Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ > فصل پنجم: آیاتِ استفہام میں فہمِ عقیدہ آخرت (تفسیر تدبرِ قرآن کی روشنی میں تخصیصی مطالعہ)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

فصل پنجم: آیاتِ استفہام میں فہمِ عقیدہ آخرت (تفسیر تدبرِ قرآن کی روشنی میں تخصیصی مطالعہ)
ARI Id

1695203136242_56118323

Access

Open/Free Access

Pages

280

فصل پنجم: آیاتِ استفہام میں فہمِ عقیدہ آخرت (تفسیر تدبرِ قرآن کی روشنی میں تخصیصی مطالعہ)

حیات بعد الممات کا سوال ایک فلسفیانہ سوال نہیں ہے بلکہ اس کا ہمارے عملی زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے اگر انسان کو جوابدہ کا احساس نہ ہو تو وہ اپنے اعمال پر کبھی بھی محاسبہ کرنا پسند نہیں کرے گا اس کے اخلاقی تصورات ہی بدل جائیں گے اس کا پورا اخلاقی نظام خود غرضی، بے حسی اور نفسانیت کی بنیاد پر تعمیر ہوگا اس کے برعکس اگر اعمال کی جوابدہی کا تصور ہوگا تو وہ اچھے یا برے انجام کے باعث نتیجے پر غور کرے گا۔جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں انکے بارے میں قرآن میں بیان کیا جا رہا ہے:

"وَقَالُوْٓا ءَ اِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًا"۔[[1]]

"اور انہوں نے کہا کہ جب ہم زمین میں گم ہو جائیں گے تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا ہونگے؟"

اس آیت میں منکرین قیامت کی روش بیان کی جا رہی ہے کہ وہ لوگ بطور تعجب کے کہتے ہیں کہ ہم مر جائیں گے ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں گی ہمارا وجود مٹی میں مل جائے گا تو دوبارہ کیسے پیدا ہو سکتے ہیں ؟ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ جو خالق انکو بغیر کسی ماڈل کے پہلی بار تخلیق کرنے پر قادر ہے تو دوبارہ پیدا کیوں نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لئے تو دوبارہ پیدا کرنا بہت ہی آسان بات ہے ۔

"اسلام نے وضاحت فرما دی ہے کہ کارخانہ ہستی کا حدوداربعہ صرف وہی عالم رنگ و بو نہیں ہے جو تمہارے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے میدانوں ، کھلیانوں، دریاؤں ، پہاڑوں ،آبشاروں، بادلوں ، آسمان کی نیلگوں فضا اور ستاروں سے آگے بھی زمان و مکان کی ایک لامتناہی کائنات موجود ہے جب موت کا سرد ہاتھ تمہاری شمع زندگی گل کر دے گا جونہی تمہاری آنکھیں بند ہونگی ، مشاہدے کی موجود دنیا اوجھل ہوجائے گی عالم غیب کی وہ زندگی صاف دکھائی دینے لگے گی جو ابدی اور لافانی ہے تم قبروں سے اٹھائے جاؤ گے حشر کے میدان میں کھڑے کر دیئے جاؤ گے ،میزان گاڑ دی جائے گی جو کچھ تم اس دنیا میں کرتے ہو تمام افعال و اعمال میزان میں تولے جائیں گے نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا تو تمہیں جنت میں بھیج دیا جائے گا اللہ نہ کرے اگر گناہوں کا پلڑا بھاری نکلا تو تم جہنم کی غذا بن جاؤ گے"۔[[2]]

" اسلام نے دوٹوک انداز میں خبردار کر دیا ہے کہ جس طرح اس دنیا میں مادی اعمال کے خواص و نتائج ہیں اسی طرح روحانی اعمال کے بھی لازمی نتائج مرتب ہوں گے مثلا ڈاکٹر تاکید کرتا ہے کہ زیادہ نمک نہ کھاؤ ورنہ بلڈ پریشر کا مرض لاحق ہو جائے گا ،چینی سے پرہیز کرو ورنہ شوگر کی بیماری کی چمٹ جائے گی، ٹھیک اسی طرح اسلام نے بتا دیا کہ وحدہٗ لاشریک کی اطاعت کرو ،سچ بولو ، حلال روزی کماؤ اور نیکی کی زندگی بسر کرو ، اس کے صلے میں تمہیں جنت میں دائمی کامیابی کا تاج پہنایا جائے گا شرک نہ کرو ،جھوٹ نہ بولو، ظلم نہ کرو، حرام روزی نہیں کھاؤ،غفلت اور بدی کی زندگی بسر نہ کرو ورنہ تم جہنم کی غذا بن جاؤ گے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے اسلام نے آخرت اور قیامت کی خبر دے کر انسان کو اپنی نجات و سعادت کے لئے اعلی اقدار کی زندگی بسر کرنے کا طریقہ اور سلیقہ عطا کیا اور اللہ رب العزت کی بندگی نے، نیکی، پارسائی ،سچائی، سخاوت شرافت اور شجاعت کے انوار و برکات سے ایک ایسا معاشرہ قائم کر کے دکھایا جس کی تجلیوں سے ساری دنیا منور ہو گی۔"[[3]]

 قرآن میں عقیدہ آخرت کی اہمیت اور فکر آخرت کے ضمن میں بہت سے قرآنی آیات وارد ہوئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موت سائے کی طرح ہمارا تعاقب کر رہی ہے انسان کی کتنی زندگی ہے کوئی نہیں جانتا ہے کہ کس گھڑی فرشتہ اجل آ پہنچے اس لیے پاکدامنی، سچائی ،دردمندی، سخاوت اور پاکیزگی والی عملی زندگی اختیار کر لی جائے تاکہ ہمیں رب کریم کے حضور قیامت کے دن شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ہم جہنم کی آگ سے بچ کر جنت کے باغات اور محلات میں جانے کے قابل بن سکیں اس فصل میں تفسیر تدبر قرآن کی روشنی میں آیت استفہام میں عقیدہ آخرت کا کردار بیان کیا جائے گا جو کہ درج ذیل ہے۔

۱- سورہ البقرہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"وَاِذ قَالَ اِبرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِى كَيفَ تُحىِ المَوتٰى قَالَ اَوَلَم تُؤمِن‌ قَالَ بَلٰى وَلٰـكِن لِّيَطمَئِنَّ قَلبِى‌ قَالَ فَخُذ اَربَعَةً مِّنَ الطَّيرِ فَصُرهُنَّ اِلَيكَ ثُمَّ اجعَل عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنهُنَّ جُزءًا ثُمَّ ادعُهُنَّ يَاتِينَكَ سَعيًا ‌ وَاعلَم اَنَّ اللّٰهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ "۔[[4]]

"اور یاد کرو جب کہ ابراہیم نے کہا کہ اے میرے رب، مجھے دکھا دے تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا ؟ فرمایا کیا تم اس بات پر ایمان نہیں رکھتے ؟ بولا ایمان تو رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ میرا دل پوری طرح مطمئن ہوجائے۔ فرمایا تو چار پرندے لو اور ان کو اپنے سے ہلا لو، پھر ان کو ٹکڑے کر کے ہر پہاڑی پر ان کا ایک ایک حصہ رکھ دو ، پھر ان کو بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آئیں گے اور جان رکھو کہ اللہ غالب اور حکیم ہے"۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا اصلاحی بیان فرماتے ہیں کہ:

" لفظ" اطمینان" کے معنی ہیں کسی چیز کا اپنی جگہ پر بالکل ٹھیک اس طرح ٹک جانا کہ اس کے ادھر یا ادھر جھکنے یا لڑھکنے کا کوئی اندیشہ باقی نہ رہے۔ جو نفس اپنے عقائد اور اعمال میں بالکل صحیحہ ہو، حالات کے تغیر سے اس کے اطمینان اور اس کی دلجمعی میں کوئی فرق واقع نہ ہو، اس کو نفس مطمئنہ کہتے ہیں۔ یہ اطمینان ایمان کے اعلی مدارج میں سے ہے۔ قرآن مجید میں اس کو شرح صدر کے لفظ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے ارشاد ہوا ہے کہ کیا ہم نے تمہارے سینے کو کھول نہیں دیا ۔"

"حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی درخواست شرح صدر کے لیے تھی، انہوں نے اس بات کی خواہش کی کہ ان کو مشاہدہ کرا دیا جائے کہ اللہ تعالیٰ حشر کے وقت مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا ؟ یہ خواہش اسی طرح کی ایک خواہش ہے جس طرح کی خواہش حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اندر اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے لیے پیدا ہوئی۔ اس خواہش کی وجہ یہ نہیں تھی کہ نعوذ باللہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو قیامت کا اعتقاد نہیں تھا ؟ اعتقاد تو تھا۔ لیکن ایک حقیقت عقل کے نزدیک کتنی ہی واضح اور مدلل کیوں نہ ہو، جب تک وہ نادیدہ ہوتی ہے اس وقت تک اس کو ماننے کے باوجود انسان اس کے باب میں شرح صدر کا آرزومند ہی رہتا ہے۔ یہ آرزو انبیاء کی شان کے خلاف نہیں ہے۔البتہ جہاں تک اطمینان قلب اور شرح صدر کا تعلق ہےا س سے وہ اپنے ان بندوں کو محروم نہیں رکھتا جو صدق دل سے اس کے طالب ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس مقصد کے لیے اگر اس کی حکمت کا تقاضا ہوتا ہے تو وہ اپنے خاص بندوں کو اپنی قدرت کے بعض مخصوص گوشوں کا بھی مشاہدہ کرا دیتا ہے۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے فضلِ خاص کی دلیل ہے۔ وہ اپنے اوپر ایمان رکھنے والوں کا مددگار اور ولی ہے۔ وہ ان کو کبھی حیرانگی و تشنگی میں نہیں چھوڑتا بلکہ ان کو ہمیشہ تاریکی سے روشنی اور اضطراب سے اطمینان کی طرف بڑھاتا رہتا ہے۔" [[5]]

 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اضطراب کو دور کرنے کے لیے ان کو یہ ہدایت ہوئی کہ چار پرندے لے کر ان کو پہلے اپنے سے ہلا لو، پھر ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان کے گوشت کا ایک ایک حصہ اپنے گرد و پیش کی پہاڑیوں پر رکھ دو ۔ پھر ان کو اپنی طرف بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے۔ چار پرندوں کی ہدایت اس لئے ہوئی ہوگی کہ چاروں سمتوں سے ان کے مجتمع ہونے کا ان کو مشاہدہ کرایا جائے تاکہ اس بات پر ان کا یقین مستحکم ہوجائے کہ قیامت کے دن اسی طرح نفخ صور پر تمام مخلوق ہر سمت سے اپنے پروردگار کی طرف دوڑے گی۔ دوسرے یہ کہ حضرت ابراہیم کو تردد مردوں کے زندہ ہونے کے باب میں تھا، پرندوں کا واقعہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مشاہدہ خاص تھا ، البتہ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ یہ واقعہ ان معجزات میں سے نہیں ہے جو حضرت ابراہیم کی طرف سے اپنی قوم پر حجت قائم کرنے کے لیے ظاہرہ ہوئے بلکہ یہ ان مشاہدات میں سے ہے جو ذاتی طور پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس لیے کرائے گئے کہ ان کو اطمینانِ قلب اور شرح صدر کی دولت حاصل ہو۔ اس قسم کے مشاہدات حضرات انبیاء (علیہم السلام) کو اس لیے کرائے جاتے ہیں کہ ان کی تربیت ہو اور وہ اس بار عظیم کے اٹھانے کے لیے پوری اہل ہوجائیں جو قدرت کی طرف سے ان پر ڈالا جاتا ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ کی صفات، عزیز، حکیم، پر نگاہ جمائے رکھنے کی ہدایت اس وجہ سے ہوئی کہ انہی صفتوں کی یاد داشت سے یہ یقین مضبوط ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو دوبارہ ضرور اٹھائے گا اس لیے کہ وہ اس پر قادر بھی ہے اور ایسا کرنا اس کی حکمت کا مقتضی بھی ہے۔"[[6]]

 اس آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے کہ جب انہوں نے اللہ پاک سے پوچھا کہ اے اللہ! تو مردوں کو کیسے زندہ کرےگا؟ تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بطور تعجب کے سوال فرمایا کہ اے ابراہیم! کیا آپ کسی شک و شبہ کا شکار ہیں؟

آپ نے عرض کی اے پروردگار! ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ میں تو صرف اطمینان قلب کے لئے یہ عرض کر رہا ہوں تو اللہ تبارک وتعالیٰ نےآپ کو چار پرندوں کو مار کر گوشت مکس کر کے مختلف جگہوں پر رکھنے کا حکم دیا اور ابراہیم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا اور جن ان پرندوں کو آواز دی تو وہ دوڑتے ہوئے آپکے پاس آگئے یہ ایک بہت بڑا معجزہ تھا اور اللہ پاک اسی طرح تمام انسانوں کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ فرمائیں گے۔

۲- سورہ آل عمران میں فرمان الٰہی ہے:

"يَومَ تَبيَضُّ وُجُوهٌ وَّتَسوَدُّ وُجُوهٌ  فَاَمَّا الَّذِينَ اسوَدَّت وُجُوهُهُم اَكَفَرتُم بَعدَ اِيمَانِكُم فَذُوقُوا العَذَابَ بِمَا كُنتُم تَكفُرُونَ "۔ [[7]]

"اس دن جب کچھ چہرے روشن ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے تو جن کے چہرے سیاہ ہوں گے ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا ہے تو اب چکھو عذاب اپنے کفر کی پاداش میں۔"

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

 " اعتصام بحبل اللہ سے محروم ہوجانے کے بعد اہل کتاب اختلاف و انتشار میں مبتلا ہوئے اور یہ انتشار و اختلاف در حقیقت ایمان کے بعد کفر کی طرف پلٹ جانے کے ہم معنی ہے۔  دوم یہ کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ یہ سرفرازی و سرخروئی بخشتا ہے کہ ان کے ہاتھ میں خود اپنی رسی پکڑاتا ہے اگر وہ اپنی شامت اعمال سے اس رسی کو چھوڑ کر اور رسی اپنی گردنوں میں ڈال لیتے ہیں تو قیامت کے دن ان کو اسی درجے کی روسیاہی بھی حاصل ہوگی جس درجے کی ان کو سرخ روئی بخشی گئی تھی۔ چہرے روشن ان کے ہوں گے جو ہر طرح کے حالات میں اس رسی کو تھامے رہیں گے۔ یہ لوگ بیشک اللہ کے فضل و رحمت کے حق دار ہوں گے۔ سوم یہ کہ یہ ساری تنبیہات بالحق ہیں ان کو محض خالی خولی دھمکی سمجھ کر جو لوگ نظر انداز کریں گے وہ اپنی ناکامی کا سامان خود کریں گے اور اس کی تمام تر ذمہ داری انہی پر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آگاہی پہلے سے اسی لیے بتادی ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ کسی کو سزا اس پر حجت تمام کیے بغیر دے" ۔[[8]]

" چہارم یہ کہ آسمان و زمین میں سارا اختیار صرف اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ سارے امور اسی کے حضور پیش ہوں گے اور اسی کا فیصلہ ناطق و نافذ ہوگا۔ اگر کسی نے کسی اور سے امید باندھ رکھی ہو تو اس کی یہ امید محض ایک واہمہ ہے جو حقیقت کے ظہور کے بعد بالکل سراب ثابت ہوگی۔ یہ ملحوظ رہے کہ یہ ساری تنبیہات مسلمانوں کو سنائی جا رہی ہیں کہ ان تمام خطرات سے بچ کے رہنا۔ مسلمانوں کو یہ بشارت دی ہے کہ اب یہ اہل کتاب تمہاری مخالفت میں جتنا زور چاہیں لگا لیں وہ تمہارا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے بلکہ ہر جگہ منہ کی کھائیں گے اور ان کے لیے ذلت مقدر ہوچکی ہے۔ اہل کتاب کے اس گروہ کی تحسین بھی فرمائی ہے جو حق پر قائم تھا اور جو بالآخر دولت اسلام سے سرفراز ہوا۔ پھر اہل کتاب کی اصل بیماری کی طرف اشارہ ہے جو فی الحقیقت قبول حق میں ان کے لیے حجاب بنی اور یہ واضح فرمایا کہ اس حق سے محروم رہنے کے بعد اب وہ اپنی دینداری کا بھرم رکھنے کے لیے جو ظاہر داری بھی کریں گے سب اکارت جائے گی، اس کا کچھ حاصل نہیں ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو متنبہ کیا ہے کہ اب تم ان سے تمام تعلقات دوستی و محبت ختم کرلو اس لیے کہ اب تمہارے لیے ان کے دلوں میں دشمنی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور ان کے اندر خیر کی کوئی رمق باقی نہیں رہی ہے۔"[[9]]

اس آیت میں قیامت کی منظر کشی کی گئی ہے کہ جو لوگ ایمان لانے کے بعد کفر کا راستہ اختیار کریں گے انکے چہرے قیامت کے دن سیاہ ہونگے تو ان سے بطور انتباہ کے استفہام کیا جائے گا کہ اب تم عذاب کا مزہ چکھو اپنے برے اعمال کی بدولت ،اب تمہارے لئے کوئی بچنے کا راستہ نہیں ہے۔

۳- سورہ الانعام میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

"هَل يَنظُرُونَ اِلَّا اَن تَاتِيَهُمُ المَلٰئِكَةُ اَو يَاتِىَ رَبُّكَ اَو يَاتِىَ بَعضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ يَومَ يَاتِى بَعضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنفَعُ نَفسًا اِيمَانُهَا لَم تَكُن اٰمَنَت مِن قَبلُ اَو كَسَبَت فِى اِيمَانِهَا خَيرًا‌ قُلِ انْتَظِرُوا اِنَّا مُنتَظِرُونَ "۔[[10]]

"وہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا تیرا رب آئے یا تیرے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ظاہر ہو۔ جس دن تیرے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ظاہر ہوگی تو کسی ایسے کو ایمان نفع نہ دے گا جو پہلے سے ایمان نہ لایا ہو یا اس نے اپنے ایمان میں نیکی نہ کمائی ہو، کہہ دو تم انتطار کرو، ہم بھی منتظر ہی ہیں"۔

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

 "یعنی ان کے تمام عذراب ختم ہوگئے اور ہر پہلو سے ان پر حجت قائم کردی گئی لیکن یہ دلیلوں اور حجتوں سے قائل ہونے والے نہیں ہیں ۔ یہ تو منتظر ہیں کہ ان پر فرشتے اتریں، یا خدا خود ان کے لیے نمودار ہو۔ یہ نہیں تو عذاب الٰہی کی نشانیوں میں سے کوئی فیصلہ کن نشانی ظاہر ہو۔ یعنی خدا اور فرشتوں کا اترنا تو الگ رہا، جس فیصلہ عذاب کے یہ منتظر ہیں وہ بھی اگر ظاہر ہوجائے تو اس کو دیکھ کر کسی کا ایمان لانا کچھ سود مند نہیں ایمان معتبر صرف وہ ہے جو آنکھ کان، دل دماغ اور عقل کی صلاحیتوں کو استعمال کر کے لایا جائے نہ کہ عذاب الٰہی کا ڈنڈا دیکھ کر۔ عذاب الٰہی کے ظہور کے بعد کسی کا ایمان کچھ سود مند نہیں ہوگا، اے نبی ان سے کہہ دیں کہ اگر تم اس کتاب پر ایمان لانے کے لیے نشانی عذاب کے منتظر ہو تو انتظار کرو، اب ہم بھی تمہارے لیے اسی کے منتظر ہیں ا س لیے کہ وہ ساری علامتیں جو کسی قوم و مستحق عذاب بناتی ہیں تم میں نمایاں ہوچکی ہیں، سنتِ الٰہی کے مطابق اب ایک ہی چیز باقی رہ گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ حق و باطل کے درمیان فیصلہ فرما دے، باطل نابود ہو اور حق کا بول بالا ہو۔"[[11]]

 نبی اور اس کے ساتھی جب اپنا حق ادا کرچکتے ہیں لیکن ضدی اور سرکش لوگ کسی طرح ان باتوں پر کان نہیں دھرتے تو انہیں بھی اللہ کے فیصلے کا انتظار ہوتا ہے کیونکہ اسی فیصلہ کے ظہور کے ساتھ حق کا غلبہ وابستہ ہوتا ہے۔ اس انتظار میں حق کی فتحمندی کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) دنیا میں تزکیہ و اصلاح کا مقصد لیکر آتے ہیں، وہ اس کام میں اپنی پوری قوت نچوڑ دیتے ہیں۔ جن کے اندر خیر کی ادنی رمق بھی ہوتی ہے وہ اصلاح قبول کرلیتے ہیں۔ جو بالکل اندھے بہرے بن جاتے ہیں وہ مردوں کی طرح ہیں جو زمین پر پڑے رہیں تووہ فساد کے سوا کچھ نہیں پھیلا سکتے اس وجہ سے ان کے فنا ہوجانے میں ہی خلق کی بہبود ہوتی ہے۔اس آیت میں اللہ پاک بطور تعجب کے سوال فرما رہے ہیں کہ ان کو ہماری نشانیوں کا اعتبار نہیں ہے جو یہ مزید نشانیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ فرشتے انکے پاس آئیں گے تو پھر یہ ایمان لائیں گے؟ پس ان سے کہہ دو کہ اللہ کا وعدہ( قیامت) آجانے کے بعد تمہیں کوئی چیز بھی فائدہ نہیں دے گی۔

۴-سورہ الاعراف میں ارشادِ خداوندی ہے:

"وَاَمطَرنَا عَلَيهِم مَّطَرًا فَانْظُر كَيفَ كَانَ عَاقِبَةُ المُجرِمِينَ "۔[[12]]

"اور ان پر اچھی طرح پتھراؤ کردیا تو دیکھو، مجرموں کا کیا انجام ہوا "

اس آیت میں سابقہ اقوام کے عذاب کا تذکرہ فرمایا جا رہا ہے کہ کس طرح ہم نے نافرمان قوم پر پتھروں کو عذاب نازل کیا وہ ایسے ہوگئے جیسا کہ بھوسہ ہوتا ہے۔اور گنہگاروں کا ایسا ہی انجام ہوتا ہے اس لئے آخرت میں ہر انسان کے ساتھ اسکے اعمال کے مطابق ہی فیصلہ کیا جائے گا ۔اچھے اعمال والے لوگ کامیاب ہو جائیں گے اور برے اعمال والے لوگ ناکام و نامراد ہونگے۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں:

 "قوم لوط پر جو عذاب آیا تھا اس کا بیان ہے یہاں بارش سے مراد پانی کی بارش نہیں ہے بلکہ کنکروں اور پتروں کی بارش ہے جو صحراؤں سے اٹھتی ہے اور قافلے کے قافلے اور بستیوں کی بستیاں جس کی اٹھائی ہوئی ریت اور جس کے برسائے ہوئے کنکروں اور پتھروں کے نیچے دب کر تباہ ہوجاتی ہیں۔ عربی میں اس کو حاصب یعنی کنکر پتھر برسانے والی آندھی کہتے ہیں۔ قوم لوط پر اللہ تعالیٰ نے ایک آندھی بھیجی جو کنکر پتھر برسانے والی آندھی بن گئی اس سے اول اول تو ان کے اوپر کنکروں اور پتھروں کی بارش ہوئی، پھر اس نے اس قدر شدت اختیار کرلی کہ ان کے مکانات بھی الٹ گئے۔ یعنی ایسی تند آندھی چلی کہ ان کے مکانات زمین کے برابر ہوگئے اور اوپر سے کنکر اور ریت نے ان کو ڈھانک لیا۔ قوم لوط پر اللہ تعالیٰ نے سنگ ریزے برسانے والی آندھی کا عذاب بھیجا جس نے ان کو اور ان کے مکانوں کو ڈھانک لیا اور اگر اس کے ساتھ تورات کا بیان بھی ملا لیا جائے تو اس پر اتنا اضافہ ہوجائے گا کہ ان پر بجلی اور کڑکے کا عذاب بھی آیا۔"[[13]]

 اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک قوم لوط کے عذاب کا ذکر فرما کر بطور انذار کے سوال فرما رہے ہیں کہ ان سے پہلے قومیں پر جوتباہی نازل ہوئی ہے کیا یہ لوگ ان سے نصیحت حاصل نہیں کرتے؟ اللہ کی نافرمانی کے باعث ان قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا تو اگر اب یہ لوگ بھی اللہ پر ایمان نہیں لائیں گے تو ان کا حال بھی ان سے مختلف نہ ہوگا۔

۵- سورہ یونس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنتُم بِهٖ اٰلْــٴٰـنَ وَقَد كُنتُم بِهٖ تَستَعجِلُونَ‏ "۔[[14]]

"پھر کیا جب آ ہی دھمکے وہ دن تو کیا چیز ہے جس کے بل پر مجرمین جلدی مچائے ہوئے ہیں!'

نیز فرمایا:

"ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ الخُـلدِ‌ هَل تُجزَونَ اِلَّا بِمَا كُنتُم تَكسِبُونَ "۔[[15]]

"پھر ان ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب ہمیشہ کا عذاب چکھو۔ یہ تمہاری اپنی کمائی کا تمہیں بدلہ مل رہا ہے"۔

اگلی آیت میں ارشادِ الٰہی ہے:

"وَيَستَنۢبِئُونَكَ اَحَقٌّ هُوَ‌ قُل اِى وَرَبِّى اِنَّهٗ لَحَقٌّ وَمَا اَنتُم بِمُعجِزِينَ "۔[[16]]

"اور وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ یہ بات واقعی ہے ؟ کہہ دو کہ ہاں میرے رب کی قسم یہ شدنی ہے اور تم قابو سے باہر نہیں نکل سکو گے" ۔

ان تین آیات میں امین احسن اصلاحی یوں تحریر فرماتے ہیں:

 " اس سوال میں انکار و استہزا کا پہلو ذرا مخفی ہے۔ اس میں وہ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ سوال کرنے والوں کے مزاج مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔ بعض ذرا رکھ رکھاؤ کے انداز میں اپنے دل کی بات کہتے ہیں۔ بعض منہ پھٹ ہوتے ہیں جو اپنی بات پھینک مارتے ہیں۔ اسی قسم کے لا ابالیوں کی زبان سے یہ سوال نقل ہوا ہے کہ یہ پیغمبر سے پوچھتے ہیں کہ یہ جو عذاب اور جز و سزا کی باتیں سنا رہے ہو یہ حقیقت ہے یا یوں ہی محض دھونس جمانے کے لیے ڈینگیں مار رہے ہو ؟" ای " حرف جواب ہے۔ نعم کے معنی میں اور یہ صرف قسم سے پہلے آتا ہے۔ سوال کرنے والوں کی ذہنیت کو پیش نظر رکھ کر صرف سادہ جواب ہی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ قسم کے ساتھ جواب دیا کہ یہ چیزلازمی ہے جب یہ چیز ظاہر ہوگی تو تم میرے رب کی گرفت سے بچ کے نکل نہ سکو گے۔ یعنی آج تو بڑی رعونت سے تم اس کا مذاق اڑا رہے ہو۔ لیکن جب یہ چیز سامنے آئے گی تو ہر جان، جس نے اس دن سے غفلت برت کر اپنے اوپر ظلم ڈھایا ہوگا۔ اس کا حال یہ ہوگا کہ اگر زمین کی ساری دولت بھی اس کو ہاتھ آجائے اور اس کو فدیہ میں دے کر اس دن کی ہولناکیوں سے نجات پانا ممکن ہو تو وہ اس کو فدیہ میں دے کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرے گی۔ چونکہ ندامت اور افسوس کا منبع انسان کا باطن ہوتا ہے مقصود یہی بتانا ہے کہ آج تو یہ مذاق اڑا رہے ہیں لیکن کل وہ اپنی اس نالائقی پر نادم اور پشیمان ہوں گے اور ان کے درمیان پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا، جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا وہی ان کے سامنے آئے گا۔ ان کے اوپر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ اس میں ایک اشارہ اس بات کی طرف بھی ہوگیا کہ انہوں نے اپنے مزعوم شرکاء اور شفعاء سے جو امیدیں باندھ رکھی ہیں وہ سب بےحقیقت ثابت ہوں گی۔ کوئی چیز خدا کے انصاف پر اثر انداز نہ ہوسکے گی"۔[[17]]

 ان آیات مبارکہ میں اللہ عزوجل بطور وعید کے سوال فرما رہے ہیں کہ یہ لوگ نبی کی بات کا مذاق اڑاتے ہیں قیامت کے بارےمیں شک کا شکار ہیں تو قیامت جب انکے سامنے آ کھڑی ہو گئی تو انکو ذرا بھی مہلت نہ دی جائے گی پھر قیامت کے دن یہ اپنی نادانی پر سوائے تأسف کے کچھ بھی نہ کر سکیں گے۔

۶-سورہ القصص میں اللہ عزوجل کا فرمان عالیشان ہے:

"اَفَمَن وَّعَدنٰهُ وَعدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ كَمَن مَّتَّعنٰهُ مَتَاعَ الحَيٰوةِ الدُّنيَا ثُمَّ هُوَ يَومَ القِيٰمَةِ مِنَ المُحضَرِينَ‏ "۔[[18]]

"کیا وہ اس سے ہم نے ایک خوش آئند وعدہ کر رکھا ہے پس وہ اس موعود کو لازماً پا کے رہے گا اس کے مانند ہوگا جس کو ہم نے حیات دنیا کی متاع دی ہے پھر وہ قیامت کے دن حاضر کئے جانے والوں سے بننے والا ہے"۔

"وَيَومَ يُنَادِيهِم فَيَـقُولُ اَينَ شُرَكَآءِىَ الَّذِينَ كُنتُم تَزعُمُونَ "۔[[19]]

"اور اس دن کا دھیان کرو جس دن خدا ان کو پکارے گا پھر پوچھے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کو تم میرا شریک گمان کرتے رہے ہو !"۔

"وَيَومَ يُنَادِيهِم فَيَـقُولُ مَاذَا اَجَبتُمُ المُرسَلِينَ "۔[[20]]

"اور اس دن کا دھیان کرو جس دن خدا ان کو پکارے گا اور پوچھے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا"۔

ان آیات کی تفسیر میں صاحب کتاب تحریر فرماتے ہیں:

 " ایک تو وہ لوگ ہیں جن سے اللہ نے آخرت کی ابدی بادشاہی کا وعدہ کر رکھا ہے اور یہ ابدی بادشاہی لازماً پا کے رہیں گے، اس لئے کہ اللہ کے وعدے سے سچا وعدہ کس کا ہو سکتا ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جن کو میں نے حیات چند روزہ کی متاع فانی تو دی ہے مگر بالآخر قیامت کے دن نہایت ذلت کے ساتھ وہ خدا کے حضور گھسیٹ کر لائے جائیں گے۔ یہاں شرک اور شرکاء کی تردید ہے کہ اگر کسی نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ آخرت میں ان کے مزعومہ شرکاء و شفعاء کچھ کام آنے والے بنیں گے تو وہ اس وہم کو اپنے دماغ سے نکال دے۔ ان شرکاء کو نہ اس دنیا کے انتظام و انصرام میں کوئی دخل ہے، نہ یہ آخرت میں کام آنے والے ہیں۔ ان بےحقیقت چیزوں کے بل پر جو لوگ قرآن کی دعوت کو جھٹلا رہے ہیں وہ اپنا انجام اچھی طرح سوچ لیں۔ قیامت کے دن شرک کرنے والوں، شرک کے داعی لیڈروں اور خود شرکاء کا کیا حشر ہوگا۔ فرمایا کہ اس دن کو نہ بھولو جس دن خدا تمام مشرکین کو اپنی عدالت میں پیشی کے لئے پکارے گا اور ان کو حکم دے گا کہ میرے وہ شرکاء کہاں ہیں جن کو تم میرا شریک گمان کرتے رہے ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ اب ان کو پیش کرو تاکہ تم بھی اور تمہارے ساتھ وہ بھی اپنا انجام دیکھ لیں۔ "[[21]]

 " پھر انکی طرف اشارہ کر کے کہیں گےاے ہمارے رب ! یہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تو ان کو دوگنا عذاب دے۔ ارشاد ہوگا، تم میں سے ہر ایک کے لئے دوگنا عذاب ہے لیکن تم جانتے نہیں اور اگلے پچھلوں سے کہیں گے، تمہیں بھی تو ہم پر کوئی فضیلت نہ حاصل ہوئی تو اپنے عمل کی پاداش میں اب عذاب چکھو۔مشرکین کے معبودوں کی بےحقیقی یعنی اپنے جن لیڈروں پر وہ اپنی گمراہی کی ذمہ داری ڈالنا چاہیں گے، جب وہ صاف صاف ان سے اعلان برأت کردیں گے تو ان سے پھر کہا جائے گا کہ اب بولو، تمہارے ان لیڈروں نے تو تم سے برأت کا اعلان کردیا تو تمہارے وہ معبود کہاں ہیں جن کی پرستش کرتے رہو ! اس وقت وہ گھبراہٹ میں اپنے ان شریکوں کو پکاریں گے جن کے وہ بت پوجتے رہے تھے۔ مثلاً لات، منات، عزیٰ اور نائلہ وغیرہ کو لیکن وہ ان کی کوئی فریاد سی نہیں کریں گے۔ اس لئے کہ ان کا سر سے کوئی وجود ہی نہیں ہوگا۔ وہ محض خیالی بستیاں تھیں۔ آخرت میں راز کھل جائے گا کہ انہوں نے محض گمان کی پرستش کی۔اسی طرح نصاریٰ جنہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پرستش کی، قیامت کے دن حضرت مسیح اپنے پرستاروں سے اعلان برأت کردیں گے کہ مجھے کچھ خبر نہیں کہ کچھ احمق لوگوں نے میری پرستش کی ہے۔ میں نے تو سب کو اللہ واحد کی بندگی کی دعوت دی تھی۔ ان سے سوال ہوگا کہ خدا نے رسول تمہاری ہدایت کے لئے بھیجے ان کی دعوت کا تم نے کیا جواب دیا، ظاہر ہے کہ یہ سوال بھی ان سے ان کے جرم سنگینی واضح کرنے کے لئے ہوگا کہ خدا نے تو تمہاری ہدایت کے لئے یہ اہتمام فرمایا کہ اپنے رسول بھیجے کہ ہر پہلے سے حق تم پر واضح ہوجائے تو تم بتاؤ، تم نے اس اہتمام کی کیا قدر کی!"۔[[22]]

ان آیات میں بھی قیامت کی منظر کشی کی جا رہی ہے ان سے معلومات کے دہرانے اور یقینی بنانے کے لئے استفہام کیا جائے گاکہ یہ لوگ دنیا میں جن کو پکارتے تھے وہ ان سے دستبردار ہو جائیں گے پھر ان لوگوں کو افسوس ہو گا اور اس وقت سوائے حسرت و یاس کے وہ کچھ بھی نہ کر سکیں گے بڑا ہی ہولناک منظر ہوگا کیونکہ واپسی کی تمام راہیں مسدود ہو گئیں ہونگی اور عذاب ہی ان کا مقدر ہو گا۔

۷-سورہ یسین میں ارشادِ الٰہی ہے:

"اَلَم اَعهَد اِلَيكُم يٰبَنِى اٰدَمَ اَن لَّا تَعبُدُوا الشَّيطٰنَ‌‌ اِنَّهٗ لَـكُم عَدُوٌّ مُّبِينٌ ۔ [[23]]

"اور اے آدم کے بیٹو ! کیا میں نے تمہیں یہ ہدایت نہیں کردی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کیجیو، بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے"۔

"وَلَقَد اَضَلَّ مِنكُم جِبِلًّا كَثِيرًا‌ اَفَلَم تَكُونُوا تَعقِلُونَ "۔[[24]]

"اور اس نے تم میں سے ایک خلق کثیر کو گمراہ کرلیا، تو کیا تم سمجھتے نہیں تھے!"

"وَلَو نَشَآءُ لَـطَمَسنَا عَلٰٓى اَعيُنِهِم فَاستَبَقُوا الصِّرَاطَ فَاَنّٰى يُبصِرُونَ "[[25]]

"اور اگر ہم چاہتے تو ان کی آنکھیں مٹا دیتے پھر وہ راستہ کی طرف بڑھتے تو کس طرح دیکھ پاتے!"

اس آیت میں اللہ پاک اپنے بندوں سے استفسارفرمائیں گے کہ کیا میں نے تمہیں قرآن میں بار بار منع نہیں کیا تھا کہ شیطان کی پیروی نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اگر اسکی پیروی کروگے تو گمراہ ہو جاؤگے اور وہ قیامت کے دن وہ تمہاری کچھ مدد نہ کر سکے گا۔اگر اللہ پاک چاہتا تو ان کو جو بینائی عطا فرمائی تھی ان سے وہ چھین لیتا تو وہ کسی چیز پر بھی اختیار نہ رکھتے۔مگر وہ تم کو ایک مدت تک مہلت دیتا ہے کیونکہ جب اس کا فیصلہ آگیا تو ایک گھڑی بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔

ان آیات کی تفسیر میں مولانااصلاحی یوں رقمطراز ہیں:

"یعنی جب ان کا حال یہ ہے کہ اپنی ان صلاحیتوں سے جو اللہ نے ان کو بخشی ہیں کوئی کام ہی نہیں لے رہے ہیں تو یہ مستحق ہیں کہ ہم ان سے ان کو محروم کردیں اور یہ کام ہمارے لئے ذرا بھی مشکل نہیں ہے۔ ہم چاہتے تو ان کی آنکھیں مٹا دیتے، پھر یہ راستہ کی تلاش میں بھٹکتے پھرتے لیکن ان کو راہ نہ ملتی۔ لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا تو یہ ہماری رحمت ہے اور اب بھی ان کے لئے موقع ہے کہ یہ ہماری اس رحمت سے فائدہ اٹھائیں اور آنکھیں بند کرکے زندگی نہ گزاریں۔"[[26]]

 ان آیات میں اللہ تبارک و تعالیٰ بطور استعجاب کے سوال فرما رہے ہیں کہ ہم نے اولاد آدم سے وعدہ لیا تھا اور انہوں نے رب کی فرمانبرداری کرنے کا اقرار بھی کیا تھا مگر یہ لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے ہم چاہتے تو انکو دنیا میں ہی کسی عذاب میں مبتلا کر دیتے مگر ہم نے انہیں موقع دیا شاید کہ یہ ہماری طرف لوٹ آئیں مگر قیامت کے دن ان کو کسی بھی قسم کی شفاعت کے ذریعے سے کوئی خلاصی نہ ملے گی۔ وہاں ان کے لئے ہمیشگی کا عذاب تیارکر رکھا ہے اور ان کو اس عذاب سے کوئی بچا ے والا نہیں ہے اور اللہ کے حکم کے سامنے کسی کا حکم نہیں چلتا ۔ پھر اس وقت صرف یہ افسوس ہی کر سکیں گے کیونکہ جلنا ہی ان کا مقدر ہوگا۔

۸-سورہ القمر میں اللہ فرماتے ہیں:

"وَلَقَدْ تَّرَكنٰهَا اٰيَةً فَهَل مِن مُّدَّكِرٍ "۔[[27]]

"اور ہم نے اس سرگزشت کو ایک داستان عبرت بنا کر چھوڑا ( عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے) تو ہے کوئی عبرت حاصل کرنے والا !"۔

پھر فرمایا:

"فَكَيفَ كَانَ عَذَابِى وَنُذُرِ "۔[[28]]

"دیکھ لو کس طرح سچا ثابت ہوا میرا عذاب اور میرا ڈرانا !"

نیز فرمایا:

"وَلَقَد يَسَّرنَا القُراٰنَ لِلذِّكرِ فَهَل مِن مُّدَّكِرٍ "۔[[29]]

"اور ہم نے قرآن کو تذکیر کے لیے نہایت موزوں بنایا ہے۔ تو ہے کوئی یاد دہانی حاصل کرنے والا!"

ان آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحی فرماتے ہیں:

 " نشانیاں اور عبرت انگیز واقعات تو بہت ہیں جو صحیفہ و ارض پر بھی ثبت ہیں اور تاریخ کے اوراق میں بھی محفوظ ہیں لیکن عبرت حاصل کرنے والے دل کہاں ہیں! اللہ کا عذاب کیسا بےپناہ ہوتا ہے اور اس کی دھمکی کس طرح پوری ہوتی ہے۔ مذکورہ آیت کا مطلب عام طور پر لوگوں نے یہ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو حفظ کرنے یا نصیحت حاصل کرنے کے لیے نہایت آسان کتاب بنایا ہے۔ یہ بات اگرچہ بجائے خود صحیح ہے کہ قرآن حفظ کرنے کے لیے بھی آسان ہے اور نصیحت حاصل کرنے کے لیے بھی سہل ہے لیکن آیت کا مفہوم اس سے بہت وسیع ہے۔ لفظ ذکر بھی یہاں وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی تعلیم، تذکیر، آگاہی، تنبیہ، نصیحت، موعظت، حصول عبرت اور اتمام حجت سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ اس آیت میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے کہ پیغمبر جس عذاب سے تمہیں آگاہ کر رہے ہیں وہ ایک اٹل حقیقت ہے آفاق وانفس سب اس کے گواہ ہیں۔ رسولوں اور ان کی قوموں کی تاریخ اس کی شاہد ہے لیکن تم مچلے ہوئے ہو کہ جب اس عذاب کی نشانی دیکھ لو گے تب مانو گے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری تعلیم و تذکیر کے لیے قرآن اتارا ہے جو ہر پہلو سے اس مقصد کے لیے جملہ لوازم سے آراستہ و مسلح ہے تو آخر اس عظیم نعمت سے کیوں فائدہ نہیں اٹھاتے، عذاب کے تازیانے ہی کے لیے کیوں بےقرار ہو !"

 " جو اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ قرآن ایک سہل کتاب ہے جو صرف حفظ وتلاوت کے لئے نازل ہوئی ہے، اس کے سمجھنے کے لئے کسی تفکر و تدبر کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے زعم میں ہر شخص جو الٹی سیدھی عربی سمجھ سکتا ہے وہ بےتکلف قرآن بھی سمجھ سکتا ہے۔ یہ غلط فہمی فہم قرآن کی راہ کو مسدود کردینے والی ہے اس وجہ سے ضروری ہے کہ تیسیرِ قرآن کے جن پہلوؤں کی طرف خود اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے۔تیسیرِقرآن کا سب سے نمایاں پہلو جس کا قرآن نے بار بار تذکرہ کیا ہے یہ ہے کہ وہ ’ عربی مبین ‘ میں نازل ہوا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا تاکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو بالتّدریج سنائیں اور سکھائیں اگر پورا قرآن بیک دفعہ جملۃ واحدۃ نازل کردیا جاتا۔ جیسا کہ کفار کا مطالبہ تھا ،۔ تو یہ چیز تیسرِ قرآن کے منافی ہوتی۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ قرآن کی تمام بنیادی تعلیمات پہلے گٹھے ہوئے الفاظ اور فقروں اور چھوٹی چھوٹی جامع اور محکم سو رتوں کی شکل میں نازل ہوئیں تاکہ لوگوں کے لئے ان کا اخذ کرنا، ان کو محفوظ رکھنا، ان پر عمل کرنا اور دوسروں تک ان کو پہنچانا آسان ہو۔ چوتھا پہلویہ ہے کہ قرآن میں ہر بات گو نا گوں پہلوؤں سے مختلف شکلوں، صورتوں، مختلف سوابق و لواحق اور نئے نئے اطراف و جوانب کے ساتھ بیان ہوئی ہے تاکہ ایک جگہ قاری کے ذہن میں بات نہیں آئی ہے تو دوسری جگہ آجائے اور ایک مقام میں کوئی دلیل دل میں نہیں اتری ہے تو دوسرے سیاق وسباق میں وہ ذہن نشین ہوجائے، قرآن نے اس چیز کو تصریف آیات، سے تعبیر فرمایا ہے۔ ترتیب کا یہ اہتمام اللہ تعالیٰ نے تیسیر ہی کے مقصد سے اختیار فرمایا ہے۔"[[30]]

 ان آیات میں اللہ پاک بطور ترغیب کے سوال فرما رہے ہیں کہ ہم نے اپنی نشانیوں کو بیان فرما دیا ہے اب ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا جو ان آیات سے نصیحت حاصل کرے۔قرآن کا نزول حالات و واقعات کے مطابق ہوا تا کہ لوگ اس پر عمل کر سکیں اگر مکمل قرآن ایک دفعہ ہی نازل فرما دیا جاتا تو اس کو سمجھنے اور اسکی تعلیمات پر عمل کرنا دشوار ہو جاتا اس لئے اس کی حالات کے مطابق عمل کرنے میں یہ حکمت پوشیدہ تھی۔

۹-سورہ الملك میں فرمان الٰہی ہے:

"ءَاَمِنتُم مَّن فِى السَّمَآءِ اَن يَّخسِفَ بِكُمُ الاَرضَ فَاِذَا هِىَ تَمُورُ‏ "۔[[31]]

" کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے بےخوف ہو کہ تم کو زمین میں دھنسا دے اور وہ اس وقت حرکت کرنے لگے"۔

پھر فرمایا:

"اَم اَمِنتُم مَّن فِى السَّمَآءِ اَن يُّرسِلَ عَلَيكُم حَاصِبًا‌ فَسَتَعلَمُونَ كَيفَ نَذِيرِ "۔[[32]]

" کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے نڈر ہو کہ تم پر کنکر بھری ہوا چھوڑ دے۔ سو تم عنقریب جان لو گے کہ میرا ڈرانا کیسا ہے ۔"

نیز فرمایا:

"وَلَـقَد كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبلِهِم فَكَيفَ كَانَ نَكِيرِ "۔[[33]]

"اور ان لوگوں نے بھی جھٹلایا جو ان سے پہلے گزرے تو دیکھو کیسی ہوئی ان پر میری پھٹکار۔"

 اس آیت میں انسان کے ضعف اور بے ثباتی کا جو ذکر ہے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ تنبیہ ہے کہ جو انسان اس وسیع زمین میں پھر رہا ہے اس کو اپنی طاقت اور اپنے وسائل پر اتنا غرورنہیں ہونا چاہیے کہ اسے خدا کے عذاب سے ڈرایا جائے تو وہ اس کا مذاق اڑانے لگے کہ اس پر کہاں سے عذاب آئے گا اور کون عذاب لائے گا! کیا وہ عظیم ہستی سے جو آسمانوں میں ہے اس کے عذاب سے بے خوف ہو کہ وہ زمین میں تم کو دھنسا دے بلکہ یہ تو خدا کی عنایت ہے کہ اس نے زمین کو تمہارے لیے مسخر کر رکھا ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا اصلاحی لکھتے ہیں:

" قریش کو قوم لوط کی تباہ شدہ بستیوں پر سے گزرنے کے مواقع اکثر حاصل ہوتے رہتے تھے اس وجہ سے قوم لوط کی تمثیل ان کے لیے موثر ہو سکتی تھی ۔ یعنی آج تو تمہیں میرا انذار مذاق معلوم ہوتا ہے لیکن جب وہ سامنے آ جائے گا تب تمہیں پتہ چلے گا کہ جس چیز کا تم مذاق اڑا رہے ہو وہ کس طرح حقیقت بنتی ہے اور کیسی ہولناک شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔جبکہ دوسری آیت میں قریش کو تاریخ سے سبق لینے کی ہدایت ہے کہ یہ عذاب اگر ان کے اوپر ابھی نہیں آیا ہے تو اس کے سبب سے اس کا مذاق نہ اڑائیں۔ یہ کوئی دانش مندی کی بات نہیں ہے کہ جو کچھ آدمی کے اپنے سر پر گزر جائے اسی کو مانے بلکہ دوسری قوموں کی سرگزشت سے انھیں سبق لینا چاہیے جن کو انہی کی طرح انذار کیا گیا لیکن انھوں نے اس کا مذاق اڑایا بالآخر وہ عذاب ان پر مسلط ہو کر رہا جس کا انھوں نے مذاق اڑایا۔ تو دیکھیں کس طرح ان پر میری پھٹکار ہوئی! یعنی میں نے کس نفرت و بیزاری کے ساتھ ان کو اپنے عذاب کا ہدف بننے کے لیے چھوڑ دیا اور کوئی ان کو بچانے والا نہ بن سکا۔"[[34]]

 ان آیات میں بطور وعید کے استفہام کیا جا رہا ہے کہ اللہ پاک نے پہلی امتوں کو بھی انکی نافرمانی کے سبب ہلاک فرما دیا تو کیا یہ لوگ نصیحت حاصل نہیں کرتے؟ قریش مکہ تو ان راستوں سے گزرے تھے جن جگہوں پر سابقہ اقوام پر انکی نافرمانی کے سبب عذاب آیا تھا تو انکو عبرت و نصیحت پکڑنی چاہئے تھی نا کہ وہ اپنے ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے حق بات کو قبول کرنے سے انکار کرتے رہے۔

۱۰-سورہ القيامہ میں فرمان تعالیٰ ہے:

"وَقِيلَ مَن ۜ رَاقٍ "۔ [[35]]

"اور کہا جائے گا اب کون ہے جھاڑ پھونک کرنیوالا !"

"اَيَحسَبُ الاِنسَانُ اَن يُّترَكَ سُدًى "۔[[36]]

"کیا انسان گمان رکھتا ہے کہ وہ بس یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا !"

"اَلَم يَكُ نُطفَةً مِّن مَّنِىٍّ يُّمنٰى "۔[[37]]

"کیا وہ مخص ٹپکائی ہوئی منی کی ایک بوند نہیں تھا !"

"اَلَيسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓى اَن يُّحـىِۦَ المَوتٰى "۔[[38]]

"کیا وہ خداوند قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کردے !"

ان آیات کی تفسیر میں صاحب تفسیر بیان کرتے ہیں کہ:

 "عیش دنیا کے متوالوں کو یہ موت کی جان کنی اور اس وقت کی مایوسی و بے بسی کی یاددہانی ہے کہ قیامت کو بعید از امکان نہ سمجھو۔ وہ لازماً آئے گی اور تمہیں خدا کی طرف اس دن سفر کرنا ہو گا جب تمہاری ساری جولانیاں ختم ہو جائیں گی اور بے بسی کا یہ حال ہو گا کہ پنڈلی سے پنڈلی لپٹی ہوئی ہو گی۔ بہتر ہے کہ اس سے پہلے کہ جان ہنسلی میں آ پھنسے اور پنڈلی پنڈلی سے لپٹ کے رہ جائے خدا کی طرف بھاگو اور اس سفر کے لیے کچھ سامان کر لو اوروہ پکاریں گے، ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا! گویا ایسا سخت وقت ہو گا کہ کوئی شخص قائل کی طرف توجہ کرنے والا نہیں ہو گا، ہمارے نزدیک یہاں دو تاویلوں کا احتمال ہے ۔پہلی تاویل یہ ہے کہ جب موت کی بے ہوشی طاری ہو گی اور جان سینے میں گھٹنے لگے گی تو تیماردار گھبرا کر پکاریں گے کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا جو اس جاں بلب کا علاج کرے!دوسری تاویل یہ ہے کہ وہ کہیں گے کہ بس اب معاملہ آخر ہو چکا! اب کون اس کو شفا دے سکتا ہے! یہ اظہار یاس کا فقرہ ہے اور یہ سن کر مریض کو یقین ہو جائے گا کہ بس اب چل چلاؤ کا وقت ہے۔[[39]]

 اب آخر میں اسی سوال کو لے کر اس کا جواب دیا کہ جو لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے پر تعجب کر رہے ہیں کیا وہ یہ گمان کیے بیٹھے ہیں کہ انسان غیر مسؤل چھوڑ دیا جائے گا! اگر غیر مسؤل چھوڑ دیا جانا خدا کے عدل اور اس کی حکمت کے منافی ہے تو خدا کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کر دینا کیوں مشکل ہو جائے گا؟ کیا وہ خود اپنی خلقت کے مراحل پر غور نہیں کرتے کہ انسان پانی کی ایک بوند سے پیدا ہوتا ہے جو رحم میں ٹپکا دی جاتی ہے۔ ٹپکا دینے والا ایک بوند ٹپکا کر الگ ہو جاتا ہے، پھر اسے کچھ خبر نہیں ہوتی کہ وہ بوند کہاں اور کس حال میں ہے۔ بعد کے سارے تصرفات اس پر قدرت کرتی ہے اور تہ بہ تہ تاریکیوں کے اندر وہ اپنی صنعت گری سے اس کو مختلف مراحل سے گزارتی ہے۔ پانی کی بوند خون کی ایک پھٹکی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ پھر اس کا خاکہ تیار ہوتا ہے۔ پھر اس کے نوک پلک سنوارے جاتے ہیں۔ بالآخر قدرت اس کو مرد یا عورت بنا کر وجود میں لاتی ہے۔ ان تمام مراحل میں قدرت ہی اس پر سارے تصرفات کرتا ہے۔اب غور کرو کہ جس خدا نے اپنی قدرت، حکمت اور صنعت گری کی یہ شانیں تمہارے وجود کے اندر تمہیں مشاہدہ کرائی ہیں کیا وہ تمہارے مر جانے کے بعد تمہیں دوبارہ زندہ کر دینے پر قادر نہیں ہو گا!" [[40]]

 ان آیات میں اللہ تعالیٰ انسان کی تخلیق کو بیان کرتے ہوئے بطور یاد دہانی کے استفہام فرما رہے ہیں کہ تم لوگوں کو پیدا کرنے والا کون ہے؟کون ہے جس نے تمہیں ایک نطفے سے پیدا فرمایا کس بات کا غرور ہے کہ تم اسی کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو تو جو خدا تمہیں ایک دفعہ بنانے پر قدرت رکھتا ہے تو اس کے لئے دوبارہ پیدا کرنا کیونکر مشکل ہو سکتا ہے۔تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ انسان کا پیدا ہونا تمہاری کاریگری ہے بلکہ نہیں اللہ پاک ہی اس ساری تخلیق کو مکمل کرتا ہے اور انسان کا اس میں کوئی ارادہ و اختیار نہیں ہے۔

۱۱- سورہ العادیات میں اللہ فرماتے ہیں:

"اَفَلَا يَعلَمُ اِذَا بُعثِرَ مَا فِى القُبُورِ "۔[[41]]

"کیا وہ اس وقت کو نہیں جانتا جب قبریں اگلوائی جائیں گی"

اس آیت میں قیامت کو ہولناک منظر پیش کیا جا رہا ہے جب اللہ کے حکم سے اسرافیل صور پھونکیں گے اور سب لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا قبریں شق ہو جائیں گی اور سب لوگ اللہ کے حضور دوڑیں گے کسی کو کسی کی پرواہ نہ ہوگی ہر انسان اپنے بچاؤ کے لئے دوڑ رہا ہوگا تو کیا یہ لوگ غوروفکرنہیں کرتے کہ اس ہولناک منظر میں نجات صرف ان لوگوں کے لئے ہی ہے جو اللہ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں اپنی زندگی گزارتے ہیں۔

 اس آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں:

اس آیت میں ناشکرے اور زرپرست انسانوں کو تنبیہ ہے کہ کیا وہ اس دن کو نہیں جانتے جب وہ سب کچھ جو قبروں میں ہے اگلوا لیا جائے گا اور جو کچھ لوگوں کے سینوں میں ہے وہ نکلوا لیا جائے گا۔ قبروں کے اندر سے مردوں کو نکلوانا تو بالکل واضح ہے اس سے وہ فتنے بھی مراد ہیں جو بخیل مال دار، خدا اور اس کے بندوں کے حقوق مار کر، زمینوں میں دفن کر چھوڑتے ہیں۔ ’بُعْثِرَ‘ کے معنی ہیں کسی جمع کی ہوئی چیز کو جائزہ لینے کے لیے پراگندہ اور متفرق کر دینا۔ یعنی اس دن کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں رہ جائے گی بلکہ ہر چیز سب کے سامنے آ جائے گی۔اعمال کے ریکارڈ کے ساتھ محرکات اعمال کا ریکارڈ بھی خدا کے سامنے ہو گا یعنی دفینوں کی طرح سینوں کے سارے راز بھی اکٹھے کر لیے جائیں گے تاکہ ہر شخص پر حجت قائم کی جا سکے کہ کس نے کون سا عمل کس محرک کے تحت کیا ہے۔ یہ امر واضح رہے کہ کوئی شخص کتنا ہی غلط کام کرے لیکن وہ اس کو جائز ثابت کرنے کے لیے کوئی اچھا محرک تلاش کرنے کی ضرور کوشش کرتا ہے تاکہ اپنے ضمیر کو بھی چپ کر سکے اور دوسروں کی تنقید و تحقیر سے بھی اپنے کو بچا سکے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو اپنے کو مذہبی روپ میں پیش کرتے یا قیادت کے مقام پر فائز ہوتے یا ہونے کے متمنی ہوتے ہیں وہ تو اس کے بغیر کوئی کام کر ہی نہیں سکتے۔ وہ اپنے باطن کو خلق کی نگاہوں سے چھپائے رکھنے کے لیے اس طرح کا کوئی لبادہ ضرور ایجاد کر لیتے ہیں۔ اس قسم کے شاطروں کو اس آیت میں متنبہ فرمایا گیا ہے کہ اس دن ان کے اعمال کے ریکارڈ کے ساتھ ساتھ ان کے محرکات کا سارا ریکارڈ بھی ان کے اور ان کے رب کے سامنے ۔ہو گا۔ "[[42]]

اس آیت میں یہ وضاحت کی جا رہی ہے کہ تم جو بھی اعمال لوگوں سے چھپا کر کروگے قیامت کے دن زمین وہ سارے راز اگل دے گی یہاں اللہ پاک بطور انذار کے سوال فرمارہے ہیں کہ تم کو اس دن کہ ہولناکیوں سے ڈرانے کا مقصد یہ ہے کہ تم عبرت حاصل کرو تم نصیحت حاصل کرو جبکہ تم لوگ اپنی سرکشی میں مبتلا ہو اور آخرت کی فکر نہیں کرتے جس دن کوئی انسان بھی کسی کے کام نہ آ سکےگا اور ہر انسان کو اس کے اچھے اور برے اعمال کی بدولت جزا اور سزا دی جائے گی۔

خلاصہ بحث

 آخرت پر یقین ہر مسلمان کا بنیادی عقیدہ ہے مرنے کے بعد اللہ کے حضور تمام انسانوں نے پیش ہو کر اپنے کئے گئے اعمال کا حساب دینا ہے اللہ تعالیٰ سے کوئی بھی چیزچھپی ہوئی نہیں ہے وہ ہمارے ہر عمل سے باخبر ہے انسان کی زندگی کا ایک مقصد ہے جس کے تحت انسان کی تخلیق کی گئی اس لئے ہمیں آخرت کی تیاری کے لئے کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم قیامت کے دن شرمندگی سے بچ سکیں اور کامیاب ہو کر اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔انسان اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہےبلکہ اپنے تمام اعمال کا اللہ کے سامنے جوابدہ ہے اس کے خاتمے کے بعد ایک اور جہان بنایا جائے گا جس میں سب کو جمع کر کے ہر ایک کو اپنے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔عقیدہ آخرت کوئی خیالی یا فرضی بات نہیں ہے بلکہ ایک اٹل حقیقت ہے دنیا میں کتنے ہی لوگ ہیں جو برے اعمال کر کے بھی پکڑے نہیں جاتے کسی کی گرفت میں نہیں آتے اگر آخرت نہ ہوتی تو ان کو سزا کیسے ملتی؟اس لئے کائنات ہے ایک ایسا دن ضرور آئے گا جب سب کچھ ٹوٹ پھوٹ جائے گااور ہر شے ختم ہو جائے گی سب کچھ فنا ہونے کے بعد انسان دوبارہ اٹھائیں جائینگے ان کے اعمال کے حساب ہوگا اور نہ کوئی کسی کی مدد کر سکے گا اور نہ کسی کے کام آسکے گا اپنے عمل ہی کام آئیں گے اور جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا۔

 اس فصل میں تفسیر تدبر قرآن کی روشنی میں عقیدہ آخرت کے ضمن میں مختلف آیات کی وضاحت کی گئیہے اور اس میں سوال کرنے کی حکمت اور نوعیت کو بھی بیان کیا گیا ہے جو کہ درج ذیل ہے:

 سورۃ البقرہ آیت نمبر ۲۶۰، سورۃ آل عمران آیت نمبر ۱۰۶، سورۃ الانعام آیت نمبر ۱۵۸، سورۃ الاعراف آیت نمبر ۸۴ ، سورہ یونس آیت نمبر ۵۱,۵۲,۵۳، سورۃ القصص آیت نمبر ۶۱،۶۲,۶۵، سورہ یاسین آیت نمبر۶۰،۶۲،۶۶، سورۃ القمر آیت نمبر۱۵،۱۶،۱۷، سورہ الملك آیت نمبر۱۵،۱۶،۱۷، سورة القيامة آیت نمبر ۲۷،۳۶،۳۷،۴۰، سورہ العادیات آیت نمبر۹۔

 

 



[[1]]         القرآن ، ۱۷: ۴۹

[[2]]          عبداللہ بن جار اللہ، احوال القیامة،مکتبہ دارالسلام، ۱۴۲۹ھ،ص۸۔

[[3]]       عبداللہ بن جار اللہ، احوال القیامة، ص۸۔

[[4]]       القرآن ، ۲: ۲۶۰۔

[[5]]       اصلاحی، تدبر قرآن، ۱/۱۸۲۔

[[6]]       اصلاحی، تدبر قرآن، ۱/۱۸۳۔

[[7]]       القرآن ، ۳: ۱۰۶۔

[[8]]       اصلاحی، تفسیر تدبر قرآن، ۱/۲۶۲۔

[[9]]       اصلاحی، تفسیر تدبر قرآن، ۱/۲۶۳۔

[[10]]    القرآن ، ۶: ۱۵۸۔

[[11]]   اصلاحی، تفسیر تدبر قرآن، ۱/۴۰۰۔

[[12]]    القرآن ، ۷: ۸۴۔

[[13]]    اصلاحی، تفسیر تدبر قرآن،۲/۱۱۶۔

[[14]]    القرآن ، ۱۰: ۵۱۔

[[15]]    القرآن ، ۱۰: ۵۲۔

[[16]]    القرآن ، ۱۰: ۵۳۔

[[17]]    اصلاحی، تفسیر تدبر قرآن ۲/۳۰۳۔

[[18]]    القرآن ، ۲۸: ۶۱۔

[[19]]    القرآن ، ۲۸: ۶۲۔

[[20]]    القرآن ، ۲۸: ۶۵۔

[[21]]    اصلاحی، تفسیر تدبر قرآن ۶/۵۰۱۔

[[22]]    اصلاحی، تفسیر تدبر قرآن ۶/۵۰۲,۵۰۳۔

[[23]]    القرآن ، ۳۶: ۶۰۔

[[24]]    القرآن ، ۳۶: ۶۲۔

[[25]]    القرآن ، ۳۶: ۶۶۔

[[26]]    اصلاحی، تفسیر تدبر قرآن،۵/۱۸۶,۱۸۸۔

[[27]]    القرآن ، ۵۴: ۱۵۔

[[28]]    القرآن ، ۵۴: ۱۶۔

[[29]]    القرآن ، ۵۴: ۱۷۔

[[30]]    اصلاحی، تفسیر تدبر قرآن،۸/۵۵,۵۶۔

[[31]]    القرآن ، ۶۷: ۱۶۔

[[32]]    القرآن ، ۶۷: ۱۷۔

[[33]]    القرآن ، ۶۷: ۱۸۔

[[34]]    اصلاحی، تفسیر تدبر قرآن، ۹/۴۸۰۔

[[35]]    القرآن ، ۷۵: ۲۷۔

[[36]]    القرآن ، ۷۵: ۳۶۔

[[37]]    القرآن ، ۷۵: ۳۷۔

[[38]]    القرآن ، ۷۵: ۴۰۔

[[39]]       اصلاحی، تدبرِ قرآن، ۹/ ۴۸۰۔

[[40]]       اصلاحی، تدبرِ قرآن، ۹/ ۴۸۲۔

[[41]]    القرآن ، ۱۰۰: ۹۔

[[42]]    اصلاحی، تفسیر تدبر قرآن،۹/۵۲۰۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...