Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

فصل پنجم: آیاتِ استفہام میں فہمِ آخرت
ARI Id

1695203136242_56118312

Access

Open/Free Access

Pages

190

دین کی اصل توحید ہے قرآن کے مطلوب انسان کی زندگی ایک اللہ کی وفادار ہوتی ہے اس کا ہر سجدہ ،ہر امید، ہر اندیشہ، ہر محبت، ہر خوف، ہر دعا ،ہر عبادت صرف اور صرف اللہ کے لئے ہوتی ہے وہ اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا اللہ کے سوا کوئی رب نہیں ہے وہ واحد و یکتا ہے وہی معبود برحق ہے ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:

" اِنَّ اِلٰهَكُم لَوَاحِدٌ "۔[[1]]

"بیشک الہ تم سب کا ایک ہے"۔

قرآن میں بہت سے مقامات پر ہمیں توحید کا بیان ملتا ہے۔اس آیت میں الہ کی بنیادی نوعیت یہ ہے کہ معبود حقیقی سب کا ایک ہی ہے۔ اس میں تعدد کا احتمال نہیں ہے یہ خدائی اور معبودی ہے نہ اس کے سوا کسی کو معبود بنا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی اور سے خیر کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ توحید ہی سب سے پہلی اور سب سے بڑی چیز ہے جو ملت ابراہیم علیہ السلام کی وراثت کی حیثیت سے اس امت مسلمہ کی طرف منتقل ہوئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں یکتاو یگانہ ہے کوئی اس کی برابری کرنے والا نہیں ہے کوئی اسکا ہمسر مسلمان ہونے کے لیے ان تمام عقائد پر ایمان لانا ضروری ہے جن کو ہمیں قرآن میں حکم دیا گیا ہے۔

 ارکان"رکن" کی جمع ہے اور رکن کسی بھی چیز کا اہم جز ہوتا ہے جس کے بغیر وہ مکمل نہیں ہوسکتی ایمان کے چھ ارکان ہیں لہذا اگر ایمان کا ایک رکن بھی ساقط ہو جائے تو انسان مومن نہیں رہتا خواہ وہ لاکھ ایمان کے دعوے کرتا رہے جیسے عمارت اپنے ستونوں پر ہی قائم رہ سکتی ہے اسی طرح ایمان بھی اپنے تمام ارکان مثلاً اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان ،آسمانی کتابوں پر ایمان، انبیاء کرام پر ایمان، آخرت کے دن پر ایمان اور اچھی ،بری تقدیر پر ایمان کے ذریعے سے ہی مکمل ہو سکتا ہے ۔

معاشرے اور افراد کو صحیح راستے پر چلانے اور راہ راست پر قائم رکھنے کے لئے عقائد کی ضروت پیش آتی ہے دین اسلام میں ایمان کی بہت زیادہ اہمیت ہے جب کی ایمانیات میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ اس کے ماننے والوں میں حسن نیت اور خلوص کس قدر ہے اور وہ اپنے کردار اور طرز عمل سے کس طرح اپنے عقائد و نظریات ( ایمانیات) کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی تائید کرتے ہیں ۔ایمان لانے والوں کے پیش نظر ہمیشہ یہ بات یاد رہے کہ بروز قیامت انہی لوگوں کے نیک اعمال مقبول ہونگے جو خلوص دل سے ایمان لانے کے بعد صرف اللہ کو راضی کرنے کے لئے کئے گئے ہونگے جبکہ کفار و مشرکین کو ان کے نیک اعمال کا اجر دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے اور آخرت میں ان کے لئے کوئی حصہ نہیں ہے۔ ایمان باللہ ہی عقیدہ اسلامیہ کی اساس اور لب لباب ہے اور یہی اصل ہے اسکے علاؤہ باقی ارکان اس کے تابع ہیں"۔[[2]]

ایمان باللہ ہی توحید ہے اور توحید میں شرک کی نفی ہے تمام کائنات صرف اسی کی مخلوق ہے اور اسی کی تدبیر کے مطابق چل رہی ہے ۔ایک خدا کے علاؤہ اس کائنات کا کوئی بھی مدبر، مالک، منتظم،خالق، پروردگار، حاکم و آقا، معبود اور الہ نہیں ہے کوئی بھی ہستی اسکے ذات و صفات میں شریک نہیں ہے اور یہ توحید ہی تمام نیکیوں کی بنیاد ہےاور اسکے برعکس مشرک کی بخشش نہیں ہوگی۔

تفسیر معارف القرآن کے روشنی میں ایمانیات سے متعلقہ موضوع پر آیات استفہام ذیل میں بیان کی جا رہی ہیں۔

۱-سورةالانعام میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"قُلْ لِّمَن مَّا فِى السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ‌ قُلْ لِّلّٰهِ‌ كَتَبَ عَلٰى نَفسِهِ الرَّحمَةَ لَيَجمَعَنَّكُم اِلٰى يَومِ القِيٰمَةِ لَا رَيبَ فِيهِ‌ اَلَّذِينَ خَسِرُوا اَنفُسَهُم فَهُم لَا يُؤمِنُونَ "۔[[3]]

"پوچھ کہ کس کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں کہہ دے اللہ کا ہی،اس نے لکھی ہے اپنے ذمہ مہربانی البتہ تم کو اکٹھا کردے گا قیامت کے دن تک کہ اس میں کوئی شک نہیں جو لوگ نقصان میں ڈال چکے اپنی جانوں کو وہی ایمان نہیں لاتے" ۔

اس آیت میں نبی کریم کو حکم دیا جا رہا ہے کی توحید کے اثبات کے بعد ان سے یہ کہیے کہ کیا میں ایسے اللہ کے سوا کسی کو اپنا دوست اور معبود ٹھہراؤں جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اس کے سوا کسی اور کو اپنا معبود اور کارساز ٹھہراؤں اور وہ اللہ ہی سب کو روزی دیتا ہے اور اس کو روزی نہیں دی جاتی یعنی وجود اور سامان بقاء میں سب اسی کے محتاج ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں پس ایسی ذات کو چھوڑ کر جو سب کو روزی دیتا ہے اور ادنی سے ادنی چیز میں کسی چیز کا وہ محتاج نہیں ۔ اور آپ کہہ دیجئے کہ مجھ کو خدا کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ خدائے واحد کا میں پہلا فرمانبردار بنوں کہ بلاشرکت غیر اس کے سامنے گردن ڈال دوں اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ تو ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہونا اے نبی! آپ ان مشرکوں سے کہہ دیجئے کہ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو مجھ کو ایک بڑے دن کے عذاب میں گرفتا رہونے کا ڈر ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مجھ کو یہ حکم دیا ہے کہ میں اس کا پہلا فرمانبردار بنوں اور مشرکوں کے گروہ میں شامل نہ ہوں اس آیت میں اللہ تعالیٰ کفار سے سوال فرما رہے ہیں کہ آسمان و زمین اور تمام کائنات کا مالک کون ہے؟ پھر خود ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ جواب ارشاد فرمایا کہ سب کا مالک اللہ ہے کفار کے جواب کا انتظار کرنے کی بجائے خود ہی جواب دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ جواب کفار مکہ کے نزدیک بھی مسلم ہے اگرچہ وہ بت پرستی میں ہیں مبتلا تھے مگر آسمان وزمین اور کل کائنات کا مالک اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے۔

اس آیت کی تفسیر میں مفتی شفیع عثمانیؒ فرماتے ہیں:

 "گذشتہ آیت میں توحید کا بیان تھا اب پھر اس کی طرف عود فرماتے ہیں اور توحید کا اثبات اور شرک کا ابطال کرتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ سب کون ومکان اور زمین وزمان سب اسی کی ملک ہیں چناچہ فرماتے ہیں اے نبی کریم آپ ان معاندین سے بطور الزام واتمام حجت یہ پوچھیے کہ کس کی ملک ہیں جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے اول تو وہ خود ہی یہ جواب دیں گے کہ یہ سب اللہ کی ملک ہے۔ جس سے توحید ثابت ہوجائے گی جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِيْہَآ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ،سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۔[[4]] اگر بالفرض وہ کسی خوف اور ڈر کی بناء پر یاشرم اور حیا کی بناء پر اس کا جواب نہ دیں تو آپ کہہ دیجئے کہ یہ سب اللہ ہی کی ملک ہے اور تمہارے بت کسی چیز کے بھی مالک نہیں اور ان سے یہ بھی کہہ دیجئے کہ اللہ نے توبہ کرنے والوں کے لیے محض اپنے فضل وکرم سے اپنی ذات پر رحمت کو لکھ دیا یعنی لازم کرلیا ہے یہ نہیں کہ اس پر کسی کا زور اور دباؤ ہے وہ اپنی رحمت سے عقوبت میں جلدی نہیں کرتا اور توبہ اور انابت کو قبول کرتا ہے لہذا گر تم کفرو کرو اور شرک سے توبہ کرو گے اور اس کی طرف متوجہ ہوؤ گے تو وہ ارحم الراحمین تمہارے اگلے گناہ معاف کردے گا۔[[5]]

 مطلب یہ ہے کہ جب توحید تمہارے اقرار سے ثابت ہوگئی اور حجت تم پر قائم ہوگی تو اس کا مقتضا یہ تھا کہ تم فورا ہلاک کردیے جاتے لیکن اللہ نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کرلیا ہے اس لیے وہ عقوبت میں جلدی نہیں کرتا اللہ نے ایک تختی پر یہ لکھ کر میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے عرش پر آویزاں کردیا ہے غرض یہ کہ ان سرکشوں کو اور باوجود حجت پوری ہوجانے کے اللہ کے ساتھ ہمسر بنانے پر خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت اور حلم کی وجہ سے اگرچہ دنیا میں سزا نہیں دی مگر اللہ نے قسم کھائی ہے کہ وہ تم سب کو روز قیامت کی طرف اٹھائے گا جس میں ذرہ برابر کوئی شک نہیں اور اس وقت حساب و کتاب کے بعد تم کو سزا دی جائے گی جن لوگوں نے شرک اختیار کرکے اپنی جانوں کو گھاٹے میں رکھا وہ ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ ان کی تقدیر میں گھاٹا ہے جس سے وہ باہر نہیں نکل سکتے گذشتہ آیت میں یہ بتلایا کہ زمین اور آسمان یعنی ہر مکان اور ہر مکین اور تمام مکانیات کا وہی مالک ہے اور اس آیت میں یہ بتلایا کہ مکان کی طرح زمان لیل ونہار اور تمام اوقات اور تمام زمانیات بھی اسی کی مملوک ہیں اور اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہی ان باتوں کا سننے والا ہے اور ان کے دلوں اور حالات کا جاننے والا ہے۔[[6]]

 اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ باطل کا رد کرنے کےلئے سوال فرما رہیں۔اس آیت میں کہا جا رہا ہے کہ منکرین سے اگر آپ پوچھیں گے تو یہی کہیں گے مگر جب عمل کی باری آتی ہے تو اپنی اس بات سے انحراف کرتے ہیں اور قیامت کے دن ان کو انکے اعمال کی بدولت ہی بدلہ دیا جائے گا کیونکہ جو لوگ بھی باطل راستہ اختیار کرتے ہیں ان کو بروز قیامت ناکامی کا سامنا کرنا ہوگا اور یہ اٹل حقیقت ہے کیونکہ اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔

۲-سور ة يونس ميں ارشاد ربانی ہے:

"اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَن اَوحَينَا اِلٰى رَجُلٍ مِّنهُم اَن اَنذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ اٰمَنُوا اَنَّ لَهُم قَدَمَ صِدقٍ عِندَ رَبِّهِم قَالَ الكٰفِرُونَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِينٌ‏ "۔

"اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِى خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ فِى سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ استَوٰى عَلَى العَرشِ‌ يُدَبِّرُ الاَمرَ‌ مَا مِن شَفِيعٍ اِلَّا مِنۢ بَعدِ اِذنِهٖ‌ ذٰ لِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُم فَاعبُدُوهُ‌ اَفَلَا تَذَكَّرُونَ "۔ [[7]]

"کیا لوگوں کو تعجب ہوا کہ وحی بھیجی ہم نے ایک مرد پر ان میں سے یہ کہ ڈر سنادے لوگوں کو اور خوشخبری سنادے ایمان والوں کو کہ ان کے لئے آگے سچائی ہے اپنے رب کے پاس،کہنے لگے کافر بیشک یہ تو واضح جادوگر ہے۔بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے اور پھر عرش پر قائم ہوا تدبیر کرتا ہے کام کی، کوئی اسکی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کر سکتا وہ اللہ تمہارا رب ہے پس اسی کی عبادت کرو،کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟"

اس آیت میں مشرکین کے ایک شبہ اور اعتراض کا جواب ہے، شبہ کا حاصل یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی جہالت سے یہ قرار دے رکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رسول یا پیغمبر آئے وہ بشر یعنی انسان نہیں ہونا چاہئے بلکہ کوئی فرشتہ ہونا چاہئے جب زمین پر بسنے والے لوگ انسان ہیں تو ان کی ہدایت کے لئے بھی تو انسان کا ہونا ضروری تھا تا کہ انکو کوئی اعتراض نہ رہے اگر فرشتہ ہوتا تا یہ لوگ کہتے کی انسان اور فرشتے کی ضروریات میں بہت فرق ہوتا ہے اس لئے ہم کس طرح انسان ہو کر ایک فرشتے کی طرح احکامات کو بجا لا سکتے ہیں۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مفتی شفیع عثمانیؒ لکھتے ہیں:

اس آیت میں مشرکین کے ایک شبہ اور اعتراض کا جواب ہے، شبہ کا حاصل یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی جہالت سے یہ قرار دے رکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رسول یا پیغمبر آئے وہ بشر یعنی انسان نہیں ہونا چاہیے۔ توقرآن کریم نے ان کے اس لغو خیال کا جواب کئی جگہ مختلف عنوانات سے دیا ہے، ایک آیت میں ارشاد فرمایا:

"قُلْ لَّوْ كَانَ فِي الْاَرْضِ مَلٰۗىِٕكَةٌ يَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّيْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا"۔

 " اگر زمین پر بسنے والے فرشتے ہوتے تو ہم ان کے لئے رسول بھی کسی فرشتہ ہی کو بناتے"

" جس کا حاصل یہ ہے کہ رسالت کا مقصد بغیر اس کے پورا نہیں ہوسکتا کہ جن لوگوں کی طرف کوئی رسول بھیجا جائے ان لوگوں میں اور اس رسول میں باہمی مناسبت ہو، فرشتوں کی مناسبت فرشتوں سے اور انسان کی انسان سے ہوتی ہے، جب انسانوں کے لئے رسول بھیجنا مقصد ہے تو کسی بشر ہی کو رسول بنانا چاہئے۔اس آیت میں ایک دوسرے انداز سے اسی مضمون کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ان لوگوں کا اس بات پر تعجب کرنا کہ بشر کو کیوں رسول بنایا گیا اور اس کو نافرمان انسانوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے اور فرمانبرداروں کو اس کے ثواب کی خوشخبری سنانے کا کام کیوں سپرد کیا گیا، یہ تعجب خود قابل تعجب ہے کیونکہ جنس بشر کی طرف بشر کو رسول بنا کر بھیجنا عین مقتضائے عقل ہے۔اس آیت میں ایمان والوں کو خوشخبری ان الفاظ میں دی گئی اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ، اس لفظ قدم کے اصلی معنی تو وہی ہیں جو اردو میں سمجھے جاتے ہیں یعنی پاؤ ں، چونکہ انسان کی سعی و عمل اور اس کے سبب ترقی کا ذریعہ قدم ہوتا ہے، اس لئے مجازا بلند مرتبہ کو قدم کہہ دیا جاتا ہے، اور لفظ قدم کی اضافت صدق کی طرف کرکے یہ بتلا دیا کہ یہ بلند مرتبہ جو ان کو ملنے والا ہے وہ حق اور یقینی بھی ہے اور قائم و باقی رہنے والا لازوال بھی، دنیا کے منصوبوں اور عہدوں کی طرح نہیں کہ کسی عمل کے نتیجہ میں اول تو ان کا حاصل ہونا ہی یقینی نہیں ہوتا اور حاصل بھی ہوجائے تو ان کا باقی رہنا یقینی نہیں ہوسکتا بلکہ اس کا فانی اور زائل ہونا یقینی ہے۔

 "غرض لفظ صدق کے مفہوم میں اس کا یقینی ہونا بھی شامل ہے اور کامل مکمل لازوال ہونا بھی، اس لئے معنی جملہ کے یہ ہوئے کہ ایمان والوں کو یہ خوشخبری سنا دیجئے کہ ان کے لئے ان کے رب کے پاس بڑا درجہ ہے جو یقینی ملے گا اور لازوال دولت ہوگی۔ دل اور زبان دونوں سے سچائی کے ساتھ ایمان اختیار کرلیا جائے جس کا لازمی نتیجہ اعمال صالحہ کی پابندی اور برے اعمال سے پرہیز ہے"۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ سوال فرما رہے ہیں کہ کیا اہل مکہ کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص جو بشر ہے اس پر وحی بھیج دی؟ قرآن نے مشرکین کے اس لغو بیان کا جواب دیا ہے کہ جن لوگوں میں کوئی رسول بھیجا جائے تو وہ رسول انکی باہمی مناسبت سے بھیجا جاتا ہے تا کہ انکو اچھے اعمال پر خوشخبری اور برے اعمال پر ڈرائے اور ایمان والوں کو اس بات کی خوشخبری دی گئی ہے کہ بلند مقام ان کو ملنے والا ہے وہ حق اور لازوال ہے۔اگلی آیت میں توحید کو اس ناقابل انکار حقیقت کے ذریعے ثابت کیا گیا ہے کہ آسمان اور زمین کو پیدا کرنے میں اور پھر پورے عالم کے کاموں کی تدبیر کرنے اور چلانے میں جب اللہ تعالٰی کا کوئی شریک نہیں تو پھر عبادت و اطاعت میں کوئی دوسرا کیسے شریک ہو سکتا ہے؟ اللہ نے چھ دن میں آسمان اور زمین بنائے اور پھر عرش پر مستوی ہو گیا اس کے ہاں کوئی سفارش نہیں کر سکتا مگر جسے وہ اجازت دے اور وہی عبادت کا اصل مستحق ہے اور بشر بھی وہ جو تم میں ایک عمر رہ چکا ہےتو کیا تم عقل نہیں رکھتے"۔[[8]]

اس آیت میں اللہ تعالیٰ بطور تعجب کے سوال فرما رہے ہیں کہ زمین و آسمان کی ہر چیز کا مشاہدہ تم اپنی کھلے آنکھوں سے کر چکے ہو پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کرتے اور بشر کی طرف بشر کو رسول بنا کر بھیجنا عین مقتضائے عقل ہے۔

۳-سورة زمر میں ارشادِ خداوندی ہے:

"اَلَم تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَلَـكَهٗ يَنَابِيعَ فِى الاَرضِ ثُمَّ يُخرِجُ بِهٖ زَرعًا مُّختَلِفًا اَ لوَانُهٗ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَـرٰٮهُ مُصفَرًّا ثُمَّ يَجعَلُهٗ حُطَامًا‌ اِنَّ فِى ذٰ لِكَ لَذِكرٰى لِاُولِى الاَلبَابِ "۔[[9]]

"کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے اتارا آسمان سے پانی پھر چلایا وہ پانی چشموں میں زمین کے پھر نکالتا ہے اس سے کھیتی کئی کئی رنگ بدلتے اس پر پھر آئے تیاری پر تو تو دیکھے اس کا رنگ زرد،پھر کر ڈالتا ہے اس کو چورا چورا، بیشک اس میں عقلمندوں کے لئے نصیحت ہے"۔

 اس آیت میں اللہ کی بہت بڑی نشانی کا بیان ہے کہ اے لوگو! کیا تم غور نہیں کرتے کہ کس طرح ہم نے آسمان سے پانی نازل فرمایا اور اس سے مختلف اقسام کی کھیتی اگاتے ہیں اور مختلف قسم کی نباتات اگاتے ہیں اور ان کو یہ لوگ استعمال میں لاتے ہیں اور بہت سی کھیتوں کو ہم چورا چورا کر دیتے ہیں تو کیا اس بات میں غور نہیں کرتے کہ جو اللہ کی ذات اگانے اور سر سبز کرنے پر قادر ہے وہ اسے زرد کرنے اور ختم کرنے پر بھی قدرت رکھتی ہے تو یہ لوگ کہاں بہکے پھرتے ہیں۔

اس آیت کی تفسیر میں مفتی عثمانیؒ لکھتے ہیں:

 "(اے مخاطب) کیا تو نے اس (بات) پر نظر نہیں کی اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کو زمین کے سوتوں میں (یعنی ان قطعات میں جہاں سے پانی ابل کر کنوؤں اور چشموں کے ذریعہ نکلتا ہے) داخل کردیتا ہے۔ پھر (جب وہ ابلتا ہے تو) اس کے ذریعہ سے کھیتیاں پیدا کرتا ہے جس کی مختلف قسمیں ہیں، پھر وہ کھیتی بالکل خشک ہوجاتی ہے سو اس کو تو زرد دیکھتا ہے پھر (اللہ تعالیٰ ) اس کو چورا چورا کردیتا ہے اس (نمونہ) میں اہل عقل کے لئے بڑی عبرت ہے ۔ سو جس شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام (کے قبول کرنے) کے لئے کھول دیا اور وہ اپنے پروردگار کے (عطا کئے ہوئے) نور (یعنی ہدایت کے مقتضا) پر (چل رہا) ہے (یعنی یقین لا کر اس کے موافق عمل کرنے لگا اور جن لوگوں کے دل خدا کے ذکر سے متاثر نہیں ہوتے (یعنی ایمان نہیں لاتے) ان کے لئے (قیامت میں) بڑی خرابی ہے (اور دنیا میں) یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں ۔

 مطلب یہ ہے کہ آسمان سے پانی نازل کردینا ہی ایک عظیم الشان نعمت ہے مگر اس نعمت کو آ کر زمین کے اندر محفوظ کردینے کا انتظام نہ کیا جاتا تو انسان اس سے صرف بارش کے وقت یا اس کے متصل چند دن تک فائدہ اٹھا سکتا۔ حالانکہ پانی اس کی زندگی کا مدار ایسی ضرورت ہے جس سے وہ ایک دن بھی مستغنی نہیں ہو سکتا۔ اس لئے حق تعالیٰ نے صرف اس نعمت کے نازل کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ اس کے محفوظ کرنے کے عجیب عجیب سامان فرما دیئے۔ کچھ تو زمین کے گڑھوں، حوضوں اور تالابوں میں محفوظ ہوجاتا ہے اور بہت بڑا ذخیرہ برف بنا کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر لاد دیا جاتا ہے۔ جس سے اس کے سڑنے اور خراب ہونے کا امکان نہیں رہتا۔ پھر وہ برف آہستہ آہستہ پگھل کر پہاڑی رگوں کے ساتھ زمین میں اتر جاتا ہے اور جا بجا ابلنے والے چشموں کی صورت میں خود بخود بغیر کسی انسانی عمل کے پھوٹ نکلتا ہے اور ندیوں کی شکل میں زمین میں بہنے لگتا ہے اور باقی پانی پوری زمین کی گہرائی میں چلتا رہتا ہے جس کو کنواں کھود کر ہر جگہ نکالا جاسکتا ہے"۔[[10]]

"قرآن کریم میں اس نظام آبپاشی کی پوری تفصیل کو سورة مومنون میں بیان کیا گیا ہے۔مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ ۔ کھیتی کے اگنے کے وقت اور پکنے کے وقت اس پر مختلف رنگ آتے جاتے رہتے ہیں اور چونکہ ان رنگوں میں انقلاب ہے اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِاُولِي الْاَلْبَابِ ، یعنی پانی اتارنے اور اس کو محفوظ کر کے انسان کے کام میں لگانے پھر اس سے قسم قسم کی نباتات اور درخت اگانے اور ان درختوں پر مختلف رنگ آنے کے بعد آخر میں زرد خشک ہو کر غلہ الگ اور بھوسہ الگ ہوجانے میں بڑی نصیحت ہے عقل والوں کے لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان قدرت و حکمت کے دلائل ہیں۔ جن کو دیکھ کر انسان اپنی تخلیق کے معاملہ کی حقیقت کو بھی پہچان سکتا ہے جو ذریعہ ہو سکتی ہے اپنے خالق ومالک کے پہچاننے کا۔آسمان سے پانی نازل کر دینا ہی ایک عظیم الشان نعمت ہے مگر اس نعمت کو زمین کے اندر محفوظ کر دینے کا انتظام نہ کیا جاتا تو انسان اس بارش سے صرف بارش کے وقت یا اس کے متصل چند دن تک فائدہ اٹھا سکتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کے نازل کرنے پر اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ اس کے محفوظ کرنے کے عجیب سامان مثلاً گڑھوں،حوضوں، تالابوں اور برف کی صورت میں پہاڑوں پر جمع کر دیاجاتا ہے پھر اس کے ذریعے مختلف نباتات کا اگانے اور مختلف رنگ آنے کے بعد آخر زرد خشک ہو کر الگ اور بھوسہ الگ ہو جانے میں عقل والوں کے لیے بڑی نصیحت ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان قدرت و حکمت کے دلائل ہیں جن کو دیکھ کر انسان اپنی تخلیق کے معاملہ کی حقیقت کو بھی پہچان سکتا ہے"۔[[11]]

اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ بطور تعجب کےسوال فرمایا ہےکہ لوگ ہماری نشانیاں دیکھ کر بھی محو غفلت ہیں اور ایمان لانے سے گریزاں ہیں تو یہ تو تعجب کی بات ہے۔ لوگوں کو اللہ پاک اپنی آیات کے ذریعے سمجھا رہے ہیں اور مظاہر قدرت دیکھنے کے باوجود یہ لوگ غورو فکر نہیں کرتے سوچ و بچار نہیں کرتے تو ان کی عقلوں پر تعجب ہوتا ہے کیونکہ جو لوگ عقل رکھتے ہیں وہ اس پر ایمان ضرور لائیں گے۔

۴-سورة الرحمن ميں ارشاد ربانی ہے:

"فَبِاَىِّ اٰلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ"۔[[12]]

"پھر کیا کیا نعمتیں اپنے رب کی جھٹلاؤ گے"

اس سورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نعمتیں یاد دلائی ہیں کہ اے انسان! تجھے پیدا کرنے کے بعد ہم نے قوت گویائی عطا فرمائی سورج اور چاند کو تیرے فائدے کے لئے پیدا فرمایا سر سبز و شاداب درختوں کو اور مختلف قسم کے نباتات اور کھیتیاں انسان کی غذائی ضروریات پیدا کرنے کے لئے پیدا فرمائیں سمندروں میں تمہارے فائدے کے لئے کشتیاں چلا دیں تا کی تم ان سے فائدہ حاصل کر سکو اور تم میں سے ہی تمہاری اولاد پیدا فرمائیں تمہاری نسلیں چلائیں اور تم کثرت و عظمت نعم کے اللہ کی نعمتوں کے کیونکر منکر ہو جاؤگے۔

سورة الرحمن میں اللہ تعالیٰ نے دنیوی اور اخروی نعمتوں کو بیان کیا ہے اس پوری سورت میں یہ جملہ اکتیس بار لایا گیا ہے۔

مفتی شفیع اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

 " رحمن کی بےشمار نعمتیں ہیں انسان کو پیدا فرمایا اسے بولنا سکھایا زمین و آسمان میں موجود ساری نعمتوں کو انسان کے فائدے کے لئے بنایا مختلف اقسام کی نباتات پیدا کیں پینے کے لئے پانی فراہم کیا اور ان سمندروں سے طرح طرح کے زیورات نکلتے ہیں سورج،چاند،ستارے اور مختلف موسم بنائے اور قیامت کے دن نیک لوگوں کے لئے باغات تیار کئے جو کہ ہر قسم کی آسائشوں سے بھرے ہوئے ہیں اور گنہگاروں کے انجام کو بیان کیا"۔ [[13]]

اس سورت میں اللہ تعالیٰ انسان کے سامنے اپنی نعمتیں بیان فرما کر ترغیب دینے کی غرض سےاور معلومات کو دہرانے اور یقینی بنانے کے لیے سوال فرمایا کہ تم میری کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ لوگوں کو متنبہ کرنے اور شکر نعمت کی ترغیب دینے کے لیے یہ جملہ بار بار لایا گیا ہے۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ اپنی بہت سی نعمتوں کا یاد دلا کر انسان سے پوچھتے ہیں کہ میں نے سب نعمتیں تجھے عطا فرمائی ہیں تو ان میں سے کسی ایک پر بھی کوئی اختیار نہیں رکھتا کوئی بھی چیز تیرے قبضہ قدرت میں نہیں ہے تو بے بس ہے کیونکہ جو اللہ تجھے بنانے پر قادر ہے وہ تیری روح کو نکالنے پر بھی اسی طرح قدرت رکھتا ہے کہ تجھے ایک سیکنڈ کی مہلت بھی نہ مل سکے۔اگر حق واضح ہونے کے بعد بھی تم لوگ اپنی سابقہ ہٹ دھرمی پر قائم رہو گے تو تمہارے لئے سراسر خسارہ ہے۔

۵-سورة الملك میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں:

"الَّذِى خَلَقَ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا‌ مَا تَرٰى فِى خَلقِ الرَّحمٰنِ مِن تَفٰوُتٍ‌ فَارجِعِ البَصَرَۙ هَل تَرٰى مِن فُطُورٍ " [[14]]

"جس نے بنائے سات آسمان تہ پر تہ،کیا تو دیکھتا ہے رحمٰن کے بنائے میں کوئی فرق؟پھر دوبارہ نگاہ کر کہیں نظر آتی ہے تجھ کو دراڑ؟"

نیز فرمایا:

"اَوَلَم يَرَوا اِلَى الطَّيرِ فَوقَهُم صٰٓفّٰتٍ وَّيَقبِضنَۘ مَا يُمسِكُهُنَّ اِلَّا الرَّحمٰنُ‌ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَىءٍۢ بَصِيرٌ"۔[[15]]

"اور کیا دیکھتے نہیں ہو اڑتے ہوئے پرندوں کو اپنے پر کھولے ہوئے اور پر جھپکتے ہوئے ،ان کو کوئی نہیں تھام رہا سوائے رحمن کے اسکی نگاہ میں ہر چیز ہے"۔

اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی عظیم نشانی کا ذکر فرما رہے ہیں کہ ہم نے سات آسمان اوپر تلے پیدا فرمائے یعنی ایک آسمان سے دوسرا آسمان فاصلے پر ہے اس کو اچھے طرح دیکھو کہ کیا تمہیں اس میں کوئی شگاف نظر آتا ہے بار بار نظر دوڑاؤ اور کوئی دراڑ ہی تلاش کر کے دکھاؤ ۔لاکھ کوشش کے باوجود تمہاری نظر ناکام و نا مراد ہو کے واپس پلٹ آئے گی اور تم کوئی رخنہ بھی تلاش نہ کر سکوگے کیونکہ اللہ کی بنائی ہوئی ہر چیز مکمل ہے۔

 اس سے آگے مزید آیت میں بھی یہی وضاحت کی جا رہی ہے کہ تم آسمان پر اڑتے پرندوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے وہ ہواؤں میں اڑ رہے ہیں اور ایک نظم و ضبط کے ساتھ وہ اڑتے چلے جاتے ہیں اور کون ہے جو ان کو ہوا میں اس طرح تھامے ہوئے ہیں انہیں گرنے نہیں دیتا انہیں تحفظ دیتا ہے تو یہ صرف اور صرف اللہ ہی کی ذات پاک ہے جس کے قبضہ اختیار میں ہر چیز ہے

ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے مفتی شفیع عثمانیؒ لکھتے ہیں:

" فَارْجِعِ الْبَصَرَ  هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ ، اس آیت سے ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا والے آسمان کو آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ نیلگوں فضا جو دکھائی دیتی ہے یہی آسمان ہو بلکہ ہوسکتا ہے آسمان اس سے بہت اوپر ہو اور یہ نیلگوں رنگ ہوا اور فضا کا ہو جیسا کہ فلاسفہ کہتے ہیں مگر اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ آسمان انسان کو نظر ہی نہ آئے، ہوسکتا ہے کہ یہ نیلگوں فضا شفاف ہونے کے سب اصل آسمان کو جو اس سے بہت اوپر ہے دیکھنے میں مانع نہ ہو اور اگر کسی دلیل سے یہ ثابت ہوجائے کہ دنیا میں رہتے ہوئے آسمان کو آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا تو پھر اس آیت میں رویت سے مراد رویت عقلی یعنی غرو و فکر ہوگا (بیان القرآن) پھر بیان فرمایا کہ کیا وہ پرندوں کو اپنے سروں پر اڑتے ہوئے نہیں دیکھتے جو کبھی اپنے بازؤں کو پھیلا دیتے ہیں اور بکھی سمیٹ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے ان پرندوں جانوروں کو ایسی وضع پر بنایا ہے کہ وہ ہوا پر ٹھہر سکیں اور ہوا پر اپنے جسام کا بوجھ ڈالنے اور اس میں تیرتے ہوئے پھرنے کے لئے حق تعالیٰ نے اس بظاہر بےعقل و شعور جانور کو یہ سلیقہ سکھا دیا ہے کہ وہ اپنے پروں کو پھیلانے اور سمیٹنے کے ذریعہ ہوا کو مسخر کرلیتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہوا میں یہ صلاحیت پیدا کرنا، پرندوں کے پروں کو اس وضع پر بنانا پھر ان کو اپنے پروں کے ذریعہ ہوا پر کنٹرول کرنے کا سلیقہ سکھانا یہ سب حق تعالیٰ ہی کی قدرت کاملہ ہے۔ یہاں تک ممکنات و موجودات کی مختلف اصناف کے حالات میں غور و فکر کے ذریعہ حق تعالیٰ کے وجود اور توحید اور بےنظیر علم وقدرت کے دلائل جمع فرمائے گئے جن میں ذرا بھی غور و فکر کرنیوالے کو حق تعالیٰ پر ایمان لانے کے سوا چارہ نہیں رہتا، منکرین اور بدعمل لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرایا گیا ہے۔ پہلے اس پر تنبیہ کی گئی کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل کرنا چاہیں تو دنیا کی کوئی طاقت اس کو نہیں روک سکتی، تمہارے لشکر اور سپاہی اس سے تم کو نہیں بچا سکتے،ہر چیز کا وہ جاننے والا ہے اور ہر چیز اسکی نظر میں ہے ہر چیز سے باخبر ہے"۔ [[16]]

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنی عظیم الشان نشانی آسمان کے بارے میں بیان فرما رہے ہیں کہ تم دیکھو کہ کیسے سات آسمان اوپر تلے پیدا کئے ہیں اور انکو بغیر ستونوں کے بنایا ہے اور انسان کو کہا گیا ہے انکو غور سے دیکھ اور کوئی شگاف تلاش کر کے دکھاؤ تمہیں کسی قسم کی کوئی دراڑ نظر نہیں آئے گی چاہے بار بار نظر دوڑالو۔اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی قدرت کے اثبات کے لئے سوال فرما رہے ہیں کہ دیکھو میری کاریگری کو میرے معجزات کو بھلا کون ہے میرے سوا جو ایسا کرنے پر قدرت رکھتا ہو۔ پھر کہا گیا ہے کہ آسمانوں پر اڑتے پرندوں کی طرف دیکھو وہ کیسے فضا میں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ایک منظم انداز میں اڑ رہے ہیں تو انکو یہ شعور دینے والی ذات کس کی ہے کون ہے جو ان کو یہ سکھائے ہوئے ہے ؟ کون ہے جو ان کو ہواؤں میں سہارا دیئے ہوئے ہے جو انکو تھامے ہوئے ہے؟ یہ صرف اللہ ہی کی ذات ہے جو ان تمام چیزوں پر اختیار رکھتا ہے اور وہی سب کا بنانے والا ،ان کو شعور عطا فرمانے والا، اور انکو زندگی گزارنے کے لیے لائحہ عمل دینے والا مشفق رب ہے۔

۶-سورة الغاشية میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"اَفَلَا يَنظُرُونَ اِلَى الاِ بِلِ كَيفَ خُلِقَت ، وَاِلَى السَّمَآءِ كَيفَ رُفِعَت ، وَاِلَى الجِبَالِ كَيفَ نُصِبَت ، وَاِلَى الاَرضِ كَيفَ سُطِحَت "[[17]]

"بھلا کیا نظر نہیں کرتے اونٹوں پر کہ کیسے بنائے ہیں؟اور آسمان پر کہ کیسے اسکو بلند کیا ہےاور پہاڑوں پر کہ کیسے کھڑے کیے ہیں اور زمین پر کیسے بچھائی ہے؟" ۔

اس آیت میں اللہ پاک اپنی مختلف نشانیوں کا بیان فرما رہے ہیں کی دیکھو ہم نے کیسے اونٹوں کی تخلیق فرمائی ہے وہ صحرا میں رہتے ہیں تو ان کے آنکھوں پر اس قسم کا پردہ لگا دیا ہے کہ صحراؤں میں چلنے والے تیز طوفانوں کی مٹی سے ان کی آنکھوں کی حفاظت کی جا سکے وہ پردہ ان کی آنکھوں کو مٹی سے بچاتا ہے اور صحرا میں پانی کی کمی کی وجہ سے اونٹ میں یہ صلاحیت ودیعت کی گئی ہے کہ وہ اپنے اندر پانی کو ذخیرہ کر سکتا ہے اور بوقت ضرورت اس کو استعمال کر سکتا ہے ۔اس میں عقل والوں کے لئے بہت بڑی نشانیاں ہیں۔اسکے بعد کہا گیا کہ کس طرح ہم آسمان کو اٹھائے ہوئے ہیں جسے گرنے نہیں دیتے کوئی ستون بھی نہیں ہے کہ جس پر آسمان کو رکھا ہوا تو یہ کون ذات ہے جو اسکے بلند کئے ہوئے ہے؟ اور بلند و بالا پہاڑوں کو اتنے مضبوطی سے زمین میں گاڑ دیا گیا ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی طاقت کے زور سے اس کو ہلا بھی نہیں سکتا اور زمین کو فرش بنا دیا کہ اتنا مضبوط جو کہ تمام چیزوں کے بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہے اور کبھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ زمین نے کبھی اس بوجھ کو اٹھانے سے انکار کیا ہو تو کون ہے جو اس نظام کائنات کو چلا رہا ہے وہی خدائے برحق ہے۔

 اس آیت کی تفسیر میں علامہ مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں:

 " قیامت کے احوال اور اس میں مومن و کافر کی جزاء و سزا کا بیان فرمانے کے بعد ان جاہل معاندین کی ہدایت کی طرف توجہ فرمائی جو اپنی بےوقوفی سے قیامت کا انکار اس بناء پر کرتے ہیں کہ انہیں مرنے اور مٹی ہوجانے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا بہت بعید بلکہ محال نظر آتا ہے ان کی ہدایت کے لئے حق جل شانہ نے اپنی قدرت کی چند نشانیوں میں غور کرنے کا ان آیتوں میں ارشاد فرمایا ہے اور اللہ کی قدرت کی نشانیاں تو آسمان و زمین میں بیشمار ہیں، یہاں ان میں سے ایسی چار چیزوں کا ذکر فرمایا جو عرب کے بادیہ نشین لوگوں کے مناسب حال ہیں کہ وہ اونٹوں پر سوار ہو کر بڑے بڑے سفر طے کرتے ہیں اس وقت ان کے سب سے زیادہ قریب اونٹ ہوتا ہے اوپر آسمان اور نیچے زمین اور دائیں بائیں اور آگے پیچھے پہاڑوں کا سلسلہ ہوتا ہے انہیں چاروں چیزوں میں ان کو غور کرنے کا حکم دیا گیا کہ دوسری آیات قدرت کو بھی چھوڑو انہیں چار چیزوں میں غور کرو تو حق تعالیٰ کی ہر چیز پر قدرت کاملہ کا مشاہدہ ہوجائے گا۔"

" جانوروں میں اونٹ کی کچھ ایسی خصوصیات بھی ہیں جو خاص طور سے غور کرنے والے کے لئے حق تعالیٰ کی حکمت وقدرت کا آئینہ بن سکتی ہیں۔ اول تو عرب میں سب سے زیادہ بڑا جانور اپنے ڈیل ڈول کے اعتبار سے اونٹ ہی ہے، ہاتھی وہاں ہوتا نہیں دوسرے حق تعالیٰ نے اس عظیم الحبثہ جانور کو ایسا بنادیا ہے کہ عرب کے بدو اور غریب مفلس آدمی بھی اس اتنے بڑے جانور کے پالنے رکھنے میں کوئی مشکل محسوس نہ کریں کیونکہ اس کو چھوڑ دیجئے تو یہ اپنا پیٹ خود بھر لیگا اونچے درختوں کے پتے توڑنے کی زحمت بھی آپ کو نہیں کرنا پڑتی یہ خود درختوں کی شاخیں کھا کر گزارہ کرلیتا ہے۔ ہاتھی اور دوسرے جانوروں کی سی اس کی خوراک نہیں جو بڑی گراں پڑتی ہے۔ عرب کے جنگلوں میں پانی ایک بہت ہی کمیاب چیز ہے، ہر جگہ ہر وقت نہیں ملتا۔ قدرت نے اس کے پیٹ میں ایک ریزرو ٹینکی ایسی لگا دی ہے کہ سات آٹھ روز کا پانی پی کر یہ اس ٹنکی میں محفوظ کرلیتا ہے اور تدریجی رفتار سے وہ اس کی پانی کی ضرورت کو پورا کردیتا ہے۔ اتنے اونچے جانور پر سوار ہونے کے لئے سیڑھی لگانا پڑتی مگر قدرت نے اس کے پاؤں کو تین تہہ میں تقسیم کردیا یعنی ہر پاؤں میں دو گھٹنے بنا دیئے کہ وہ طے کر کے بیٹھ جاتا ہے تو اس پر چڑھنا اور اترنا آسان ہوجاتا ہے۔ محنت کش اتنا ہے کہ سب جانوروں سے زیادہ بوجھ اٹھا لیتا ہے۔ عرب کے میدانوں میں دن کا سفر دھوپ کی وجہ سے سخت مشکل ہے قدرت نے اس جانور کو رات بھر چلنے کا عادی بنادیا ہے۔ مسکین طبع ایسا ہے کہ ایک لڑکی بچی اس کی مہارپکڑ کر جہاں چاہے لیجائے اس کے علاوہ اور بہت سی خصوصیات ہیں جو انسان کو حق تعالیٰ کی قدرت و حکمت بالغہ کا سبق دیتی ہیں۔ آپ کا کام تبلیغ کرنے اور نصیحت کرنے کا ہے وہ کر کے آپ بےفکر ہوجائیں حساب کتاب اور جزا و سزا سب ہمارا کام ہے۔ [[18]]

اس آیت میں اللہ پاک نے اپنی چار بڑی نشانیوں کا ذکر اس لئے فرمایا کہ عرب کے لوگ اونٹ پالتے تھے ان سے مال برداری کا کام لیتے تھے ہر طرف پہاڑ ہی پہاڑ تھے اونٹ میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے پیٹ میں پانی ذخیرہ کر لیتا ہے اور میلوں سفر کر سکتا ہے محنت کش اتنا ہے کہ سب جانوروں سے زیادہ بوجھ اٹھا لیتا ہے عرب کے میدانوں میں دن کا سفر مشکل ہے قدرت نے اس جانور کو رات دن چلنے کا عادی بنا دیا ہے مسکین طبع اتنا ہے کہ ایک بچی اسکی مہار پکڑ کر جہاں چاہے لے جائے اللہ پاک لوگوں سے بطور تعجب کے سوال فرما رہے ہیں کہ کیا تم میری تخلیق پر غور نہیں کرتے تو تعجب ہے کہ اس کے باوجود تم ایمان لانے میں ڈگمگارہے ہو اگر تم عقل رکھتے تو تم فورا ایمان لے آتے۔

خلاصہ بحث

 اسلام کے پورے اعتقادی اور عملی نظام میں پہلی اور بنیادی چیز ہی ایمان باللہ ہے باقی جتنے بھی اعتقادات اور ایمانیات ہیں اسی مرکز سے سب قوت حاصل کرتے ہیں اور یہاں جو کچھ بھی ہے اس کا مرجع خدا کی ذات ہے ۔فرشتوں پر اس لئے ایمان ہے کہ وہ خدا کے فرشتے ہیں اور مقدس کتابوں پر اس لئے ایمان ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہی انسانی ہدایت کے لئے نازل فرمائی گئیں ہیں رسولوں پر اس لئے ایمان ہے کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں۔الغرض ہر چیز جو اسلام میں داخل ہے اس کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کے اقرار کا عقیدہ ہے اور اس ایک مرکز کے ہٹنے سے سارا نظام تباہی و برباد ہو جاتا ہے اور انسانی سعی و عملی کا سانچہ ٹوٹ جاتا ہے۔

اسی طرح فرشتوں کی مقدس ہستیاں ہیں وہ پوشیدہ نورانی ہستیاں جدا کے تابع فرمان ہیں اور اس قدر مطیع ہیں کہ حکم الہٰی سے ذرا بھی کوتاہی نہیں کرتے اور یہ اپنے رب کے فرمان بجا لاتے ہیں ان کو خود اپنے اختیار سے کرنے کی قدرت نہیں ہے ان کی اتنی مجال بھی نہیں کہ اللہ کے پاس کسی کی سفارش بھی کر دیں اور یہ ہر چیز اللہ کے حکم کے مطابق بجالاتے ہیں۔

اسی طرح کتابوں پر ایمان لانے کی تعلیم ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے دی گئی کہ اللہ کے کتابیں جو اس نے اپنے انبیاء پر نازل کیں وہ سب انسانوں کی بھلائی کے لئے اتاری گئیں اور ان میں تمام احکامات حالات اور ضرورت کے مطابق ہوا کرتے تھے تا کہ لوگوں کو زندگی گزارنے کے لئے صحیح تعلیمات دی جا سکیں۔

اس فصل میں تفسیر معارف القرآن کی روشنی میں آیات استفہام کی ایمانیات کے ضمن میں تفسیر پیش کی گئی ہے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں سے جو سوال فرمائے ہیں ان کے پیشِ نظر جو مقاصد ہیں انکو بیان کیا گیا ہے اور درج ذیل آیات کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔

سورة الانعام آیت نمبر ۱۲، سورة يونس آیت نمبر ۲,۳، سورة الزمر آیت۲۱، سورة الرحمن آیت نمبر ۱۳، سورة الملك آیت نمبر ۳,۱۴,۱۹، سورةالغاشية آیت نمبر ۱۷,۱۸,۱۹,۲۰۔

 



[[1]]       القرآن ، ۴:۳۷۔

[[2]]       انصاری، حافظ عمران ايوب، الکتاب انٹرنیشنل،دہلی،نومبر۲۰۱۰ء ، ص۸۹۔

[[3]]       القرآن ، ۱۲:۶

[[4]]          القرآن ، ۲۳: ۸۴۔ ۸۵۔

[[5]]       عثمانی، مفتی محمد شفیع،معارف القرآن،ادارة المعارف،کراچی،جون۲۰۰۵ء،۲۸۸/۳

[[6]]       عثمانی، مفتی محمد شفیع،معارف القرآن ،۳/۲۸۸

[[7]]       القرآن ، ۲,۳:۱۰

[[8]]       عثمانی، مفتی محمد شفیع، معارف القرآن،۴/۵۰۱,۵۱۳

[[9]]       القرآن ، ۲۱:۳۹

[[10]]    عثمانی، مفتی محمد شفیع، معارف القرآن،۷/۵۴۹ ۔

[[11]]   عثمانی، مفتی محمد شفیع، معارف القرآن،۷/۵۵۰۔

[[12]]    القرآن ، ۵۵: ۱۳۔

[[13]]    عثمانی، مفتی محمد شفیع،معارف القرآن،۸/۲۴۰۔

[[14]]       القرآن ، ۶۷: ۱۹۔

[[15]]    القرآن ، ۳,۱۴,۱۹:۶۷۔

[[16]]    عثمانی، مفتی محمد شفیع، معارف القرآن،۸/۵۱۰۔

[[17]]    القرآن ، ۱۷,۱۸,۱۹,۲۰:۸۸۔

[[18]]    عثمانی، مفتی محمد شفیع، معارف القرآن،۸/۷۳۰۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...