Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

تعارف ومنہج تفسیر تدبر قران
ARI Id

1695203136242_56118319

Access

Open/Free Access

Pages

211

امین احسن اصلاحی نے تفسیر تدبر قرآن کا آغاز ۱۹۵۹ء میں کیا اور اس کی پہلی جلد ۱۹۵۶ء میں مکمل ہوئی۔نوجلدوں پر مشتمل یہ ضخیم تفسیر اگست۱۹۸۰ء میں پایہ تکمیل تک پہنچی۔ [[1]]

وہ تدبر قرآن کے مقدےمیں تفسیر لکھنے کے مقاصد بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

"اس کتاب کو لکھنے سے میرےپیش نظر قرآن کریم کی ایسی تفسیر لکھنا ہے جس میں میری دلی آرزو اور پوری کوشش اس امر کے لئے ہے کہ میں ہر قسم کے بیرونی لوث اور لگاؤ کے تعصب و تخریب سے آزاد اور پاک ہوکر آیت کا وہ مطلب سمجھاؤں جو فی الواقع اور فی الحقیقت اس آیت سے نکلتاہے اس مقصد کے تقاضے سے قدرتی طور پر میں نے اس میں فہم قرآن کے ان وسائل و ذرائع کو اہمیت دی جو خود قرآن کے اندر موجود ہیں"۔[[2]]

امین احسن اصلاحی نےتفسیر تدبر قرآن کے تحریر کرنے میں اپنے استاد حمیدالدین فراہی کے اصول تفسیر و تدبر و تفکر کو بھی سامنے رکھا اور اپنی اس تفسیر کو انہوں نے ایک صدی کے تفکر و تدبر کا نتیجہ قرار دیاہے۔

تفسیر کے مقدمے میں تحریر کرتے ہیں:

"تفسیر تدبر قرآن پر میں نے اپنی زندگی کے پورے ۵۵ سال صرف کیے ہیں جس میں ۲۳ سال صرف کتاب کی تحریر و تسوید کی نذر ہوئے ۔ اگر اس کے ساتھ وہ مدت بھی ملا دی جائے جو استادامام ؒ نے قرآن کے غور و تدبر پر صرف کی ہے اور جس کو میں نے اس کتاب میں سمونے کی کوشش کی ہے تو کم و بیش ایک صدی کا قرآنی فکر ہے جو آپ کے سامنے تفسیر تدبر قرآن کی صورت میں آیا ہے"۔[[3]]

اسی طرح تدبر وفکر پر زور دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :

"کتاب و سنت کے سوا میں کسی چیز کو حجت نہیں سمجھتا اور غورو فکر میرے نزدیک انسانی فضائل میں سب سے بر تر اور سب سے اعلیٰ فضیلت ہے۔ میری کوشش یہ ہے کہ ایک مدت دراز سے قرآن و حدیث پر غور و فکر کی جو راہ مسدود ہے وہ اب کھل جائے اور اگر اس راہ میں مجھ سے کوئی خدمت بن آتی ہے تو مجھے اس سے ہچکچانا نہیں چاہیے اگر نیت نیک ہے تو انشاءاللہ مجھے اس کوشش کا اجر ملے گا"۔[[4]]

مولانا کے نزدیک قرآن و سنت ہی سب سے زیادہ قابل اعتماد چیزیں ہیں۔

تدبر قرآن کا تفسیری منہج

امین احسن اصلاحی نے یہ تفسیر روایتی تفسیری اصولوں پر نہیں لکھی بلکہ انہوں نے اس تفسیر کے مواد کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے:

۱۔ داخلی وسائل

 ۲ ۔ خارجی وسائل

داخلی وسائل کی درج ذیل اقسام ہیں

۱۔ قرآن کی زبان

۲۔ قرآن کا نظم

۳۔ قرآن کے نظائر و شواہد

خارجی وسائل

امین احسن اصلاحی نے فہم قرآن کے وسائل کو درج ذیل شما ر کیا ہے

۱۔سنت ِ متواترہ مشہورہ                 ۲۔ احادیث و آثار صحابہ                                ۳۔ شان نزول ۴۔ کتب تفاسیر                       ۵۔ قدیم آسمانی صحیفے                    ۶ ۔ تاریخ عرب

اصلاحی خارجی وسائل کے بارے میں لکھتے ہیں:

اگرچہ اپنے امکان کی حدتک میں نے ان خارجی وسائل سےبھی فائدہ اٹھایاہے لیکن ان کو داخلی وسائل کے تابع رکھ کر ان سے افادہ کیا ہے جو بات قرآن کے الفاظ قرآن کے نظم اور قرآن کی خود اپنی شہادتوں اور نظائر سے واضح کی گئی ہے وہ میں نے لے لی ہے اگر کوئی چیز اسکے خلاف نظر آئی تو میں نے اسکی قدرو قیمت اور اہمیت کے اعتبار سے اس کو جانچا ہے ۔اگر دینی و علمی اعتبار سے اہمیت رکھنے والی بات ہوئی ہے تو میں نے اس پر تنقید کرکے اسکو سمجھنے اور اس کے صحیح پہلو کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر بات کچھ یوں ہی ہوئی تو اس کو نظر انداز کردیا۔[[5]]

فہم قرآن کے داخلی وسائل

داخلی وسائل میں پہلا وسیلہ قرآن کی زبان ہے

قرآن کی زبان

قرآن کی زبان عربی ہے اور عربی بھی وہ عربی جو فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے معجزے کی حد کو پہنچی ہوئی ہے ۔عربی زبان بالخصوص قرآن کی زبان کے معاملے میں ایک مشکل یہ بھی ہے کہ اس وقت وہ زبان کہیں بھی رائج نہیں ہے جس میں قرآن نازل ہوا ہے۔عرب اور عجم دونوں میں ہی اس وقت جو عربی پڑھی پڑھائی اور لکھی بولی جاتی ہے وہ اپنے اسلوب و انداز اپنے لب و لہجہ اور اپنے الفاظ و محاورات میں اس زبان سے بہت مختلف ہے جس میں قرآن ہے۔

اصلاحی کے نزدیک فہم قرآن کے لیے سب سے بنیادی نقطہ قرآن کی زبان سے مکمل آگاہی ہے اس سے مراد موجودہ دور کی عربی زبان نہیں بلکہ جس دور میں قرآن مجید نازل ہورہا تھا اس وقت کی شاعری ادب سے مکمل آگاہی ضروری ہے۔

مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

صرف زبان و اسلوب ہی کے معاملے میں نہیں بلکہ اہل عرب کے معروف و مشہور مفکر ین کی معاشرتی زندگی کی خصوصیات ان کی سوسائٹی میں خیر و شر کے معیارات انکے سماجی تمدنی اور سیاسی نظریات روزمرہ کی زندگی میں ان کی دلچسپیاں اور مشاغل ان کے مذہبی رسوم و معتقدات غرض اس طرح کی ساری چیزوں کو سمجھنے میں جو مدد ان کے لٹریچر سے ملتی ہے وہ کسی دوسری چیز سے نہیں ملتی۔[[6]]

نظم ِقرآن

نظم کلام کسی کلام کا ایساجزو لاینفک ہوتا ہے کہ اسکے بغیر کسی عمدہ کلام کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ عجب ستم ظریفی ہےکہ قرآن جس کو فصاحت و بلاغت کا معجزہ قرار دیا جاتاہے ایک بہت بڑے گروہ کے نزدیک نظم سے بالکل خالی کتاب ہے۔ان کے نزدیک نہ سورت کا دوسری سورت سے کوئی ربط ہے نہ ہی آیات کا ۔حیرت ہوتی ہے کہ ایسا فضول خیال ایک ایسی عظیم کتاب کے متعلق لوگوں کے اندر کس طرح جاگزیں ہوگیا ہے جسکے متعلق دوست دشمن دونوں ہی کو اعتراف ہے کہ اس نے دنیا میں ہل چل پیدا کردی ،اذہان و قلوب بدل ڈالے فکرو عمل کی نئی بنیادیں استوار کیں اور انسانیت کو ایک نیا جلوہ دیا۔ کسی بھی کلام کو سمجھنے کےلیے اس کا باربط ہونا ضروری ہے۔

نظم قرآن کی اہمیت کے متعلق اصلاحی کا کہنا ہے:

نظم کا علم درحقیقت ترکیب کا علم ہےیہ صرف یہی نہیں بتاتا کہ فلاں آیت سے فلاں آیت کا کیا جوڑ ہے بلکہ اس کا اصلی مقصد دین و اخلاق کے اجزاء کے باہمی ربط کو واضح کرناہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مقصد ایک نہایت اعلیٰ علمی مقصد ہے یہی چیزہے جس کوحکمت کہتے ہیں۔ حکمت بہر حال ایک مخفی خزانہ ہے جس کے حاصل کرنے کےلئے بڑی ریاضت کرنی پڑتی ہے ۔اگر کوئی شخص صرف یہ جاننا چاہے کہ قرآن نے عملی زندگی کے لئے کیا احکام دیے ہیں تواس کیلئے اسے کسی بڑی کاوش کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص دین کی حکمت معلوم کرنا چاہے تو اسے ہر حال قرآن کے اندر معتکف ہونا اور اس کے لئے ساری زندگی کو قربان کرنا پڑےگا۔ [[7]]

تدبر قرآن کی تصنیف میں نظم قرآن کو زیر نظر رکھنے کے متعلق لکھتے ہیں:

میں نے اس تفسیر میں چونکہ نظم کلام کو پوری اہمیت دی ہے اس وجہ سے ہر جگہ میں نے ایک ہی قول اختیار کیا ہے کیونکہ نظم قرآن کی رعایت کے بعد مختلف وادیوں میں گردش کرنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔[[8]]

نظم کی قدرو قیمت

نظم کے متعلق یہ خیال بالکل غلط ہے کہ وہ محض علمی لطائف کے قسم کی ایک چیزہے جس کی قرآن کے اصل مقصد کے نقطہ نظر سے کوئی خاص قدروقیمت یہی ہے کہ قرآن کے علوم اور س کی حکمت تک اگر رسائی ہوسکتی ہے تو اسی کے واسطے سے ہوسکتی ہے جو شخص نظم کی رہنمائی کے بغیر قرآن کر پڑھے گا وہ زیادہ سے زیادہ جو حاصل کر سکے گا وہ کچھ منفرد احکام اور منفرد قسم کی ہدایات ہیں۔

اگرچہ ایک اعلیٰ کتاب کے منفرد احکام اور اسکی منفرد ہدایات کی بھی بڑی قدرو قیمت ہے لیکن آسمان و زمین کا فرق ہے اس بات میں کہ آپ طب کی کسی کتاب المفردات سے چند جڑی بوٹیوں کے کچھ اثرت و خواص معلوم کرلیں اور اس بات میں کہ ایک حاذق طبیب ان اجزاء سے کوئی کیمیائی اثر نسخہ ترتیب دے دے تاج محل کی تعمیر میں جو مصالحہ استعمال ہو اہے وہ الگ الگ دنیا کی بہت سی عمارتوں میں استعمال ہوا ہے لیکن اسکے باوجود تاج محل دنیا میں ایک ہی ہے۔قرآن حکیم بھی جن الفاظ اور فقروں سے ترکیب پایا ہے وہ بہر حال عربی لغت اور عربی زبان ہی سے تعلق رکھنے والے ہیں لیکن قرآن کی لاہوتی ترتیب نے ان کو وہ جمال و کمال بخش دیاہے کہ اس زمین کی کوئی چیز بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔

اصلاحی کےمطابق جس طرح خاندان کے شجرے ہیں اسی طرح نیکیوں اور بدیوں کے بھی شجرے ہیں بعض اوقات ایک نیکی کو ہم معمولی کہتے ہیں حالانکہ اس نیکی کا تعلق نیکیوں کے اس خاندان سے ہوتا ہے جس سے تمام بڑی چھوٹی بڑی شاخیں پھوٹی ہیں اسی طرح بسا اوقات ایک برائی کو ہم معمولی سمجھتے ہیں لیکن وہ برائیوں کے اس کنبے سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہے جو تمام مہلک بیماریوں کو جنم دینے والا کنبہ ہے۔ جو شخص دین کی حکمت سمجھنا چاہے اسکے لئےضروری ہے کہ وہ خیر و شر کے ان تمام مراحل ومراتب سے اچھی طرح واقف ہو قرآن کی یہ حکمت اجزائے کلام سے نہیں بلکہ تمام ترنظم کلام سے واضح ہوتی ہے۔[[9]]

امین احسن اصلاحی کہتے ہیں:

             " قرآن نے مختلف سورتوں میں مختلف اصولی باتوں پر آفاقی و انفسی یا تاریخی دلائل بیان کئے ہیں یہ دلائل نہایت حکیمانہ ترتیب کے ساتھ بیان ہوئے ہیں جس شخص پر یہ ترتیب واضح ہو وہ جب اس سورۃ کی تدبر کے ساتھ تلاوت کرتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ زیر بحث موضوع پر اس نے ایک نہایت جامع ،مدلل اور شرح صدر بخشنے والا خطبہ پڑھاہے اسکے برعکس جو شخص اس ترتیب سے بے خبر ہو ہو اجزاء سے اگرچہ واقف ہوتاہے لیکن اس حکمت سے وہ بالکل ہی محروم رہتا ہے جو اس سورۃ میں بیان ہوئی ہے۔" [[10]]

قرآن کانظام بحیثیت مجموعی

اصلاحی تفسیر تدبر قرآن کے مقدمےمیں رقمطراز ہیں:

" قرآن کا نظام بحیثیت مجموعی کا تعلق ہر سورۃ کے اندر نظم سے ہے یعنی ہر سورۃ ایک مستقل وحدت ہے اس کا ایک علیحدہ عنوان و موضوع (عمومی) ہے اور اس سورۃ کے تمام اجزئے کلام اس عنوان و موضوع سے نہایت گہری و ابستگی رکھتے ہیں۔قرآن میں بحیثیت مجموعی بھی ایک مخصوص نظام ہے جس کا ایک پہلو تو بالکل ظاہر ہےجو ہر شخص کو نظر آسکتا ہے لیکن ایک پہلو مخفی ہے جو غورو تدبر سے سامنے آتاہے"۔[[11]]

تفسیر قرآن بالقرآن

تفسیر قرآن مجید میں صحابہ اور قرون اولیٰ کے علماءکا یہ طریقہ تھا کہ وہ قران کی تفسیر قرآن ہی سے کرتے تھے لیکن بعدمیں آنے والے مفسرین قرآن مجید کی تفسیرکو مختلف ذرائع سے بیان کرنے لگے ۔اصلاحی نے قرآن کے داخلی وسائل میں تیسرا وسیلہ قرآن کی تفسیر قرآن سے بیان کیاہے۔اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں اگر ایک بات اجمال کےساتھ بیان ہوئی ہے۔تو دوسری جگہ اسے تفصیلات بیان کیا گیاہے اور اسکی ضرورت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے کہ اگر اجمال میں بات سمجھ نہیں آئی تو تفصیل میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔

اصلاحی کہتے ہیں:

"اس تفسیر کو پڑھنے والے ان شاء اللہ محسوس کریں گے کہ میں نے صرف آیات کے نظم اور ان کی تاویل کے تعین میں اصلی اعتماد قرآن ہی کے شواہد و نظائر پر کیا ہے بلکہ الفاظ و اسالیب کی مشکلات میں بھی بیشتر قرآن ہی سے استفادہ کیا ہے ۔اسکی وجہ صرف یہ ہےکہ معانی و حقائق کی طرح قرآن اپنی ادبی ونحوی مشکلات کے حل کیلئے بھی سب سے زیادہ مستند مرجع و مآخذ ہے ۔اس حقیقت کو ہمارے پچھلے علماء نے بھی تسلیم کیا ہے"۔ [[12]]

مزید لکھتے ہیں:

 " قرآن کی مشکلات جتنی خود قرآن سے مجھ پر واضح ہوئی ہیں دوسری کسی چیز سے بھی واضح نہیں ہوئی ہیں ایک ایک بات اتنے اسلوبوں سے سامنے آتی ہے کہ اگر آدمی ذہن سلیم رکھتا ہو تو اس کو پکڑہی لیتا ہے"۔ [[13]]

فہم قرآن کے خارجی وسائل

خارجی وسائل میں پہلا وسیلہ سنت متواترہ مشہورہ ہے

سنت متواترہ مشہورہ

حضور ؐ نے قرآن مجید میں مذکورہ تمام دینی اصطلاحات کا عملی مظاہرہ سنت متواترہ کی صورت میں کیا اور یہ اصطلاحات اور ان سنتوں کا عملی نمونہ سلف سےخلف تک متواتر منتقل ہوتا رہا اس لئے ان اصطلاحات کی تفسیر بھی سنت کی روشنی میں ہوسکے گی اصلاحی تدبر قرآن کے متعلق کہتے ہیں:

   " جہاں تک قرآن مجید کی اصطلاحات کا تعلق ہے مثلاً صلوۃ، زکوۃ، حج ، عمرہ، قربانی ،مسجد حرام ، صفامروہ ،سعی، طواف وغیرہ ان کی تفسیر میں نے سوفیصد سنت متواترہ کی روشنی میں کی ہے۔ اس لئے کہ قرآن مجید اور شریعت کی اصطلاحات کا مفہوم بیان کرنے کا حق صرف صاحب وحی محمد رسول اللہ ؐ ہی کو ہے"۔ [[14]]

اسی طرح اپنی اصطلاحات کے بارے میں فراہی ؒ اپنے مقدمہ تفسیر میں کہتے ہیں

" اُسی طرح تمام اصطلاحات شرعیہ مثلاً نماز،روزہ، حج زکوٰۃ، جہاد ،مسجد حرام ،صفا مروہ، اور مناسک حج وغیرہ اور اُن سے جو اعمال متعلق ہیں تواتر و توارث کےساتھ سلف سے لیکر خلف تک سب محفوظ ہیں۔اس میں جو معمولی جزوی اختلافات ہیں وہ بالکل ناقابل لحاظ ہیں۔ شیر کے معنی سب کو معلوم ہیں اگر چہ مختلف ممالک میں شیروں کی شکلوں صورتوں میں کچھ نہ کچھ فرق ہے اسی طرح جو نماز مطلوب ہے ، وہی نماز ہے جو مسلمان پڑھتے ہیں ہر چند کہ اسکی صورت و ہیت میں بعض جزوی اختلافات ہیں جولوگ اس قسم کی چیزوں میں زیادہ کھوج کریدتے ہیں وہ اس دین قیم کے مزاج سے بالکل ہی ناآشنا ہیں جس کی تعلیم قرآن پاک نے دی ہے پس جب ایسے اصطلاحی الفاظ کا معاملہ پیش آئے جنکی پوری حدو تصویر قرآن میں نہ بیان ہوئی ہو تو صحیح راہ یہ ہے کہ جتنے حصے پر تمام امت متفق ہے اتنے پر قناعت کرو اور اخبار آحاد پر زیادہ اصرار نہ کرو ۔ ورنہ خود بھی شک میں پڑوگے اور دوسروں کے اعمال کو بھی غلط ٹھہراؤگے اور تمہارے درمیان کوئی ایسی چیزیں نہ ہوگی جو اس جھگڑے کا فیصلہ کرسکے"۔ [[15]]

احادیث و آثار صحابہ رضی اللہ عنھم

تفسیر کے ظنی ماخذ میں سے سب سے اشرف اور سب سے زیادہ پاکیزہ چیز ذخیرہ احادیث و آثار ہے۔اگر ان کی صحت کی طرف سے پورا پورا اطمینان ہوتا تو تفسیر میں ان کی وہی اہمیت ہوتی جو سنت متواترہ کی بیان ہوئی لیکن ان کی صحت پر اس طرح کا اطمینان چونکہ نہیں کیا جاسکتا اس وجہ سے ان سے اسی حد تک فائدہ اٹھایا جاسکتاہے جس حد تک یہ ان قطعی اصولوں سے موافق ہوں یہ قرآن کے بعد سب سے قیمتی روشنی ہے۔

حدیث نبویؐ کو قرآن کا شارح قرار دیا جاتا ہے قرآن اور حدیث آپس میں متضاد نہیں ہیں اور اگر کوئی حدیث قرآنی مضامین کے برعکس ہے تو وہ صحیح حدیث ہوہی نہیں سکتی۔امین احسن اصلاحی کہتے ہیں کہ قرآن کی تفسیر اور فہم قرآن کےلیے انہوں نے احادیث نبوی ؐ اور آثار صحابہ رضی اللہ عنھم کا سہارا بھی لیا ہے۔

"میں احادیث کو تمام تر قرآن ہی سے ماخوذ مستنبط سمجھتا ہوں اس وجہ سے میں نے صرف انہی احادیث تک استفادے کو محدود نہیں رکھا جو قرآن کی کسی آیت کے تعلق کی صراحت کے ساتھ وارد ہوئی ہیں بلکی پورے ذخیرہ احادیث سے اپنے امکان کی حد تک فائدہ اٹھایاہے۔ خاص طور پر حکمت قرآن کے مسائل میں مدد مجھےاحادیث سے ملی ہے وہ کسی بھی دوسری چیزسے نہیں ملی"۔[[16]]

شان نزول

شان نزول سے متعلق میرا جو مسلک ہے اور جس کی میں نے اس کتاب میں پیروی کی ہے وہ میں نے اپنے استاذ مولانا فراہی ؒ کے الفاظ میں بیان کئےدیتاہوں۔ مولانا اپنی تفسیر کے مقدمے میں شان نزول سے متعلق لکھتے ہیں:

"شان نزول کا مطلب جیساکہ بعض لوگوں نے غلطی سے سمجھا ہے یہ نہیں ہے کہ وہ کسی آیت یا سورہ کے نزول کا سبب ہوتاہے بلکہ اس سے مراد لوگوں کی وہ حالت اور کیفیت ہوتی ہے جس پر وہ کلام برسر موقع حاوی ہوتاہے ۔کوئی سورۃ ایسی نہیں ہے جس میں کسی خاص امر یا چند خاص امور کو مدنظر رکھے بغیر کلام کیا گیا ہو اور وہ امر جو کسی سورہ میں مدنظر ہوتے ہیں اس سورۃ کے مرکزی مضمون کے تحت ہوتے ہیں لہٰذا اگر شان نزول معلوم کرنا ہوتو اس کو خود سورہ سے معلوم کرو"۔[[17]]

قدماء کی تفسیروں میں شان نزول سورۃ کے بارے میں طویل طوال مباحث پائے جاتے ہیں اور انہوں نے کوشش کی ہے کہ ہر سورت اور ہر آیت کا شان نزول بیان کریں اس سے یہ کجی پیدا ہوئی کہ رطب و یابس سب جمع ہوگیا۔امین احسن اصلاحی تدبرقرآن میں شان نزول کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے کس حدتک شان نزول کی روایات پر اعتماد کیا ہے:

تم اگر طمانیت اور یقین کے طالب ہو تو شان ِنزول کی پیروی میں سر رشتہ نظم ہوکر ہرگز ہاتھ سے نہ دینا ورنہ تمہاری مثال اس مسافر کی مانند ہوجائے گی جو اندھیرے میں کسی چوراہے پر پہنچ گیاہے اور نہیں جانتا کہ اب کدھر جائے ۔شانِِنزول خود قرآن سے اخذ کرنا چاہیے اور احادیث و آثار کے ذخیرے سے صرف وہ چیزیں لینی چاہیے جو نظم قرآن کی موافقت کریں نہ کہ اس کے سہارے نظم کو درہم برہم کرکے رکھ دیں۔

میں نے شان ِنزول کے معاملے میں ٹھیک اسی طریقے کی پیروی کی ہے واقعات کو صرف انہی آیات کی تفسیر میں اہمیت دی ہے جن میں کسی واقعہ کی تصریح یا تلمیح ہے اور ان کو بھی ان تمام ضروری تفصیلات سے الگ کرکے لیاہے جنکی تائید قرآن کے الفاظ یا اشارات سے نہیں ہوتی۔[[18]]

کتب تفسیر

امیں احسن اصلاحی نے اپنی اس تفسیر تدبر قرآن میں کتب تفسیر سے کم سے کم اخذکیاہے سلف کی نمائندہ تفاسیر کے مضامین کے مطالعہ کےبعد اگر کوئی ایسی ضرورت محسوس ہوئی تو اس کو اپنی تفسیر میں لیاہے ورنہ اپنے مقررکردہ اصولوں کے مطابق ہی تفسیر بیان کی ہے ۔کہتے ہیں:

"اس کتاب میں تفسیروں کے حوالے بہت زیادہ نہیں ملیں گے صرف انہی مقامات میں ان کے حوالے میں نے دیے ہیں جہاں مسئلے کی اہمیت اسکی داعی ہوئی ہےیا قاری کے اطمینان کے نقطہ نظر سے حوالے کی ضرورت و اہمیت محسوس ہوئی ہے"۔[[19]]

قدیم آسمانی صحیفے

قرآ ن مجید جگہ جگہ قدیم آسمانی صحیفوں ،تورات ،زبور ،انجیل کے حوالے ہیں بہت سے مقامات پر انبیا ئے بنی اسرائیل کی سر گزشتیں ہیں بعض جگہ یہودا ور نصارٰی کی تحریفات کی تردید اور ان کی پیش کردہ تاریخ پر تنقیدہے۔ نزول قرآن سے پہلے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی بھلائی کیلیے کتب اور صحیفےنازل فرمائے ۔ ان کتب میں تورات ،زبور ،انجیل بہت اہمیت کی حامل ہیں ۔ ان کی اہمیت قصص انبیاء میں دوچند ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ ان کتابوں میں ان کے حاملین نے ردوبدل و تحریف کردی ہے اب کسی مفسر کے لیے ضروری ہے کہ وہ درست اور غلط کی تمیزقرآنی مضامین کے حوالے سے جانچ پرکھ کرے۔ اصلاحی اپنے منہج تفسیر میں اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے ان کتب سماوی سے کس حد تک استفادہ کیا ہے۔

" میں نے ان روایات پر اعتماد نہیں کیا ہے جو ہماری تفسیرکی کتابوں میں منقول ہیں یہ روایات زیادہ ترسنی سنائی باتوں پر مبنی ہیں۔ اس وجہ سے نہ تو یہ اہل کتاب پر حجت ہوسکتی ہیں اور نہ ان سے خود اپنےہی دل کے اندر اطمینان پیدا ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر میں نے بحث و تنقید کی بنیاد اصل ماخذوں یعنی تورات و انجیل پر رکھی ہے جس حدتک قرآن اور قدیم صحیفوں میں موافقت ہےوہ موافقت میں نے دکھادی ہےاور جہاں فرق ہے وہاں قرآن کے بیان کی حجت و قوت واضح کردی ہے"۔[[20]]

تاریخ عرب

قرآن میں عرب کی پچھلی قوموں مثلاً عاد ،ثمود، مدین اور قوم لوط وغیرہ کی تباہی کا ذکر ہے۔ ساتھ ہی ان کے معتقدات،ان کے انبیاء کی دعوت اور اس دعوت پر ان کے ردّعمل کی طرف اشارات ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی عرب میں آمد ،ان کی قربانی ، ان کی دعوت، ان کے ہاتھوں تعمیربیت اللہ اور ان کی برکت سے عرب کے اخلاقی ،تمدنی ،معاشرتی، معاشی حالات کی تبدیلی کا مختلف اسلوبوں کا بیان ہے بعد میں قریش نے دین ابراہیمؑ کو جس طرح مسخ کیا اور بیت اللہ کو جر مرکز توحید تھا جس طرح ایک بت خانہ بنایا اور اسکے نتیجے میں جورسوم اور بدعتیں ظہور میں آئیں انکے جگہ جگہ حوالے ہیں۔

فہم قرآن کیلئے عرب کی تاریخ بھی ایک اہم ذریعہ ہے کیونکہ قرآن مجید عرب میں نازل ہوا اسکے اولین مخاطب عرب ہی تھے اسکے علاوہ قرآن مجید میں عرب اقوام کے واقعات بیان ہوئے ۔مختلف اقوام کی تباہی و بربادی کا ذکر ہے انکے عقائد ،رسوم و رواج اور انبیاء کی دعوت پر ان کا ردعمل بیان ہوا ہے ان سب باتوں کی وضاحت کیلئے عربی تاریخ معاون ثابت ہوسکتی ہے ۔ امین احسن اصلاحی نے تدبر قرآن میں کہاں تک ان معلومات اور تاریخ کو قابل اعتماد سمجھ کر ان کو بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں:

" میں نے جہاں جہاں سے کچھ معلومات حاصل ہونے کی بو پائی ہے وہاں پہنچنے کی کوشش کی ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ ا س کوشش سے مجھے بعض قیمتی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ جن سے میں نے قرآن کے بعض اشارات کھولنے میں مدد لی ہے ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس باب میں مجھے اصلی اعتماد قرآن مجید پر ہی کرنا پڑا ہے۔ میں نے تاریخ کی روایات میں انہی باتوں کو لیا ہے جنکی تائید مجھے خودقرآن سے بھی حاصل ہوگئی ہے۔[[21]]

 



[[1]]       عزمی،اختر حسین، امین احسن اصلاحی۔حیات و افکار، لاہور ، نشریات،۲۰۰۸ء، ص۶۰۔

[[2]]       اصلاحی، امین احسن، مقدمہ تدبر قرآن، لاہور، فاران فاؤنڈیشن، ۲۰۰۱ء، ص۱۳۔

[[3]]       اصلاحی، امین احسن، دیباچہ تدبر قرآن،ص۴۱۔

[[4]]       ایضاً۔

[[5]]       اصلاحی، امین احسن، دیباچہ تدبر قرآن، ص ۱۳۔

[[6]]       ایضاً ، ص۱۶۔

[[7]]       اصلاحی، امین احسن، تدبر قرآن، ص۱۷۔

[[8]]       ایضاً ، ص ۲۳۔

[[9]]       اصلاحی، تدبرِ قرآن، ص۲۲۔

[[10]]    ایضاً ، ص۲۱۔

[[11]]   ایضاً۔

[[12]]    اصلاحی، تدبرِ قرآن، ص۲۴۔

[[13]]    ایضاً ، ص۲۸۔

[[14]]    ایضاً ، ص۲۹۔

[[15]]    اصلاحی، امین احسن، دیباچہ تدبر قرآن ، ص۳۰۔

[[16]]    ایضاً۔

[[17]]    اصلاحی، تدبرِ قرآن، ص۳۱۔

[[18]]    ایضاً ، ص۳۲۔

[[19]]    ایضاً۔

[[20]]    اصلاحی، تدبرِ قرآن، ص۳۳۔

[[21]]    ایضاً ، ص ۳۴۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...