Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

آیاتِ استفہام اور فہم عقیدہ آخرت
ARI Id

1695203136242_56118302

Access

Open/Free Access

Pages

119

کائنات کے نظام کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کسی چیز کے لئے کبھی ہمیشگی نہیں ہے، سب کی ایک عمر مقرر ہے وہ اپنی عمر مکمل کرنے کے بعد ختم ہوجاتی ہے، اس کائنات کو کمال درجہ حکمت سے بنایا گیا ہے جس کی ہر شئے میں ایک قانون کار فرما ہے۔ دنیا میں نیکی و بدی، ظلم و عدل اور تعمیر و تحریک کرنے کے بعد مٹی میں مل جانا یہ حقیت نہیں ہے بلکہ ہر اچھائی اور برائی کا بدلہ ضرور ملے گا۔

حافظ عمران ایوب لاہوری اپنی کتاب ’’آخرت کی کتاب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

 "آخرت ان تمام امور کا نام ہے جو مرنے کے بعد انسان کو پیش آئیں گے آخرت کے لیے کہا گیا ہے کہ یہ دنیا کے بعد آنے والی ہے آخرت پر ایمان پر قائم ان میں سے ایک اہم رکن ہے کہ جب تک آخرت کے متعلق اللہ تعالی کی بتلائی ہوئی ہر خبر پر دل ایسا مطمئن نہ ہو جائے کہ کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے تب تک ایمان بالآخرت کا حصول ممکن نہیں اور ایسا اعتقاد رکھنے والا ہی حقیقی مومن ہے اس کے علاوہ آخرت پر ایمان کا یہ فائدہ ہے کہ اس سے رغبت، خوف اور اعمال صالحہ کی بجاآوری کے ذریعے رب العالمین کی خوشنودی حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ہر جاندار نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور جو بھی ذی روح اس دنیا میں آیا ہے اس نے بالآخر یہاں سے رخصت ہونا ہے کوئی بھی موت سے نہیں بچ سکتا چاہے وہ خود کو مضبوط قلعوں میں بند ہی کیوں نہ کرلے اس لئے موت کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کیا کرو ہمیں ہر وقت اسی جستجو میں رہنا چاہیے کہ انسان کو موت نصیب ہو"[[1]]

 "اہل ایمان اللہ کے آخری محفوظ و موجود کلام کے حامل ہونے کے ناطے دنیائے انسانیت کے رہبر و ہادی ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ و ہ اپنے اعمال اور اپنی زندگی سے اس کاعملی ثبوت پیش کریں کہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔اصل کامیابی رب کی رضامیں پوشیدہ ہے ۔ کامیابی اس کے لیے ہے جو جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا۔اصل کامیابی وہ ہے جہاں جنت کی نعمتیں کبھی بھی ختم نہ ہوں گی؛ بلکہ بڑھتی ہی جائیں گی۔اور جہاں رب تعالیٰ کا دیدار سب سے بڑی نعمت ہوگی۔جہاں اللہ تعالیٰ خود بندوں کو قرآن شریف پڑھ کر سنائیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ اعلان فرما دیں گے کہ اے میرے بندو! اب میں تم سے کبھی بھی ناراض نہیں ہوؤ ں گا۔ تاہم آخرت کی غیبی زندگی کی کامیابی کو حقیقی کامیابی سمجھنا اور دنیا کی مشاہدہ والی زندگی پراس کو ترجیح دینا کوئی سادہ بات نہیں۔بندہ سے مطلوب ہے کہ وہ ایمان و احتساب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے۔واضح ہو کہ احتساب اس بات کو کہتے ہیں کہ بندہ کو عمل کے دوران عمل کی فضیلت و قیمت کا استحضار حاصل ہو۔ مثلا ً اہل ایمان ایک مرتبہ سبحان اللہ کہہ کر اتنا خوش ہو کہ ہفتِ اقلیم کی سلطنت بھی اسے پھیکی لگنے لگے،ہفتِ اقلیم کی سلطنت تو ایک روز چھوٹ جائے گی؛ مگر ایک مرتبہ سبحان اللہ کا اجرو ثواب کبھی بھی ختم نہیں ہوگا۔درحقیقت ایمان واحتساب کے ساتھ اگر عمل کیا جائے تو پھرواقعی زندگی کا لطف ہے؛اس لیے ہر اہل ایمان کے لیے ضروری ہے کہ دین میں کامیابی کا شرح صدر حاصل کریں کہ یقین کیے بغیر دین پر عمل آوری نہیں ہو سکتی۔ اس حقیقت کو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی صورت میں اس طرح سمجھایا ہے ۔ ” بیٹا! نیک عمل اللہ تعالیٰ شانہ‘ کے ساتھ یقین کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ جس کا یقین ضعیف ہوگا اس کا عمل بھی سست ہوگا۔"[[2]]

(۱)سورہ الرعد میں ارشاد ربانی ہے:         

"وَ اِن تَعجَب فَعَجَبٌ قَولُهُم ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِى خَلقٍ جَدِيدٍ اُولٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِم‌ وَاُولٰئِكَ الاَغلٰلُ فِى اَعنَاقِهِم‌ وَاُولٰئِكَ اَصحٰبُ النَّارِ‌ هُم فِيهَا خٰلِدُونَ "۔[[3]]

"اب اگر تمہیں تعجّب کرنا ہے تو تعجّب کے قابل لوگوں کا یہ قول ہے کہ”جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سِروں سے پیدا کیے جائیں گے؟“ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ربّ سے کُفر کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئےہیں یہ جہنّمی ہیں اورجہنّم میں ہمیشہ رہیں گے"۔

مولانا مودودی اس آیت کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:

"یعنی ان کا آخرت سے انکار دراصل خدا سے اور اس کی قدرت اور حکمت سے انکار ہے۔ یہ صرف اتنا ہی نہیں کہتے کہ ہمارا مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ پیدا ہونا غیر ممکن ہے، بلکہ ان کے اسی قول میں یہ خیال بھی پوشیدہ ہے کہ معاذاللہ وہ خدا عاجز دور ماندہ اور نادان و بےخرد ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے۔گردن میں طوق پڑا ہونا قیدی ہونے کی علامت ہے۔ ان لوگوں کی گردنوں میں طوق پڑے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنی جہالت کے، اپنی ہٹ دھرمی کے، اپنی خواہشات نفس کے، اور اپنے آباواجداد کی اندھی تقلید کے اسیر بنے ہوئے ہیں۔ یہ آزادانہ غور و فکر نہیں کرسکتے۔ انہیں ان کے تعصبات نے ایسا جکڑ رکھا ہے کہ یہ آخرت کو نہیں مان سکتے اگرچہ اس کا ماننا سراسر معقول ہے، اور انکار آخرت پر جمے ہوئے ہیں اگرچہ وہ سراسر نامعقول ہے۔" [[4]]

اس آیت میں اللہ تعالیٰ بطور انذار کے سوال فرما رہے ہیں کہ ان لوگوں کو تعجب ہے دوبارہ پیدا کئے جانے پر تو ان کی کم عقلی ہے اللہ پاک جو پہلی دفعہ پیدا کرنے پر قادر ہے تو دوبارہ کیونکر نہیں؟ جو آخرت کا انکار کرتے ہیں یہ کفر کرتے ہیں قیامت کے دن انکی گردنوں میں طوق ڈالا جائے گا اور یہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

(۲) سورہ العنکبوت میں ارشادِ خداوندی ہے:

 "اَوَلَم يَرَوا كَيفَ يُبدِئُ اللّٰهُ الخَـلقَ ثُمَّ يُعِيدُهٗ اِنَّ ذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيرٌ‏ "[[5]]

"کیا اِن لوگوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں ہے کہ اللہ کس طرح خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر اُس کا اعادہ کرتا ہے؟ یقیناً یہ (اعادہ تو) اللہ کے لیے آسان تر ہے۔"

نیز فرمایا:

"قُل سِيرُوا فِى الاَرضِ فَانْظُرُوا كَيفَ بَدَاَ الخَـلقَ‌ ثُمَّ اللّٰهُ يُنشِئُ النَّشاَةَ الاٰخِرَةَ‌ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىءٍ قَدِيرٌ‌"[[6]]

"ان سے کہو کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اُس نے کس طرح خلق کی ابتدا کی ہے ، پھر اللہ بار دیگر بھی زندگی بخشے گا۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔"

مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

" اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا ہےجو بنیادی گمراہیوں میں مبتلا تھے۔ ایک شرک و بت پرستی، دوسرے انکار آخرت۔ ان میں سے پہلی گمراہی کا رد حضرت ابراہیم کی اس تقریر میں آچکا ہے جو اوپر نقل کی گئی ہے۔ اب دوسری گمراہی کے رد میں یہ چند فقرے اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ارشاد فرما رہا ہے تاکہ دونوں کی تردید ایک ہی سلسلہ کلام میں ہوجائے۔ یعنی ایک طرف بیشمار اشیاء عدم سے وجود میں آتی ہیں، اور دوسری طرف ہر نوع کے افراد کے مٹنے کے ساتھ پھر ویسے ہی افراد وجود میں آتے چلے جاتے ہیں۔ مشرکین اس بات کو مانتے تھے کہ یہ سب کچھ اللہ کی صفت خلق و ایجاد کا نتیجہ ہے۔ انہیں اللہ کے خالق ہونے سے انکار نہ تھا، جس طرح آج کے مشرکین کو نہیں ہے، اس لیے ان کی اپنی مانی ہوئی بات پر یہ دلیل قائم کی گئی ہے کہ جو خدا تمہارے نزدیک اشیاء کو عدم سے وجود میں لاتا ہے اور پھر ایک ہی دفعہ تخلیق کر کے نہیں رہ جاتا بلکہ تمہاری آنکھوں کے سامنے مٹ جانے والی اشیاء کی جگہ پھر ویسی ہی اشیاء پے در پے وجود میں لاتا چلا جاتا ہے، اس کے بارے میں آخر تم نے یہ کیوں سمجھ رکھا ہے کہ تمہارے مرجانے کے بعد وہ پھر تمہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھا کھڑا نہیں کرسکتا۔یعنی جب خدا کی کاریگری سے بار اول کی تخلیق کا تم خود مشاہدہ کر رہے ہو تو تمہیں سمجھنا چاہیے کہ اسی خدا کی کاریگری سے بار دیگر بھی تخلیق ہوگی۔ ایسا کرنا اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔" [[7]]

ان آیات میں اللہ تعالٰی بطور تعجب کے سوال فرما رہے ہیں کہ ان لوگوں نہ پہلی پیدائش کی طرف نہیں دیکھا کیا ہم دوبارہ اس طرز پر پیدا نہیں فرما سکتے ؟ اگر مشکل ہوتا تو پہلی دفعہ پیدا کرنا مشکل ہوتا اللہ کے لئے پہلی دفعہ آسان ہے تو دوبارہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔

(۳)سورہ الروم میں ارشاد ربّانی ہے:

"اَوَلَم يَتَفَكَّرُوا فِى اَنفُسِهِم مَا خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ وَمَا بَينَهُمَا اِلَّا بِالحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى‌ وَ اِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَآئِ رَبِّهِم لَـكٰفِرُونَ "[[8]]

"کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ میں غور و فکر نہیں کیا؟اللہ نے زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں برحق اور ایک مقرر مدت ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔مگر بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔"

مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

"یہ آخرت پر بجائے خود ایک مستقل استدلال ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر یہ لوگ باہر کسی طرف نگاہ دوڑانے سے پہلے خود اپنے وجود پر غور کرتے تو انہیں اپنے اندر ہی وہ دلائل مل جاتے جو موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کی ضرورت ثابت کرتے ہیں۔ انسان کی تین امتیازی خصوصیات ایسی ہیں جو اس کو زمین کی دوسری موجودات سے ممیز کرتی ہیں ۔ایک یہ کہ زمین اور اس کے ماحول کی بے شمار چیزیں اس کے لیے مسخر کردی گئی ہیں، اور ان پر تصرف کے وسیع اختیارات اس کو بخش دیے گئے ہیں۔دوسرے یہ کہ اسے اپنی راہ زندگی کے انتخاب میں آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایمان اور کفر، طاعت اور معصیت، نیکی اور بدی کی راہوں میں سے جس راہ پر بھی جانا چاہے جاسکتا ہے۔ حق اور باطل، صحیح اور غلط جس طریقے کو بھی اختیار کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ ہر راستے پر چلنے کے لیے اسے توفیق دے دی جاتی ہے اور اس پر چلنے میں وہ خدا کے فراہم کردہ ذرائع استعمال کرسکتا ہے، خواہ وہ خدا کی اطاعت کا راستہ ہو یا اس کی نافرمانی کا راستہ۔تیسرے یہ کہ اس میں پیدائشی طور پر اخلاق کی حس رکھ دی گئی ہے جس کی بنا پر وہ اختیاری اعمال اور غیر اختیار اعمال میں فرق کرتا ہے، اختیاری اعمال پر نیکی اور بدی کا حکم لگاتا ہے اور بداہۃ یہ رائے قائم کرتا ہے کہ اچھا عمل جزا کا اور برا عمل سزا کا مستحق ہونا چاہیے۔یہ تینوں خصوصیتیں جو انسان کے اپنے وجود میں پائی جاتی ہیں اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ کوئی وقت ایسا ہونا چاہیے جب انسان سے محاسبہ کیا جائے۔ جب اس سے پوچھا جائے کہ جو کچھ دنیا میں اس کو دیا گیا تھا اس پر تصرف کے اختیارات کو اس نے کس طرح استعمال کیا ؟ جب یہ دیکھا جائے کہ اس نے اپنی آزادی انتخاب کو استعمال کر کے صحیح راستہ اختیار کیا یا غلط ؟ جب اس کے اختیاری اعمال کی جانچ کی جائے اور نیک عمل پر جزا اور برے عمل پر سزا دی جائے"۔ [[9]]

"یہ وقت لا محالہ انسان کا کارنامہ زندگی ختم اور اس کا دفتر عمل بند ہونے کے بعد ہی آسکتا نہ کہ اس سے پہلے۔ اور یہ وقت لازما اسی وقت آنا چاہیے جب کہ ایک فرد یا ایک قوم کا نہیں بلکہ تمام انسانوں کا دفتر عمل بند ہو۔ کیونکہ ایک فرد یا ایک قوم کے مرجانے پر ان اثرات کا سلسلہ ختم نہیں ہوجاتا جو اس نے اپنے اعمال کی بدولت دنیا میں چھوڑے ہیں۔ اس کے چھوڑے ہوئے اچھے یا برے اثرات بھی تو اس کے حساب میں شمار ہونے چاہیں۔ یہ اثرات جب تک مکمل طور پر ظاہر نہ ہولیں انصاف کے مطابق پورا محاسبہ کرنا اور پوری جزا یا سزا دینا کیسے ممکن ہے ؟ اس طرح انسان کا اپنا وجود اس بات کی شہادت دیتا ہے اور زمین میں انسان کو جو حیثیت حاصل ہے وہ آپ سے آپ اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ دنیا کی موجودہ زندگی کے بعد ایک دوسرے زندگی ایسی ہو جس میں عدالت قائم ہو، انصاف کے ساتھ انسان کے کارنامہ زندگی کا محاسبہ کیا جائے، اور ہر شخص کو اس کے کام کے لحاظ سے جزا دی جائے"۔[[10]]

اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کے انکار کرنے والوں سے استعجاب فرما رہے ہیں کہ کیا انہوں نے اپنے آپ میں غور نہیں کیا کہ ہم نے کس طرح انکی تخلیق فرمائی ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کچھ اللہ ہی نے تخلیق کیا ہے ۔کیا اب بھی تم ہمارے پاس لوٹ آنے کے بارے میں شکوک کا شکار ہو؟ عقل والوں کے لئے اس میں نشانیاں ہیں۔

اس فقرے میں آخرت کی دو مزید دلیلیں دی گئی ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر انسان اپنے وجود سے باہر کے نظام کائنات کو بنظر غور دیکھے تو اسے دو حقیقتیں نمایاں نظر آئیں گی۔ایک یہ کہ یہ کائنات برحق بنائی گئٰ ہے۔ یہ کسی بچے کا کھیل نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے اس نے ایک بےڈھنگا سا گھروندا بنا لیا ہو جس کی تعمیر اور تخریب دونوں ہی بےمعنی ہوں۔ بلکہ یہ ایک سنجیدہ نظام ہے جس کا ایک ایک ذرہ اس بات پر گواہی دے رہا ہے کہ اسے کمال درجہ حکمت کے ساتھ بنایا گیا ہے، جس کی ہر چیز میں ایک قانون کار فرما ہے، جس کی ہر شے با مقصد ہے۔ انسان کا سارا تمدن اور اس کی پوری معیشت اور اس کے تمام علوم و فنون خود اس بات پر گواہ ہیں۔ دنیا کی ہر چیز کے پیچھے کام کرنے والے قوانین کو دریافت کر کے اور ہر شے جس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے اسے تلاش کر کے ہی انسان یہاں یہ سب کچھ تعمیر کرسکا ہے۔ ورنہ ایک بےضابطہ اور بےمقصد کھلونے میں اگر ایک پتلے کی حیثیت سے اس کو رکھ دیا گیا ہوتا تو کسی سائنس اور کسی تہذیب و تمدن کا تصور تک نہ کیا جاسکتا تھا۔ اب آخر یہ بات تمہاری عقل میں کیسے سماتی ہے کہ جس حکیم نے اس حکمت اور مقصدیت کے ساتھ یہ دنیا بنائی ہے اور اس کے اندر تم جیسی ایک مخلوق کو اعلی درجہ کی ذہنی و جسمانی طاقتیں دے کر، اختیارات دے کر، آزادی انتخاب دے کر، اخلاق کی حس دے کر اپنی دنیا کا بیشمار سروسمان تمہارے حوالہ کیا ہے، اس نے تمہیں بےمقصد ہی پیدا کردیا ہوگا ؟ تم دنیا میں تعمیر و تخریب اور نیکی و بدی، اور ظلم و عدل اور راستی و ناراستی کے سارے ہنگامے برپا کرنے کے بعد بس یونہی مر کر مٹی میں مل جاؤ گے گے اور تمہارے کسی اچھے یا برے کام کا کوئی نتیجہ نہ ہوگا ؟ تم اپنے ایک ایک عمل سے اپنی اور اپنے جیسے ہزاروں انسانوں کی زندگی پر اور دنیا کی بیشمار اشیاء پر بہت سے مفید یا مضر اثرات ڈال کر چلے جاؤ گے اور تمہارے مرتے ہی یہ سارا دفتر عمل بس یونہی لپیٹ کر دریا برد نہیں کیا جائے گا؟

(۴) سورہ الروم کی آیت نمبر ۹ میں ارشادِ ربانی ہے:

 "اَوَلَم يَسِيرُوا فِى الاَرضِ فَيَنظُرُوا كَيفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبلِهِم‌ كَانُوا اَشَدَّ مِنهُم قُوَّةً وَّاَثَارُوا الاَرضَ وَعَمَرُوهَا اَكثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَآءَتهُم رُسُلُهُم بِالبَيِّنٰتِ‌ فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيَظلِمَهُم وَلٰـكِن كَانُوا اَنفُسَهُم يَظلِمُونَ "[[11]]

’’اور کیا یہ لو گ کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ انہیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ وہ ان سے زیادہ طاقت رکھتے تھے ، انہوں نے زمین کو خوب ادھیڑا تھا۔ اور اسے اتنا آباد کیا تھا جتنا انہوں نے نہیں کیا ہے۔ ان کےپاس ان کے رسول روشن نشانیاں لے کر آئے۔ پھر اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے۔‘‘

صاحبِ تفسیر اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:

"یہ آخرت کے حق میں تاریخی استدلال ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آخرت کا انکار دنیا میں دو چار آدمیوں ہی نے تو نہیں کیا ہے۔ انسانی تاریخ کے دوران میں کثیر التعداد انسان اس مرض میں مبتلا ہوتے رہے ہیں۔ بلکہ پوری پوری قومیں ایسی گزری ہیں جنہوں نے یا تو اس کا انکار کیا ہے، اس سے غافل ہو کر رہی ہیں، یا حیات بعد الموت کے متعلق ایسے غلط عقیدے ایجاد کرلیے ہیں جن سے آخرت کا عقیدہ بےمعنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ پھر تاریخ کا مسلسل تجربہ یہ بتاتا ہے کہ انکار آخرت جس صورت میں بھی کیا گیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے اخلاق بگڑے، وہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ کر شتر بےمہار بن گئے، انہوں نے ظلم و فساد اور فسق و فجور کی حد کردی، اور اسی چیز کی بدولت قوموں پر قومیں تباہ ہوتی چلی گئیں۔ کیا ہزاروں سال کی تاریخ کا یہ تجربہ، جو پے در پے انسانی نسلوں کو پیش آتا رہا ہے، یہ ثابت نہیں کرتا کہ آخرت ایک حقیقت ہے جس کا انکار انسان کے لیے تباہ کن ہے ؟ انسان کشش ثقل کا اسی لیے تو قائل ہوا ہے کہ تجربے اور مشاہدے سے اس نے مادی اشیاء کو ہمیشہ زمین کی طرف گرتے دیکھا ہے"۔[[12]]

" انسان نے زہر کو زہر اسی لیے تو مانا ہے کہ جس نے بھی زہر کھایا وہ ہلاک ہوا۔ اسی طرح جب آخرت کا انکار ہمیشہ انسان کے لیے اخلاقی بگاڑ کا موجب ثابت ہوا ہے تو کیا یہ تجربہ یہ سبق دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ آخرت ایک حقیقت ہے اور اس کو نظر انداز کر کے دنیا میں زندگی بسر کرنا غلط ہے ؟اصل میں لفظ ّاَثَارُوا الْاَرْضَ استعمال ہوا ہے۔ اس کا اطلاق زراعت کے لیے ہل چلانے پر بھی ہوسکتا ہے اور زمین کھود کر زمین پانی، نہریں، کاریزیں اور معدنیات وغیرہ نکالنے پر بھی"۔[[13]]

اس میں ان لوگوں کے استدلال کا جواب موجود ہے جو محض مادی ترقی کو کسی قسم کے صالح ہونے کی علامت سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے زمین کے ذرائع کو اتنے بڑے پیمانے پر استعمال (exploit) کیا ہے، جنہوں نے دنیا میں عظیم الشان تعمیری کام کیے ہیں اور ایک شاندار تمدن کو جنم دیا ہے، بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جہنم کا ایندھن بنا دے۔ قرآن اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ یہ " تعمیری کام " پہلے بھی بہت سی قوموں نے بڑے پیمانے پر کیے ہیں، پھر کیا تمہاری آنکھوں نے نہیں دیکھا کہ وہ قومیں اپنی تہذیب اور اپنے تمدن سمیت پیوند خاک ہوگئیں اور ان کی " تعمیر " کا قصر فلک بوس زمین پر آرہا ؟ جس خدا کے قانون نے یہاں عقیدہ حق اور اخلاق صالحہ کے بغیر محض مادی تعمیر کی یہ قدر کی ہے، آخر کیا وجہ ہے کہ اسی خدا کا قانون دوسرے جہان میں انہیں واصل جہنم نہ کرے ؟یعنی ایسی نشانیاں لے کر آئے جو ان کے نبی صادق ہونے کا یقین دلانے کے لیے کافی تھیں۔ اس سیاق وسباق میں انبیاء کی آمد کے ذکر کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف انسان کے اپنے وجود میں، اور اس سے باہر ساری کائنات کے نظام میں، اور انسانی تاریخ کے مسلسل تجربے میں آخرت کی شہادتیں موجود تھیں، اور دوسری طرف پے در پے ایسے انبیاء بھی آئے جن کے ساتھ ان کی نبوت کے برحق ہونے کی کھلی کھلی علامتیں پائی جاتی تھیں اور انہوں نے انسانوں کو خبردار کیا کہ فی الواقع آخرت آنے والی ہے۔یعنی اس کے بعد جو تباہی ان قوموں پر آئی وہ ان پر خدا کا ظلم نہ تھا بلکہ وہ ان کا اپنا ظلم تھا جو انہوں نے اپنے اوپر کیا۔ جو شخص یا گروہ نہ خود صحیح سوچے اور نہ کسی سمجھانے والے کے سمجھانے سے صحیح رویہ اختیار کرے اس پر اگر تباہی آتی ہے تو وہ آپ ہی اپنے برے انجام کا ذمہ دار ہے۔ خدا پر اس کا الزام عائد نہیں کیا جاسکتا۔ خدا نے تو اپنی کتابوں اور اپنے انبیاء کے ذریعہ سے انسان کو حقیقت کا علم دینے کا انتظام بھی کیا ہے، اور وہ علمی و عقلی وسائل بھی عطا کیے ہیں جن سے کام لے کر وہ ہر وقت انبیاء اور کتب آسمانی کے دیے ہوئے علم کی صحت جانچ سکتا ہے۔ اس رہنمائی اور ان ذرائع سے اگر خدا نے انسان کو محروم رکھا ہوتا اور اس حالت میں انسان کو غلط روی کے نتائج سے دو چار ہونا پڑتا تب خدا پر ظلم کے الزام کی گنجائش نکل سکتی تھی۔"[[14]]

اس آیت میں اللہ تعالیٰ حق کے اثبات میں سوال فرما رہے ہیں کہ تم لوگ زمین میں چل پھر کر دیکھو ہم نے ایسی اقوام بھی پیدا فرمائیں تھیں جو تم میں طاقت و قوت ، مال و دولت کے لحاظ سے تم سے بہت بہتر تھیں مگر انہوں نے ہماری نافرمانی کی تو ہم نے انکو عذاب سے دوبار کر دیا اور اب دیکھا انکا نشان تک نہیں ہے ایسے ہی ہم ہر چیز پر قدرت رکھتے ہیں۔

(۵)سورہ السجدہ میں ارشادِ خداوندی ہے:

 "وَمَن اَظلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ ثُمَّ اَعرَضَ عَنهَا اِنَّا مِنَ المُجرِمِينَ مُنتَقِمُونَ "[[15]]

"اور اُس سے بڑا ظالم کون ہوگاجسے اس کے ربّ کی آیات کے ذریعہ سے نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیر لے۔ ایسے مجرموں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے۔"

مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

" رب کی آیات " یعنی اس کی نشانیوں کے الفاظ بہت جامع ہیں جن کے اندر تمام اقسام کی نشانیاں آجاتی ہیں۔ قرآن مجید کے جملہ بیانات کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشانیاں حسب ذیل چھ قسموں پر مشتمل ہیں ۔"

  1. وہ نشانیاں جو زمین سے لے کر آسمان تک ہر چیز میں اور کائنات کے مجموعی نظام میں پائی جاتی ہیں۔
  2. وہ نشانیاں جو انسان کی اپنی پیدائش اور اس کی ساخت اور اس کے وجود میں پائی جاتی ہے۔
  3. وہ نشانیاں جو انسان کے وجدان میں، اسکے لاشعور میں، اور اس کے اخلاقی تصورات میں پائی جاتی ہیں۔
  4. وہ نشانیاں جو انسانی تاریخ کے مسلسل تجربات میں پائی جاتی ہیں۔
  5. وہ نشانیاں جو انسان پر آفات ارضی و سماوی کے نزول میں پائی جاتی ہیں۔
  6. اور ان سب کے بعد وہ آیات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعہ سے بھیجیں تاکہ معقول طریقے سے انسان کو انہی حقائق سے آگاہ کیا جائے جن کی طرف اوپر کی تمام نشانیاں اشارہ کر رہی ہیں۔ یہ ساری نشانیاں پوری ہم آہنگی اور بلند آہنگی کے ساتھ انسان کو یہ بتارہی ہیں کہ تو بے خدا نہیں ہے، نہ بہت سے خداؤں کا بندہ ہے، بلکہ تیرا خدا صرف ایک ہی ہے جس کی عبادت و اطاعت کے سوا تیرے لیے کوئی دوسرا راستہ صحیح نہیں ہے۔ تو اس دنیا میں آزاد و خود مختار اور غیر ذمہ دار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ تجھے اپنا کارنامۂ حیات ختم کرنے کے بعد اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو کر جواب دہی کرنی ہے اور اپنے عمل کے لحاظ سے جزا اور سزا پانی ہے۔ پس تیری اپنی خیر اسی میں ہے کہ تیرے خدا نے تیری رہنمائی کے لیے اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے جو ہدایت بھیجی ہے اس کی پیروی کر اور خود مختاری کی روش سے باز آجا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جس انسان کو اتنے مختلف طریقوں سے سمجھایا گیا ہو، جس کی فہمائش کے لیے طرح طرح کی اتنی بیشمار نشانیاں فراہم کی گئی ہوں، اور جسے دیکھنے کے لیے آنکھیں سننے کے لیے کان، اور سوچنے سمجھنے کے لیے دل کی نعمتیں بھی دی گئی ہوں، وہ اگر ان ساری نشانیوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلیتا ہے، سمجھانے والوں کی تذکیر و نصیحت کے لیے بھی اپنے کان بند کرلیتا ہے، اور اپنے دل و دماغ سے بھی اوندھے فلسفے ہی گھڑنے کا کام لیتا ہے، اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہوسکتا۔ وہ پھر اسی کا مستحق ہے کہ دنیا میں اپنے امتحان کی مدت ختم کرنے کے بعد جب وہ اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو تو بغاوت کی بھر پور سزا پائے۔"[[16]]

اس آیت میں اللہ تعالیٰ بطور انذار کے سوال فرما رہے ہیں کہ اس سے زیادہ کون ظالم ہو سکتا ہے جو ہماری آیات کو دیکھتے کر جان بوجھ کر آخرت کو انکار کرتا ہے ۔ایسے لوگوں کو قیامت کے دن ضرور بالضرور سزا دی جائے گی۔

(۶)سورہ السجدہ میں ارشادِ الٰہی ہے:

"اَوَلَم يَهدِ لَهُم كَم اَهلَكنَا مِن قَبلِهِم مِّنَ القُرُونِ يَمشُونَ فِى مَسٰكِنِهِم‌ اِنَّ فِى ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ اَفَلَا يَسمَعُونَ "[[17]]

"اور کیا ان لوگوں کو (اِن تاریخی واقعات میں)کوئی ہدایت نہیں ملی کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کے رہنے کی جگہوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں؟ اس میں بڑی نشانیاں ہیں، کیا یہ سُنتے نہیں ہیں؟"

نیز فرمایا:

"وَيَقُولُونَ مَتٰى هٰذَا الفَتحُ اِن كُنتُم صٰدِقِينَ "[[18]]

"یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ کب ہوگا اگر تم سچے ہو؟"

مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

"یعنی کیا تاریخ کے اس مسلسل تجربے سے ان لوگوں نے کوئی سبق نہیں لیا کہ جس قوم میں بھی خدا کا رسول آیا ہے اس کی قسمت کا فیصلہ اس رویے کے ساتھ معلق ہوگیا ہے جو اپنے رسول کے معاملہ میں اس نے اختیار کیا۔ رسول کو جھٹلا دینے کے بعد پھر کوئی قوم بچ نہیں سکی ہے۔ اس میں سے بچے ہیں تو صرف وہی لوگ جو اس پر ایمان لائے۔ انکار کردینے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سامان عبرت بن کر رہ گئے۔تمام اقوام میں رسول بھیجنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ انکو سیدھے راستے کی پیروی کا حکم دیا جائے اور آخرت کے عذاب سے ڈرایا جائے۔پھر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ قیامت کب ہوگی ہمیں کوئی نشانی دکھلائی جائے تو ہم پھر ایمان لائیں گے مگر یہ اتنے بڑے بڑے معجزات دیکھنے کے باوجود بھی ایمان نہیں لاتے تو قیا۔ت کو دیکھ کر بھی انکا ہی کریں گے"۔[[19]]

 اس آیت میں اللہ پاک بطور حیرت کے سوال فرما رہے ہیں کہ کیا یہ گزشتہ اقوام کے حالات و واقعات سے عبرت حاصل نہیں کرتے کہ ہم نے ان کو کس طرح ہر نعمت سے مالامال کیا ہوا تھا ہر طرح کی آسائشیں فراہم کی ہوئیں تھیں پھر بھی ان آسائشوں کے باوجود انہوں نے خدائے برحق کو جھٹلایا تو ان پر ہمارا عذاب ایسے آیا کہ کہ ان کی بستیاں الٹ دی گئی اور کوئی بھی ذی روح نہ بچ سکا جو انسان بھی اللہ تبارک و تعالی کی نافرمانی کرتا ہے ہے اللہ پاک اسے ایسے ہی عذاب سے دوچار فرماتے ہیں یہ اللہ تعالی کا قانون ہے کہ جو انسان اچھے کام کرے گا اسی کے مطابق اجر دیا جائے گا جو انسان برے اعمال کرے گا، اسی کے موافق اس کو قیامت کے دن دردناک عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔

(۷)سورہ فاطر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"وَهُم يَصطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا اَخرِجنَا نَـعمَل صَالِحًـا غَيرَ الَّذِى كُـنَّا نَـعمَلُ اَوَلَم نُعَمِّركُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَآءَكُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظّٰلِمِينَ مِن نَّصِيرٍ "[[20]]

"وہ وہاں چیخ چیخ کر کہیں گے کہ”اے ہمارے ربّ ، ہمیں یہاں سے نکال لے تاکہ ہم نیک عمل کریں اُن اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے۔“ (انہیں جواب دیا جائے گا)” کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتا تھا؟ اور تمہارے پاس متنبّہ کرنے والا بھی آچکا تھا۔ اب مزا چکھو۔ ظالموں کا یہاں کوئی مددگار نہیں ہے۔"

مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

"اس سے مراد ہر وہ عمر ہے جس میں آدمی اس قابل ہوسکتا ہو کہ اگر وہ نیک و بد اور حق و باطل میں امتیاز کرنا چاہے تو کرسکے اور گمراہی چھوڑ کر ہدایت کی طرف رجوع کرنا چاہے تو کرسکے۔ اس عمر کو پہنچنے سے پہلے اگر کوئی شخص مر چکا ہو تو اس آیت کی رو سے اس پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ البتہ جو اس عمر کو پہنچ چکا ہو وہ اپنے عمل کے لیے لازماً جواب دہ قرار پائے گا، اور پھر اس عمر کے شروع ہوجانے کے بعد جتنی مدت بھی وہ زندہ رہے اور سنبھل کر راہ راست پر آنے کے لیے جتنے مواقع بھی اسے ملتے چلے جائیں اتنی ہی اس کی ذمہ داری شدید تر ہوتی چلے جائے گی، یہاں تک کہ جو شخص بڑھاپے کو پہنچ کر بھی سیدھا نہ ہو اس کے لیے کسی عذر کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔[[21]]

اس آیت میں قیامت کے دن کی منظر کشی کی گئی ہے کہ جہنم والے اس دن فریاد کریں گے کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس جہنم سے نکال دے اب ہم تیری فرمانبرداری کریں گے اور نیک اعمال کریں گے۔ اللہ پاک ان سے معلومات کو یقینی بنانے کے لیے سوال فرمائیں گے کہ کیا ہم نے تم کو لمبی عمر نہ دی تھی؟ کیا ہم نے تمہارے پاس ڈرانے والا نہیں بھیجا تھا ؟ اگر تم چاہتے تو نصیحت حاصل کر سکتے تھے مگر تمہاری ضد اور ہٹ دھرمی نے تمکو ایسا نہیں کرنے دیا سو اب تم عذاب کا مزہ چکھو۔

(۸) سورہ الزمر میں اللہ پاک فرماتے ہیں:

"اَفَمَن حَقَّ عَلَيهِ كَلِمَةُ العَذَابِ اَفَاَنتَ تُنقِذُ مَن فِى النَّارِ‌ "[[22]]

"(اے نبیؐ )اُس شخص کو کون بچا سکتا ہے جس پر عذاب کا فیصلہ چَسپَاں ہو چکا ہو؟ کیا تم اُسے بچا سکتے ہو جو آگ میں گر چکا ہوِ"

مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

'' جس انسان نے اپنے آپ کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا لیا ہو اور اللہ نے فیصلہ فرما دیا ہو کہ اسے اب سزا دینی ہے۔اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالی فرمارہےہیں کہ اے نبی جس کے بارے میں ہم عذاب کا فیصلہ کر چکے ہو ں آپ بھی کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت سے لوگوں کے لئے چاہتے تھے کہ وہ ایمان لے آئیں کہ مگر اللہ تبارک تعالی نے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہہ دیا تھا کہ اے نبی آپ کا کام صرف نصیحت کرنا ہے باقی ایمان لانا اللہ پاک کی توفیق سے ہوتا ہے اس لیے اگر کوئی گناہ گار شخص جس کے لئے اللہ تبارک و تعالی عذاب کا فیصلہ اس کے برے اعمال کی بدولت ہو تو اس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش بھی قبول نہیں کی جائے گی اس لیے اللہ تبارک وتعالی لوگوں کو ترغیب دینے کے لیے سوال فرما رہے ہیں کہ جو لوگ ساری زندگی بھی برے اعمال کرتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں اور قیامت کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری سفارش فرمائیں گے تو ان کے اس قول کی تردید کی جا رہی ہے کیونکہ سفارش بھی قابل قبول ہوتی ہے جب انسان اللہ پر یقین رکھتا ہے اسی پر بھروسہ رکھتا ہے اور اسی کو کارساز حقیقی سمجھتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی یہی فرمایا تھا کہ اے فاطمہ تم یہ نہ سمجھنا کہ تو نبی کی بیٹی ہے تو تیری بخشش ہوجائے گی بلکہ ہر انسان اپنے اعمال کے کے بل بوتے پر پر سزا یا جزا کا مستحق قرار پائے گا کہ اس سے ثابت ہوا کہ کسی انسان کو نبی امت کے دن کوئی بھی قرابتداری میری یا نسبت فائدہ نہیں دے گی ان جو کچھ دنیا میں بوئے گا وہی آخرت میں کاٹے گا دنیا آخرت کی کھیتی ہے ہر انسان کو کو اس کے اعمال حسنہ کے بدلے میں جنت اور ہمارے سیئہ عمل کے بدلے دوزخ کا سامنا کرنا ہوگا''۔[[23]]

اس آیت میں بطور زجر و توبیخ کے اللہ پاک سوال فرما رہے ہیں کہ اللہ پاک جس کے لیے عذاب کا فیصلہ فرمادیں تو اس کو اس فیصلے کو کوئی روکنے والا نہیں ہے، کوئی بھی اس شخص کی مدد نہ کر سکے گا جس کے بارے میں اس کے برے اعمال کی بدولت عذاب دینے کا فیصلہ کردیا جائے۔

(۹)سورہ ق میں ارشاد الٰہی ہے:

"اَفَعَيِينَا بِالخَـلقِ الاَوَّلِ‌ بَل هُم فِى لَبسٍ مِّن خَلقٍ جَدِيدٍ " [[24]]

"کیا پہلی بار کی تخلیق سے ہم عاجز تھے؟ مگر ایک نئی تخلیق کی طرف سے یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ "

مولانا مودودی اس آیت کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:

 "یہ آخرت کے حق میں عقلی استدلال ہے۔ جو شخص خدا کا منکر نہ ہو اور حماقت کی اس حد تک نہ پہنچ گیا ہو کہ اس منظم کائنات اور اس کے اندر انسان کی پیدائش کو محض ایک اتفاقی حادثہ قرار دینے لگے، اس کے لیے یہ مانے بغیر چارہ نہیں ہے کہ خدا ہی نے ہمیں اور اس پوری کائنات کو پیدا کیا ہے۔ اب یہ امر واقعہ کہ ہم اس دنیا میں زندہ موجود ہیں اور زمین و آسمان کا یہ سارا کارخانہ ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے، اب یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ خدا ہمیں اور اس کائنات کو پیدا کرنے سے عاجز نہ تھا۔ اس کے بعد اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ قیامت برپا کرنے کے بعد وہی خدا ایک دوسرا نظام عالم نہ بنا سکے گا، اور موت کے بعد وہ ہمیں دوبارہ پیدا نہ کرسکے گا، تو وہ محض ایک خلاف عقل بات کہتا ہے۔ خدا عاجز ہوتا تو پہلے ہی پیدا نہ کرسکتا۔ جب وہ پہلے پیدا کرچکا ہے اور اسی تخلیق کی بدولت ہم خود وجود میں آئے بیٹھے ہیں، تو یہ فرض کرلینے کے لیے آخر کیا معقول بنیاد ہو سکتی ہے کہ اپنی ہی بنائی ہوئی چیز کو توڑ کر پھر بنا دینے سے وہ عاجز ہوجائے گا ؟"۔ [[25]]

اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک اپنی قدرت کاملہ کے اثبات کے بارے میں سوال فرما رہے ہیں کہ ہم انسان کو پہلی دفعہ بنا سکتے ہیں تو دوسری بار بنانا بھی ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔جب یہ کائنات ختم ہوجائے گی تو اس کی جگہ ایک دوسرا نظام لے لے گا۔اور دنیا کے نظام کا بننا اور اس کا ختم ہونا، آخرت کے نظام کے اس کی جگہ لے لینا یہ کوئی اتفاقی بات نہیں ہے لیکن ایسی ذات موجود ہے جو ان نظاموں کو کنٹرول کر رہی ہے۔اور ان نظاموں میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جو خدا کی قدرت سے ماورا ہو۔ تمام نظام اللہ کی قدرت کے ما تحت چل رہے ہیں اور خدا کسی بھی نظام کو بنانے یا چلانے سے عاجز نہیں ہے۔

(۱۰)سورہ طور میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"اَفَسِحرٌ هٰذَا اَم اَنتُم لَا تُبصِرُونَ‌ " [[26]]

"اب بتاؤیہ جادو ہے یا تمھیں سُوجھ نہیں رہا ہے؟"

مولانا مودودی اس آیت کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:

''دنیا میں جب رسول تمہیں اس جہنم کے عذاب سے ڈراتے تھے تو تم کہتے تھے کہ یہ محض الفاظ کی جادوگری ہے جس سے ہمیں بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ اب بولو، یہ جہنم جو تمہارے سامنے ہے یہ اسی جادو کا کرشمہ ہے یا اب بھی تمہیں نہ سوجھا کہ واقعی اسی جہنم سے تمہارا پالا پڑگیا ہے جس کی خبر تمہیں دی جا رہی تھی؟یہ ہے وہ حقیقت جس پر ان پانچ چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ رب کے عذاب سے مراد آخرت ہے۔ چونکہ یہاں اس پر ایمان لانے والے مخاطب نہیں ہیں بلکہ اس کا انکار کرنے والے مخاطب ہیں، اور ان کے حق میں اس کا آنا عذاب ہی ہے، اس لیے اس کو قیامت یا آخرت یا روز جزا کہنے کے بجائے " رب کا عذاب " کہا گیا ہے۔ اب غور کیجیے کہ اس کے وقوع پر وہ پانچ چیزیں کس طرح دلالت کرتی ہیں جن کی قسم کھائی گئی ہے۔ [[27]]

طور وہ جگہ ہے جہاں ایک دبی اور پسی ہوئی قوم کو اٹھانے اور ایک غالب و قاہر قوم کو گرانے کا فیصلہ کیا گیا،  مراد یہ ہے کہ بنی اسرائیل جیسی ایک بےبس قوم کا اٹھایا جانا اور فرعون جیسے ایک زبردست فرمانروا کا اپنے لشکروں سمیت غرق کردیا جانا، جس کا فیصلہ ایک سنسان رات میں کوہ طور پر کیا گیا تھا، انسانی تاریخ میں اس امر کی ایک نمایاں ترین مثال ہے کہ سلطنت کائنات کا مزاج کس طرح انسان جیسی ایک ذی عقل و ذی اختیار مخلوق کے معاملہ میں اخلاقی محاسبے اور جزائے اعمال کا تقاضا کرتا ہے، اور اس تقاضے کی تکمیل کے لیے ایک ایسا یوم الحساب ضروری ہے جس میں پوری نوع انسانی کو اکٹھا کر کے اس کا محاسبہ کیا جائے۔کُتُب مُقدَّسہ کے مجموعے کی قسم اس بنا پر کھائی گئی ہے کہ خداوند عالم کی طرف سے دنیا میں جتنے بھی انبیاء آئے اور جو کتابیں بھی وہ لائے، ان سب نے ہر زمانے میں وہی ایک خبر دی ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دے رہے ہیں، یعنی یہ کہ تمام اگلے پچھلے انسانوں کو ایک دن از سر نو زندہ ہو کر اپنے خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کے مطابق جزا اور سزا پانی ہے۔ کوئی کتاب آسمانی کبھی ایسی نہیں آئی ہے جو اس خبر سے خالی ہو، یا جس نے انسان کو یہ اطلاع دی ہو کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے، اور انسان بس مر کر مٹی ہوجانے والا ہے جس کے بعد نہ کوئی حساب ہے نہ کتاب۔بیت المعمور کی قسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ خاص طور پر اہل عرب کے لیے اس زمانے میں خانہ کعبہ کی عمارت ایک ایسی کھلی نشانی تھی جو اللہ کے پیغمبروں کی صداقت پر اور اس حقیقت پر کہ اللہ جل شانہ کی حکمت بالغہ وقدرت قاہر ان کی پشت پر ہے، صریح شہادت دے رہی تھی۔[[28]]

اس آیت میں اللہ پاک کافروں سے بطور استہزاء کے سوال فرمائیں گے کی تم نبی کریم کو جھوٹا اور جادوگر کہتے تھے کیا آج یہ تمہیں عذاب کا دیا جانا بھی جادو ہے بلکہ حقیقت ہے یہ تمہارے مونہوں کی باتیں تھیں۔ اس کے علاوہ اس آیت میں اونچی چھت (آسمان) اور موجزن سمندر کی قسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ یہ دونوں چیزیں اللہ کی حکمت اور اس کی قدرت پر دلالت کرتی ہیں اور اسی حکمت وقدرت سے آخرت کا امکان بھی ثابت ہوتا ہے اور اس کا وقوع و وجوب بھی۔لہذا جو شخص بھی ان میں غور کرے گا اس کا دل یہ گواہی دے گا کہ زمین پر پانی کے اتنے بڑے ذخیرے کا فراہم ہوجانا ایک ایسی کاریگری ہے جو کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔ پھر اس کے ساتھ اتنی بیشمار حکمتیں وابستہ ہیں کہ اتفاقاً ایسا حکیمانہ نظام اتفاقاً قائم ہوجانا ممکن نہیں ہے۔جس قادر مطلق نے اس عظیم الشان سمندر کی تخلیق کی ہے، جس نے طرح طرح کی ان گنت مخلوقات اس میں پیدا کی ہیں اور ان سب کی رزق رسانی کا انتظام اسی کے اندر کردیا ہے وہ انسان کا ایک دفعہ پیدا کردینے کے بعد پھر سے پیدا کرنا چاہے تو آسانی سے کر سکتا ہے۔

(۱۱)سورہ القیامہ میں اللہ پاک فرماتے ہیں:

"اَيَحسَبُ الاِنسَانُ اَلَّن نَّجمَعَ عِظَامَهٗ‏ " [[29]]

"کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اُس کی ہڈیوں کو جمع نہ کر سکیں گے؟ "۔

مولانا مودودی اس آیت کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:

''اوپر کی دو دلیلیں، جو قسم کی صورت میں بیان کی گئی ہیں، صرف دو باتیں ثابت کرتی ہیں۔ ایک یہ کہ دنیا کا خاتمہ (یعنی قیامت کا پہلا مرحلہ) ایک یقینی امر ہے۔ دوسرے یہ کہ موت کے بعد دوسری زندگی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر انسان کے ایک اخلاقی وجود ہونے کے منطقی اور فطری تقاضے پورے نہیں ہو سکتے، اور یہ امر ضرور واقع ہونے والا ہے کیونکہ انسان کے اندر ضمیر کی موجودگی اس پر گواہی دے رہی ہے۔ اب یہ تیسری دلیل یہ ثابت کرنے کے لیے پیش کی گئی ہے کہ زندگی کے بعد موت ممکن ہے۔ مکہ میں جو لوگ اس کا انکار کرتے تھے وہ بار بار یہ کہتے تھے کہ آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں کو مرے ہوئے سینکڑوں ہزاروں برس گزر چکے ہوں، جن کے جسم کا ذرہ ذرہ خاک میں مل کر پراگندہ ہوچکا ہو، جن کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہو کر نہ معلوم زمین میں کہاں کہاں منتشر ہوچکی ہوں جن میں سے کوئی جل مرا ہو، کوئی درندوں کے پیٹ میں جا چکا ہو، کوئی سمندر میں غرق ہو کر مچھلیوں کی غذا بن چکا ہو، ان سب کے اجزائے جسم پھر سے جمع ہوجائیں اور ہر انسان پھر وہی شخص بن کر اٹھ کھڑا ہو جو دس بیس ہزار برس پہلے بھی وہ تھا ؟ اس کا نہایت معقول اور انتہائی پر زور جواب اللہ تعالیٰ نے اس مختصر سے سوال کی شکل میں دے دیا ہے " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو کبھی جمع نہ کرسکیں گے ؟ " یعنی اگر تم سے یہ کہا گیا ہوتا کہ تمہارے یہ منتشر اجزائے جسم کسی وقت آپ سے آپ جمع ہوجائیں گے اور تم آپ سے آپ اسی جسم کے ساتھ اٹھو گے، تو بلاشبہ تمہارا اس کو ناممکن سمجھنا بجا ہوتا۔ مگر تم سے تو کہا یہ گیا ہے کہ یہ کام خود نہیں ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ ایسا کرے گا۔ اب کیا تم واقعی یہ سمجھ رہے ہو کہ کائنات کا خالق، جسے تم خود بھی خالق مانتے ہو، اس کام سے عاجز ہے ؟ یہ ایسا سوال تھا جس کے جواب میں کوئی شخص جو خدا کو خالق کائنات مانتا ہو، نہ اس وقت یہ کہہ سکتا تھا اور نہ آج یہ کہہ سکتا ہے کہ خدا بھی یہ کام کرنا چاہے تو نہیں سکتا۔ اور اگر کوئی بیوقوف ایسی بات کہے تو اس سے پوچھا جاسکتا ہے کہ تم جس جسم میں اس وقت موجود ہو اس کے بیشمار اجزاء کو ہوا اور پانی اور مٹی اور نہ معلوم کہاں کہاں سے جمع کر کے اسی خدا نے کیسے یہ جسم بنادیا جس کے متعلق تم یہ کہہ رہے ہو کہ وہ پھر ان اجزا کو جمع نہیں کرسکتا ؟" [[30]]

اس آیت میں اللہ پاک اپنی قدرت کاملہ کے اثبات کے لئے سوال فرما رہے ہیں کہ ہمارے لئے تمہاری ہڈیوں کا جمع کرنا اور ان پر جلد چڑھانا بالکل بھی مشکل نہیں ہے کیونکہ خالق انہیں پہلی بار تخلیق کرنے پر قادر ہے ، پھر تمہیں زندگی دیتا ہے اور زندگی مکمل کرنے کے بعد اسی کی طرف لوٹنا ہے تو وہ انسانوں کو دوبارہ زندہ کرکے ان سے ان کے اعمال کا جواب ضرور طلب کرے گا، وہ اس سارے نظام پر قادر ہے۔

(۱۲)سورہ النازعات میں ارشادِ خداوندی ہے:

"ءَاَنتُم اَشَدُّ خَلقًا اَمِ السَّمَآءُ‌ بَنٰهَا "[[31]]

'اور کیا تم لوگوں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی؟ اللہ نے اُس کو بنایا۔"۔

مولانا مودودی اس آیت کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:

''اب قیامت اور حیات بعد الموت کے ممکن اور مقضائے حکمت ہونے کے دلائل بیان کیے جا رہے ہیں۔تخلیق سے مراد انسانوں کی دوبارہ تخلیق ہے اور آسمان سے مراد وہ پورا عالم بالا ہے جس میں بیشمار ستارے اور سیارے، بےحد و حساب شمسی نظام اور ان گنت کہکشاں پائے جاتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم جو موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کو کوئی بڑی ہی امر محال سمجھتے ہو، اور بار بار کہتے ہو کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہماری ہڈیاں تک بوسیدہ ہوچکی ہوں گی اس حالت میں ہمارے پراگندہ اجزائے جسم پھر سے جمع کردیے جائیں اور ان میں جان ڈال دی جائے، کبھی اس بات پر بھی غور کرتے ہو کہ اس عظیم کائنات کا بنانا زیادہ سخت مشکل کام ہے یا تمہیں ایک مرتبہ پیدا کر چکنے کے بعد دوبارہ اسی شکل میں پیدا کردینا ؟ جس خدا کے لیے وہ کوئی مشکل کام نہ تھا اس کے لیے (آخر یہ کیوں ایسا مشکل کام ہے کہ وہ اس پر قادر نہ ہو سکے ؟ حیات بعد الموت پر یہی دلیل قرآن مجید میں متعدد مقامات پر دی گئی ہے''۔[][32] مثلاً سورة یسین میں ہے :

اَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ۰ۭ۬ بَلٰى۰۰وَہُوَالْخَلّٰقُ الْعَلِـيْمُ۔[[33]]

" اور کیا وہ جس نے آسمان اور زمین کو بنایا اس پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں کو (پھر سے) پیدا کر دے ؟ کیوں نہیں، وہ تو بڑا زبردست خالق ہے، تخلیق کے کام کو خوب جانتا ہے " ۔

 اس آیت میں اللہ تبارک و تعالی انسان کو تجسس دلانے کے لئے سوال فرما رہے ہیں کہ اے لوگو !ہم نے آسمان کو بنایا اور تمہیں بنایا اب دیکھو تمہیں بنانا مشکل کام ہے یا آسمان کو بنانا ؟تم آسمان کی طرف دیکھو کہ بغیر ستون کے اسے بنایا گیا ہے اور کسی قسم کا بھی کوئی شگاف نہیں پایا جاتا اس کو اللہ کی ذات تھامے ہوئے ہے انسان لاکھ کوشش کرے وہ بغیر سہارے کے چھت بنا ہی نہیں سکتا اگر دنیا کے تمام لوگوں کو ساتھ بھی ملا لے پھر بھی ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔

(۱۳) سورہ الغاشیة میں اللہ فرماتے ہیں:

"هَل اَتٰكَ حَدِيثُ الغَاشِيَةِ"[[34]]

"کیا تمہیں اُس چھا جانے والی آفت کی خبر پہنچی ہے؟"

مولانا مودودی اس آیت کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:

''مراد ہے قیامت، یعنی وہ آفت جو سارے جہاں پر چھا جائے گی۔ اس مقام پر یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ یہاں بحیثیت مجموعی پورے عالم آخرت کا ذکر ہو رہا ہے جو نظام عالم کے درہم برہم ہونے سے شروع ہو کر تمام انسانوں کے دوبارہ اٹھنے اور اللہ تعالیٰ کی عدالت سے جزا و سزا پانے تک تمام مراحل پر حاوی ہے۔یعنی اگر یہ لوگ آخرت کی یہ باتیں سن کر کہتے ہیں کہ آخر یہ سب کچھ کیسے ہوسکتا ہے تو کیا خود اپنے گرد و پیش کی دنیا میں نظر ڈال کر انہوں نے کبھی نہ سوچا کہ یہ اونٹ کیسے بن گئے ؟ آسمان کیسے بلند ہوگیا ؟ یہ پہاڑ کیسے قائم ہوگئے ؟ یہ زمین کیسے بچھ گئی ؟ یہ ساری چیزیں اگر بن سکتیں تھیں اور بنی ہوئی ان کے سامنے موجود ہیں تو قیامت کیوں نہیں آسکتی ؟ آخرت میں ایک دوسری دنیا کیوں نہیں بن سکتی ؟ دوزخ اور جنت کیوں نہیں ہو سکتیں ؟ اگر عقل ہے تو اسے سوچنا چاہیے کہ جو کچھ موجود ہے یہ آخر کیسے و جود میں آ گیا ؟ یہ اونٹ ٹھیک ان خصوصیات کے مطابق کیسے بن گئے جن خصوصیات کے جانور عرب کے صحراء میں رہنے والے انسانوں کو ضرورت تھی ؟ یہ آسمان کیسے بن گیا جس کی فضا میں سانس لینے کے لیے ہوا بھری ہوئی ہے، جس کے بادل بارش لے کر آتے ہیں، جس کا سورج دن کو روشنی اور گرمی فراہم کرتا ہے، جس کے چاند اور تارے رات کو چمکتے ہیں ؟ یہ زمین کیسے بچھ گئی جس پر انسان رہتا اور بستا ہے، جس کی پیداوار سے اس کی تمام ضروریات پوری ہوتی ہیں، جس کے چشموں اور کنوؤں پر اس کی زندگی کا انحصار ہے ؟ یہ پہاڑ زمین کی سطح پر کیسے ابھر آئے جو رنگ برنگ کی مٹی اور پتھر اور طرح طرح کی معدنیات لیے ہوئے جمے کھڑے ہیں ؟ کیا یہ سب کچھ کسی قادر مطلق صانع حکیم کی کاریگری کے بغیر ہوگیا ہے ؟ کوئی سوچنے اور سمجھنے والا دماغ اس سوال کا جواب نفی میں نہیں دے سکتا۔ وہ اگر ضدی اور ہٹ دھرم نہیں ہے تو اسے ماننا پڑے گا کہ ان میں سے ہر چیز ناممکن تھی اگر کسی زبردست قدرت اور حکمت والے نے اسے ممکن نہ بنایا ہوتا۔ اور جب ایک قا در کی قدرت سے دنیا کی ان چیزوں کا بننا ممکن ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ جن چیزوں کے آئندہ وجود میں آنے کی خبر دی جا رہی ہے ان کو بعید از مکان سمجھا جائے۔"[[35]]

اس آیت میں اللہ تعالیٰ باطل کے رد کے لئے سوال فرما رہے ہیں کہ جو قیامت( ڈھانپنے والی) کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ ضرور آکر رہے گی تم چاہے جتنا بھی انکار کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے اندر عالمِ آخرت کو بیان کرتے ہوئے اس کےاثبات کے دلائل بیان کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ آخرت کے منکر ہیں وہ اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر ڈالیں تو انہیں ایسی نشانیاں ضرور نظر آئیں گی جو وقوع آخرت کو ثابت کرتی ہیں۔ دنیا کی تمام چیزیں اللہ کی کاریگری کا نتیجہ ہیں کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ اتنی بڑی کائنات اور اس کا مربوط و منظم انتظام کسی اتفاقی امر کا نتیجہ ہو بلکہ اس نظام کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور وہی اس نظام کو چلا رہا ہے۔ لہذا جو ذات اس نظام کو پیدا کرنے اور منظم انداز سے چلانے پر قادر ہے کیا وہ اس نظام کو ختم کرنے پر قادر نہیں؟ کیا وہ اس نظام کی جگہ کوئی دوسرا نظام لانے پر قادر نہیں ہے؟ یقینا اگر اہل عقل اس بات میں غور و فکر کریں تو انہیں قیامت کے قیام کے دلائل ضرور نظر آئیں گے۔



[[1]]         لاہوری،حافظ عمران ایوب، آخرت کی کتاب، فقہ الحدیث پبلیکیشنز ، لاہور، اپریل۲۰۱۱،ص۲۳۔

[[2]]          رشیدی،محمد ضمیر،دنیا فانی آخرت باقی، ماہنامہ دارالعلوم، جولائی ۲۰۱۴،شمارہ:۷،ج:۹۸،ص۲۵۔

[[3]]         القرآن ، ۱۳: ۵

[[4]]          مودودی، تفہیم القرآن، ۳/۴۴۶

[[5]]         القرآن ، ۲۹: ۱۹

[[6]]         ایضاً، ۲۰

[[7]]         مودودی، تفہیم القران، ۳/۶۸۸،۶۸۹

[[8]]         القرآن ، ۳۰: ۸

[[9]]         مودودی، تفہیم القران، ۳/۷۳۳

[[10]]       مودودی، تفہیم القران، ۳/۷۳۴

[[11]]       القرآن، ۳۰: ۹۔

[[12]]       مودودی، تفہیم القرآن، ۳/۷۳۵

[[13]]       ایضاً۔

[[14]]       مودودی، تفہیم القرآن، ۳/۷۳۵

[[15]]       القرآن ، ۳۲ : ۲۲

[[16]]       مودودی، تفہیم القرآن،۵/۴۸

[[17]]       القرآن ، ۳۲: ۲۶

[[18]]       ایضاً : ۲۸

[[19]]       مودودی، تفہیم القران، ۴/۵۰,۵۱

[[20]]       القرآن ، ۳۵: ۳۷

[[21]]       مودودی، تفہیم القران، ۴/۹۰

[[22]]       القرآن ، ۳۹ : ۱۹

[[23]]       مودودی، تفہیم القرآن، ۵/ ۱۰۲۔

[[24]]       القرآن ، ۵۰ : ۱۵

[[25]]       مودودی، تفہیم القرآن،۵/۱۱۴

[[26]]       القرآن ، ۵۲ : ۱۵

[[27]]       مودودی، تفہیم القرآن،۵/۱۶۵۔

[[28]]       مودودی، تفہیم القرآن، ۵/۱۶۵،۱۶۶

[[29]]       القرآن ، ۷۵ : ۳

[[30]]       مودودی، تفہیم القران، ۶/۱۷۴

[[31]]       القرآن ، ۷۹ : ۲۷

[[32]]       مودودی، تفہیم القرآن،۶/۱۸۵۔

[[33]]       القرآن ، ۳۶: ۸۱۔

[[34]]       القرآن ، ۸۸ :۱۔

[[35]]       مودودی، تفہیم القرآن،۶/۱۹۰۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...