Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

فصل سوم: آیاتِ استفہام میں فہم عبادات
ARI Id

1695203136242_56118328

Access

Open/Free Access

Pages

331

ایمان لانے کے بعد انسان پر سب سے پہلے عبادت کا ادا کرنا لازم ہے ہر مذہب میں عبادت کا ایک خاص طریقہ ہوتا ہے جو مخصوص طریقے کے ساتھ ادائیگی کا حکم دیا جاتا ہے اسی طرح اسلام میں بھی نماز، روزہ، حج اور زكوة عبادات کی مختلف طرق ہیں اصل عبادت کی غایت یہ ہے کہ معبود صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کو ماننا ، صرف اسی کی عبادت کرنا ہر چیز میں اسی سے مدد طلب کرنا اسی کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا اسی کو مالک، خالق اور رب تسلیم کرنا اسی سے التجاء کرنا، ہر چیز کے لئے اسی کو پکارنا اور یہ یقین رکھنا کہ اللہ کے سوا کسی کے دائرہ اختیار میں کوئی چیز نہیں ہے اگر وہ نفع پہنچانا چاہے تو اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے اور اگر ضرر پہنچائے تو اس کو کوئی ہٹانے والا نہیں ہے ہر طرح کی عبادت مثلاً قیام، رکوع، سجدہ صرف اسی کے لئے خاص ہے اور کسی اور کے سامنے جھکنا جائز نہیں۔

 انسانوں سے اللہ تعالیٰ نے انکی تخلیق سے پہلے ایک وعدہ لیا تھا جس کا ذکر قرآن مجید میں یوں مذکور ہے:

"اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ، قَالُوْا بَلٰي، شَہِدْنَا"۔[[1]]

" کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اس وقت سب نے یہ کہا کیوں نہیں اے ہمارے رب!"۔

 سب نے اس وقت اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا تھا گویا کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار و اعتراف انسانوں کی فطرت میں داخل اور انکے وجدان میں شامل ہے۔

اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا مطلب اور اس کا تقاضا کیا ہے ؟اسکے جواب کے بارے میں بشیر احمد لودھی یوں رقمطراز ہیں:

 " انسان ازخود پیدا نہیں ہو گیا بلکہ اسے خالق کائنات نے پیدا کیا ہےاور اس نے اسے محض کھیل تماشے کے لیے نہیں پیدا کیا بلکہ ایک مقصد کے تحت پیدا کیا ہے اور وہ مقصد ہے اللہ کی عبادت و اطاعت اور اب اس ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان صرف اسی کی عبادت اور اسی کی اطاعت کرے عبادت اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں اور اطاعت کا حقدار بھی اللہ ہے"۔[[2]]

اس فصل میں تفسیر ضیاء القرآن کی روشنی میں فہم عبادات میں آیاتِ استفہام کو پیش کیا جا رہا ہے۔

(۱)- سورة البقرة میں اللہ عزوجل فرماتے ہیں:

"وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللہِ اَنْ يُّذْكَرَ فِيْہَا اسْمُہٗ وَسَعٰى فِيْ خَرَابِہَا اُولٰۗىِٕكَ مَا كَانَ لَھُمْ اَنْ يَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَاۗىِٕفِيْنَ۝۰ۥۭ لَھُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّلَھُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۔[[3]]

"اوراس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کے معبدوں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور ان کی ویرانی کے درپے ہو؟ ایسے لوگ اس قابل ہیں کہ ان کی عبادت گاہوں میں قدم نہ رکھیں اور اگر وہاں جائیں بھی، تو ڈرتے ہوئے جائیں ان کے لیے تو دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب عظیم"۔

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"صرف زبانی دعووں کورہنے دو۔اپنے عمل کے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھو حقیقت نمایاں ہوجائے گی۔روم کے عیسائیوں نے اپنے بادشاہ طیطس کے ساتھ یہودیوں سے انتقام لینے کے لیے فلسطین پرلشکرکشی کی اور بیت المقدس کوویران وبرباد کردیا اور اس کی پرشکوہ عمارت کو کھنڈر میں تبدیل کردیا۔بھلا جس کا عمل یہ ہوکیا اسے حق پہنچتاہے کہ وہ اپنے آپ کو حق کاعلم بردار کہے۔کفار مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کومسجد حرام میں عبادت کرنے سے مدتوں روکے رکھا کیا ان مشرکین کوزیب دیتاہے کہ ہدایت پرہونے کادعوی کریں۔مقصد یہ ہوا کہ وہ دعوی جس کے ثبوت کے لیے عمل صالح کی گواہی نہ ہو وہ توجہ کے قابل نہیں۔یہ حکم عام ہے جوایسا کرے وہ سب ظالم ہے۔ کسی زمانہ یاکسی قوم کے ساتھ اس کی تخصیص کی ضرورت نہیں۔دنیامیں ان کی ذلت ورسوائ توچندسالوں میں ظاہرہوگئ۔کفار مکہ کااقتدار ختم ہوگیا۔یہودجلاوطن کردیئے گئے اورعیسائ مملکتوں پراسلام کاپرچم لہرانے لگا اور آخرت کاعذاب بھی وہ عنقریب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔"[[4]]

 اس آیت میں اللہ پاک باطل کا رد کرنے کے لئے سوال فرما رہے ہیں کہ جو لوگ اللہ کے گھر سے روکتے ہیں تو وہ حق پر کیسے ہو سکتے ہیں ؟ یعنی اس آیت میں بیان کیا جا رہا ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو کسی دوسرے کو اس کی عبادت گاہ میں جانےسے روکے۔ ہر مذہب میں عبادت کا حکم ملتا ہے تو عبادت سے روکنے والے اچھے لوگ کیسے ہو سکتے ہیں ۔ اسی طرح کفار مکہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو خانہ کعبہ میں جانے سے روکے رکھا قرآن میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ جو انسان کسی کو عبادت گاہ جانے سے روکے گا تو وہ شخص ظالم ہے یعنی کسی کو اس کی عبادت سے روکنے کو کو ظلم سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ وہ شخص اچھا ہو ہی نہیں سکتا جو کسی کو عبادت گاہ میں جانے سے منع کرتا ہےایسے لوگ ظالم ہیں۔

(۲)- سورة البقرةمیں دوسرے مقامات پر ارشادِ الٰہی ہے:

"صِبْغَۃَ اللہِ۝۰ۚ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ صِبْغَۃً وَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ"۔ [[5]]

"اللہ کا رنگ اختیار کرو اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہوگا؟ اور ہم اُسی کی بندگی کرنے والے لوگ ہیں"۔

مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں پیر کرم شاہ یوں رقمطراز ہیں:

"یہود کی رسم تھی جب کوئ ان کے دین میں داخل ہوتا تو اسے رنگ دار پانی سے غسل دیتے۔ پھر عیسائیوں نے بھی اسے اختیار کرلیا اور جب کوئ بچہ پیداہوتا تو زردرنگ کے پانی سے اسے غسل دیتے جسے اصطباغ یا بپتسمہ کہاجاتاہے اور پھر یہ سمجھتے کہ اب اس پریہودیت اور عیسائیت کارنگ چڑھ گیاہے۔قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا کہ رنگ چڑھانا ہے تو اللہ کارنگ چڑھاو جونہ پانی سے دھلے نہ دھوپ سے اڑے اور نہ وقت گزرنے پرپھیکا پڑے۔بھلایہ ناپائیدار رنگ بھی کوئ رنگ ہے جس پرتم اترارہےہو اور اللہ کارنگ یہی توحید خالص کارنگ ہے جس کوچڑھانے والا سید انس وجاں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔"[[6]]

 اس آیت میں اللہ تبارک و تعالی دین اسلام کی بات کر رہے ہیں کہ دین اسلام سے بڑھ کر کون سا دین ہو سکتا ہے؟ یہاں رنگ سے مراد دین ہے۔کیونکہ یہودی کہتے تھے کہ ہم صحیح دین پر ہیں اور نصرانی غلط ہیں جبکہ نصاریٰ کہتے تھے کہ ہم سچے دین پر ہیں مگر قرآن کی تعلیمات میں یہ بات واضح ملتی ہے کہ دین اسلام ہی سچا دین ہے اور یہی وہ دین ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تھا اور تمام انبیاء کرام کا یہی دین رہا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی دین کی تبلیغ فرمائی ہے ہے اللہ تبارک نے حوصلہ افزائی کے لئے استفہام فرمایا ہے کہ دین اسلام ہی سچا دین ہے تا کہ مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ہو جائے اور یہ ایک عالمگیر اور مکمل دین ہے اس لئے جو لوگ مسلمان ہیں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارتے ہیں ان کے لیے فلاح و نجات ہے۔

(۳)- سورة المآئدہ میں اللہ کریم ارشاد فرماتے ہیں:

"قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَاللہُ ھُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ"۔[[7]]

"اِن سے کہو، کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُس کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہارے لیے نقصان کا اختیار رکھتا ہے نہ نفع کا؟ حالانکہ سب کی سننے والا اور سب کچھ جاننے والا تو اللہ ہی ہے "۔

مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں پیر کرم شاہ یوں رقمطراز ہیں:

"حضرت صدرالافاضل مراد آبادی رقمطراز ہیں کہ یہ ابطال شرک کی ایک اور دلیل ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ الہ وہی ہوسکتاہے جو نفع و نقصان وغیرہ ہر چیز پر قدرت و اختیار رکھتا ہوں۔ جو ایسا نہ ہو وہ الہ مستحق عبادت نہیں ہو سکتا اور حضرت عیسی علیہ السلام نفع و ضرر کے بھی بالذات مالک نہ تھے اللہ تعالی کے مالک کرنے سے مالک ہوئے تو ان کی نسبت الوہیت کا اعتقاد باطل ہے۔"[[8]]

 اس آیت میں یہ بات بیان کی جا رہی ہے کہ اے لوگو! تم کیسے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے معبودان باطل کی پرستش کرتے ہو ان کو پکارتے ہو جب کہ وہ تمہارے لیے کسی بھی قسم کے نفع و نقصان کا کوئی اختیار نہیں کرتے۔ اگر اللہ تعالی کسی کو نفع پہنچانا چاہے تو کوئی بھی اسے روکنے والا نہیں ہے اور اسی طرح اگر اللہ پاک نے کسی کے مقدر میں نقصان لکھ دیا ہے تو کوئی بھی نقصان کو اس سے ہٹانے والا نہیں ہے نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالی ہے اس لیے صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرنی چاہئے اس آیت میں باطل کے رد کے لئے سوال کیا گیا ہے یعنی جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو وہ تمہارے بارے میں کچھ اختیار نہیں رکھتے ۔کیونکہ وہ تمہارے لیے کسی بھی قسم کے نفع اور نقصان کے مالک نہیں ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالی ہی نفع نقصان کا مالک ہے اس لیے اسی کی عبادت کی جائے اسی کو نفع اور نقصان کا مالک سمجھا جائے ہر چیز کے لیے اسی سے دعا کی جائے وہ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور فرماتا ہے کہ میرے بندے مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا تو اس لیے اللہ کے کے در کو چھوڑ کر کسی اور کے در پر جانا شرک کے زمرے میں آتا ہے اور ایسا گناہ ہے جس کی کسی صورت بھی معافی نہیں ہے اور اللہ تبارک و تعالی ہر گناہ کو معاف فرما دیں گے سوائے شرک کے۔ اس لیے اللہ تعالی کو معبود برحق مانتے ہوئے صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اللہ کی ذات میں، صفات میں اور صفات کے تقاضوں میں کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرایا جائے اور یہی درست اور سچا دین ہے۔

(۴)- سورة التوبة میں خداوند عزوجل کا فرمان ہے:

"اَفَمَنْ اَسَّـسَ بُنْيَانَہٗ عَلٰي تَقْوٰى مِنَ اللہِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ اَمْ مَّنْ اَسَّـسَ بُنْيَانَہٗ عَلٰي شَفَا جُرُفٍ ھَارٍ فَانْہَارَ بِہٖ فِيْ نَارِ جَہَنَّمَ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِــمِيْنَ"۔[[9]]

"پھر تمہارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضا کی طلب پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی بے ثبات کگر پر اٹھائی اور وہ اسے لے کر سیدھی جہنم کی آگ میں جا گری؟ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا "۔

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل قبا سے پوچھا کہ اللہ تعالی نے تمہاری نظافت اور پاکیزگی کی تعریف کی ہے تم نے کون سی خصوصیت ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم قضائے حاجت کے بعد پانی سے استنجاء کرتے ہیں یہ ان کی نظافت طبعی کی دلیل ہے جب وہ اس معاملے میں اتنے محتاط ہیں تو ان کے بدن اور لباس کی صفائی کے بارے میں آپ خودہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جو شخص جسمانی صفائی اور نظافت کا خیال رکھتا ہے وہ بھی اللہ کے نزدیک قابل تعریف ہے۔ ظاہری نظافت انسانی مروت کا تقاضا بھی ہے اور شریعت کا حکم بھی اور جو شخص صاف ستھرا رہتاہے وہ اللہ کے نزدیک قابل تعریف ہے۔ معلوم نہیں ہم مسلمانوں نے گندہ رہنے کوکیوں اختیار کررکھاہے ہمارے منہ بدبودار،ہمارا جسم میلاکچیلا، ہمارا لباس غلیظ، ہماری بستیاں، محلے، گکی کوچے بلکہ ہمارے گھر کے صحن اور سونے کے کمرے بھی بدبودار اور عفونت کا گڑھ! کیا ہم وہ لوگ ہیں جن کے آباؤ اجداد کی یحبون ان یتطھروا کے شاندار الفاظ میں خراج تحسین وآفرین کی گئی ہے۔"[[10]]

"یہاں دو مسجدوں کا فرق بیان کیا جا رہا ہے کہ پہلی مسجد کی جن لوگوں نے بنیاد رکھی وہ متقی اور پرہیزگار تھے اور محض اللہ تعالی کی رضا کے طلبگار تھے ان کے پیش نظر مسجد کی تعمیر سے یہ مقصد تھا کہ یہ اسلام کا مرکز بنے اور مسلمان اپنے مولائے کریم کے سامنے سربسجود ہونے کے لئے اس میں جمع ہو اس لئے اس کی دیواریں ایسی مستحکم بنیادوں پر استوار کی گئی ہے جو کبھی بھی گر نہیں سکتی لیکن اس کے برعکس دوسرا مکان جو مسجد کے نام سے تعمیر کیا گیا ہے اس کا مقصد اسلام کی مخالفت اور مسلمانوں میں تفرقہ اندازی ہے۔اس لیےاس کی بنیاد بہت کمزور ہے اور ان میں اتنی تاب نہیں کہ وہ چند روز بھی کھڑی رہ سکے اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئ عمارت وادی کے اس دہانےکے کنارےپر بنائی جائے جس کو سیلاب نے کھوکھلا کر دیا ہو تشریح الفاظ شفا،کنارہ، جرف وہ دہانہ جس کو پانی کی موجوں نے اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیا ہو علامہ قرطبی نے خوب لکھا ہے کہ بقائے دوام صرف اس عمل کو میسر ہوتی ہے جو رضائے الہی کے لیے کیا جائے اور جو کام ریا کاری کے لیے کیا جائے وہ جلدہی نیست و نابود ہو جاتا ہے۔"[[11]]

 اس آیت میں باطل کا رد کرنے کے لئے سوال کیا جا رہا ہے کہ جس انسان نے کسی کام کی بنیاد سچائی پر رکھی تو وہ درست اور صحیح تسلیم کیا جائے گا۔اور اگر کسی نے کام کی بنیاد برائی پر رکھی تو اس برائی کی وجہ سے وہ سزا کا مستحق قرار پائے گا یہاں مسجد ضرار کا ذکر فرمایا جا رہا ہے جو لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بنائی تھی اور اس میں یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے تو اللہ تبارک وتعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں اطلاع دے دی تھی اور آپ کے حکم پر ایک صحابی مسجد ضرارکو گرانے آئے تھے۔کیونکہ باطل مٹنے کے لئے ہی آیا ہے۔

(۵) سورة النحل میں فرمان الٰہی ہے:

"اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللہُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُہٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلہِ وَھُمْ دٰخِرُوْنَ"۔[[12]]

"اور کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے کہ اس کا سایہ کس طرح اللہ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں گرتا ہے؟ سب کے سب اِس طرح اظہار عجز کر رہے ہیں "۔

"وَلَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَہُ الدِّيْنُ وَاصِبًا اَفَغَيْرَ اللہِ تَتَّقُوْنَ"۔ [[13]]

"اُسی کا ہے وہ سب کچھ جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، اور خالصاً اُسی کا دین (ساری کائنات میں) چل رہا ہے پھر کیا اللہ کو چھوڑ کر تم کسی اور سے تقویٰ کرو گے؟"۔

اس آیت کی تفسیر کے ماتحت پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"تمام وہ چیزیں جن کو تم بے جان اور بے شعور سمجھتے ہو وہ تو اپنے رب کے حضور میں سجدہ ریز ہیں حیرت ہے کہ تم زیرک اور باشعور ہوتے ہوئے تم اپنے رب کی نافرمانی میں مست ہوں۔ہر چیز اسی کی مخلوق ہے اور اسی کی مملوک ہے اس کا شریک تو وہ ہو جس کو اس نے پیدا نہ کیا ہو اس کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کو اس کا شریک ٹھہرانا اس کا مدمقابل ماننا یہ تو الٹی گنگا بہانے کے مترادف ہے۔دین سے مراداطاعت واخلاص ہے واصبا کامعنی ہمیشہ ہے جب کوئی شخص کسی کام کو ہمیشہ پابندی سے کرے تو کہتے ہیں کہ اسی کی اطاعت اور فرمانبرداری ہر شخص پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئےلازم ہے۔ "[[14]]

 ان آیات میں یہ بات واضح کی جارہی ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کی تمام مخلوق اس کے آگے سجدہ ریز ہوتی ہے کائنات اسی کے حکم کے مطابق چلتی ہے سورج، چاند، ستارے اور سمندر ہر چیز اس کے حکم کے مطابق عمل کرتی ہے پھر انسان اتنی غفلت کا شکار کیسے ہوگیا اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے بھی عقل و شعور رکھتے ہوئے بھی اپنے رب کے عبادت سے اعراض کرتا ہے اللہ پاک تجسس کے لئے استفہام فرما رہے ہیں کہ ایمان لانے کے بعد جو حکم دیا جاتا ہے وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا کیونکہ وہی ذات لائق عبادت اور قابل پرستش ہے۔ جھکنے میں ایک عاجزی کا اظہار ہے اور یہ عاجزی صرف اپنے پیدا کرنے والے رب کے سامنے جھکنے سے ہی اس کا اصل مقصد پورا ہو جاتا ہے اللہ تبارک سب کی دعاؤں کو ضرور سنتا ہے ہے اور وقت آنے پر اچھا صلہ عطا فرماتا ہے۔

(۶)- سورة الفرقان میں فرمان الٰہی ہے:

"وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰن ُ۝۰ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَزَادَھُمْ نُفُوْرًا"۔[[15]]

"اِن لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ اس رحمان کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں "رحمان کیا ہوتا ہے؟ کیا بس جسے تو کہہ دے اسی کو ہم سجدہ کرتے پھریں؟" یہ دعوت ان کی نفرت میں الٹا اور اضافہ کر دیتی ہے "۔

 اس آیت مبارکہ میں مشرکین عرب کی روش بیان کی جا رہی ہے کہ جب ان کو آپ صلی اللہ وسلم قرآن کے تعلیم دیتے تھے ان کو جب کہا جاتا تھا کہ رحمان کو سجدہ کرو تو وہ کہتے تھے کہ رحمان کیا ہوتا ہے ؟ ہم کسی رحمان کو نہیں جانتے ۔ کیا تو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم رحمان کو سجدہ کریں اور یہ چیز ان کو نفرت میں بہت زیادہ کر دیتی تھی کیونکہ وہ لوگ یہ کہتے تھے کہ اگر اللہ نے کسی کو نبی بنا کر بھیجنا تھا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب کیوں کیا گیا جو کہ یتیم تھے ان کے پاس پیسہ، عہدہ نہیں تھا بلکہ نبوت کے اس عہدے کے لئے کسی دولت مند شخص کا انتخاب کیا جاتا تاکہ ہم لوگ اس پر ایمان لے آتے تو اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب صحابہ کرام کو تبلیغ دیتے تھے تو اس وقت سرداران مکہ یہی کہتے تھے کہ ہم تمہاری تیری محفل میں جب آئیں گے جب تم غریب لوگوں کو وہاں سے ہٹا دو گے تو اللہ تبارک و تعالی نے بیان فرما دیا کہ اللہ تعالی کو وہ شخص پسند ہے جو کہ متقی ہے جو تقوی کو اختیار کرتا ہے ہے وہی انسان اللہ کے نزدیک قدر و منزلت پاتا ہے۔اس آیت میں بطور استہزا سوال کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ دولت اور عہدے کو کامیابی قرار دیتے ہیں جبکہ حقیقت میں جو پرہیزگار ہے وہی کامیاب ہے۔

(۷)- سورة النجم میں ارشادِ الٰہی ہے:

"اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَہُ الْاُنْثٰى"۔ [[16]]

"کیا بیٹے تمہارے لیے ہیں اور بیٹیاں خدا کے لیے؟" ۔

مندرجہ بالا آیات کی تفسیر میں پیر کرم شاہ یوں رقمطراز ہیں:

"اللہ تعالی کے اسمائے حسنیٰ میں سے الرحمن کا اسم مبارک اہل عرب میں معروف نہ تھا اس لئے جب انہیں رحمان کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو وہ بدکے اور ان کا جذبہ منافرت اور بڑھ گیا ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی کافرانہ سرکشی کے باعث یہ کیا ہو۔مشرکین کو کہا جا رہا ہے کہ تمہاری حماقت کی بھی کوئی حد ہے اپنے لیے تو تم لڑکے پسند کرتے ہو کس کے گھر میں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اس کے ہاں صف ماتم بچھ جاتی ہے اور جو خالق کائنات ہے جسے نہ بیٹے بیٹیوں کی ضرورت ہے نہ خواہش ہے جو بے نیاز ہے اور برتر ہے اس کے لیےنری بیٹیاں ہی تجویز کرتے ہو۔"[[17]]

 اس آیت میں اہل عرب کی عقل بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں سمجھتے تھے ۔ اللہ پاک ان کی سوچ کا معیار جاننے کے لیے سوال فرما رہے ہیں کہ تم اپنے لیے لیے بیٹے پسند کرتے ہو اور بیٹیوں کو باعث شرم اور باعث عار سمجھتے ہو ان کو پیدا ہوتے ہیں ہیں زندہ دفنا دیتے ہو ہو اور ان کے ساتھ بہت برا سلوک کرتے ہو جس کے ہاں بیٹی ہوتی تھی وہ شرم سے اپنا منہ چھپائے ہوئے پھرتا تھا وہ گھر سے باہر بھی نہیں نکلتا تھا کوئی مجھے بیٹی کا طعنہ دے دے گا ۔تعجب تو یہ ہے کہ جو چیز خود کے لیے پسند نہیں کرتے تو اللہ تبارک و تعالی جو تمہا رب ہے معبود ہے اس کے بارے میں ایسی باتیں کیسے کر سکتے ہو؟ افسوس ہے تم پر! اللہ تبارک تعالیٰ کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ ہی وہ جنا گیا ہے اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے وہی قابل عبادت ہے اس کے سوا کسی کی عبادت کرنا جائز نہیں۔

خلاصہ بحث

 اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہی ذات عبادت کے لائق ہے اس کے لئے کائنات میں کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو لائق عبادت ہو کائنات کے نظام پر اگر ہم غور کریں تو بے اختیار یہ بات نکلتی ہے کہ بس ایک ہی ذات ایسی ہو سکتی ہے جو اتنے بڑے نظام کو چلائے ہوئے ہیں اور کبھی بھی اس نظام میں کوئی خرابی نہیں دیکھی گئی اسلئے پھر کیسے ممکن ہے کہ ہم اس ذات کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کریں یا کسی کو اس کا شریک ٹھہرائیں قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر عبادت کا واضح تصور پیش کیا گیا ہے اور اللہ پاک اپنی نعمتوں کے اعتراف کے بعد بھی یہ سوال فرماتے ہیں کہ کیا تم ان تمام نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود بھی کسی اور کی پرستش کرتے ہو؟ تو تم واضح گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔

 اس فصل میں تفسیر ضیاء القرآن کی روشنی میں فہم عبادات میں آیاتِ استفہام کی وضاحت کی گئی ہی جو کہ درج ذیل ہے۔

 سورہ البقرہ آیت نمبر۱۱۴,۱۳۸، سورہ المآئدہ آیت نمبر ۷۶، سورہ التوبہ آیت نمبر ۱۰۹، سورہ النحل آیت نمبر ۴۸,۵۲ ، سورہ الفرقان آیت نمبر ۶۰، سورہ النجم آیت نمبر ۲۱۔

 

 

 

فصل چہارم: آیاتِ استفہام میں فہم معاملات

اللہ تبارک و تعالیٰ نے متعدد مقامات پر انسان کی زندگی میں پیش آنے والے تمام امور کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔مومنین کی صفات بیان کیں کہ وہ مومن لوگ عدل،اخوت، مساوات،دیانتداری،ایفائے عہد،سچ، وفاشعاری، امانتداری،ایثار الغرض زندگی کے ہر شعبے میں کتاب اللہ اور سنت رسول کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔

محسن فارابی معاملات کے حوالے سے لکھتے ہیں:

 "قرآن مجید اللہ کا آخری نازل شدہ کلام ہے جو ہر مسلمان کے ایمان و عمل کا سرچشمہ ہے یہ انسانوں سے متعلق تمام موضوعات کا احاطہ کرتا ہے مثلاً عقل،نظریہ، عبادت،لین دین،قانون وغیرہ یہ ایک عادلانہ معاشرے، اچھے انسانی کردار اور ایک منصفانہ اقتصادی نظام کے لیے رہنما خطوط اور تفصیلی تعلیمات فراہم کرتا ہے"۔ [[18]]

اس فصل میں تفسیر ضیاء القران کی روشنی میں معاملات کے فہم میں آیاتِ استفہام پیش کی جا رہی ہیں۔

(۱)- سورة البقرة میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا فَيُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَۃً وَاللہُ يَـقْبِضُ وَيَبْصُۜطُ۝۰۠ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ"۔[[19]]

"تم میں کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے تاکہ اللہ اُسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟ گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی، اور اُسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے "۔

اس آیت کی تفسیر میں پیر کرم شاہ یوں رقمطراز ہیں:

"لغت عرب میں قرض کا یہ مفہوم نہیں جو ہم اردو میں اسے سمجھا کرتے ہیں کہ کسی کو کسی چیز کی ضرورت ہوئ اپنے پاس نہ تھی اس لیے دوسرے سے ادھار لے کر پوری کرلی۔ کیونکہ اللہ تعالی جوغنی حمید ہے ضرورت کے تصور سے بھی پاک ہے بلکہ قرض ہر وہ چیز یا عمل ہے جس پر جزا اور بدلہ طلب کیا جائے اب کسی قسم کا خلجان پیدا ہی نہ ہوگا۔ پہلے کیونکہ جہاد کا حکم دیا گیا تھا اور جہاد کے لیے روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اس حسن بیان سے اہل اسلام کو اپنا سرمایہ اللہ تعالی کی راہ میں قربان کرنے کے لیے شوق دلایا جا رہا ہے یعنی یہ مت سمجھو کہ یہ رقم خرچ ہوگئی تو پھر واپس نہیں ملے گی بلکہ اللہ تعالی اس کا تمہیں کئی گنا معاوضہ دے گا قرض اگر بمعنی مفعول ہو تو حسن کی صفت سے یہ مراد ہو گا کہ جو مال اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ حلال اور پاک ہو اور اگر قرض اپنے مصدری معنی میں ہی استعمال ہوا ہو تو پھر حسن سے مراد یہ ہوگا کہ قرض دوں تو خلوص سے دو ، خوشی سے دو۔اور یہ بھی خوب ذہن نشین کر لو کہ رزق کی تنگی اور فراخی اللہ قادر کریم کے ہاتھ میں ہےاگرتم اس کی راہ میں خرچ کرو گے تو وہ اپنی رحمت کے خزانوں کے منہ کھول دے گا اور اگر بخل کیا تو کوئی بعید نہیں کہ وہ ناراض ہو جائے اور تمہیں محتاج ومفلس بنا دے۔"[[20]]

 اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ مسلمانوں میں تشویق کے لیے سوال فرما رہے ہیں کہ اے لوگو ! جو اللہ تعالی کو قرض حسنہ دے گا اللہ تبارک و تعالی اسے دوگنا کرکے لوٹائے گا۔وہی دینے والی ذات ہے اس کے خزانے میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی نہیں ہے مگر وہ اپنے راستے میں خرچ کرنے کے لئے اپنے دئیے ہوئے رزق کو خرچ کرنے کے لئے لوگوں میں شوق پیدا فرما رہے ہیں تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ نیکیاں حاصل کر سکیں اور اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والے ایک روپے کو سات سو گنا تک بڑھا کر واپس کر دیا جاتا ہے تو اللہ تعالی انسان کو بخل سے دور اور سخاوت کے قریب کرنے کے لیے رغبت دلا رہے ہیں تاکہ مسلمان مال کی محبت میں گمراہ نہ ہوجائیں۔

(۲)- سورة البقرة میں ارشادِ الٰہی ہے:

"وَقَالَ لَہُمْ نَبِيُّہُمْ اِنَّ اللہَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا قَالُوْٓا اَنّٰى يَكُوْنُ لَہُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْہُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ قَالَ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰىہُ عَلَيْكُمْ وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللہُ يُؤْتِيْ مُلْكَہٗ مَنْ يَّشَاۗءُ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ"۔ [[21]]

"اُن کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے طالوت کو تمہارے لیے بادشاہ مقرر کیا ہے یہ سن کر وہ بولے : ہم پر بادشاہ بننے کا وہ کیسے حقدار ہو گیا؟ اُس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں وہ تو کوئی بڑا ما ل دار آدمی نہیں ہے نبی نے جواب دیا: اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغی و جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور اللہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے، اللہ بڑی وسعت رکھتا ہے اور سب کچھ اُس کے علم میں ہے"۔

اس آیت کی تفسیر کے ماتحت پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"ان کی خواہش اور اصرار کے باعث اللہ تعالی نے طالوت کو جب ان کا سردار اور سپہ سالار مقرر فرما دیا تو لگے اعتراض کرنے کہ یہ شخص نہ لادی بن یعقوب کی اولاد سے ہے اس میں نبوت نسل در نسل چلی آ رہی ہے اور نہ یہود ابن یعقوب کی اولاد سے ہے جن میں حکومت و سلطنت پشت در پشت چلی آرہی ہے تو یہ نادار اور قلاش کب سردار قوم بن سکتاہے ۔امامت کے حقدار تو ہم ہیں جن کے پاس دولت کی فراوانی ہے حضرت سموئیل علیہ السلام نےانھیں بتایا کہ حکومت کے لیے تمہارا قائم کردہ معیاردرست نہیں ہےبلکہ اس کاصحیح معیار توعلم وشجاعت ہے اور ان دونوں باتوں میں وہ تم سب سے ممتاز ہے۔

بائبل میں ہے کہ یہ تیس سالہ نوجوان اپنے حسن و جمال میں بے نظیر تھا اس کی قامت کی بلندی کی حالت ہیں کہ دوسرے لوگ مشکل سے اس کے کندھوں تک پہنچ سکتے تھے اور یہ بنیامین کی نسل سے تھا حضرت سموئیل نے انہیں بتایا کہ طالوت کا انتخاب انسانی انتخاب نہیں بلکہ رب العزت نے خود اسے تمہاری قیادت کے لئے منتخب فرمایا ہے تمہیں اس کی عطاوبخشش پر معترض نہیں ہونا چاہیے۔"[[22]]

 اس آیت مبارکہ میں بنی اسرائیل کا ذکر کیا جا رہا ہے جب اللہ تبارک و تعالی نے طالوت کو کو سپہ سالار بنا کر بھیجا تو وہ لوگ کہتے تھے یا تو ہمارے پاس کوئی فرشتہ تھا یا کوئی امیر شخص آتا تو ہم اس کو سپہ سالار تسلیم کرلیتے تو اللہ تبارک وتعالی نے نے فرما دیا کہ کوئی بھی اپنی مرضی سے بادشاہ نہیں بن سکتا جس کو اللہ تعالیٰ منتخب فرمائیں یہاں پر بطور تعجب کے استفہام کیا جا رہا ہے کہ تم کون ہوتے ہو اللہ کے فیصلے پر اعتراض کرنے والے اور اللہ کو بتانے والے کہ بادشاہ ، سپہ سالار کس کو بنا کر بھیجنا تھا۔ اللہ تعالی نے حضرت طالوت کو حکمت و طاقت عطا فرمائی تھی تو اس سے ثابت ہوا کہ اللہ تبارک و تعالی ہر کام کی تدبیر کرنے والے ہیں اور ان کا ہر فیصلہ حکمت پر مبنی ہوتا ہے ہے ان کے فیصلے کے خلاف کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا اس لیے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق گزاری ہوئی زندگی میں ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔

(۳)- سورة النسآء میں ارشادِ الٰہی ہے:

"اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا"۔[[23]]

"اے نبیؐ! تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اُس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں، حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا شیطان انہیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے "۔

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

" ان آیات کے شان نزول کے متعلق علماء تفسیروحدیث نے یہ واقعہ ذکر کیا ہے کہ ایک یہودی اور ایک منافق کے درمیان جو اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا کرتا تھا تنازعہ ہو گیایہودی حق پر تھا اس نے اس بظاہر مسلمان کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فیصلہ کرانے کےلیے کہااس منافق کے دل میں چور تھا اسے معلوم تھا کہ وہاں تو نہ سفارش چلے گی اور نہ رشوت سے کام بنے گا اس لئے اس نے کہا کہ تمہارے عالم کعب بن اشرف کے پاس چلتے ہیں یہودی اس بات پر رضامند نہ ہوا تھا چار و ناچار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے یہودی حق پر تھا فیصلہ بھی اسی کے حق میں ہوا۔"[[24]]

"منافق کو پسند نہ آیا تووہ یہودی کو لے کر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گیا وہاں سے بھی وہی حکم ملا لیکن اس کو بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوا آخر دل میں سوچا کہ بظاہر تو میں مسلمان ہوں اور یہ یہودی ہے عمر رضی اللہ عنہ کے پاس چلتے ہیں وہ یقینا میرے اسلام کا پاس کرتے ہوئے میرے حق میں فیصلہ دیں گے۔ چناچہ اس نے یہودی کو بھی اس پر رضامند کرلیا جب وہاں پہنچے تویہودی نے عرض کی کہ پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس مقدمے کا فیصلہ میرے حق میں کر چکے ہیں اب یہ مجھے آپ کے پاس لایا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے واپس آنے تک ٹھہرو، چنانچہ آپ گھر تشریف لے گئے تلوار بےنیام کرکے واپس آئے اور اس منافق کا سر قلم کر دیا اور فرمایا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا میں اس کا یہ فیصلہ کیا کرتا ہوں۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور حضور صلی اللہ وسلم نے اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو الفاروق یعنی حق کو باطل میں فرق کرنے والے کے لقب سے سرفراز کیا یہاں طاغوت سے مراد وہ حاکم اور عدالت ہے جو احکام الہی کے خلاف مقدمات کا فیصلہ کیا کرے۔"[[25]]

 اس آیت مبارکہ میں یہ بات بیان کی گئی ہے ہے کہ جب اللہ کے رسول کسی بھی کام کا فیصلہ فرما دیں تو پھر یہ جائز نہیں کہ اس کے خلاف کوئی عمل کیا جائے کیونکہ نبی کریم اپنی مرضی سے کچھ نہیں بولتے ان پر جو وحی کی جاتی ہے وہ اسی کے مطابق فیصلے فرماتے تھے اس میں منافق کا بیان ہے جو کہ اپنے جھوٹ کو چھپانے کے لئے دین کا سہارا لے رہا تھا وہ سمجھ رہا تھا کہ مجھے مسلمان سمجھتے ہوئے میرے حق میں فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اگر کوئی بھی ایسا عمل کرے گا جو کہ سچ کے خلاف ہوگا تو جان رکھو کہ اللہ تبارک و تعالی تمہارے دلوں کے بھید سے واقف ہے تمہارے سینوں کے رازوں کو جانتا ہے اس سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ہر چیز اس کے سامنے واضح اورروز روشن کی طرح عیاں ہےاس لئے منافقین جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو دھوکا دے رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ وہ خود اپنی جانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں لیکن وہ اس بات کو نہیں سمجھتے۔

(۴)- سورة النسآء میں اللہ پاک فرماتے ہیں:

"وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْيَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا۝۰ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا۝۰ۚۙ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا"۔[[26]]

"آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے "۔

اس آیت کی تفسیر میں پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"مکہ میں کئی مرد عورتیں اور بچے ایسے تھے جو اسلام قبول کرچکے تھے لیکن کفار مکہ نے ان کا ناک میں دم کیا ہوا تھا نہ وہ ہجرت کر سکتے تھے اور نہ انہیں امن وسلامتی میسر تھی۔ وہ مظالم برداشت کرتے ہوئے اللہ کے حضور میں دعائیں مانگتے تھے کہ اےغریبوں کے فریاد رس اور بے کسوں کے حامی ہم ناتوانوں پر رحم فرما ہمیں ان ظالموں کے چنگل سے چھڑا۔اللہ تعالی اس آیت میں مسلمانوں کو اپنے مظلوم بھائیوں، بہنوں کی امداد کی ترغیب دے رہا ہے چنانچہ وہ دن آیا جب نبی رحمت اپنے ہمراہ دس ہزار مسلمانوں کو لے کر مکہ پر حملہ آور ہوئے اس روز مکہ والوں نے اپنے بند دروازے کھول دیے اور اس کے مغرور ومتکبر سرداروں نے اپنی گردنیں خم کردی اور مظلوموں نے آزادی کاسانس لیا یہ حکم اب بھی بدستورہے۔ جس خطہ زمین میں مسلمانوں پر کفارمظالم توڑ رہے ہوتو دوسرے مسلمانوں پر فرض ہے کہ ان کو نجات دلائیں۔ومالکم میں استفھام تحریض کے لئے ہے یعنی جہاد پر برانگیختہ کرنے کے لئے۔" [[27]]

 اس آیت میں اللہ تبارک و تعالی ان مسلمانوں کا حال بیان فرما رہے ہیں جو کہ مکہ میں تھے اور کفار مکہ کہ ان کو تنگ کرتے تھے اور بے تحاشہ ظلم کرتے تھے اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کرتے تھے تو اس آیت میں جہاد کے بارے میں رغبت دلانے کے لیے سوال کیا جا رہا ہے کہ اے مسلمانو ! تمہیں کیا ہو گیا ہے تمہارے مسلمان بہن بھائی جو کہ کفار کے ظلم کا شکار ہیں وہ تمہیں مدد کے لیے پکار رہے ہیں اور یہ کہ تم پر فرض ہے کہ ان مسلمانوں کی مدد کرو اس کے بعد مدینہ کے مسلمانوں نے مکہ پر چڑھائی کرکے اپنے مسلمان بہن، بھائیوں کو کفار مکہ کے ظلم سے نجات دلائی بھائی اور مکہ میں اسلامی حکومت قائم کرکے مکہ کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنا دیا۔

(۵)- سورة الانعام میں فرمان الٰہی ہے:

"اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا يَّمْشِيْ بِہٖ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُہٗ فِي الظُّلُمٰتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكٰفِرِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ"۔[[28]]

"کیا وہ شخص جو پہلے مُردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اُس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو؟ کافروں کے لیے تو اسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنا دیے گئے ہیں"۔

اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ زندہ اور مردہ شخص کی مثال بیان فرما رہے ہیں یعنی ایک انسان جو کہ مردہ تھا مثلا ظلم کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اس کو ہم نے روشنی عطا کی اور وہ اس روشنی میں سیدھے راستے کی طرف چل پڑا اور ایک وہ شخص جو کہ تاریکی میں یعنی گمراہی میں پڑا ہوا ہے اس کے سامنے کوئی روشنی نہیں ہے تو کیا یہ لوگ برابر ہو سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں ، یہاں پر بطور تنبیہہ کے سوال کیا جا رہا ہے کہ سیدھے راستے پر چلنے والا اور گمراہی کے راستے پر چلنے والا دونوں شخص کبھی برابر نہیں ہو سکتے جس طرح اندھیرا اور اجالا برابر نہیں ہوسکتے، دیکھنے والا اور اندھا دونوں برابر نہیں ہو سکتے بالکل اسی طرح نیک انسان اور بدکار شخص کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان جمادات کی طرح بے اختیارہ بے ارادہ نہیں بلکہ اس کے الفاظ اس کے اختیارات سے صادر ہوتے ہیں اسی لئے اس کے اعمال کے متعلق اس سے باز پرس ہوگی لیکن اس کایہ اختیار اورارادہ اسے اللہ کے قبضہ قدرت سےباہر نہیں کر دیتا اور یہ اسی کا عطا فرمودہ ہے۔ پہلی آیت میں یہ حکم دیا گیا کہ اللہ تعالی کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام مت کہو اس آیت میں حکم دیا گیا اللہ تعالی کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال مت سمجھو وہ جانور جو خود مر گیا وہ بھی حرام ہے اورجسے ذبح کیاگیالیکن دانستہ اس پر اللہ کانام نہیں لیاگیا یااللہ کے نام کے ساتھ کسی اور کانام بھی لے دیاگیا تووہ بھی حرام ہے۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ جوشخص اللہ کی حرام کی ہوئ چیزوں کوحلال یقین کرتا ہے وہ مشرک ہوجاتاہے۔ کیونکہ دین الہی میں اللہ کےحکم کوچھوڑنا اوردوسرے کے حکم کو ماننا اور اللہ کے سوادوسرے کوحاکم قرار دینا شرک ہے۔"[[29]]

(۶)-سورة النحل میں ارشادِ الٰہی ہے:

"يَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْۗءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ اَيُمْسِكُہٗ عَلٰي ھُوْنٍ اَمْ يَدُسُّہٗ فِي التُّرَابِ اَلَا سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ"۔[[30]]

"لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اِس بری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے؟ دیکھو کیسے برے حکم ہیں جو یہ خدا کے بارے میں لگاتے ہیں"۔

نیز ارشاد فرمایا:

"وَاللہُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ بَنِيْنَ وَحَفَدَۃً وَّرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَتِ اللہِ ھُمْ يَكْفُرُوْنَ"۔ [[31]]

"اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے تمہاری ہم جنس بیویاں بنائیں اور اسی نے ان بیویوں سے تمہیں بیٹے پوتے عطا کیے اور اچھی اچھی چیزیں تمہیں کھانے کو دیں پھر کیا یہ لوگ (یہ سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی) باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کے احسان کا انکار کرتے ہیں"۔

اس آیت کی تفسیر کے ماتحت پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"کفار کی یہ من گھڑت تقسیمیں کتنی بھونڈی اور نارواہیں۔اپنے مزید احسانات کی یاد دہانی کروائی جا رہی ہے یعنی ہم نے تمہیں تنہا پیدا نہیں کیا۔ ایسی تنہائی جس میں غم کے لمحے بڑے بھیانک ہوتے ہیں اور خوشی کے ساعتیں بڑی اداس، بلکہ ہم نے تمہیں اس ذندگی کا راستہ طے کرنے کے لئے ایک ساتھی بھی دیا اور مزید کرم فرمایا کہ وہ تمہاری ہی جنس سے ہے تاکہ تمھاری آرزوئیں اور تمنائیں تمھارے جذبات اور خواہشات سب یکساں ہوں تاکہ تم ایک دوسرے کےلیے باعث مسرت اور موجب اطمینان ہو۔ اس پر مزید کرم یہ کیا کہ تمہیں اولاد کی نعمت سے بہرہ ور کیا اور تمہیں پوتے اور پوتیاں بخشی اس طرح تمہارے دلوں کو مسرت اور تمہاری آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائیں مزید برآں تمہیں کھانے کے لئے عمدہ سے عمدہ چیزیں مہیا فرمائیں۔ان گوناگوں احسانات کے باوجود اگر تم شرک سے باز نہ آؤ تو تم سے بڑھ کر اور کون نا شکرا اور احسان فراموش ہوگا اس آیت میں حفدہ کا معنی اولاد یعنی پوتے پوتیاں یا نواسے نواسیاں ہیں۔ اور اگلی آیت میں باطل سے مراد شیطان ہے اور نعمت اللہ سے مراد حضور فخر دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات صفات ہے۔ باطل سے مراد حرمت کے احکام میں شیطان کی اطاعت کرنا ہے اور بعض نے کہا کہ ان کا اپنے بتوں سے شفاعت کی توقع رکھنا اور ان کی برکت پر یقین رکھنا باطل ہے ۔[[32]]

 اس آیت میں کفار مکہ کی روش بیان کی جا رہی ہے کہ وہ لوگ بیٹی کی پیدائش پر ناخوش ہوتے تھے اور وہ اپنا چہرہ چھپائے ہوئے پھرتے تھے کہ کوئی ہمیں طعنہ نہ دے اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہم نے تم میں سے مرد اور عورت سے پیدا کیا اور اس سے تمہاری اولادیں پیدا کی اس طرح تمہاری نسلیں بڑھتی ہیں تو کیا تم اس عورت کو جس سے تمہاری افزائش نسل ہوتی ہے اس کے پیدا ہونے پر ، افسوس اور تعجب کا اظہار کرتے ہو تو تم پر تعجب ہے ورنہ تم لوگ بیٹوں کی کثرت کو پسند کرتے ہو تو بغیر عورت کے تم کیسے وارث بن سکتے ہو کفار مکہ کی یہ بہت غلط عادت تھی وہ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے اسلام نے آکر اس قبیح رسم کا خاتمہ کیا اور عورت کو ہر روپ میں چاہے وہ بیٹی ہو یا بہن یا بیوی یا ماں ہر روپ میں ایک مرتبہ اور مقام عطا فرمایا، وراثت میں حصہ مقرر کیا اور اسلام ایک ایسا دین ہے جس نے تمام انسانوں کے حقوق و فرائض متعین فرمائے جن پر عمل کرنے سے پرامن اور خوشحال معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

(۷)- سورة القصص میں فرمان باری تعالیٰ ہے:

"وَقَالُوْٓا اِنْ نَّتَّبِعِ الْہُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا اَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَّہُمْ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجْبٰٓى اِلَيْہِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَيْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَلٰكِنَّ اَكْثَرَھُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ"۔[[33]]

"وہ کہتے ہیں اگر ہم تمہارے ساتھ اِس ہدایت کی پیروی اختیار کر لیں تو اپنی زمین سے اُچک لیے جائیں گےکیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے ایک پرامن حرم کو ان کے لیے جائے قیام بنا دیا جس کی طرف ہر طرح کے ثمرات کھچے چلے آتے ہیں، ہماری طرف سے رزق کے طور پر؟ مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں"۔

اس آیت کی تفسیر کے ماتحت پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

خداکی نافرمانی کے ہولناک انجام سے بچنے کےلیے انھیں گزشتہ قوموں کے کھنڈرات میں غوروفکر کرنے کی دعوت دی جارہی ہے۔ اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کفار مکہ سے خطاب فرما رہے ہیں کہ جس جگہ میں تم رہتے ہو ہم نے اس زمین کو امن کا گہوارہ بنا دیا گیا اور اس میں پھلوں کی کثرت، مال کی کثرت اور رزق کی فروانی عطا کر دی لوگ دور دور سے اس جگہ پر زیارت کے لئے آتے ہیں جس کی وجہ سے تمہاری تجارت کا کام کام بہت بہتر طریقے سے ہوتا ہے اور تم نفع حاصل کرتے ہو تو کیا تم ان باتوں پر غور نہیں کرتے کہ یہ سب کرنے والی ذات کون ہے یہ اللہ کی ذات ہے جو کہ کہ جسے چاہے فراوانی عطا فرمائے اور جسے چاہے تنگدست کردے۔" [[34]]

اس آیت میں مشرکین مکہ کی روش بیان کی جا رہی ہے کہ وہ کہتے تھے کہ اگر ہم ایمان لے آئے تو ہمارے معبود دیوی اور دیوتا کے عذاب کی پکڑ میں ہم آجائیں گے جس کی وجہ سے ہم اچک لئے جائیں گے اللہ تبارک و تعالی اپنا احسان ان کو یاد کروا کر ان سے سوال فرما رہے ہیں کہ کہ کیا تم نہیں جانتے کہ کیسے تم مکہ میں جنگ و جدال کرتے تھے اور ہم نے اس گھر کو امن کا گہوارہ بنا دیا اور اس شہر کو رزق کی فراوانی عطا کی لوگ دور دور سے یہاں آتے ہیں اور تمہارے کاروبار خوب چلتے ہیں۔ کیا تم لوگ نصیحت حاصل نہیں کرتے کتنی ہی اقوام تھیں جو کہ نافرمانی اور سرکشی کے باعث اللہ کے عذاب سے دوبار ہوئیں آج ان کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے تو کیا تم ان واقعات سے نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟ کیا تم عقل نہیں رکھتے؟ کیا تم سوچ و بچار نہیں کرتے؟ یاد رکھو کہ ہر انسان کا ایک وقت مقرر ہے اور جب وہ وقت آ جاتا ہے تو ایک گھڑی بھی نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے اور نہ ہی آگے بڑھ سکتی ہے اور یہ اللہ عزوجل کا بنایا ہوا قانون ہے اور اس کا ہر فیصلہ اٹل ہے۔

(۸)-سورة الأحزاب میں فرمان الٰہی ہے:

"قُلْ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَعْصِمُكُمْ مِّنَ اللہِ اِنْ اَرَادَ بِكُمْ سُوْۗءًا اَوْ اَرَادَ بِكُمْ رَحْمَۃً وَلَا يَجِدُوْنَ لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا"۔[[35]]

"اِن سے کہو، کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچا سکتا ہو اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے؟ اور کون اس کی رحمت کو روک سکتا ہے اگر وہ تم پر مہربانی کرنا چاہے؟ اللہ کے مقابلے میں تو یہ لوگ کوئی حامی و مدد گار نہیں پا سکتے ہیں"۔

 اس آیت میں اللہ پاک ارشاد فرماتے ہی کہ اے لوگو! اگر اللہ تبارک وتعالی تمہیں نقصان پہنچانا چاہے یعنی کسی بھی قسم کا نقصان کسی کے مقدر میں لکھ دے تو کوئی بھی ایسی ذات نہیں ہے جو تم کو اس نقصان سے بچا سکے کیونکہ کہ اللہ کے مقابلے میں تمام قوتیں بودی اور کمزور ہیں باقی جتنے بھی سہارے ہیں مکڑی کے گھروندے کی طرح کمزور ہیں۔اور اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات تمہیں کشادگی عطا فرمائے تو تم سے کوئی بھی طاقت اس فائدے کو نہیں روک سکتی نفع اور نقصان ان دونوں کا مالک صرف اللہ تعالی ہی ہے اور یہ دونوں چیزیں اسی کے اختیار میں ہیں وہ جسے چاہتا ہے کشادگی عطا فرماتا ہے ہے اور جسے چاہتا ہے تنگدستی۔ اگر تم اللہ کے مقابلے میں کسی اور کو مدد کے لئے بلاتے ہو تو وہ کبھی بھی تمہاری مدد کو نہیں آسکیں گے غرض یہ کہ جو لوگ دنیا میں شیطان کے قدموں کی پیروی کرتے ہیں تو قیامت کے دن وہ ان سے برات کا اظہار فرمائے گا ایک مسلمان کا کامل یقین ہونا چاہیے کہ اگر اسے کوئی نفع پہنچے یا اسے کسی نقصان کا سامنا کرنا پڑے تو وہ سب اللہ کی طرف سے اس کے مقدر میں تھا انسان کو اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانا اسی لیے ضروری ہے کہ ہر کام اللہ کے حکم سے ہی ہوتا ہے اللہ کے فیصلے کے خلاف کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہے۔ وہ قائم ذات ہے اور اس کی طاقت آسمان اور زمین کو احاطہ کئے ہوئے ہے اور کوئی درخت کا پتہ بھی اس کی اجازت کے بغیر نہیں ہل سکتا بالکل اسی طرح انسان کے ذہن میں آنے والے خیالات کو بھی وہ جانتا ہے کیونکہ وہ علیم اور باریک بین ہے۔

(۹)- سورة فاطر میں ارشادِ الٰہی ہے:

"اسْـتِكْبَارًا فِي الْاَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ اِلَّا بِاَھْلِہٖ فَہَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِيْنَ۝۰ۚ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِيْلًا۝۰ۥۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَحْوِيْلًا"۔ [[36]]

"یہ زمین میں اور زیادہ استکبار کرنے لگے اور بری بری چالیں چلنے لگے، حالانکہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں اب کیا یہ لوگ اِس کا انتظار کر رہے ہیں کہ پچھلی قوموں کے ساتھ اللہ کا جو طریقہ رہا ہے وہی اِن کے ساتھ بھی برتا جائے؟ یہی بات ہے تو تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے"۔

اس آیت کی تفسیر میں پیر کرم شاہ یوں رقمطراز ہیں:

"حاق یحیق کا معنی ہےاحاطہ کرنا، چاروں طرف سے گھیر لینا،یعنی وہ سازش تواسلام کے خلاف کرتے تھے لیکن اس سازش کاوبال خودان ہر پڑتاتھا۔ جو حیلہ کیا منہ کی کھائی۔ اسلام کے خلاف ہر منصوبہ خاک میں مل گیا وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتے اور طرح طرح کے بہتان لگا کر بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ تعالی نے اپنے محبوب کی شان کو اور زیادہ بلند کر دیتا۔ حضور کی عظمت کا ڈنکا دور دور تک بجنے لگتا۔ غرضیکہ جوتدبیر بھی کی الٹی پڑی۔ کفار بار بار ٹھوکریں کھانے کے باوجود نہیں سنبھلتے اور اپنی گھٹیا حرکتوں سے باز نہیں آتے۔کیا یہ اس بات کے منتظر ہیں کہ ان پر بھی ایسا عذاب نازل ہو جو ان سے پہلے گزری ہوئی سرکش قوموں پر نازل ہوا تھا اگر ان کی یہی مرضی ہے تو پوری کر دی جائے گی کیونکہ نافرمانوں کے ساتھ اللہ تعالی کا برتاؤ ایسا ہی ہوتا ہے اور اللہ تعالی کی سنت کو کوئی بدل نہیں سکتا۔[[37]]

اس آیت مبارکہ میں کافروں کا حال بیان کیا جا رہا ہے ہیں کہ ہر وقت اسی کوشش میں ہوتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو، اصحاب رسول کواور مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں۔ وہ ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے مثلا ہجرت مدینہ کے موقع پر کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کو گھیرے میں لے لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر سے نکلیں تو آپﷺ کو شہید کر دیا جائے مگر اللہ تبارک و تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باحفاظت اپنے گھر سے نکالا اور مدینہ تک پہنچا دیا ان کی تمام تدابیر کو پلٹ کر رکھ دیا اور ہمیشہ جیت مسلمانوں کی ہی ہوتی تھی اللہ تبارک و تعالی ان سے بطور انذارکے سوال فرما رہے ہیں کہ کیا تم نے نے اپنے سے پہلے قوموں کا حال نہیں دیکھا جنہوں نے ہماری نافرمانی کی جنہوں نے ہماری حکم عدولی کی اور ہم نے ان کا کیا انجام کیا؟ کیا تم لوگ بھی یہ چاہتے ہو کہ تمہارا حال بھی ان جیسا ہو یاد رکھو ہے جب کسی قوم کا وقت مقررہ آجاتا ہے تو ان کو مہلت نہیں دی جاتی تو کافروں کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا جائے گا۔

(۱۰)- سورة محمدمیں ارشادِ حق تعالیٰ ہے:

"اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا"۔[[38]]

"کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا، یا دلوں پر اُن کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟ "۔

اس آیت کی تفسیر میں پیر کرم شاہ یوں رقمطراز ہیں:

"حق جب نکھر کر سامنے آجاتا ہے تو اس کی کشش خود بخود دلوں کو اپنی طرف جذب کرنے لگتی ہے۔ جو لوگ اس حق کو قبول کرنے سے روگردانی کرتے ہیں اور باطل سے چمٹے رہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ شیطان باطل عقائد اور اعمال کو ان کے سامنے آراستہ و پیراستہ کرکے پیش کرتا ہے ان کو جھوٹی امنگوں سے للچاتاہے۔ ان کے دل میں ڈالتا ہے کہ ابھی تو عنوان شباب ہے۔ موت تو بڑی دیر کے بعد آئے گی ان لمحوں کو ضائع مت کرو اور جی بھر کر کروعیش و نشاط کرو۔ ان کے گناہوں کو ان کے سامنے خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔ شیطان انہیں طرح طرح کی امیدیں دلاتا ہے اور ان سے وعدہ کرتا ہے کہ تمہاری عمر بڑی لمبی ہوگی۔ توبہ کرنے کی اتنی جلدی کیا ہے۔ جب بڑھاپا آجائے گا اس وقت توبہ کر لینا۔"[[39]]

مزید ارشاد فرمایا:

"اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ اَنْ لَّنْ يُّخْرِجَ اللہُ اَضْغَانَہُمْ"۔[[40]]

"کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کے کھوٹ ظاہر نہیں کرے گا"؟۔

اس آیت کی تفسیر میں پیر کرم شاہ یوں رقمطراز ہیں:

"منافقین تصنع اور ریاکاری کے پردے ڈال کر اپنے دلوں کے بغض کو چھپانے کی بڑی کوشش کر رہے ہیں لیکن کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنے نفاق کو چھپانے میں کامیاب ہوجائیں گے ان کے دلوں میں اسلام کے خلاف نفرت و عداوت کے جو شعلے بھڑک رہے ہیں کسی کو ان کی خبر نہ ہوگی یہ ان کی خام خیالی ہے اللہ تعالی ان کا پردہ چاک کر دے گا اور ان کے دلوں میں چھپے ہوئے راز آشکار ہو جائیں گے۔اضغان جمع ہے۔اس کاواحد ضغن ہے بمعنی بغض اور کینہ۔" [[41]]

 مذکورہ آیت میں یہ بات بیان کی جا رہی ہے کہ حق ان کے سامنے آجاتا ہے واضح ہو جاتا ہے لیکن وہ پھر بھی باطل کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں ہیں صرف یہی سوچتے ہیں کہ ابھی تو عمر پڑی ہے شیطان برے اعمال کو ان کے سامنے مزین کر کے پیش کرتا ہے انکو اپنی چالوں میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے وہ ان گناہوں میں مبتلا رہتے ہیں اور شیطان کا جو انسان کو راہ راست سے ہٹانے کا مقصد ہے وہ پورا ہو جاتا ہے اسی طرح منافقین مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں وہ اسلام کے خلاف دل میں بغض و نفرت رکھ کر مسلمانوں کی محفلوں میں موجود ہوتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی باتوں کو سن کر کفار تک پہنچا دیں دے اور اس کے عوض میں وقتی فائدہ حاصل کرلیں کیونکہ وہ لوگ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ہم مسلمانوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں جبکہ وہ اس بات کو نہیں جانتے کہ اللہ تبارک و تعالی ان کے تمام احوال کو جانتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی ان کے بارے میں اطلاع دی جاتی ہے تو یہ لوگ وقتی فائدے کے لئے لئے آخرت کی ہمیشہ کے فائدے کو فراموش کر رہے ہیں۔ اس آیت میں بطور تعجب کے استفہام کیا جا رہا ہے کہ وہ کس گمان اور خام خیالی میں مبتلا ہیں؟

(۱۱)- سورة الصف میں اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں:

"وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَي اللہِ الْكَذِبَ وَھُوَ يُدْعٰٓى اِلَى الْاِسْلَام وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ"۔ [[42]]

"اب بھلا اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے حالانکہ اسے اسلام (اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دینے) کی دعوت دی جا رہی ہو؟ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا "۔

اس آیت مبارکہ میں یہ بات ضاحت کے ساتھ بیان فرمائی جا رہی ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے دین اسلام کو تمام لوگوں کے لئے پسند فرمایا ہے اور قیامت تک جتنے بھی لوگ آئیں گے وہ اسی دین پر عمل کریں گے اور اسی دین کو قبول کریں گے تو جنت کے مستحق ہوں گے مگر جو لوگ اللہ کے بارے میں میں غلط باتیں کرتے ہیں اور جھوٹے بہتان باندھتے ہیں تو ان سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہوسکتا۔ مثلاً یہودی کہتے تھے کہ ہم اللہ کی چہیتی قوم ہیں اور ہم جنت میں جائیں گے ہمیں کوئی عذاب نہیں دیا جائے گا اگر دیا جائے گا تو وہ بھی وقتی ہوگا اسی طرح نصاریٰ کہتے تھے کہ ہم ہی صحیح دین پر ہیں تو اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں کہ تمہارے پاس اس بات کی کیا دلیل ہے کہ ہم نے تمہارے راستے کو ہی جنت کا راستہ بتایا ہے کیونکہ دین اسلام کے آنے سے سابقہ شریعتیں منسوخ ہو گئیں اب تم اللہ کے بارے میں بہتان باندھتے ہو، دین میں کسی نئی بات ایجاد کرنا بدعت کہلاتا ہے ہے اس میں کچھ لوگ لوگ اچھے اعمال کو اللہ کے قرب کا ذریعہ سمجھ لیتے ہیں حالانکہ ان اعمال کا قرآن اور حدیث سے کوئی ثبوت نہیں ملتا اللہ تبارک و تعالی کو وہ اعمال پسند ہیں جن کا حکم قرآن اور حدیث میں دیا گیا ہے قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے انسان کو زندگی گزارنے کے لئے تمام اصول اس میں بیان کر دیئے گئے ہیں تاکہ لوگوں کے لئے کوئی حجت باقی نہ رہے اور لوگ تفکر کرکے کے اپنے مسائل کا حل تلاش کریں ، تو اس کے باوجود بھی جو لوگ اپنی طرف سے نئے کام ایجاد کرتے ہیں تو وہ اللہ تعالی پر جھوٹ باندھ رہے ہیں تو ایسے شخص سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہو سکتا یعنی ان کے جھوٹ کو ظلم سے تعبیر کیا گیا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے کوئی نجات کا کا راستہ نہیں ہوگا۔اس آیت میں باطل کے رد کے لئے سوال کیا گیا ہے ۔

(۱۲)- سورة القلم میں ارشاد ربانی ہے:

          "اَمْ تَسْــَٔــلُہُمْ اَجْرًا فَہُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ،"اَمْ عِنْدَھُمُ الْغَيْبُ فَہُمْ يَكْتُبُوْنَ"۔ [[43]]

"کیا تم اِن سے کوئی اجر طلب کر رہے ہو کہ یہ اس چٹی کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہوں؟ ، کیا اِن کے پاس غیب کا علم ہے جسے یہ لکھ رہے ہوں؟" ۔

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

بظاہر خطاب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن مقصد ان منکرین سے یہ پوچھنا ہے کہ تم جو میرے رسول کی بات سننا بھی پسند نہیں کرتے بڑی کراہت اور ناگواری کا اظہار کرتے ہو کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم سے کچھ مانگتا ہے جس کی وجہ سے تم بوجھل بوجھل رہتے ہو یا تمہارے پاس ہے غیب سے کوئی اطلاع آئ ہے کہ یہ خدا کا فرستادہ نہیں۔ اگر کچھ نہیں تو پھر تمہارے بدکنے اور بھاگنے کی وجہ کیا ہے؟۔ [[44]]

 اس آیت مبارکہ میں منکرین سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں جو دین پڑھ کر سناتے ہیں کیا وہ اس کے عوض تم سے کوئی معاوضہ وصول کرتے ہیں یا تم سے کوئی مطالبہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے تم وہ معاوضہ ادا نہیں کرسکتے یا اس کے مطالبے کو پورا نہیں کر سکتے ؟ تو پھر ایسی کیا وجہ ہے کہ تم نبی کی بات سننے سے گریز کرتے ہو یعنی ایک شخص تمہیں بغیر کسی اجرت کے اور بغیر کسی معاوضے کے دین حق پڑھ کر سنا رہا ہے اور وہ یہی کہتا ہے کہ میرا اجر صرف اللہ کے ذمے ہیں اور تم اتنے سر کش اور ہٹ دھرم ہو کہ اس کی بات کو بھی سننا پسند نہیں کرتے۔ اللہ تبارک وتعالی یہاں پر بطور تعجب کے سوال فرما رہے ہیں کہ تم لوگ واضح گمراہی میں پڑے ہوئے ہو تبھی حق بات کو نہیں سن سکتے ؟ اگر کوئی شخص صحیح راستہ دکھائے تو اس راستے پر عقل والے لوگ عمل کرتے ہیں مگر تمہاری راہ کیسی عجیب ہے کہ تمہاری ضد حق کو اپنانے کے راستے میں میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

خلاصہ بحث

اسلام کی تعلیمات فطرت کے عین مطابق ہیں اللہ پاک نے انسان کو بنانے کے بعد ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ اسکو زندگی گزارنے کے آداب سکھائے ہیں معاشرہ میں رہتے ہوئے سب لوگوں کے ساتھ مل جل کر تعاون ، احساس اور ہمدردی کے تحت زندگی گزارنی ہے اسلامی تعلیمات زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتی ہیں خواہ کوئی بھی شعبہ ہو اس لئے اسلامی اصولوں کے تحت ہی ہم معاشرے کو پر امن بنا سکتے ہیں اور دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

 اس فصل میں تفسیر ضیاء القرآن کی روشنی میں فہم معاملات میں آیاتِ استفہام کو بیان کیا گیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں۔

 سورہ البقرہ آیت نمبر ۲۴۵,۲۴۷، سورہ النسآء آیت نمبر ۶۰,۷۵، سورہ الانعام آیت نمبر ۱۲۲، سورہ النحل آیت نمبر ۵۹,۷۲، سورہ القصص آیت نمبر ۵۷، سورہ الاحزاب آیت نمبر ۱۷، سورہ فاطر آیت نمبر ۴۳، سورہ محمد آیت نمبر ۲۴،۲۹، سورہ الصف آیت نمبر ۷، سورہ القلم آیت نمبر ۴۶,۴۷۔

 

 



[[1]]         القرآن ، ۷: ۱۷۲۔

[[2]]          لودھی ،بشیر احمد، توحید اور ہم، مکتبہ دارالسلام، لاہور،۲۰۰۷ء،ص ۸۹.۔

[[3]]       القرآن ، ۲: ۱۱۴۔

[[4]]       کرم شاہ، ضیاء القران۱/ ۸۷۔

[[5]]       القرآن ، ۲: ۱۳۸۔

[[6]]       کرم شاہ، ضیاء القران۱/ ۹۸۔ ۹۹۔

[[7]]       القرآن ،۵: ۷۶۔

[[8]]       کرم شاہ، ضیاء القران۱/ ۵۰۱۔

[[9]]       القرآن ، ۹: ۱۰۹۔

[[10]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۲/ ۲۵۴۔ ۲۵۵۔

[[11]]   کرم شاہ، ضیاء القرآن۲/ ۲۵۴۔ ۲۵۵۔

[[12]]    القرآن ، ۱۶: ۴۸۔

[[13]]    القرآن ، ۱۶: ۵۲۔

[[14]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۲/ ۵۷۵۔

[[15]]    القرآن ، ۲۵: ۶۰۔

[[16]]    القرآن ، ۵۳: ۲۱۔

[[17]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۵/۲۷۔

[[18]]       فارابی، محسن، اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات، دارالاسلام پبلشرز، ۲۰۰۷ء، ص۲۴.۔

[[19]]    القرآن ، ۲: ۲۴۵۔

[[20]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۱/ ۱۶۸۔ ۱۶۹۔

[[21]]    القرآن ، ۲: ۲۴۷۔

[[22]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۱/ ۱۷۱۔

[[23]]    القرآن ، ۴: ۶۰۔

[[24]]       کرم شاہ، ضیاء القران، ۱/ ۳۵۵۔

[[25]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۱/ ۳۵۶۔

[[26]]    القرآن ، ۴: ۷۵۔

[[27]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۱/ ۳۶۵۔

[[28]]    القرآن ، ۶: ۱۲۲۔

[[29]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۱/ ۳۹۶۔ ۵۹۷۔

[[30]]    القرآن ، ۱۶: ۵۹۔

[[31]]    القرآن ، ۱۶: ۷۲۔

[[32]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۲/ ۵۸۵۔ ۵۸۶۔

[[33]]    القرآن ، ۲۸: ۵۷۔

[[34]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۳/ ۵۰۳۔

[[35]]    القرآن ، ۳۳: ۱۷۔

[[36]]    القرآن ، ۳۵: ۴۳۔

[[37]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۴/ ۵۱۷۔

[[38]]    القرآن ، ۴۷: ۲۴۔

[[39]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۴/ ۱۶۱۔ ۱۶۲۔

[[40]]    القرآن ، ۴۷: ۲۹۔

[[41]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۴/ ۵۱۸۔

[[42]]    القرآن ، ۶۱: ۷۔

[[43]]    القرآن ، ۶۸: ۴۶۔ ۴۷۔

[[44]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۵/ ۳۴۱۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...