Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

فصل دوم: آیاتِ استفہام میں فہمِ ایمانیات
ARI Id

1695203136242_56118320

Access

Open/Free Access

Pages

223

تفسیر تدبر قرآن میں امین احسن اصلاحی نے بہت سے مقامات پر آیاتِ استفہام کی وضاحت کی ہے اور ان میں اللہ تعالیٰ کے سوال کرنے کے اغراض و مقاصد پر بھی روشنی ڈالی ہے۔اس فصل میں تفسیر تدبر قرآن کی روشنی میں آیاتِ استفہام کی تفسیر و تشریح بیان کی جا رہی ہے آیاتِ استفہام کی اقسام بھی بیان کی گئیں ہیں اور ہر قسم کے حوالے سے ماتحت آیات کی تفسیر کی جا رہی ہے۔

 اللہ ہی ساری کائنات کا نظام چلانے والا ہے کوئی اس کا شریک نہیں عبادت اور رازونیاز کا صرف وہی مستحق ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی صفات جگہ جگہ بےنظیر طریقے سے بیان کی ہیں جن سے ذات الٰہی کا نہایت واضح تصور حاصل ہوتا ہے۔

 دل کے لئے سلامتی اور کوئی صلاح وبھلائی اللہ وحدہ لاشریك له کی توحید کے بغیر ممکن نہیں۔ جس قدر انسان کے پاس توحید کی صداقت اور سلامتی اعتقاد میں پائی جائے گی اسی قدر اس کے لئے سلامتی صدر اور اصلاح قلب پائی جائے گی چنانچہ دل کی تخلیق کا مقصد یہی ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانا جائے اور اس کی شایان شان اس سے محبت کی جائے اور اس کی وحدانیت کا اقرارویقین کیا جائے اور اس بات کو بھی عملی تطبیق دے کہ اللہ ہی دنیا کی ہر شے سے بڑھ کر اس کو محبوب ہےاور دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر وہی ہستی نہایت عظیم ہے، تو دل کی بھلائی بس اسی چیز کے حصول میں ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتے ہیں:

"وَہُوَاللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ لَہُ الْحَمْدُ فِي الْاُوْلٰى وَالْاٰخِرَۃِ وَلَہُ الْحُكْمُ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ"۔[[1]]

" اور وہی اللہ ہے اسکے سوا کوئی عبادت اور بندگی کے لائق نہیں ،اور دنیا اور آخرت میں صرف وہی حمد و ستائش کا سزاوار ہے"۔

اپنے بے انتہا کمالات اور بے شمار احسانات کے لحاظ سے صرف اللہ ہی کی ذات اس بات کی مستحق ہے کہ اسکو اپنا معبود اور الہ مانا جائے صرف اسی کے آگے سر کو جھکایا جائے اور سب سے زیادہ اسی سے محبت کی جائے اسی کی پیروی کی جائے جو قانون اس نے مقرر کیا ہے اسی کے مطابق فیصلے کئے جائیں، زندگی کے ہر موڑ پراسی سے رہنمائی لی جائے اسی میں انسان کے لئے فلاح و نجات ہے۔

اسی طرح منصب رسالت عطیہ الہٰی ہے جسے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اپنا پیامبر بنا کر لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل فرماتا ہے اور تمام انبیاء کرام پر بلا تفریق یقین رکھنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم کرنا ایمان کا حصہ ہے۔ اللہ نے جو مقدس کتابیں نازل فرمائیں ہیں انکے احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کا حکم دیا گیا ہے اور جو ملائکہ ہیں وہ نورانی مخلوق ہیں اور وہ اللہ کے حکم سے ہی اعمال بجالاتے ہیں ان پر یقین کرنا ایمانیات کے اہم ارکان میں سے ایک رکن ہے۔

۱-سورة النساء میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

"اللّٰهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ‌ لَيَجمَعَنَّكُم اِلٰى يَومِ القِيٰمَةِ لَا رَيبَ فِيهِ‌ وَمَن اَصدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِيثًا"۔ [[2]]

"اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ ضرور تمہیں قیامت کے دن اکٹھا کرے گا ،جس کے آنے میں کوئی شک نہیں،اور بات کہنے میں اللہ سے زیادہ کون سچا ہے؟"

نیز فرمایا:

"فَمَا لَـكُم فِى المُنٰفِقِينَ فِئَـتَينِ وَاللّٰهُ اَركَسَهُم بِمَا كَسَبُوا‌ اَ تُرِيدُونَ اَن تَهدُوا مَن اَضَلَّ اللّٰهُ‌ وَمَن يُّضلِلِ اللّٰهُ فَلَن تَجِدَ لَهٗ سَبِيلًا "۔[[3]]

پس تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم منافقین کے باب میں دو گروہ ہو رہے ہو۔ اللہ نے تو انہیں ان کے کیے کی پاداش میں پیچھے لوٹا دیا ہے، کیا تم ان کو ہدایت دینا چاہتے ہو جن کو خدا نے گمراہ کردیا ہے، جن کو خدا گمراہ کردے، تم ان کے لیے کوئی راہ نہیں پاسکتے"۔

اس آیت میں وضاحت کی جا رہی ہے کہ ایمان والے لاکھ چاہیں کہ یہ منافقین ایمان لے آئیں مگر وہ ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو واپس پہلے دین کی طرف لو ٹا دیں اور جس کو اللہ گمراہی میں مبتلا فرما دے اس کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔

اس آیت کی تفسیر میں امین احسن اصلاحیؒ یوں رقمطراز ہیں:

ان آیات میں منافقین کا ذکر کیا جارہا ہے انکی روش کو بیان کیا جا رہا جو بلا کسی عذر معقول کے، محض اپنے رشتوں اور قرابتوں یا جادئداد و املاک کی محبت میں ہجرت سے گریزاں اور مدینہ میں دار الاسلام قائم ہوجانے کے باوجود، اب تک بدستور دارالکفر یا دارالحرب میں پڑے ہوئے تھے۔ ان لوگوں کے پاس چونکہ کوئی عذر شرعی موجود نہیں تھا اس وجہ سے ان کا نفاق واضح تھا لیکن مسلمانوں میں سے کچھ لوگ، جو ان کے ساتھ رشتہ داریاں اور قرابتیں یا خانانی اور قبائلی نسبتیں رکھتے تھے، ان کے معاملے میں بہت نرم تھے۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ ان کو نہ صرف ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے بلکہ ان کے ساتھ ربط و تعلق بھی قائم رکھا جائے، آہستہ آہستہ یہ لوگ سچے اور پکے مسلمان بن جائیں گے۔ قرآن نے اس خیال کے لوگوں کو تنبیہ کی کہ جو لوگ اس طرز پر سوچ رہے ہیں، غلط سوچ رہے ہیں۔ اب یہ منافقین اسلام کی طرف بڑھنے والے نہیں ہیں، انہوں نے اسلام کی طرف جو قدم بڑھایا تھا، دنیا کی محبت میں انہوں نے اپنے اٹھائے ہوئے قدم کو پھر پیچھے ہٹا لیا جس کی سزا میں اللہ نے اپنی سنت کے مطابق ان کو پھر اسی کفر میں دھکیل دیا جس میں وہ پہلے تھے۔ جو لوگ خدا کے قانون اور اس کی سنت کی زد میں آچکے ہوں وہ اب راہ راست پر نہیں آسکتے، کوئی لاکھ چاہے ان کو راہ ملنی ناممکن ہے۔ فرمایا کہ تم ان کی ہدایت کی توقع رکھتے ہو اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ تمہیں بھی اسی کفر میں واپس لے جانے کی آرزو رکھتے ہیں جس میں وہ خود ہیں اس وجہ سے جب تک وہ ہجرت نہ کریں اس وقت تک تم ان کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھو۔ یہ ہجرت ہی ان کے ایمان و اسلام کی کسوٹی ہے۔ اگر وہ اس سے گریز کرتے ہیں تو تم ان کو دشمن اور دشمنوں کا ساتھی سمجھو اور ان کو جہاں پاؤ گرفتار اور قتل کرو۔"۵۸

ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ ان مسلمانوں کا ذکر فرما رہے ہیں جو منافقین کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور انکو چھوڑنا نہیں چاہتے یہ تقریری آیات استفہام ہے اس میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنا اصول سمجھا کر بیان فرما رہے ہیں کہ کون اللہ سے زیادہ سچا ہو سکتا ہے ؟ کوئی نہیں وہی سچی ذات ہے۔ اس سے زیادہ کسی کی بھی بات سچی نہیں ہو سکتی۔

۲۔سورة المآئدہ میں ارشادِ الٰہی ہے:

"مَا المَسِيحُ ابنُ مَريَمَ اِلَّا رَسُولٌ‌ قَد خَلَت مِن قَبلِهِ الرُّسُلُ وَاُمُّهٗ صِدِّيقَةٌ‌ كَانَا يَاكُلٰنِ الطَّعَامَ‌ اُنْظُر كَيفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الاٰيٰتِ ثُمَّ انْظُر اَ نّٰى يُؤفَكُونَ "۔[[4]]

"مسیح ابن مریم تو بس ایک رسول ہیں۔ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرے ہیں اور ان کی ماں ایک صداقت شعار بندی تھیں۔ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ دیکھو، کس طرح ہم ان کے سامنے اپنی آیتیں کھول کر بیان کررہے ہیں۔ پھر دیکھو کہ وہ کس طرح اوندھے ہوئے جا رہے ہیں"۔

اس آیت کی تفسیر میں امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

"اس آیت میں مسیح ابن مریم کے متعلق بیان کیا جا رہا ہے کہ تم نے انہیں خدا بنا کے رکھ دیا حالانکہ وہ اللہ کے رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرچکے ہیں۔ جس طرح وہ خدا کے رسول تھے اسی طرح یہ بھی خدا کے رسول تھے۔ کردار، مزاج، دعوت، عبدیت، بشرہت اور خشیت ہر چیز میں مشترک اور ایک دوسرے سے مشابہ۔ پھربھی ایک فرد کو خدائی میں شریک کردینے کے کیا معنی ؟ ان کی ماں جنہوں نے ان کو پیدا کیا خدا کی نہایت وفادار اور صداقت شعار بندی تھیں، مومنہ، قانتہ، عابدہ، مزید یہ کہ یہ ماں بیٹے دونوں کھانا کھاتے تھے۔ اپنی زندگی کو قائم رکھنے لیے یہ اسی طرح غذا اور پانی کے محتاج تھے جس طرح ہر انسان ان کا محتاج ہوتا ہے۔ ان تمام باتوں کی دلیل خود انجیلوں میں موجود ہے۔ آخر غذا، پانی اور تمام انسانی ضروریات کی محتاج مخلوق خداکی خدائی میں شریک کس طرح کر بیٹھے ہو ؟ غذا کا استعمال تو بشریت کی دلیل ہے ہی لیکن اہل کتاب بالخصوص نصاری کے ہاں تو یہ ایک دلیل بشریت ہے۔ حضرت ابراہیم کے پاس جب فرشتے بیٹے کی ولادت کی خوشخبری اور قوم لوط کے لیے عذاب لے کر آئے تو حضرت ابراہیم نے ان کو بشر سمجھا اور ان کی مہمان نوازی کے لیے ان کے سامنے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت پیش کیا۔ لیکن جب انہوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا تو حضرت ابراہیم فوراً سمجھ گئے کہ یہ بشر نہیں بلکہ خدا کے فرشتے ہیں۔ اسی طرح انجیلوں میں خود حضرت عیسیٰ کے متعلق ہے کہ جب ان کے شاگرد ان کو ایک روح سمجھ کر ان سے ڈرے تو انہوں نے بھنی ہوئی مچھلی کا ایک قتلہ ان کے سامنے کھا کر ان کو اطمینان دلایا کہ وہ کوئی روح نہیں بلکہ آدمی ہیں"۔

 " کائنات کا مالک و خالق تو اللہ وحدہ لاشریک ہے لیکن ان ظالموں نے اس خدائی کو تین میں تقسیم کردیا ہے۔ عقیدہ تثلیث کفر ہے،انسان کو عبادت تو صرف اس ذات کی کرنی چاہیے جو حقیقی معنوں میں نافع و ضار ہے۔ ایسی ذات صرف خدا کی ذات ہے۔ وہی نافع و ضار بھی ہے اور وہی سمیع وعلیم بھی ہے۔ دوسروں کی عبادت سے کیا حاصل جو نہ نافع و ضار ہیں نہ سمیع وعلیم۔"[[5]]

 اس آیت میں تعالیٰ اظہارِ تعجب کے سوال فرما رہے ہیں کہ تم لوگ اللہ کے اولاد اور بیوی اللہ ہی کے بندوں کو قرار دے رہے ہیں ( معاذ اللّٰہ) وہ رب جو سب کا تخلیق کرنے والا ہے وہی سب کو پالنے والا ہے تو کیسے تم اس کی سلطنت میں اسکے بنائے ہوئے انسانوں کو ہی اس کا شریک ٹھہراتے ہو تو ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے اگر یہ دنیا میں تائب ہو جائیں تو انکو معاف کر دیا جائے گا مگر آخرت میں ان کےلئے کوئی معافی نہیں ہے۔

(۳) سورہ التوبہ میں ارشادِ ربانی ہے:

"اَلَم يَعلَمُوا اَنَّ اللّٰهَ يَعلَمُ سِرَّهُم وَنَجوٰهُم وَاَنَّ اللّٰهَ عَلَّامُ الغُيُوبِ‌ "۔[[6]]

"کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ ان کے راز اور ان کی سرگوشی کو جانتا ہے اور اللہ تمام غیب کو جاننے والا ہے"۔

اس آیت میں وضاحت کی جا رہی ہے کہ اللہ پاک سب انسانوں کے احوال سے باخبر ہے ظاہری اعمال سے بھی اور پوشیدہ اعمال سے بھی ،ان کے تمام رازوں کو جانتا ہے اور انکے متعلق غیب کو علم رکھتا ہے اگر انسانوں کو لگے کہ ہم کوئی گناہ چھپ کر کریں گے تو اس کو کوئی دیکھنے والا نہیں ہے اللہ کے فرشتے ہر وقت انسان کے ساتھ ہوتے ہیں اور اسکی حرکات و سکنات کو لکھ رہے ہوتے ہیں تو کیا یہ پھر بھی لاعلم بنے ہوئے ہیں تو ان پر تعجب ہی کیا جا سکتا ہے۔

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

" اتنی طویل تعلیم وتربیت، ایسی مسلسل سعی تطہیر و تز کیہ اور اتنے بیشمار حقائق کے انکشاف کے بعد بھی کیا یہ لوگ اتنے ٹھس اور غبی ہیں کہ اتنی موٹی سے بات بھی یہ نہ سمجھ سکے کہ خدا ان کے سارے راز اور ساری سرگوشیوں کو جانتا ہے اور اللہ تمام غیب کا عالم ہے۔ یہ بات ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ خدا ہر چیز کو فعلاً بھی جانتا ہے صفتاً بھی، اسی وجہ سے یہاں اور اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ قرآن کے دوسرے مقامات میں، خدا کے احاطہ علم کو فعل کے صیغہ سے بھی واضح کیا گیا ہے اور صفت کے صیغہ سے بھی۔ باعتبار نظم یہ آیات آگے والی آیت کی تمہید ہے جس میں ان منافقین کی ان نکتہ چینیوں اور سرگوشیوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے جو وہ مومنین مخلصین کی حوصلہ شکنی کے لیے اپنے حلقوں میں کرتے رہتے تھے۔اس آیت میں یہ بیان ہوا تھا کہ منافقین اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اگلی آیت میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ صرف یہی نہیں کرتے کہ خود خرچ نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو بھی خدا کی راہ میں خرچ کرتے دیکھ نہیں سکتے۔ جس کو خرچ کرتے دیکھتے ہیں اس کو مذاق کا نشانہ بنا لیتے ہیں جو فیاض اور مخلص مسلمان فیاضی اور خوش دلی سے خدا کی راہ میں دیتے ہیں ان کو تو کہتے ہیں کہ یہ ریاکار اور شہرت پسند ہے۔ اپنی دینداری اور سخاوت کی دھونس جمانے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ جو غریب بےچارے کچھ رکھتے ہی نہیں، اپنی محنت مزدوری کی گاڑھی کمائی ہی میں سے اللہ کی راہ میں کرچ کرتے ہیں، ان کی حوصلہ شکنی کے لیے ان کا یہ مذاق اڑاتے ہیں "۔[[7]]

"منافقین خود اسلام کے لیے نہ کوڑی خرچ کرنا چاہتے تھے نہ اس پر راضی تھے کہ کوئی دوسرا خرچ کرے۔ اپنی اس خواہش کے برخلاف وہ دوسروں کو جب دیکھتے کہ وہ اسلام کے لیے سب کچھ اس دریادلی سے لٹا رہے ہیں گویا اپنے ہی گھر بھر رہے ہیں، یہاں تک کہ مزدور اپنی مزدوری ہی میں سے، بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر، اس خوشی سے دیتا ہے گویا اپنی سیر آدھ سیر کھجور یا جو کے عوض دولت کونین خرید رہا ہے تو ان منافقین کے سینے پر سانپ لوٹ جاتا۔ وہ غصہ سے کھولتے اور حسد سے جلتے۔ پھر اپنے دل کا بخار طعن وتشنیع، طنز اور پھبتی سے نکالتے۔ اللہ کی ڈھیل ہے کی جس طرح یہ تو اہل ایمان کا مذاق اڑا رہے ہیں لیکن اللہ ان کا مذاق اڑا رہا ہے کہ ان کی رسی دراز کیے جا رہا ہے کہ یہ خوب کلیلیں کرلیں تب ان کو وہاں سے پکڑے جہاں سے پکڑے جانے کا ان کو گمان بھی نہ ہو۔"[[8]]

اس آیت میں بطور استعجاب اور حسرت کے اظہار کے لئے استفہام کیا گیا ہے کہ اتنا سمجھانے اور اتنے معجزات کو دیکھنے کے بعد اللہ تبارک و تعالی جانتے ہیں یہ جو بھی کر رہے ہیں پھر بھی یہ سرگوشی کرتے ہیں ہیں ایمان والوں کے خلاف ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں تو ان کی عقل کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے اسی لیے یہاں پر بطور حسرت استفہام کیا گیا ہے۔

(۴)سورہ یونس میں ارشاد خداوندی ہے:

"قُل مَن يَّرزُقُكُم مِّنَ السَّمَآءِ وَالاَرضِ اَمَّن يَّملِكُ السَّمعَ وَالاَبصَارَ وَ مَن يُّخرِجُ الحَـىَّ مِنَ المَيِّتِ وَيُخرِجُ المَيِّتَ مِنَ الحَـىِّ وَمَن يُّدَبِّرُ الاَمرَ‌ فَسَيَـقُولُونَ اللّٰهُ‌ فَقُل اَفَلَا تَتَّقُونَ۔ "

"اور ان سے پوچھو، کون تم کو آسمان اور زمین سے روزی دیتا ہے ؟ یا کون ہے جو سمع اور بصر پر اختیار رکھتا ہے اور کون ہے جو زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور کون ہے جو ساری کائنات کا انتظام فرماتا ہے، تو جواب دیں گے اللہ۔ تو ان سے کہو کہ کیا تم اس اللہ سے ڈرتے نہیں ؟"۔

نیز فرمایا"

"فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الحَـقُّ فَمَاذَا بَعدَ الحَـقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ‌‌ فَاَنّٰى تُصرَفُونَ "۔[[9]]

"پس وہی اللہ تمہارے رب حقیقی ہے تو حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا ہے تو کہاں تمہاری عقل الٹ جاتی ہے؟"

اس آیت کی تفسیر میں امین احسن اصلاحیؒ یوں رقمطراز ہیں:

" اس آیت میں اہل عرب کی روش بیان کی جا رہی ہے کہ وہ کائنات کا خالق ومالک اور مدبر اصلاً اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے لیکن ساتھ ہی شرک میں بھی مبتلا تھے۔ وہ جن دیوتاؤں کو پوجتے تھے ان کے متعلق ان کا عقیدہ یہ نہیں تھا کہ یہ آسمان و زمین کے خالق ہیں یا سورج اور چاند کے بنانے ہیں یا زندگی اور موت پر متصرف ہیں یا نظام کائنات کا سر نظام ان کے ہاتھ میں ہے بلکہ صرف یہ مانتے تھے کہ یہ خدا کے محبوب اور چہیتے ہیں۔ خدا ان کی سنتا ہے، جو کام خدا سے کرانا چاہیں کر اسکتے ہیں۔ ان کو اگر راضی رکھا جائے تو یہ خدا سے سفارش کر کے دنیا کی نعمتیں بھی دلواتے ہیں اور اگر بالفرض مرنے کے بعد اٹھنا ہی ہوا اور حساب و کتاب کی نوبت آئی تو اس وقت بھی یہ دستگیری کریں گے اور اپنی بندگی کرنے والوں کو نہ صرف بخشوا لیں گے بلکہ اونچے اونچے درجے دلوائیں گے۔ قرآن نے یہاں خدا سے متعلق ان کے انہی اصولی مسلمات کو بنیاد قرار دے کر ان کو خبردار کیا ہے کہ جب تم ان ساری باتوں کو مانتے ہو تو نہ تمہارے لیے آخرت کے انکار کی گنجائش ہے اور نہ خدا کے شریک ٹھہرانے کا کوئی جواز ہے۔ جب خدا ہی مردہ سے زندہ کو اور زندہ سے مردہ کو برآمد کرتا ہے اور تمام خلق و تدبیر اسی کے ہاتھ میں ہے تو وہ کسی کا محتاج کب ہے کہ اپنی خدائی میں کسی کو شریک بنائے اور اس کے لیے اس امر میں دشواری کیا ہے کہ وہ سب کو مرنے کے بعد دوبارہ اٹھا کھڑا کرے ؟ مطلب یہ کہ تمہاری یہ باتیں تمہارے اپنے مسلمات کے خلاف ہیں۔ اس طرح تم اپنے ہی منہ سے اپنے کو جھٹلاتے ہو۔ یعنی جب تم یہ ساری باتیں مانتے ہو تو اس خدا کے قہر و جلال سے ڈرتے نہیں کہ اس کی طرف بےجوڑ باتیں منسوب کر کے اس کی تمام اعلی صفات کی نفی کردیتے ہو۔ جن صفات کا اہل عرب کو اعتراف بھی تھا اور جو صحیح بھی تھیں۔ ان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ وہی اللہ جس کے لیے یہ صفتیں مانتے ہو وہی تمہارا رب حقیقی بھی ہے"۵۶

اہل عرب کے جو اعترافات بیان کئے گئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو نہ صرف خالق و رازق، سمع و بصر کا مالک، زندگی اور موت کا منبع مانتے تھے بلکہ کائنات کا مدبر و منتظم بھی اسی کو تسلیم کرتے تھے۔ ہمارے نزدیک اہل عرب کے عقائد سے متعلق اصل حقیقت یہی ہے۔ اہل عرب اپنے معبودوں کو کائنات کے نظم و انصرام کا اصل سرچشمہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ یہ سمجھتے تھے کہ جس طرح ایک بادشاہ اپنے مقربین کو کچھ اختیارات و فرائض سونپ دیتا ہے جو صرف تفویض کردہ لیکن تقرب و اعتماد کے سبب سے وہ عملاً مقربین ہی کے حقوق و اختیارات بن جاتے ہیں۔ اسی طرح کے کچھ اختیارات خاص طور پر، رزق اور اولاد وغیرہ سے متعلق، ان کے شرکاء کو بھی حاصل ہیں۔ قرآن نے بہت سے مقامات پر ان کے اس تصور کی غلطیوں پر تنقید کی ہے اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے زمانے کے مشرکین اور اہل عرب کے مشرکین میں کچھ زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ اگر ان سے سوال کیا جائے کہ تمہارا رب کون ہے تو جواب اللہ ہی دیتے ہیں ہیں مگر ان کی عقلوں پر پردہ پڑا ہوا ہے ہے کہ کہ سمجھنے کے باوجود گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں وہ سراسر بہکے پھر رہے ہیں ان کی عقلوں پر پردہ پڑا ہوا ہے بس وہ حق کے بعد گمراہی میں مبتلا ہیں ۔اس آیت میں مشرکین کی ذہنی استعداد کو جانچنے کے لئے سوال کیا جا رہا ہے کہ حق کو پہچانتے بھی ہیں مگر پھر بھی گمراہی میں مبتلا ہیں۔

(۵) سورہ الرعد میں ارشادِ حق تعالیٰ ہے:

"قُل مَن رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ قُلِ اللّٰهُ‌ قُل اَفَاتَّخَذتُم مِّن دُونِهٖ اَولِيَآءَ لَا يَملِكُونَ لِاَنفُسِهِم نَفعًاوَّلَاضَرًّاقُل هَل يَستَوِى الاَعمٰى وَالبَصِيرُ اَم هَل تَستَوِى الظُّلُمٰتُ وَالنُّورُ اَم جَعَلُوا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ خَلَقُوا كَخَلقِهٖ فَتَشَابَهَ الخَـلقُ عَلَيهِم‌ قُلِ اللّٰهُ خَالِـقُ كُلِّ شَىءٍ وَّهُوَ الوَاحِدُ القَهَّارُ‏ "۔ [[10]]

"ان سے پوچھو آسمانوں اور زمین کا مالک کون ہے ؟ کہہ دو ، اللہ ! ان سے پوچھو تو کیا اس کے بعد تم نے اس کے سوا ایسے کارساز بنا رکھے ہیں جو خود اپنی ذات کے لیے بھی نہ کسی نفع پر کوئی اختیار رکھتے اور نہ کسی ضرر پر۔ ان سے پوچھو، کیا اندھے اور بینا دونوں یکساں ہوجائیں گے ! یا کیا روشنی اور تاریکی دونوں برابر ہوجائے گی ! کیا انہوں نے خدا کے ایسے شریک ٹھہرائے ہیں جنہوں نے اسی کی طرح خلق کیا ہے جس کے سبب سے ان کو خلق میں اشتباہ لاحق ہوگیا ہے ! بتا دو کہ ہر چیز کا خالق اللہ ہی ہے اور وہ واحد اور سب پر حاوی ہے"۔

اس آیت میں وضاحت کی جا رہی ہے کہ جس طرح دیکھنے والا اور اندھا برابر نہیں ہو سکتے،روشنی اور اندھیرا برابر نہیں ہوسکتے بالکل ایسے ہی ایمان والے اور کافر برابر نہیں ہو سکتے، جب یہ اس چیز کا اقرار کرتے ہیں کہ سب کا مالک اور خالق صرف اللہ ہے تو پھر اسکی بادشاہی میں کیوں اورورں کو شریک ٹھہراتے ہیں اور ان کو نفع و نقصان کا مالک سمجھتے ہیں تو کیا ان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہو گئی ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحی یوں رقمطراز ہیں:

" ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کا مالک اور کا ئنات کا رب کون ہے ؟ پھر فرمایا کہ ان کو بتا دو کہ ان سب کا مالک اور رب خدا ہی ہے۔ ہم دوسرے مقام میں یہ واضح کرچکے ہیں کہ اہل عرب آسمانوں اور زمین کا خالق ومالک اصلاً اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے لیکن اولیاء اور شرکاء انہوں نے اور بھی بنا لیے تھے جن کی نسبت ان کا گمان یہ تھا کہ یہ خدا کے بڑے چہیتے ہیں، ان کی عبادت خدا کی قربت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ انہی کی عنایت سے تمام دنیوی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور اگر آخرت کا کوئی مرحلہ بالفرض پیش آیا تو یہ ان کو بخشوا لیں گے۔ ۭ قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ لَا يَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا۔ یعنی جب آسمانوں اور زمین کا مالک وہی ہے تو ان سے پوچھو کہ کس منطق سے انہوں نے خدا کے دوسرے ولی اور کارساز بنالیے جن کا حال یہ ہے کہ یہ بےچارے دوسروں کو کوئی نفع پہنچانا یا ان سے کسی ضرر کو دفع کرنا تو الگ رہا خود اپنے کو کوئی نفع پہنچانے یا اپنے اوپر کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے پر بھی قادر نہیں ہیں۔ " اعمی اور بصیر" کے الفاظ یہاں عقلی و اخلاقی اندھوں اور بیناؤں کے مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں۔ اسی طرح " ظلمٰت " سے مراد عقلی اور اخلاقی تاریکیاں ہیں اور " نور " سے مراد عقلی و ایمانی روشنی۔ تم خدا کے شریک مانتے ہو جن کی نسبت تمہارا گمان یہ ہے کہ وہ اپنے پجاریوں کو، خواہ ان کے اعمال و افعال اور عقائد و نظریات کچھ ہوں، خدا کی پکڑ سے بچا لیں گے دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ خدا کی نگاہ میں اندھے اور بصیر، اور تاریکی اور روشنی دونوں یکساں ہوئے۔ اس طرح تم نے اس حق و عدل کی بنیاد ہی ڈھا دی جس پر یہ آسمان و زمین قائم ہیں اور جس کی نفی کے بعد یہ سارا عالم ایک اندھیر نگری یا کسی کھلنڈرے کا کھیل بن کے رہ جاتا ہے۔ شرک کس دلیل کی بنا پر ؟ یعنی آخر کس دلیل کی بنا پر انہوں نے خدا کے شریک بنائے ہیں۔ کیا مخلوقات میں کچھ ان کے مزعومہ شرکاء کی پیدا کی ہوئی مخلوقات بھی ہیں جن کے سبب سے ان کو یہ گھپلا پیش آگیا ہے کہ یہ متعین نہیں کرپا رہے ہیں کہ کس کو خدا کی مخلوق قرار دیں اور کس کو اپنے شرکاء کی، مطلب یہ ہے کہ خالق تو ہر شے کا اللہ ہی ہے اور اس حقیقت سے تمہیں بھی انکار نہیں ہے تو پھر خدا کی خلق میں تم نے دوسروں کو کس دلیل سے شریک بنا کے رکھ دیا۔ لفظ " قہار " کا مفہوم ہے سب کو اپنے کنٹرول میں رکھنے والا، مطلب یہ ہے کہ وہ خالق بھی ہے اور سب کو اپنے کنٹرول میں رکھنے پر قادر بھی ہے تو ضرورت کیا ہے جس کی بنا پر دوسرے شریکوں کو اس کی خدائی میں شریک مانا جائے۔"[[11]]

اس آیت میں اللہ تعالیٰ مشرکین کو ترغیب دلانے کے لئے سوال فرما رہے ہیں۔ اس آیت میں سوال کرنے کا مقصد کہ جب حق تمہارے سامنے واضح ہو چکا ہے تم حقیقت کو جان گئے ہو اس کے باوجود بھی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہر حالانکہ وہ بتا چکا ہے کہ وہ اپنے بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں تو پھر ان لوگوں کو خدا کے قرب کا ذریعہ کیوں سمجھتے ہو۔

(۶)سورہ الانبیاء میں ارشادِ باری ہے:

"اَوَلَم يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ كَانَـتَا رَتقًا فَفَتَقنٰهُمَا‌ وَجَعَلنَا مِنَ المَآءِ كُلَّ شَىءٍ حَىٍّ‌ اَفَلَا يُؤمِنُونَ"۔[[12]]

"کیا ان کفر کرنے والوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین دونوں بند ہوتے ہیں، پھر ہم ان کو کھول دیتے ہیں اور ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا، تو کیا وہ پھر بھی ایمان نہیں لا رہے ہیں؟"۔

اس آیت میں وضاحت کی جا رہی ہے کہ تم دیکھتے ہو آسمان میں کوئی شگاف یا سوراخ نہیں ہے بالکل بند ہے اور اس میں سے ہم بارش برساتے ہیں جس سے تم فائدہ حاصل کرتے ہواور اسی پانی سے ہم زندگی عطا کرتے ہیں اور زمین اسی پانی کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے اور مختلف قسم کی نباتات اگاتی ہے تو یہ سب کچھ کرنے کا اختیار اللہ کے پاس ہے کیا تم ان نشانیوں کو دیکھنے کے بعد ایمان لانے میں تردد کا شکار ہو۔

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

اس آیت میں آفاق کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی کہ وہ کسی نئی نشانی کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں، خدا کی یہ کائنات، اس کی قدرت، رحمت، ربوبیت اور توحید و معاد کی نشانیوں سے بھری پڑی ہے، ان نشانیوں پر کیوں نہیں غور کرتے ؟ جب وہ ان ساری نشانیوں سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ اگر کوئی نئی نشانی دکھا دی گئی تو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی ! دل میں ہدایت کے اترنے کی اصل راہ عقل ہے، جب انہوں نے عقل پر پٹی باندھ رکھی ہے تو ان کو ہدایت کس طرح نصیب ہو سکتی ہے!آفاق کی شہادت توحید، معاد اور جزا اسی مفہوم میں بیان ہوئے ہیں۔ رتق کے معنی بند اور رفتق کے معنی کھولنے کے ہیں۔ آسمان اور زمین کے بند ہونے اور ان کے کھولنے سے مقصود یہاں اس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ دیکھتے ہو کہ آسمان بند ہوتا ہے، اس سے بارش نہیں ہوتی، اسی طرح زمین بند ہوتی ہے اس سے سبزہ نہیں اگتا، پھر دیکھتے ہو کہ آسمان کھلتا ہے اور اس سے دھڑا دھڑ پانی برسنے لگتا ہے اور اس کے بعد خدا زمین کو بھی کھول دیتا ہے اور وہ اپنی نباتات کے خزانے اگلنا شروع کردیتی ہے کل تک زمین بالکل خشک اور مردہ پڑی ہوئی تھی لیکن بارش کے ہوتے ہی اس کے گوشے گوشے میں زندگی کے آثار نمودار ہوگئے۔

اللہ نے اپنی اس کائنات میں یہ نشانیاں اس لئے تو نمایاں فرمائی تھیں کہ لوگوں کو ان سے صحیح راہ کی طرف رہنمائی حاصل ہو !غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اسی ایک مشاہدہ کے اندر ان تمام باتوں کی دلیلیں موجود ہیں جن کی قرآن ان کو دعوت دے رہا تھا۔اس میں نہایت واضح دلیل توحید کی موجود ہے۔ اگر آسمان میں الگ الہ اور زمین میں الگ معبود ہوتے تو آسمان کو کیا پڑی تھی کہ وہ زمین کو زندہ و شاداب رکھنے کے لئے اپنے ذخیرے کا پانی صرف کرتا۔ زمین و آسمان میں یہ زوجین کی سی سازگاری اس بات کی صاف شہادت ہے کہ دونوں کا خالق ومالک ایک ہے اور دونوں پر اسی کا ارادہ کار فرما ہے۔دوسری شہادت اس کے اندر معاد کی ہے۔ جب زمین خشک و بےآب وگیاہ، یا بالفاظ دیگر مردہ ہو کر از سر نو زندہ و شاداب ہوجاتی ہے تو موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو کیوں مستبعد خیال کیا جائے !تیسری شہادت اس کے اندر انسان کے مسئول ہونے کی ہے۔ جب خدا نے انسان کی پرورش کے لئے یہ کچھ اہتمام فرمایا ہے کہ اپنے آسمان و زمین، سورج چاند، اور آب وہوا ہر چیز کو اس کی خاطر سرگرم رکھتا ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس کو بالکل شتر بےمہار بنا کر چھوڑ دے، محاسبہ کا کوئی دن ضرور ہے"۔[[13]]

اس آیت میں معلومات کو دہرانے اور پائیدار بنانے کے لئے استفہام کیا گیا ہے۔ اس میں آفاقی نشانیوں کی طرف اشارہ کر کے انسان کے ایمان کو استحکام بخشا جا رہا ہے کہ ان سب کے باوجود جو ایمان لاتے ہیں انکے لئے فایدہ ہی فائدہ ہے اور جو لوگ ان نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود مزید نشانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں وہ ان کو دیکھ کر بھی ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

(۷) سورہ العنکبوت میں اللہ پاک فرماتے ہیں:

"اَوَلَم يَكفِهِم اَنَّا اَنزَلنَا عَلَيكَ الكِتٰبَ يُتلٰى عَلَيهِم‌ اِنَّ فِى ذٰلِكَ لَرَحمَةً وَّذِكرٰى لِقَومٍ يُّؤمِنُونَ "۔[[14]]

"کیا ان کے لئے یہ چیز کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب اتاری وہ ان کو پڑھ کر سنائی جا رہی ہے۔ بیشک اس کے اندر رحمت اور یاددہانی ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائیں۔"

اس آیت میں قرآن مجید کی عظمت کا بیان ہے کہ ہم نے تم پر ایسی کتاب نازل فرمائی جو حکمت سے بھری ہوئی ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے متقین (خدا سے ڈرنے والوں) کے لئے ہدایت ہے جب اسکی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو دل پر اثر ہو جاتا ہے اس کے اندر رحمت پوشیدہ ہے اسکے پڑھنے سے برکات کا نزول ہوتا ہے اتنے بڑے معجزے کے بعد انکار کی کہاں گنجائش باقی ہے کیونکہ انکو چیلنج بھی کیا گیا کہ اس جیسی ایک آیت ہی بنا لاؤجبکہ وہ ایسا کرنے سے قاصر رہے۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں:

"اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا جا رہا ہے کہ کیا ان کے لئے تمہاری نبوت و رسالت کی یہ دلیل کافی نہیں ہے کہ ہم نے تمہارے اوپر ایک کتاب اتاری ہے جو ان کو پڑھ کر سنائی جا رہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب ایک پوری کتاب ان کو سنائی جا رہی ہے جو اپنے دعوے پر خود حجت ہے اور اس کا سنانے والا بھی سامنے موجود ہے تو اس عظیم نشانی کے ہوتے کسی اور نشانی کی ضرورت کہاں باقی رہی۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہوا ہے کہ کسی معجزے یا کسی نشانی عذاب کے بجائے اس نے ان پر اپنی کتاب نازل فرمائی۔ اگر وہ کسی حسی معجزہ دکھاتا تو وہ بہرحال ایک وقتی اثر ہوتا اور اگر کوئی نشانی عذاب دکھاتا تو وہ ایک آفت ہوئی اور معلوم نہیں وہ کس شک میں نمودار ہوتی۔ یہ تو اللہ کا بہت بڑا فضل ہوا ہے کہ اس نے ان پر کتاب اتاری جو ان کے واسطے ایک دائمی رحمت اور یاد دہانی ہے بشرطیکہ وہ اس کی قدر کریں اور اس پر ایمان لائیں۔ لفظ ’ ذکری ‘ کا مطلب کہ قرآن درحقیقت انسان کو انہی حقائق کی یاد دہانی کرتا ہے جو خود اس کی عقل و فطرت کے اندر موجود ہیں لیکن وہ ان کو بھولا ہوا ہے۔ قرآن کی صداقت ثابت کرنے کے لئے کسی خارجی نشانی یا معجزے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ انسان قرآن کی رہنمائی میں اپنی فطرت کے خزانوں کا جائزہ لے۔ وہ خود پکار اٹھے گا کہ قرآن جو کچھ بتا رہا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے۔"۔

اس آیت میں رویہ سازی کے بارے میں استفہام کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اگر اتنا بڑا معجزہ "قرآن مجید" کو دیکھ کر ایمان نہیں لا رہے تو ان سے کوئی اور معجزے کے بعد بھی توقع نہیں کی جا سکتی۔ یہ کہنا کہ کوئی اور معجزہ دکھاؤ تو ہم ایمان لے آئیں گے تو یہ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ انکے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں یہ حق بات کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔

(۸)سورہ یسین میں ارشادِ الٰہی ہے:

"اَوَلَم يَرَوا اَنَّا خَلَقنَا لَهُم مِّمَّا عَمِلَت اَيدِينَا اَنعَامًا فَهُم لَهَا مٰلِكُونَ‏ "۔[[15]]

"کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ ہم نے اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لئے چوپائے پیدا کیے، پس وہ ان کے مالک ہیں!"

اس آیت کی تفسیر میں امین احسن اصلاحیؒ یوں رقمطراز ہیں:

 "اس آیت میں ربوبیت کی طرف توجہ دلائی ہے اور پھر خدا ہی کی شکر گزاری کا مطالبہ کیا ہے اسی طرح یہاں بھی قرآن کی دعوت کو تائید میں اپنی ربوبیت کی بعض نشانیوں کی طرف توجہ دلانے کے بعد خدا ہی کی شکر گزاری کا مطالبہ کیا ہے۔ گویا تمہید کا مضمون خاتمہ میں ایک نئے اسلوب سے پھر سامنے آگیا۔ "فرمایا "کہ کیا وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ ہم نے اپنی قدرت و حکمت سے چوپائے بنائے اور پھر ان کو ان کا مالک بنا دیا۔ وہ ان پر پوری آزادی سے مالکانہ تصرف کرتے اور اپنی تمام ضروریات میں ان کو استعمال کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں خود اپنے وجود سے شاہد ہیں کہ صرف خدا ہی کی قدرت و حکمت نے ان کو وجود بخشا ہے، کسی دوسرے کی مجال نہیں تھی کہ ان کو وجود میں لاسکتا یا ان کو انسان کا مطیع و فرمانبردار بنا سکتا۔ یہ محض رب کریم کی کریمی ہے کہ اس نے ان کو وجود میں لاسکتا یا ان کو انسان کا مطیع و فرمانبردار بنا سکتا۔ یہ محض رب کریم کی کریمی ہے کہ اس نے ان کو اپنی قدرت و حکمت سے بنایا اور پھر ان کو انسان کی غلامی میں دے دیا۔ "

 انسان اگر غور کرے کہ قدرت کے اس بےپایاں انعام کے عوض میں اس پر کوئی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے یا نہیں ؟ قرآن اس سوال کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا اور اس کے نتائج سے آگاہ کرنا چاہتا ہے لیکن بےوقوف لوگ حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ یہ محض خدا کی ربوبیت و رحمت ہے کہ اس نے ان چوپایوں کو انسان کی معاشی ضروریات کے لئے سازگار بنایا اور پھر ان کو اس طرح انسان کا مطیع بنا دیا ہے کہ وہ جس طرح چاہے ان کو استعمال کرتا ہے۔ اگر خدا نہ چاہتا تو یہ چوپائے نہ تو انسان کی ضروریات کے لئے سازگار ہوتے اور نہ وہ ان کو اپنا مطیع بنا سکتا۔ آخر دنیا میں کتنے جانور ایسے ہیں جو نہ تو انسانی ضروریات کے لئے کارآمد ہیں اور نہ وہ ان کو چوپایوں کی طرح اپنا مطیع بناسکتا ہے۔ فرمایا کہ ان چوپایوں ہی میں سے بعض وہ ہیں جن سے وہ سواری کا کام لیتا ہے اور بعض وہ ہیں جن سے وہ اپنی غذائی ضروریات پوری کرتاہے۔یعنی سواری اور غذا کے علاوہ اور بھی بہت سے فوائد ان سے حاصل ہوتے ہیں۔ ان کی کھال، ان کے بال، ان کی ہڈی، ان کے بول و براز، غرض کون سی چیز ہے جو انسان کے لئے نافع نہیں ہے۔ اسی طرح ان کے دودھ اور اس دودھ سے بنی ہوئی پینے کی مختلف چیزیں لسی، دہی، چھاچھ۔ سب انسان کے لئے خوشگوار، لذیذ اور صحت بخش ہیں۔ تو کیا یہ نعمتیں ان سے یہ مطالبہ نہیں کرتیں کہ جس رب کی بخشی ہوئی نعمتوں سے وہ فائدہ اٹھا رہے ہیں اس کے شکر گزاراور فرمانبردار بھی بنیں۔ یہ نعمتیں انسان کو اس بات کی یاددہانی کروا رہی ہیں کہ ایسی واضح حقیقت کو سمجھنے اور ماننے کے بجائے اس کو شاعری قرار دے کر اس سے گریز کی راہیں کیوں سوچ رہے ہو۔اس آیت میں اللہ پاک اپنے مظاہر قدرت کا ذکر کرنے کے بعد باطل کے رد کرنے کیلئے استفہام فرما رہے ہیں ۔[[16]]

(۹)سورہ الحجرات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"قُل اَتُعَلِّمُونَ اللّٰهَ بِدِيـنِكُم وَاللّٰهُ يَعلَمُ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الاَرضِ‌ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىءٍ عَلِيمٌ "۔ [[17]]

"کہہ دو ، کیا تم اپنے دین سے اللہ کو آگاہ کر رہ ہو ! درآں حالیکہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز سے باخبر ہے"۔

 اس آیت میں منافقین کی منافقانہ روش کو بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم ایمان لائے گویا وہ اللہ کو بتا رہے ہیں اپنے ایمان لانے کی خبریں پھیلا رہے ہیں تا کہ مسلمانوں کو دھوکہ دے سکیں۔ وہ سوچتے ہیں جیسے اللہ پاک کو انکے دل کے ارادوں کی خبر ہی نہیں ہےوہ تو انکے دل میں آئے ہوئے ہر خیال سے واقف ہے

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

 "یعنی یہ لوگ بڑے سرپرستانہ انداز میں کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں تو ان سے پوچھو کہ کیا تم لوگ اللہ کو اپنے دین سے آگاہ کر رہے ہوا اگر یہ لوگ اللہ کو آگاہ کر ہے ہیں تو ان کو بتا دو کہ اللہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور اللہ ہر بات سے باخبر ہے۔ وہ فعلاً بھی ہر چیز کو جانتا ہے اور صفتاً بھی ہر بات سے باخبر ہے۔ کوئی چیز بھی اس سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کو اپنے ایمان پر ناز ہے تو اس پر وہ کسی ایسے کے سامنے ناز کریں جو ان کے دین و ایمان سے بے خبر ہو۔ اس کے سامنے ناز کرنے سے کیا فائدہ جو اس کائنات کے ہر سرو علانیہ سے اچھی طرح آگا ہ ہے۔ کیا جو ہر چیز سے آگاہ ہے وہ ان کے ایمان کے طول و عرض سے آگاہ نہیں ہوگا۔"[[18]]

اس آیت میں غلطی کے ادراک کے لئے استفہام کیا گیا ہے کہ کیا تم اللہ کو اپنا دین سکھاؤ گے؟ ( نعوذ باللہ) اللہ پاک ہر چیز کا جاننا والا ہے ۔وہ ہر طرح کے اسرار و رموز سے واقف ہے۔ تم لوگ سوچتے ہو کہ مسلمانوں کو اپنی باتوں کے شکنجے میں پھنسا رہے ہو انکے پیچھے سے مذاق اڑاتے ہو حالانکہ تم اپنے آپ کو ہی دھوکہ میں ڈال مبتلا کر رہے ہو تمہارے لئے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی خسارہ ہی خسارہ ہے۔

(۱۰) سورہ ق میں ارشادات الہی ہے:

"اَفَلَم يَنظُرُوا اِلَى السَّمَآءِ فَوقَهُم كَيفَ بَنَينٰهَا وَزَ يَّـنّٰهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ "۔[[19]]

"کیا انہوں نے اپنے اور آسمان کو نہیں دیکھا، کس طرح ہم نے اس کو بنایا اور اس کو سنوارا اور کہیں اس میں کوئی رخنہ نہیں !"۔

 اس آیت میں آسمان کے بنانے اور اسکو ستاروں سے مزین کئے جانے کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے کہ تم دیکھتے نہیں کیسے ہم نے آسمان کو بنایا اور پھر اسے ستاروں سے مزین فرمایا اس میں کہکشاں، ستارے جڑ دئیے جو رات کو بہت خوب صورت سماں پیش کرتے ہیں اور اس میں کوئی بھی رخنہ یا دراڑ نہیں ہے ان آفاقی نشانیوں کو دیکھ کر رب کو جھٹلانا کیونکر ممکن ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں:

اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہےیہ اللہ تعالیٰ نے مکذبین قیامت کو اپنی قدرت، ربوبیت اور حکمت کی ان بدیہی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے جو اوپر اور نیچے ہر جگہ نظر آتی ہیں اور ہر اس شخص کے اندر بصیرت اور یاد دہانی پیدا کرنے کے لئے کافی ہیں جس کے سینہ میں اثر پذیر اور متوجہ ہونے والا دل ہو۔سب سے پہلے اپنی عظیم قدرت و حکمت کی طرف توجہ دلائی کہ کیا انہوں نے کبھی اپنے اوپر آسمان کی طرف نگاہ نہیں اٹھائی کہ دیکھتے کہ کس طرح ہم نے اس کو بلند کیا، اس کو ستاروں سے سجایا اور ہماری قدرت و حکمت کا اعجاز ہے کہ اس کا پیدا کرنا تو درکنار کسی رخنہ کی نشان دہی وہ نہیں کرسکتے۔ مطلب یہ ہے کہ جس کی قدرت و حکمت کا یہ کرشمہ وہ اپنے سروں پر دیکھتے ہیں، کیا اس کے لئے ان کے مرنے کے بعد ان کو دوبارہ پیدا کردینا مشکل ہوجائیگا ؟ اس کے بعد قدرت و حکمت کے ساتھ اپنی ربوبیت اور پرورش کے اہتمام کی طرف بھی توجہ دلائی۔ فرمایا کہ وہ اپنے نیچے دیکھیں کہ کس طرح ہم نے زمین کو ان کے قدموں کے نیچے بچھایا ہے اور اس کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے اس کے اندر پہاڑوں کی میخیں گاڑ دی ہیں اور اس میں طرح طرح کی چیزیں اگا رکھی ہیں جو ان کی غذا کے کام آتی ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جس پروردگار کی قدرت و حکمت اور جس کی پروردگاری کی یہ شانیں وہ دیکھ رہے ہیں کیا اس کے لئے دشوار ہے کہ وہ ان کے مرجانے کے بعد ان کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرے ؟ کیا جس پروردگار نے ان کی پرورش کا یہ اہتمام کر رکھا ہے وہ ان کو اس طرح چھوڑے رکھے گا کہ وہ کھائیں پئیں، عیش کریں، ان سے کبھی اس باب میں کوئی پرسش نہیں ہوگی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کے اندر اپنی قدرت، حکمت اور ربوبیت کی یہ شانیں اس لئے نمایاں فرمائی ہیں کہ جو لوگ توجہ کرنے والے ہیں، ان کے اندر یہ بصیرت اور یاد دہانی پیدا کریں"۔ [[20]]

نیز فرمایا ہے:

"اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللہَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ"۔ [[21]]

"کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا وہ اس بات پر قادر رہنے کہ وہ ان کی طرح پھر پیدا کر دے"۔

"منکرین قیامت کے اسی شبہ کا جواب سورة نازعات میں ان الفاظ میں دیا ہے۔"کیا تمہارا پیدا کیا جانا زیادہ کٹھن ہے یا آسمان کا بنانا ، اس کے گنبد کو بلند کیا، پھر اس کو اچھی طرح ہموار کیا اور اس کی رات کو ڈھانک دیا اور اس کے دن کو بےنقاب کیا اور اس کے بعد زمین کو بچھایا۔ اس سے اس کا پانی اور چارہ برآمد کیا اور پہاڑوں کو لنگر انداز کیا۔ تمہارے اور تمہارے چوپایوں کو برتنے کے لئے۔"

ان آیات پر تدبر کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ان میں قدرت، عظمت، حکمت اور ربوبیت کے سارے پہلو وسعت کے ساتھ سمٹ آئے ہیں۔اس آیت میں بطور تعجب استفہام فرمایا گیاہے کہ یہ لوگ اتنی نشانیوں کو دیکھ کر بھی اللہ کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔

(۱۱) سورہ الملك میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 "اَمَّن هٰذَا الَّذِى هُوَ جُندٌ لَّكُم يَنصُرُكُم مِّن دُونِ الرَّحمٰنِ‌ اِنِ الكٰفِرُونَ اِلَّا فِى غُرُورٍ‌ "۔[[22]]

"بتاؤ تمہارے پاس وہ کون سا لشکر ہے جو خدائے رحمان کے مقابل میں تمہاری مدد کرسکے گا ! یہ کافر بالکل دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں !"

پھر فرمایا:

"اَمَّن هٰذَا الَّذِى يَرزُقُكُم اِن اَمسَكَ رِزقَهٗ‌ بَل لَّجُّوا فِى عُتُوٍّ وَّنُفُورٍ "۔[[23]]

"بتاؤ! وہ کون ہے جو تمہیں روزی دے گا اگر وہ اپنی روزی روک لے ! بلکہ یہ لوگ سر کشی اور حق بیزاری پر اڑ گئے ہیں!"۔

پھر ارشاد فرمایا:

"اَفَمَن يَّمشِى مُكِبًّا عَلٰى وَجهِهٖ اَهدٰٓى اَمَّن يَّمشِى سَوِيًّا عَلٰى صِرَاطٍ مُّستَقِيمٍ "۔[[24]]

"کیا وہ جو اوندھے منہ چل رہا ہے راہ یاب ہونے والا بنے گایا وہ جو سیدھا ایک سیدھی راہ پر چل رہا ہے؟"۔

ان آیات میں کہا جا رہا ہے کہ اللہ کے مقابلے میں کوئی ہے جو تمہاری مدد کر سکے اور جو تمہارے ساتھ مل کر نعوذباللہ اللہ کے مقابلے میں تمہاری مدد پر قدرت رکھ سکے؟ اسی طرح اللہ پاک تمہیں رزق دیتا ہے اگر اللہ تم سے رزق کو بند کر دے تو کوئی اور ہے جو تمہیں رزق پہنچا سکے اللہ کے حکم کے بغیر ایک ذرہ بھی حرکت پر قدرت نہیں رکھتا تو تم نے کیسے سمجھ لیا کہ صراط مستقیم اور صراط مستقیم پر چلنے والے لوگ برابر ہو سکتے ہیں تو ایسا تصور ہی محال ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں امین احسن اصلاحیؒ یوں رقمطراز ہیں:

کوئی فوج خدائی حملہ کا دفاع نہیں کر سکتی، یعنی اگر تم عذاب کا مطالبہ کر رہے ہو کہ تمہیں دکھا دیا جائے تو تمہارے پاس کون سا لشکر ہے جو خدائے رحمان کے مقابل میں تمہاری مدد کرے گا؟ یہ ان لوگوں کی بدبختی پر اظہار افسوس ہوتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بڑا ہی ناقابل تسخیر دفاعی حصار ان لوگوں نے تعمیر کر رکھا ہے جس کو کوئی طاقت بھی توڑ نہیں سکتی لیکن یہ لوگ سخت دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ عذاب الٰہی کا کوئی معمولی سا جھونکا بھی آ گیا تو ان کے سارے قلعے اور حصار خس و خاشاک کی طرح اڑ جائیں گے۔ فرمایا کہ فرض کرو اللہ تعالیٰ اس بارش ہی کو روک لیتا ہے جو تمہارے لیے رزق رسانی کا ذریعہ ہے تو کیا تمہارے پاس ہے کوئی ایسا زور آور جو اس بند دروازے کو ازسر نو کھول دے؟ ان لوگوں کی ہٹ دھرمی پر اظہار افسوس ہے کہ اگرچہ ان میں سے کسی سوال کا جواب بھی یہ اثبات میں دینے کی جرأت نہیں کر سکتے لیکن اس کے باوجود یہ اپنی سرکشی اور حق بیزاری پر بضد ہیں ۔[[25]]

مطلب یہ ہے کہ اگر یہ سوچنے سمجھنے والے ہوں تو ان کو بات سمجھائی جا سکتی ہے لیکن ضد اور ہٹ دھرمی کا کیا علاج!اب اگلی آیت میں یہ وضاحت فرمائی ہے اس بات کی کہ کیوں ان لوگوں پر ہدایت کی راہ نہیں کھل رہی ہے اور سمجھانے کے باوجود یہ گمراہی میں بھٹک رہے ہیں؟فرمایا کہ یہ لوگ کتے کے مانند اپنی خواہشوں کے غلام ہیں جس طرح کتا زمین کو سونگھتا ہوا چلتا ہے کہ شائد کوئی چیز کھانے کی مل جائے اسی طرح ان لوگوں کی رہنما بھی عقل کی جگہ ان کی خواہش ہے اور یہ سرجھکائے، آنکھ بند کیے، اپنی خواہش کے پیچھے چل رہے ہیں۔ خواہش کے پیچھے چلنے والا کبھی ہدایت کی راہ نہیں پا سکتا۔ ہدایت کی راہ اس کو ملتی ہے جو سیدھی راہ پر، سر اٹھا کر، دائیں بائیں اور آگے پیچھے کا جائزہ لیتا ہوا چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی وجہ سے انسان کو مستوی القامت پیدا کیا، جانوروں کی طرح زمین کی طرف جھکا ہوا نہیں پیدا کیا، لیکن بہت سے انسان جانوروں ہی کی روش کی تقلید کرتے ہیں اور اس طرح وہ اس اعلیٰ خصوصیت کو کھو بیٹھتے ہیں جو انسان کا اصلی شرف ہے۔ خواہشوں کے پیچھے چلنے والوں کی مثال قرآن میں جگہ جگہ جانوروں بالخصوص کتوں سے دی گئی ہے۔"[[26]]

 اس آیت میں احکامات کو یقینی بنانے کے لئے استفہام فرمایا گیا ہے۔ یعنی اگر اللہ تم سے بارش کو روک لے پانی کی تنگی ہو جائے زمین سے کوئی پیداوار نہ اگ سکے قحط سالی ہو جائے تو کیا کوئی اور ہے جو تمہیں رزق پہنچانے پر قادر ہو اللہ کی ذات کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو کوئی بھی تمہاری مدد پر قادر نہیں ہو سکتا۔

(۱۲) سورہ الفیل میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"اَلَم تَرَ كَيفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصحٰبِ الفِيلِ "۔[[27]]

"کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے خداوند نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا !"

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

یہاں قریش کو مخاطب کر کے توجہ دلائی ہے کہ اصحاب فیل کے ساتھ تمہارے رب نے جو معاملہ کیا، کیا وہ تم نے نہیں دیکھا؟ یہ امر ملحوظ رہے کہ اصحاب الفیل کے واقعہ پر ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت عام الفیل ہی کے دوران میں ہوئی ہے اس وجہ سے اس سورہ کے نزول کے وقت بہت سے ایسے لوگ رہے ہوں گے جنھوں نے اس واقعہ کا بچشم خود مشاہدہ کیا ہو گا اور اگر مشاہدہ نہیں کیا ہو گا تو اس تواتر کے ساتھ سنا ہو گا کہ وہ مشاہدہ ہی کے حکم میں ہے۔ اس وجہ سے ’اَلَمْ تَرَ‘ کا خطاب یہاں بالکل اپنے موزوں محل میں ہے۔اصحاب الفیل کون تھے؟ قرآن نے یہاں ان ہاتھی والوں کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی ہے کہ وہ کون تھے، کہاں سے آئے تھے اور ان کے آنے کا مقصد کیا تھا؟ اجمال کے ساتھ صرف ان کے انجام کی طرف اشارہ کر کے بات ختم کر دی ہے۔

 اس اجمال کی وجہ یہ ہے کہ مخاطب گروہ کو ان کا سارا واقعہ معلوم تھا۔ ’اصحاب الفیل‘ کے الفاظ سے ان کا تعارف ہی یہ سمجھ جانے کے لیے کافی تھا کہ یہ اشارہ یمن کے حبشی حکمران، ابرہہ کی طرف ہے جس کے حملہ آور لشکر کے ساتھ کوہ پیکر ہاتھی بھی تھے۔ ہاتھیوں والے لشکر کا تجربہ عربوں کو پہلی بار اسی جنگ میں ہوا اس وجہ سے اسی نام سے انھوں نے اس حملہ کو یاد رکھا جس سے اس کی سنگینی کا اظہار ہوتا ہے۔ہاتھیوں کا ایک پورا دستہ فوج کے ساتھ تھا جس سے اس کی قوت اور ہیبت میں بڑا اضافہ ہو گیا تھا۔"

" ابرہہ کو اگرچہ بعض مورخین نے ایک بردبار حکمران لکھا ہے لیکن اس کے حالات زندگی سے اس ظن کی تائید نہیں ہوتی بلکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک موقع پرست، غدار اور نہایت متعصب عیسائی تھا۔ اس نے خود حبش کے بادشاہ کے ساتھ غداری کی جس کی فوجوں کے ذریعہ سے اس نے یمن پر قبضہ کیا تھا۔ عیسائیت کے تعصب کے جنون میں اس نے یہ اسکیم بنائی کہ عربوں کو عیسائی بنا لے۔ اس اسکیم کو بروئے کار لانے کے لیے اس نے یمن کے دارالسلطنت صنعاء میں ایک عظیم الشان گرجا بنوایا اور حبش کے نجاشی کو، جس کے نائب السلطنت کی حیثیت سے وہ یمن پر حکومت کر رہا تھا، اس نے لکھا کہ میں نے ایک ایسا گرجا تعمیر کرایا ہے جس کی نظیر چشم فلک نے نہیں دیکھی ہو گی۔ میں چاہتا ہوں کہ عربوں کے حج کا رخ بھی اسی کی طرف موڑ دوں اور ان کے مکہ کے معبد کو ڈھا دوں۔ اس کے بعد اس نے کعبہ پر حملہ کا جواز پیدا کرنے کے لیے مشہور کیا کہ اس کے تعمیر کردہ گرجا کو کسی عرب نے بقصد توہین ناپاک کیا ہے۔ یہ واقعہ اول تو بالکل جھوٹ معلوم ہوتا ہے، عرب ہمیشہ تلوار کے دھنی رہے ہیں، بہادر قوموں کے افراد اس طرح کی پست حرکتیں نہیں کیا کرتے، لیکن بالفرض صحیح بھی ہو تو کسی ایک شخص کا انفرادی فعل اس بات کو جائز ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ اس کا انتقام پوری قوم سے لیا جائے، یہاں تک کہ اس جرم کی پاداش میں ان کے دینی معبد کو ڈھا دینے کی جسارت کی جائے لیکن عیسائیوں کے جذبات بھڑکانے اور نجاشی کی تائید حاصل کرنے کے لیے اس جھوٹ کو خوب شہرت دی گئی یہاں تک کہ ساٹھ ہزار کا لشکر جرار، جس کے ساتھ نو دس ہاتھی بھی تھے، جمع کر کے مکہ پر حملہ کر دیا گیا۔"[[28]]

اس آیت میں انذار کے لئے استفہام فرمایا گیا ہے کہ کیا تمہیں ہاتھی والوں کا قصہ یاد نہیں کہ کس طرح اللہ نے انہیں عذاب سے دوچار فرمایا اور ہر سرکشی کرنے والا کا یہی انجام ہوتا ہے۔اس وقت لوگوں نے مشاہدہ کر کے دیکھ لیا تھا کہ جو لوگ اللہ کے ساتھ جنگ کرتے ہیں ان کا انجام بہت برا ہوتا ہے اس لئے آئندہ آنے والے لوگوں کو خبردار کیا جا رہا ہے۔

خلاصہ بحث

 دین جو عبارت ہے ایک ایسے عقیدے کی جس کے سبب زندگی کے اصولوں کا ظہور اور ترتیب عمل میں آتی ہے جو ایک اللہ پرایسے ایمان سے جو دنیا کے انسانوں کی زندگی کو تعمیر و توانائی بخشتا ہے اور یہ ایک ایسی عبادت ہے جو انسانی معاشرے کی پرورش اور تربیت کی ضامن ہے آج جو کام کریں گے تو کل کو اس کا اجر پائیں گےجتنا خوبصورت اور سچا عمل ہوگا اسی قدر حسین اور عمدہ انعام ملے گا۔اس میدان عمل میں ہم اپنا اپنا عمل اورسعی کرنے آئے ہیں۔

 اس فصل میں تفسیر تدبر قرآن سے اسے ایمانیات کے بارے میں آیات استفہام کی وضاحت کی گئی ہے جو کہ درج ذیل ہیں۔

 سورۃ نساء آیت نمبر نمبر۸۷,۸۸، سورہ المائدہ آیت نمبر ۷۵،سورۃ توبہ آیت نمبر ۷۸ ، سورۃ یونس آیت نمبر۳۱,۳۲، سورہ الرعد آیت نمبر ۱۶ ،سورۃ الانبیاء آیت نمبر ۳۰ ،سورۃ العنکبوت آیت نمبر ۵۱ ، سورہ یسین آیت نمبر ۷۱، سورۃ الحجرات آیت نمبر ،۱۶ سورۃ ق آیت نمبر ۶ ،سورۃ الملک آیت نمبر ۲۰,۲۱,۲۲سورہ الفیل آیت نمبر ۱۔



[[1]]         القرآن ، ۲۸: ۷۰۔

[[2]]       القرآن ، ۴: ۸۷

[[3]]       القرآن ، ۴: ۸۸۔

[[4]]       القرآن ، ۵: ۷۵۔

[[5]]       اصلاحی، تدبر قرآن،۲/ ۵۵۹

[[6]]       القرآن ، ۹: ۷۸۔

[[7]]       اصلاحی، تدبرِ قرآن، ۳/۶۱۱

[[8]]       اصلاحی، تدبرِ قرآن،۳/۶۱۲

[[9]]       القرآن ، ۱۰: ۳۲۔

[[10]]    القرآن ، ۱۳: ۱۶۔

[[11]]   اصلاحی، تدبرِ قرآن،۴/۲۷۹۔

[[12]]    القرآن ، ۲۱: ۳۰۔

[[13]]    اصلاحی، تدبرِ قرآن،۵/۱۴۰۔

[[14]]    القرآن ، ۲۹: ۳۰۔

[[15]]    القرآن ، ۳۶: ۷۱۔

[[16]]       اصلاحی، تدبر قرآن، ۷/ ۴۴۲۔

[[17]]    القرآن ، ۴۹: ۱۶۔

[[18]]    اصلاحی، تدبرِ قرآن،۷/ ۵۲۲۔

[[19]]    القرآن ، ۵۰: ۶۔

[[20]]       اصلاحی، تدبرِ قرآن، ۷/ ۵۳۸۔

[[21]]    القرآن ، ۱۷: ۹۹۔

[[22]]    القرآن ، ۶۷: ۲۰۔

[[23]]    القرآن ، ۶۷: ۲۱۔

[[24]]    القرآن ، ۶۷: ۲۲۔

[[25]]    اصلاحی، تدبرِ قران،۸/۴۹۹۔

[[26]]    اصلاحی، تدبرِ قران،۸/۵۰۰۔

[[27]]    القرآن ، ۱۰۵: ۱۔

[[28]]    اصلاحی، تدبرِ قرآن، ۹/۵۵۳،۵۵۴۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...