Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

فصل چہارم: آیاتِ استفہام میں فہمِ معاملات
ARI Id

1695203136242_56118322

Access

Open/Free Access

Pages

258

ہر انسان کو اپنی اصلاح اور درستگی اور سیرت کی تعمیر پر توجہ دینی چاہیے اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ المائدہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

"يٰـاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا عَلَيكُم اَنفُسَكُم‌ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ اِذَا اهتَدَيتُم‌ اِلَى اللّٰهِ مَرجِعُكُم جَمِيعًا فَيُـنَـبِّـئُكُم بِمَا كُنتُم تَعمَلُونَ "۔[[1]]

"اے ایمان والو، تم اپنی فکر رکھو، اگر تم ہدایت پر ہو تو جو گمراہ ہوا وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑے گا۔ اللہ ہی کی طرف تم سب کا پلٹنا ہے، وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو"۔

"اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر وقت دوسروں کے اعمال کی برائیوں دوسروں کے عقائد کی خرابیوں پر نظر رکھنے کی بجائے خود اپنے افعال واعمال، کردار و سیرت، اخلاق اقوال ، افکار و خیالات کو خرابی اور برائی سے بچانے کی فکر وسعی ہونی چاہیے انسان کو ہمہ وقت اپنی ذات کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے کہ وہ خدا اور بندگان خدا کے حقوق کی ادائیگی کر رہا ہے یا نہیں یہ احساس اور فکر پیدا ہو جائے تو وہ کامیاب ہے۔ اس لیے صاحب عقل وہی ہے جو قوت و ضعف کے پہلوؤں کو فراموش اور نظر انداز نہ کرے وہ اپنی قوت ذہانت اور معلومات پر اکڑ نہ دکھائے اور اپنی برتری کا مدعی نہ ہو اور اس کا احساس برتری کی ضرورت کی حد تک نہ پہنچے اسی طرح وہ اپنی کمزوری بے بسی اور ناتوانی کے پیش نظر اپنے کو حقیر نہ سمجھیں اور اس کا احساس کمتری ناکامی کی حد تک اسے نہ پہنچائے افراد واقوام کی یہ بیماریاں ہوتی ہیں کہ یا تو ان کا احساس برتری کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے یا ان کا احساس کمتری کا شکار ہو تو دل سے جا ملتا ہے کہ غرور کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی دوسرے کو ذلیل و حقیر باور کرنے لگتا ہے اپنے دائرہ اختیار سے خارج میں دخل اندازی کر بیٹھتا ہے جن چیزوں سے ناآشنا ہوتا ہے وہ کسی کے مسائل اور ہدایات پر کام نہیں کرتا کسی بڑے کو بڑا نہیں مانتا اسلامی تعلیمات میں احساس برتری کے افراد اور احساس کمتری کی تفرید دونوں سے نکال کر خود اعتمادی اور جذبہ عمل کی تعداد علم کی ترغیب کے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں ایک طرف اسلام کبر و غرور سے سختی سے منع کرتا ہے اسے پستی وذلت کا سبب بتاتا ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ ہر نعمت اللہ کی عطا کردہ ہے اور انسان بے حد ناتواں جاھل عاجز اور بے بس ہے"۔[[2]]

 دین اسلام، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات پر مبنی وہ نظام حیات ہے، جو ہر اعتبار سے کامل ومکمل ہے، اور انسانی زندگی کے ہر شعبے کی ضروریات کے متعلق بہترین راہنمائی فراہم کرتا ہے، اس میں انفرادی زندگی سے لےکر اجتماعی،بین الاقوامی زندگی کے ہر گوشے کے بارے میں راہنمائی موجود ہے، بلکہ اسلامی قوانین انسانی زندگی کے لیے پیدائش سے لے کر موت تک پورے معاشرے کے وجود کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔عمومی طور پر اسلام کو پانچ اہم شعبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاقیات۔اس فصل میں معاملات سے بحث کریں گے۔باہمی لین دین، خرید وفروخت قرض وغیرہ کو “معاملات” کہتے ہیں، انسانی زندگی میں باہمی ربط وتعلق کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ معاملات ناگزیز ہیں، بلکہ زندگی کا دارومدار ہی معاملات پر ہے۔اسلام نے دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ معاملات میں بھی انسانوں کی راہنمائی کی ہے، تاکہ لین دین کرتے وقت انسان احکام شرح اور وحی الہٰی کی روشنی میں اپنے معاملات کو جائز اور پاک صاف رکھ سکیں، ایک دوسرے کے ساتھ دھوکہ دہی، جھوٹ و فریب وغیرہ جیسی چیزوں سے پرہیز کر سکیں۔

 "حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بازار میں بیچنے کے لیے کوئی سامان رکھا اور اس کے بیچنے کے سلسلے میں قسم کھائی تو یہ آیت نازل ہوئی ۔" جو لوگ اللہ کی قرار پر اور اپنی قسموں پر تھوڑا سا مول لے لیتے ہیں ان کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔ قیامت کے دن ان سے نہ اللہ بات کرے گا اور نہ ان کی طرف نگاہ کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔"[[3]]

 "ایک اور حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،جس آدمی نے جھوٹی قسم کے ذریعے کسی کاحق دبایا تو اس نے آگ کو واجب کیا، راوی نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر وہ کوئی معمولی چیز ہو تب بھی؟ آپ علیہ السلام نے جواب فرمایا “اگر چہ وہ درخت کی سبز ٹہنی ہی کیوں نہ ہو"۔ [[4]]

اس فصل میں تفسیر تدبر قرآن کی روشنی میں آیات استفہام کو معاملات کے ضمن میں پیش کیا جائے گا۔

  1. سورہ آل عمران میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"يٰـاَهلَ الكِتٰبِ لِمَ تَكفُرُونَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَاَنـتُم تَشهَدُونَ "۔[[5]]

"اے اہل کتاب اللہ کی آیات کا کیوں انکار کرتے ہو حالانکہ تم گواہ ہو۔"

نیز فرمایا:

"يٰـاَهلَ الكِتٰبِ لِمَ تَلبِسُونَ الحَـقَّ بِالبَاطِلِ وَتَكتُمُونَ الحَـقَّ وَاَنـتُم تَعلَمُونَ "۔ [[6]]

"اے اہل کتاب تم کیوں حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ کرتے ہو اور حق کو چھپاتے ہو در آں حال یہ کہ تم جانتے ہو۔"

اس آیت کی تفسیر میں امین احسن اصلاحیؒ یوں رقمطراز ہیں:

"حق اور باطل کو ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ کرتے ہو جیسے یہود نے پوری تورات کو اپنی تحریفات سے مسخ کر ڈالا تھا جس کے سبب سے حق و باطل کا امتیاز مشکل ہوگیا تھا لیکن یہاں خاص طور پر ان تحریفات کی طرف اشارہ ہے جو انہوں نے حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل اور تعمیر بیت اللہ سے متعلق حالات و واقعات اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشین گویوں ان کے اندر تھیں۔ ان تحریفات کا مقصد یہ تھا کہ حضرت ابراہیم کا تعلق مکہ اور بیت اللہ سے اس طرح کاٹ دیا جائے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق انبیا کے بیان کردہ حقائق پر پردہ ڈالا جاسکے۔ علمائے یہود بھی ان تحریفات سے واقف تھے اور فی الواقع ان تحریفات کی نوعیت ہے ہی ایسی کہ ان پر گرفت کی جاسکتی ہے۔" [[7]]

" یہاں زیر بحث یہود کے عوام کا کردار نہیں بلکہ ان کے علماء کا کردار ہے۔ سیاق وسباق اور آیت کے الفاظ اس پر دلیل ہیں۔ آگے اہل کتاب، بالخصوص یہود کی بعض سازشوں اور شرارتوں کا ذکر کیا ہے جن کا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح وہ مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیریں۔ پھر اس گہرے بغض و حسد کا پتہ دیا ہے جو بنی اسرائیل کے اندر بنی اسماعیل کے خلاف تھا جس کے سبب سے وہ کسی طرح بھی اس بات کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ بنی اسماعیل بھی ان کی طرح کتاب و شریعت کے حامل سمجھے جائیں اور اللہ کے ہاں ان کے جرائم کے گواہ بنیں۔ گویا اس جوش عداوت میں خدا کے فضل کے اجارہ دار وہ خود بن بیٹھے تھے کہ جس کو چاہیں اس میں سے حصہ دیں اور جس کو چاہیں محروم کردیں۔ اس عداوت و حسد نے بنی اسماعیل کے خلاف بنی اسرائیل کے مجموعی باخلاق و کردار کو ایک خاص سانچے میں ڈھال دیا تھا۔ وہ ان کے معاملے میں کسی اخلاقی و شرعی ضابطے کی پابندی کے قائل نہیں تھے۔ ان کی رکھی ہوئی امانتوں میں خیانت کرنا وہ ثواب سمجھتے تھے کہ یہ کافر کا مال ہے، اس کو دبا بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قرآن نے ان باتوں کا حوالہ اس لیے دیا کہ مسلمانوں کو متنبہ کرے کہ جن کا حسد اور بغض تمہارے خلاف اس حد تک بڑھا ہوا ہے ان سے یہ توقع نہ رکھو کہ ان کا کوئی مشورہ تمہارے لیے خیر خواہانہ ہوسکتا ہے اور تمہارے حق میں ان کی زبان سے کوئی سچی بات نکل سکتی ہے۔ یہ تو تمہارے ایک پیسے کی بھی چوری کرسکتے ہیں، پھر ان سے یہ توقع کیسے رکھتے ہو کہ یہ تمہاری ایک لاکھ کی امانت ادا کردیں گے اور تمہارے نبی کے بارے میں اس حق کی شہادت دیں گے جس کے وہ امین بنائے گئے تھے۔"[[8]]

 اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہودیوں کی روش کا ذکر فرماتے ہوئے بطور انذار کے استفہام فرما رہے ہیں کہ اے اہلِ ایمان! تم یہودیوں کی طرح کیوں کرتے ہو جان بوجھ کر حق کا باطل کے ساتھ ملا رہے ہو ایسا کرنے سے جان لو کہ تم کو بھی انکی طرح دردناک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔

(۲)سورہ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"اُنْظُر كَيفَ يَفتَرُونَ عَلَى اللّٰهِ الـكَذِبَ‌ وَكَفٰى بِهٖ اِثمًا مُّبِينًا "[[9]]

"دیکھو، یہ اللہ پر کیسا جھوٹ باندھ رہے ہیں اور صریح گناہ ہونے کے لیے تو یہی کافی ہے۔"

 پھر فرمایا:

"اَلَم تَرَ اِلَى الَّذِينَ اُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الكِتٰبِ يُؤمِنُونَ بِالجِبتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هٰٓؤُلَاءِ اَهدٰى مِنَ الَّذِينَ اٰمَنُوا سَبِيلًا "۔[[10]]

"ذرا ان کو دیکھو جنہیں کتاب الٰہی کا ایک حصہ ملا۔ یہ جبت اور طاغوت پر عقیدہ رکھتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان والوں سے زیادہ ہدایت پر تو یہ ہیں"

"اَم لَهُم نَصِيبٌ مِّنَ المُلكِ فَاِذًا لَّا يُؤتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا "۔ [[11]]

"کیا خدا کے اقتدار میں کچھ ان کا بھی دخل ہے کہ یہ لوگوں کو کچھ بھی دینے کو تیار نہیں ؟"۔

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

 "جبت سے مراد اعمال سفلیہ، مثلا سحر، شعبدہ، ٹونے ٹوٹکے، رمل جفر، فال گیری، نجوم، آگ پر چلنا اور اس قسم کی دوسری خرافات ہیں۔ ہاتھ کی لکیروں کا علم بھی اسی میں شامل ہے۔ دین کی بنیاد توحید پر ہے۔ یہ صرف عقیدوں میں سے ایک عقیدہ ہی نہیں ہے بلکہ سارے دین کے قیام و بقا کا انحصار اسی پر ہے۔ جو لوگ ہر پہلو سے اس کی حفاظت کرتے ہیں وہی اپنی دوسری کوتاہیوں کے باوجود اپنے اصلی دین کی حفاظت کرتے ہیں۔ برعکس اس کے جو لوگ توحید میں رخنہ پیدا کردیتے ہیں وہ اصلی دین کو ہدم کردیتے ہیں۔ چنانچہ ان کے دوسرے کام بھی، جو بظاہر دینداری کے ہوں، بالکل بےسود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرمائے گا لیکن دوسرے گناہوں کو جن کے لیے چاہے گا معاف فرما دے گا۔ ’ جن کے لیے چاہے گا ‘ کی قید اس بات کی دلیل ہے کہ دوسرے گناہوں کے معاملے میں بھی کسی کو دلیر نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ ان کی معافی بھی اللہ ہی کی مشیت پر منحصر ہے۔ اس کی مشیت میں نہ تو کسی دوسرے کو کوئی دخل ہے، نہ اس کی کوئی مشیت حکمت سے خالی ہے۔ علاوہ ازیں گناہوں کے معاملے میں دیدہ دلیری اور ڈھٹائی بجائے خود بھی شرک کی ایک قسم ہے۔ "[[12]]

"شرک کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں فرمائے گا یہود جو لعنت کے مستحق قرار پائے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حامل کتاب ہوتے ہوئے انہوں نے دین کی جو بنیاد ہے وہی اکھاڑ دی ہے اور اس کی جگہ انہوں نے شرک کو اختیار کرلیا ہے۔ ’ شرک ‘ اللہ پر ایک افترائے عظیم ہے جس کو اللہ تعالیٰ کبھی معاف فرمانے والا نہیں ہے۔ شرک کو افترا کہنے کی وجہ ہم دوسری جگہ واضح کرچکے ہیں کہ شرک کرنے والے اپنی تمام مشرکانہ حرکات کو دین کی سند دینے کے لیے یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان باتوں کا حکم ان کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ پر صریح تہمت ہے۔ اور اگر کوئی گروہ جو اللہ کے دین کی گواہی دینے پر مامور ہو، وہ خدا پر تہمت باندھنے کا پیشہ اختیار کرلے تو وہ لعنت کے سوا اور کس چیز کا مستحق ہوسکتا ہے !" [[13]]

یہود کی ذہنیت مسلمانوں کے خلاف یہ تھی کہ وہ مشرکین تک کو گوارا کرنے کے لیے تیار تھے۔ جبکہ مسلمانوں کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے ! ظاہر ہے کہ جس طرح حق کی حمایت حق پرستی ہے اسی طرح شرک کی حمایت شرک پرستی ہے۔ مطلب یہ کہ کیا خدا کے اقتدار و اختیار میں کچھ ان کی بھی حصہ داری ہے کہ اس کے فضل انعام میں سے یہ جس کو چاہیں حصہ دیں، جس کو چاہیں محروم کردیں، چنانچہ اپنے اسی اختیار کی بنا پر وہ مسلمانوں کو خدا کے فضل و کرم سے محروم رکھنا چاہتے ہیں ان آیات میں باطل کے رد کے لئے استفہام کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اللہ کے بادشاہت میں شریک ہیں کیا تبھی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں یا یہ ( نعوذباللہ) خدائی کے دعویدار بنے بیٹھے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اللہ پاک کے اختیار میں ہے جسے چاہے فائدہ پہنچائے اور جسے چاہے نقصان سے دو چار کرے۔

(۳) سورہ الاسرآء میں ارشادِ ربانی ہے:

"اَفَاَمِنتُم اَن يَّخسِفَ بِكُم جَانِبَ البَرِّ اَو يُرسِلَ عَلَيكُم حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوالَـكُم وَكِيلًا"[[14]]

"کیا تم اس بات سے نچنت ہوگئے کہ وہ خشکی کی جانب تمہارے سمیت زمین کو دھنسا دے یا تم پر باد تند بھیج دے، پھر تم کسی کو اپنا کارساز نہ پاؤ"۔

مزید اگلی آیت میں ارشاد فرمایا:

"اَم اَمِنتُم اَن يُّعِيدَكُم فِيهِ تَارَةً اُخرٰى فَيُرسِلَ عَلَيكُم قَاصِفًا مِّنَ الرِّيحِ فَيُغرِقَكُم بِمَا كَفَرتُم‌ ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَـكُم عَلَينَا بِهٖ تَبِيعًا "۔[[15]]

"یا تم اس سے بے خوف ہوگئے کہ تم کو دوبارہ اسی میں لوٹائے پھر وہ تم پر باد تند کا جھونکا بھیج دے پس وہ تمہاری ناشکری کی پاداش میں تم کو غرق کردے اور تم اس پر ہمارا کوئی پیچھا کرنے والا اپنے لیے نہ پاؤ"۔

 اس آیت میں صراحت کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے کہ اگر اللہ چاہے تو تم پر شدید اور تیز و تند ہوا بھیج کر تم کوہلاک کر ڈالے کیونکہ تم سے سابقہ اقوام کو بھی نافرمانی کے سبب مختلف قسم کے عذاب سے دوچار ہونا پڑا اور ان کو نیست ونابود کر دیا گیا اور کچھ کو پانی کے عذاب میں مبتلا کرکے انکو صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا تو ان کا کوئی پیچھا کرنے والا یا ان کو بچانے والا کوئی نہ تھا اسی طرح نافرمانی کے باعث اللہ کفار و مشرکین کو بھی تباہ و برباد کرنے پر قادر ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں امین احسن اصلاحی یوں رقمطراز ہیں:

"سرکشوں سے یہ سوال فرمایا ہے کہ دریا سے خشکی میں آجانے کے بعد خدا سے بےخوف اور بےپروا کیوں ہوجاتے ہو ؟ کیا سمجھتے ہو کہ خدا کی خدائی دریا ہی تک محدود ہے۔ خشکی اس کی خدائی سے باہر ہے ؟ اگر وہ خشکی میں زمین کو تمہارے سمیت دھنسا دے یا تم پر کنکر پتھر برسا دینے والی باد تند بھیج دے جو تم کو اور تمہارے مکانوں کو تہس نہس کر کے رکھ دے تو آخر کون ہے جو تم کو خدا سے بچانے والا بن سکے گا۔سرکشوں کی اس حالت کی تمثیل ہے کہ جب وہ کسی مصیبت میں پکڑا جاتا ہے تب وہ خدا خدا پکارتا اور اسی کے آگے روتا اور گڑگڑاتا ہے لیکن جوں ہی اس مصیبت سے نجات پا جاتا ہے پھر اکڑنے اور سرکشی کرنے لگتا ہے۔ اسے یہ بات بالکل فراموش ہوجاتی ہے کہ اگر خدا چاہے تو اس کو پھر اسی حالت میں گرفتار کرسکتا ہے اور اس طرح گرفتار کرسکتا ہے کہ پھر اس سے کبھی رہائی نصیب نہ ہو۔ہر نعمت جو انسان کو ملتی ہے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ملتی ہے اس کا حق یہ ہے کہ انسان اس نعمت سے متمتع اور اپنے رب کا شکر گزار ہو لیکن یہ انسان کی عجیب بدبختی ہے کہ جب اس کو نعمت ملتی ہے تو وہ خدا سے اکڑتا ہے اور ہر چیز کو اپنی سعی و تدبیر کا کرشمہ اور اپنے مزعومہ دیویوں دیوتاؤں کا فضل و کرم سمجھتا ہے لیکن جب کسی گردش میں آجاتا ہے تو خدا خدا پکارنے لگتا ہے، اس وقت سارے دیوی دیوتا اس کو بھول جاتے ہیں۔ پھر جب اللہ اس گردش سے اس کو نجات دے دیتا ہے تو وہ پچھلی خرمستی اس پر عود کر آتی ہے اور خدا کو بھول جاتا ہے"۔[[16]]

 " اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کشتی اور دریا کے سفر کی مثال دی ہے کہ یہ خدا ہی کی قدرت ہے کہ ہزاروں ٹن کا وزنی جہاز سمندر کے سینے پر چلتا ہے۔ اللہ نے یہ انتظام اس لیے فرمایا ہے کہ انسان اپنے سفروں میں اس سے فائدہ اٹھائے اور خدا کے اس فضل و رحمت پر اس کا شکر گزار ہو لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ جب کشتی رواں دواں رہتی ہے اس وقت تک تو خدا کا اس کو کبھی خیال بھی نہیں آتا لیکن جب کشتی کسی طوفان میں گھر کر ہچکولے کھانے لگتی ہے تو اس وقت اس کو اپنی اکڑ بھی بھول جاتی ہے اور دوسرے دیوی دیوتا بھی بھول جاتے ہیں، اس وقت وہ صرف خدا ہی سے فریاد و استغاثہ کرتا ہے لیکن یہ حالت صرف اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک کشتی گردابِ بلا میں رہتی ہے۔ جو ہی کشتی اس گرداب بلا سے نکلی اور انسان نے خشکی پر قدم رکھا پھر نہ اسے مصیبت کی وہ ساعت یاد رہتی ہے اور نہ اس کو خدا سے اپنا رونا اور گڑگڑانا یاد رہتا ہے۔ تم ایک مرتبہ خدا سے چھوٹ جانے کے بعد یہ کیوں سمجھ بیٹھے کہ خدا سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہوگئے۔ آخر یہ بھی تو ممکن ہے کہ خدا تمہیں کفرانِ نعمت کی سزا دینے کے لیے پھر ایسے حالات پیدا کردے کہ تمہیں دوبارہ پھر اسی سمندر سے سابقہ پیش آئے اور وہ تم پر ایسی باد تند بھیجے جو سب کچھ توڑ پھوڑ کر تمہیں غرق کردے اور تمہارا کوئی حامی تمہاری حمایت میں ہمارا تعاقب کرنے والا نہ بن سکے !"۔[[17]]

ان آیات میں مشرکین کا معاملہ بیان کیا جا رہا ہے کہ کس طرح مصیبت میں اللہ کو پکارتے ہیں جب وہ مصیبت ختم ہو جائے تو پھر ہٹ دھرمی کے ساتھ پرانی روش ہو لوٹ آتے ہیں یہاں مخالف کو چیلنج کرنے کے لئے سوال کیا جا رہا ہے کہ اگر تمہارے جھوٹے معبود تمہیں بچا سکیں تو انکو کہو کہ تمہاری مدد کریں در حقیقت اللہ اگر چاہے تو تم پر تیز ہوائیں بھیج کر تمہارا خاتمہ کر دے اور اس وقت کوئی بھی تمہارا مددگار نہ ہوگا۔

(۴) سورہ لقمان میں فرمان باری تعالیٰ ہے:

"اَلَم تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُولِجُ الَّيلَ فِى النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِى الَّيلِ وَسَخَّرَ الشَّمسَ وَالقَمَرَ كُلٌّ يَّجرِى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّاَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعمَلُونَ خَبِيرٌ "۔[[18]]

"کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ ہی ہے جو داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور دن کو رات میں اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ ہر ایک گردش کرتا ہے ایک مقررہ وقت تک اور یہ کہ اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے باخبر ہے۔"

 اس آیت میں اللہ پاک بیان فرما رہے ہیں کہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم کس طرح دن کو رات میں بدل دیتے ہیں اور رات کو دن میں، اور سورج کو روشنی کا ذریعہ بنایا ہے اور وہ اپنے مدارمیں گردش کرتا رہتا ہے اور اللہ کے بتائے ہوئے طریقے اور وقت کے مطابق ہی چلتا ہے اسی طرح چاند بھی اس حکیم ذات کے حکم کے مطابق ہے گھٹتا اور بڑھتا ہے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آسکتی ہے اور نہ دن رات کے بعد آسکتا ہے یہ اس حکیم و خبیر ذات کا بنایا ہوا نظام ہے جس میں کوئی بھی ردوبدل کا اختیار نہیں رکھتا۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں:

 " یہ خدا ہی کی قدرت و حکمت ہے کہ وہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنا، تصویر ہے ،پابند اوقات کے ساتھ، ان کی آمد و شد کی۔ یہ اسی کی قدرت و حکمت ہے کہ اس نے سورج اور چاند کو اپنی خلق کی خدمت گزاری کے لئے مسخر کر رکھا ہے اور یہ دونوں پوری پابندی اوقات کے ساتھ اپنے عار میں گردش کرتے ہیں۔ مجال نہیں ہے کہ مدار سے سرموانحراف ہو یا نظام اوقات کی پابندی میں منٹ یا سیکنڈ کا بھی فرق واقع ہونے پائے۔ ان نشانیوں کی طرف توجہ دلانے سے مقصود انہی حقائق کو واضح کرنا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جس خدا کی قدرت کی یہ نشانیاں دیکھتے ہو اس کی نسبت تم یہ گمان کرتے ہو کہ وہ تم کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا ؟ جو رات اور دن اور سورج اور چاند کو اس طرح گردش دے رہا ہے کیا اس کی مخلوقات میں سے کوئی چیز اس کا شریک ہونے کا درجہ رکھتی ہے ! اور کیا جس نے اپنی ربوبیت کی یہ شانیں دکھائی ہیں اس کی نسبت اس سوئے ظن کی کوئی گنجائش ہے کہ اس نے یہ سارا کارخانہ بالکل عبث بنایا ہے، اس کے پیچھے کوئی روزِ اجر نہیں ہے۔ اگر تم اس نظام ربوبیت وقدرت پر غور کرو تو اس امر میں ذرا شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہے گی کہ جو اس سارے نظام کو چلا رہا ہے وہ تم سے اور تمہارے اعمال سے بےخبر نہیں ہوسکتا۔ اگر وہ بےخبر ہو تو وہ تمہاری پرورش کس طرح کرے گا ؟ اور اگر باخبر ہے تو آخر وہ تم سے پرسش کیوں نہیں کرے گا کہ تم نے اس کی پروردگاری کا حق ادا کیا یا نہیں !" ۔[[19]]

ان آیات میں اللہ اپنی قدرت کاملہ کے اثبات کے لئے سوال فرما رہے ہیں کہ تم لوگ غور نہیں کرتے کہ ہم نے انسان کے فائدے کے لئے بے شمار چیزیں پیدا کیں اور اسکو زندگی گزارنے کے لئے رشتے دیئے اور انکے حقوق و فرائض اس پر عائد کئے تو اگر تم اپنے فرائض کی بجاآوری میں کوتاہی کروگے تو تم سے ضرور بازپرس کی جائے گی۔

(۵)سورہ لقمان کی اگلی آیت میں اللہ پاک نے مزید ارشاد فرمایا:

"اَلَم تَرَ اَنَّ الفُلكَ تَجرِى فِى البَحرِ بِنِعمَتِ اللّٰهِ لِيُرِيَكُم مِّن اٰيٰتِهٖ اِنَّ فِى ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لِّـكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ "۔[[20]]

"کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ ہی کے فضل سے کشتی دریا میں چلتی ہے تاکہ وہ تم کو اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ بیشک اس کے اندر نشانیاں ہیں ہر صبر و شکر کرنے والے کے لئے۔"

اس آیت کی تفسیر میں امین احسن اصلاحیؒ یوں رقمطراز ہیں:

" کشتی کی مثال سے مخاطبوں کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مغرور اور مایوس ہوجانے والے نہ بنو بلکہ امتحان و آزمائش میں صبر کرنے والے اور نعمت میں شکر کرنے والے بنو۔ یہی راستہ سلامتی کا ہے اور اسی پر چل کر فلاح حاصل کرنے والے بن سکو گے مگر تمہارا حال یہ ہے کہ اس وقت خدا کی عنایت سے جو تمہارے حالات سازگار ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر تمہارے پائوں ہی نہیں پڑ ہے ہیں، حالانکہ یہ سارا نشہ بالکل عارضی ہے۔ اگر ابھی خدا کی کسی پکڑ میں آگئے تو سارا نشہ ہرن ہوجائے گا اور توبہ توبہ پکار اٹھو گے۔ لیکن یہ توبہ بی بالکل وقتی ہوگی، جونہی حالات سازگار ہوں گے وہی سرمستی پھر عود کر آئے گی۔ ایک کشتی کے مسافروں کو جس طرح کے حالات پیش آتے ہیں ان سے سبق لو۔ اگر کوئی آزمائش میں صابر اور نعمت میں شاکر رہنا چاہے تو اس کے لئے ان کے حالات میں بڑا درس ہے۔"[[21]]

سمندروں میں کشتیوں کا چلنا بھی اللہ کے کمال قدرت کی نشانی ہے ان کشتیوں کو انسانوں کے فائدے کے لئے بنایا گیا ہے تاکہ لوگ اس سے فائدہ حاصل کریں اور اپنے رب کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزاریں اگر انسان پھر بھی سرکشی کا راستہ اپنائے گا تو ناکام ہو جائے گا اس میں بطور ترغیب سوال کیا گیا ہے۔

(۶) سورہ الصافات میں ارشادِ خداوندی ہے:

"اَم خَلَقنَا المَلٰٓئِكَةَ اِنَاثًا وَّهُم شٰهِدُون، اَصطَفَى البَنَاتِ عَلَى البَنِينَ، مَا لَـكُم كَيفَ تَحكُمُونَ، اَفَلَا تَذَكَّرُونَ‌، اَم لَـكُم سُلطٰنٌ مُّبِينٌ‏ ۔ [[22]]

"کیا ہم نے فرشتوں کو عورتیں بنایا اور وہ رہے تھے ! آگاہ، کیا اس نے بیٹوں پر بیٹیوں کو ترجیح دی !، تمہیں کیا ہوگیا ہے، تم کیسا فیصلہ کرنے ہوا، کیا تم ہوش سے کام نہیں لیتے !، کیا تمہارے پاس واضح حجت ہے!"۔

ان آیات کی تفسیر میں صاحب تفسیر تحریر فرماتے ہیں:

"مشرکین عرب خود بیٹیوں کو ناپسند کرتا تھے اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں سمجھتے تھےیعنی اگر اسے اولاد ہی کا شوق تھا تو سوچنے کی بات ہے کہ اس نے بیٹوں پر بیٹیوں کو کیوں ترجیح دی۔ وہ جب بیٹے بھی پیدا کرسکتا تھا تو آخر اس نے اپنے لئے وہ چیز کیوں گوارا کی جس کو تم اپنے لیے بادل نخواستہ ہی گوارا کرتے ہو۔ تمہاری عقل کو کیا ہوگیا ہے کہ تم ایسا الٹا فیصلہ کرتے ہو۔ فلا تذکرون یعنی تمہاری یہ بات صاف شہادت دے رہی ہے کہ تم ذرا بھی ہوش و حواس سے کام لینے والے لوگ نہیں ہو ورنہ آخر خدا کے لئے وہ بات کس طرح پسند کرتے ہو جو اپنے لئے پسند کرنے پر تیار نہیں ہو کہ اگر تمہارے پاس کسی آسمانی کتاب کی شہادت تمہارے اس دعوے کے حق میں موجود ہو تو اس کو پیش کرو۔ خدا کے بارے میں کسی کو کوئی بات من گھڑت طور پر کہنے کا حق نہیں ہے۔ بلکہ صرف دلیل وبرہان کی بنیاد پر کہنے کا حق ہے اور سب سے زیادہ واضح اس کی کتاب ہو سکتی ہے جو اس نے لوگوں کی تعلیم و ہدایت کے لئے اتاری ہو۔"[[23]]

ان آیات میں اللہ پاک مشرکین کے انوکھے فیصلے کے بارے میں بطور ذہنی استعداد جانچنے کے لیے استفہام فرما رہے ہیں کہ یہ لوگ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں اور خود بیٹی کو باعثِ عار سمجھتے ہیں اور بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے ہیں اگر اللہ پاک کو اولاد ہی بنانی ہوتی تو وہ بیٹا بنا سکتا تھا اگر تم یہ سچ کہتے ہو تو تمہارے پاس جو دلیل ہے وہ لیکر آؤمگر وہ ایسے جھوٹی باتوں کی دلیل لانے سے قاصر ہیں اللہ تو وہ پاک ذات ہے نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ ہی وہ جنا گیا ہے۔

(۷)سورہ الزخرف میں فرمان الٰہی ہے:

"اَم اَبرَمُوا اَمرًا فَاِنَّا مُبرِمُونَ‌، اَم يَحسَبُونَ اَنَّا لَا نَسمَعُ سِرَّهُم وَنَجوٰهُم‌ بَلٰى وَرُسُلُنَا لَدَيهِم يَكتُبُونَ "[[24]]

"کیا انہوں نے کوئی قطعی فیصلہ کرلیا ہے تو ہم بھی ایک قطعی فصلہ کرلیں گے۔کیا ان کا گمان ہے کہ ہم ان کے رازوں اور ان کی سرگوشیوں کو نہیں سن رہے ہیں ؟ ہاں، ہم سن رہے ہیں اور ہمارے فرستادے ان کے پاس لکھ رہے ہیں"۔

اسی طرح کا مفہوم آگے بیان فرمایا:

"وَلَئِن سَاَلـتَهُم مَّن خَلَقَهُم لَيَقُولُنَّ اللّٰهُ‌ فَاَنّٰى يُؤفَكُونَ "۔ [[25]]

"اور اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا تو وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے تو پھر کہاں بھٹک جاتے ہیں!"۔

ان آیات کی تفسیر میں امین احسن اصلاحی بیان کرتے ہیں کہ:

 "ابرام کے معنی کسی امر کو محکم کرنے کے ہیں۔ یہاں یہ کسی بات کا قطعی فیصلہ کرلینے کے مفہوم میں آیا ہے۔یہ قریش کو فیصلہ کن عذاب کی دھمکی دی ہے اور دھمکی میں شدت پیدا کرنے کے لئے اسلوب اچانک حاضر سے غائب کا اختیار کرلیا ہے گویا وہ لائق خطاب و التفات نہیں رہے۔ فرمایا کہ اگر انہوں نے ایک قطعی فیصلہ کرلیا ہے تو لازماً ہم بھی ایک قطعی فیصلہ کرلیں گے۔ یعنی انہوں نے اگر قرآن اور رسول کی تکذیب کا فیصلہ کرلیا ہے تو یاد رکھیں کہ اس کے بعد اپنی سنت کے مطابق ہم بھی ان کو ہلاک کردینے کا فیصلہ کرلیں گے۔رسولوں کے باب میں اس سنت الٰہی کی وضاحت اس کتاب میں جگہ جگہ گزر چکی ہے کہ جب قوم رسول کے اخراج یا اس کے قتل کا فیصلہ کرلیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو مزید مہلت نہیں دیتا بلکہ رسول اور اس کے باایمان ساتھیوں کو اپنی امان میں لے لیتا اور قوم کو ہلاک کردیتا ہے۔ یہاں اسی سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے کہ اگر یہ لوگ رسول کی تکذیب کے معاملے میں یکسو ہوگئے ہیں تو اب لازماً یہ سنت الٰہی کی زد میں بھی آجائیں گے اور کوئی چیز اس سے ان کو بچانے والی نہیں بنے گی۔ اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ قوم جب تک رسول کی دعوت کے باب میں مذبذب رہتی ہے اس وقت تک تو اللہ تعالیٰ اس کو مہلت دیتا ہے لیکن جب وہ داعی اور دعوت کو ختم کردینے کا حتمی فیصلہ کرلیتی ہے تو اس کے باب میں خدا کا آخری فیصلہ بھی ظہور میں آجاتا ہے۔" [[26]]

 "دوسری آیت میں اللہ ان کی خفیہ سرگوشیوں کی طرف اشارہ فرما رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ یوں تو لوگوں کے ہر راز اور ان کی ہر سرگوشی کو جانتا ہے لیکن سیاق و سباق کلام یہاں دلیل ہے کہ اس سے خاص طور پر ان سرگوشیوں کی طرف اشارہ ہے جو قریش کے لیڈر دارالندوہ وغیرہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل یا اخراج سے متعلق کر رہے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اس مغالطہ میں نہ رہیں کہ خدا ان کی سازشوں اور سرگوشیوں سے بیخبر ہے۔ وہ ان کی تمام خفیہ حرکتوں سے اچھی طرح باخبر ہے اور اس کے فرشتے ان کی ایک ایک بات کا ریکارڈ رکھ رہے ہیں۔ یہ جس وقت پیغمبر کے باب میں اپنا آخری فیصلہ کرلیں گے خدا کا فیصلہ بھی ان کے باب میں ظہور میں آجائے گا۔ پھر ان کے تمام منصوبے دھرے رہ جائیں گی اور خدا کا فیصلہ نافذ ہوجائے گا۔اب اس آیت میں بیان ہے کہ مشرکین کے حال پر اظہار تعجب ہے کہ وہ اللہ کے مقابل میں دوسروں کو شفاعت کا مجاز سمجھتے ہیں۔ فرمایا کہ اگر تم ان سے یہ سوال کرو کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو اس کا جواب بہر شکل وہ یہی دیں گے کہ اللہ نے ! اس حقیقت کو تسلیم کر لنیے کے بعد معلوم نہیں ان کی مت کہاں ماری جاتی ہے کہ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ ان کے مزعومہ معبودوں کو خدا کے ہاں تقرب کا وہ مقام حاصل ہے کہ وہ جس کو چاہیں گے خدا کی پکڑ سے بچا لیں گے اور جس کو چاہیں گے اپنی سفارش سے اعلیٰ سے اعلیٰ مرتبہ پر فائز کرا دیں گے۔[[27]]

ان آیات میں اللہ پاک انذار کے لئے استفہام فرما رہے ہیں کہ اگر کافروں نے قرآن اور رسول کو جھٹلانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو ہم نے بھی ان پر عذاب کا قطعی فیصلہ کر لیا ہے پھر انکے تمام فیصلے ناکام ہو جائیں گے اور قیامت کے دن انکو ناکامی اور حسرت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ چپکے چپکے سرگوشی کرتے تھے تو سمجھتے تھے کہ اللہ کو علم نہیں ہے جیسے دارالندوہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قتل کی سازش کی تو اللہ نے بذریعہ وحی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع فرما دی یہ جو کام علی الارکان کریں یا چھپا کر کریں اللہ پاک تمام احوال سے باخبر ہے ۔

(۸)سورہ الحدید میں اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں:

"مَن ذَا الَّذِى يُقرِضُ اللّٰهَ قَرضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَلَهٗ اَجرٌ كَرِيمٌ "۔ [[28]]

"کون اٹھتا ہے کہ اللہ کو قرض دے اچھا قرض کہ وہ اس کو اس کے لیے بڑھائے اور اس کے لیے با عزت صلہ ہے!"۔

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

" جہاد کے لیے مالی اعانت کی اپیل ہے کہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دینے کے لیے اٹھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو بڑھائے اور اس کو با عزت اجر عطا فرمائے۔ لفظ ’ قرض ‘ سے اگرچہ عام انفاق بھی مراد ہوسکتا ہے لیکن یہاں سیاق وسباق سے واضح ہے کہ اس سے جہاد کے لیے مالی اعانت ہی مراد ہے۔انفاق فی سبیل اللہ کے لیے قرض کے لیے لفظ میں جو اپیل ہے وہ محتاج وضاحت نہیں ہے۔ اوپر واضح ہوچکا ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی سپرد کردہ امانت ہے۔ اب یہ کتنا بڑا فضل ہے اس رب کریم کا کہ وہ اپنا ہی عطا کیا ہوا مال اپنی راہ میں خرچ کرنے کی جب بندوں کو دعوت دیتا ہے تو اس کو اپنے ذمہ قرض ٹھہراتا ہے جس کی واپسی کا وہ گویا اسی طرح ذمہ دار ہے جس طرح ایک قرض دار اپنے مہاجن کی رقم کی واپسی کا ذمہ دارہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ قرض اس لیے نہیں مانگ رہا ہے کہ اس کے خزانے میں کوئی کمی ہے۔ جب سب کچھ اسی کا پیدا کردہ اور اسی کا عطا کردہ ہے تو اس کے پاس کمی کا کیا سوال ؟ بلکہ وہ تو صرف اس لیے مانگ رہا ہے کہ لوگوں کے عطا کردہ مال کو وہ اپنے بنک میں جمع کر کے اس کو اچھی طرح بڑھائے تاکہ اس کا منافع ایک ابدی زندگی میں ایک کبھی نہ ختم ہونے والے سرمایہ کی صورت میں ان کے کام آئے۔[[29]]

 مطلب یہ ہے کہ جو اپنا سرمایہ اس دنیا کے بنک میں جمع کرتا ہے تو یہ دنیا اور اس کا سرمایہ ہر چیز چند روزہ ہے البتہ جو اپنا مال اپنے رب کے پاس جمع کرتے ہیں ان کا منافع ابدی اور ہر اندیشہ سے محفوظ ہے۔ ( مضاعفۃ) کا ترجمہ عام طور پر لوگوں نے دگنا کرنا کیا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ اس کے معنی بڑھانے کے ہیں۔ یہ بڑھانا دگنا، چوگنا، دس گنا بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ ہوسکتا ہے۔ اس کا تعلق دینے والے کے خلوص اور ان حالات سے ہے جن میں وہ مال دیا گیا ہے اور سب سے زیادہ اس رب کریم کے فضل سے ہے جس نے اپنے بندوں کے لیے ابدی منفعت کی راہ کھولی ہے۔اس کے ساتھ یہاں صرف ایک شرط لگائی ہے کہ یہ قرض ’ قرض حسن ‘ ہو۔ قرآن میں اس کی وضاحت میں جو باتیں فرمائی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرض، قرض حسن، اس شکل میں بنتا ہے جب دل کی پوری فراخی اور بلندی حوصلگی کے ساتھ دیا جاتا ہے، دل کی تنگی کے ساتھ محض مادے باندھے یا دکھاوے کے لیے نہیں دیا جاتا، اچھے مال میں سے دیا جاتا ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے دیا جاتا ہے، کسی غرض دنیوی کے لیے نہیں دیا جاتا ہے اور نہ دینے کے بعد اس کے دیے جانے پر احسان جتایا جاتا ہے یا کسی پہلو سے کوئی دل آزاری کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ خاص اپنے فضل سے بھی اس کو نہایت با عزت اجر دے گا۔"[[30]]

اس آیت میں جہاد جیسے مقدس احکام کی تعمیل کے لئے مسلمانوں کو ترغیب دلاتے ہوئے سوال کیا جا رہا ہے کہ اللہ کو کون اچھا قرض دے گا؟ یعنی کون شخص اللہ کے راستے میں خرچ کر کے سات سو گنا تک واپس وصول کرنے کی خواہش رکھتا ہے کیونکہ اللہ پاک انسان کو اس کا آج بڑھا چڑھا کر واپس کرتے ہیں تو یہ بہت ہی فائدہ مند سودا ہے ۔مال تو سارا اللہ ہی نے عطا فرمایا ہے اور پھر بھی وہ اپنے بندوں کو اجر دینے کے لئے کہتا ہے کہ کون ہے جو میرے راستے میں خرچ کر کے مجھ سے مزید حاصل کرنا چاہتا ہے۔جو کہ سراسر ہی فائدے کا سودا ہے۔

(۹) سورہ الحدیدہ میں ارشادِ خداوندی ہے:

"يُنَادُونَهُم اَلَم نَكُن مَّعَكُم‌ قَالُوا بَلٰى وَلٰـكِنَّكُم فَتَنتُم اَنفُسَكُم وَ تَرَبَّصتُم وَارتَبتُم وَغَرَّتكُمُ الاَمَانِىُّ حَتّٰى جَآءَ اَمرُ اللّٰهِ وَ غَرَّكُم بِاللّٰهِ الغَرُورُ "۔[[31]]

"یہ ان سے فریاد کریں گے کہ کیا ہم آپ لوگوں کے ساتھ نہیں تھے ؟ وہ جواب دیں گے کہ ساتھ تو تھے لیکن تم نے اپنے کو فتنوں میں مبتلا رکھا، ہمارے لیے گردشوں کے انتظار میں رہے، شبہات میں مبتلا رہے اور آرزوؤں نے تمہیں دھوکے میں رکھا یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ ظاہرہو گیا اور فریب دینے والے نے تمہیں اللہ کے بارے میں مبتلائے فریب ہی رکھا۔"

اس آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں:

 "منافقین کی فریاد اور ان کو جواب کی وضاحت فرمائی جا رہی ہے کہ منافقین جب دیکھیں گے کہ روشنی کی جو جھلک نظر آئی تھی وہ بھی اوجھل ہوگئی اور جن کے ساتھ دنیا میں رہے ان سے بالکل ہی رابطہ ٹوٹ گیا تو وہ دل شکستہ ہو کر فریاد کریں گے کہ بھائیو، آپ لوگوں نے ہمیں بالکل ہی کاٹ پھینکا، کیا دنیا میں ہم آپ لوگوں کے ساتھ نہیں رہے ،اپنے بھائیوں سے یہ بےاعتنائی و بےپروائی ! جواب ملے گا کہ اس میں تو شبہ نہیں کہ دنیا میں تم لوگ بظاہر ہمارے ہی ساتھ رہے لیکن تمہارے دل ہمارے ساتھ نہیں تھے بلکہ تم انہی فتنوں میں مبتلا رہے جن سے اللہ نے تم کو نکالنا چاہا۔ تم نے ایمان کا دعویٰ بڑی بلند آہنگی سے کیا لیکن اس ایمان کے جتنے مطالبے تمہارے سامنے آئے ان میں سے ایک کو بھی پورا کرنے کا حوصلہ تم نے نہیں کیا۔ اپنے مال اور اپنی جان کو اللہ کے دین اور اس کے رسول سے تم نے زیادہ عزیز جانا، تمہاری وفاداریاں اسلام کے دشمنوں کے ساتھ رہیں اور حق کی جگہ ہمیشہ اپنے مفاد ذاتی کو تم نے ترجیح دی۔ یعنی تم برابر ہمارے لیے گردشوں اور آفتوں کے منتظر رہے۔ اور ان بدوی منافقین میں وہ بھی ہیں جو اگر کبھی اسلام کی راہ میں کچھ خرچ کر بیٹھتے ہیں تو اس کو اپنے اوپر ایک تاوان خیال کرتے ہیں "۔[[32]]

نیز فرمایا:

 " تم برابر شک اور تذبذب میں مبتلا رہے۔ اسلام اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حقانیت پر کبھی تمہارا دل نہیں جما۔ تم نے کفر اور اسلام دونوں سے تھوڑا تھوڑا تعلق جوڑے رکھنا چاہا کہ اس کشمکش میں جس کو غلبہ حاصل ہوا اپنا مستقبل اس کے ساتھ وابستہ کرلو گے۔ یعنی تم جھوٹی آرزؤں میں برابر پھنسے رہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں جو ڈھیل ملی تو تم اس دھوکے میں مبتلا ہوگئے کہ تمہاری یہ دو رخی پالیسی کامیاب ہے اور اس کو تم آخر تک کامیابی کے ساتھ بناہ لے جاؤ گے لیکن یہ آرزو پوری نہ ہوسکی۔ شیطان نے تمہیں دھوکے ہی میں رکھا اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ حق کو غالب کرنے کے لیے صادر ہوگیا اور تمہیں یہ روز بد دیکھنا پڑا۔ اللہ کے بارے میں دھوکے میں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں یہ آگاہی جودی جاتی رہی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول اتمام حجت کے لیے بھیج دیا ہے، جو لوگ اس کے بعد بھی اپنے کفر پر اڑے رہیں گے یا نفاق کے پردے میں چھپنے کی کوشش کریں گے وہ لازماً خدا کی گرفت میں آجائیں گے، تو شیطان تم کو یہ سبق پڑھا دیتا تھا کہ یہ سب محض دھونس جمانے کی باتیں ہیں، جو نہ پہلے سچی ثابت ہوئی ہیں نہ آئندہ ہوں گی، ان سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔"[[33]]

 منافقین لوگ قیامت والے دن کہیں گے کہ کیا ہم لوگ ہر معاملے میں تمہارے ساتھ نہ ہوتے تھے تو مومن جواب دیں گے کہ تم تو یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں پر کوئی مصیبت یا آفت نازل ہو اور ہمیں خوشی ملے تم لوگ ہمارے ساتھ ہونے کا محض دکھلاوہ کرتے تھےاس آیت میں بطور حسرت کے استفہام کیا جا رہا ہے کہ منافق لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کا پروردگار انکے تمام رازوں سے باخبر ہے وہ خود دھوکے میں مبتلا ہیں۔دنیا میں تو وہ اپنی اس منافقت کی وجہ سے تھوڑا فائدہ حاصل کر لیتے تھے مگر آخرت میں کسی کی بھی کوئی چالاکی کام نہیں آئے گی اللہ انکی زبانوں پر مہر لگا دینگے ان کے ہاتھ انکے اعمال کی گواہی دیں گے۔

(۱۰) سورہ الحدید میں فرمان الٰہی ہے:

"اَلَم يَانِ لِلَّذِينَ اٰمَنُوا اَن تَخشَعَ قُلُوبُهُم لِذِكرِ اللّٰهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الحَـقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ اُوتُوا الكِتٰبَ مِن قَبلُ فَطَالَ عَلَيهِمُ الاَمَدُ فَقَسَت قُلُوبُهُم‌ وَكَثِيرٌ مِّنهُم فٰسِقُونَ "[[34]]

"کیا ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاددہانی اور اس حق کے آگے جھک جائیں جو نازل ہوچکا ہے اور ان لوگوں کی طرح نہ بن کے رہ جائیں جن کو اس سے پہلے کتاب دی گئی پس ان پر طویل مدت گزر گئی، بالآخر ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے بہتیرے نافرمان ہیں۔"

اس آیت کی تفسیر میں امین احسن اصلاحیؒ یوں رقمطراز ہیں:

 "ان آیات میں خطاب کا رخ ان منافقین ہی کی طرف ہے۔ ان کو پہلے تو ان کی روش کے انجام بد سے ڈرایا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید میں اتنی واضح نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی اگر تمہارا تذبذب دور نہیں ہوا تو بالآخر تمہارے دلوں پر بھی اسی طرح کی قساوت چھا جائے گی جس طرح کی قساوت یہود پر چھا گئی تھی جس کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر کردی۔ اس کے بعد ان کو کچھ ابھارا ہے کہ موجود حالات سے ہراساں نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت و رحمت پر بھروسہ رکھو۔ جس اللہ کی یہ شان دیکھتے ہو کہ وہ اس سر زمین کو مردہ ہوجانے کے بعد دوبارہ زندہ کردیتا ہے اس سے بعید نہیں ہے کہ وہ اس دعوت حق کو اتنا فروغ دے کہ یہاں کفر کا کوئی نشان باقی نہ رہ جائے۔ اسی ذیل میں ان کو یہ اطمینان بھی دلایا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے خسارے میں رہنے والے نہیں ہیں بلکہ ایک کا ستر گنا پائیں گے اور یہی راستہ ہے اس امت کے صدیقین اور شہداء میں داخل ہونے کا۔"[[35]]

"پھر اس دنیا کی ان چیزوں کی بےثباتی و بےحقیقی کی تصویر کھینچی ہے جن کے عشق میں پھنس کر لوگ آسمانوں اور زمین کے برابر کی اس ابدی بادشاہی کو بھول بیٹھے ہیں۔ اس دنیا میں یسرا اور عسر، دکھ اور سکھ، فقر اور غنا انسان کی اپنی تدبیروں پر منحصر نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تقدیر پر ہے۔ اس وجہ سے نہ تو انسان کے لیے یہ جائز ہے کہ فراخی حاصل ہو تو اس کو اپنی تدبیر کا کرشمہ سمجھ کر اس پر اترانے اور اکڑنے لگ جائے اور نہ یہ جائز ہے کہ کوئی ابتلاء پیش آجائے تو مایوس و دل شکستہ ہو کر واویلا شروع کر دے بلکہ وہ نعمت میں شکر اور مصیبت میں صبر کی روش اختیار کرے اور دونوں صورتوں میں اپنے رب پر اپنے دل کو جمائے رکھے۔ منافقین کے سامنے جب دعوت حق کی صداقت و حقانیت اور اس کے غلبہ کے اتنے آثار و شواہد نمایاں ہوچکے تھے کہ جن کے اندر کچھ شکوک و شبہات تھے وہ دور ہوجانے چاہیے تھے۔ اگر اتنے آثار دیکھ لینے کے بعد بھی ان کے شبہات علیٰ حالہ باقی ہی رہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اس وقت تک شرح صدر کے ساتھ اسلام کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے جب تک وہ اس کے ہر دعوے کی صداقت اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔ اس طرح کا ایمان اللہ تعالیٰ کے ہاں معتبر نہیں ہے اس وجہ سے ان لوگوں کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر اب بھی وہ شبہات ہی میں مبتلا رہے تو ان کا وہی حال ہوگا جو یہود کا ہوا۔ وہ بھی برابر شبہات میں مبتلا رہے اور اسی حالت میں ان پر ایک مدت گزر گئی بالآخر ان کے دل سخت ہوگئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر کردی اس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ کسی امر حق میں شبہ و تردد کا پیدا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اور نہ کچھ عرصے تک اس کا باقی رہنا کوئی قابل ملامت چیز ہے۔ لیکن کوئی شخص اگر ان شبہات کی آڑ لے کر اپنے اندر حق کی آواز کو برابر دباتا ہی رہے اور اس کو باطل سے چمٹے رہنے کے لیے ایک بہانہ بنا لے تو سنت الٰہی کے مطابق ایسا شخص قبول حق کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔[[36]]

 قرآن کے دو خاص پہلوؤں کی طرف توجہ دلانے کے لیے دو الگ الگ الفظ استعمال ہوئے ہیں۔ ( ذکر اللہ) سے مراد وہ تنبیہات ہیں جو ان خطرات و مہالک سے آگاہ کرنے کے لیے نازل ہوئی ہیں جن سے ان لوگوں کو دنیا اور آخرت دونوں میں لازماً دو چار ہونا پڑے گا جو حق سے اعراض کے لیے بہانے ڈھونڈتے رہیں گے اور حق سے وہ کلیات مراد ہیں جو قرآن نے از سر نو باطل سے الگ کر کے اجاگر کیے فرمایا کہ ان کی تائید میں اتنے شواہد و قرائن ظاہر ہوچکے ہیں کہ چاہیے تھا کہ لوگوں کے دل ان کو مان لیتے اگر اب بھی نہیں ہوئے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں جس میں یہود مبتلا ہوئے۔ وہ شک کے ایسے مریض تھے کہ اپنے پیغمبر کی موجودگی میں قدم قدم پر، اس کے معجزات اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں کو دیکھتے ہوئے برابر بےیقینی اور تردد میں مبتلا رہے۔ یہاں تک کہ ان کی اسی بیماری نے ان کو تورات سے محروم کردیا اور اسی کی پاداش میں ان کی اکثریت قرآن سے بھی محروم رہی۔ یہاں اسی روش بد اور اس کے انجام سے قرآن نے ان منافقین کو خبردار کیا ہے کہ تم بھی یہود کی طرح، اپنے رسول کی موجودگی میں بےیقینی کے مرض میں مبتلا ہو، ایسا نہ ہو کہ یہ مرض تمہارے لیے بھی مہلک بن جائے جس طرح ان کے لیے مہلک بنا۔"[[37]]

اس آیت میں یہود کی روش بیان کرتے ہوئے منافقین سے بطور انتباہ سوال کیا جا رہا ہے کہ تمہارے پاس حق واضح ہو چکا تھا اسکے باوجود تمہارے دل سخت ہو گئے اور شقاوت کا شکار ہو گئے تم جو اللہ کے رسول ، قرآن اور قیامت کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہو تو پس عنقریب تم جان لوگے کہ ہم نے منافقین کے لئے جہنم کا سب سے نچلا درجہ تیار کر رکھا ہے۔

خلاصہ بحث

 انسان کی بنیادی ضروریات کے بعد جب انسان سب کے ساتھ مل کر رہنے لگا تو اسے دوسرے انسانوں کے تعاون کی ضرورت پیش آئی اسلام کا تصور معاشرت اور نظام معاشرت پائیدار اور مضبوط ہے اسکے اصول وضوابط مستقل، جامع اور ہمہ گیر ہیں یہ دین اور دنیا دونوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس لئے اس کے احکامات میں اتحاد و تعاون قائم کرنے کی تعلیمات جابجا ہیں۔

اس باب میں تفسیر تدبر قرآن کی روشنی میں میں آیات استفہام کا معاملات کے حوالے سے وضاحت پیش کی گئی ہے جو کہ درج ذیل ہے۔

سورۃ آل عمران آیت نمبر ،۷۰,۷۱، سورۃ النساء آیت نمبر،۵۰،۵۱،۵۳، سورۃ الاسراء آیت نمبر ۶۶،۶۹، سورۃ لقمان آیت نمبر۲۹،۳۱ ،سورت الصافات آیت نمبر ۱۵۰،۱۵۳،۱۵۴،۱۵۵،۱۵۶، سورۃ الزخرف آیت نمبر ۷۹،۸۰،۸۷، سورة الحديد آیت نمبر ۱۱،۱۴،۱۶۔



[[1]]       القرآن ، ۵: ۱۰۵۔

[[2]]       ندوی، محمد اسجد قاسمی، اصلاح معاشرہ اور تعمیر سیرت و اخلاق، مرکز الکوثر التعلیمی والخیری،مرآد آباد ۲۰۰۷ء، ص۴۱,۴۲۔

[[3]]       پانی پاتی، تفسیر مظھری ۲/۷۵۔

[[4]]       عثمانی، معارف القران ۲/۹۴۔

نعیم الدین، اسلام میں معاملات کی اہمیت، مکالمہ، اپریل ۲۰۱۷ء،

 https://www. mukaalma.com/۲۴۴۲/

[[5]]       القرآن ، ۳: ۷۰۔

[[6]]       القرآن ، ۳: ۷۱۔

[[7]]       اصلاحی، تدبر قرآن،۲/ ۱۱۰۔

[[8]]       اصلاحی، تدبر قرآن،۲/ ۱۱۱۔

[[9]]       القرآن ، ۴: ۵۰۔

[[10]]    القرآن ، ۴: ۵۱۔

[[11]]   القرآن ، ۴: ۵۳۔

[[12]]    اصلاحی، تدبر قرآن،۴/ ۳۱۲۔

[[13]]    اصلاحی، تدبر قرآن،۴/ ۳۱۳۔

[[14]]    القرآن ، ۱۷: ۶۸۔

[[15]]    بنی اسرائیل، ۱۷: ۶۹۔

[[16]]    اصلاحی، تدبر قرآن،۴/ ۵۲۲۔

[[17]]    اصلاحی، تدبر قرآن،۴/ ۵۲۳۔

[[18]]    القرآن ، ۳۱: ۲۹۔

[[19]]    اصلاحی، تدبر قرآن، ۶/۱۴۴۔

[[20]]    القرآن ، ۳۱: ۳۱۔

[[21]]    اصلاحی، تدبر قرآن ۶/ ۱۴۵۔

[[22]]    القرآن ، ۳۷: ۱۵۰ تا ۱۵۶۔

[[23]]    اصلاحی، تدبر قرآن، ۶/۴۴۷۔

[[24]]    القرآن ، ۴۳: ۷۹۔ ۸۰۔

[[25]]    القرآن ، ۴۳: ۸۷۔

[[26]]    اصلاحی، تدبر قرآن، ۷ / ۲۵۳۔

[[27]]    اصلاحی، تدبر قرآن، ۷ / ۲۵۴۔

[[28]]    القرآن ، ۵۷: ۱۱۔

[[29]]    اصلاحی، تدبر قرآن، ۸ / ۲۰۶۔

[[30]]    اصلاحی، تدبر قرآن، ۸ / ۲۰۷۔

[[31]]    القرآن ، ۵۷: ۱۴۔

[[32]]    اصلاحی، تدبر قرآن، ۸ / ۲۰۸۔

[[33]]    اصلاحی، تدبر قرآن،۸ / ۲۰۹۔

[[34]]    القرآن ، ۵۷: ۱۶۔

[[35]]    اصلاحی، تدبر قرآن، ۸ / ۲۱۰۔

[[36]]    اصلاحی، تدبر قرآن، ۸ / ۲۱۰۔

[[37]]    اصلاحی، تدبر قرآن ، ۸ / ۲۱۲۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...