Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

آیاتِ استفہام اور فہمِ عبادات
ARI Id

1695203136242_56118296

Access

Open/Free Access

Pages

73

عبادت کے معنی ’’اطاعت، خشوع و خضوع اور بندگی‘‘ کے ہیں۔ عبد جو کہ غلام اور بندے کو کہا جاتا ہے عبادت کوئی ثانوی چیز نہیں ہے جو زندگی میں کہیں ضمناً آجاتی ہو۔

 عقائد کے بعد سب سے زیادہ اہمیت تمام مذاہب میں عبادت کو دی گئی ہے ۔درحقیقت یہ دونوں ایک دوسرے کے ایسے لازم و ملزوم ہیں کہ ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ عقیدہ درخت ہے تو عبادت اس کا پھل ہے۔اور درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے ۔اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ دین کے مختلف شعبوں کی طرح اس نے عبادت کے مفہوم اور اس کے طُرق کے متعلق بھی ایک ایسا واضح اور جامع ہدایت نامہ پیش کیا جو ہر اعتبار سے بے مثال ہے۔ چنانچہ اگر دنیا کے کل بانیانِ مذاہب اور داعیوں کے تعلیم و عمل کا مطالعہ اس پہلو سے کیا جائے کہ عبادت کے معنی پر کوئی تسلی بخش روشنی پڑ سکے ۔ اور اس کے بہترین طریقوں کا علم حاصل ہو سکے تو حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی وہ واحد ذات ہے جو واضح حقیقت کی طرف راہ نمائی کر سکے ۔اسلامی عبادات کا اولین طرہ امتیاز یہ ہے کہ اللہ وحدہ کی اور اللہ وحدہ کے لیے ہوتی ہے، جس میں کسی دوسرے کو کسی بھی اعتبار سے شریک نہیں کیا جاسکتا ہے ۔اس میں نہ تو پیغمبر کا کوئی حصہ ہے، نہ ان کے گھر والوں کا اور نہ فرشتوں کا اور نہ ولیوں اور شہیدوں کا ،اسلام کا یہ فیصلہ اٹل ہے کہ خدا کے علاوہ زمین پر اور نہ آسمانوں میں کوئی شے یا کوئی ہستی ایسی ہے جو لائقِ پرستش ہو، جس کے سامنے انسان اپنی گردن جھکاسکے اور جس کی بارگاہ میں اپنی روح اور اپنے ضمیر کی انتہائی گہرائیوں سے نکال کر بندگی اور عبودیت کا نذرانہ پیش کرسکے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں:

"قُلْ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔" [[1]]

"بلاشبہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب اسی ایک اللہ کے لیے ہے جو کل جہانوں کا پروردگار ہے۔"

"إِن کُلُّ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِی الرَّحْمَٰنِ عَبْدًا"․[[2]]

"زمین و آسمان میں جو کوئی بھی ہے وہ ضرور ایک دن اسی مہربان خدا کے سامنے غلام بن کر آنے والا ہے۔"

اللہ پاک ان آیات میں حکم دے رہے ہیں کہ اے نبی! کہہ دیجیے کہ میری زندگی کا ہر عمل صرف اور صرف اللہ کی ذات اقدس کے لئےخاص ہے، میری ہر عبادت میرے معبود اللہ وحدہ کے لئے ہے، اس میں کوئی بھی شریک نہیں ہے اور وہی تمام کائنات کا مالک ہے، ہر جاندار کا وہی بنانے والا ہے اور ہماری زندگی کا مقصد بھی صرف اس کی عبادت کرنا ہے۔ عبادت کے ذریعے اس کی خوشنودی اور اس کا قرب حاصل کرنا ہے۔ اور ہماری اولین ترجیحات میں ہونے سے ہم اس کے فرمانبردار اور کامیاب لوگوں میں شامل ہوسکیں۔

"عبادت کی اصل مقصد بندہ کا خالق کے سامنے بندگی و بے چارگی کا اظہار، اس رحمن و رحیم کی یاد ،اس کے بے انتہا احسانوں کا شکریہ ادا کرنا،اس کی حمدو ثنا اور اس کی بڑائی اور یکتائی کا اقرار کرنا ہے ۔اور یہ اس لیے نہیں کہ اس میں خالق مطلق کا کوئی فائدہ ہے ،یااس سے اس کی عظمت و کبریائی میں اضافہ ہوتا ہے ،(مفہومِ حدیث کے مطابق کہ ”اگر کل جہان کے لوگ اعلیٰ درجہ کے پرہیز گار اور عبادت گزار ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کی بڑائی میں ذرہ برابر زیادتی نہ ہوگی اور اگر سب لوگ بدترین درجہ کے نافرمان اور فاسق و فاجر ہو جائیں تو اس کی عظمت اور بزرگی میں ذرہ برابر کمی نہ ہوگی)بلکہ اس وجہ سے کہ اس میں انسان ہی کا خاص الخاص فائدہ اور اس کی تخلیق کی تکمیل اور تقاضا ہے ،کیوں کہ دل و دماغ اور نفس و روح میں پاکیزگی و صفائی پیدا کرنے اور بندہ کو خدا سے قریب لانے اور اس کی خاص رضا و رحمت کا مستحق بنانے کا عبادت کے سوا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے''۔[[3]]

''عبادت کے صحیح طریقوں کے متعلق انسان وحی الہٰی کا محتاج ہے۔وہ اپنے عقل و حواس سے بطور خود اس کا تعین نہیں کر سکتا کہ وہ کون سے رسوم و اعمال ہیں جو تقرب الی اللہ اور تزکیہ روح کا ذریعہ بن سکتے ہیں ۔ اسلام سے پہلے یہ خیال عام تھا کہ خدا کو خوش کرنے کے لیے بندہ کو چاہیے کہ وہ دنیا سے روٹھ جائے ،علائق ترک کر دے اور کسی غار یا جنگل میں جا کے بیٹھ جائے ،دین داری کا کمال اس میں سمجھا جاتا تھا کہ انسان اپنے اوپر زیادہ سے زیادہ تکلیف ڈالے ،روح کی نشو ونما کا بس یہی ایک مجرب نسخہ تھا ،یعنی جسم کو آزار دینا ،اسی لیے لوگ اپنے جسم کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے ،کوئی کھانے پینے کی مرغوب چیزیں اپنے اوپر حرام کر لیتا تھا ،کوئی اپنا ہاتھ خشک کر لیتا تھا ،کوئی منوں لوہا اپنے اوپر لاد لیتا تھا ،کوئی لیٹنے اور سونے سے قطعاً پرہیز کرتا تھا ،کوئی ننگے بدن صحراؤں میں مارا مارا پھرتا تھا ،کوئی وحشی درندوں کے غار ،خشک کنوئیں یا قبرستان کو اپنا مسکن بنا لیتا تھا ،کسی نے مجرد رہنے کی قسم کھا رکھی تھی ،زاہد اپنے بیوی بچوں سے دغا کر کے اور ان کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ویرانوں میں حق کی روشنی تلاش کیا کرتے تھے ،اسلام نے ان غلو آمیز تصورات کی اصلاح کی ۔اس نے بتایا کہ جسم روح کا دشمن نہیں ہے ۔اور یہی نہیں ،بلکہ ان دونوں کا وجود باہم ہی زندگی کی قدرتی اساس ہے،دین کا کام سختی نہیں ،آسانی پیدا کرنا ہے ،وہ بندہ کے لیے اس حدتک ہے جو اس کی استطاعت کے اندر ہے۔"[[4]]

قرآن مجید میں بہت سی آیات استفہام عبادت کے ضمن میں وارد ہوئیں ذیل میں ان آیات کی وضاحت کی جا رہی ہے۔

(۱)سورة البقرة میں ارشاد ربانی ہے:

"اَلَم تَرَ اِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُم كُفُّوا اَيدِيَكُم وَاَقِيمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰ تُوا الزَّكٰوةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيهِمُ القِتَالُ اِذَا فَرِيقٌ مِّنهُم يَخشَونَ النَّاسَ كَخَشيَةِ اللّٰهِ اَو اَشَدَّ خَشيَةً‌ وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبتَ عَلَينَا القِتَالَ لَولَا اَخَّرتَنَا اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيبٍ‌ قُل مَتَاعُ الدُّنيَا قَلِيلٌ‌ وَالاٰخِرَةُ خَيرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى وَلَا تُظلَمُونَ فَتِيلًا'' ۔[[5]]

"تم نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰة دو؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر۔ کہتے ہیں خدایا! یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مُہلت دی؟ ان سے کہو، دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے، اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لیے زیادہ بہتر ہے، اور تم پر ظلم ایک شمّہ برابر بھی نہ کیا جائے گا"۔

اس آیت میں وضاحت کی جا رہی ہے کہ کافر لوگ مسلمانوں کو بہت ستایا کرتے تھے تو مسلمان نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر شکایت کرتے اور اجازت لیا کرتے کہ ہم کفار کا مقابلہ کریں اور ان سے ظلم کا بدلہ لیں۔ مگر نبی ﷺ مسلمانوں کو منع فرماتے تھے کہ لڑائی نہ کرو کیونکہ مجھے اس کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ صبر اور درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے، تم اپنی عبادت کرتے رہو، نماز پڑھو، زکوٰۃ ادا کرو، مسلمانوں نے اس بات کو قبول کرلیا مگر پھر ہجرت کے بعد جہاد کا خم حکم دیا گیا تو کمزور ایمان والے اور منافق لوگ کافروں سے مقاتلہ کرنے سے ڈرنے لگے اور آرزو کرنے لگے کہ کاش ابھی تھوڑی مدت تک اور جہاد کا حکم نہ آتا ہم زندہ رہتے، تب اللہ نے فرمایا کہ یہ زندگی تو عارضی ہے اور اس کا فائدہ بھی کم ہے، اصل زندگی تو آخرت کی ہے، جو کہ اس سے بہت بہتر ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی یوں رقمطراز ہیں:

اس آیت کے تین مفہوم ہیں اور تینوں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں:۔

"ایک مفہوم یہ ہے کہ پہلے یہ لوگ خود جنگ کے لیے بےتاب تھے۔ بار بار کہتے تھے کہ صاحب ہم پر ظلم کیا جا رہا ہے، ہمیں ستایا جاتا ہے، مارا جاتا ہے، گالیاں دی جاتی ہیں، آخر ہم کب تک صبر کریں، ہمیں مقابلہ کی اجازت دی جائے۔ اس وقت ان سے کہا جاتا تھا کہ صبر کرو اور نماز و زکوٰۃ بھی اپنے نفس کی اصلاح کرتے رہو، تو یہ صبر و برداشت کا حکم ان پر شاق گزرتا تھا۔ مگر اب جو لڑائی کا حکم دے دیا گیا تو انہی تقاضا کرنے والوں میں سے ایک گروہ دشمنوں کا ہجوم اور جنگ کے خطرات دیکھ کر سہما جا رہا ہے۔''

"دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب تک مطالبہ نماز اور زکوٰۃ اور ایسے ہی بےخطر کاموں کا تھا اور جانیں لڑانے کا کوئی سوال درمیان میں نہ آیا تھا یہ لوگ پکے دیندار تھے۔ مگر اب جو حق کی خاطر جان جوکھوں کا کام شروع ہوا تو ان پر لرزہ طاری ہونے لگا۔"

"تیسرا مفہوم یہ ہے کہ پہلے تو لوٹ کھسوٹ اور نفسانی لڑائیوں کے لیے ان کی تلوار ہر وقت نیام سے نکلی پڑتی تھی اور رات دن کا مشغلہ ہی جنگ و پیکار تھا۔ اس وقت انہیں خونریزی سے ہاتھ روکنے اور نماز و زکوٰۃ سے نفس کی اصلاح کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اب جو خدا کے لیے تلوار اٹھانے کا حکم دیا گیا تو وہ لوگ جو نفس کی خاطر لڑنے میں شیر دل تھے، خدا کی خاطر لڑنے میں بزدل بنے جاتے ہیں۔ وہ دست شمشیر زن جو نفس اور شیطان کی راہ میں بڑی تیزی دکھاتا تھا اب خدا کی راہ میں شل ہوا جاتا ہے۔"

یہ تینوں مفہوم مختلف قسم کے لوگوں پر چسپاں ہوتے ہیں اور آیت کے الفاظ جامع ہیں کہ تینوں پر یکساں دلالت کرتے ہیں ۔ان آیات میں اللہ تعالیٰ انذار کے لئے مسلمانوں سے سوال فرما رہے ہیں کہ اللہ کے حکم کے مطابق عمل کروگے تو کامیاب ہوگے ورنہ روز قیامت رسواکن عذاب تم کو دیا جائے گا۔[[6]]

اس آیت میں اللہ پاک بطور تعجب کے سوال فرما رہے ہیں کہ تمہاری خواہش کے مطابق جب تمہیں قتال کا حکم دیا گیا تو تم منہ موڑنے لگے اور اس عارضی زندگی کی خواہش کرنے لگے تو یہ تمہارے کمزور ایمان کی نشانی ہے کیونکہ آخرت بہتر ہے اور وہیں پر انسان کو ہمیشہ جا رہنا ہے۔

(۲) سورة الاعراف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَ اِذ اَخَذَ رَبُّكَ مِنۢ بَنِى اٰدَمَ مِن ظُهُورِهِم ذُرِّيَّتَهُم وَ اَشهَدَهُم عَلٰٓى اَنفُسِهِم‌ اَلَستُ بِرَبِّكُم‌ قَالُوا بَلٰى‌ ۛ شَهِدنَا ‌ۛ اَن تَقُولُوا يَومَ القِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَن هٰذَا غٰفِلِينَ"۔ [[7]]

"اور اے نبی، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پُشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا ”کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟“ انہوں نے کہا” ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ”ہم اس بات سے بے خبر تھے۔"

اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی تحریر کرتے ہیں:

 "اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے اطاعت و بندگی کا عہد لیا تھا۔ اب تمام انسانوں کی طرف خطاب کر کے انہیں بتایا جا رہا ہے کہ تم سب اپنے خالق کے ساتھ ایک میثاق میں بندھے ہوئے ہو اور تمہیں ایک روز اس کی تخلیق کی جواب دہی کرنی ہے کہ تم نے اس میثاق کی کہاں تک پاسداری کی۔جیسا کہ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ تخلیق آدم کے موقع پر پیش آیا تھا۔ اس وقت جس طرح فرشتوں کو جمع کر کے انسان اول کو سجدہ کرایا گیا تھا اور زمین پر انسان کی خلافت کا اعلان کیا گیا تھا، اسی طرح پوری نسل آدم کو بھی، جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی، اللہ تعالیٰ نے بیک وقت وجود اور شعور بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا تھا اور ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت لی تھی۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت اُبَیّ بن کعب نے غالباً نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفادہ کر کے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس مضمون کی بہترین شرح ہے۔ وہ فرماتے ہیں ۔

قَالَ : جَمَعَهُمْ فَجَعَلَهُمْ أَرْوَاحًا، ثُمَّ صَوَّرَهُمْ فَاسْتَنْطَقَهُمْ فَتَكَلَّمُوا، ثُمَّ أَخَذَ عَلَيْهِمُ الْعَهْدَ وَالْمِيثَاقَ، وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ؟ قَالَ : فَإِنِّي أُشْهِدُ عَلَيْكُمُ السَّمَاوَاتِ السَّبْعَ، وَالْأَرَضِينَ السَّبْعَ، وَأُشْهِدُ عَلَيْكُمْ أَبَاكُمْ آدَمَ، أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ : لَمْ نَعْلَمْ بِهَذَا، اعْلَمُوا أَنَّهُ لَا إِلَهَ غَيْرِي، وَلَا رَبَّ غَيْرِي، فَلَا تُشْرِكُوا بِي شَيْئًا، إِنِّي سَأُرْسِلُ إِلَيْكُمْ رُسُلِي يُذَكِّرُونَكُمْ عَهْدِي وَمِيثَاقِي، وَأُنْزِلُ عَلَيْكُمْ كُتُبِي۔ قَالُوا : شَهِدْنَا بِأَنَّكَ رَبُّنَا وَإِلَهُنَا، لَا رَبَّ لَنَا غَيْرُكَ، وَلَا إِلَهَ لَنَا غَيْرُكَ۔ فَأَقَرُّوا بِذَلِكَ۔ وَرُفِعَ عَلَيْهِمْ آدَمُ يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، فَرَأَى الْغَنِيَّ وَالْفَقِيرَ، وَحَسَنَ الصُّورَةِ وَدُونَ ذَلِكَ، فَقَالَ : رَبِّ، لَوْلَا سَوَّيْتَ بَيْنَ عِبَادِكَ۔ قَالَ : إِنِّي أَحْبَبْتُ أَنْ أُشْكَرَ۔ وَرَأَى الْأَنْبِيَاءَ فِيهِمْ مِثْلَ السُّرُجِ، عَلَيْهِمُ النُّورُ، خُصُّوا بِمِيثَاقٍ آخَرَ فِي الرِّسَالَةِ وَالنُّبُوَّةِ، وَهُوَ قَوْلُهُ تَعَالَى : { وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ }۔ إِلَى قَوْلِهِ : { عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ }۔ كَانَ فِي تِلْكَ الْأَرْوَاحِ فَأَرْسَلَهُ إِلَى مَرْيَمَ۔ فَحَدَّثَ عَنْ أُبَيٍّ أَنَّهُ دَخَلَ مِنْ فِيهَا۔[[8]]

" اللہ تعالیٰ نے سب کو جمع کیا اور (ایک ایک قسم یا ایک ایک دور کے) لوگوں کو الگ الگ گروہوں کی شکل میں مرتب کر کے انہیں انسانی صورت اور گویائی کی طاقت عطا کی، پھر ان سے عہد و میثاق لیا اور انہیں آپ اپنے اوپر گواہ بناتے ہوئے پو چھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے عرض کیا ضرور آپ ہمارے رب ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر زمین و آسمان سب کو اور خود تمہارے باپ آدم کو گواہ ٹھہراتا ہوں تاکہ تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو اس کا علم نہ تھا۔ خوب جان لو کہ میرے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ہے اور میرے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ میں تمہارے پاس اپنے پیغمبر بھیجوں گا جو تم کو یہ عہد و میثاق جو تم میرے ساتھ باندھ رہے ہو، یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا۔ اس پر سب انسانوں نے کہا کہ ہم گواہ ہوئے، آپ ہی ہمارے رب اور آپ ہی ہمارے معبود ہیں، آپ کے سوا نہ کوئی ہمارا رب ہے نہ کوئی معبود" ۔

 اس معاملہ کو بعض لوگ محض تمثیلی انداز بیان پر محمول کرتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ دراصل یہاں قرآن مجید صرف یہ بات ذہن نشین کرنا چاہتا ہے کہ اللہ کی ربوبیت کا اقرار انسانی فطرت میں پیوست ہے، اور اس بات کو یہاں ایسے انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ گویا یہ ایک واقعہ تھا جو عالم خارجی میں پیش آیا۔ لیکن ہم اس تاویل کو صحیح نہیں سمجھتے۔

مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں کہ:

قرآن اور حدیث دونوں میں اس ایک واقعہ کو بیان گیا گیا ہے اور صرف بیان واقعہ پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ قیامت کے روز بنی آدم پر حجت قائم کرتے ہوئے اس ازلی عہد و اقرار کو سند میں پیش کیا جائے گا۔ ہمارے نزدیک یہ واقعہ بالکل اسی طرح پیش آیا تھا جس طرح عالم خارجی میں واقعات پیش آیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فی الواقع ان تمام انسانوں کو جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، بیک وقت زندگی اور شعور اور گویائی عطا کر کے اپنے سامنے حاضر کیا تھا، اور فی الواقع انہیں اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کردیا تھا کہ ان کا کوئی رب اور کوئی الٰہ اس کی ذات اقدس و اعلیٰ کے سوا نہیں ہے، اور ان کے لیے کوئی صحیح طریق زندگی اس کی بندگی و فرماں برداری (اسلام) کے سوا نہیں ہے۔ پھر یہ بات نہایت معقول معلوم ہوتی ہے کہ انسان جیسی صاحب عقل و شعور اور صاحب تصرف و اختیارات مخلوق کو زمین پر بحیثیت خلیفہ مامور کرتے وقت اللہ تعالیٰ اسے حقیقت سے آگاہی بخشے اور اس سے اپنی وفاداری کا اقرار (Oath of allegiance) لے۔ اس معاملہ کا پیش آنا قابل تعجب نہیں، البتہ اگر یہ پیش نہ آتا تو ضرور قابل تعجب ہوتا۔"[[9]]

اس آیت میں اللہ تعالیٰ بطور انذار کے استفہام فرماتے ہیں کہ وہ میں نے جو تم سے وعدہ لیا تھا اپنی ربوبیت کے بارے میں تو ہر انسان عند اللہ مسئول ہوگا اور قرآن میں یاد دہانی کے طور پر ہی اس وعدے کے اقرار کا ذکر کیاجا رہا ہے تاکہ قیامت کے دن کوئی انسان اس کا انکار نہ کر سکے۔

 (۳)سورةمريم میں ارشادِ خداوندی ہے:

"رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضِ وَمَا بَينَهُمَا فَاعبُدهُ وَاصطَبِر لِـعِبَادَتِهٖ‌ هَل تَعلَمُ لَهٗ سَمِيًّا"[[10]]

"وہ ربّ ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور اُن ساری چیزوں کا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں۔ پس تم اُس کی بندگی کرو اور اُسی کی بندگی پر ثابت قدم رہو۔ کیا ہے کوئی ہستی تمہارے علم میں اُس کی ہم پایہ؟"

اس آیت کی تفسیر میں آپﷺ کو صبر اور انتظار کی تلقین کی جا رہی ہے کہ آپ کا معاملہ ایسی ذات سے ہے جو تمام آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور جو کچھ ان کے درمیان وہ سب کا سب اسی کا ہے۔ رب کی بندگی کیجئے اور اس کی بندگی پر استقلال و پامردی سے جمے رہیں اور یہاں یہ لفظ عبادت اطاعت کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ صبر کے ساتھ اپنا کام کرتے رہیں ہر مشکل آسان ہوجائے گی اور اللہ بہت بلند ذات ہے، اس کا کوئی ہم پلہ نہیں ہے۔

اس آیت کی تفسیرمیں صاحب تفسیر بیان کرتے ہیں کہ:

" اس کی بندگی کے راستے پر مضبوطی کے ساتھ چلو اور اس راہ میں جو مشکلات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرو۔ اگر اس کی طرف سے یاد فرمائی اور مدد اور تسلی میں کبھی دیر لگ جایا کرے تو اس پر گھبراؤ نہیں۔ ایک مطیع فرمان بندے کی طرح ہر حال میں اس کی مشیت پر راضی رہو اور پورے عزم کے ساتھ وہ خدمت انجام دیے چلے جاؤ جو ایک بندے اور رسول کی حیثیت سے تمہارے سپرد کی گئی ہے۔اصل میں لفظ سمی استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنی " ہم نام " کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تو الٰہ ہے۔ کیا کوئی دوسرا الٰہ بھی تمہارے علم میں ہے ؟ اگر نہیں ہے اور تم جانتے ہو کہ نہیں ہے تو پھر تمہارے لیئے اس کے سوا اور راستہ ہی کونسا ہے کہ اس کی بندگی کرو اور اس کے حکم کے بندے بن کر رہو۔"[[11]]

اللہ تبارک وتعالیٰ اس آیت میں بیان فرما رہے ہیں کہ اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور جو کچھ بھی اس میں موجود ہے ہر چیز کا ہی رب ہے تو کیا کوئی اس کے برابر ہو سکتا ہے اللہ پاک معلومات کو یقینی بنانے کے لئے سوال فرما رہے ہیں ۔ کیا کوئی اس کا ہمسر ہو سکتا ہے، اس کی برابری کر سکتا ہے؟ کیونکہ وہ اکیلا ہی ہر چیز کا بنانے والا ہے، اس کی خدائی میں کوئی نہین ہے وہی الہ ہے اور وہی معبود ہے اوراس کے راستے کے سوا کوئی بھی ہدایت کا راستہ نہیں ہے۔

(۴) سورة طه میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

"وَمَا اَعجَلَكَ عَن قَومِكَ يٰمُوسٰى "[[12]]

" اور کیا چیز تمہیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی موسیٰؑ ؟"

"قَالَ هُم اُولَاءِ عَلٰٓى اَثَرِى وَ عَجِلتُ اِلَيكَ رَبِّ لِتَرضٰى "[[13]]

" اُس نے عرض کیا " وہ بس میرے پیچھے آ ہی رہے ہیں میں جلدی کر کے تیرے حضور آ گیا ہوں اے میرے رب، تاکہ تو مجھ سے خوش ہو جائے"

"قَالَ فَاِنَّا قَد فَتَـنَّا قَومَكَ مِنۢ بَعدِكَ وَاَضَلَّهُمُ السَّامِرِىُّ "[[14]]

" فرمایا”اچھا، تو سُنو، ہم نے تمہارے پیچھے تمہاری قوم کو آزمائش میں دال دیا اور سامری نے اُنہیں گمراہ کر ڈالا۔"

"اَفَلَا يَرَونَ اَلَّا يَرجِعُ اِلَيهِم قَولًا وَّلَا يَملِكُ لَهُم ضَرًّا وَّلَا نَفعًا "[[15]]

"کیا وہ نہ دیکھتے تھے کہ نہ وہ اُن کی بات کا جواب دیتا ہے اور نہ ان کے نفع و نقصان کا کچھ اختیار رکھتا ہے؟ "۔

بنی اسرائیل سے کیے گئے وعدہ کاذکر بیان کیا گیا تھا کہ جو ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ تم طور کے دائیں جانب ٹھہرو، اور چالیس دن کی مدت گزرنے پر تمہیں ہدایت نامہ عطا کیا جائے گا۔ اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو راستے ہی میں چھوڑ کر حضرت موسیٰ اپنے رب کی ملاقات کے شوق میں آگے چلے گئے تھے۔ طور کی جانب ایمن میں، جہاں کا وعدہ بنی اسرائیل سے کیا گیا تھا، ابھی قافلہ پہنچنے بھی نہ پایا تھا کہ حضرت موسیٰ اکیلے روانہ ہوگئے اور حاضری دے دی۔ حضرت موسیٰ کا دیدار الہٰی کی استدعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا، پھر اللہ کا ایک پہاڑ پر ذرا سی تجلی فرما کر اسے ریزہ ریزہ کردینا اور حضرت موسیٰ کا بیہوش ہو کر گر پڑنا، اس کے بعد پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے احکام عطا ہونا، یہ سب اسی وقت کے واقعات ہیں۔ یہاں ان واقعات کا صرف وہ حصہ بیان کیا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل کی گو سالہ پرستی سے متعلق ہے۔

 کفار مکہ کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ ایک قوم میں بت پرستی کا آغاز کس طرح ہوا کرتا ہے اور اللہ کے نبی اس فتنے کو اپنی قوم میں سر اٹھاتے دیکھ کر کیسے بےتاب ہوجایا کرتے ہیں ۔

اس آیت کی تفسیر یوں بیان کی گئی ہے:

سامری وہ شخص تھا جس نے بنی اسرائیل میں سنہری بچھڑے کی پرستش پھیلائی۔ اس سے زیادہ کوئی تشریح قرآن کے اس مقام کی تفسیر کے لیے فی الحقیقت درکار نہیں ہے۔ لیکن یہ مقام ان اہم مقامات میں سے ہے جہاں عیسائی مشنریوں، اور خصوصاً مغربی مستشرقین نے قرآن پر حرف گیر کی حد کردی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ، معاذ اللہ، قرآن کے مصنف کی جہالت کا صریح ثبوت ہے، اس لیے کہ دولت اسرائیل کا دارالسلطنت " سامریہ " اس واقعہ کے کئی صدی بعد ۹۶۵ ق م کے قریب زمانے میں تعمیر ہوا، پھر اس کے بھی کئی صدی بعد اسرائیلیوں اور غیر اسرائیلیوں کی وہ مخلوط نسل پیدا ہوئی جس نے " سامریوں " کے نام سے شہرت پائی۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ان سامریوں میں چونکہ دوسری مشرکانہ بدعات کے ساتھ ساتھ سنہری بچھڑے کی پرستش کا رواج بھی تھا، اور یہودیوں کے ذریعہ سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کی سن گن پالی ہوگی، اس لئے انہوں نے لے جا کر اس کا تعلق حضرت موسیٰ کے عہد سے جوڑ دیا اور یہ قصہ تصنیف کر ڈالا کہ وہاں سنہری بچھڑے کی پرستش رائج کرنے والا ایک سامری شخص تھا۔ [[16]]

بنی اسرائیل نے بچھڑے کو معبود بنالیا اللہ پاک فرما رہے ہی کہ کیا تم دیکھتے نہیں کی یہ مٹی کا بنا ہوا جانور تمہیں نفع اور نقصان دینے کا اختیار کیسے رکھ سکتا ہے ؟ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے باطل کا رد اور شرک کی تردید فرماتے ہوئے سوال فرمایا ہے۔

موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کفار مکہ بتوں کو مانتے تھے، ان کو نفع و نقصان کا مالک سمجھتے تھے، ان کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ تم سے پہلے بنی اسرائیل کے لوگوں نے بھی یہی حرکت کی تھی تو ان کے واقعے سے نصیحت حاصل کر اور یہ بے جان چیزیں تمہیں کوئی بھی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتیں تو تم کیوں غفلت میں پڑے ہوئے ہو اور اپنی زندگی برباد کر رہے ہو۔

(۵) سورہ الانبیاء میں ارشادِ الٰہی ہے:

"اُفٍّ لَّـكُم وَلِمَا تَعبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰهِ‌ اَفَلَا تَعقِلُونَ"[[17]]

"تف ہے تم پر اور تمہارے اِن معبُودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے؟"۔

اس آیت کی تفسیر میں صاحب تفسیر تحریر فرماتے ہیں:

 " حضرت ابراہیم نے بت شکنی کے اس فعل کو بڑے بت کی طرف جو منسوب کیا ہے اس سے ان کا مقصد جھوٹ بولنا نہ تھا، بلکہ وہ اپنے مخالفین پر حجت قائم کرنا چاہتے تھے۔ یہ بات انہوں نے اس لیے کہی تھی کہ وہ لوگ جواب میں خود اس کا اقرار کریں کہ انکے یہ معبود بالکل بےبس ہیں اور ان سے کسی فعل کی توقع تک نہیں کی جاسکتی۔ بد قسمتی سے حدیث کی ایک روایت میں یہ بات آگئی ہے کہ حضرت ابراہیم اپنی زندگی میں تین مرتبہ جھوٹ بولے ہیں۔ ان میں سے ایک " جھوٹ " تو یہ ہے، اور دوسرا " جھوٹ " سورة صافات میں حضرت ابراہیم کا قول اِنِی سَقِیْمٌ ہے، اور تیسرا " جھوٹ " ان کا اپنی بیوی کو بہن کہنا ہے جس کا ذکر قرآن میں نہیں بلکہ بائیبل کی کتاب پیدائش میں آیا ہے۔ ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کر کے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری و مسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پروا نہیں کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے دوسرا گروہ اس ایک روایت کو لے کر پورے ذخیرہ حدیث پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ ساری ہی حدیثوں کو اٹھا کر پھینک دو کیونکہ ان میں ایسی ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں۔ حالانکہ نہ ایک یا چند روایات میں کسی خرابی کے پائے جانے سے یہ لازم آتا ہے کہ ساری ہی روایات ناقابل اعتماد ہوں اور نہ فن حدیث کے نقطۂ نظر سے کسی روایت کی سند کا مضبوط ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کا متن خواہ کتنا ہی قابل اعتراض ہو مگر اسے ضرور آنکھیں بند کر کے صحیح مان لیا جائے۔ سند کے قوی اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود بہت سے اسباب ایسے ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہوجاتا ہے اور ایسے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے جن کی قباحت خود پکار رہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمائی ہوئی نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے سند کے ساتھ ساتھ متن کو دیکھنا بھی ضروری ہے، اور اگر متن میں واقعی کوئی قباحت ہو تو پھر خواہ مخواہ اس کی صحت پر اصرار کرنا صحیح نہیں ہے۔ [[18]]

 جب یہ واقعہ ہو چکا تو ان کا بڑا معبود جو بولنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا کیسے بول سکتا پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ افسوس ہے تم پر کہ تم ایک معبود کو چھوڑ کر ایسے معبودانِ باطلہ کی عبادت کرتے ہو اور واضح آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ یہ بت اپنے نفع ونقصان کا اختیار بھی نہیں رکھتے نہ ہی اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں۔یہاں انسان کو حقیقت سے آشنا کرانے کے لئے سوال کیا جا رہا ہے کہ تم عقل رکھتے تو اللہ کے سوا کسی کو معبود نہ بناتے۔جو چیزیں اپنا دفاع کرنے سے قاصر ہیں، جو اپنی مرضی سے حرکت بھی نہیں کر سکتیں تو کیونکر ممکن ہے کہ وہ لوگوں کی حاجات کو پورا کریں گی، صاحبِ عقل انسان ایسا سوچ بھی نہیں سکتا، یہ لوگ واضح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔

(۶)سورہ الحج میں اللہ پاک فرماتے ہیں:

"اَلَم تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَسجُدُ لَهٗ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَمَن فِى الاَرضِ وَالشَّمسُ وَالقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَ الجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ النَّاسِ‌ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيهِ العَذَابُ‌ وَمَن يُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِن مُّكرِمٍ‌ اِنَّ اللّٰهَ يَفعَلُ مَا يَشَآءُ "[[19]]

"کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سر بسجُود ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں؟ سُورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں۔ اور جسے اللہ ذلیل و خوار کردے اُسے پھر کوئی عزّت دینے والا نہیں ہے ، اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے۔ "

 اس آیت میں صاحب تفسیر یوں بیان کرتے ہیں:

" فرشتے، اَجرام فلکی، اور وہ سب مخلوقات جو زمین کے ماوراء دوسرے جہانوں میں ہیں، خواہ وہ انسان کی طرح ذی عقل و ذی اختیار ہوں، یا حیوانات، نباتات، جمادات اور ہوا اور روشنی کی طرح بےعقل و بےاختیار۔ یعنی وہ جو محض مجبوراً ہی نہیں بلکہ بالارادہ اور بطوع ورغبت بھی اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں دوسرا انسانی گروہ جس کا بعد کے فقرے میں ذکر آ رہا ہے، وہ ہے جو اپنے ارادے سے خدا کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے، مگر دوسری بےاختیار مخلوقات کی طرح وہ بھی قانون فطرت کی گرفت سے آزاد نہیں ہے اور سب کے ساتھ مجبوراً سجدہ کرنے والوں میں شامل ہے۔ اس کے مستحق عذاب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں بغاوت کی روش اختیار کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ان مختلف گروہوں کے جھگڑے کا فیصلہ تو قیامت ہی کے روز چکایا جائے گا۔ لیکن کوئی آنکھیں رکھتا ہو تو وہ آج بھی دیکھ سکتا ہے کہ حق پر کون ہے اور آخری فیصلہ کس کے حق میں ہونا چاہیے۔ پوری کائنات کا نظام اس بات پر شاہد ہے کہ زمین سے آسمانوں تک ایک ہی خدا کی خدائی پورے زور اور پوری ہمہ گیری کے ساتھ چل رہی ہے۔ زمین کے ایک ذرے سے لے کر آسمان کے بڑے بڑے سیاروں تک سب ایک قانون میں جکڑے ہوئے ہیں جس سے بال برابر بھی جنبش کرنے کا کسی کو یارا نہیں ہے"۔[[20]]

" مومن تو خیر دل سے اس کے آگے سر جھکاتا ہے، مگر وہ دہریہ جو اس کے وجود تک کا انکار کر رہا ہے اور وہ مشرک جو ایک ایک بےاختیار ہستی کے آگے جھک رہا وہ بھی اس کی اطاعت پر اسی طرح مجبور ہے جس طرح ہوا اور پانی۔ کسی فرشتے، کسی جن، کسی نبی اور ولی، اور کسی دیوی یا دیوتا کے پاس خدائی کی صفت اور اختیارات کا ادنیٰ شائبہ تک نہیں ہے کہ اس کو الوہیت اور معبودیت کا مقام دیا جاسکے، یا خداوند عالم کا ہم جنس یا مثیل ٹھہرایا جاسکے۔ کائنات کی یہ کھلی کتاب سامنے ہوتے ہوئے بھی جو شخص انبیاء کی بات نہیں مانتا اور مختلف خود ساختہ عقیدے اختیار کر کے خدا کے بارے میں جھگڑتا ہے اس کا بر سر باطل ہونا آج بھی اسی طرح ثابت ہے جس طرح قیامت کے روز ثابت ہوگا۔ جو شخص کھلے اور روشن حقائق کو آنکھیں کھول کر نہ دیکھے، اور سمجھانے والے کی بات بھی سن کر نہ دے وہ خود ہی ذلت و خواری کو اپنے اوپر دعوت دیتا ہے، اور اللہ وہی چیز اس کے نصیب میں لکھ دیتا ہے جو اس نے خود مانگی ہے۔ پھر جب اللہ ہی نے اس کو پیروی حق کی عزت نہ دی تو اب کون ہے جو اس کو اس عزت سے سرفراز کرے۔"[[21]]

اللہ تعالیٰ لوگوں سے سوال فرما رہے ہیں کہ کیا تمہارے سامنے موجود چیزیں جو اللہ ہی کو سجدہ کرتیں ہیں تم ان مظاہر قدرت کو دیکھ کر بھی حق کا انکار کرتے ہو بطور تعجب کے اللہ کی ذات سوال فرما رہی ہے۔ حقائق کو کھول کر دیکھو اپنی عقل کا استعمال کر کے حق کو پہچان لو اسی میں تمہاری بھلائی پوشیدہ ہے۔دنیا میں جو بھی مظاہر قدرت اشیاء ہیں وہ سب کی سب ایک ایسی ہستی کی بنائی ہوئی ہیں جو لافانی ہے وہ تمام اشیاء ایک تسلسل کے ساتھ اپنے اپنے مدار میں گردش کرتی ہیں اور ازل سے ابد تک یہ تسلسل اسی طرح برقرار رہے گا، اگر ہم یہ کہیں کہ یہ سب کچھ اپنی مرض سے ہو رہا ہے تو یہ کہنا بالکل غلط ہوگا۔

(۶)سورہ الانشراح میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"اَلَم نَشرَح لَـكَ صَدرَكَ"[[22]]

" (اے نبیؐ ) کیا ہم نے تمہارا سینہ تمہارے لیے کھول نہیں دیا؟ "

اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی لکھتے ہیں:

 "اس سوال سے کلام کا آغاز، اور پھر بعد کا مضمون یہ ظاہر کرتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس زمانے میں ان شدید مشکلات پر سخت پریشان تھے جو دعوت اسلامی کا کام شروع کرنے کے بعد ابتدائی دور میں آپ کو پیش آ رہی تھیں۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کر کے تسلی دیتے ہوئے فرمایا اے نبی، کیا ہم نے یہ اور یہ عنایات تم پر نہیں کی ہیں ؟ پھر ان ابتدائی مشکلات پر تم پریشان کیوں ہوتے ہو ؟۔

سینہ کھولنے کا لفظ قرآن مجید میں جن مواقع پر آیا ہے ان پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دو معنی ہیں :

(۱) سورة انعام آیت ۱۲۵ میں فرمایا " فَمَن يُرِدِ اللَّـهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ " پس جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت بخشنے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے "۔ اور سورة زمر آیت ۲۲ میں فرمایا " أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ " تو کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہو پھر وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہو۔۔ "۔ ان دونوں مقامات پر شرح صدر سے مراد ہر قسم کے ذہنی خلجان اور تردد سے پاک ہو کر اس بات پر پوری طرح مطمئن ہوجانا ہے کہ اسلام کا راستہ ہی برحق ہے اور وہی عقائد، وہی اصول اخلاق و تہذیب و تمدن، اور وہی احکام و ہدایات بالکل صحیح ہیں جو اسلام نے انسان کو دیے ہیں۔

(۲) سورة شعراء آیت ۱۲ ۔ ۱۳ میں ذکر آیا ہے کہ حضرت موسیٰ کو جب اللہ تعالیٰ نبوت کے منصب عظیم پر مامور کر کے فرعون اور اس کی عظیم سلطنت سے جا ٹکرانے کا حکم دے رہا تھا تو انہوں نے عرض کیا " قَالَ رَبِّ إِنِّي أَخَافُ أَن يُكَذِّبُونِ وَيَضِيقُ صَدْرِي " میرے رب، میں ڈرتا ہو کہ وہ لوگ مجھے جھٹلا دیں گے اور میرا سینہ تنگ ہو رہا ہے "۔

اور سورة طہ آیات ۲۵ ۔ ۲۶ میں بیان کیا گیا ہے کہ اسی موقع پر حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ " رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي " " میرے رب میرا سینہ میرے لیے کھول دے اور میرا کام میرے لیے آسان کر دے "۔

 شرح صدر سے مراد یہ ہے کہ آدمی کا حوصلہ بلند ہوجائے، کسی بڑی سے بڑی مہم پر جانے اور کسی سخت سے سخت کام کو انجام دینے میں بھی اسے تامل نہ ہو، اور نبوت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالنے کی اس میں ہمت پیدا ہوجائے۔غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سینہ کھول دینے سے یہ دونوں معنی مراد ہیں۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین عرب، نصاری، یہود، مجوس، سب کے مذہب کو غلط سمجھتے تھے، اور اس حنیفیت پر بھی مطمئن نہ تھے جو عرب کے بعض قائلین توحید میں پائی جاتی تھی، کیونکہ یہ ایک مبہم عقیدہ تھا جس میں راہ راست کی کوئی تفصیل نہ ملتی تھی۔ لیکن آپ کو چونکہ خود یہ معلوم نہ تھا کہ راہ راست کیا ہے، اس لیے آپ سخت ذہنی خلجان میں مبتلا تھے۔ نبوت عطا کر کے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس خلجان سے دور کردیا اور وہ راہ راست کھول کر آپ کے سامنے رکھ دی جس سے آپ کو کامل اطمینان قلب حاصل ہوگیا"۔

 دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت عطا کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ حوصلہ، وہ ہمت، وہ اولوالعزمی اور وہ وسعت قلب عطا فرما دی جو اس منصب عظیم کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے درکار تھی۔ آپ اس وسیع علم کے حامل ہوگئے جو آپ کے سوا کسی انسان کے ذہن میں سما نہ سکتا تھا۔ آپ کو وہ حکمت نصیب ہوگئی جو بڑے سے بڑے بگاڑ کو دور کرنے اور سنوار دینے کی اہلیت رکھتی تھی۔ یہ شرح صدر کی بیش بہا دولت جب اللہ نے آپ کو عطا کردی ہے تو آپ ان مشکلات پر دل گرفتہ کیوں ہوتے ہیں جو آغاز کار کے اس مرحلے میں پیش آ رہی ہیں "۔

اس آیت میں اللہ بارک تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمارہے ہیں کہ اے نبی ! آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا ہے ۔اس آیت میں اللہ تبارک و تعالی علی نبی کریم صلی وسلم کی حوصلہ افزائی کے لئے سوال فرما رہے ہیں۔

نبی کریمﷺ کو دعوت اسلام کے آغاز میں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہ بہت کٹھن تھیں، مشرکینِ مکہ آپ کو اور آپ کے صحابہ کرم کو طرح طرح کی اذیتیں دیتے تھے، مسلمانوں کا جینا دو بھر کیا ہوا تھا۔



[[1]]         القرآن ، ۶: ۱۶۲۔

[[2]]          القرآن ، ۱۹: ۹۳۔

[[3]]         اسماء فضل علی، تعمیر شخصیت میں عبادت کا کردار، دعوۃ اکیڈمی، بین الاقوامی یونیورسٹی، اسلام آباد، ۲۰۰۶ء، ص۲۰۔

[[4]]          اسماء فضل ،تعمیر شخصیت میں عبادت کا کردار، ص۲۰۔

[[5]]         القرآن ، ۴ :۷۷

[[6]]         مودودی، تفہیم القرآن،۱/۳۷۳،۳۷۴

[[7]]         القرآن ، ۷ : ۱۷۲

[[8]]         الشیبانی، المسند، حدیث نمبر ۲۱۲۳۲۔

[[9]]         مودودی، تفہیم القرآن، ۲/۹۵،۹۶

[[10]]       القرآن ، ۱۹: ۶۵۔

[[11]]       مودودی، تفہیم القرآن ، ۳/۷۶،۷۷

[[12]]       القرآن ، ۲۰ : ۸۳

[[13]]       القرآن ، ۱۹: ۸۴

[[14]]       القرآن ، ۱۹:۸۵

[[15]]       القرآن ، ۱۹: ۸۹

[[16]]       مودودی،تفہیم القرآن ، ۳/۱۱۲ تا ۱۱۴

[[17]]       القرآن ، ۲۱ :۶۷

[[18]]       مودودی، تفہیم القران، ۳/۱۹۵،۱۹۶

[[19]]       القرآن ، ۲۲:۱۸

[[20]]       مودودی، تفہیم القران، ۳/۲۱۲،۲۱۳۔

[[21]]       ایضاٍ۔

[[22]]       القرآن ، ۹۴ :۱

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...