Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

فصل سوم: آیاتِ استفہام میں فہمِ عبادات
ARI Id

1695203136242_56118321

Access

Open/Free Access

Pages

246

اسلام دین کائنات یعنی ازل سے سے اب تک تمام انسانوں کے لئے اللہ تعالی کابنایا ہوا دین ہے اسلام کا مطلب ہے اللہ کی رضا کے سامنے نے سر تسلیم خم کر دینا جو مرد یا عورت رات کو اللہ تعالی کے احکامات کے تابع کر لیتے ہیں وہی مسلمان کہلاتے ہیں ہیں اسلام کوئی نیا دین نہیں ہیں بلکہ روز اول سے موجود ہے جب انسان نے دنیا یا خدا کی زمین پر پہلا قدم رکھا تھا تھا۔

"اللہ تعالی نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے عربی لفظ عبادہ "عبد" سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے اللہ کے احکام کی بجا آوری۔ بہت سے لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ عبادت سے مراد صرف نماز پڑھنا ہے مگر یہ تاثر درست نہیں عبادت کا اعلی ترین عمل ضرور ہے مگر عبادت صرف نماز ہی نہیں بلکہ اعمال کا مجموعہ ہے اللہ تعالی کے تمام احکام کی بجا آوری عبادت ہے اللہ تعالی نے جن چیزوں سے منع فرمایا ہے ان سے اپنے آپ کو روکنا بھی عبادت ہے ہر وہ کام جس کا اللہ نے کرنے کا حکم دیا ہے اس کی ادائیگی بھی عبادت ہے ۔ اسلام جسم اورروح دونوں کی ضروریات کا اہتمام کرتا ہے اس کا کوئی حکم ایسا نہیں ہے جو انسانیت کے خلاف ہو گو بعض لوگ اسلام سے متعلق مکمل معلومات نہ ہونے کے سبب تشکیک کا شکار ہو سکتے ہیں کہ ایسا نہیں ہیں اور یہ کہ اسلام کا حکم درست نہیں ہے اسلام کے تمام احکامات سے متعلق حقائق سامنے لائے جائیں تو یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ اسلام کا کوئی ایک حکم بھی انسانیت کے خلاف نہیں ہے اور یہ کہ کہ اسلام کا ہر حکم جسم یا پھر روح کے لئے سود مند ہوگا انسان کو پیدا ہی اسی مقصد کے لئے کیا گیا ہے کہ اللہ کی ذات عبادت کے لائق ہے اس کے سوا کسی کی عبادت کرنا جائز نہیں قرآن میں بہت سے مقامات پر عبادت سے متعلق متعدد آیات بیان ہوئیں ہیں"۔[[1]]

"اگر انسان خاندانی اور ماحولیاتی اثرات سے الگ اور آزاد ہو کر اپنی عقلِ سلیم کی مدد سے اپنے مقصدِ وجود پر سنجیدگی سے غور و فکر کرے تو اس کی عقل کا جواب یہ ہو گا کہ اس کی زندگی محض کھانے پینے کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ اس کو اﷲ کی عبادت کا فرض انجام دینے کے لیے وجود بخشا گیا ہے۔احادیثِ قدسیہ میں وارد ہوا ہے:"اے میرے بندو! میں نے تم کو اس لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وحشت میں تم سے مانوسی حاصل کروں اور قلت میں تمہارے ذریعے کثرت حاصل کروں نہ ہی کسی نفع کے حصول کے لیے اور نہ ہی دفعِ ضرر کے لیے۔ میں نے تمہیں صرف اس لیے پیدا کیا کہ تم میری خوب عبادت کرو‘ کثرت سے میرا ذکر کرو اور صبح و شام میری پاکی بیان کرو۔اسی طرح بعض آسمانی کتابوں میں یہ بھی آیا ہے کہ:"اے فرزندِ آدم! میں نے تم کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے‘ لہٰذا تم لہو و لعب چھوڑ دو‘ میں نے تمہارے رزق کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ تم میری عبادت کرو‘ مجھے پا لو گے۔ اگر تم مجھے پا گئے تو سب کچھ پا گئے‘ ورنہ تم سب کچھ کھو دو گے۔ میری محبت تمہارے دل میں ہر چیز سے زیادہ ہونی چاہیے‘‘۔[[2]] خداوندِ قدوس نے انسانوں کی تخلیق سے بہت پہلے عالمِ ارواح میں تمام انسانوں سے جو عہدِ الست لیا وہ یہی تھا کہ صرف ایک اﷲ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ [[3]] قرآن میں اﷲ انسانوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:

"يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ۰ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ، وَّاَنِ اعْبُدُوْنِيْ   ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَــقِيْمٌ"۔[[4]]

" اے آدم کی اولاد! کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو‘ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور میری ہی بندگی کرو‘ یہ سیدھا راستہ ہے"۔

پھر ہر پیغمبر کی زبان سے اس کی قوم کو پہلا پیغام خدائے واحد کی عبادت کا دیا گیا‘ حضرت عیسیٰؑ کو عیسائیوں نے غایتِ عظیم میں الوہیت کے مقام تک پہنچا دیا تھا‘ اس کی تردید میں فرمایا گیا: "حضرت عیسیٰؑ نے کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھا کہ وہ اﷲ کے بندے ہوں اور نہ مقرب ترین فرشتے اس کو اپنے لیے عار سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی اﷲ کی بندگی کو اپنے لیے عار سمجھتا ہے اور تکبر کرتا ہے تو ایک وقت آئے گا جب اﷲ سب کو گھیر کر اپنے سامنے حاضر کرے گا۔" ،اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عبادت کی اتنی اہمیت ہے کہ اسے انسانی وجود کا مقصدِ حقیقی بتایا گیا ہے اور تخلیقِ آدم سے بہت پہلے تمام انسانوں سے اس کا عہد لیا گیا۔ پھر ہر نبی کے ذریعہ پہلا پیغام عبادتِ خداوندی کا پہنچایا گیا اور پوری زندگی اﷲ کی عبادت میں اشتعال و انہماک کی مکمل تاکید کی گئی۔عبادت کے لفظی معنی بندگی اور غلامی کے ہیں‘ مگر شریعت میں عبادت سے مراد خاص وہ اعمال ہوتے ہیں جن کو بندہ اﷲ کے حضور میں اس کی رضا اور رحمت کا طالب بن کر اپنی بندگی اور سرافگندگی ظاہر کرنے کے لیے اور اپنے عمل سے اس کی معبودیت اور عظمت و کبریائی کی شہادت ادا کرنے کے لیے کرتا ہے‘ جیسے اسلام میں نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ‘ صدقات‘ ذکر‘ دعا‘ تلاوت اور قربانی وغیرہ۔ یہ سارے عبادتی اعمال بندہ صرف اس لیے کرتا ہے کہ اس کا معبود اس سے راضی ہو‘ اس پر رحمت فرمائے اور ان کے ذریعے اس کی روح کو پاکیزگی اور خدا کا تقرب حاصل ہو۔"[[5]]

امام ابنِ تیمیہ لکھتے ہیں:

"عبادت کی حقیقت میں دو بنیادی چیزیں آتی ہیں: (۱)اﷲ کے سامنے کامل سرافگندگی (۲)اﷲ کی مکمل محبت۔ اگر سرافگندگی محبت کے بغیر ہو بلکہ عداوت کے ساتھ ہو تو وہ عبادت نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح اگر محبت سرافگندگی محبت کے بغیر ہو بلکہ عداوت کے ساتھ ہو تو وہ عبادت نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح اگر محبت سرافگندگی و اطاعت کے بغیر ہو تو بھی وہ عبادت نہیں‘ عبادت کے لیے محبت اور سرافگندگی و اطاعت کا مکمل اجتماع لازم ہے۔ پھر سرافگندگی کا حاصل پوری شریعت کی پابندی ہے۔ ظاہری و باطنی تمام اعمال و اقوال میں اﷲ کی پسندیدہ چیزوں کا اہتمام اور ناپسندیدہ امور سے اجتناب عبادت ہے۔"[[6]]

 ذیل میں تفسیر تدبر قرآن سے عبادات کے ضمن میں آیاتِ استفہام پیش کی جا رہیں ہیں:

(۱)سورہ البقرة میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

"وَمَن اَظلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَن يُّذكَرَ فِيهَا اسمُهٗ وَسَعٰـى فِى خَرَابِهَا ‌ اُولٰٓئِكَ مَا كَانَ لَهُم اَن يَّدخُلُوهَآ اِلَّا خَآئِفِينَ لَهُم فِى الدُّنيَا خِزىٌ وَّلَهُم فِى الاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ"۔[[7]]

"اور ان سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ کی مساجد کو اس بات سے محروم کریں کہ ان میں اس کا ذکر کیا جائے اور ان کی ویرانی کے درپے ہوں۔ ان کے لیے زیبا نہ تھا کہ ان میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب عظیم ہے"۔

اس آیت کی تفسیر میں امین احسن اصلاحی تحریر فرماتے ہیں:

"ایک دوسرے کے معابد کی تخریب کی طرف یہ اشارہ ہے ان مدعیان جنت کے ان کارناموں کی طرف جو انہوں نے باہمی عناد و عداوت کی بنا پر ایک دوسرے کے معابد کو تباہ و برباد کرنے کے سلسلہ میں انجام دیے۔ تاریخوں سے ثابت ہے کہ یہود و نصاری کے درمیان بیت المقدس میں بھی ایک دوسرے کو ذکر و عبادت سے روکنے کے لیے نہایت خونریز جنگیں ہوچکی ہیں اور باہر بھی جہاں جہاں اور جب جب ان میں سے کسی کو موقع ملا ہے اس نے مخالف فریق کے عبادت خانے برباد کرنے کی کوشش کی ہے۔ علاوہ ازیں تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ نصاریٰ نے لوگوں کو حج بیت اللہ سے روکنے کی سعی کی لیکن جب اس کوشش میں ان کو ناکامی ہوئی تو ابرہہ نے مکہ پر چڑھائی کردی اور خانہ کعبہ کو منہدم کردینے کا ارادہ کرلیا جس کی پاداش میں اس پر اور اس کی فوجوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا"۔ [[8]]

"دنیا میں سب زیادہ ظالم وہ مدعیان ہدایت وتقوی ہیں جو اللہ کی مسجدوں سے اللہ کا ذکر کرنے والوں کو روکیں اور ان مساجد کی بربادی کے درپے ہوں۔ جو گھر خدا کی عبادت کے لیے تعمیر ہوا ہے وہ خدا کا گھر ہے کسی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ وہ خدا کے گھر میں اس کی تخریب کی جسارت کے ساتھ داخل ہو۔ اللہ کے گھر میں داخل ہونے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ جو بھی اس میں داخل ہو ڈرتے ہوئے اور لرزتے ہوئے داخل ہو۔ جو لوگ اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان کی نسبت فرمایا ہے کہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب عظیم ہے۔ مساجد الٰہی کے احترام کے اسی اصول کے تحت مسلمانوں کو یہود و نصاری کے ساتھ جنگ کی حالت میں بھی ان کے گرجوں اور معابد کے ہدم یا ان کی توہین کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ مقام ان مسلمانوں کے لیے خاص طور پر قابل غور ہے جو محض گروہی تعصبات کے تحت اپنے سے ذرا مختلف مسلک رکھنے والوں کو اپنی مساجد سے روکتے ہیں اور بعض اوقات دوسرے مسلک رکھنے والوں کی مساجد کی بےحرمتی کرنے کی جسارت بھی کر گزرتے ہیں۔"[[9]]

 اس آیت میں اللہ کی مساجد سے لوگوں کو منع کرنے کی صورت میں سخت عذاب کی دھمکی دی جا رہی ہے کہ جو اللہ کے گھر سے لوگوں کو روکیں گے اور جو آنے والوں پر ظلم کریں گے ان کو داخل ہونے سے روکیں گے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کریں گے تو ایسے لوگوں کےلئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بہت سخت عذاب ان کا منتظر ہوگا۔ اس آیت میں اللہ تعالی بطور انذار کے ارشاد فرما رہے ہیں کہ اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہو سکتا ہے؟ جو لوگوں کو اللہ کی مساجد میں آنے سے روکے؟ مطلب یہاں پر ڈرانے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کی عبادت سے لوگوں کو روکنا اتنا سخت گناہ ہے ایسے لوگوں کے لئے اللہ پاک نے بہت سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔

(۲)سورہ الکھف میں ارشادِ الٰہی ہے:

"وَمَن اَظلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ فَاَعرَضَ عَنهَا وَنَسِىَ مَا قَدَّمَت يَدٰهُ‌ اِنَّا جَعَلنَا عَلٰى قُلُوبِهِم اَكِنَّةً اَن يَّفقَهُوهُ وَفِى اٰذَانِهِم وَقرًا‌ وَاِن تَدعُهُم اِلَى الهُدٰى فَلَن يَّهتَدُوا اِذًا اَبَدًا"۔[[10]]

 "اور ان سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جن کو ان کے رب کی آیات کے ذریعے سے یاد دہانی کی جائے تو وہ اس سے اعراض کریں اور اپنے ہاتھوں کی کرتوت کو بھول جائیں اور ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ وہ اس کو نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ دے دی ہے کہ اس کو نہ سنیں"۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں:

 "اس آیت میں بدقسمت لوگوں کے حالات پر افسوس کیا ہے یہ کہ اپنی جانوں پر ان سے بڑھ کر ظلم ڈھانے والا کون ہوسکتا ہے جن کو آیات الٰہی کے ذریعے سے یاد دہانی کی جائے لیکن وہ اس سے نفع اٹھانے کے بجائے ان کو ٹھکرائیں اور عذاب کا مطالبہ کریں اور یہ نہ سوچیں کہ جو اعمال انہوں نے کیے ہیں ان کی بنا پر وہ ہر وقت عذاب الٰہی کے سزاوار ہیں۔ اگر ان کو مہلت مل رہی ہے تو محض خدا کی رحمت کے سبب سے مل رہی ہے۔ فرمایا کہ یہ اپنی کرتوتوں کے سبب سے ختم قلوب کے سزوار ہوچکے ہیں اس وجہ سے ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ وہ قرآن کو نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں ڈال دی ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب خدا کے قانون کے تحت ان کے دلوں پر پردے پڑچکے ہیں اور ان کے کان بہرے ہوچکے ہیں تو اب تم ان کو لاکھ اللہ کی آیات سناؤ وہ ہدایت قبول کرنے والے نہیں بن سکتے۔ اب ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کرو اور صبر کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہو تاآنکہ ان پر اچھی طرح حجت تمام ہوجائے۔"[[11]]

اللہ تبارک و تعالی اس آیت میں بطور استعجاب کے سوال فرما رہے ہیں کہ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے ہے جو ہماری آیات سے منہ موڑتا ہے اور جو عمل یہ لوگ کر رہے ہیں ہمارے پاس لکھی ہوئے ہیں۔بلکہ ہم نے ان کے دلوں پر تالے لگا دیے ہیں اور ان کے کانوں میں بھی پردے لگادیئے ہیں تاکہ حق بات کو نہ سن سکیں اور یہ لوگ کبھی بھی ہدایت نہیں پا سکتے۔

سورہ المؤمنون میں ارشادِ خداوندی ہے:

"اَفَحَسِبتُم اَنَّمَا خَلَقنٰكُم عَبَثًا وَّاَنَّكُم اِلَينَا لَا تُرجَعُونَ "۔[[12]]

"تو کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم نے تم کو بس یوں ہی بےمقصد پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے !"۔

اس آیت میں یہ وضاحت کی جا رہی ہے کہ انسان کو بے مقصد نہیں پیدا کیا گیا بلکہ انسان کو بھی اس کائنات کو بھی اور اس میں موجود ہر چیز کو کسی نہ کسی مقصد کے تحت پیدا کیا گیا ہے جو لوگ اس میں تدبر و تفکر نہیں کرتے وہ اپنی زندگیوں کو برباد کر دیتے ہیں حالانکہ قرآن میں انسان کو اس کے دنیا میں بھیجنے کا مقصد صاف صاف بتا دیا گیا ہے اگر پھر بھی یہ اعراض کرتے ہیں تو انجام کار انکو ہی بھگتنا ہوگا۔

اس آیت کی تفسیر میں امین احسن اصلاحیؒ یوں رقمطراز ہیں:

 "جزا و سزا صفات الٰہی کا لازمی تقاضا ہے یعنی اگر تم جزاء و سزا سے بےپرواہ بیٹھے ہو تو کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم نے تم کو یوں ہی بےمقصد پیدا کیا ہے اور تم اسی طرح شتر بےمہار چھوٹے پھرو گے اور ایک دن مر جاؤ گے اور تمہاری واپسی ہماری طرف نہیں ہونی ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے یہ سمجھا ہے تو ہمیں تم نے بہت ہی غلط سمجھا ہے۔"[[13]]

 اس آیت میں بطور استعجاب کے سوال کیا جا رہا ہے کیا تمہاری زندگی کا مقصد کچھ بھی نہیں ہے یعنی بیکار پیدا کیا گیا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی چیز بنائی جائے اور اس میں کوئی فائدہ نہ ہو اور تم پھر انسان ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ پاک نے ایک انسان بنایا ہو اسے بے شمار نعمتیں عطا کیں اس کی ہدایت کے لئے مختلف زمانوں میں قاصد بھیجے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو اسے بغیر کسی وجہ کے پیدا کیا ہو اس سے اسکے اعمال سے متعلق کوئی پوچھ گچھ نہ ہوگی؟ ایک عقل رکھنے والا شخص کبھی بھی ایسی سوچ کا متحمل نہیں ہو سکتا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح فرما دیا ہے کہ انسان کی پیدائش کا ایک خاص مقصد ہے وہ ہے اللہ کی عبادت کرنا وہی معبود برحق ہے انسان اللہ کے احکامات کے تابع ہے ان احکامات کے مطابق ہی زندگی گزارنے سے اسے حقیقی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔

(۴)سورہ العنکبوت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"اَوَلَم يَرَوا اَنَّا جَعَلنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِن حَولِهِم‌ اَفَبِالبَاطِلِ يُؤمِنُونَ وَبِنِعمَةِ اللّٰهِ يَكفُرُونَ "۔[[14]]

"کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے لئے ایک مامون حرم بنایا اور حال یہ ہے کہ لوگ ان کے گردو پیش سے اچک لیے جاتے ہیں ! تو کیا وہ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمت کی ناشکر کی کرتے ہیں!"۔

 اسلام سے پہلے عرب خانہ جنگی کا شکار تھا عزتیں محفوظ نہ تھیں ہر طاقتور کمزور کو دبا دیتا تھا اقتدار میں طاقتور لوگ تھے جو اپنی طاقت کے بل بوتے پر کچھ بھی کر سکتے تھے ان کو کوئی روکنے والا نہ تھا کمزور لوگ ان سے ڈرتے تھے اسلام اور نبی کی آمد کے ساتھ ہے حرم کو امن والی جگہ بنادیا گیا تا کہ لوگ محفوظ رہ سکیں اس آیت میں اسے نعمت کی یاد دیا ی کروائی جا رہی ہے۔

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

"فرمایا کہ بالکل یہی حال قریش کے ان ناشکروں کا ہے۔ یہ اپنی تاریخ کی اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ ہم نے ان کے لئے ایک مامون حرم بنایا جس میں یہ چین کی زندگی بسر کررہے ہیں درآنحالیکہ ان کے گردوپیش کا حال یہ ہے کہ لوگ دن دہاڑے اچک لیے جاتے ہیں، نہ کسی کی جان کے لئے امان ہے نہ کسی کا مال محفوظ ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کی قدر انہوں نے یہ کی ہے کہ اس کے بنائے ہوئے حرم کے کونے کونے میں انہوں نے بتوں کو لا بٹھایا ہے اور ان کی پوجا کر رہے ہیں۔ ان بدبختوں سے پوچھو کہ کیا وہ باطل پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں۔ غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اوپر کشتی کی جو مثال دی ہے اس میں اور اس صورت واقعہ میں بڑی گہری مناسبت ہے۔ یہ مامون حرم قریش کے لئے ایک سفینہ نجات کے مانند تھے جس میں ہر خطرے بالکل نچنت وہ چین کے زندگی گزار رہے تھے۔ اس چین کی زندگی نے ان کو خدا سے بالکل غافل کردیا۔ حالانکہ اگر خدا چاہتا تو ان کو بھی وہ اسی بےاطمینانی میں مبتلا کرسکتا تھا جس میں ان کے گردو پیش کے لوگ مبتلا تھے اس حرم کی تولیت کی بدولت قریش کی جو رفہیت اور سارے عرب پر جو قیادت و سیادت حاصل ہوئی وہ ڈھکی چھپی نہیں ہے"۔[[15]]

اس آیت میں اللہ تبارک و تعالی مشرکین مکہ پر کیے گئے احسان کی یاد دہانی کے لئے استفہام فرما رہے ہیں کہ اللہ پاک نے مکہ کو امن والا شہر بنا دیا وہاں پہ رہنے والے لوگ ہر طرح کی لوٹ مار قتل و غارت سے محفوظ ہیں جبکہ عرب کے دوسرے علاقے اس طرح کے امن و سکون سے محروم ہیں اور دوسرے علاقوں قتل و غارت عام معمول تھا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ جھوٹے معبودوں اور بتوں کی پرستی چھوڑ کر ایک اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کرتے اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لاتے بلکہ انہوں نے اس نعمت کی ناشکری کی اور اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوئے جھوٹے معبودوں کی پرستش کرنے لگے تو ایسا کرنا ان کے حق میں کبھی بھی بہتر نہ ہوگا اسکے باعث انہیں قیامت کے دن سخت عذاب دیا جائے گا۔

(۵) سورہ القدر میں ارشادِ ربانی ہے:

"وَمَا اَدرٰكَ مَا لَيلَةُ القَدرِ "۔ [[16]]

"اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے !"

اس آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں:

"اس آیت میں شب قدر کی عظمت و برکت واضح فرمائی ہے کہ وہ ایسی باعظمت و بابرکت رات ہے کہ اس کی عظمتوں اور برکتوں کا کما حقہٗ اندازہ نہیں کرایا جا سکتا۔ اس کی یہ عظمت و برکت اس وجہ سے ہے کہ اس میں اس کائنات سے متعلق بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں۔ جب اس دنیا کی چھوٹی چھوٹی حکومتوں کے وہ دن بڑی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں جن میں وہ اپنے سال بھر کے منصوبے طے کرتی ہیں تو اس رات کی اہمیت کا اندازہ کون کر سکتا ہے جس میں پوری کائنات کے لیے خدائی پروگرام طے ہوتا اور سارے جہان کا فیصلہ ہوتا ہے۔اگرچہ یہ فیصلے رحمت اور عذاب، فتح اور شکست دونوں طرح کے امور سے متعلق ہوتے ہیں لیکن چونکہ یہ اس کی طرف سے ہوتے ہیں جس کا ہر فیصلہ عدل، رحم اور حکمت پر مبنی اور جس کا ہر کام اس مجموعی دنیا کی فلاح و بہبود کے لیے ہوتا ہے اس وجہ سے اس رات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے مجموعی حیثیت سے مبارک ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ سورۂ دخان کی آیت میں اس رات کو ’لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ‘ سے تعبیر فرمایا ہے اور آگے اس سورہ میں اس کو ہزار مہینوں سے بڑھ کر قرار دیا ہے۔ اس کی ان صفتوں کے بیان سے مقصود، قرآن کے مخالفوں کو یہ آگاہی دینا ہے کہ ایسی عظیم اور مبارک رات میں نازل ہونے والی کتاب کو اگر کسی نے کہانت، نجوم اور شاعری کے قسم کی کوئی چیز سمجھا تو وہ گمراہی میں مبتلا رہا اس مبارک رات میں شیطانی القاء کی تمام راہیں مسدود ہوتی ہیں۔ اس میں رحمت الہی برستی ہے جس کا ایک ایک قطرہ ایک گوہر گراں مایہ ہوتا ہے۔ "[[17]]

" جس طرح خاص چیزوں کے بونے کے لیے خاص موسم اور مہینے ہیں، ان میں آپ بوتے ہیں تو وہ پروان چڑھتی اور مثمر ہوتی ہیں اور اگر ان موسموں اور مہینوں کو آپ نظر انداز کر دیتے ہیں تو دوسرے مہینوں کی طویل سے طویل مدت بھی ان کا بدل نہیں ہو سکتی اسی طرح روحانی عالم میں بھی خاص خاص کاموں کے لیے خاص موسم اور خاص اوقات و ایام مقرر ہیں۔ اگر ان اوقات و ایام میں وہ کام کیے جاتے ہیں تو وہ مطلوبہ نتائج پیدا کرتے ہیں اور اگر وہ ایام و اوقات نظر انداز ہو جاتے ہیں تو دوسرے ایام و اوقات کی زیادہ سے زیادہ مقدار بھی ان کی صحیح قائم مقامی نہیں کر سکتی۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیے کہ جمعہ کے لیے ایک خاص دن ہے۔ روزوں کے لیے ایک خاص مہینہ ہے۔ حج کے لیے خاص مہینہ اور خاص ایام ہیں۔ وقوف عرفہ کے لیے معینہ دن ہے۔ ان تمام ایام و اوقات کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی عبادتیں مقرر کر رکھی ہیں جن کے اجر و ثواب کی کوئی حد نہیں ہے لیکن ان کی ساری برکتیں اپنی اصلی صورت میں تبھی ظاہر ہوتی ہیں جب یہ ٹھیک ٹھیک ان ایام و اوقات کی پابندی کے ساتھ عمل میں لائی جائیں۔ یہی حال لیلۃ القدر کا ہے۔ یہ بڑی برکتوں اور رحمتوں کی رات ہے۔ بندہ اگر اس کی جستجو میں کامیاب ہو جائے تو اس ایک ہی رات میں خدا کے قرب کی وہ اتنی منزلیں طے کر سکتا ہے جتنی ہزار راتوں میں نہیں کر سکتا۔خوش قسمت ہیں وہ جو اس کی جستجو میں سرگرم رہ سکیں اور اس کو پانے میں کامیاب ہو جائیں! دوسرے مقام میں یہ تصریح ہے کہ قرآن رمضان کے مہینے میں نازل ہوا۔رہا یہ سوال کہ یہ رمضان کی کون سی تاریخ ہے تو روایات کے اختلاف کے سبب سے اس کا کوئی قطعی جواب دینا مشکل ہے بس زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں اس کے ہونے کا گمان غالب ہے۔"[[18]]

اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالی انسان کو ترغیب دلانے کے لئےسوال فرما رہے ہیں کہ ہم نے تمہیں اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا اور تمہیں ایسے موقع عطا کر دیے کہ تم ایک رات عبادت کرو گے تو ایک ہزار مہینے کی عبادت کا ثواب حاصل کر لو گے اللہ تبارک و تعالی اپنے بندوں پر بہت مہربان ہیں اس لئے لیے وہ انسان کے لیے نیکیاں حاصل کرنے کے لیے ایسے احکامات نازل کرتے رہتے ہیں جس سے انسان کم وقت میں زیادہ نیکیاں حاصل کرلے پہلے اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر کے بارے میں سوال فرمایا اور پھر اس کی اہمیت بیان فرما کر انسان کے لیے بے شمار اجر کا باعث بنایاتا کہ انسان کے اندر ان آیات سے عبادت کا شوق بیدار کیا جا سکے۔

خلاصہ بحث

 دلائل آفاق و انفس میں غور و فکر، آسمان و زمین میں پھیلے ہوئے خدا کے عجائب قدرت اور غرائب حکمت میں تدبر‘ آیاتِ قرآنی میں تفکر‘ تاریخ سے عبر و نصائح یہ دماغ کی عبادت ہے۔ ﷲ اور اسکے رسول سے محبت‘ اﷲ کا ڈر‘ امیدِ اجر‘ حیا و توکل‘ صبر و شکر،اخلاص و بے لوثی ، رضابالقضا، وغیرہ قلب کی عبادتیں ہیں۔' تسبیح و تکبیر‘ ذکر و تلاوت، دعا وغیرہ زبان کی عبادتیں ہیں۔ روزہ اور نماز کا شمار جسمانی عبادتوں میں ہوتا ہے۔ پھر نماز میں زبان کی عبادت بھی داخل ہے۔ زکوٰۃ و نفقات کا تعلق مالی عبادات سے ہے‘ ہر عبادت کے لیے نیت ضروری ہے جو دل کی عبادت ہے۔

 انسان کے اعمال حسنہ میں صرف عبادات ہی کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کا تعلق براہِ راست صرف اﷲ تبارک وتعالیٰ سے ہوتا ہے‘ یعنی عبادات صرف اسی کی خوشنودی حاصل کرنے اور اس کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار کرنے اور رشتۂ عبودیت کو استوار کرنے ہی کے لیے کی جاتی ہیں تا کہ مٹی سے بننے والے اور گندے پانی کے ناپاک قطرہ سے پیدا ہونے والے انسان کو اللہ کا قرب حاصل کر سکے۔

ان تمام آیات کا حاصل یہ ہے کہ ہر انسان کے ذمہ اﷲ کا واجبی حق عبادت ہے اور اس کی اہمیت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ حیاتِ انسانی کا مقصود ہے اور اس کی جامعیت کا عالم یہ ہے کہ وہ ہر لمحۂ زندگانی کو محیط اور ہر شعبۂ زندگی تک وسیع ہے اور اس کے فوائد و برکات یہ ہیں کہ اس سے انسانی زندگی میں ایمانی اور روحانی انقلاب آجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’اسلام اس لیے آیا ہے کہ اپنے ماننے والوں کے پاؤں کے نیچے دونوں جہان کی بادشاہتیں رکھ دے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب عبادات کے مفہوم کو اسکی وسعت کے ساتھ سمجھا جائے جو اسلام کا منشا ہے اور اسی کے ساتھ اس کو ادا کیا جائے جو اسلام کا تقاضا ہے۔

 اس فصل میں تفسیر تدبر قرآن کی روشنی میں درج ذیل آیات کا استفہامی اسلوب عبادات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔سورۃ البقرہ آیت نمبر،۱۱۴ سورۃ الکھف آیت نمبر ۵۷ ،سورۃ المؤمنون آیت نمبر ۱۱۵، سورۃ العنکبوت آیت نمبر۶۷، اور سورۃ القدر آیت نمبر۲۔

 



[[1]]       ذاکر نائیک،ڈاکٹر، اسلام دین کائنات، بیکن بکس لاہور، ۲۰۱۰ء،ص۳۴،۳۵۔

[[2]]       ابن کثیر، تفسیر ابنِ کثیر:۶/۴۲۶۔

[[3]]       القرضاوی، العبادۃ للقرضاوی/۱۹۔

[[4]]       القرآن ، ۳۶ :۶۰۔۶۱

[[5]]       قاسمی، محمد اسجد ، عبادت کا جامع اور ہمہ گیر تصور، اکیڈمی بکس سنٹر کراچی، اگست ۲۰۰۶ء،ص ۵۲۔

[[6]]       ابن تیمیہ، العبودیۃ:۱۰۔

[[7]]       القرآن ، ۲: ۱۱۴۔

[[8]]       اصلاحی، تدبر قرآن،۱/ ۸۸۔

[[9]]       اصلاحی، تدبر قرآن،۱/ ۸۷۔

[[10]]    القرآن ، ۱۸: ۵۷۔

[[11]]   اصلاحی، تدبرِ قرآن، ۴/۵۹۸۔

[[12]]    القرآن ، ۲۳: ۱۱۵۔

[[13]]    اصلاحی، تدبرِ قرآن،۵/۳۵۰۔

[[14]]    القرآن ، ۲۹: ۶۷۔

[[15]]    اصلاحی، تدبرِ قرآن،۵/۴۷۸۔

[[16]]    القرآن ، ۹۷: ۲۔

[[17]]    اصلاحی، تدبر قرآن،۹/ ۴۶۷۔

[[18]]    اصلاحی، تدبر قرآن،۹/ ۴۶۸۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...