Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

تفسیر معارف القرآن کا تعارف و منہج
ARI Id

1695203136242_56118308

Access

Open/Free Access

Pages

147

 ”تفسیر معارف القرآن جو کہ اردو میں ہے۔مفتی شفیع نے اس کا نام”خلاصہ تفسیر بھی نقل کیا ہے۔یعنی اس تفسیر میں جہاں اصطلاحی اور مشکل الفاظ آئے ہیں ان کو آسان لفظوں میں تبدیل کردیا ہے۔

 اور اگر کوئی مضمون مشکل تھا۔تو اس کو بھی یہاں سے الگ کر کے معارف ومسائل میں آسان لفظوں میں بیان کردیا ہے۔تاکہ اگر کوئی آدمی زیادہ دیکھ نہ سکے تو اس خلاصہ تفسیر سے کم از کم قرآن کا مفہوم سمجھ سکے۔ اس کے علاوہ معارف و مسائل پر اگر غور کیا جائے تو عبارت صرف ان کی اپنی ہے۔ لیکن مضامین سارے علماء سلف کی کسی تفسیر سے لیے گیے ہیں۔

جس کے حوالے ساتھ ہر جگہ لکھ دئیے ہیں،علماء کے لیے تفسیر قرآن میں سب سے پہلا اور اہم کام لغات کی تحقیق نحوی ترکیب، فن بلاغت کے نکات اور قرات کے اختلاف پر بحثیں ہیں جو ہر اہل علم کے لیے قرآن کو سمجھنے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے زریعے قرآن کے صحیح مفہوم کو سمجھاجاسکتا ہے۔ لیکن عوام کے علاوہ بہت سے اہل علم بھی ان تفصیلات میں الجھے ہوتے ہیں۔حالانکہ قرآن کا اہم مقصد صرف رب رحیم کے ساتھ مضبوط تعلق ہے۔ اور اس کے نتیجے میں مادی تعلقات اعتدال پر آجائیں اور دنیا سے زیادہ آخرت کی فکر پیدا ہو۔

تفسیر”معارف القرآن“میں عوام کی سہولت کے پیش نظر ان بحثوں کی تفصیل نہیں لکھی گئی ہے۔ بلکہ آئمہ تفسیر کے اقوال سے جو جمہور کے نزدیک راجح ہے۔اس کے مطابق تفسیر لی ہے اور اس میں ایسے مباحث علمیہ کو بھی چھوڑ دیا گیا ہے۔جو عوام کے لیے غیر ضروری ہے۔ اور دوسری مستند و معتبر تفاسیر سے بہت سے ایسے مضامین کو بھی نقل کیا ہے۔جو انسان کے دل میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کی محبت اور قرآن کی عظمت کو بڑھائیں اور نیک اعمال کی طرف راغب کریں۔ اس پر توہر مومن کا ایمان ہے کہ قرآن کریم قیامت تک آنے والی نسلوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے۔ اور روز اول تا قیامت تمام مسائل کاحل اس میں موجود ہے۔بشرطیکہ قرآن کو نبی ؐ کے بیان کردہ تشریح کی روشنی میں دیکھا اور پڑھا جائے۔ اسی وجہ سے ہر زمانے کے مفسرین نے اپنی تفسیروں میں ان مسائل پر زور دیا جو ان کے زمانے میں پیدا ہوئے مفتی شفیع ؒنے بھی اسی اصول کے تحت ایسے ہی مسائل کو اور بحثوں کو اہمیت دی ہے۔جو یاتو زمانے کے پیدا کردہ ہیں یا پھر اس زمانے کے ملحدین یہود اور نصارٰی مشرکین نے مسلمان کے دلوں میں وسوسہ ڈالنے کے لیے کھڑے کردیے۔اور جدید مسائل کے حل کے لیے یہ بھی کوشش بھی کی کہ قرآن و سنت یا فقہا کے اقوال سے ان کے متعلق کوئی ثبوت ملے یا کوئی مثال ملے تو اس سے استفادہ کیا ہے۔اور دوسرے علمائے عصر سے ان مسائل میں مشاورت کا بھی التزام کیا ہے۔ اس میں قرآن مجید کے دومستند ترجموں ایک شیخ الہند کا  اور دوسرا حکیم الامت تھانوی ؒ کا ہے اس سے استفادہ کیا گیا ہے۔

یہ تفسیر قرآن کا خلاصہ ہےجو کم وقت میں قرآن کو سمجھنے کا مستند ذریعہ ہے۔ مفتی شفیع کے بقول اس تفسیر میں تمام باتیں سلف صالحین اور اسلاف امت سے لی گئی مفتی شفیع کی ذاتی رائے شامل نہیں ہے۔

خصوصیات تفسیر معارف القرآن

تفسیر معارف القرآن کا منحج و اسلوب اور مضامین فقہی تفسیر:

تفسیر معارف القرآن برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے خاص طور پر اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے بالعموم کن علمی اور قانونی ضروریات کا احاطہ کرتی ہے ؟ یہ تفسیر اس خطہ میں اردو زبان میں فقہی تفاسیر کی جدید اور طویل ترین کاوش ہے ۔اس تفسیر میں مشہور فقہی مذاہب کے اقوال جمع کیے گئے ہیں اور پرانے فقہی مذاہب کے ائمہ کرام جیسے ابو العالیہ ،لیث ،ثوری ابن شبرمہ، ابن ابی لیلیٰ، اوزاعی اور عثمان الیثی کے قول جمع کیے گئے ہیں۔

فقہی مذہب کے اقوال

اس تفسیر لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی جس کا ذکر عبدالفتاح ابو غدہ نے کیا ہے وہ یہ ہےکہ آپ کے زمانہ میں برصغیر پاک وہند میں حنفی اور سلفی مسلک کے علماء کرام کی مسلکی کشمکش حد سے بڑھ گئی تھی ان کے درمیان مناقشوں، مناظروں اور مجادلوں کا سلسلہ عروج پر تھا۔ علماء اہل حدیث سے نالاں تھے مولانا اشرف علی تھانویؒ کے زیر نگرانی حنفی کے دلائل کی جمع ، ترتیب و تبویب اور تشریح کا کام مولانا ظفر احمد عثمانی کے ہاتھوں پائے تکمیل کو پہنچا۔ مولانا ظفر عثمانی نے اپنے سرپرست اوراستاد کی ترجمانی ان الفاظ میں کی ہے کہ اس سے حضرت شاہ ولی اللہ کی وہ بات پوری ہوتی ہے جس کا انہوں نے فیوض الحرمین میں کبریت احمرو اکسیر اعظم بتلایا ہے [[1]]۔حضرت شاہ ولی اللہ کہتے ہیں کہ مجھے حضورکریمﷺ نے بتلایا کہ مذہب حنفی میں ایک طریقہ بڑا عمدہ ہے جو اس طریق سنت کے بہت زیادہ قریب ہے جو بخاری اور ان اصحاب کے دور میں موجود بھی ہے ۔ وہاں کے ائمہ ثلاثہ: ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اقوال میں سے اس قول کو اختیار کیا جو اس مسئلے میں سب سے زیادہ حدیث کے قریب ہو۔ مولانا حضرت اشرف علی تھانوی کے عنوانات و موضوعات کا انتخاب اور صحیح اسلوب کا متعین کرنے ، ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ، جمیل احمد تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ، مفتی شفیع رحمۃ اللہ علیہ اور مقدمہ خیر محمد جالندھری رحمۃ اللہ علیہ کے ذمے لگایا۔[[2]]

تصوف کے مسائل

اس تفسیر میں اسلامی تصوف کے مسائل کا مطالعہ کیا گیا ہے یہ ایک بہت اچھی کاوش ہے جو اس سے پہلے اس طرح کی تفسیر میں ظہور پذیر نہیں ہوئی تمام اہل روایت کا یہ خیال تھا کہ فن سلوک اور اس کے مسائل نصوص سے ثابت نہیں اور یہ اعتراض صدیوں سے قائم تھا۔ مفسرین نے اس طرف توجہ کی اور اس میں متفرق طور پر کچھ کام کیا لیکن اس کام کی حیثیت کسی فن کی نہیں اور اس میں عام طور پر ضعیف دلائل سے کام لیا گیا ہے ۔

سماجی ، ثقافتی، معاشرتی نظریات کی عکاسی احکام القرآن ، نئے دور کی وہ تفسیر ہے جس میں اس دور کے مذہبی،فکری، سماجی ، ثقافتی اور معاشرتی آراء و نظریات اور مدارس کا ریکارڈ بھی موجود ہے ۔

تحقیق بجائے تقلید

یہ اس تفسیر میں احناف کے اصول و فروع کے بھی استناد کا بیان تھا اس لیے اس کتاب میں عموماً اصول و فروع میں مسلک حنفی کی ترجمانی کی گئی ہے لیکن اختلافی مسائل میں تقابلی جائزہ لیا گیا اور تحقیق پر مبنی دلیل اور رائے کو اختیار کیا گیا ہے۔ اورتفسیر معارف القرآن میں بیان شدہ بیشتر مسائل میں تقلید کی بجائے تحقیق نظر آتی ہے ۔

تفسیر معارف القرآن میں لاپتہ شوہر ،ظالم ،مفلس اور مخصوص بیماریوں میں مبتلا خاوند کے بارے میں مالکیہ کے اقوال پر فتوی دیا گیا ہے ۔

اس تفسیر میں علماء کرام اپنے امام کے اقوال جو کہ نصوص کے خلاف ہوں ترک کر دیتے ہیں۔ اور ان کی جگہ دیگر اصحاب حنفیہ کے اقوال کو اختیار کرتے ہیں جن ائمہ کےاقوال کی دلیل ان کو مضبوط لگے ان ائمہ کرام کے اقوال پر بھی فتوی دے دیتے ہیں۔ اس تفسیر کی اہم بات یہ ہے کہ تعصب کی بنیاد پر کسی مذہب والے کے قول پر اڑے نہیں رہتے تفسیر معارف القرآن میں اس طرح کی وسعت پسندی کا یہ رجحان جا بجا نظر آتا ہے۔

تفسیر معارف القرآن اور علوم الحدیث

علوم حدیث

فقہ حنفی پر ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ حدیث کے معاملہ میں انصاف سے کام نہیں لیتے لیکن بات یہ ہےکہ خبر واحد کو صحیح اور ضعیف قرار دینے میں جو اختلاف محدثین کا ہے اس طرح فقہ حنفی میں کچھ مقامات پر محدثین سے فروعی اختلاف ہے مثال کے طور پر فقہ حنفی کے نزدیک خبر واحد کی قیمت کے لیے یہ بھی ضروری شرط ہے کہ وہ اصول مشہورہ کے خلاف نہ ہو۔[[3]]

یہ اصل قیاس نہیں بلکہ قرآن کی نصوص اور احادیث مشہورہ سے ماخوذ ہے۔ اور امت کے نزدیک مسلمہ ہے اس اصول کی وجہ سے حنفیہ بعض مرتبہ ضعیف حدیث کو صحیح پر مقدم کرتے ہیں۔

تفسیر معارف القرآن میں حدیث مرسل کو کام میں لا کر احکام استنباط کیا گیا ہے فقہ حنفی کے نزدیک حدیث کی تقسیم ثلاثی ہے جب کہ محدثین کے مطابق ثنائی ہے اس وجہ سے تفسیر معارف القرآن میں خبر مشہور اور الخبر المتلقی بالقبول (ایسی حدیث جس کو امت میں درجہ شہرت اور قبولیت حاصل ہو جائے) کی بنیاد پر مسائل کا استنباط کیا گیا ہے ۔  فقہاء احناف کا کسی بھی حدیث سے استدلال اس حدیث کے حجت پر دلالت کرتا ہے اگر ان کا کوئی قول بخاری یا مسلم کی حدیث سے متعارض ہوتواس کے رد کرنے کی دلیل نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں کتابیں یا تمام صحاح ستہ کی تمام صحیح احادیث کا احاطہ نہیں کرتیں بلکہ احادیث ان صحاح ستہ کے علاوہ دیگر احادیث کی کتب میں بھی ملتی ہیں۔



[[1]]         سید سلمان ندوی، حکیم الامت کے آثار علمی مشمولہ مجلہ الحسن ،اشاعت خاص اکتوبر دسمبر1987 ،1 /123۔

[[2]]         وکیل احمد شیرانوی ،اشرف المقالات ، لاہور مجلس صیانۃ المسلمین1416ھ -1995م 2/178-179۔

[[3]]         عبد الشکور ترمذی، احکام القرآن 3/299۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...