Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

فصل اول: پیر محمد کرم شاہ الازہری کے حالاتِ زندگی
ARI Id

1695203136242_56118325

Access

Open/Free Access

Pages

305

پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ کاسلسلہ نسب

آپ کاسلسلہ نسب ۲۲واسطوں سے حضرت غوث العالمین بہاء الحق والدین ابومحمد زکریا ملتانی سے جاملتا ہے ۔ سلسلہ نسب یہ ہے ۔

حضرت پیرمحمدکرم شاہ ؒ بن حضرت پیرمحمد شاہ صاحبؒ بن حضرت امیرشاہ بن حضرت پیر شاہ ؒ بن حضرت شمس الدینؒ بن حضرت عبداللہ شاہؒ بن حضرت محمدغوثؒ بن حضرت غلام محمدحسین شاہؒ بن حضرت شیخ محمدؒ بن حضرت شیخ محمودؒ بن حضرت شیخ احمدؒ بن حضرت شیخ نظام الدینؒ بن حضرت شمس الدین لاہور لقب کروڑیؒ بن حضرت شیخ صدرالدین بادشاہؒ بن حضرت شھراللہ صاحب سجادہؒ بن حضرت یوسفؒ بن حضرت شیخ عمادالدینؒ بن حضرت حاجیؒ بن حضرت شیخ رکن الدین سمرقندیؒ بن حضرت صدرالدین حاجیؒ بن حضرت شیخ اسماعیل شہیدؒ بن حضرت مولانا صدرالدین قتال عارف باللہؒ بن حضرت بہاؤلادین زکریاملتانی۔[[1]]

پیرمحمد کرم شاہ الازہریؒ کی ولادت

آپ نسباًہاشمی قریشی ا ورمسلکاًحنفی ہیں ۔۲۱رمضان المبارک ۱۳۳۶ھ بمطابق یکم جولائی ۱۹۱۸ء سہ شنبہ بعداز نماز تراویح بھیرہ شریف ضلع سرگودھا میں آپ کی ولادت ہوئی ۔[[2]]

تعلیم وتربیت

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہربہیرہ میں حاصل کی اورساتھ ہی اپنے والدمحترم کے قائم کردہ مدرسہ " دارالعلوم محمدیہ غوثیہ"میں دینی تعلیم کے حصول کاآغازکیا۔ والدمحترم نے اپنے صاحبزادے کی تعلیم کےلیے خصوصی انتظامات کیے ۔

 

قرآن کی تعلیم

خاندانی روایت کے مطابق آپ کی تعلیم کاآغازقرآن کریم سے ہواجن اساتذہ سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی ان کے نام یہ ہیں :

حافظ دوست محمد، حافظ مغل، حافظ بیگ

ثقہ روایت یہ ہے کہ حافظ دوست محمدسے تعلیم کاآغاز ہوا۔قرآن کریم کاکچھ حصہ حافظ مغل سے اور کچھ حصہ بیگ سے پڑھا۔ ختم قرآن کے بعد ایک مدت تک حافظ کرم علی کوقرآن کریم سناتے رہے ۔[[3]]

سکول کی تعلیم کا آغاز

محمدیہ غوثیہ پرائمری سکول کاآغاز ۱۹۲۵ء میں ہوا۔ آپ اس سکول کے پہلے طالب علم ہیں۔اس لحاظ سے سات سال کی عمر میں تعلیم کا آغاز کیا۔ قرین قیاس بات یہ ہے کہ آپ دربار عالیہ سے متصل درس قرآن میں بھی شامل ہوتے رہے اور ساتھ ہی سکول کی تعلیم کا بھی آغاز کر دیا۔

سکول کے اساتذہ میں سے پہلے استاد کا نام ماسٹر برخوردارتھا۔ جو محمد یہ غوثیہ سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ پرائمری سکول میں اس وقت چار کلاسز ہوتی تھیں۔ اس لحاظ سے سکول میں آپ کی تعلیم کا سلسلہ۱۹۲۵ء سے ۱۹۲۹ ء تک رہا۔ اس کے بعد آپ نے ہائی سکول میں داخلہ لے لیا ۔ہائی سکول میں تعلیم کے دوران جن اساتذہ سے اکتساب فیض کیا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:

محترم چوہدری ظفر احمد ،  محترم فرمان شاہ ،  محترم قاضی محمد صدیق ،  محترم شیخ خورشید احمد

یہ سب وہ اساتذہ ہیں کہ جن کے اثرات آپ کی طبیعت پر گہرے ہیں۔[[4]]

اورینٹل کالج میں داخلہ

اس دور میں چونکہ فاضل عربی کا امتحان یونیورسٹی کے زیر نگرانی ہوتا تھا۔ اس لیے آپ نے فاضل عربی کے لیے ۱۹۴۱ء میں اورینٹل کالج لاہور میں داخلہ لیا ۔ اس کالج میں جن اساتذہ سے استفادہ کیا ان کے نام درج ذیل ہیں:

 شیخ محمد عربی ،  محترم رسول خان صاحب،   مولانا نور الحق صاحب[[5]]

اعلیٰ تعلیم کا حصول

پیر کرم شاہ صاحب ؒ نے اعلیٰ تعلیم کے لیے ان تھک کوششیں کیں۔۱۹۴۳ ء میں دورہ حدیث کی تکمیل ہوئی۔ آپ کے سر پر حضرت دیوان صاحب آل رسول اجمیری نے دستار بندھائی اور سند عطا کرتے ہوئے حضرت صدرالافاضل نے فرمایا :

"میں آج مطمئن ہوں کہ میرے پاس دینی علوم اورحدیث طیبہ کی جوامانت تھی وہ میں نے موزوں فرد تک پہنچادی ہے"۔[[6]]

جامعۃ الازھرمصر میں دینی اسلامی لاء میں تخصص

آپ کے بزرگوں کی خواہش تھی کہ اپنے بیٹے کوجامعۃ الازہر مصر سے تعلیم دلوائی جائے چنانچہ ۱۹۴۵ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی -اے کا امتحان پاس کرنے کےبعد آپ کو ۱۹۵۱ ءمیں جامعۃ الازہر مصر میں داخل کروادیا گیا ۔ مصر روانگی سے پہلے پیر صاحب اپنے والد محترم کی نصیحت کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ والد محترم اور خاندان والے سرگودھا ریلوے اسٹیشن سے کراچی روانہ کرنے کے لیے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے ہوئے تھے کہ والد محترم نے فرمایا:

 "میرے بیٹے میں اپنے بڑھاپے کے ایام میں آپ کو علم حا صل کرنے کے لیے اپنے وطن سے دور اتنے لمبے سفر پر بھیج رہا ہوں جب کہ آپ میری بیماری کی حالت میں میرے لیے بہترین سہارا بن سکتے ہیں۔ مگر میں ا پنی ذاتی مجبوریوں پر دین کو ترجیح دے رہا ہوں ۔ میری خواہش ہے کہ آپ پوری توجہ سے دینی علوم میں اعلیٰ مقام حاصل کریں اور وطن واپس آکر امت مسلمہ کو فیض یاب کریں ۔"[[7]]

 بوڑھے باپ کی نصیحت و وصیت پیر محمد کرم شاہ کے خاندان کی علم دوستی اور دینی خدمت کا واضح ثبوت ہے ۔ ۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۴ ء تک جامعۃ الازہر قاہرہ مصر میں تعلیم و تحقیق میں مصروف رہے اور"الشہادۃ العالمۃ "و" تخصص القضا" کی اعلیٰ سندات حاصل کیں۔ حصول علم کا شوق اورمحنت کا یہ جذبہ بیرون ملک میں اور زیادہ شدت اختیار کر گیا۔

آپ نے دوران تعلیم جان سوزی کا مظاہرہ کیا کہ پورے چھ سال کا کورس ساڑھے تین سال کے عرصہ میں مکمل کیااورقیام ازہرکے دوران تعلیمی میدان میں وہ کردار پیش کیا کہ اساتذہ و طلباء سبھی کی نظروں میں مقبول اور محترم بن گئے۔ اپ نے انتھک محنت کی اور بھر پور کوشش کے ساتھ جامعۃ ازھر میں تکمیل علم کی اور ۱۹۵۴ء میں سند فراغ لے کر واپس پاکستان لوٹے۔[[8]]

سنت خیرالانام کی تالیف

پیر کرم شاہ صاحب الازھری نے زمانہ طالب علمی میں کتاب " سنت خیر الانام " تالیف فرمائی۔ جس نے باطل کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیا ۔ فتنی انکار حدیث کااس موثر اور مسکت انداز میں رد کیا کہ خود غلام احمد پرویز بھی بلا اختیاریہ اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکا ۔ اس کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے اس دلنشین انداز میں اس کا جواب کسی نے نہیں دیا ۔[[9]]

 عملی زندگی کا آغاز

جامعۃ الازھر مصر سے واپس آکر دار العلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ کی نشاۃ ثانیہ کا اہتمام کیا ۔ دینی مدارس میں رائج قدیم نصاب تعلیم اور عصری علوم کی آمیزش سے نیا نصاب تیار کر کے اپنے ہی دار العلوم میں جاری کیا ۔ ابتدائی کلاس پانچ طلباء پر مشتمل تھی اسے لے کر اس عزم و ہمت اور استقامت سے چلے کہ دار العلوم طلباء کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور اس دار العلوم کی پچیس شاخیں اندرون و بیرون ملک مصروف تعلیم ہیں ۔[[10]]

پیر کرم شاہ الازھری ؒ کے قائم کردہ دینی و تعلیمی ادارے

دار العلوم محمدی غوثیہ کی تحریک جس کا آغاز پانچ طلباء اور مسجد درگاہ حضرت امیر السالکین ؒ سے متصل ایک حجرہ سے ہوا تھا۔ جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازھری کی سرپرستی میں بے شمار تعلیمی ادارے اندرون ملک اوربیرون ملک دینی اور علمی خدمات دے رہے ہیں ۔ جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے :

دار العلوم محمدیہ غوثیہ خیابان کرم چک شہزاد اسلام آباد

دار العلوم محمدیہ غوثیہ رستم آباد چک جھمرہ اسلام آباد

دار العلوم محمدیہ غوثیہ سرگودھا

دار العلوم محمدیہ غوثیہ جلیانہ تحصیل شاہ پور ضلع سرگودھا

دار العلوم محمدیہ غوثیہ رانا نگر بادامی باغ لاہور

دار العلوم ضیاء القرآن سعید آباد بوکن گجرات

جامعہ حیدریہ فضل العلوم جلال پور شریف

دارالعلوم محمدیہ غوثیہ سیالکوٹ کینٹ

دارالعلوم قمرالاسلام سلیمانیہ پنجاب کالونی کراچی

دار العلوم محمدیہ غوثیہ الفریدٹاؤن منڈی بہاؤالدین

دار العلوم محمدیہ غوثیہ فاضل بھکر

جامعہ اکرم انگلیند

دارالعلوم گلزار حبیب میرپور آزادکشمیر

جامعہ اسلامیہ مجددیہ رضویہ چکسواری میرپور آزادکشمیر

دار العلوم محمدیہ غوثیہ ملک وال

دار العلوم قادریہ وارثیہ گوجرخان

جامعہ قمرالعلوم معظمیہ قمرسیالوی روڈ گجرات [[11]]

صحافت اورضیائے حرم کااجراء

۱۹۷۰ء کوآپ نے صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ آپ نے ایک ماہنا مہ "ضیائے حرم" قوم کی نذر کیا۔ ضیائےحرم نے ہر میدان میں خواہ وہ معاشرتی ہو ں یا مذہبی یا سیاسی ہوں یا معاشی اس نے اپنا مضبوط موقف پیش کیا ۔[[12]]

عدالتی خدمات

پیر محمد کرم شاہ صاحب جون ۱۹۸۱ء میں اسلامی شریعت کورٹ کے جج مقرر ہوئے ایک سال تین ماہ اس عدالت میں خدمات سرانجام دینے کے بعد ۱۷ اکتوبر ۱۹۸۲ء کو سپریم کورٹ کی شریعت اپیلنٹ بینچ میں بطور جسٹس کام کرنا شروع کیا اور اپنی طبعی عمر کے آخری ایام تک اس منصب پر فائز رہے ۔

 عدالتی ذمہ داریوں کے اس دورانیہ روز میں روز مرہ کے مقدمات کی سماعت کے ساتھ ساتھ بعض انتہائی اہم آئینی مقدمات بھی زیر سماعت آئے ۔ دوسرے جج صاحبان کی معیت میں ان مقدمات کی سماعت کے بعد آپ نے نہایت واضح دو ٹوک اور دقیع انداز میں ایسے فیصلے رقم فرمائے ،جن کے نتیجہ میں پاکستان کی وزارت قانون کو اپنے آئین سے متعدد غیر اسلامی دفعات حذف کر کے انقلابی تبدیلیاں کرنا پڑیں۔

حد رجم ، قانون شفعہ ، زرعی اصلاحات، جبری ریٹا ئر منٹ ، قبضہ مخالفہ ،انعامی بانڈز سکیم ، فلم سازی،شناختی کارڈ کے لیے تصاویر اور ان جیسے درجنوں موضوعات ہیں جن پر آپ کے فیصلے پاکستان عدلیہ کے لیے رون مینا کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ [[13]]

تصانیف

حضور ضیاء الامت پیرمحمدکرم شاہؒ الازھری نے اپنی ترجیحات صرف ایک تعلیمی ادارے پرہی مرکوزنہ کیں بلکہ امت مسلمہ کودرپیش مسائل کاجائزہ لے کرتصنیف وتالیف اورصحافت کے میدان میں بھی اپنابھرپور کرداراداکیا ۔

آپ کی چند مشہور تصانیف کے نام درج ذیل ہیں :

۱۔ تفسیرضیاء القرآن ( ۵جلدیں )

۲۔سیرت ضیاء النبیﷺ ( ۷ جلدیں )

۳۔سنت خیرالانام

۴۔ مقالات ضیاء الامت (۵ جلدیں )

 ۵۔دلائل توحید

 ۶۔شرح قصیدہ اطیب النغم

۷۔ابر کرم

۸۔فتنہ انکار حدیث

 ۹۔علوم نبوت پیر مرید کا تعلق

 ۱۰۔رویت ہلال اور اس کا شرعی ثبوت

 ۱۱۔عزم و توکل

۱۲۔ تبارک الذی

۱۳۔پیمان فروشی

۱۴۔ حقیقت شرک اور اس کا بطلان

۱۵۔محسن کائنات

۱۶۔اسلامی فلسفی عدل و انصاف

 ۱۷۔دورہ چین کے تاثرات

۱۸۔ حضرت امام حسین اور یزید

۱۹۔کمالات مصطفیٰﷺ

۲۰۔غفلت کا انجام کلمہ طیبہ

وفات

 آپ کو کافی عرصہ سے ذیا بیطس کا مرض تھا ۔ آہستہ آہستہ اعصابی کمزوری بڑھتی گئی یہاں تک کہ بغیر سہارے چلنا مشکل ہو گیا ۔ بیماری جھیلتے جھیلتے آخر کار وہ ذو الحجہ کا دن آگیا ۔ ساڑھے سات بجے تک آپ کی طبیعت قدرے بہتر تھی ۔ ۸ بجے اچانک کیفیت بدلنے لگی۔ آخر کار ۹ ذو الحجہ ۱۴۱۸ھ بمطابق ۱۸ اپریل ۱۹۹۸ء ۹ بج کر ۲۷ منٹ پر آپ کا انتقال ہو گیا ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔آپ کو بھیرہ شریف میں دفن کیا گیا ۔[[14]]

 

 

فصل دوم:آیاتِ استفہام میں فہم ایمانیات

 ایمان دین کا ایک اہم جزو ہے اسکے تمام ارکان پر یقین وعمل کے بغیر ایمان مکمل ہونا ناممکن ہے اسی لئے اسلام میں سب سے زیادہ عقیدے پر زور دیاگیا ہے اگر عقیدہ درست ہے تو مسلمان کے لئے نجات کا باعث ہے کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار ہی اس کی بنیاد ہے اللہ کو اس کی ذات، صفات اور صفات کے تمام تقاضوں میں ایک آلہ ماننا ہی توحید ہے ہر چیز بنانے والا وہ ایک ہی اللہ ہے ہر کام سنوارنے والا وہ ایک ہی اللہ ہے لوگوں کی ہدایت کے لئے کتابیں نازل فرمانے اور ان مقدس کتابوں کی تعلیمات کو پہنچانے کے لئے پیغمبروں کا سلسلہ جاری کرنے والا اور فرشتوں کے ذریعے وحی اپنے انبیاء کرام تک پہنچانے والا وہ ایک ہی اللہ عزوجل ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہر چیز ہے تمام تر اختیارات اسی کے پاس ہیں جس کو چاہے فراخی عطا فرمائے، جسکو چاہے تنگدست کر دے، جس کو چاہے اولاد کی کثرت عطا کردے اور جسے چاہے بانجھ کردے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور یہی مکمل ایمان ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتے ہیں:

"وَاِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۰ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ"۔[[15]]

" اور تمہارا معبود ایک ہی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بڑا رحم کرنے والا مہربان ہے"

 سید فضل الرحمن لکھتے ہیں کہ:

 " اس آیت میں اللہ اپنی وحدانیت اور رحمت کا ذکر فرما کر کافروں پر واضح فرمادیا کہ وہی ایک معبود ہے جو رحمن اور رحیم ہے اس کے سوا کوئی پناہ نہیں جو تمہیں اس کی لعنت سے چھڑا سکے ۔رحمت عامہ اور رحمت خاصہ سب اسی کے ہاتھ میں ہے اس لئے اس کی رحمت کے سوا لعنت سے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ اگر اس کے ساتھ کوئی دوسرا معبود ہوتا تو وہ شاید تمہیں لعنت سے نکال لیتا اور تم پر رحمت کرتا مگر اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے جو رحمن بھی ہو اور رحیم بھی ، لہذا تمہارے بچنے کی کوئی صورت نہیں ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں اہل کتاب کے لئے تہدید اور عتاب ہو کہ تورات اور انجیل میں اللہ تعالیٰ کی توحید صراحتا مذکور ہے پھر بھی تم لوگ شرک کرتے ہو اور توحید کو چھپاتے ہو"۔[[16]]

" اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اسکی صفات،عبادت،دعا اور حکم میں اسکی وحدانیت پر ایمان لانا ، فرشتے جو اسکی نوری مخلوق اور اللہ کے احکام نافذ کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ان پر ایمان لانا، اللہ کی نا،ل کردہ کتابوں تورات، زبور، انجیل اور سب سے افضل قرآن مجید پر ایمان لانا ، انبیاء کرام کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوا ان سب انبیاء پر بغیر تفریق کے ایمان لانا، قیامت جو اعمال کے محاسبے اور جزا کا دن ہے اس پر ایمان لانا اچھی یا بری تقدیر پر ایمان لانا اور جائز اسباب اپناتے ہوئے ہر انسان کو اچھی یا بری تقدیر پر راضی رہنا چاہیے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کی گئی ہےیہ تمام ایمانیات کے اجزا ہیں"۔[[17]]

اس فصل میں ایمانیات کے ضمن میں درج ذیل آیات پیش کی جا رہی ہیں۔

(۱)-سورة النسآء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

"وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَـنُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَآ اَبَدًا وَعْدَ اللہِ حَقًّا وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ قِيْلًا"۔[[18]]

"رہے وہ لوگ جو ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں، توا نہیں ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنی بات میں سچا ہوگا"۔

 اس آیت میں اللہ پاک بیان فرما رہے ہیں کہ جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک اعمال کریں گے تو ان کو جنت میں داخل کیا جائے گا اور اس جنت میں وہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اس کی نعمتوں سے ہمیشہ فائدہ اٹھاتے رہیں گے یہ اللہ کا وعدہ بالکل سچا ہے جس میں کوئی شک نہیں۔سب سے پہلے تو یہ امر ملحوظ رہے کہ ایمان لانے کے بعد اعمال صالحہ ہی شرط ہے جو جنت میں جانے کی ضامن ہے کیونکہ جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے اس کی فرمانبرداری کرتا ہے اسکی اطاعت اس پر فرض ہو جاتی ہے وہ اسکے تعلیمات کے مطابق ہی زندگی گزارتا ہے تو پھر اس کے لئے اللہ نے ہمیشگی کے باغات کا وعدہ کر رکھا ہے اور اللہ سے زیادہ کس کا وعدہ سچا ہو سکتا ہے اور یہ بطور تعجب کے فرمایا گیا ہے کہ جو ذات ہمیں بنانے والی ہے نعمتیں عطا کرنے والی ہے تو وہ کیسے ممکن ہے کہ ہم سے کوئی وعدہ کرے تو وہ پورا نہ ہو۔اس آیت میں واضح ہوگیا کہ جو انسان بھی ایمان کے بعد اعمالِ صالحہ کرتا ہے کامیابی اس کا مقدر بن جائے گی اور وہ کامیاب و کامران ہو جائے گا۔

اس آیت کی تفسیر میں پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"شیطان کے سارے وعدے توجھوٹے ہیں لیکن اللہ تعالی نے جووعدہ فرمایاہے وہ یقیناپورا فرمائے گا اور اللہ پاک نے واضح کر دیا کہ ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کے شرط لگا دی گئی ہے اس لئے انسان کو ایمان کے بعد اللہ کے حکم و کے مطابق زندگی گزارنے اور اسکی اطاعت کے بعد ہی وہ جنت میں جانے کا اہل ہوگا اور اللہ کی ذات تو وہ بلند ذات ہے جو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا ان لوگوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل کر دیا جائے گا"۔[[19]]

"وَمَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلہِ وَھُوَمُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّــۃَ اِبْرٰہِيْمَ حَنِيْفًا وَاتَّخَذَ اللہُ اِبْرٰہِيْمَ خَلِيْلًا۔" [[20]]

"اُس شخص سے بہتر اور کس کا طریق زندگی ہوسکتا ہے جس نے اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور اپنا رویہ نیک رکھا اور یکسو ہو کر ابراہیمؑ  کے طریقے کی پیروی کی، اُس ابراہیمؑ کے طریقے کی جسے اللہ نے اپنا دوست بنا لیا تھا "۔

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"لفظ خلیل کی تحقیق کرتے ہوئے صاحب المنار لکھتے ہیں کہ خلیل کالفظ اس حبیب اور محب پربولاجاتا ہے جس کے دل میں اپنے محبوب کی محبت یوں رچ بس جائے جیسے کسی شاعر نے کہاہے۔اے محبوب جہاں جہاں میری روح ہے تیراعشق وہاں سماگیاہےاسی وجہ سے توخلیل کوخلیل کہاجاتاہے۔صاحب روح المعانئ لکھتے ہیں کہ محبت کاجومقام محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کوعطافرمایاگیاہے وہ اتنابلند ہے کہ حضرت خلیل کاطائرآرزو بھی وہاں پرنہیں مارسکتا۔"[[21]]

 اس آیت میں وضاحت کی گئی ہے جو اسلام قبول کر لے اللہ کے آگے سر کو جھکا دیااور اس کے بعد نیکی کرنے والا ہو یعنی اللہ کی عبادت کرنے والا ہو اور اس نے اللہ کے نازل کردہ دین کی پیروی کی ہو جو تمام انبیاء کا دین ہے یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جیسے یہودی کہتے تھے ہم ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم دین ابراہیم پر ہے تو انکو بتا دیا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا دین ہی تو وہ دین ہے جس کی تعلیمات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچائیں ہیں کیونکہ حضرتِ ابراہیم علیہ السلام بھی دین حنیف پر قائم تھے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی دین کو پھیلانے آئے تھے تو اللہ پاک نے یہ بات واضح فرما دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہی صحیح دین ہے اور اللہ کا وعدہ ہے جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کو اختیار کرے گا وہی شخص کا میاب ہو گا اور بطور تعجب اپنے بندوں سے سوال فرما رہے ہیں کہ اللہ سے اچھا دین کس کا ہو سکتا ہے ؟ تو یہ اس لئے کیا گیا کہ جو سیدھے راستے پر چلے گا وہ شخص کامیاب ہوگا۔

(۲)- سورة التوبہ میں ارشاد ربانی ہے:

"اَوَلَا يَرَوْنَ اَنَّھُمْ يُفْتَنُوْنَ فِيْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّۃً اَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوْبُوْنَ وَلَا ھُمْ يَذَّكَّرُوْنَ۔ وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰى بَعْضٍ ہَلْ يَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا صَرَفَ اللہُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ"۔ [[22]]

"کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں؟ مگر اِس پر بھی نہ توبہ کرتے ہیں نہ کوئی سبق لیتے ہیں۔ جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو یہ لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں کہ کہیں کوئی تم کو دیکھ تو نہیں رہا ہے، پھر چپکے سے نکل بھاگتے ہیں اللہ نے ان کے دل پھیر دیے ہیں کیونکہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں "۔

اس آیت کی تفسیر کے ماتحت پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تویہ منافق اس مجلس میں ہوتے توان کاجی چاہتا کہ کسی بہانے یہاں سے بھاگ نکلیں ایک تو انھیں قرآن سے کوئ دلچسپی نہ تھی دوسرا انھیں یہ اندیشہ ہوتا کہ کہیں ایسی آیتیں نہ اتریں جن میں ان کورسواکیاگیاہو۔اگریونہی اٹھ کر چلتے ہیں تواپنے نفاق کاراز فاش ہونے کاخطرہ ہے۔اس لیے ایک دوسرے کوآنکھوں سے اشارے کرتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ صحابہ اللہ تعالی کاکلام سننے میں مستغرق ہیں کہ انھیں دنیاوآخرت کی خبربھی نہ ہو۔اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے میرے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے منہ موڑا توہم نے ان کےدلوں کوحق قبول کرنے سے منہ موڑدیا ثم انصرفوا صرف اللہ قلوبھم کے الفاظ بڑے غورکے مستحق ہیں۔ان کی کم عقلی اورنادانی کااس سے بڑا اور کیاثبوت ہوسکتاہے کہ نبی رحمت تشریف لائے اور اپنادامن کرم پھیلادیا اور وہ کم نصیب دور بھاگتے رہے۔ جان بلب مریض پرمسیحا امرت کاجام ہاتھ میں لیے کھڑا ہوتاہے اور منتیں کرتاہے کہ ایک گھونٹ حلق سے نیچے اتارلوصحت یاب ہوجاؤگے لیکن وہ بضد ہے کہ مرنامنظور ہے لیکن دوانہیں پیے گا وہ دین آیا جوان کودنیابھرکاامام بنانا چاہتاہے اور وہ حجر وشجر کی بندگی پرقناعت کیے بیٹھےہیں۔ان کو کتاب مقدس دی گئ جس کی ہرسطر سے علم وعرفان کاآفتاب جہاں تاب ہورہاہے اور وہ جہالت کے اندھیروں سے چمٹے رہنے پربضد ہیں۔ان کی انھیں احسان ناشناسیوں کی سزاانہیں یہ دی گئ کہ ان کے دل کی آنکھ بےنور کردی گئ فہم وفراست کاجوہر ان سے چھین لیاگیا اور ہلاکت وبربادی کی جس پستی میں وہ گرناچاہتے تھے اس میں انھیں گرنے دیاگیا۔"[[23]]

اس آیت میں وضاحت کی جا رہی ہے کہ منافقین کی یہ روش ہوتی تھی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اسلام کی تعلیم دیتے تھے تو وہ ڈرتے تھے کہ کہیں ہمارے راز کا انکشاف نہ ہو جائے اس لئے وہ آپس میں اشاروں میں باتیں کرتے تھے کہ ان کے پاس سے کھسک جاتے ہیں تو اللہ فرماتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے ہمارے احکامات سے منہ موڑا ہے تو ہم بھی ان کے دلوں پر مہر لگا دیں گے یہاں بطور انذار کے سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ کس طرح ان پر آزمائش آتی ہے اور یہ اللہ کو پکارتے ہیں اور اور اس آزمائش یا تکلیف کو دور کرنے والے ہیں تو یہ پھر بھی نہیں سمجھتے عقل کو استعمال نہیں کرتے کیونکہ ان کی عقلوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور انکے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں اس لئے یہ لوگ ناسمجھ ہیں۔

(۳)- سورةيونس میں ارشادِ الٰہی ہے:

"وَمِنْھُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُوْنَ اِلَيْكَ اَفَاَنْتَ تُسْمِـــعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوْا لَا يَعْقِلُوْنَ"۔ [[24]]

"ان میں بہت سے لوگ ہیں جو تیری باتیں سنتے ہیں، مگر کیا تو بہروں کو سنائیگا خواہ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں؟"

اگلی آیت میں ارشاد فرمایا:

"وَمِنْھُمْ مَّنْ يَّنْظُرُ اِلَيْكَ اَفَاَنْتَ تَہْدِي الْعُمْيَ وَلَوْ كَانُوْا لَا يُبْصِرُوْنَ"۔ [[25]]

 "اِن میں بہت سے لوگ ہیں جو تجھے دیکھتے ہیں، مگر کیا تو اندھوں کو راہ بتائے گا خواہ انہیں کچھ نہ سُوجھتا ہو؟ "۔

ان آیات میں اللہ پاک کی نعمتیں کی یادہانی کروائی جا رہی ہے کہ اللہ نے لوگوں کو سننے کے لئے دو کان عطا فرمائے ہیں اور دیکھنے کے لئے دو آنکھیں عطا فرمائیں ہیں پھر بھی یہ سچ بات کو قبول کرنے کے بارے میں تردد کا شکار ہیں تو اے نبی! جسے اللہ پاک نہ دکھانا چاہے تو وہ کسی صورت بھی نہیں دیکھ سکتا کسی صورت بھی نہیں سن سکتا تو آپ بھی یہ اختیار نہیں رکھتے کہ ان کو ہدایت دے دیں تو کیونکہ ہدایت دینا تو صرف اللہ رب العزت کے اختیار میں ہے اور جو لوگ ہدایت کے لیے کوشش نہیں کرتے اللہ پاک ایسے لوگوں کو رسوا کر دیتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے ہمیشہ کا عذاب ہوگا یہاں م اللہ تبارک و تعالی بطور استہزا کے ان سے سوال فرما رہے ہیں کہ ہم نے تمہیں آنکھیں دی ہیں دیکھنے کے لیے اور سننے کے لیے کان بھی دیے ہیں مگر حق بات کو نہ تم دیکھ سکتے ہو اور نہ ہی سن سکتے ہو کیونکہ تمہارے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ ہدایت دینا یا نہ دینا صرف اللہ کے اختیار میں ہے اور کوئی بھی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتا۔

مندرجہ بالا آیات کی تفسیر میں پیر کرم شاہ یوں رقمطراز ہیں:

حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب قرآن کریم کی تلاوت فرماتے یاکچھ وعظ ونصیحت کرتے توکفار خوب کان لگاکرسنتے لیکن کیونکہ انھوں نے دل کے کانوں میں تعصب اور نفرت کی روئی ٹھونس رکھی تھی اس لیے وہ صدائے حق کوسننے سے قاصرتھے ان کی مثال ایسے شخص کی سی تھی جوکانوں سے بہرااور عقل سے کورا ہو۔نہ وہ کچھ سن سکتاہو اور نہ اشارات وقرائن سے مطلب پاسکتاہو۔اسی طرح کفار حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑی ٹکٹکی لگاکر دیکھاکرتے تھے لیکن نورحق انھیں دکھائ نہیں دیتاتھا کیونکہ ان کے دل کی آنکھیں اندھی اور بے نور تھیں اور نورحق کودیکھنا ان ظاہری آنکھوں کاکام نہیں بلکہ دیدہ دل سے ہی اس کے جلوےدیکھے جاسکتے ہیں۔[[26]]

(۴)- سورة النمل میں ارشادِ الٰہی ہے:

"اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَنْۢبَتْنَا بِہٖ حَدَاۗىِٕقَ ذَاتَ بَہْجَۃٍ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَـرَہَا ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ"۔[[27]]

"بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے وہ خوشنما باغ اگائے جن کے درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہ تھا؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بھی (اِن کاموں میں شریک) ہے؟ (نہیں)، بلکہ یہی لوگ راہِ راست سے ہٹ کر چلے جا رہے ہیں "۔

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"یہاں بت پرستوں اور مشرکوں سے پوچھاجارہاہے کہ جن خداؤں کی تم پرستش کرتے ہو آخر اس کی وجہ کیاہے کائنات کی ہرچھوٹی بڑی چیز کا خالق اللہ ہے ہرقسم کے انعامات کاسرچشمہ فقط اسی کی ذات وصفات ہے توپھرکسی اور کوخداکیوں بنایاجائے۔چنانچہ کائنات کی مختلف چیزوں کومشرکین کے سامنے یکے بعددیگرے پیش کیاجارہاہے اور ان سے پوچھاجارہاہے کہ کیاان کی تخلیق ان کی تحسین وتزئین اور ان کی نشوونمامیں کسی اور کابھی کوئی حصہ ہےتاکہ اسے خدابنایاجائے اور اسے پوجاجائے۔ پہلاسوال ان سے یہ کیاگیاکہ یہ آسمان وزمین کس نے پیدا فرمائے۔پھریہ بتاؤ آسمان سے پانی کون برساتاہے۔تمھارے دائیں بائیں یہ خوش منظرباغات جولہلہارہے ہیں کس نے اگائے ہیں تم میں تواتنی طاقت نہیں کہ تم ایک پودابھی لگاسکو۔اے بتوں کوپوجنے والو بتاؤ کیاآسمان وزمین کی تخلیق یاان باغات کی آفرنیش میں کوئی اور خدابھی شریک ہے اگر تم یہی مانتے ہوکہ ان سب کاخالق اللہ تعالی ہے توپھر اپنے طرزعمل پرنظرثانی کیوں نہیں کرتے۔یہ کافر بھی عجیب وغریب مخلوق ہیں اتنے واضح دلائل کے باوجود اللہ تعالی سے روگردانی کرتے ہیں یاان بتوں کواس کا شریک سمجھتے ہیں۔"[[28]]

اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ اللہ اپنی نعمتوں کا بیان فرما رہے ہیں ہیں کہ تم دیکھو کون ہے جو آسمان سے بارش کو برساتا ہے ہے پھر وہ بارش زمین پر پڑتی ہے تو زمین اس پانی کو جذب کر کے مختلف اقسام کے پھل اور نباتات نکالتی ہے اور تم لوگ ان سے فائدہ حاصل کرتے ہو اتنا کچھ دیکھنے کے بعد اور سمجھنے کے بعد تم ابھی بھی اپنے کفر کی ہٹ دھرمی پر قائم ہوں تو تعجب ہی کیا جا سکتا ہے تو یہاں پر اللہ پاک بطور تعجب سوال فرما رہے ہیں کہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود تم لوگ اگر ایمان لانے سے محروم ہو تو پھر ایسے لوگوں کے لئے اللہ پاک نے جہنم میں جانے کا سازوسامان کر رکھا ہے اور یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ اس آگ میں جلتے رہیں گے اور اس وقت ان کی فریاد رسی کرنے والا کوئی نہ ہوگا اور پھر افسوس کریں گے کہ کاش ہمیں دوبارہ زندگی مل جائے اور ہم نیک اعمال کرکے جنت کے وارث بن جائیں مگر اس وقت ایسا ہونا ناممکن ہوگا اور پچھتانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔

(۵)- سورہ النمل میں دوسرے مقام پرارشادِ الٰہی ہے:

"اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّجَعَلَ خِلٰلَہَآ اَنْہٰرًا وَّجَعَلَ لَہَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا ءَاِلٰہٌ مَّعَ اللہِ بَلْ اَكْثَرُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ"۔ [[29]]

"اور وہ کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس کے اندر دریا رواں کیے اور اس میں (پہاڑوں کی) میخیں گاڑ دیں اور پانی کے دو ذخیروں کے درمیان پردے حائل کر دیے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (اِن کاموں میں شریک) ہے؟ نہیں، بلکہ اِن میں سے اکثر لوگ نادان ہیں "۔

اس آیت کی تفسیر کے ماتحت پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"قرارکامعنی ہے مستقر ،قرار کے ایک لفظ میں جتنابھی آپ غور کریں گے اللہ تعالی کی قدرت اوراس کی شان ربوبیت کے ان گنت کرشمے آپ کویہاں سمٹے ہوئے نظر آئیں گے۔انسانی زندگی کی بقا اور نشوونما کے لیے زمین میں کن خصوصیات کاپایاجاناضروری ہے،کون کون سی ایسی چیزیں ہیں جواگرموجود نہ ہوں تو انسانی زندگی ان رعنائیوں سے یکسر خالی ہوجس سے اب اس کا دامن معمور ہے، کون کون سی ایسی چیزیں ہیں کہ اگر ان کا سراغ نہ لگایا جاسکے توایجادواختراع کی بے پناہ قوتیں جو اس کی فطرت میں مضمرہیں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بےکار پڑی رہیں۔ ان تمام وسائل اور اسباب کی بہم رسانی کے بعد ہی انسانی زندگی کوبقا اور نشوونما نصیب ہوسکتی ہے۔غرضیکہ قرار کے لفظ میں آپ جتناغور کرتے چلے جائیں گے معارف ومعانی کاایک لامتناہی سلسلہ آپ کے سامنے بےنقاب ہوتاچلاجائے گا۔"[[30]]

پھر مزید اسکی وضاحت فرمائی:

"کرہ زمین محیط ہوامیں معلق ہے۔اگر ہم اس کوپہاڑوں کے لنگروں سے ایک حالت پرقرار نہ بخشتے تویہاں آبادی کاامکان تک نہ ہوتا۔ہروقت اسی قسم کے خوفناک جھٹکے آتے رہتے جن کامشاہدہ تم گاہے بگاہے زلزلہ کی صورت میں کرتے ہو جن کی وجہ سے آن واحد میں تمھاری فلک بوس عمارتیں اورگنجان آبادیاں پیوندخاک ہوجاتی ہیں۔ دریاوں کے رخ بدل جاتے ہیں۔ زمین کے شکم سے آگ کے شعلے نکلنے لگتے ہیں۔ہم نے اپنی قدرت وحکمت سے پہاڑوں کے کیل گاڑ کر اس کاتوازن ایسابرقراررکھا ہے کہ وہ اپنی طبعی حرکت سے متحرک ہونے کے باوجود تمھارے لیے کسی اضطراب کاباعث نہیں بنتی۔پھر میٹھے اور کھارے پانی کوہم نے باہم ملنے سے روکاہواہے اور بسااوقات یہ رکاوٹیں اتنی لطیف اور غیرمحسوس ہوتی ہیں کہ تم ان کاانکشاف بھی نہیں کرسکتے لیکن اتنی لطافت کے باوجود وہ اتنی پختہ اور مضبوط ہوتی ہیں کہ کیامجال کہ دونوں پانی آپس میں خلط ملط ہوسکے۔اب بتاو یہ سب کچھ کس کی قدرت، حکمت اور علم کی جلوہ نمائی ہے کیاکوئ اور خدا ہے جس کوتم شریک کاربتاسکوجب نہیں اور یقینا نہیں توپھر تم کسی کو الہ اور معبود کیوں بناتے ہو۔کیا اس سے بڑی کوئ حماقت اور بھی ہوسکتی ہے۔" [[31]]

 اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ معلومات کو دہرانے اور یقینی بنانے کے لیے سوال فرما رہے ہیں کہ کیا تم زمین اور آسمان میں غور نہیں کرتے کہ کس طرح ہم نے زمین کو بچھا دیا تا کہ تم چل سکو اور اس پر بڑے پہاڑوں کو میخوں کی طرح طرح گھاڑ دیا تاکہ زمین نہ ہل سکے کہیں پر خشکی اور کہیں پر لامتناہی سمندر بنا دیے اور سمندر بھی تم دیکھتے ہو کہ کچھ میٹھے ہیں اور کچھ کھارے اور ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے اور وہ کبھی بھی آپس میں نہیں مل سکتے اتنا کچھ دیکھنے کے بعد پھر بھی تم کسی اور کو اللہ کے ساتھ معبود بناتے ہو اور اللہ کے ساتھ شرک کرنے سے باز نہیں آتے اس سے بڑی حماقت اور کیا ہوسکتی ہے؟یہ جہالت اور بیوقوفی ہے اس کا پچھتاوا کل قیامت کے دن جہنم کی صورت میں تمہیں کرنا ہوگا۔

(۶)- سورة السجده میں اللہ پاک فرماتے ہیں:

" اَمۡ يَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰٮهُ‌ۚ بَلۡ هُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّكَ لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اَتٰٮهُمۡ مِّنۡ نَّذِيۡرٍ مِّنۡ قَبۡلِكَ لَعَلَّهُمۡ يَهۡتَدُوۡنَ‏"۔[[32]]

"کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اِسے خود گھڑ لیا ہے؟ نہیں، بلکہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے تاکہ تو متنبہ کرے ایک ایسی قوم کو جس کے پاس تجھ سے پہلے کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا، شاید کہ وہ ہدایت پا جائیں "۔ ْ

مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں پیر کرم شاہ یوں رقمطراز ہیں:

"کفار کے دلوں میں اسلام اور پیغمبر اسلام سے شدید عداوت تھی اس نے انہیں غوروفکرکرنے سے محروم کردیاتھا۔اس اسلام دشمنی کے باعث وہ سورج سے زیادہ روشن اور واضح صداقتوں کاانکار کرنے میں کوئ جھجک محسوس نہ کرتے تھے۔اگرچہ قرآن کریم کی وضاحت وبلاغت نے ان پرسکتہ طاری کردیاتھا اس کی تعلیمات اور قوی دلیلوں کے باعث وہ حیرت زدہ ہوکررہ گئے تھے لیکن پھر بھی وہ یہ رٹ لگائے رہتے تھے کہ یہ اللہ تعالی کاکلام نہیں ہے۔ انہوں نے خود اسے گھڑا اور خوامخواہ اللہ کی طرف منسوب کردیا ان کے اس اعتراض کی لغویت سب جہان پراور خود ان پرآشکار تھی۔اس لیے ان کے اس اعتراض کی تردیدکےلیےصرف اتنا کہہ دیناہی کافی تھا بل ھوالحق من ربک اس کے ابطال کےلیے دلائل کے انبار لگانا وقت ضائع کرناہے۔"[[33]]

"یہاں قرآن کریم کے نازل کرنے کی غرض وغایت بیان کردی کہ وہ لوگ جوعرصہ دراز سے دشت ضلالت میں بھٹک رہے تھے اپنے نفس کی رذیل خواہشات کی تکمیل کے بغیر ان کے سامنے زندگی کاکوئ مقصد نہیں تھا جواپنے انجام سے بے خبر فسق وفجور کاارتکاب کررہے تھے، جنہیں عرصہ دراز سے کسی نے آکر ٹوکانہیں تھا۔اے محبوب ہم نے یہ کتاب منیر اس لیے نازل فرمائی ہے کہ آپ انہیں خواب غفلت سے بیدارکردیں اور کفروشرک کے بھیانک انجام سے بروقت متنبہ کردیں تاکہ وہ راہ ہدایت اختیارکرلیں۔"[[34]]

اس آیت میں اللہ تبارک و تعالی باطل کے رد کے لیے سوال فرما رہے ہیں کہ یہ مشرکین قرآن پاک جیسے بڑے معجزے کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اس کے واقعات کو بھی ابھی اپنے سامنے سچ ہوتا دیکھتے ہیں پھر بھی گمراہی اور جہالت کے باعث مزید معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں تو اللہ تعالی فرما تے ہیں کہ اگر وہ اور معجزات بھی دیکھ لیں تو پھر بھی وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں کیونکہ قرآن مجید جواتنا بڑا معجزہ ہے کہ اس میں چیلنج کیا گیا ہے کہ اس جیسی کوئی آیت ہی بنا لاؤ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی کوئی انسان ایک آیت بھی نہیں بنا کر لا سکا قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ اللہ تبارک و تعالی نے خود لیا ہے اور قیامت تک اس میں کوئی ردوبدل نہیں ہوگی یہ ایسے معجزے کو دیکھنے کے بعد بھی ایمان نہیں لاتے تو کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں اور دنیا میں بھی میں اور قیامت میں بھی ان کے لئے رسواکن عذاب ہوگا۔

 (۷)- سورة السجده میں اللہ پاک فرماتے ہیں:

"اَللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَا فِيْ سِـتَّۃِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰي عَلَي الْعَرْشِ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا شَفِيْعٍ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ"۔[[35]]

"وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور اُن ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا، اُس کے سوا نہ تمہارا کوئی حامی و مدد گار ہے اور نہ کوئی اُس کے آگے سفارش کرنے والا، پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟ "۔

مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں پیر کرم شاہ یوں رقمطراز ہیں:

"یہاں سے اللہ تعالی کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے شواہد ذکر کرکےاس کی وحدانیت پراستدلال کیاجارہاہے۔اس آیت میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین اور جوکچھ ان میں ہے ان کاپیداکرنے والا اللہ ہے اور اس نے اس سارے کارخانہ ہستی کو چھ دنوں میں پیدافرمایا، پیدافرمانے کے بعد وہ اس سے بےتعلق ہوکر کہیں گوشہ نشین نہیں ہوگیا بلکہ تخت فرمانروائ پروہ متمکن ہے اور کائنات کی ہربات اس کے حکم سے کے مطابق طے پارہی ہے۔"

"مالکم فرماکرانہیں متنبہ کردیا کہ اگر تم ایسے خالق اکبرسے اپنی عبودیت کارشتہ منقطع کردوگے اور کسی دوسری چیز کے ساتھ اپنی بندگی کارشتہ استوار کروگے تویادرکھو اس وقت تمھاراکوئ مددگار ہوگااور نہ ہی کسی میں ہمت ہوگی کہ وہ تمھاری سفارش کرسکے۔ تم اللہ تعالی کوچھوڑ کردوسروں کو اپناحامی وناصر خیال کرتے ہو۔ سمجھتے ہو کہ اگر خدا نے بغرض محال پکڑ بھی لیاتو یہ معبود اور دیوتا تمھیں چھڑالیں گے یاتمہاری سفارش کریں گے۔ اس خیال فاسد کودل سے نکال دو کسی میں یہ جرات نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اجازت کے بغیر تمہیں بچالے۔شفاعت کے متعلق مشرکین کاجوغلط تصور تھا اس کورد کردیا۔اسلام نے جس شفاعت کوجائز قراردیا ہے وہ شفارت انبیاء، اولیاء، صلحا، شہداء باذن الہی کریں گے اور معصوم بچے بھی اپنے ماں باپ کی بخشش کاباعث بنیں گے۔" [[36]]

اس آیت مبارکہ میں میں اللہ تبارک و تعالیٰ دنیا کی تخلیق کو بیان فرما رہے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے چھے دنوں میں آسمانوں و زمین اور جو کچھ انکے درمیان ہے سب چیزوں کو پیدا فرمایا اور پھر وہ عرش پر مستوی ہوگیا اس نے آسمانوں اور زمین کو بنا بلا وجہ نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس کا نظام اس کے حکم کے مطابق ہی چل رہا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سب کچھ بنانے والا میں ہوں اور پھر تم میرے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو تو کیا تمہارے سفارشی تمہیں قیامت کے دن میرے عذاب سے بچا سکیں گے اللہ تبارک و تعالی مخالف کو چیلنج کرنے کے لیے سوال فرما رہے ہیں کہ جس کو تم ہمارے شریک بناتے ہو قیامت کے دن وہ ہمارے مقابلے میں سفارش کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے اور جن کو تم اللہ کے سوا معبود بناتے ہو قیامت کے دن وہ تمہارے کچھ کام نہ آ سکیں گے اور بلکہ وہ تم سے بیزاری کا اظہار کریں گے اور تمہیں پہچاننے سے بھی انکار کر دیں گے مگر جس شخص نے ہدایت کے راستے کو اختیار کیا وہی انسان فلاح پائے گا۔

(۷)- سورة القمر میں ارشادِ الٰہی ہے:

"وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ"۔[[37]]

"ہم نے اِس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے، اب ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟"

اس آیت مبارکہ میں میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں کہ اے لوگو ہم نے اس قرآن کو تمہارے لیے نصیحت کا سامان بنایا اور ہم نے اپنی نشانیوں کو واضح کردیا یعنی قرآن میں سابقہ اقوام کے واقعات اور حالات کو بیان فرمایا گیا کہ جن اقوام نے اللہ تبارک و تعالی کی نافرمانی کی ان کی سرکشی اور نافرمانی کے باعث جو ان پر عذاب نازل کئے گئے وہ بیان فرما دیے گئے تاکہ کہ بعد میں آنے والے لوگ ان واقعات سے عبرت حاصل کریں اور جن لوگوں نے ہدایت کے راستوں کو اپنایا ان کے لیے اللہ تبارک وتعالی نے اجر عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے اگر کوئی انسان دنیا اور آخرت میں کامیابی چاہتا ہے تو اس کے احکامات پر عمل کر کے کامیاب ہو سکتا ہے قرآن کو اسی لئے نصیحت کہا گیا ہے کیونکہ اس میں تمام مسائل کا حل موجود ہے اگر انسان اس کی تعلیمات کو سمجھتا ہے اور ان کے مطابق زندگی گزارتا ہے تو اس کو کبھی بھی دنیا اور آخرت میں شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور کامیابی اس کا مقدر ہو گی قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ جو انسان بھی اس کتاب کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارتا ہے تو اللہ پاک ایسے لوگوں کو بلندی عطا فرمائیں گے کیونکہ قرآن کا راستہ ہدایت کا راستہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالی اس آیت میں بطور ترغیب کے سوال فرما رہے ہیں کہ ہم نے اس کو آسان کرکے نازل فرمایا تاکہ تم لوگ اس کو سمجھو اور اس سے نصیحت حاصل کرو قرآن چونکہ عرب کی طرف نازل ہوا تھا اور اس کے مخاطب اول بھی عرب تھے اس لیے ان کی زبان کو استعمال کیا گیا کیا تاکہ کوئی حجت باقی نہ رہے وہ لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ قرآن دوسری زبان میں نازل ہونے کے باعث ہم اس کو نہیں سمجھ سکتے اس لئے اللہ پاک نے ان پر کے حجت پوری فرما دی۔ آج کے دور میں بھی ہر زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ اور تفصیل بآسانی دستیاب ہے تاکہ کوئی بھی انسان قرآن کو سمجھنا چاہے تو اس کو دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے اس لئے کہا گیا ہے کہ قرآن میں نصیحت کا سامان ہے تو جو کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہے وہ نصیحت حاصل کر سکتا ہے کیونکہ اس پر عمل کرنا دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضامن ہے۔

(۸)- سورة الواقعة میں فرمان باری تعالیٰ ہے:

"وَكَانُوْا يَقُوْلُوْنَ۝۰ۥۙ اَىِٕذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ"۔[[38]]

کہتے تھے "کیا جب ہم مر کر خاک ہو جائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر رہ جائیں گے تو پھر اٹھا کھڑے کیے جائیں گے؟۔

ان آیات کی تفسیر کے ماتحت پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"توحید باری اور وقوع قیامت پر ایک دوسری دلیل پیش کی جارہی ہے۔ کھیتی باڑی کے متعلق تمھیں تفصیلی علم ہے تمہاراکام صرف اتناہے کہ زمین میں ہل چلاو اور اس میں بیج ڈالو اس کے بعد اس کے پک کرتیار ہونے تک جوحیران کن تغیرات وقوع پذیرہوتے ہیں کیااس میں تمہاراکوئ عمل دخل ہے۔ پھر ان کے لیے جتنی حرارت، ٹھنڈک، روشنی، ہوا، رطوبت وغیرہ عوامل کی ضرورت ہوتی ہے ان کومناسب مقدار میں اور بروقت کون مہیاکرتاہے۔ کیایہ تمہارے بتوں، دیوی دیوتاوں میں قدرت ہے۔ اگر نہیں اور یقینا نہیں توپھر تم اللہ تعالی کی وحدانیت کاانکار کیوں کرتے ہو، نیز جوذات اس دانے کوجوزمین میں گل جاتاہے اس کو پھرایک تن آورپودا بنادیتی ہے کیا اس کے لیے مشکل ہے کہ وہ انسان کوخاک میں ملنے کے بعد نئ زندگی عطافرمادے۔"[[39]]

"اگر ہم چاہیں تولہلہاتے کھیتوں کوتہس نہس کرکے رکھ دیں نہ وہ انسانوں کی خوراک بن سکیں اور نہ حیوانات کےلیے چارہ کاکام دے سکیں۔تم نے ذراعت کونفع بخش بنانے کیلئے کافی روپیہ خرچ کیاتھا۔ اعلی بیج مہنگے داموں خریداتھاکھاد فراہم کی تھی۔آب پاشی کےلیے بڑے مصارف برداشت کیے تھے۔توقع یہ تھی کہ بڑی آمدنی ہوگی لیکن خرچہ بھی پلے نہ پڑا۔اس وقت تم حسرت ویاس سے کف ملنے لگوگےاور کہوگے ہائت افسوس ہماری لاگت بھی ضائع ہو گئ۔ افسوس ہم بڑے بدنصیب ثابت ہوئے۔"[[40]]

 اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ مخاطب کی ذہنی استعداد کو جانچنے کے لیے سوال فرما رہے ہیں کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کو دوبارہ پیدا کرنے پر قدرت نہیں رکھتے تو کیا پہلی دفعہ وہ خود پیدا ہوئے ہیں اگر وہ غور کریں کہ جو رب پہلی دفعہ پیدا کرنے پر قادر ہے وہ دوبارہ کیونکر پیدا نہیں کر سکتا یعنی ان کا یہ سوال ان کے ذہن کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ لوگ کتنی محدود سوچ کے مالک ہیں جب انسان کے ختم ہونےاور اس کی ہڈیاں ریزہ ریزہ ہوجانے کے بعد انسان کی دوبارہ تخلیق پر شک کی گنجائش ہی نہیں ہے اللہ پاک قادر و مطق ہے کہ وہ کن سے کسی بھی انسان یا چیز کو تخلیق کر سکتا ہے لیکن اس بات کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں ہیں جو لوگ عقل و شعور رکھتے ہیں جو لوگ اللہ عزوجل کی نشانیوں میں غور و فکر کرتے ہیں تو ان کے لئے انسان کی تخلیق، اس کی زندگی اور موت یہ اتنا بڑا معجزہ ہے کہ اگر ہم اس پر پر تفکر کریں تو کسی بھی صورت انکارکی گنجائش نہیں اور نہ ہی اللہ پاک کے معجزات سے انکار کرنا ممکن ہے۔جو لوگ سیدھے راستے پر چلے اور حق بات کا اقرار کیا ان لوگوں کے لئے دنیا اور آخرت میں نجات ہے۔

(۸)- سورة الواقعة میں اللہ پاک فرماتے ہیں:

"اَفَرَءَيْتُمُ الْمَاۗءَ الَّذِيْ تَشْرَبُوْنَ"۔ [[41]]

"کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا، یہ پانی جو تم پیتے ہو "۔

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"انسان صرف بھوک ہی محسوس نہیں کرتا اسے پیاس بھی لگتی ہے۔اللہ تعالی فرماتے ہیں جس طرح ہم نے تمہاری خوراک کاانتظام فرمایاہے اسی طرح تمہاری پیاس بھجانے کےلیے پانی کی فراہمی بھی ہم نے اپنے ذمہ کرم پرلی ہوئی ہے۔ذراغور کرو جوپانی تم کنوؤں، چشموں، دریاوں سے پیتے ہو یہ کہاں سے آتاہے۔یہی ناکہ بادل گھرکرآتے ہیں، بارش برستی ہے، کچھ دریاؤں میں بہنے لگتاہے، کچھ مقدار تالابوں میں بھرجاتی ہےاور اس کا اکثرحصہ زمین میں جذب ہوجاتاہےاور تہہ زمین پانی کے ذخائر جمع ہوجاتے ہیں جن کومختلف طریقوں سےتم کشیدکرتے ہو۔الغرض ہرقسم کے پانی کااصلی سرچشمہ بارش ہے۔بھلابتاؤ اس میں کسی غیر کی کتنی مداخلت ہے۔لبالب بھرے ہوئے سمندر کس کے ہیں سورج کی جوکرنیں ان پانیوں کوبخارات میں تبدیل کردیتی ہیں وہ کون مہیاکرتاہے۔پھر کس کے حکم سے بادل ایک مقررہ مقدار میں بارش برساتے ہیں۔یہ ساری کاروائی اللہ تعالی کے حکم سے ہورہی ہے توپھر اس کاانکار یاکسی کو اس کی خدائی میں شریک کرناکہاں کی عقل مندی ہے۔" [[42]]

 اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ بطور ذہنی استعداد جانچنے کے سوال فرما رہے ہیں کہ اے لوگو! جو پانی تم پیتے ہو اور استعمال کرتے ہو جس کے بغیر زندگی کا وجود ممکن نہیں ہےتو کیا یہ پانی تم نے بنایا ہے؟ یا ہم اس پانی کو برساتے ہیں اور وہ پانی تمام حیوانات کے لئے حد درجہ ضروری ہے اگر ہم اس پانی کو تم سے روک لیں تو دنیا میں تمہارے لئے جینا مشکل ہو جائے تو تم اتنی بڑی نشانی دیکھ کر بھی ایمان لانے میں تردد کا شکار ہو جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا اپنے اردگرد ان گنت نشانیاں دیکھ کر فورا ایمان لے آتے مگر تم اپنی ہٹ دھرمی کی روش پر برقرار ہے اور تمہاری ضد ایمان لانے کے راستے میں مانع رہی تو ایسے لوگوں کے لئے رسواکن عذاب کی بشارت ہے۔

(۹)- سورة نوح میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلہِ وَقَارًا"۔[[43]]

"تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کے لیے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے؟ "۔

اس آیت کی تفسیر میں پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"جب اس بات کابھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا توآپ انہیں سرزنش فرمانے لگے کہ ہائے افسوس کی بات ہے اگر کوئ مالدار آدمی تمہارے پاس آتاہے توتم اٹھ کر اسے سلام کرتے ہو، اگر کسی علاقے کاکوئ سردار آجائے تواس کااحترام کرتے ہو۔اللہ تعالی کی ہی ایک ذات ایسی ہے جس کاتمہیں کوئ لحاظ نہیں، جس کی تمہیں کوئ پرواہ نہیں، جس کی گرفت کاتمہیں کوئ خوف نہیں۔مجاہد اور ضحاک نے آیت کامفہوم بتایاہے کہ تمہیں کیاہوگیاہے کہ اللہ تعالی کی بزرگی کی تم کوئ پرواہ نہیں کرتے۔قطرب کہتے ہیں کہ حجازی لغت میں اس کایہی معنی ہے۔"[[44]]

 

پھر فرمایا:

"اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا"۔ [[45]]

"کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بہ تہ بنائے"۔

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"انسانی زندگی کے مختلف مراحل میں اس کی قدرت، حکمت اور رحمت کے جوآثار جلوہ نماہوتے ہیں ان کے ذکر کے بعد بلندیوں کی طرف متوجہ کیا۔فرمایا تہہ بہ تہہ سات آسمانوں کو دیکھو، نور برسانے والے چاند کودیکھو اور اعظم آفتاب عالمتاب کودیکھو۔کیااللہ تعالی پرایمان لانے کےلیے اس کے بعد بھی تمہیں دلیل کی ضرورت ہے۔"[[46]]

 پہلی آیت مبارکہ میں یہ بیان کیا جارہا ہے کہ کہ اگر تمہارے پاس کوئی مالدار شخص آ جائے تو تم اس کی عزت میں کھڑے ہو جاتے ہو اس کی تعظیم میں سر توڑ کوشش کرتے ہو ہ اور اللہ کی ذات جو کہ سب سے بڑھ کر ہے جو کہ تمام بادشاہوں کا شہنشاہ ہے اس کا شریک ٹھہراتے ہو تو یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ اور اس آیت میں بطور تعجب کے استفہام کیا گیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے سات آسمانوں کو تہہ بہ تہہ پیدا کیا ہےاور اس میں کسی بھی قسم کا کوئی شگاف نہیں ہے بغیر ستونوں کے تخلیق کیا ہے تو کیا تم ان آیات پر غور و فکر نہیں کرتے؟ آفاق میں بکھری ہوئی نشانیوں پر غور کرو تو بے اختیار دل پکار اٹھتا ہے کہ صرف ایک ہی ہستی ہے جو اتنے بڑے نظام کو ایک منظم انداز میں چلا رہی ہے۔

 خلاصہ بحث

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام کو پہنچانے کے لئے انبیاء کرام کا سلسلہ جاری فرمایا اور اپنے تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے مقدس صحائف کا نزول فرمایا تاکہ اتمام حجت ہو جائے اور روز آخرت انسان اپنے رب سے یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے سیدھے راستہ کا نہیں معلوم تھا اور کسی نہ میری راہنمائی نہیں کی۔مسلمان ہونے کے لئے صرف زبان سے اقرار کرنا کافی نہیں ہے بلکہ زبان کے ساتھ دل سے تصدیق کرنا بھی ایمان کا لازمی حصہ ہے اس لئے جو شخص بھی دل سے یقین اور زبان سے تصدیق کرنے کے بعد پیغمبروں کے بتائے ہوئے دین کے مطابق عمل کرے گا اللہ کو ہی معبود برحق سمجھتے ہوئے تمام عبادات کو اس کے لئے بجالائے گا اور تمام معاملات میں دین اسلام کے احکامات کے مطابق فیصلہ کرے گا وہی انسان فلاح و نجات پا جائے گا۔

اس فصل میں تفسیر ضیاء القرآن کی روشنی میں ایمانیات کے فہم میں آیات استفہام کو بیان کیا گیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں۔

 سورہ النسآء آیت نمبر۱۱۴,۱۳۸، سورہ التوبة آیت نمبر ۱۲۶,۱۲۷، سورہ یونس آیت نمبر ۴۲,۴۳، سورہ النمل آیت نمبر ۶۰,۶۱، سورہ السجدہ آیت نمبر ۳,۴، سورہ القمر آیت نمبر ۳۲، سورہ الواقعہ آیت نمبر ۴۶,۶۸، سورہ نوح آیت نمبر ۱۳,۱۵۔

 



[[1]]         ماہنامہ ضیائے حرم ،ضیاء الامت نمبر ،لاہور ،حامدجمیل پرنٹرز ،۱۹۹۹ء ،ص۲۲۔۲۳

[[2]]          ایضاً ص۲۳

[[3]]         ماہنامہ ضیائے حرم ،ضیاء الامت نمبر ،لاہور ،حامدجمیل پرنٹرز ،۱۹۹۹ء ،ص۲۲۔

[[4]]          ایضا ً ص۲۵

[[5]]         حافظ خان محمد قادری ، کرم ہی کرم،لاہور ،اوریلیا پرنٹنگ پریس ،۱۹۹۹ء ،ص۲۴

[[6]]         ضیاء الامت نمبر ،ص۳۰

[[7]]         ایضا ً ص۳۲

[[8]]         ایضا ً ص۳۴

[[9]]         ایضا ً ص۳۴۹

[[10]]       عمران حسین چودھری،اجالوں کانقیب،پیرکرم شاہ الازھری ،لاہور،ضیاءالقرآن پبلیکیشنز ، ۱۹۹۸ء ،ص۲۰۔

[[11]]       دارالعلوم محمدیہ غوثیہ،نمبرجون ۱۹۹۶ء،ص۱۸۱ ۔۲۴۱

[[12]]       ضیاء الامت نمبر ،ص۵۵۱

[[13]]       ایضا ً ص ۴۰۹

[[14]]       الازھری پیر محمدکرم شاہ،محسن کائنات ،سرگودھا ، مکتبہ المجاہد ،ص۱۶۔

[[15]]       البقرہ، ۲: ۱۶۳۔

[[16]]       سید فضل الرحمن، احسن البیان فی تفسیر القرآن، زوار اکیڈمی پبلیکیشنز کراچی، اکتوبر ۱۹۹۲ء، ۲۰/۱.

[[17]]       محمد بن جمیل، ارکان اسلام و ایمان، مکتبہ بیت السلام ہند، ستمبر ۲۰۱۳ء، ص۲۲۔

[[18]]    القرآن ، ۴: ۱۲۲۔

[[19]]    کرم شاہ، پیر محمد، ضیاء القرآن، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۵ء۱/ ۳۹۶۔

[[20]]    القرآن ، ۴: ۱۲۵۔

[[21]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن، ۱/ ۳۹۷۔ ۳۹۸۔

[[22]]    القرآن ، ۹: ۱۲۷۔ ۱۲۶۔

[[23]]    کرم شاہ، ضیاء القران۲/ ۲۶۸۔

[[24]]    القرآن ، ۱۰: ۴۲۔

[[25]]    القرآن ، ۱۰: ۴۳۔

[[26]]    کرم شاہ، ضیاء القران۲/ ۳۰۲۔

[[27]]    القرآن ،۲۷: ۶۰۔

[[28]]    کرم شاہ، ضیاء القران۳/ ۴۵۲۔

[[29]]    القرآن ، ۲۷: ۶۰۔

[[30]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۳/ ۴۵۵۔

[[31]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۳/ ۴۵۳۔

[[32]]    القرآن ، ۳۲: ۳۔

[[33]]    کرم شاہ، ضیاء القران۳/، ۳۲۶۔ ۳۲۷۔

[[34]]       کرم شاہ، ضیاء القران۳/، ۳۲۶۔ ۳۲۷۔

[[35]]    القرآن ، ۳۲: ۴۔

[[36]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۳/ ۶۲۶۔ ۶۲۷۔

[[37]]    القرآن ، ۵۴: ۳۲۔

[[38]]    القرآن ، ۵۶: ۴۷۔

[[39]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۵/ ۹۶۔

[[40]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۵/ ۹۷۔

[[41]]    القرآن ، ۵۶: ۶۸۔

[[42]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۵/ ۹۷۔

[[43]]    القرآن ، ۷۱: ۱۳۔

[[44]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۵/ ۳۷۶۔

[[45]]    القرآن ، ۷۱: ۱۵۔

[[46]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۵/ ۳۷۷۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...