مانتے ہو کہ اس کے مقابلے میں کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے ، کس نے تم کو اس دھوکے میں ڈال دیا ہے کہ جو ہر چیز کا مالک ہے وہ تم سے کبھی نہ پوچھے گا کہ تم نے میری چیزوں کو کس طرح استعمال کیا، اور جو ساری کائنات کا بادشاہ ہے وہ کبھی تم سے اس کی باز پرس نہ کرے گا کہ میری بادشاہی میں تم اپنی بادشاہیاں چلانے یا دوسروں کی بادشاہیاں ماننے کے کیسے مجاز ہوگئے؟‘‘۔[[15]]

 سوال کی یہ نوعیت اور زیادہ معنی خیز ہوجاتی ہے جب یہ بات پیش نظر رہے کہ قریش ِ مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سحر کا الزام لگاتے تھے۔اسی لیے فرمایا جا رہا ہے کہ بیوقوفو ! جو شخص تمہیں اصل حقیقت ( وہ حقیقت جسے تمہارے اپنے اعترافات کے مطابق حقیقت ہونا چاہیے) بتاتا ہے وہ تو تم کو نظر آتا ہے جادوگر، اور جو لوگ تمہیں دن رات حقیقت کے خلاف باتیں باور کراتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ جنہوں نے تم کو صریح عقل اور منطق کے خلاف، تجربے اور مشاہدے کے خلاف، تمہاری اپنی اعتراف کردہ صداقتوں کے خلاف، سراسر جھوٹی اور بےاصل باتوں کا معتقد بنادیا ہےاوراصل میں جادو گر تو وہ ہیں۔" [[16]]

ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ مشرکین کو انکی غلطی کے ادراک کے لئے سوال فرما رہے ہیں کہ ہر چیز کو تم جانتے بھی ہو سمجھ بھی رہے ہو مگر تم اس غلطی کے بارے میں ادراک نہیں کرنا چاہتے اس لئے حق بات کو قبول کرنے سے انکاری ہو۔ ان کے دلوں پر مہر لگی ہوتی ہے اور ان کی عقلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں کہ اللہ کے تخلیق کردہ لوگوں کو ہی اس کی بادشاہی میں شریک ٹھہراتے ہیں تو ان سے بڑا نادان کون ہوگا؟ ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔

(۷) سورة الأنبياء میں ارشادِ ربانی ہے:

"قُل مَن يَّكلَـؤُكُم بِالَّيلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحمٰنِ‌ بَل هُم عَن ذِكرِ رَبِّهِم مُّعرِضُونَ "[[17]]

''اے محمدؐ ، ان سے کہو ” کون ہے جو رات کو یا دن کو تمہیں رحمٰن سے بچا سکتا ہو؟“ مگر یہ اپنے ربّ کی نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں۔"

یعنی اگر اچانک دن کو یا رات کو کسی وقت خدا کا زبردست ہاتھ تم پر پڑجائے تو آخر وہ کون سا زور آور حامی و ناصر ہے جو اس کی پکڑ سے تم کو بچا لے گا ؟

 اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرما رہے ہیں کہ اگر دن میں یا رات میں میں تم پر عذاب نازل کروں تو کیا کوئی تمہیں بچانے والا ہے ؟ کیا اللہ کے مقابلے میں کوئی تمھاری مدد پر قادر ہو سکتا ہے کیا اللہ کی پکڑ سے کوئی بچانے والا ہے ؟ پچھلی قوموں سے عبرت حاصل کرو جب ان پر اللہ کا عذاب کبھی اس وقت آیا جب وہ دوپہر کے وقت سو رہے تھے یا کبھی رات کے اندھیروں میں یا صبح کے وقت ،ان کو کوئی نہیں بچا پایا کوئی بھی انکی مدد کو نہیں آیا تو اب کس طرح عذاب کے وقت کوئی تمہاری مدد کو کیسے آ سکے گا اللہ کے علاؤہ کوئی بھی مددگار نہیں نہ ہی کوئی حمایت کرنے والا ہو سکتا ہے۔ تم میں سے پہلی جو قومیں تھیں، ان کے پاس بھی پیغمبر آئے، اللہ کا پیغام سنایا، ہدایت کا راستہ دکھایا، مگر ان لوگوں نے بھی اپنے رب کے ذکر یعنی نصیحت سے منہ موڑا، وہ اپنی گناہوں کی روش پر قائم رہے اور انبیاء کرام کی بات کا یقین نہیں کیا پھر ان لوگوں کے حصے میں صرف نقصان ہی آیا، ان پر اللہ نے اپنا عذاب نازل فرمایا اور ان کو اس صفحۂ ہستی سے مٹا دیا، اگر ان کے واقعات سے یہ لوگ عبرت حاصل نہیں تو کچھ بعید نہیں کہ ان کا انجام بھی ان جیسا ہی ہوگا اور پھر ان کو نہ ہی کوئی بچا سکے گا اور نہی ہی کوئی ان کی مدد کو آسکے گا۔

(۸) سورة الحج میں ارشادِ حق تعالیٰ ہے:

"اَلَم تَعلَم اَنَّ اللّٰهَ يَعلَمُ مَا فِى السَّمَآءِ وَالاَرضِ‌ اِنَّ ذٰ لِكَ فِى كِتٰبٍ‌ اِنَّ ذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيرٌ"[[18]]

''کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے؟ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے۔ اللہ کے لیے یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔"

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا مودودی لکھتے ہیں:

اس آیت میں اللہ کی صفتِ علیم بیان کی جارہی ہے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ بھی ہے دن کی روشنی میں ہو یا رات کے اندھیرے میں۔ سمندروں کی تہوں میں یا خشکی کے جزیروں میں، ویران جنگلوں میں ہو یا آبادیوں میں، کسی بھی جگہ کچھ بھی ہو رہا ہو تو اللہ کی قدرت اور علم اس کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے سورۃ البقرہ میں ارشاد فرمایا گیا: یعلم ما بین ایدیہم و ما خلفہم۔ جو کچھ بھی پہلے ہوچکا اور جو کچھ بھی بعد میں ہوگا تو اللہ تعالیٰ کو ان تمام باتوں کی خبر ہے اور یہ سب کچھ اللہ پاک اپنے اس لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے اور اللہ کے لیے یہ سب کچھ بہت آسان ہے۔

 اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ انذار کے لئے لوگوں سے سوال فرما رہے ہیں کہ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ تم جو بھی کام کر رہے ہو وہ اللہ پاک کے علم میں ہے وہ عالم الغیب ذات ہے ہرچیز نامہ اعمال میں کراما کاتبین درج کر رہے ہیں اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ایسا کرنا اللہ کے لئے بہت آسان ہے، ہر چیز اس کے کن کی منتظر ہے ۔آسمانوں کے اوپر جو کچھ ہے یا زمین کی تہوں میں اللہ کسی بھی چیز سے غافل نہیں ہے، اس کا علم ہر چیز پر حاوی ہے۔

(۹)سورة النور میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"اَفِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ اَمِ ارتَابُوا اَم يَخَافُونَ اَن يَّحِيفَ اللّٰهُ عَلَيهِم وَرَسُولُهٗ‌ بَل اُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُونَ " [[19]]

"کیا اِن کے دلوں کو (منافقت کا )روگ لگا ہوا ہے؟ یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں ؟ یا ان کو یہ خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسُول ان پر ظلم کرے گا؟ اصل بات یہ ہے کہ ظالم تو یہ لوگ خود ہیں۔"

مولانا اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

''یعنی اس طرز عمل کی تین ہی وجہیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی سرے سے ایمان ہی نہ لایا ہو اور منافقانہ طریقے پر محض دھوکا دینے اور مسلم معاشرے میں شرکت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے مسلمان ہوگیا ہو۔ دوسرے یہ کہ ایمان لے آنے کے باوجود اسے اس امر میں ابھی تک شک ہو کہ رسول خدا کا رسول ہے یا نہیں، اور قرآن خدا کی کتاب ہے یا نہیں، آخرت واقعی آنے والی ہے بھی یا یہ محض ایک افسانہ تراشیدہ ہے، بلکہ خدا بھی حقیقت میں موجود ہے یا یہ بھی ایک خیال ہے جو کسی مصلحت سے گھڑ لیا گیا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ خدا کو خدا اور رسول کو رسول مان کر بھی ان سے ظلم کا اندیشہ رکھتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ خدا کی کتاب نے فلاں حکم دے کر تو ہمیں مصیبت میں ڈال دیا اور خدا کے رسول کا فلاں ارشاد یا فلاں طریقہ تو ہمارے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو ایسے لوگوں کے ظالم ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اس طرح کے خیالات رکھ کر جو شخص مسلمانوں میں شامل ہوتا ہے، ایمان کا دعویٰ کرتا ہے، اور مسلم معاشرے کا ایک رکن بن کر مختلف قسم کے ناجائز فائدے اس معاشرے سے حاصل کرتا ہے، وہ بہت بڑا دغا باز، خائن اور جعل ساز ہے۔ وہ اپنے نفس پر بھی ظلم کرتا ہے کہ اسے شب و روز کے جھوٹ سے ذلیل ترین خصائل کا پیکر بناتا چلا جاتا ہے۔ اور ان مسلمانوں پر بھی ظلم کرتا ہے جو اس کے ظاہری کلمہ شہادت پر اعتماد کر کے اسے اپنی ملت کا ایک جز مان لیتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ طرح طرح کے معاشرتی، تمدنی، سیاسی اور اخلاقی تعلقات قائم کرلیتے ہیں۔"[[20]]

اس آیت میں منافقین کا بتایا جا رہا ہے کہ یا تو ان کے اندر نفاق کا روگ ہے یا وہ نبی کریمﷺ کی رسالت اور دینِ اسلام کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں یا پھر انہیں یہ غم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی عدالت میں اپنے معاملات لائیں گے تو روش کے مطابق فیصلہ نہیں فرمائیں گے۔ وہ اپنے گمان میں اپنے مستقبل کے مفادات کو محفوظ کر رہے ہیں حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ اس روش کی وجہ سے وہ اپنی جانوں پر ظلم کر رہے ہیں۔ دنیا میں اگر وقتی فائدہ ان کو ہو بھی گیا تو مگر آخرت میں ان کے لئے کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہ ان کی روش اسلام کے منافی ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ باطل کی تردید کے لئے سوال فرما رہے ہیں کہ منافق لوگ اپنے طرز عمل سے یا اپنی ذہنی سوچ سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شک میں مبتلا ہیں۔ اس لیے وہ مسلمانوں اور کافروں دونوں کے ساتھ ہیں تاکہ کسی کو بھی کامیابی ملی تو وہ انہیں کے ساتھ ہوجائیں گے، مطلب وہ اپنے آپ کو بہت ذہین و فطین سمجھتے ہیں حالانکہ وہ سوچ رکھتے ہیں کہ وہ انہیں منافقانہ طرزِ عمل سے کامیاب ہوجائیں گے۔ تو یہ بالکل غلط ہے وہ بذاتِ خود اپنی جانوں پر ظلم کر رہے ہیں۔

(۹)سورةالروم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"اَم اَنزَلنَا عَلَيهِم سُلطٰنًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوا بِهٖ يُشرِكُونَ "[[21]]

"کیا ہم نے کوئی سند اور دلیل ان پر نازل کی ہے جو شہادت دیتی ہو اس شرک کی صداقت پر جو یہ کر رہے ہیں؟"

نیز فرمایا:

"اَوَلَم يَرَوا اَنَّ اللّٰهَ يَبسُطُ الرِّزقَ لِمَن يَّشَآءُ وَيَقدِرُ‌ اِنَّ فِى ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَومٍ يُّؤمِنُونَ" [[22]]

''کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ اللہ ہی رزق کشادہ کرتا ہے جس کا چاہتا ہے اور تنگ کرتاہے(جس کا چاہتا ہے)۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔"

آخر کس دلیل سے ان لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ بلائیں خدا نہیں ٹالتا بلکہ حضرت ٹالا کرتے ہیں ؟ کیا عقل اس کی شہادت دیتی ہے ؟ یا کوئی کتاب الہی ایسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہو کہ میں اپنے خدائی کے اختیارات فلاں فلاں حضرتوں کو دے چکا ہوں اور اب وہ تم لوگوں کے کام بنایا کریں گے ؟ کیا اللہ نے اس پر دلیل نازل فرمائی ہے کہ تم اپنی مشکلات اور حاجات لے کر غیر اللہ کے پاس جاؤ، ان کو اپنا رازق سمجھو؟

مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں کہ'' اہل ایمان اس سے سبق حاصل کرسکتے ہیں کہ کفر و شرک کا انسان کے اخلاق پر کیا اثر پڑتا ہے، اور اس کے برعکس ایمان باللہ کے اخلاقی نتائج کیا ہیں۔ جو شخص سچے دل سے خدا پر ایمان رکھتا ہو اور اسی کو رزق کے خزانوں کا مالک سمجھتا ہو، وہ کبھی اس کم ظرفی میں مبتلا نہیں ہوسکتا جس میں خدا کو بھولے ہوئے لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔ اسے کشادہ رزق ملے تو پھولے گا نہیں، شکر کرے گا، خلق خدا کے ساتھ تواضع اور فیاضی سے پیش آئے گا، اور خدا کا مال خدا کی راہ میں صرف کرنے سے ہرگز دریغ نہ کرے گا۔ تنگی کے ساتھ رزق ملے، یا فاقے ہی پڑجائیں، تب بھی صبر سے کام لے گا، دیانت و امانت اور خود داری کو ہاتھ سے نہ دے گا، اور آخر وقت تک خدا سے فضل و کرم کی آس لگائے رہے گا۔ یہ اخلاقی بلندی نہ کسی دہریے کو نصیب ہوسکتی ہے نہ مشرک کو''۔[[23]]

 اس آیت میں اللہ پاک اپنی طنز و تحقیر اور غیظ و غضب کے لئے سوال فرما رہے ہیں کہ اللہ پاک ہی رازق ہے جسے چاہے کشادگی عطا فرمادے اور جسے چاہے تنگدست کر دے کوئی اسکو پوچھنے والا نہیں تو تم کہاں بہکے پھر رہے ہو؟ اور اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں سے اللہ کے راستے میں خرچ کرنا بہت ہی اجرو ثواب کا باعث ہے وہ اس پر بھی تم کو انعام عطا فرمائے گا۔

رزق کی فراخی اور تنگی دونوں اللہ کے اختیار میں ہے، وہ جس کو جس طرح چاہے نواز دے اور جس کو چاہے محروم کردے، ہر فیصلہ اس کی حکمت پر مبنی ہوتا ہے، اس لیے کسی کے لئے بھی جائز نہیں کہ وہ تنگدستی میں مایوس ہو یا فراخی میں اترانے اور اکڑنے والا بنے۔ بلکہ بندہ ان نعمتوں پر شکر ادا کرے اور آزمائشوں پر صبر کرے  یہ اس کا امتحان ہے اور کامیابی و ناکامی کے راز کا انکشاف تو یومِ آخرت میں ہوگا۔

(۱۰)سورةالزمر میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

"اَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللّٰهِ شُفَعَآءَ‌ قُل اَوَلَو كَانُوا لَا يَملِكُونَ شَيئًـا وَّلَا يَعقِلُونَ "[[24]]

"کیا اُس خدا کو چھوڑ کر اِن لوگوں نے دُوسروں کو شفیع بنا رکھا ہے؟ ان سے کہو، کیا وہ شفاعت کریں گے خواہ اُن کے اختیار میں کچھ نہ ہو اور وہ سمجھتے بھی نہ ہوں؟"

ان نادان لوگوں نے حقائق کو جان لیا ہے اس کے باوجود اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں اس کے مقابل اپنے لیے سفارشی بناتے ہیں تو اگر اللہ پاک ان کو اپنے عذاب کی پکڑ میں لے لے تو کیا ان کے سفارشی ان کو اس عذاب سے چھڑانے میں مدد کریں گے؟ نہیں ایسا ممکن ہی نہیں ان کے سفارشی کسی بھی چیز کا علم و شعور نہیں رکھتے۔

مولانا مودودی لکھتے ہیں:

" ایک تو ان لوگوں نے اپنے طور پر خود ہی یہ فرض کرلیا کہ کچھ ہستیاں اللہ کے ہاں بڑی زور آور ہیں جن کی سفارش کسی طرح ٹل نہیں سکتی، حالانکہ ان کے سفارشی ہونے پر نہ کوئی دلیل، نہ اللہ تعالیٰ نے کبھی یہ فرمایا کہ ان کو میرے ہاں یہ مرتبہ حاصل ہے، اور نہ ان ہستیوں نے کبھی یہ دعویٰ کیا کہ ہم اپنے زور سے تمہارے سارے کام بنوا دیا کریں گے۔ اس پر مزید حماقت ان لوگوں کی یہ ہے کہ اصل مالک کو چھوڑ کر ان فرضی سفارشوں ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں اور ان کی ساری نیاز مندیاں انہی کے لیے وقف ہیں۔"[[25]]

اس آیت میں اللہ تعالیٰ مشرکین سے استعجاب و ملامت کی وجہ سے ان سے سوال فرما رہے ہیں کہ کیا تم اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بناتے ہو تو قیامت کے دن یہ تمہاری سفارش کر سکیں گے اصل مالک کو چھوڑ کر تم غیر اللہ کے نام پر نذریں چڑھاتے ہو انکے نام کی قربانیاں کرتے ہو یہ تو خود اللہ کے محتاج ہیں یہ تمہاری سفارش ہرگز نہ کر سکیں گے یہ تو خود اپنی سفارش کرنے کا بھی اختیار نہیں رکھتے اللہ کے اذن کے بغیر کوئی بھی اپنی زبان نہ کھول سکے گا۔

قیامت کے دن تمام اختیارات اللہ کے پاس ہوں گے اور اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش نہ کر سکے گا، مگر جس کو وہ اذن فرمائے۔ تو کس لیے یہ ان سفارشیوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔

(۱۲) سورة المؤمن میں ارشادِ ربانی ہے:

"وَيُرِيكُم اٰيٰتِهٖ ۖ فَاَىَّ اٰيٰتِ اللّٰهِ تُنكِرُونَ "[[26]]

"اللہ اپنی یہ نشانیاں تمہیں دکھا رہا ہے ، آخر تم اُس کی کن کن نشانیوں کا انکار کرو گے۔"

نیز ارشاد فرمایا:

"اَفَلَم يَسِيرُوا فِى الاَرضِ فَيَنظُرُوا كَيفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبلِهِم كَانُوا اَكثَرَ مِنهُم وَاَشَدَّ قُوَّةً وَّ اٰثَارًا فِى الاَرضِ فَمَا اَغنٰى عَنهُم مَّا كَانُوا يَكسِبُونَ "[[27]]

"پھر کیا یہ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِن کو اُن لوگوں کا انجام نظر آتا جو اِن سے پہلے گزر چکے ہیں ؟ وہ اِن سے تعداد میں زیادہ تھے، اِن سے بڑھ کر طاقتور تھے، اور زمین میں اِن سے زیادہ شاندار آثار چھوڑ گئے ہیں۔ جو کچھ کمائی اُنہوں نے کی تھی، آخر وہ اُن کے کس کام آئی؟"

یہاں پر پچھلی قوموں کی مثال دے کر وضاحت کی گئی ہے کہ وہ قومیں رسولوں کی تکذیب کرتی ہیں تھیں، اپنے کارناموں میں ان سے کئی گنا بڑھ کر تھیں، لیکن جب انہوں نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو ان کو بہت بڑے عذاب میں مبتلا کردیا گیا اور ان کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا ، اگر تم لوگ بھی ایسے ہی کروگے تو تمہارا انجام بھی ان جیسا ہی ہوگا۔

اس آیت کی تفسیرمیں مولانا مودودی یوں رقمطراز ہیں:

"مطلب یہ ہے کہ اگر تم محض تماشا دیکھنے اور دل بہلانے کے لیے معجزے کا مطالبہ نہیں کر رہے ہو، بلکہ تمہیں صرف یہ اطمینان کرنے کی ضرورت ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن باتوں کو ماننے کی دعوت تمہیں دے رہے ہیں (یعنی توحید اور آخرت) وہ حق ہیں یا نہیں، تو اس کے لیے خدا کی یہ نشانیاں بہت کافی ہیں جو ہر وقت تمہارے مشاہدے اور تجربے میں آ رہی ہیں۔ حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان نشانیوں کے ہوتے کسی اور نشانی کی کیا حاجت رہ جاتی ہے۔ یہ معجزات کے مطالبے کا تیسرا جواب ہے ۔زمین پر جو جانور انسان کی خدمت کر رہے ہیں، خصوصاً گائے، بیل، بھینس، بھیڑ، بکری، اونٹ اور گھوڑے، ان کو بنانے والے نے ایسے نقشے پر بنایا ہے کہ یہ بآسانی انسان کے پالتو خادم بن جاتے ہیں، اور ان سے اس کی بیشمار ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ ان پر سواری کرتا ہے۔ ان سے بار برداری کا کام لیتا ہے۔ انہیں کھیتی باڑی کے کام میں استعمال کرتا ہے۔ ان کا دودھ نکال کر اسے پیتا بھی ہے اور اس سے دہی، لسّی، مکھن، گھی، کھویا، پنیر، اور طرح طرح کی مٹھائیاں بناتا ہے۔ ان کا گوشت کھاتا ہے۔ ان کی چربی استعمال کرتا ہے۔ ان کے اون اور بال اور کھال اور آنتیں اور ہڈی اور خون اور گوبر، ہر چیز اسکے کام آتی ہے۔ کیا یہ اس بات کا کھلا ثبوت نہیں ہے کہ انسان کے خالق نے زمین پر اس کو پیدا کرنے سے بھی پہلے اس کی ان بیشمار ضروریات کو سامنے رکھ کر یہ جانور اس خاص نقشے پر پیدا کردیے تھے تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے؟"۔[[28]]

نیز فرمایا:

"پھر زمین کا تین چوتھائی حصہ پانی سے لبریز ہے اور صرف ایک چوتھائی خشکی پر مشتمل ہے۔ خشک حصوں کے بھی بہت سے چھوٹے اور بڑے رقبے ایسے ہیں جن کے درمیان پانی حائل ہے۔ کرہ زمین کے ان خشک علاقوں پر انسانی آبادیوں کا پھیلنا اور پھر ان کے درمیان سفر و تجارت کے تعلقات کا قائم ہونا اس کے بغیر ممکن نہ تھا کہ پانی ، سمندروں اور ہواؤں کو ایسے قوانین کا پابند بنایا جاتا جن کی بدولت جہاز رانی کی جاسکتی، اور زمین پر وہ سر و سامان پیدا کیا جاتا جسے استعمال کر کے انسان جہاز سازی پر قادر ہوتا۔ کیا یہ اس بات کی صریح علامت نہیں ہے کہ ایک ہی قادر مطلق رب رحیم و حکیم ہے جس نے انسان ، زمین ، پانی ، سمندروں ، ہواؤں اور ان تمام چیزوں کو جو زمین پر ہیں اپنے خاص منصوبے کے مطابق بنایا ہے۔ بلکہ اگر انسان صرف جہاز رانی ہی کے نقطہ نظر سے دیکھے تو اس میں تاروں کے مواقع اور سیاروں کی باقاعدہ گردش سے جو مدد ملتی ہے وہ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ زمین ہی نہیں، آسمان کا خالق بھی وہی ایک رب کریم ہے"۔

اس کے بعد اس بات پر بھی کہ جس خدائے حکیم نے اپنی اتنی بیشمار چیزیں انسان کے تصرف میں دی ہیں اور اس کے مفاد کے لیے یہ کچھ سر و سامان فراہم کیا ہے، کیا بسلامتی ہوش و حواس آپ اس کے متعلق یہ گمان کرسکتے ہیں کہ وہ معاذاللہ ایسا آنکھ کا اندھا اور گانٹھ کا پورا ہوگا کہ وہ انسان کو یہ سب کچھ دے کر کبھی اس سے حساب نہ لے گا۔"[[29]]

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنی نشانیاں بیان کرنے کے بعد سوال فرما رہے ہیں کہ تم زمین میں چلو پھرو اور دیکھو ہماری نشانیوں کو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے، ان لوگوں کو ہم نے تم سے زیادہ قوت و طاقت عطا کی تھی بہت قدآور تھے ان کو ایک پلک جھپکنے میں نیست و نابود کر دیا کوئی انکی مدد نہ کر سکا کیا یہ سوچتے ہیں کہ لوگ جو کچھ بھی کرتے رہیں ہم ان سے حساب نہ لیں گے تو حقیقت اسکے برعکس ہے ۔

(۱۳)سورةالمرسلات میں اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں:

"اَلَم نَخلُقكُّم مِّن مَّآءٍ مَّهِينٍۙ "[[30]]

"کیا ہم نے ایک حقیر پانی سے تمہیں پیدا نہیں کیا"۔

"اَلَم نَجعَلِ الاَرضَ كِفَاتًا "[[31]]

"کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا"۔

پہلی آیت میں اللہ پاک انسان کو اس کی تخلیق کے بارے میں غور و فکر کا حکم دے رہے ہیں کہ اے انسان! اپنی تخلیق پر غور کر، ایک پانی سے زندہ انسان بنانے پر کوئی اور ذات ہے ایسی جو یہ اختیار رکھتی ہو؟ ایک بے جان چیز سے جاندار چیز بنا سکتی ہو؟ تم اپنے ضعف کو بھول گئے کہ تم نہ خود کھا سکتے تھے نہ پی سکتے تھے، نہ چل سکتے، وہ وقت یاد رکھو جب تم کچھ بھی نہ تھے اور عدم سے تمہیں تمہارے رب نے وجود بخشا، پھر تم کو زندگی دی اور ایک طاقتور جوان انسان بنایا، کیا تم اس رب پر ایمان لانے میں تردد کا شکا ہو رہے ہو۔اگلی آیت میں زمین کو بیان فرما کر وضاحت فرمائی کہ ہم نے تمہارے جینے کے لئے زمین بنائی، اس سے طرح طرح کی نباتات اگتی ہیں جو کہ تمہارے لیے نفع مند ہیں۔

مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

"یہ آخرت کے ممکن اور معقول ہونے پر ایک دلیل ہے۔ یہی ایک کرہ زمین ہے جو کروڑوں اور اربوں سال سے بےحدوحساب مخلوقات کو اپنی گود میں لیے ہوئے ہے، ہر قسم کی نباتات، ہر قسم کے حیوانات اور انسان اس پر جی رہے ہیں اور سب کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے پیٹ میں سے طرح طرح کے خزانے نکلتے چلے آ رہے ہیں۔ پھر یہی زمین ہے جس پر ان تمام اقسام کی مخلوقات کے بیشمار افراد روز مرتے ہیں، مگر ایسا بےنظیر انتظام کردیا گیا ہے کہ سب کے لاشے اسی زمین میں ٹھکانے لگ جاتے ہیں اور یہ پھر ہر مخلوق کے نئے افراد کے جینے اور بسنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔ اس زمین کو سپاٹ گیند کی طرح بھی بنا کر نہیں رکھ دیا گیا ہے بلکہ اس میں جگہ جگہ پہاڑی سلسلے ہیں جن کا موسموں کے تغیرات میں، بارشوں کے برسنے میں، دریاؤں کی پیدائش میں، زرخیز وادیوں کے وجود میں،  درختوں کے اگنے میں، قسم قسم کی معدنیات اور طرح طرح کے پتھروں کی فراہمی میں بہت بڑا دخل ہے"۔ [[32]]

نیز فرمایا:

 "اس زمین کے پیٹ میں بھی میٹھا پانی پیدا کیا گیا ہے، اس کی پیٹھ پر بھی میٹھے پانی کی نہریں بہا دی گئی ہیں اور سمندر کے کھارے پانی سے صاف ستھرے بخارات اٹھا کر بھی نتھرا ہوا پانی آسمان سے برسانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ کیا یہ سب اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ایک قا در مطلق نے یہ سب کچھ بنایا ہے اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس کے بعد ایک دوسری دنیا بنائے تاکہ انسان سے ان اعمال کا حساب لے جو اس نے اس دنیا میں کیے ہیں ؟" ۔[[33]]

پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ انسان کی پیدائش کا ذکر فرما رہے ہیں کہ انسان کو بے جان چیز سے پیدا فرما کر اس کو زندگی عطا کی اور بھرپور نوجوان بنایا، انسان کی حیثیت ہی کیا ہے ایک حقیر پانی کے ساتھ جس کی تخلیق ہوئی وہی اپنے پیدا کرنے والے کی نافرمانی کرے اور اسکے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے تو اس سے سخت کیا بات ہوگی اسی طرح زمین کی مثال بیان فرما کر اپنی عظیم نعمتوں کے بارے میں سوال فرمایا تاکہ لوگوں میں تشویق پیدا کی جا سکے۔ زمین کو انسان کے لئے بنایا تاکہ اس پر چلیں، اس سے مختلف اقسام کے پھل، نباتات اگائے جو کہ انسانوں اور جانوروں کے کام آتے ہیں۔ ان آیات پر غور کرنے کے بعد کوئی بھی صاحبِ عقل انسان اللہ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہرا سکتا۔



[[1]]         عبدالولی، حقیقت توحید،انجمن اصلاح معاشرہ،یوپی،انڈیا،۲۰۱۶،ص۲۰,۲۱

[[2]]          القرآن ، ۳ :۱۰۸۔

[[3]]         مودودی، سید ابوالاعلی ،تفہیم القران، ترجمان القرآن، لاہور، ۱۴۲۶ھ،۱/۲۹۸،۲۹۹

[[4]]          القرآن ، ۴: ۸۲۔

[[5]]         مودودی، تفہیم القرآن ،۱/۳۷۶،۳۷۷

[[6]]         القرآن ، ۷: ۱۸۵

[[7]]         مودودی، تفہیم القرآن ،۱/۱۰۴،۱۰۵

[[8]]         القرآن ، ۱۰: ۳۴

[[9]]         مودودی، تفہیم القرآن ،۲/۲۸۳

[[10]]       القرآن ، ۷ ۱: ۹۹

[[11]]       القرآن ، ۲۳ :۸۴

[[12]]       ایضاً، ۸۵

[[13]]       القرآن ، ۲۳ :۸۶۔

[[14]]  ایضاً، ۸۹

[[15]]       مودودی، تفہیم القرآن ،۳/۲۹۵،۲۹۶

[[16]]       مودودی، تفہیم القرآن ،۳/۲۹۵،۲۹۶

[[17]]  القرآن ، ۲۱ : ۴۲

[[18]]       القرآن ، ۲۲ : ۷

[[19]]       القرآن ، ۲۴: ۵۰

[[20]]       مودودی، تفہیم القرآن ، ۳/۴۱۵،۴۱۶

[[21]]       القرآن ، ۳۰ :۳۵

[[22]]       القرآن ، ۳۰: ۳۷

[[23]]       مودودی، تفہیم القرآن ،۳/۳۵۷،۳۵۶

[[24]]       القرآن ، ۳۹ :۴۳۔

[[25]]       مودودی، تفہیم القرآن ،۴/۳۷۶

[[26]]       القرآن ، ۴۰: ۸۱۔

[[27]]       القرآن ، ۴۰: ۸۲

[[28]]       مودودی، تفہیم القرآن ،۴/۴۲۹ تا۴۳۱

[[29]]       ایضاً۔

[[30]]       القرآن ، ۷۷ :۲۰

[[31]]       القرآن ، ۷۷ :۲۵

[[32]]       مودودی ، تفہیم القرآن ،۶/۲۱۳ تا ۲۱۵

[[33]]       مودودی ، تفہیم القرآن ،۶/۲۱۳ تا ۲۱۵۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...