Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

فصل پنجم: آیاتِ استفہام میں فہم آخرت
ARI Id

1695203136242_56118330

Access

Open/Free Access

Pages

360

 عقیدہ آخرت یا ایمان بالآخرة ارکانِ ایمان کا سے ایک رکن ہے اور اس سے انکار کفر ہےموت ایک اٹل حقیقت ہے جسے زندگی ملی اسے موت سے بھی دوچار ہونا پڑے گا۔

ارشاد ربانی ہے:

"كُلُّ نَفْسٍ ذَاىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۰ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ"۔[[1]]

"ہر جان موت کو چکھنے والی ہےاور قیامت کے دن تم اپنے پورے پورے بدلے دیئے جاؤ گے"۔

اس آیت میں اللہ تعالٰی نے فرما دیا ہے کہ جو زندگی تم اس فانی دنیا میں گزارو گے اپنے اعمال کے مطابق سزا یا جزا پاؤ گے اور کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔

حافظ مبشر حسین تحریر فرماتے ہیں:

 "جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان اور یہ کائنات حادثاتی طور پر خودبخود پیدا ہوگئ تھی موت کے بارے میں بھی ان کی یہی سوچ ہے کہ یہ سب خودبخود فنا ہو جائے گا۔لیکن اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق و مالک ہے جس نے خاص مقصد کے تحت اس کائنات اور اس میں بسنے والوں کو وجود بخشا ہے اسی کے حکم سے انسان پیدا ہوتا ہے اور اسی کے حکم سے مرتا ہے انسان کو پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے پیدا کرنے والے کی عبادت کرے اور اسی کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرے گویا زندگی انسان کے لیے مہلت ہےاس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگلی زندگی کی بہتری کی کوشش کی تو وہ کامیاب اور اگر اس مہلت سے فائدہ نہ اٹھا سکا تو اگلی زندگی میں بھی نقصان اٹھانے والوں کی صف میں ہوگا"۔[[2]]

اس فصل میں تفسیر ضیاء القران کی روشنی میں عقیدۂ آخرت کے فہم میں آیاتِ استفہام پیش کی جا رہی ہیں۔

(۱) سورة البقرة میں ارشاد ربانی ہے:

"اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَہُمُ اللہُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْيَاھُمْ اِنَّ اللہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ"۔[[3]]

"تم نے اُن لوگوں کے حال پر بھی کچھ غور کیا، جو موت کے ڈر سے اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ اللہ نے اُن سے فرمایا: مر جاؤ پھر اُس نے اُن کو دوبارہ زندگی بخشی حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے "۔

اس آیت کی تفسیر میں پیر کرم شاہ یوں رقمطراز ہیں:

" آیت کا مقصد مسلمانوں کوکسی گزشتہ قوم کے عمل سے عبرت دلانا ہے جو موت کے ڈر سے بھاگ نکلی تھی لیکن اللہ تعالی نے وہ موت جس سے وہ بھاگے تھے ان پر مسلط کردی۔پھر کچھ عرصہ بعد انھیں نئی زندگی عطا فرمائی۔ اور اس طرح مارنے اور جلانے سے مدعا ان کو یہ سمجھانا تھا کہ موت سے بھاگنے کی کوشش کرنا بے سود ہے نہ تم اپنی سعی وکوشش سے اپنی موت کوٹال سکتے ہو اور نہ زندگی بڑھاسکتے ہو۔اور اس واقعہ کے ذکرکرنے سے امت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتانا مقصود تھا کہ تم ایسا مت کرنا۔ وہ کون تھے؟ کہاں سے بھاگے تھے؟ کیوں بھاگ گئے تھے؟ یہ ایسی تنقیحات ہیں جن میں الجھنے کا کوئی فائدہ نہیں اس لیے قرآن نے ان کا ذکر نہیں کیا۔ "[[4]]

"اب معنی یہ ہوگا کہ وہ ایسی حالت میں اپنے گھروں سے نکلے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس آیت سے علماء کرام نے یہ مسئلہ بھی اخذ کیا ہے کہ اگر کہیں وباپھوٹ پڑے تو وہاں کے لوگوں کو بھاگ کھڑا نہیں ہونا چاہیئے۔کیونکہ اگر تندرست بھاگ نکلے تو بیماروں کی تیمارداری کون کرے گا۔ نیز اس بھگدڑ سے ایسی خرابیاں پیدا ہوں گی جن کا پہلے اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ نیز اگر مرض متعدی ہے توممکن ہے کہ ان کی وجہ سے بیماری کے جراثیم صحت مند علاقوں میں منتقل ہو جائیں اور وہاں بیماری پھیل جائے اور اس حکم کی سب سے بڑی حکمت جو بحیثیت دین اسلام کے پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ اس طرح لوگوں کا عقیدہ متزلزل ہو جائے گا اور اللہ تعالی کے سوا دوسرے اسباب کو وہ محی وممیت سمجھنے لگیں گے۔ جس طرح اسلام نے وبازدہ علاقوں سے بھاگنے سے منع فرمایا اسی طرح اس میں داخل ہونے سے بھی روکا۔"[[5]]

 اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک معلومات کو یقینی بنانے کے لئے سوال فرما رہے ہیں کہ ایک ایسی قوم گزری ہے جو موت کے ڈر سے اپنے علاقے کو چھوڑ کر فرار ہوگئی تھی مگر اللہ تبارک و تعالی نے ان پر موت کو مسلط کر دیا اور یہ بات واضح کر دی کہ تم لوگ جہاں بھی ہوگئے موت تم کو پالےگی کیونکہ اگر کوئی انسان موت سے ڈر کے کسی جگہ بھی پناہ لے لے کہیں بھی چھپ جائے مگر موت کسی بھی لمحے اس کو پالے گی اور اس آیت میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے اگر کسی جگہ بیماری پھیل جائے تو اس علاقے سے نہ نکلو کیونکہ جو کچھ اللہ نے تمہاری تقدیر میں لکھ دیا ہے وہ بیماری بھی تم حاصل کر کے رہوں گے اپنا یقین اللہ پر پختہ رکھو۔

(۲)- سورة الاعراف میں ارشاد خداوندی ہے:

"اَفَاَمِنَ اَھْلُ الْقُرٰٓي اَنْ يَّاْتِـيَہُمْ بَاْسُـنَا بَيَاتًا وَّھُمْ نَاۗىِٕمُوْنَ"۔[[6]]

"پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک اُن پر رات کے وقت نہ آ جائے گی جب کہ وہ سوتے پڑے ہوں؟ "۔

"اَوَاَمِنَ اَھْلُ الْقُرٰٓي اَنْ يَّاْتِـيَہُمْ بَاْسُـنَا ضُـحًى وَّھُمْ يَلْعَبُوْنَ، اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللہِ۝۰ۚ فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ"۔[[7]]

"یا انہیں اطمینان ہو گیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟، کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو "۔

پھر ارشاد فرمایا:

"اَوَاَمِنَ اَھْلُ الْقُرٰٓي اَنْ يَّاْتِـيَہُمْ بَاْسُـنَا ضُـحًى وَّھُمْ يَلْعَبُوْنَ، اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللہِ۝۰ۚ فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ"۔[[8]]

"یا انہیں اطمینان ہو گیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟، کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو "۔

ان آیات کی تفسیر میں پیر کرم شاہ یوں رقمطراز ہیں:

"اے مکہ اور اس کے اردگرد بسنے والو پہلے نبیوں کو جھٹلانے والی قوموں کا یہ انجام ہوا اگر تم میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے اور اس کی مخالفت پر کمر بستہ رہے تو کسی وقت بھی تم پر عذاب نازل کر دیا جائے گا اور تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی جائے گی۔"[[9]]

 ان آیات میں اللہ پاک یہ بیان فرما رہے ہیں کہ یہ کافر لوگ جو شرک و گمراھی میں مبتلا ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلاتے ہیں آپ کو تکلیف دیتے ہیں آپکے ماننے والوں کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں تو کیا وہ اللہ کی پکڑ سے بے خوف ہو گئے ہیں تو یہاں بطور تعجب کے استفہام فرمایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ کس غفلت کا شکار ہیں حالانکہ ان کے پاس ایسی بہت سی بستیوں کے کھنڈرات موجود ہیں جن قوموں نے اپنے نبیوں کو جھٹلایا تھا اللہ کے حکم کو سرپشت ڈال دیا تو ان قوموں پر دوپہر کے وقت اور کسی پر رات کے وقت جب وہ آرام کر رہے تھے ایسا عذاب نازل کیا گیا کہ انکی بستیوں کو الٹ کر رکھ دیا گیا تو اب اگر کفار مکہ بھی ان کی طرح کا رویہ اپنائیں گے تو انکی طرح عذاب سے دوچار کیے جائینگے۔

(۳)- سورة الاعراف میں دوسرے مقام پر ارشادِ الٰہی ہے:

"اَوَلَمْ يَہْدِ لِلَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَھْلِہَآ اَنْ لَّوْ نَشَاۗءُ اَصَبْنٰہُمْ بِذُنُوْبِہِمْ، وَنَطْبَعُ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ"۔[[10]]

"اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہل زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اِس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انہیں پکڑ سکتے ہیں؟ (مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافل برتتے ہیں) اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سنتے"۔

"ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِھِمْ مُّوْسٰي بِاٰيٰتِنَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕہٖ فَظَلَمُوْا بِہَا، فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِيْنَ"۔[[11]]

"پھر اُن قوموں کے بعد (جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے) ہم نے موسیٰؑ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس بھیجا مگر انہوں نے بھی ہماری نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا، پس دیکھو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا"۔

 ان آیات کی تفسیر کے ماتحت پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

 " مشرکین مکہ بڑے کم فہم ہیں گزشتہ قوموں کی تاریخ سے یہ اتنی عبرت بھی حاصل نہیں کرتے کہ نافرمانی کے باعث ان کا کتنا برا انجام ہوا۔ اور جس مالک وقادر نے ان کو ان کے کرتوتوں پر سزا دی اس کی قوت و طاقت سلب نہیں ہوگئ۔ وہ آج انہیں بھی سزا دینے پر قادر ہے۔مذکورہ بالا انبیاء کے بعد فرعون جو اپنے آپ کو خدا یا مظہر خدا سمجھتا تھا کی طرف اور اس کے درباریوں کی طرف حضرت موسی کلیم علیہ السلام مبعث کیے گئے اور انہیں زبردست معجزے عطا کیے گئے تاکہ کسی کو آپ کی صداقت میں شک نہ رہے۔ ہر خاص و عام سمجھ لے کہ ایسے معجزے دکھانے والا صرف اللہ تعالی کا رسول ہی ہوسکتا ہے۔ یہاں ظلم بمعنی کفر ہے کیونکہ معجزات کے ساتھ ظلم یہی ہے کہ ان کو دیکھ کر دعوت حق قبول کرنے کے بجائے اس کا شدت سے انکار کردیا جائے ۔"[[12]]

 اس آیت مبارکہ میں یہ بات بیان کی جا رہی ہے کہ کفار مکہ جو غفلت کا شکار ہیں کیا وہ سابقہ اقوام کے واقعات سے عبرت حاصل نہیں کرتے کہ ان لوگوں نے بھی سرکشی میں زندگی گزاری، اللہ کے حکم سے اعراض کرتے تھے انبیائے کرام کی باتوں پر دھیان نہیں دیتے تھے تو ان کو جس عذاب سے دوچار ہونا پڑا تو کچھ بعید نہیں کہ سرکشی کے سبب یہ لوگ بھی اس عذاب کی زد میں آجائیں گے کیونکہ دنیا عارضی ہے اور جو کچھ بھی کروگے اسی کے مطابق انجام پاؤ گے پھر موسی علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے اسے فرعون کی طرف سے دین کی دعوت دینے کے لیے بھیجا تو فرعون کے انکار کرنے پر اللہ پاک نے موسی علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں کو فرعون سے نجات عطا فرمائی ،فرعون اور اس کے لشکر کو پانی میں غرق کر دیا گیا، یہاں بطور استفہام تعجب کیا جا رہا ہے کہ فرعون کی لاش جو کہ آج بھی موجود ہے اور عبرت کا نشان ہے اس کے ہوتے ہوئے، اتنی بڑی نشانی کو دیکھ کر اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے تو کچھ بعید نہیں کہ یہ لوگ بھی ان کی طرح عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔

(۴)- سورةيونس میں ارشاد ربانی ہے:

"اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِہٖ اٰۗلْــٰٔنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ ، ثُمَّ قِيْلَ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِ، ہَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ "۔[[13]]

"کیا جب وہ تم پر آ پڑے اسی وقت تم اسے مانو گے؟ اب بچنا چاہتے ہو؟ حالانکہ تم خود ہی اس کے جلدی آنے کا تقاضا کر رہے تھے! ، پھر ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب ہمیشہ کے عذاب کا مزا چکھو، جو کچھ تم کماتے رہے ہو اس کی پاداش کے سوا اور کیا بدلہ تم کو دیا جا سکتا ہے؟ "۔

"وَيَسْتَنْۢبِـــُٔـوْنَكَ اَحَقٌّ ھُوَ ؔ قُلْ اِيْ وَرَبِّيْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ، وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ"۔[[14]]

"پھر پُوچھتے ہیں کیا واقعی یہ سچ ہے جو تم کہہ رہے ہو؟ کہو “میرے رب کی قسم، یہ بالکل سچ ہے اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے ظہُور میں آنے سے روک دو"۔

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"تمہاری جلد بازی سے اللہ تعالی اپنے فیصلے تبدیل نہیں کرتااور جب وہ وقت آئے گا جو تم پر عذاب نازل کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے تو اس کو کوئی روک نہیں سکے گا اس وقت اگر تم ایمان لے بھی آؤ گے تو وہ ایمان قبول نہیں ہوگا۔عذاب کے بارے میں بار بار یہ پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی آئے گا یا یہ محض خیالی دھمکیاں ہے جن کی کوئی حقیقت نہیں آپ فرمائیے کہ میں خدا کی قسم کھا کر تمہیں بتاتاہوں کہ یہ دھمکیاں نہیں بلکہ حقیقت ہے جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔اس دنیاوی بربادی کے علاوہ قیامت کے دن بھی ان کو ذلیل ورسوا ہونا پڑے گا سارے انبیاء اور ان کی امتیں جمع ہونگی۔ یہ غریب و نادار مسلمان جن کو آج یہ بڑی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ عزت و کرامت کی خلعتیں پہنے کھڑے ہونگے ان سب کے سامنے ان سرکشوں کو شرمسار کیا جائے گا۔"

اس آیت میں بطور انذار کے اللہ تعالیٰ یہ حکم فرما رہے ہیں کہ کیا یہ لوگ جس عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں نبی کریم کو پریشان کرتے ہیں کہ تم جس عذاب سے ہمیں ڈراتے ہو جو قیامت کا تذکرہ کرتے ہو وہ کیوں نہیں آتی ہمیں لاکر دکھاؤ اور اگر تم سچے ہو تو اللہ تعالی بطور تنبیہ کے فرما رہے ہیں کہ اگر وہ عذاب تم پر آگیا تو تم کو کوئی مہلت نہیں دی جائے گی پھر چاہے تم لاکھ توبہ کرو چاہے تم کتنی ہی فریادرسی کرو تو اس وقت تمہیں کسی بھی قسم کی کوئی مہلت نہیں دی جائے گی، تم لوگ ایمان والے لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہو تو یاد رکھو اللہ تعالی قیامت کے دن تمام لوگوں کو جمع فرمائے گا اور یہی ایمان والے لوگ بلند درجے پر فائز ہوں گے اس وقت تم لوگوں کے پاس سوائے شرم اور نادانی کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا اس وقت تم جتنی بھی توبہ کرو گے تم سے نہ ہی توبہ قبول کی جائے گی اور نہ ہی کوئی عذر یا فدیہ قبول کیا جائے گا اس لئے دنیا میں آگاہ کرنے کا مقصد کہ تم عبرت حاصل کرو اگر تم نہیں کرتے تو انجام کار کے تم خود ذمہ دار ہو گے کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے تمام لوگوں کی ہدایت کے لیے انبیاء کرام بھیجے اور دین کی تعلیمات کو پھیلانے کے لیے لیے مقدس کتابیں نازل فرما کر اتمام حجت فرما دی ہے۔

(۵)- سورة النحل میں اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں:

"ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يُخْــزِيْہِمْ وَيَقُوْلُ اَيْنَ شُرَكَاۗءِيَ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تُشَاۗقُّوْنَ فِيْہِمْ قَالَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اِنَّ الْخِزْيَ الْيَوْمَ وَالسُّوْۗءَ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ"۔[[15]]

"پھر قیامت کے روز اللہ اُنہیں ذلیل و خوار کرے گا اور اُن سے کہے گا "بتاؤ اب کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے لیے تم (اہل حق سے) جھگڑے کیا کرتے تھے؟" جن لوگوں کو دنیا میں علم حاصل تھا وہ کہیں گے "آج رسوائی اور بدبختی ہے کافروں کے لیے"۔

اس آیت میں قیامت کا منظر پیش کیا جا رہا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی سب لوگوں کو جمع فرمانے کے بعد مشرکین سے استفسار فرمائے گا کہ دنیا میں تم اللہ کو چھوڑ کر جن کے پاس اپنی فریاد لے کر جاتے تھے جن کو اپنا مشکل کشا سمجھتے تھے جن کو اپنا حاجت روا سمجھتے تھے وہ لوگ آج کہاں ہیں ان کو بلاؤتاکہ وہ تمہاری کچھ مدد کر سکیں۔ دنیا میں اہل حق لوگ تمہیں ان باتوں سے منع کرتے تھے تو تم لوگ ان سے سے جھگڑے کیا کرتے تھے مگر افسوس کہ ان کے شریک آج منہ موڑ لیں اور مکر جائیں گے کہ اے اللہ! ہم نے انہیں نہیں کہا تھا کہ تم ہماری باتوں کی پیروی کرو اس دن پھر اہل علم لوگ سوچیں گے کہ آج تو ان لوگوں کے لئے بہت زیادہ رسوائی کا مقام ہےمگر اس دن کوئی تدبیر کام نہ آسکےگی کیوں کہ اللہ تعالی کے سامنے سب کچھ عیاں ہیں اور وہ ان کے بھید سب کے سامنے ظاہر فرمادے گا تو ان کے لئے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ اس آیت میں مشرکین کی ذہنی عکاسی کرنے کے بعد بطور انذار کے سوال کیا جا رہا ہے۔

(۶)-سورة ق میں اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں:

"وَكَمْ اَھْلَكْنَا قَبْلَہُمْ مِّنْ قَرْنٍ ھُمْ اَشَدُّ مِنْہُمْ بَطْشًا فَنَقَّبُوْا فِي الْبِلَادِ ھَلْ مِنْ مَّحِيْصٍ"۔[[16]]

"ہم ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو ان سے بہت زیادہ طاقتور تھیں اور دنیا کے ملکوں کو انہوں نے چھان مارا تھا پھر کیا وہ کوئی جائے پناہ پا سکے؟ "

اس آیت کی تفسیر میں پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"اہل مکہ کو بتایا جا رہا ہے کہ تم سے پہلے کئی قومیں گزر چکی ہیں۔ انہوں نے اپنی قوت اور عسکری طاقت کے بل بوتے پر دوسرے ممالک پر لشکر کشی کی اور ان کو اپنا زیر نگیں بنایا۔ وہاں بھی ان کا ڈنکا بجتا تھا اور ان کا سکہ رواں تھا۔ وہ اپنی سر زمین کے معاشی و سائل کے علاوہ مفتوحہ ممالک کے وسائل معیشت سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا کرتے تھے۔ ان کی آن بان اور ٹھاٹھ باٹھ دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کردیا کرتی تھیں۔ لیکن یہ ساری قوتیں اور خوشحالیاں انہیں ہماری گرفت سے نہ بچا سکیں۔ اے اہلِ مکہ تم کس بات پر یہ نخرے کر رہے ہو۔"

"دولت مند لوگ جب کسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور اپنے ملک کے معالجین کے علاج سے فائدہ نہیں ہوتا تو وہ موت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے دور دراز ممالک میں جاتے ہیں، سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں، لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں لیکن جب موت کا مقرر وقت آتا ہے تو کوئی ڈاکٹر اور حکیم انہیں نہیں بچا سکتا۔اس آیت میں قلب سے مراد دلِ بینا ہے جو حقیقت کو دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ جو دل دیکھنے اور سمجھنے سے محروم ہو اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ اور اس کو دل کہنا بھی صحیح نہیں ہے۔"

اس آیت مبارکہ میں کفار مکہ کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ تم سے پہلے جو قومیں عادو ثمود ،قوم نوح و قوم لوط جو کہ بہت طاقتور بھی تھیں ان کے پاس دولت کی بھی فراوانی تھی دنیا میں ان کی طاقت کا سکہ چلا کرتا تھااور ان کی حکومت ہوا کرتی تھی ۔ انہوں نے اللہ کے حکم سے اعراض کیا تو ان پر بھی عذاب مسلط کردیا گیا یا پھر ان کی دولت، طاقت اور قوت کوئی بھی چیز ان کو اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکی تو تم لوگ اپنی طاقت، خاندان اور دولت پر بھروسہ کرتے ہو تو یاد رکھو کہ اللہ کے لیے تم کو عذاب دینا ذرا بھی مشکل نہیں ہے اگر تم اپنی سرکشی سے باز نہ آئے اور ایمان لے کر نہ آئے تمہارا انجام بھی پچھلی قوموں سے مختلف نہ ہوگا، اسی طرح دنیا میں بھی رسوائی کا عذاب دیا جائے گا اور آخرت میں بھی ہمیشہ کے لئے جہنم کے مستحق قرار پاؤ گے آج وقت ہے توبہ کر لو اور ایمان لے آؤ تو پھر تم نجات پاجاؤ گے۔

 

(۷)-سورة المرسلات میں ارشادِ الٰہی ہے:

"وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الْفَصْلِ، اَلَمْ نُہْلِكِ الْاَوَّلِيْنَ۔ "[[17]]

"اور تمہیں کیا خبر کہ وہ فیصلے کا دن کیا ہے؟ ، کیا ہم نے اگلوں کو ہلاک نہیں کیا؟ "۔

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"حوادثِ دہراسے کتنا ہی پریشان کریں مصائب وآلام کے پہاڑ اس پر کیوں نہیں ٹوٹتے رہے اس کے دل کی کیفیت نہیں بدلتی۔ بندگی اور تسلیم و رضا کی جس لذت سے اسے نوازا گیا ہے ہمہ وقت وہ اسی سے سرشار رہتا ہے۔منیب یعنی جو اخلاص کے ساتھ اطاعت کی طرف متوجہ رہے۔اس روز بڑی تباہی اور ہلاکت کا سامنا ان لوگوں کو کرنا پڑے گا جو اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی لائی ہوئی کتاب کی تکذیب کرتے ہیں جو وقوع قیامت کا انکار کرتے ہیں، ستاروں کا وجود بھی مٹ جائے گا یہ بے نور ہو جائیں گے۔تباہی اور ہلاکت نازک ہوگئی۔"

"اہل مکہ جو بڑی شدت سےوقوع قیامت کا انکار کیا کرتے تھے۔انھیں بتایا جا رہا ہے کہ اگر وہ اپنے سے پہلے گزری ہوئی قوموں کے انجام پر غور کریں اور اس کی وجہ تلاش کریں تو انہیں قیامت پر ایمان لانے میں کوئی دقت نہ ہو گی۔عاد، ثمود قوم نوح،قوم فرعون جسمانی قوت وزور میں کسی سے کم نہ تھی دولت اور ثروت کے بھی ان کے پاس انبار لگے تھے ان کے پاس لشکر جرار تھے ان کے سپاہی تجربہ کار اورجنگجو تھے۔ ان کے پاس ماہرین حرب جرنیلوں کی بھی کمی نہ تھی اپنے زمانے کے معیار کے مطابق علوم وفنون میں بھی کسی قوم سے پیچھے نہ تھے۔ ان کی کاروباری مہارت بھی لاجواب تھی۔اگر ان چیزوں کو پیش نظر رکھا جائے تو ان کو قوموں کو مدت دراز تک عزت واقبال سے زندگی بسر کرنی چاہیے تھی ان کے اقتدار کا نقارہ دیر تک بجتا رہتا لیکن اہل مکہ تم یہ جانتے ہو کہ انہیں آنافانا تباہ کر دیا گیا اس کی وجہ اس کے بغیر اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کے اعمال بڑے قبیح، ان کی حرکتیں بڑی ذلیل اور ان کے اخلاق بہت بگڑے ہوئے تھے۔جھوٹ، بدعہدی لوگوں پر ظلم و تشددان کا وطیرہ بن گیا تھا۔ وہ عیش و عشرت میں بڑی دریا دلی سے اپنی دولت کو لٹاتے اور معصوم عصمتوں کو بڑی بے دردی سے لوٹتے۔ گمراہی اور برائ میں بغیرکسی جھجک کےان کے یوں مگن ہونے کاسبب یہی تو تھا کہ انہیں اپنے محاسبہ کاکوئی اندیشہ نہ تھا۔"

ان کو اگر یہ خیال ہوتا کہ حساب بھی دینا ہے تو وہ فسق وفجور میں غرق نہ ہوتے۔ قیامت سے بےپرواہ ہو کر وہ نافرمانی کی دلدل میں نہ دھنستے ، یہاں تک کہ ان کی برے اعمال کے نتائج دنیا ہی میں ظاہر ہو گئے اور ان کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔ان کا انجام بیان کرنے کے بعد بطور تنبیہ کفار مکہ سے استفسار کیا جا رہا ہے کہ اے اہل مکہ! اگر تم بھی انہی کی طرح عذاب سے دوچار ہوناچاہتے ہو تو بے شک اس روش کو نہ چھوڑو وگرنہ قیامت پر ایمان لا کر اپنے آپ کو تباہی و بربادی سے بچالو۔ اپنے محاسبہ کے ڈر سے ہی تمہارے دماغ جو بگڑے ہوئے ہیں درست ہو سکتے ہیں۔

(۸)- سورة المطففین میں اللہ پاک فرماتے ہیں:

"وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا سِجِّيْنٌ"۔[[18]]

"اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ قید خانے کا دفتر کیا ہے؟ "۔

"وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا عِلِّيُّوْنَ"۔[[19]]

"اور تمہیں کیا خبر کہ کیا ہے وہ بلند پایہ لوگوں کا دفتر؟ "۔

 اس آیت کی تفسیر میں پیر کرم شاہ یوں رقمطراز ہیں:

وہ یہ نہ سمجھیں کہ قیامت تو عرصہ دراز کے بعد برپا ہوگی۔ اس وقت تک کسے یاد رہے گا کہ کس نے کیا کیا اور وہ صحیفے ہیں جن میں ان کے اعمال لکھے جارہے ہیں وہ بھی بوسیدہ ہو کر پھٹ جائیں گے۔ ان کی اس غلط فہمی کو دور کیا جا رہا ہے کہ ان کے لیے ایک بہت بڑا دفتر ہے جس کا نام سجین ہے جب یہ مر جائیں گے اور ان کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جائے گا تو ان کے تمام اعمال اس بڑے دیوان میں محفوظ کر دیئے جائیں گے۔ اس لئے ان کے کرتوتوں کے فراموش ہونے یا ان صحائف کے بوسیدہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔سجین کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن جب خود قرآن نے اس کی وضاحت کردی کہ یہ اس کتاب کا نام ہے جس میں ان کے اعمال سے سیئہ لکھ کر محفوظ کر دیے جائیں گے تو پھر مزید چھان بین کی ضرورت نہیں۔ اس لیے ان آیات میں سجین سے وہ دیوان مراد ہے جہاں اہل جہنم کے اسماء اور ان کے اعمال لکھے ہوئے ہوں گے۔ بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ سجین ایک جگہ کا نام ہے جہاں دوزخیوں کی روحیں محفوظ ہوگی۔ اس لئے علامہ آلوسی لکھتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس کتاب کا نام بھی سجین ہو اور اس مقام کا نام بھی سجین ہو جہاں کفار کی روحیں ہیں۔ تاکہ آیت اور اخبار میں کسی قسم کا تعارض نہ ہو۔جس دیوان میں ابرار وصالحین کے اعمال حسنہ لکھ کر محفوظ کر دیئے جائیں گے اس کا نام علیین ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ علیین سبز رنگ کی کی ایک لوح ہے۔ جو عرش کے ساتھ معلق ہو گی اور اس میں صالحین کے اعمال مکتوب ہوں گے"

 "مومنین کی ارواح کا مقر توعلیین ہے یاساتویں آسمان میں اور کفار کی روحوں کاٹھکانہ سجین میں ہے۔اس کے باوجود ہر روح کا اپنے جسم کے ساتھ اپنی قبر میں ایک تعلق ہے۔ جس کی حقیقت کو اللہ تعالی ہی جانتا ہے اسی تعلق کی وجہ سے میت اپنے زائر کے سلام کو سنتی ہے اور منکر نکیر کے سوالوں کا جواب دیتی ہے۔ اسی طرح دوسرے احوال جو کتاب و سنت سے ثابت ہے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد علامہ موصوف اس کی ایک مثال دیتے ہیں کہ جبرائیل کا اصل مقام تو آسمانوں میں ہے لیکن وہاں ہوتے ہوئے وہ بارگاہ رسالت کے اس قدر نزدیک ہوتا کہ اپنے ہاتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رانوں پر رکھ دیتا۔"

 اس آیت میں لوگوں کے اعمال کے لکھے جانے اور ان کو محفوظ کرنے کے متعلق خبر دی جا رہی ہے کہ جو لوگ برے عمل کرتے ہیں ان کے اعمال کو "سجین" نامی دفتر میں درج کر دیا جاتا ہے۔ اور جو لوگ نیک اعمال کرتے ہیں ان کے اعمال درج کرنے کے لئے"علیین" نامی دفتر موجود ہے جس میں ان کے تمام اعمال محفوظ کر دیے جاتے ہیں، تاکہ قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالی ان کے نامہ اعمال کے رجسٹر ان کے سامنے کھول کر رکھ دے گا اور کہا جائے گا کہ اپنا اپنا نامہ اعمال پڑھو تم نے جو بھی اچھے یا برے اعمال کیے تھے وہ تمام ہمارے مقرر کردہ فرشتے اس میں درج کئے جاتے تھے۔تو آج تم کسی بھی عمل سے جھوٹ کے ذریعے نہیں مکرسکتے یہاں بطور انذار کے استفہام کیا جا رہا ہے کہ تم جو سمجھتے ہو کہ ہم دنیا میں لوگوں سے چھپا کر کچھ کر لیں گے تو آخرت میں اسے کون ظاہر کرے گا؟ تو اللہ تبارک و تعالی کو ہر عمل کی خبر ہے جو کہ وہ تنہائی میں کریں یا ظاہری بجا لائیں ان کے سامنے عیاں کر دیا جائےگا اور پھر اسی کے مطابق سزا یا جزا کا فیصلہ کیا جائے گا۔

(۹)-سورة البلد میں ارشادِ حق تعالیٰ ہے:

"وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَۃُ"۔[[20]]

"اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟ "۔

اس آیت کی تفسیر میں پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

آیت کا مدعا یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ یہ جھوٹی ناموری حاصل کرنے کے لیے اپنی دولت کویوں لٹاتے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جب ان کے سامنے بھلائی اور برائی کے راستے واضح کر دیے گئے تھے تو وہ اس راستے پر چلتے جو حقیقی بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ اگرچہ وہ راستہ کٹھن ہے اور اس کو طے کرنا بڑا دشوار ہے لیکن سخت کوشش سے ان کی سہل انداز طبیعت کو کوئی مناسبت نہیں۔ وہ لڑھکنا جانتے ہیں،وہ بلندیوں کی طرف پرواز کرنے سے قاصر ہیں۔[[21]]

 اس آیت میں جہنم کی ایک گھاٹی کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ جو لوگ نمائش، دکھلاوا اور برے کاموں میں دولت خرچ کرتے ہیں ان کے لیے اس گھاٹی میں عذاب تیار کیا جائے گا مگرجو لوگ دنیا میں غریبوں کو کھانا کھلاتے تھے ،مساکین کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے، قیدیوں کو آزاد کرواتے تھے ، یتیموں کی کفالت کرتے تھے تو وہ لوگ اس گھاٹی سے بچا لیے جائیں گے اللہ تبارک و تعالی بطور انذار و رغبت کے استفہام فرما رہے ہیں کہ تم نہیں جانتے کہ وہ " عقبہ" کیا ہے؟ جہنم کے مختلف درجے ہیں اور ان کے مختلف نام ہیں انسان کو اس کے اعمال کے مطابق اسی درجے میں داخل کیا جائے گا مثلاً جو لوگ منافق ہیں ان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ "اسفل سافلین" سب سے نچلے درجے میں ہوں گے، استغفراللہ! دنیا میں اللہ تبارک و تعالی نے ہمیں توبہ کرنے اور نیک اعمال کرنے کے لئے مہلت عطا فرمائی ہے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم نیک اعمال کرکے جہنم کے ہر درجہ سے نجات حاصل کرلیں اور جنت الفردوس کے وارث بن جائیں جس میں ہمارے لئے کامیابی اور کامرانی ہیں کیونکہ جو انسان جنت میں داخل ہوگیا تو گویا وہ کامیاب ہوگیا۔

(۱۰)- سورة الهمزة میں ارشاد فرماتے ہیں:

"وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْحُطَمَۃُ"۔[[22]]

"اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ چکنا چور کر دینے والی جگہ؟"۔

اس آیت کی تفسیر کے ماتحت پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:

"حطمة، حطم سے ہے اس کالغوی معنی توڑڈالنا،پیس ڈالنا،ریزہ ریزہ کردینا۔یہ دوزخ کے ایک طبقے کانام ہے جس کی آگ اتنی تیز ہوگی کہ جوچیز اس میں پھینکی جائے گی آن واحد میں اس کوپیس کررکھ دےگی،اس کے پرزے اڑادے گی۔"[[23]]

 قرآن مجید میں ہمیں جنت اور جہنم کے مختلف درجات کے ناموں کے بارے میں اطلاع ملتی ہے سورۃ الھمزة کی اس آیت میں اللہ تبارک و تعالی جہنم کے ایک درجے کا ذکر فرما رہے ہیں ہیں جس کا نام "حطمة " ہے اس میں گنہگار لوگوں کو ڈالا جائے گا اور اس کی آگ اتنی تیز ہوگی کہ جو چیز اس میں ڈالی جائے گی وہ اس کو ایک سیکنڈ میں جلاکر راکھ بنا دے گی ( استغفرُ اللہ)اور ایک لمحے میں وہ جسم بالکل ختم ہو جائے گا اور اسکی کی راکھ اڑا دی جائے گی اور دوبارہ پھر انسان کو بنا کر اس کے ساتھ یہی معاملہ کیا جائے گا ۔ جہنم کا ہر درجہ ہی بہت سخت ہے اللہ تبارک و تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک ہمیں جہنم کے ہر درجے سے بچائے اور ہمیں جہنم کی آگ سے محفوظ فرمائے یہاں پر اللہ تبارک وتعالی جہنم کی سختی سے سے متنبہ فرما کر بطور انذار کے سوال فرما رہے ہیں کہ تم لوگ نہیں جانتے کہ "حطمة" کیا ہے؟ وہ ایسی آگ ہے جو کہ ایک سیکنڈ میں انسان کے وجود کو جلا کر راکھ کر دے گی۔دنيا کی زندگی عارضی ہے یہاں تو انسان کو صرف اچھے اعمال کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے جو انسان اس دنیا میں رہ کر برے راستے سے منہ موڑ کے بھلائی اور ہدایت کے راستے پر چلے گا وہ اپنی اخروی زندگی جو کہ ہمیشہ کے لئے ہے اس میں فلاح پا جائے گا اور مومن کے لئے تو یہ دنیا قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت ہے اسی لئے قرار دی گئی ہے کہ کافر لوگ اسی میں عیش و عشرت کر کے زندگی گزار جائیں گے اور ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہ ہوگا اور مومنین اس زندگی کو اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزاریں گے اپنی خواہشات کی پیروی نہیں کریں گے اپنی رضا پر اللہ کی رضا کو مقدم رکھتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لئے باغات کے وعدے کئے گئے ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہونگی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان جنتوں میں رہیں گے ۔انشاء اللہ ۔



[[1]]         القرآن ، ۳: ۱۵۸۔

[[2]]          مبشر حسین، انسان اور آخرت،مبشر اکیڈمی،لاہور،۲۰۱۶ء ص۱۴.

[[3]]       القرآن ، ۲: ۲۴۳۔

[[4]]       کرم شاہ، ضیاء القرآن۱/ ۱۶۷۔

[[5]]       کرم شاہ، ضیاء القرآن۱/ ۱۶۸۔

[[6]]       القرآن ، ۷: ۹۷۔

[[7]]       القرآن ، ۷: ۹۸۔

[[8]]       القرآن ، ۷: ۹۹۔

[[9]]       کرم شاہ، ضیاء القران۲/ ۶۲۔

[[10]]    القرآن ، ۷: ۱۰۰۔

[[11]]       القرآن ، ۷: ۷۵۔

[[12]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۲/ ۶۴۔

[[13]]    القرآن ، ۱۰: ۵۱۔۵۲۔

[[14]]       القرآن ، ۱۰: ۵۳۔

[[15]]    القرآن ، ۱۶: ۲۷۔

[[16]]    القرآن ، ۵۰: ۳۶۔

[[17]]    القرآن ، ۷۷: ۱۴۔۱۶۔

[[18]]    القرآن ، ۸۳: ۸۔

[[19]]       القرآن ، ۸۳: ۱۹۔

[[20]]    القرآن ، ۹۰: ۱۲۔

[[21]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۵/۵۶۷۔

[[22]]    القرآن ، ۱۰۴: ۵۔

[[23]]    کرم شاہ، ضیاء القرآن۵/۶۵۸۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...