Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

آیاتِ استفہام اور فہم معاملات
ARI Id

1695203136242_56118299

Access

Open/Free Access

Pages

90

اسلامی معاشرے کا قیام اس لیے ضروری ہے تاکہ خیر کے فروغ اور شر کے خاتمے کو یقینی بنایا جا سکے لیکن اس مقصد کے حصول کے لئے معاشرے کے ہر فرد کو اپنا اپنا کردار کرنا ہوگا۔ کیونکہ اسلام انسانیت کی فلاح و بہبود، بقاو ارتقاء کے زریں اصولوں کا امین ہے اور حق کی پاسداری، معاشرے کے اعلیٰ اقدار کا قیام اور انسانی معاشرے میں باہمی حقوق کا احترام اسلامی تعلیمات کی بنیادی روح ہے۔

اللہ تبارک و تعالی انسان کے خالق ہیں اور انسان کی فطرت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اللہ تعالی نے سیدھے راستے کی طرف اپنے بندوں کو بلایا ہے ۔ اور زندگی کے ہر معاملے میں رہنمائی فراہم کی۔

قرآن مجید کا مرکزی موضوع ہونے کے ناطے ، کتاب مقدس میں انسان سے متعلق مختلف پہلوؤں کے بارے میں بات کی گئی ہے ، جس سے انھیں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اسلام انسانی اقدار اور خاندانی زندگی کے بارے میں ایک واضح اور قابل تقلید تصور پیش کرتا ہے۔ خاص طور پر ، اسلام کے ذریعہ پیش کردہ انسانیت کا احترام کرنے کا تصور غیرمعمولی ہے اور دوسری قومیں اس سے محروم ہیں۔ اسلام نے سب سے پہلے انسانی نسل اور وقار کی مساوات پر مبنی ایک نظام کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد ہی مذہب اسلام نے انسانوں کو مذہبی ، اخلاقی ، معاشی ، معاشرتی اور سیاسی شعبوں میں لاتعداد حقوق دیئے۔ انسانی حقوق اور آزادی کا اسلامی تصور آفاقی اور عدل پر مبنی ہے ، جس میں وقت اور جگہ کی تاریخی اور جغرافیائی حدود کا کوئی لحاظ نہیں ہے۔ اسلام کا انسانی حقوق کا چارٹر اللہ رب العزت نے عطا کیا ، جو ساری کائنات کا خدا ہے ، اور یہ پیغام اللہ نے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ عام لوگوں تک پہنچایا۔

" دین اسلام کے ذریعہ انسان کو جو حقوق دیئے گئے ہیں وہ اللہ تعالٰی نے بطور انعام دیا ہے۔ اس تحقیقی مقالے میں خاندانی تناظر میں انسانیت کے قرآنی تصور کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، اس کے علاوہ معاشرے کی تشکیل و ترقی میں تعلقات کی اہمیت کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی سطح پر عائد انسانی حقوق سے متعلق انفرادی ذمہ داریوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔مذہب پسندی اب تعصب اور اور ہٹ دھرمی کا نام بن چکی ہے ہر گروہ خود کو حق اور دوسروں کو باطل سمجھتا ہے مسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں ملاوٹ اور عہد شکنی سے لے کر بدعات و منکرات تک ہر چیز مسلمانوں میں پائی جاتی ہے اور اگر کچھ نہیں پایا جاتا تو وہ رسول کریم کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور آپ کےخلق عظیم ہیں جس میں انسان کے لئے تمام معاملات میں رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔"[[1]]

"قرآن مجید میں ، جہاں دیگر بنیادی معاملات اہمیت کا حامل ہیں ، انسان کے تصور کو دوسرے تمام امور پر فوقیت دی گئی ہے۔ اسلام نے سب سے پہلے انسانی نسل اور وقار کی مساوات پر مبنی ایک نظام کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد ہی مذہب اسلام نے انسانوں کو مذہبی ، اخلاقی ، معاشی ، معاشرتی اور سیاسی شعبوں میں لاتعداد حقوق دیئے۔ انسانی حقوق اور آزادی کا اسلامی تصور آفاقی اور عدل پر مبنی ہے ، جس میں وقت اور جگہ کی تاریخی اور جغرافیائی حدود کا کوئی لحاظ نہیں ہے۔ اسلام کا انسانی حقوق کا چارٹر اللہ رب العزت نے عطا کیا ، جو ساری کائنات کا خدا ہے ، اور یہ پیغام اللہ نے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ عام لوگوں تک پہنچایا۔ دین اسلام کے ذریعہ انسان کو جو حقوق دیئے گئے ہیں وہ اللہ تعالٰی نے بطور انعام دیا ہے۔ اس تحقیقی مقالے میں خاندانی تناظر میں انسانیت کے قرآنی تصور کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، اس کے علاوہ معاشرے کی تشکیل و ترقی میں تعلقات کی اہمیت کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی سطح پر عائد انسانی حقوق سے متعلق انفرادی ذمہ داریوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔"[[2]]

قرآن کریم میں متعدد آیات معاملات کے بارے میں نازل ہوئیں ہیں جن میں کچھ استفہامی آیات ہیں جن کی وضاحت تفسیر تفہیم القرآن کی روشنی میں بیان کی جا رہی ہے جو کہ درج ذیل ہیں۔

(۱)سورہ المآئدہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"اِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيطٰنُ اَن يُّوقِعَ بَينَكُمُ العَدَاوَةَ وَالبَغضَآءَ فِى الخَمرِ وَالمَيسِرِ وَيَصُدَّكُم عَن ذِكرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ‌ فَهَل اَنـتُم مُّنتَهُونَ "[[3]]

"شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟"

صاحب تفسیر اس آیت کی وضاحت فرماتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

" پانسے ( جوئے) ہی کی ایک قسم ہیں۔ لیکن ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ عربی زبان میں ازلام فال گیری اور قرعہ اندازی کی اس صورت کو کہتے ہیں کہ جو مشرکانہ عقائد اور وہمیات سے آلودہ ہو۔ اور میسر کا اطلاق ان کھیلوں اور ان کاموں پر ہوتا ہے جن میں اتفاقی امور کو کمائی اور قسمت آزمائی اور تقسیم اموال و اشیاء کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔اس سے پہلی آیت میں چار چیزیں قطعی طور پر حرام کی گئی ہیں۔ ایک شراب۔ دوسرے قمار بازی۔ تیسرے وہ مقامات جو خدا کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرنے یا خدا کے سوا کسی اور کے نام پر قربانی اور نذر و نیاز چڑھانے کے لیے مخصوص کیے گئے ہوں۔ چوتھے پانسے۔ اس آیت میں شراب کے متعلق احکام کی تفصیل حسب ذیل ہے :

صاحب تفسیر اس آیت کی وضاحت فرماتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

"شراب کی حرمت کے سلسلہ آخری حکم کے آنے سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خطبہ میں لوگوں کو متنبہ فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کو شراب سخت ناپسند ہے، بعید نہیں کہ اس کی قطعی حرمت کا حکم آجائے، لہٰذا جن جن لوگوں کے پاس شراب موجود ہو وہ اسے فروخت کردیں۔ اس کے کچھ مدت بعد یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے اعلان کرایا کہ اب جن کے پاس شراب ہو وہ نہ اسے پی سکتے ہیں، نہ بیچ سکتے ہیں، بلکہ وہ اسے ضائع کردیں۔ چناچہ اسی وقت مدینہ کی گلیوں میں شراب بہادی گئی۔ بعض لوگوں نے پوچھا ہم یہودیوں کو تحفۃً کیوں نہ دے دیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” جس نے یہ چیز حرام کی ہے اس نے اسے تحفۃً دینے سے بھی منع کردیا ہے “۔ بعض لوگوں نے پوچھا ہم شراب کو سرکے میں کیوں نہ تبدیل کردیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے بھی منع فرمایا اور حکم دیا کہ ” نہیں، اسے بہا دو “۔ ایک صاحب نے بااصرار دریافت کیا کہ دواء کے طور پر استعمال کی تو اجازت ہے ؟ فرمایا ” نہیں، وہ دوا نہیں ہے بلکہ بیماری ہے “۔ ایک اور صاحب نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم ایک ایسے علاقے کے رہنے والے ہیں جو نہایت سرد ہے، اور ہمیں محنت بھی بہت کرنی پڑتی ہے۔ ہم لوگ شراب سے تکان اور سردی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا جو چیز تم پیتے ہو وہ نشہ کرتی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا ہاں۔ فرمایا تو اس سے پرہیز کرو۔ انہوں نے عرض کیا مگر ہمارے علاقے کے لوگ تو نہیں مانیں گے۔ فرمایا ” اگر وہ نہ مانیں تو ان سے جنگ کرو"۔

ابن عمر (رض) کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَعَنَ اللهُ الْخَمْرَ، وَلَعَنَ شَارِبَهَا، وَسَاقِيَهَا، وَعَاصِرَهَا، وَمُعْتَصِرَهَا، وَبَائِعَهَا، وَمُبْتَاعَهَا، وَحَامِلَهَا، وَالْمَحْمُولَةَ إِلَيْهِ۔[[4]]” اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر اور اس کے پینے والے پر اور پلانے والے پر اور بیچنے والے پر اور خریدنے والے پر اور کشید کرنے والے پر اور کشید کرانے والے پر اور ڈھو کرلے جانے والے پر اور اس شخص پر جس کے لیے وہ ڈھو کرلے جائی گئی ہو “۔

چنانچہ حدیث میں حضور کے یہ واضح ارشادات ہمیں ملتے ہیں کہ’’عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ، وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ "[[5]] ‘‘۔” ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے “۔

"شریعت کی رو سے یہ بات حکومت اسلامی کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ شراب کی بندش کے اس حکم کو بزور و قوت نافذ کرے۔ حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں بنی ثَقِیف کے ایک شخص رُوَیشِد نامی کی دکان اس بنا پر جلوا دی گئی کہ وہ خفیہ طور پر شراب بیچتا تھا۔ ایک دوسرے موقع پر ایک پورا گاؤں حضرت عمر (رض) کے حکم سے اس قصور پر جلا ڈالا گیا کہ وہاں خفیہ طریقہ سے شراب کی کشید اور فروخت کا کاروبار ہو رہا تھا۔"[[6]]

اس آیت میں اللہ تعالیٰ شیطان کی حقیقت بیان فرما رہے ہیں کہ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ تم لوگوں کے درمیان دشمنی ڈلوائے اور بغض ڈلوائے شراب کے ذریعے سے تمہاری عقل پر پردہ ڈال دے تا کہ تم جو بھی بےحیائی اور برائی کے کام کر وگے تو شیطان اس سے خوش ہوگا۔اب تمہیں شراب اور جوئے کے حرام ہونے کا بھی علم ہو گیا ہے اور شیطان کے ارادوں کا بھی، کیا اب بھی تم باز نہیں آؤگے ؟یہاں پر اللہ تعالیٰ بطور تعجب کے سوال فرما رہے ہیں کہ حقیقت واضح ہونے کے باوجود تم ایسا کروگے تو تم ناکام ہو جاؤ گے اور آخرت کے دائمی عذاب کے مستحق بن جاؤگے۔

(۲)سورہ التوبہ میں ارشادِ الٰہی ہے:

 "اِنَّ اللّٰهَ اشتَرٰى مِنَ المُؤمِنِينَ اَنفُسَهُم وَاَموَالَهُم بِاَنَّ لَهُمُ الجَــنَّةَ‌ يُقَاتِلُونَ فِى سَبِيلِ اللّٰهِ فَيَقتُلُونَ وَ يُقتَلُونَ‌وَعدًا عَلَيهِ حَقًّا فِى التَّورٰٮةِ وَالاِنجِيلِ وَالقُراٰنِ‌ وَمَن اَوفٰى بِعَهدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاستَـبشِرُوا بِبَيعِكُمُ الَّذِى بَايَعتُم بِهٖ‌ وَذٰ لِكَ هُوَ الفَوزُ العَظِيمُ "[[7]]

"حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے اُن کے نفس اور اُن کے مال جنّت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ اُن سے “جنّت کا وعدہ” اللہ کے ذمّے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں ۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناوٴ اپنے اُس سودے پر جو تم نے خدا سے چُکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے"

اس آیت کی تفسیر یوں بیان کی گئی ہے:

"یہاں ایمان کے اس معاملے کو جو خدا اور بندے کے درمیان طے ہوتا ہے، بیع سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایمان محض ایک معاہدہ ہے جس کی رو سے بندہ اپنا نفس اور اپنا مال خدا کے ہاتھ فروخت کردیتا ہے اور اس کے معاوضہ میں خدا کی طرف سے اس وعدے کو قبول کرلیتا ہے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں وہ اسے جنت عطا کرے گا۔ انسان کی جان و مال کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، کیونکہ وہی اس کا اور ان ساری چیزوں کا خالق ہے جو اس کے پاس ہیں اور اسی نے وہ سب کچھ اسے بخشا ہے جس پر وہ تصرف کر رہا ہے۔ بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اسے اس امر کی آزادی دے دی گئی ہے کہ خدا کی طرف سے کسی جبر کے بغیر وہ خود اپنی ذات پر اور اپنی ہر چیز پر خدا کے مالکانہ حقوق کو تسلیم کرنا چاہے تو کرے ورنہ آپ ہی اپنا مالک بن بیٹھے اور اپنے زعم میں یہ خیال کرے کہ وہ خدا سے بےنیاز ہو کر اپنے حدود اختیار میں اپنے حسب منشا تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے"۔

"جو چیز خدا کی ہے، اور جسے اس نے امانت کے طور پر انسان کے حوالے کیا ہے، اور جس میں امین رہنے یا خائن بن جانے کی آزادی اس نے انسان کو دے رکھی ہے، اس کے بارے میں وہ انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ تو برضا ورغبت (نہ کہ بمجبوری) میری چیز کو میری ہی چیز مان لے، اور زندگی بھر اس میں خود مختار مالک کی حیثیت سے نہیں بلکہ امین ہونے کی حیثیت سے تصرف کرنا قبول کرلے۔ اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو بہت بڑی آزمائشوں میں ڈالا ہے۔ پہلی آزمائش یہ کہ آزاد چھوڑ دیے جانے پر یہ اتنی شرافت دکھاتا ہے یا نہیں کہ مالک ہی کو مالک سمجھے اور نمک حرامی و بغاوت پر نہ اتر آئے۔ دوسری آزمائش اس امر کی کہ یہ اپنے خدا پر اتنا اعتماد کرتا ہے یا نہیں کہ جو قیمت آج نقد نہیں مل رہی ہے بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں جس کے ادا کرنے کا خدا کی طرف سے وعدہ ہے، اس کے عوض اپنی آج کی خودمختاری اور اس کے مزے بیچ دینے پر بخوشی راضی ہوجائے۔

"جہاں خدا کی مرضی ہو وہاں جان و مال کھپانے سے دریغ کرنا اور جہاں اس کی مرضی نہ ہو وہاں جان و مال کھپانا، یہ دونوں طرز عمل ایسے ہیں جو اس بات کا قطعی فیصلہ کردیتے ہیں کہ مدعی ایمان نے یا تو جان و مال کو خدا کے ہاتھ بیچا نہیں ہے، یا بیع کا معاہدہ کرلینے کے بعد بھی وہ بیچی ہوئی چیز کو بدستور اپنی سمجھ رہا ہے"۔[[8]]

ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ کافرانہ رویہ زندگی کو شروع سے آخر تک بالکل ایک دوسرے سے جدا کردیتی ہے۔ مسلمان جو صحیح معنی میں خدا پر ایمان لایا ہو، اپنی زندگی کے ہر شعبے میں خدا کی مرضی کا تابع کردیے ہیں اور اس کے رویہ میں کسی جگہ بھی خود مختاری کا رنگ نہیں آنے پاتا۔ خدا سے آزاد ہو کر کام کرنا اور اپنے نفس و متعلقات نفس کے بارے میں خود یہ فیصلہ کرنا کہ ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں، بہر حال ایک کافرانہ رویہ زندگی ہے خواہ اس پر چلنے والے لوگ ” مسلمان “کہلائیں یا ” غیر مسلم “۔ [[9]]

اس آیت میں وعدے کی اہمیت بیان کی جا رہی ہے کہ جو لوگ اللہ سے کئے ہوئے وعدے کو پورا کرتے ہیں انکے لئے خوشخبری ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ حوصلہ افزائی کے طور پر سوال فرما رہے ہیں کہ اگر تم اللہ کے احکامات کے مطابق زندگی گزارو گے تو اللہ تم سے کئے گئے وعدے کو پورا فرمائے گا اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کون ہے جو وعدے کو پورا کرے۔

انسان کی جان و مال کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اس کے پاس جتنی چیزیں ہیں اللہ ہی ان سب کا خالق و مالک ہے۔ اللہ نے اسے انتخاب و ارادہ میں آزادی دی ہے مگر اس سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

(۳)سورہ الرعد میں فرمان الٰہی ہے:

"وَلَو اَنَّ قُراٰنًا سُيِّرَت بِهِ الجِبَالُ اَو قُطِّعَت بِهِ الاَرضُ اَو كُلِّمَ بِهِ المَوتٰى‌ بَلْ لِّلّٰهِ الاَمرُ جَمِيعًا اَفَلَم يَايـئَسِ الَّذِينَ اٰمَنُوا اَن لَّو يَشَآءُ اللّٰهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُم بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ اَو تَحُلُّ قَرِيبًا مِّن دَارِهِم حَتّٰى يَاتِىَ وَعدُ اللّٰهِ‌ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخلِفُ المِيعَادَ "[[10]]

"اور کیا ہو جاتا اگر کوئی ایسا قرآن اُتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہو جاتی، یا مردے قبروں سے نکل بولنے لگتے؟(اِس طرح کی نشانیاں دِکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے)بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ پھر کیا اہلِ ایمان (ابھی تک کفّار کی طلب کے جواب میں کِسی نشانی کے ظہُور کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور وہ یہ جان کر )مایوس نہیں ہو گئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا ؟ جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کُفر کا رویّہ اختیار کر رکھا ہے اُن پر ان کے کر تُو توں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہتی ہے، یا ان کےگھر کے قریب کہیں نازل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پُورا ہو۔ یقیناً اللہ اپنے وعدوں کے خلاف ورزی نہیں کرتا ۔

"اس آیت کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی ضروری ہے کہ اس میں خطاب کفار سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے ہے۔ مسلمان جب کفار کی طرف سے بار بار نشانی کا مطالبہ سنتے تھے تو ان کے دلوں میں بےچینی پیدا ہوتی تھی کہ کاش ان لوگوں کو کوئی نشانی دکھا دی جاتی جس سے یہ لوگ قائل ہوجاتے۔ پھر جب وہ محسوس کرتے تھے کہ اس طرح کی کسی نشانی کے نہ آنے کی وجہ سے کفار کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات پھیلانے کا موقع مل رہا ہے تو ان کی یہ بےچینی اور بھی زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ اس پر مسلمانوں سے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر قرآن کی کسی سورة کے ساتھ ایسی اور ایسی نشانیاں یکایک دکھا دی جاتیں تو کیا واقعی تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ لوگ ایمان لے آتے ؟ کیا تمہیں ان سے یہ خوش گمانی ہے کہ یہ قبول حق کے لیے بالکل تیار بیٹھے ہیں، صرف ایک نشانی کے ظہور کی کسر ہے ؟ جن لوگوں کو قرآن کی تعلیم میں، کائنات کے آثار میں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پاکیزہ زندگی میں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے انقلاب حیات میں نور حق نظر نہ آیا کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ پہاڑوں کے چلنے اور زمین کے پھٹنے اور مردوں کے قبروں سے نکل آنے میں کوئی روشنی پالیں گے ؟یعنی نشانیوں کے نہ دکھانے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دکھانے پر قادر نہیں ہے، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ ان طریقوں سے کام لینا اللہ کی مصلحت کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ اصل مقصود تو ہدایت ہے نہ کہ ایک نبی کی نبوت کو منوا لینا، اور ہدایت اس کے بغیر ممکن نہیں کہ لوگوں کی فکر و بصیرت کی اصلاح ہو۔ یعنی اگر سمجھ بوجھ کے بغیر محض ایک غیر شعوری ایمان مطلوب ہوتا تو اس کے لیے نشانیاں دکھانے کے تکلف کی کیا حاجت تھی۔ یہ کام تو اس طرح بھی ہوسکتا تھا کہ اللہ سارے انسانوں کو مومن ہی پیدا کردیتا۔"[[11]]

اس آیت میں اللہ تعالیٰ بطور تعجب کے سوال فرما رہے ہیں کہ کیا مسلمان بھی کفار کی طرح کسی نشانی کے منتظر ہیں یہ کہ پہاڑ چلنے لگتے یا زمین شق ہونے لگتی یا مردے لوگوں سے ہمکلام ہوتے ؟ اگر اللہ ان کو یہ نشانیاں بھی دکھا دے تو یہ ایمان نہیں لائیں گے ان کو اتنے معجزات کو دیکھ کر یقین نہیں آیا تو وہ کبھی بھی ایمان نہیں لائیں گے۔

اللہ تعالیٰ سے جو یہ لوگ مطالبہ کرتے ہیں ان کو دکھانے پر قادر ہے مگر سارے فیصلے اسی کی مرضی سے طے پاتے ہیں اس لیے کیونکہ وہ قادرِ مطلق ہے۔

(۴)سور الرعدکی آیت نمبر ۳۲ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَلَـقَدِ استُهزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبلِكَ فَاَملَيتُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا ثُمَّ اَخَذتُهُم‌ ۖ فَكَيفَ كَانَ عِقَابِ‏"[[12]]

"تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے، مگر میں نے ہمیشہ منکر ین کو ڈھیل دی اور آخر کار ان کو پکڑ لیا، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی"

نیز فرمایا:

"اَفَمَن هُوَ قَآئِمٌ عَلٰى كُلِّ نَفسٍۢ بِمَا كَسَبَت‌ وَجَعَلُوالِلّٰهِ شُرَكَآءَ قُل سَمُّوهُم‌ اَم تُنَـبِّـئُــوْنَهٗ بِمَا لَا يَعلَمُ فِى الاَرضِ اَم بِظَاهِرٍ مِّنَ القَولِ بَل زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكرُهُم وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ‌ وَمَن يُّضلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِن هَادٍ "[[13]]

"پھر کیا وہ جو ایک ایک متنفّس کی کمائی پر نظر رکھتا ہے (اُس کے مقابلے میں یہ جسارتیں کی جارہی ہیں کہ)لوگوں نے اُس کے کچھ شریک ٹھہرا رکھے ہیں؟ اے نبی ؐ ، اِن سےکہو، (اگر واقعی وہ خدا کے اپنے بنائے ہوئے شریک ہیں تو)ذرا اُن کے نام لو کہ وہ کون ہیں؟ کیا تم اللہ کو ایک نئی بات کی خبر دے رہے ہو جسے وہ اپنی زمین میں نہیں جانتا؟ یا تم لوگ بس یونہی جو منہ میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے دعوتِ حق کو ماننے سے انکار کیا ہے ان کے لیے اُن کی مکّاریاں خوشنما بنا دی گئی ہیں اور وہ راہِ راست سے روک دیے گئے ہیں، پھر جس کو اللہ گمراہی میں پھینک دے اُس کوئی راہ دکھانے والا نہیں ہے"

ان آیات کی تفسیر میں صاحبِ تفسیر بیان کرتے ہیں:

 "یعنی جو ایک ایک شخص کے حال سے فردا فردا واقف ہے اور جس کی نگاہ سے نہ کسی نیک آدمی کی نیکی چھپی ہوئی ہے نہ کسی بد کی بدی۔جسارتیں یہ کہ اس کے ہمسر اور مد مقابل تجویز کیے جا رہے ہیں، اس کی ذات اور صفات اور حقوق میں اس کی مخلوق کو شریک کیا جا رہا ہے، اور اس کی خدائی میں رہ کر لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم جو کچھ چاہیں کریں ہم سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں۔یعنی اس کے شریک جو تم نے تجویز کر رکھے ہیں ان کے معاملے میں تین ہی صورتیں ممکن ہیں ایک یہ کہ تمہارے پاس کوئی مستند اطلاع آئی ہو کہ اللہ نے فلاں فلاں ہستیوں کو اپنی صفات، یا اختیارات، یا حقوق میں شریک قرار دیا ہے۔ اگر یہ صورت ہے تو ذرا براہ کرم ہمیں بھی بتاؤ کہ وہ کون کون اصحاب ہیں اور ان کے شریک خدا مقرر کیے جانے کی اطلاع آپ حضرات کو کس ذریعہ سے پہنچی ہے۔دوسری ممکن صورت یہ ہے کہ اللہ کو خود خبر نہیں ہے کہ زمین میں کچھ حضرات اس کے شریک بن گئے ہیں اور اب آپ اس کو یہ اطلاع دینے چلے ہیں۔ اگر یہ بات ہے تو صفائی کے ساتھ اپنی اس پوزیشن کا اقرار کرو۔ پھر ہم بھی دیکھ لیں گے کہ دنیا میں کتنے ایسے احمق نکلتے ہیں جو تمہارے اس سراسر لغو مسلک کی پیروی پر قائم رہتے ہیں۔لیکن اگر یہ دونوں باتیں نہیں ہیں تو پھر تیسری ہی صورت باقی رہ جاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تم بغیر کسی سند اور بغیر کسی دلیل کے یونہی جس کو چاہتے ہو خدا کا رشتہ دار ٹھہرا لیتے ہو۔[[14]]

مولانا مودودی مزید فرماتے ہیں کہ:

 شرک کو مکاری کہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ دراصل جن اجرام فلکی یا فرشتوں یا ارواح یا بزرگ انسانوں کو خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دیا گیا ہے، اور جن کو خدا کے مخصوص حقوق میں شریک بنا لیا گیا ہے، ان میں سے کسی نے بھی کبھی نہ ان صفات و اختیارات کا دعوی کیا، نہ ان حقوق کا مطالبہ کیا، اور نہ لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ تم ہمارے آگے پرستش کے مراسم ادا کرو ہم تمہارے کام بنایا کریں گے۔ یہ تو چالاک انسانوں کا کام ہے کہ انہوں نے عوام پر اپنی خدائی کا سکہ جمانے کے لیے اور ان کی کمائیوں میں حصہ بٹانے کے لیے کچھ بناوٹی خدا تصنیف کیے، لوگوں کو ان کا معتقد بنایا اور اپنے آپ کو کسی نہ کسی طور پر ان کا نمائندہ ٹھہرا کر اپنا الو سیدھا کرنا شروع کردیا۔ دوسری وجہ شریک کو مکر سے تعبیر کرنے کی یہ ہے کہ دراصل یہ ایک فریب نفس ہے اور ایک چور دروازہ ہے جس کے ذریعے سے انسان دنیا پرستی کے لیے، اخلاقی بندشوں سے بچنے کے لیے اور غیر ذمہ دارانہ زندگی بسر کرنے کے لیے راہ فرار نکالتا ہے۔ تیسری وجہ جس کی بنا پر مشرکین کے طرز عمل کو مکر سے تعبیر کیا گیا ہے آگے آتی ہے۔یہ انسانی فطرت ہے کہ جب انسان ایک چیز کے مقابلے میں دوسری چیز کو اختیار کرتا ہے تو اپنے نفس کو مطمئن کرنے کے لیے اور لوگوں کو اپنی راست روی کا یقین دلانے کے لیے اپنی اختیار کردہ چیز کو ہر طریقے سے استدلال کر کے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا گیا ہے کہ جب انہوں نے دعوت حق کو ماننے سے انکار کردیا تو قانون فطرت کے مطابق ان کے لیے ان کی گمراہی، اور اس گمراہی پر قائم رہنے کے لیے ان کی مکاری خوشنما بنادی گئی اور اسی فطری قانون کے مطابق راہ راست پر آنے سے روک دیے گئے۔"[[15]]

ان آیات میں اللہ تعالیٰ بطور انذار کے سوال فرما رہے ہیں۔

(۵)سورہ الحج میں ارشادِ حق تعالیٰ ہے:

"اَلَم تَرَ اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَـكُم مَّا فِى الاَرضِ وَالـفُلكَ تَجرِى فِى البَحرِ بِاَمرِهٖ وَيُمسِكُ السَّمَآءَ اَن تَقَعَ عَلَى الاَرضِ اِلَّا بِاِذنِهٖ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ "[[16]]

"کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اُس نے وہ سب کچھ تمہارے لیے مسخّر کر رکھا ہے جو زمین میں ہے ، اور اُسی نے کشتی کو قاعدے کا پابند بنایا ہے کہ وہ اُس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے، اور وہی آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے ہے کہ اُس کے اِذن کے بغیر وہ زمین پر نہیں گِر سکتا؟ واقعہ یہ ہے کہ اللہ لوگوں کے حق میں بڑا شفیق اور رحیم ہے۔"

 اس آیت مبارکہ میں اللہ عزوجل اپنے شاہکار آسمان اور زمین کی مثال بیان فرما رہے ہیں کہ کیا لوگ دیکھتے نہیں کہ کس طرح اللہ نے زمین کو بچھایا ہوا ہے کہیں پر بڑے بڑے سمندر بنا دئیے تو کہیں پر خشکی۔اور خشکی پر بے شمار چیزیں پیدا کر دی اس میں جانور درخت اور بہت سی دوسری مخلوقات جن کے ذریعے سے انسان فائدہ اٹھاتے ہیں اسی طرح سے سمندروں میں بڑی بڑی کشتیاں کیا چلتی ہیں جو کہ کہ بہت سا مال ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جاتی ہیں ان کو سمندر میں کون تھامے ہوئے ہے اور ان کو سمندری طوفانوں سے کون بچا رہا ہے اور اگر وہ چاہے جس نے آسمان کو پیدا کیا ہے تو وہ آسمان زمین پر گر پڑے اور زمین پر موجود تمام اشیا فنا ہوجائیں ۔ قیامت والے دن اللہ کے حکم سے اسی طرح آسمان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا۔اللہ تعالی نے ان تمام چیزوں کو انسان کے تابع کر دیا ہے ہے یعنی تابع سے مراد ہے کہ وہ مسخر کرنا تا کہ انسان تمام چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے اور یہ فائدہ اٹھانا انسان کے لیے ممکن اور آسان کر دیا گیا ہے۔کیونکہ اللہ تعالی اپنے بندوں پر بہت زیادہ نرمی کرنے والا اور بہت زیادہ شفقت کرنے والا ہے اس آیت میں اللہ تبارک و تعالی اپنی نشانیوں کا ذکر فرما کر لوگوں سے سے بطور تعجب سوال فرما رہے ہیں کہ سب کچھ تمہارے سامنے ہے اس کے باوجود بھی تم ایمان نہیں لاتے ؟ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے۔

(۶)سورہ ص میں ارشادِ خداوندی ہے:

"اَم نَجعَلُ الَّذِينَ اٰمَنُوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالمُفسِدِينَ فِى الاَرضِ اَم نَجعَلُ المُتَّقِينَ كَالفُجَّارِ "[[17]]

"کیا ہم اُن لوگوں کو جو ایمان لاتے اور نیک عمل کرتے ہیں اور اُن کو جو زمین میں فساد کرنے والے ہیں یکساں کر دیں؟ کیا متّقیوں کو ہم فاجروں جیسا کر دیں؟ "

مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ:

" کیا تمہارے نزدیک یہ بات معقول ہے کہ نیک اور بد دونوں آخر کار یکساں ہوجائیں ؟ کیا یہ تصور تمہارے لیے اطمینان بخش ہے کہ کسی نیک انسان کو اس کی نیکی کا کوئی صلہ اور کسی بد آدمی کو اس کی بدی کا کوئی بدلہ نہ ملے ؟ ظاہر بات ہے کہ اگر آخرت نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی محاسبہ نہ ہو اور انسانی افعال کی کوئی جزا و سزا نہ ہو تو اس سے اللہ کی حکمت اور اس کے عدل دونوں کی نفی ہوجاتی ہے اور کائنات کا پورا نظام ایک اندھا نظام بن کر رہ جاتا ہے۔ اس مفروضے پر تو دنیا میں بھلائی کے لیے کوئی محرک اور برائی سے روکنے کے لیے کوئی مانع سرے سے باقی ہی نہیں رہ جاتا ہے۔ خدا کی خدائی اگر معاذاللہ ایسی ہی اندھیر نگری ہو تو پھر وہ شخص بیوقوف ہے جو اس زمین پر تکلیفیں اٹھا کر خود صالح زندگی بسر کرتا ہے اور خلق خدا کی اصلاح کے لیے کام کرتا ہے، اور وہ شخص عقلمند ہے جو ساز گار مواقع پا کر ہر طرح کی زیادتیوں سے فائدے سمیٹے اور ہر قوم کے فسق و فجور سے لطف اندوز ہوتا ہے۔"[[18]]

 اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک ایمان والوں کی حوصلہ افزائی کے لئے سوال فرما رہے ہیں کہ کیا نیک اعمال کرنے والے اور برے اعمال کرنے والے برابر ہو سکتے ہیں؟ کبھی نہیں اللہ پاک نیک لوگوں کی حوصلہ افزائی فرما رہے ہیں کہ ان کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا انکے اجر سے ذرہ برابر بھی کمی نہیں کی جائے گی اور برے اعمال کرنے والوں کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیا ایمان و عملِ صالح کی روش اختیار کرنے والوں اور زمین میں فساد برپا کرنے والوں کو برابر کردیا جائے گا یا خدا سے ڈرنے والوں اور نا فرمانوں کے ساتھ معاملہ یکساں ہوگا تو یہ تصور ہی ناقابل یقین ہے اور نہی قابل عمل ہے۔ ہر انسان کو اس کی اچھائی اور برائی کے عوض سزا یا جزا ملے گی۔

(۷)سورہ الزخرف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"وَجَعَلُوا المَلٰٓئِكَةَ الَّذِينَ هُم عِبَادُ الرَّحمٰنِ اِنَاثًا‌ اَشَهِدُوا خَلقَهُم‌ سَتُكتَبُ شَهَادَتُهُم وَيُسئَــلُونَ ("[[19]]

"انہوں نے فرشتوں کو، جو خدائے رحمٰن کے خاص بندے ہیں ، عورتیں قرار دے لیا۔ کیا اُن کے جسم کی ساخت اِنہوں نے دیکھی ہے ؟ اِن کی گواہی لکھ لی جائے گی اور انہیں اس کی جواب دہی کرنا ہوگی"

نیز فرمایا:

"اَم اٰتَينٰهُم كِتٰبًا مِّن قَبلِهٖ فَهُم بِهٖ مُستَمسِكُونَ "[[20]]

"کیا ہم نے اِس سے پہلے کوئی کتاب اِن کو دی تھی جس کی سَنَد (اپنی ملائکہ پرستی کے لیے )یہ اپنے پاس رکھتے ہوں؟"

مولانا مودودی اس آیت کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:

پہلی آیت میں یہ مشرکین کی روش بیان کی جا رہی ہے کہ یہ فرشتوں کو عورتیں قرار دیتے ہیں کہ کیا انہوں نے فرشتوں کی ساخت کو دیکھا ہے یہ جو باتیں کر رہے ہیں انکو کراما کاتبین لکھ رہے ہیں اور ان باتوں کے یہ لوگ جوابدہ ہیں۔ اللہ پاک اگلی آیت میں اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے سوال فرما رہے ہیں کیا ہم نے انکو کوئی کتاب دی تھی؟ جس میں فرشتوں کو عورتیں کہا گیا اور انکی پرستش کا حکم دیا گیا؟مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی جہالت سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے وہ چونکہ اللہ کی مشیت کے تحت ہو رہا ہے، اس لیے ضرور اس کو اللہ کی رضا بھی حاصل ہے۔ حالانکہ اگر یہ استدلال صحیح ہو تو دنیا میں صرف ایک شرک ہی تو نہیں ہو رہا ہے۔ چوری، ڈاکہ، قتل، زنا، رشوت، بد عہدی، اور ایسے ہی دوسرے بیشمار جرائم بھی ہو رہے ہیں جنہیں کوئی شخص بھی نیکی اور بھلائی نہیں سمجھتا۔ پھر کیا اسی طرز استدلال کی بنا پر یہ بھی کہا جائے گا کہ یہ تمام افعال حلال و طیب ہیں، کیونکہ اللہ اپنی دنیا میں انہیں ہونے دے رہا ہے، اور جب وہ انہیں ہونے دے رہا ہے، تو ضرور وہ ان کو پسند بھی کرتا ہے ؟ اللہ کی پسند اور ناپسند معلوم ہونے کا ذریعہ وہ واقعات نہیں ہیں جو دنیا میں ہو رہے ہیں، بلکہ اللہ کی کتاب ہے جو اس کے رسول کے ذریعہ سے آتی ہے اور جس میں اللہ خود بتاتا ہے کہ اسے کون سے عقائد، کون سے اعمال، اور کون سے اخلاق پسند ہیں اور کون سے ناپسند۔ پس اگر قرآن سے پہلے آئی ہوئی کوئی کتاب ان لوگوں کے پاس ایسی موجود ہو جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہو کہ فرشتے بھی میرے ساتھ تمہارے معبود ہیں اور تم کو ان کی عبادت بھی کرنی چاہیے، تو یہ لوگ اس کا حوالہ دیں۔"[[21]]

 اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ بطور تعجب اور افسوس کے سوال فرما رہے ہیں کہ کیا ان لوگوں نے فرشتوں کو دیکھا ہے یا انکو ہم نے کوئی کتاب دی ہے جس میں یہ تحریر ہو کہ فرشتے عورتیں ہیں ؟ یا یہ اپنے پاس سے گھڑ رہے ہیں ؟ تو یہ بہتان باندھ رہے ہیں فرشتے تو اللہ کے نیک بندے ہیں جو ہر وقت اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اللہ کے حکم سے ہر کام کرتے ہیں تو یہ لوگ گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔

(۸)سورہ الجاثیہ میں اللہ فرماتے ہیں:

"اَم حَسِبَ الَّذِينَ اجتَـرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَن نَّجعَلَهُم كَالَّذِينَ اٰمَنُوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَآءً مَّحيَاهُم وَمَمَاتُهُم‌ سَآءَ مَا يَحكُمُونَ '[[22]]

’’ کیا وہ لوگ جنہوں نے بُرائیوں کا ارتکاب کیا ہے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم اُنہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کر دیں گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہو جائے؟ بہت بُرے حکم ہیں جو یہ لوگ لگاتے ہیں۔"

جو لوگ برے اعمال کرتے ہیں وہ یہ کیسے گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے گا، ان کا جینا اور مرنا برابر ہوجائے گا تو یہ محض ان کا گمان ہے اور ان کی فضول اور بے جا خواہشات، کیونکہ ایسا ہونا ممکن نہیں ایمان والے اور نیک عمل کرنے والے لوگ ہی کامیاب ہوں گے اور ان کو اپنے اعمال کے مطابق ہی بہترین بدلہ عطا کیا جائےگا۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی یوں رقمطراز ہیں:

" اخلاق میں خیر و شر اور اعمال میں نیکی و بدی کے فرق کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اچھے اور برے لوگوں کا انجام یکساں نہ ہو، بلکہ اچھوں کو ان کی اچھائی کا اچھا بدلہ ملے اور برے اپنی برائی کا برا بدلہ پائیں۔ یہ بات اگر نہ ہو، اور نیکی و بدی کا نتیجہ ایک ہی جیسا ہو تو سرے سے اخلاق میں خوبی و زشتی کی تمیز ہی بےمعنی ہوجاتی ہے اور خدا پر بےانصافی کا الزام عائد ہوتا ہے۔ جو لوگ دنیا میں بدی کی راہ چلتے ہیں وہ تو ضرور یہ چاہتے ہیں کہ کوئی جزا و سزا نہ ہو، کیونکہ یہ تصور ہی ان کے عیش کو منغّص کردینے والا ہے۔ لیکن خداوند عالم کی حکمت اور اس کے عدل سے یہ بات بالکل بعید ہے کہ وہ نیک و بد سے ایک جیسا معاملہ کرے اور کچھ نہ دیکھے کہ مومن صالح نے دنیا میں کس طرح زندگی بسر کی ہے اور کافر و فاسق یہاں کیا گل کھلاتا رہا ہے۔ ایک شخص عمر بھر اپنے اوپر اخلاق کی پابندیاں لگائے رہا۔ حق والوں کے حق ادا کرتا رہا۔ ناجائز فائدوں اور لذتوں سے اپنے آپ کو محروم کیے رہا۔ اور حق و صداقت کی خاطر طرح طرح کے نقصانات برداشت کرتا رہا۔ دوسرے شخص نے اپنی خواہشات ہر ممکن طریقے سے پوری کیں، نہ خدا کا حق پہچانا اور نہ بندوں کے حقوق پر دست درازی کرنے سے باز آیا۔ جس طرح سے بھی اپنے لیے فائدے اور لذتیں سمیٹ سکتا تھا، سمیٹتا چلا گیا۔ کیا خدا سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ان دونوں قسم کے آدمیوں کی زندگی کے اس فرق کو وہ نظر انداز کر دے گا ؟ مرتے دم تک جن کا جینا یکساں نہیں رہا ہے، موت کے بعد اگر ان کا انجام یکساں ہو تو خدا کی خدائی میں اس سے بڑھ کر اور کیا بےانصافی ہو سکتی ہے ؟"[[23]]

 اس آیت میں بھی اللہ رب العزت بطور تعجب کے سوال فرما رہے ہیں کہ کیا لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اچھے کام کرنے والوں کو اور برے اعمال کرنے والوں کو برابر کر دیں گے جس طرح حسنات اور سیئیات برابر نہیں ہو سکتیں تو ایسا ہونابھی ناممکن ہے۔یہ لوگ محض اپنی آرزوؤں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔یہ محض غفلت کا شکار ہیں کیونکہ نیکی کرنے والوں کو اچھا بدلہ اور برائی کرنے والوں کو ان کی برائیوں کے مطابق ضرور سزا مل کر رہے گی۔

نیز سورہ الجاثیہ آیت نمبر۲۳ میں بھی اللہ عزوجل کا فرمان عالیشان ہے:

 "اَفَرَءَيتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰٮهُ وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰى عِلمٍ وَّخَتَمَ عَلٰى سَمعِهٖ وَقَلبِهٖ وَجَعَلَ عَلٰى بَصَرِهٖ غِشٰوَةً  فَمَن يَّهدِيهِ مِنۢ بَعدِ اللّٰهِ‌ اَفَلَا تَذَكَّرُونَ "[[24]]

"پھر کیا تم نے کبھی اُس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اُسے گمراہی میں پھینک دیا اور اُس کے دل اور کانوں پر مُہر لگا دی اور اُس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اُسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟"

اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ:

خواہش نفس کو خدا بنا لینے سےیہ مراد ہے کہ آدمی اپنی خواہش کا غلام بن کر رہ جائے۔ اسی کام کو کرے جو اس کا دل چاہے خدا نے اسے حرام کیا ہو، اور جس کام کو اس کا دل نہ چاہے اسے نہ کرے، چاہے خدا نے اسے فرض کردیا ہو۔ جب آدمی اس طرح کسی کی اطاعت کرنے لگے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا معبود خدا نہیں ہے بلکہ وہ ہے جس کی وہ اس طرح اطاعت کر رہا ہے، قطع نظر اس بات سے کہ وہ زبان سے اس کو اپنا اِلٰہ اور معبود کہتا ہو یا نہ کہتا ہو، اور اس کا بت بنا کر اس کی پوجا کرتا ہو یا نہ کرتا ہو۔ اس لیے کہ ایسی اطاعت ہی اس کے معبود بن جانے کے لیے کافی ہے اور اس عملی شرک کے بعد ایک آدمی صرف اس بنا پر شرک کے جرم سے بری نہیں ہوسکتا کہ اس نے اپنے اس مطاع کو زبان سے معبود نہیں کہا ہے اور سجدہ اس کو نہیں کیا ہے"۔

مولانا مودودی فرماتے ہیں کہ: "وہ شخص عالم ہونے کے باوجود اللہ کی طرف سے گمراہی میں پھینکا گیا، کیونکہ وہ خواہش نفس کا بندہ بن گیا تھا۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ نے اپنے اس علم کی بنا پر کہ وہ اپنے نفس کی خواہش کو اپنا خدا بنا بیٹھا ہے، اسے گمراہی میں پھینک دیا۔یعنی بظاہر تو وہ آنکھیں اور دل رکھتے ہیں مگر حق بات کو سمجھنے میں یہ پردہ حائل ہے۔اس سے یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ آخرت کا انکار دراصل وہی لوگ کرتے ہیں جو خواہشات نفس کی بندگی کرنا چاہتے ہیں اور عقیدہ آخرت کو اپنی اس آزادی میں مانع سمجھتے ہیں۔ پھر جب وہ آخرت کا انکار کردیتے ہیں تو ان کی بندگی نفس اور زیادہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور وہ اپنی گمراہی میں روز بروز زیادہ ہی بھٹکتے چلے جاتے ہیں۔ کوئی برائی ایسی نہیں ہوتی جس کے ارتکاب سے وہ باز رہ جائیں۔ کسی کا حق مارنے میں انہیں تامل نہیں ہوتا۔ کسی ظلم اور زیادتی کا موقع پا جانے کے بعد ان سے یہ توقع ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس سے صرف اس لیے رک جائیں گے کہ حق و انصاف کا کوئی احترام ان کے دلوں میں ہے جن واقعات کو دیکھ کر کوئی انسان عبرت حاصل کرسکتا ہے۔یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عقیدہ آخرت کا انکار انسانی اخلاق کے لیے تباہ کن ہے۔ آدمی کو آدمیت کے دائرے میں اگر کوئی چیز رکھ سکتی ہے تو وہ صرف یہ احساس ذمہ داری ہے کہ ہمیں خدا کے حضور اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہوگی۔ اس احساس سے خالی ہوجانے کے بعد کوئی شخص بڑے سے بڑا عالم بھی ہو تو وہ جانوروں سے بدتر رویہ اختیار کیے بغیر نہیں رہتا۔"[[25]]

اس آیت میں اللہ پاک سوچ کا معیار جانچنے کے لئےﷺ سوال فرما رہے ہیں کہ جنہوں نے اپنی خواہش نفس کو معبود بنا لیا ہے تو اللہ نے انکو انکے نفس کے حوالے کر دیا ہے۔(معاذ اللہ) اگر کوئی کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اپنی خواہشات کو اللہ کے حکم کے مطابق کرنا ہوگا۔

(۹)سورہ الحجرات میں ارشادِ الٰہی ہے:

"يٰـاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا اجتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعضَ الظَّنِّ اِثمٌ‌ۖ وَّلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغتَبْ بَّعضُكُم بَعضًا‌ اَ يُحِبُّ اَحَدُكُم اَن يَّاكُلَ لَحمَ اَخِيهِ مَيتًا فَكَرِهتُمُوهُ‌ وَاتَّقُوا اللّٰهَ‌ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ "[[26]]

"اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، تجسُّس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو، تم خود اس سے گِھن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو ، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے"

مولانا مودودی تفہیم القرآن میں یوں رقمطراز ہیں:

"مطلقاً گمان کرنے سے نہیں روکا گیا ہے بلکہ بہت زیادہ گمان سے کام لینے اور ہر طرح کے گمان کی پیروی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اس حکم کو سمجھنے کے لیے ہمیں تجزیہ کر کے دیکھنا ہوگا کہ گمان کی کتنی اقسام ہیں اور ہر ایک کی اخلاقی حیثیت کیا ہے ؟

گمان کی ایک قسم یہ ہے کہ جو اخلاق کی نگاہ میں نہایت پسندیدہ اور دین کی نظر میں مطلوب اور محمود ہے، مثلاً اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان سے نیک گمان اور ان لوگوں کے ساتھ حسن ظن جن سے آدمی کا میل جول ہو اور جن کے متعلق بد گمانی کرنے کی کوئی معقول وجہ نہ ہو۔

"گمان کی دوسری قسم یہ ہے کہ جس سے کام لینے کے سوا عملی زندگی میں کوئی چارہ نہیں ہے۔ مثلاً عدالت میں اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا کہ جو شہادتیں قاضی کے سامنے پیش ہوں ان کو جانچ کر وہ غالب گمان کی بنا پر فیصلہ کرے، کیونکہ معاملہ کی حقیقت کا براہ راست علم اس کو نہیں ہو سکتا، اور شہادتوں کی بنیاد پر جو رائے قائم ہوتی ہے وہ زیادہ تر یقین پر نہیں بلکہ ظن غالب پر مبنی ہوتی ہے۔ اسی طرح بکثرت معاملات میں، جہاں کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا ضروری ہوتا ہے اور حقیقت کا علم حاصل ہونا ممکن نہیں ہوتا، انسان کے لیے گمان کی بنیاد پر ایک رائے قائم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے"۔

"تیسری قسم کا گمان وہ ہے جو اگرچہ ہے تو بد گمانی، مگر جائز نوعیت کی ہے اور اس کا شمار گناہ میں نہیں ہو سکتا۔ مثلاً کسی شخص یا گروہ کے معاملات اور طور طریقوں میں ایسی واضح علامات پائی جاتی ہوں جن کی بنا پر وہ حسن ظن کا مستحق نہ ہو اور اس سے بد گمانی کرنے کے لیے معقول وجوہ موجود ہوں ایسی حالت میں شریعت کا مطالبہ یہ ہرگز نہیں ہے کہ آدمی اس سے حسن ظن ہی رکھے۔ لیکن اس جائز بد گمانی کی آخری حد یہ ہے کہ اس کے امکانی شر سے بچنے کے لیے بس احتیاط سے کام لینے پر اکتفا کیا جائے۔

گمان کی چوتھی قسم جو در حقیقت گناہ ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی شخص سے بلا سبب بد گمانی کرے، یا دوسروں کے متعلق رائے قائم کرنے میں ہمیشہ بد گمانی ہی سے ابتدا کیا کرے، یا ایسے لوگوں کے معاملہ میں بد ظنی سے کام لے جن کا ظاہر حال یہ بتارہا ہو کہ وہ نیک اور شریف ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی گناہ ہے کہ ایک شخص کے کسی قول یا فعل میں بھلائی اور برائی کا یکساں احتمال ہو اور ہم محض سوء ظن سے کام لے کر اس کو برائی ہی پر محمول کریں۔ مثلاً کوئی بھلا آدمی کسی محفل سے اٹھتے ہوئے اپنے جوتے کے بجائے کسی اور کا جوتا اٹھا لے اور ہم یہ رائے قائم کرلیں کہ ضرور اس نے جوتا چرانے ہی کی نیت سے یہ حرکت کی ہے۔ حالانکہ یہ فعل بھولے سے بھی ہوسکتا ہے اور اچھے احتمال کو چھوڑ کر برے احتمال کو اختیار کرنے کی کوئی وجہ بد گمانی کے سوا نہیں ہے"۔

اس تجزیے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گمان بجائے خود کوئی ممنوع چیز نہیں ہے، بلکہ بعض حالات میں وہ پسندیدہ ہے، بعض حالات میں ناگزیر ہے، بعض حالات میں ایک حد تک جائز اور اس سے آگے ناجائز ہے، اور بعض حالات میں بالکل ہی ناجائز ہے۔ ایک مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسروں کے جن حالات پر پردہ پڑا ہوا ہے ان کی کھوج کرید کرے اور پردے کے پیچھے جھانک کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ کس میں کیا عیب ہے اور کس کی کون سی کمزوریاں چھپی ہوئی ہیں۔ لوگوں کے نجی خطوط پڑھنا، دو آدمیوں کی باتیں کان لگا کر سننا، ہمسایوں کے گھر میں جھانکنا، اور مختلف طریقوں سے دوسروں کی خانگی زندگی یا ان کے ذاتی معاملات کی ٹٹول کرنا ایک بڑی بد اخلاقی ہے جس سے طرح طرح کے فساد رونما ہوتے ہیں اسی لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ خطبہ میں تجسس کرنے والوں کے متعلق فرمایا :

یا مَعْشَرَ مَنْ آمَنَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يَدْخُلِ الْإِيمَانُ قَلْبَهُ لَا تَغْتَابُوا الْمُسْلِمِينَ وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ مَنِ اتَّبَعَ عَوْرَاتِهِمْ يَتَّبِعُ اللَّهُ عَوْرَتَهُ وَمَنْ يَتَّبِعِ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ فِي بَيْتِهِ ۔[[27]]

 ’’اے لوگو جو زبان سے ایمان لے آئے ہو مگر ابھی تمہارے دلوں میں ایمان نہیں اترا ہے، مسلمانوں کے پوشیدہ حالات کی کھوج نہ لگایا کرو، کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے عیوب ڈھونڈنے کے درپے ہوگا اللہ اس کے عیوب کے درپے ہوجائے گا اور اللہ جس کے درپے ہوجائے اسے اس کے گھر میں رسوا کر کے چھوڑتا ہے۔ ‘‘

حضرت معاویہؓ کہتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ہے :

إِنَّكَ إِنِ اتَّبَعْتَ عَوْرَاتِ النَّاسِ أَفْسَدْتَهُمْ أَوْ كِدْتَ أَنْ تُفْسِدَهُمْ۔ [[28]]

 تم اگر لوگوں کے مخفی حالات معلوم کرنے کے درپے ہو گے تو ان کو بگاڑ دو گے یا کم از کم بگاڑ کے قریب پہنچا دو گے۔

مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں یوں رقمطراز ہیں:

"تجسس کی ممانعت کا یہ حکم صرف افراد ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ اسلامی حکومت کے لیے بھی ہے۔ شریعت نے نہی عن المنکر کا جو فریضہ حکومت کے سپرد کیا ہے اس کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ وہ جاسوسی کا ایک نظام قائم کر کے لوگوں کی چھپی ہوئی برائیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے اور ان پر سزا دے، بلکہ اسے صرف ان برائیوں کے خلاف طاقت استعمال کرنی چاہیے جو ظاہر ہوجائیں۔ رہیں مخفی خرابیاں تو ان کی اصلاح کا راستہ جاسوسی نہیں ہے بلکہ تعلیم، وعظ و تلقین، عوام کی اجتماعی تربیت، اور ایک پاکیزہ معاشرتی ماحول پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ اس سلسلے میں حضرت عمر (رض) کا یہ واقعہ بہت سبق آموز ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت آپ نے ایک شخص کی آواز سنی جو اپنے گھر میں گا رہا تھا۔ آپ کو شک گزرا اور دیوار پر چڑھ گئے۔ دیکھا کہ وہاں شراب بھی موجود ہے اور ایک عورت بھی۔ آپ نے پکار کر کہا " اے دشمن خدا، کیا تو نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تو اللہ کی نافرمانی کرے گا اور اللہ تیرا پردہ فاش نہ کرے گا " ؟ اس نے جواب دیا " امیرالمومنین جلدی نہ کیجیے۔ اگر میں نے ایک گناہ کیا ہے تو آپ نے تین گناہ کیے ہیں۔ اللہ نے تجسس سے منع کیا تھا اور آپ نے تجسس کیا۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور آپ دیوار پر چڑھ کر آئے۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اجازت لیے بغیر نہ جاؤ اور آپ میری اجازت کے بغیر میرے گھر میں تشریف لے آئے۔ " یہ سن کر حضرت عمر (رض) اپنی غلطی مان گئے اور اس کے خلاف انہوں نے کوئی کارروائی نہ کی، البتہ اس سے یہ وعدہ لے لیا کہ وہ بھلائی کی راہ اختیار کرے گا"۔ اس سے معلوم ہوا کہ افراد ہی کے لیے نہیں خود اسلامی حکومت کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے راز ٹٹول ٹٹول کر ان کے گناہوں کا پتہ چلائے اور پھر انہیں پکڑے۔ یہی بات ایک حدیث میں بھی ارشاد ہوئی ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے ۔

إنَّ الْأَمِيرَ إِذَا ابْتَغَى الرِّيبَةَ فِي النَّاسِ أَفْسَدَهُمْ ۔[[29]]

 ’’حکمران جب لوگوں کے اندر شبہات کے اسباب تلاش کرنے لگے تو وہ ان کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ ‘‘

اس حکم سے مستثنیٰ صرف وہ مخصوص حالات ہیں جن میں بخشش کی فی الحقیقت ضرورت ہو۔ مثلاً کسی شخص یا گروہ کے رویے میں بگاڑ کی کچھ علامات نمایاں نظر آ رہی ہوں اور اس کے متعلق یہ اندیشہ پیدا ہوجائے کہ وہ کسی جرم کا ارتکاب کرنے والا ہے تو حکومت اس کے حالات کی تحقیق کرسکتی ہے۔ یا مثلاً کسی شخص کے ہاں کوئی شادی کا پیغام بھیجے، یا اس کے ساتھ کوئی کاروباری معاملہ کرنا چاہے تو وہ اپنے اطمینان کے لیے اس کے حالات کی تحقیق کرسکتا ہے۔

ایک روایت جو امام مالک نے مؤَطّاء میں حضرت مُطَّلِب بن عبداللہ سے نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قِيلَ لَهُ: مَا الْغِيبَةُ؟ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: " ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ "، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ؟ أَيْ رَسُولَ اللهِ، قَالَ: إِنْ كَانَ فِي أَخِيكَ مَا تَقُولُ، فَقَدِ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ مَا تَقُولُ، فَقَدْ بَهَتَّهُ "۔ [[30]]

’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا غیبت کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا " یہ کہ تو کسی شخص کا ذکر اس طرح کرے کہ وہ سنے تو اسے ناگوار ہو "۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ اگرچہ میری بات حق ہو ؟ آپ نے جواب دیا اگر تیری بات باطل ہو تو یہی چیز پھر بہتان ہے۔‘‘

ان ارشادات سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کے خلاف اس کے پیچھے جھوٹا الزام لگانا بہتان ہے اور اس کے واقعی عیوب بیان کرنا غیبت۔ یہ فعل خواہ صریح الفاظ میں کیا جائے یا اشارہ و کنایہ میں، بہر صورت حرام ہے۔ اسی طرح یہ فعل خواہ آدمی کی زندگی میں کیا جائے یا اس کے مرنے کے بعد، دونوں صورتوں میں اس کی حرمت یکساں ہے "۔ [[31]]

پھر خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے طرز عمل میں ہم کو چند نظیریں ایسی ملتی ہیں جن سے معلوم ہوجاتا ہے کہ " حق " سے مراد کیا ہے اور کس قسم کے حالات میں غیبت بقدر ضرورت جائز ہو سکتی ہے۔ایک روایت میں ہے:

جَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَأَنَاخَ رَاحِلَتَهُ، ثُمَّ عَقَلَهَا، ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى رَاحِلَتَهُ فَأَطْلَقَهَا ثُمَّ رَكِبَ ثُمَّ نَادَى اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي وَمُحَمَّدًا، وَلَا تُشْرِكْ فِي رَحْمَتِنَا أَحَدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَقُولُونَ هُوَ أَضَلُّ، أَمْ بَعِيرُهُ أَلَمْ تَسْمَعُوا إِلَى مَا قَالَ؟» قَالُوا: بَلَى ۔[[32]]

 ''ایک مرتبہ ایک بدو آ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز میں شامل ہوا اور نماز ختم ہوتے ہی یہ کہتا ہوا چل دیا کہ " خدایا مجھ پر رحم کر اور محمد پر، اور ہم دونوں کے سوا کسی کو اس رحمت میں شریک نہ کر "۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے فرمایا اتقولون ھو اضلّ ام بعیرہ ؟ الم تسمعوا الیٰ ما قال ؟ " تم لوگ کیا کہتے ہو، یہ شخص زیادہ نادان ہے یا اس کا اونٹ ؟ تم نے سنا نہیں کہ یہ کیا کہہ رہا تھا "۔

 ایک اور حدیث میں آتا ہے:

اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَقَالَ: «ائْذَنُوا لَهُ، فَبِئْسَ ابْنُ العَشِيرَةِ - أَوْ بِئْسَ أَخُو العَشِيرَةِ  فَلَمَّا دَخَلَ أَلاَنَ لَهُ الكَلاَمَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْتَ مَا قُلْتَ، ثُمَّ أَلَنْتَ لَهُ فِي القَوْلِ؟ فَقَالَ: «أَيْ عَائِشَةُ، إِنَّ شَرَّ النَّاسِ مَنْزِلَةً عِنْدَ اللَّهِ مَنْ تَرَكَهُ  أَوْ وَدَعَهُ النَّاسُ  اتِّقَاءَ فُحْشِهِ۔[[33]]

''ایک روز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عائشہ کے ہاں تشریف فرما تھے۔ ایک شخص نے آ کر ملاقات کی اجازت طلب کی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ اپنے قبیلے کا بہت برا آدمی ہے۔ پھر آپ باہر تشریف لے گئے اور اس سے بڑی نرمی کے ساتھ بات کی۔ گھر میں واپس تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے عرض کیا آپ نے تو اس سے بڑی اچھی طرح گفتگو فرمائی حالانکہ باہر جاتے وقت آپ نے اس کے متعلق وہ کچھ فرمایا تھا۔ جواب میں آپ ﷺنے فرمایا :خدا کے نزدیک قیامت کے روز بد ترین مقام اس شخص کا ہوگا جس کی بد زبانی سے ڈر کر لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں ۔''

 اس واقعہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کے متعلق بری رائے رکھنے کے باوجود اس کے ساتھ اچھی طرح بات چیت تو اس لیے کی کہ آپ کا اخلاق اسی کا تقاضا کرتا تھا۔ لیکن آپ کو یہ اندیشہ ہوا کہ آپ کے گھر والے آپ کو اس سے مہر بانی برتتے دیکھ کر کہیں اسے آپ کا دوست نہ سمجھ لیں اور بعد میں کسی وقت وہ اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔ اس لیے آپ نے حضرت عائشہ کو خبردار کردیا کہ وہ اپنے قبیلے کا بہت برا آدمی ہے۔

غیبت کے حرام ہونے کی بنیادی وجہ اس شخص کی دل آزاری نہیں ہے جس کی غیبت کی گئی ہو، بلکہ کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کرنا بجائے خود حرام ہے قطع نظر اس سے کہ اس کو اس کا علم ہو یا نہ ہو اور اس کا اس فعل سے اذیت پہنچے یا نہ پہنچے۔ ظاہر ہے کہ مرے ہوئے آدمی کا گوشت کھانا اس لیے حرام نہیں ہے کہ مردے کو اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ مردہ بےچارہ تو اس سے بیخبر ہوتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد کوئی اس کی لاش بھنبوڑ رہا ہے۔ مگر یہ فعل بجائے خود ایک نہایت گھناؤنا فعل ہے۔ اسی طرح جس شخص کی غیبت کی گئی ہو اس کو بھی اگر کسی ذریعہ سے اس کی اطلاع نہ پہنچے تو وہ عمر بھر اس بات سے بیخبر رہے گا کہ کہاں کس شخص نے کب اس کی عزت پر کن لوگوں کے سامنے حملہ کیا تھا اور اس کی وجہ سے کس کس کی نظر میں وہ ذلیل و حقیر ہو کر رہ گیا۔ اس بیخبر ی کی وجہ سے اسے اس غیبت کی سرے سے کوئی اذیت نہ پہنچے گی، مگر اس کی عزت پر بہرحال اس سے حرف آئے گا، اس لیے یہ فعل اپنی نوعیت میں مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے مختلف نہیں ہے۔"[[34]]

 اس آیت میں حسن معاشرت کے اصول بیان کئے گئے ہیں اور ایک مثال کے ذریعے بات سمجھائی گئی ہے کہ کون مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ غیبت جیسا فعل مردہ گوشت کھانے کے برابر ہے یہاں پر سوال مخاطب کی ذہنی استعداد کو چیک کرنے کے لئے کیا ہے۔

(۱۰)سورہ التکویر میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

"بِاَىِّ ذَنۢبٍ قُتِلَت‌"[[35]]

"کہ وہ کس قُصور میں مار ی گئی؟ "

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا مودودی لکھتے ہیں :

"اس آیت کے انداز بیان میں ایسی شدید غضبناکی پائی جاتی ہے جس سے زیادہ سخت غضبناکی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بیٹی کو زندہ گاڑنے والے ماں باپ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایسے قابل نفرت ہوں گے کہ ان کو مخاطب کر کے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تم نے اس معصوم کو کیوں قتل کیا، بلکہ ان سے نگاہ پھیر کر معصوم بچی سے پوچھا جائے گا کہ تو بےچاری آخر کس قصور میں ماری گئی، اور وہ اپنی داستان سنائے گی کہ ظالم ماں باپ نے اس کے ساتھ کیا ظلم کیا اور کس طرح اسے زندہ دفن کردیا۔ اس کے علاوہ اس مختصر سی آیت میں دو بہت بڑے مضمون سمیٹ دیے گئے ہیں جو الفاظ میں بیان کیے بغیر خود بخود اس کے فحوی سے ظاہر ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں اہل عرب کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ جاہلیت نے ان کو اخلاقی پستی کی کس انتہا پر پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنی ہی اولاد کو اپنے ہاتھوں زندہ در گور کرتے ہیں، پھر بھی انہیں اصرار ہے کہ اپنی اسی جاہلیت پر قائم رہیں گے اور اس اصلاح کو قبول نہ کریں گے جو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے بگڑے ہوئے معاشرے میں کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس میں آخرت کے ضروری ہونے کی ایک صریح دلیل پیش کی گئی ہے۔ جس لڑکی کو زندہ دفن کردیا گیا، آخر اس کی کہیں تو داد رسی ہونی چاہیے۔ نہ ماں باپ کو اس پر کوئی شرم آتی تھی نہ خاندان میں کوئی ان کو ملامت کرنے والا تھا نہ کوئی اس پر گرفت کرنے والا تھا پھر کیا خدا کی خدائی میں ظلم عظیم بالکل ہی بےداد رہ جانا چاہیے ؟"[[36]]

عرب میں لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا ظالمانہ طریقہ قدیم زمانے میں مختلف وجوہ سے رائج ہوگیا تھا۔ ایک، معاشی خستہ حالی جس کی وجہ سے لوگ چاہتے تھے کہ کھانے والے کم ہوں اور اولاد کو پالنے پوسنے کا بوجھ ان پر نہ پڑے۔ بیٹوں کو تو اس امید پر پال لیا جاتا تھا کہ بعد میں وہ حصول معیشت میں ہاتھ بٹائیں گے، مگر بیٹیوں کو اس لیے ہلاک کردیا جاتا تھا کہ انہیں جوان ہونے تک پالنا پڑے گا اور پھر ان کی شادی کرنا ہوگی۔ دوسرے، عام بد امنی جس کی وجہ سے بیٹوں کو اس لیے پالا جاتا تھا کہ جس کے جتنے زیادہ بیٹے ہوں گے اس کے اتنے ہی حامی و مددگار ہوں گے، مگر بیٹیوں کو اس لیے ہلاک کردیا جاتا تھا کہ قبائلی لڑائیوں میں ان کی حفاظت کرنا پڑتی تھی اور دفاع پر وہ کسی کام نہ آسکتی تھیں۔ تیسرا یہ کہ بد امنی کا ایک شاخسانہ یہ بھی تھا کہ دشمن قبیلے جب ایک دوسرے پر اچانک چھاپے مارتے تھے تو جو لڑکیاں بھی ان کے ہاتھ لگتی تھیں انہیں لے جا کر وہ یا تو لونڈیاں بنا کر رکھتے تھے یا کہیں بیچ ڈالتے تھے۔ ان وجوہ سے عرب میں یہ طریقہ چل پڑا تھا کہ کبھی تو زچگی کے وقت ہی عورت کے آگے ایک گڑھا کھود رکھا جاتا تھا تاکہ اگر لڑکی پیدا ہو تو اسی وقت اسے گڑھے میں پھینک کر مٹی ڈال دی جائے۔ اور کبھی اگر ماں اس پر راضی نہ ہوتی یا اس کے خاندان والے اس میں مانع ہوتے تو باپ بادل ناخواستہ اسے کچھ مدت تک پالتا اور پھر کسی وقت صحرا میں لے جا کر زندہ دفن کردیتا"۔[[37]]

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

مَنِ ابْتُلِىَ مِنَ الْبَنَاتِ بِشَىْءٍ فَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ۔[[38]]

’’جو شخص ان لڑکیوں کی پیدائش سے آزمائش میں ڈالا جائے اور پھر وہ ان سے نیک سلوک کرے تو یہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی‘‘

مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ حَتَّى تَبْلُغَا، جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَا وَهُوَ» وَضَمَّ أَصَابِعَهُ ۔[[39]]

’’جس نے دو لڑکیوں کو پرورش کیا یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں تو قیامت کے روز میرے ساتھ وہ اس طرح آئے گا، یہ فرما کر حضور نے اپنی انگلیوں کو جوڑ کر بتایا ‘‘

جس شخص نے تین بیٹیوں، یا بہنوں کو پرورش کیا، ان کو اچھا ادب سکھایا اور ان سے شفقت کا برتاؤ کیا یہاں تک کہ وہ اس کی مدد کی محتاج نہ رہیں تو اللہ اس کے لیے جنت واجب کر دے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ اور دو ، حضور نے فرمایا اور دو بھی۔ حدیث کے راوی ابن عباس کہتے ہیں کہ اگر لوگ اس وقت ایک کے متعلق پوچھتے تو حضور اس کے بارے میں بھی یہی فرماتے۔

مَنْ كَانَتْ لَهُ أُنْثَى فَلَمْ يَئِدْهَا، وَلَمْ يُهِنْهَا، وَلَمْ يُؤْثِرْ وَلَدَهُ عَلَيْهَا، - قَالَ: يَعْنِي الذُّكُورَ - أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ ۔[[40]]

’’جس کے ہاں لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے، نہ ذلیل کر کے رکھے، نہ بیٹے کو اس پر ترجیح دے اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا‘‘۔

مَنْ كَانَ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ فَصَبَرَ عَلَيْهِنَّ، وَأَطْعَمَهُنَّ، وَسَقَاهُنَّ، وَكَسَاهُنَّ مِنْ جِدَتِهِ كُنَّ لَهُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۔[[41]]

’’جس کے ہاں تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان پر صبر کرے اور اپنی وسعت کے مطابق ان کو اچھے کپڑے پہنائے وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی‘‘۔

مَا مِنْ رَجُلٍ تُدْرِكُ لَهُ ابْنَتَانِ، فَيُحْسِنُ إِلَيْهِمَا مَا صَحِبَتَاهُ - أَوْ صَحِبَهُمَا - إِلَّا أَدْخَلَتَاهُ الْجَنَّةَ۔[[42]]

’’جس مسلمان کے ہاں دو بیٹیاں ہوں اور وہ ان کو اچھی طرح رکھے وہ اسے جنت میں پہنچائیں گی‘‘۔

عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى أَفْضَلِ الصَّدَقَةِ؟ ابْنَتُكَ مَرْدُودَةً إِلَيْكَ، لَيْسَ لَهَا كَاسِبٌ غَيْرُكَ ۔ [[43]]

’’نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سراقہ بن جعشم سے فرمایا میں تمہیں بتاؤں کہ سب سے بڑا صدقہ۔ (فرمایا بڑے صدقوں میں سے ایک) کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا ضرور بتائیے یا رسول اللہ۔ فرمایا تیری وہ بیٹی جو (طلاق پا کر یا بیوہ ہو کر) تیری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا کوئی اس کے لیے کمانے والا نہ ہو‘‘۔

یہی وہ تعلیم ہے جس نے لڑکیوں کے متعلق لوگوں کا نقطہ نظر صرف عرب ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی ان تمام قوموں میں بدل دیا جو اسلام کی نعمت سے فیض یاب ہوتی چلی گئیں۔"[[44]]

اس آیت میں بیٹیوں کے زندہ درگور کرنے پر بطور تعجب کے سوال کیا جا رہا ہے کہ اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ بیٹیوں کی پرورش کرنا ، ان کی تعلیم و تربیت کرنا اور ان کو اس قابل بنانا کہ وہ ایک اچھی ماں بن سکیں یہ بہت بڑی نیکی کا کام ہے۔

(۱۱)سورہ الضحیٰ میں ارشادِ خداوندی ہے:

"اَلَم يَجِدكَ يَتِيمًا فَاٰوٰى "[[45]]

"کیا اُس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھِکانا فراہم کیا؟ "

مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ:

تمہیں چھوڑ دینے اور تم سے ناراض ہوجانے کا کیا سوال، ہم تو اس وقت سے تم پر مہربان ہیں جب تم یتیم پیدا ہوئے تھے حضور ابھی بطن مادر ہی میں چھ مہینے کے تھے جب آپ کے والد ماجد کا انتقال ہوگیا اس لیے آپ دنیا میں یتیم ہی کی حیثیت سے تشریف لائے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ایک دن بھی آپ کو بےسہارا نہ چھوڑا۔ چھ سال کی عمر تک والدہ ماجدہ آپ کی پرورش کرتی رہیں۔ ان کی شفقت سے محروم ہوئے تو ۸ سال کی عمر تک آپ کے جد امجد نے آپ کو اس طرح پالا کہ ان کو نہ صرف آپ سے غیر معمولی محبت تھی بلکہ ان کو آپ پر فخر تھا اور وہ لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ میرا یہ بیٹا ایک دن دنیا میں بڑا نام پیدا کرے گا۔ ان کا بھی انتقال ہوگیا تو آپ کے حقیقی چچا ابو طالب نے آپ کی کفالت اپنے ذمے لی اور آپ کے ساتھ ایسی محبت کا برتاؤ کیا کہ کوئی باپ بھی اس سے زیادہ نہیں کرسکتا، حتی کہ نبوت کے بعد جب ساری قوم آپ کی دشمن ہوگئی تھی اس وقت دس سال تک وہی آپ کی حمایت میں سینہ سپر رہے۔"[[46]]

اس آیت میں اللہ تبارک و تعالی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال فرما رہے ہیں کہ اے نبی! ہم نے آپ کو ٹھکانہ نہیں دیا جب ساری قوم آپ کی دشمن تھی ہم نے آپ کی مدد فرمائی اور ہم نے ہر وقت، ہر جگہ آپ کی مدد فرمائی ۔ اس آیت میں اللہ تبارک و تعالی حوصلہ افزائی کے سوال فرما رہے ہیں۔ کوئی بھی دنیا میں یتیم ہو یا مسکین ، اللہ تبارک و تعالی کسی کو بھی بے یارومددگار نہیں چھوڑتے اللہ پاک ہر کسی کی مدد فرماتےہیں اور چاہیے کہ ایمان والے لوگ اللہ پر ہی توکل کریں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...