Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

اساتذہ
ARI Id

1695203136242_56118307

Access

Open/Free Access

Pages

144

اساتذہ

 مفتی اعظم ہند، مفتی عزیز الرحمن عثمانی،غلام بشیر احمد عثمانی اور مولانا اعزاز علیؒ شامل ہیں اور دورہ حدیث میں آپکے اساتذہ انور شاہ کشمیری غلام رسول ہزاروی تھے اور مولانا اشرف علی تھانویؒ سے بھی حدیث کی تعلیم حاصل کی۔

فتوی کی ذمہ داریاں

افتاء کا منصب علمی سلسلوں میں سب سے مشکل سمجھا جاتا ہے فقہ کے لاکھوں ملتے جلتے مسائل کا تھوڑے تھوڑے فرق سے حکم بدل جاتا ہے۔ بہت سے احکام اور حالات کے تغیر سے بھی بدلتے ہیں دار العلوم دیو بند میں تدریس کا جب آغاز کیا تو اس وقت دارالعلوم کے صدر مفتی حضرت مولانا عزیز الرحمن عثمانی ؒ تھے ۱۳۴۴ھ میں مفتی اعظم ہند جب دارالعلوم سے مستعفی ہوگئے تو مفتی شفیع ؒکو منصب افتاء کی پیش کش ہوئی جو انہوں نے مولانا اشرف علی تھانویؒ کے مشورے سے قبول کرلی۔اور ۱۳۵۰ھ کو دارالعلوم دیو بند کی مجلس شوریٰ نے آپ کو منصب افتاء پر بحیثیت صدر مفتی فائز کردیا۔

فتوی سے تدریس کی طرف منتقلی

 بزرگوں کے حکم پر فتوی کی ذمہ داری کو قبول تو فرمالیا مگر بعد میں تدریس میں واپس چلے جانے کی اجازت چاہی لیکن اجازت نہ ملی آپ کے دوبارہ اصرار پر ۱۳۵۴ھ میں دارالعلوم کی مجلس شوری نے یہ مشکل فیصلہ بھی کردیا کہ فتویٰ سے تدریس کی طرف منتقل کردیا جائے۔

سیاسیات میں فکری و عملی حصہ

طبعاً ہنگاموں اور جلوسوں سے الگ رہنا پسند کرتے تھے لیکن جب بھی دین اسلام اور مسلمانوں کی کسی اہم دینی ضرورت نے سیاست میں حصہ لینے کا تقاضا کیا تو آپ اس میں شریک ہوئے۔

 پہلی جنگ عظیم کے اواخر میں جب مجاہدین بلقاں ہر طرف سے کفر و الحاد کے نرغہ میں تھے تو آپ نے چند ہ کی مہم چلائی۔[[1]]

تحریک پاکستان کی خاطر دارالعلوم دیو بند سے استعفاء

 دارالعلوم میں رہتے ہوئے اس اختلاف کا مسلسل اظہار نظم دارالعلوم کیلیے مناسب نہ تھا۔ اس لیے مولانا اشرف علی تھانوی کے مشورے سے دارالعلوم سے علیحدگی اختیار کرلی۔ دارالعلوم سے استعفاء کے بعد آپ نے پوری طرح کھل کر اس موضوع پر لکھنا شروع کیا۔ اور کچھ روز بعد قیام پاکستان کی جدوجہد ہی شب و روز کا مشغلہ بن گئی۔

بورڈ آف تعلیمات اسلام کی رکنیت

۱۹۴۹ء میں دستور ساز اسمبلی نے آئین سازی کا کام باقاعدہ طور پر شروع کیا تو قائد ملت لیاقت علی خان مرحوم نے ایک ”اسلامی مشاورتی بورڈ“ بنایا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اسلامی دستور کا خاکہ تیار کر کے پیش کرے اور پھر اس کی روشنی میں دستور ساز اسمبلی پاکستان کا آئین تیار کرے۔

”یہ بورڈ ۹ اگست ۱۹۴۹ء ہے اپریل ۱۹۵۴ء تک تقریبا ساڑھے چار سال قائم رہا اور مفتی شفیع ؒشروع سے آخر تک اس کے ممتاز رکن رہے۔“[[2]]

درس قرآن حکیم

۱۳۷۰ھ (۱۹۵۰ء) میں مسجد باب الاسلام میں تمام فہم درس قرآن کریم کا سلسلہ شروع کیا جو روزانہ بعد نماز فجر ایک گھنٹہ کے عمل سے سات سال میں پورا ہوا۔

سرکاری دارالعلوم کمیٹی کی رکنیت

حکومت پاکستان نے قائد اعظم مرحوم کی تین یادگاریں قائم کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔(۱) ان کا مزار(۲) ایک جامع مسجد، (۳) ایک دینی دارالعلوم۔ دارالعلوم قائم کرنے کے لیے جو کمیٹی سردار اعبد الرب نشتر کی قیادت میں بنی تھی اس کے رکن رہے۔

ریڈیو سے درس معارف القرآن

۱۹۵۴ء میں ریڈیو پاکستان کے ایک ہفتہ واری درس بنام معارف القرآن جاری کرنے کی تجویز پیش کی جس کو مفتی شفیع نے ایک شرط کے ساتھ قبول فرمالیا۔

خدمت فتویٰ

۳۵سال کی عمر سے فتوی کی عظیم ذمہ داری جزو زندگی بنی رہی اور آخری دور میں یہ زیادہ ہمہ گیر رہی دنیا بھر کے ممالک سے فقہی سوالات کا تانتا بندھارہتا تھا۔

تعداد فتویٰ

دارالعلوم دیو بند کے دارالافتاء سے آپ کے زمانہ میں چھتیس ہزار بیاسی فتاوی جاری ہوئے اس کے بعد دارالعلوم کراچی کے قیام تک ہزاروں فتاوٰی تحریر فرمائے جن کی نقل محفوظ نہ کی جاسکی صرف ۴۰۱ منتخب فتاوٰی آپ نے خود نقل فرمائے تھے۔جواب امداد المفتین کا جز بنادیے گئے ہیں دارالعلوم کراچی میں ۱۸ شعبان ۱۳۷۰ھ ہے آپ کی وفات تک کل ۷۵،۹۰۴ فتاوی کی نقل محفوظ کی گئی جو مفتی شفیع ہی کے تحریر کردہ ہیں اور وہ فتاوی ان کے علاوہ ہیں جن پر آپ کے تصدیقی دستخط ہیں اور آپ کے زبانی فتاوی کی تعداد تحریری فتاوی سے کئی گناہ زیادہ ہے۔

تربیت افتاء

۱۳۷۹ھ میں مفتی شفیع نے دارالعلوم میں فتوی نویسی کی باقاعدہ تربیت دینے کا بھی ایک شعبہ قائم کیا ”تخصیص فی الافتاء“ کے نام سے جواب بھی قائم ہے اور اس میں تربیت کا سب کام خود ہی سرانجام دیتے۔

تصانیف

مفتی شفیع ؒ کی تصانیف اردو اور عربی دونوں زبانوں میں ہیں اور ان کی کل تعداد ایک سو باسٹھ ۱۶۲ اور صرف فقہی موضوعات پر (۹۵) پچانوے تصانیف ہیں دیگر تصانیف یہ ہیں۔

تفسیر

۱۔            تفسیر معارف القرآن کامل:یہ تفسیر آٹھ جلدوں میں ہے اور ۵۷۱۷ صفحات پرمشتمل ہے۔

۲۔           احکام القرآن۔(عربی) دوجلدوں میں از سورۃ شعراء تا سورۃ حجرات یہ۵۳۸ صفحات پر مشتمل ہے۔



[[1]]       عثمانی، مفتی رفیع ،حیات مفتی اعظم،ص ۱۴۰۔

[[2]]       عثمانی، مفتی رفیع ،حیات مفتی اعظم،ص ۳۷۱۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...