Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ |
Asian Research Index
قرآن مجید کا استفہامی اسلوب: تدبر قرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

خاتمہ کلام
ARI Id

1695203136242_56118331

Access

Open/Free Access

Pages

376

قرآن مجید ایک مقدس کتاب ہےقرآن پر ایمان لاناہر مسلمان کے لئے لازم ہے۔جوشخص قرآن پر ایمان نہیں رکھتاوہ مسلمان نہیں ہو سکتا۔قرآن پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کا کلام مانا جائےاور اسے آخری نازل شدہ کتاب تسلیم کیا جائے۔اس کی تعلیمات اور احکامات کو سچ مانتے ہوئےان پر عمل کیا جائے۔جس طرح حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ذریعے دین اسلام کی تکمیل ہوئی ہےاسی طرح قرآن میں بھی پہلی تمام کتابوں کی بنیادی تعلیمات محفوظ کردی گئی۔قرآن حکیم اپنے اندر بہت سی اعجازی خصوصیات رکھتا ہے اس میں مختلف علوم و فنون ودیعت کر دیئے گئے ہیں۔ اس کا یہ کمال ہے کہ ایک آیت ایک کم پڑھے لکھے انسان کو سادہ نظر آتی ہے مگر ایک عالم کو وہی آیت حقائق و معارف سے لبریز دکھائی دیتی ہے۔اور پھر مزید یہ کہ متعدد علوم کے ماہرین کو وہی آیت اپنے اپنے علم و فن کے لحاظ سے مختلف نظر آتی ہے گویا کہ وہ مختلف علوم کے لحاظ سے بےشمار حکمتوں کا مجموعہ ہوتی ہے جس سے ہر شخص اپنے اپنے ظرف کے مطابق فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ اور یہ صرف خدا کے کلام کی خصوصیت ہو سکتی ہےورنہ انسانی کلام میں اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔قرآن مجید میں انسان کو سمجھانے کے لئے مختلف اسالیب استعمال ہوئے ہیں مثلاً کہیں قصص بیان کئے گئے ہیں تو کہیں امثال، کہیں تبشیر تو کہیں انذار، کہیں بیانیہ تو کہیں استفہامیہ، سوال گفتگو کی بنیاد ہے اسے مختلف مقاصد کے لئے استعمال کیاجاتا ہے ادب میں  استفہام کسی حقیقت سے مخاطب کو آگاہ کرنے مخاطب کو غور و فکر کی دعوت دینے اور اپنی بات کے اثبات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے  قرآن مجید میں استفہام کا اسلوب بکثرت استعمال کیا گیا ہے  قرآن نے مخاطب میں آمادگی پیدا کرنے کے لیے بعض اوقات اپنی گفتگو کا آغاز سوال سے کیا ہے اور پھر جواب کی صورت میں اپنا مدعا بیان کیا ہے قرآن مجید کا یہ اعجاز ہے کہ اس میں بہت سے اسرار ورموز چھپے ہیں جو کہ گرائمر اور علوم و فنون کے اعتبار سے مختلف ہیں۔

      اس کتاب میں قرآن مجید کے اسلوب استفہام کو بیان کیا گیا ہے ۔اس کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے باب اول میں  قرآن کریم کی آیاتِ استفہام کی ضرورت و اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ جن الفاظ کے ذریعے سے سوال کیا گیا ہے انہیں  ادوات استفہام کہا جاتا ہے ۔  ادوات استفہام کی دو اقسام ہیں حروف استفہام اور اسمائے استفہام، حروف استفہام کی تعدا دو جبکہ اسمائے استفہام کی تعداد نو ہے اور اس کے بعد آیات استفہام کی چار انواع ایمانیات، عبادات،معاملات اور عقیدہ آخرت کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ اور ان کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔

    قرآن پاک میں جن مقامات پر آیات استفہام بیان کی گئیں ہیں ان سورتوں کی تعداد چھیانوے ہے۔ جن میں ایمانیات سے متعلق 242، عبادات سے متعلق 91، معاملات سے متعلق 275 اور عقیدہ آخرت کے بارے میں 256 آیات بیان کی گئیں ہیں۔

         قرآن کی 864 آیات میں حروف استفہام اور ادوات استفہام استعمال کرتے ہوئے سوال کیا گیا ہے۔اس کتاب میں اللہ پاک کا اپنے بندوں سے سوالات کا خصوصی مطالعہ پیش کیا گیا ہے(۔قرآن مجید کی 14 آیات میں  یسئلونك  کا استعمال ہوا ہے. ان آیات کے بارے میں  لکھی جا چکی ہے) مگر اس کتاب  کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں صرف ان آیات کا انتخاب کیا گیا ہے جن میں اللّٰہ تعالیٰ اپنے بندوں سے سوال فرماتے ہیں۔ استفہام کے مقاصد مثلاً کہیں اللہ پاک بندوں میں شوق پیدا کرنے کے لئے سوال فرما رہے ہیں تو کہیں رغبت پیدا کرنے کے لئے، کہیں انذار کے لئے تو کہیں تبشیر کے لئے، کہیں تجسس کے لئے تو کہیں باطل کے رد کے لیے. الغرض سوال کرنے میں جو حکمت پوشیدہ ہے ہر آیت میں اس مقصد اور حکمت کو بیان کیا گیا ہے۔ معارف القرآن از مفتی محمد شفیع ، تفہیم القرآن از سید ابو الاعلیٰ مودودی ، تدبر قرآن از امین احسن اصلاحی اور ضیاء القرآن از پیر کرم شاہ الازہری ان منتخب تفاسیر کی روشنی میں استفہام سے متعلقہ آیات کا خصوصی مطالعہ پیش کیا گیا ہے ا مفسرین کرام کا بھی تعارف اور ان کی علمی خدمات بیان کی گئیں ہیں۔

 قرآن میں عقلمند لوگ ہی تفکر کرتے ہیں۔اس میں موجود علوم سے استفادہ کرتے ہیں قرآن میں بہت سے مقامات پر کائنات میں غور کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔جوانسان بھی کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہےاس کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کے احکامات اور تعلیمات کے مطابق زندگی گزارےاس میں ہی فلاح و نجات پوشیدہ ہے۔

آیات استفہام کے تخصیصی مطالعے سے درج ذیل سفارشات پیش کی جاتی ہیں۔

۱- کالجز اور یونیورسٹیز میں اساتذہ کرام  طلباء میں آیاتِ استفہام کے حوالے سے ان کے سامنے پوشیدہ مقاصد کو بیان کریں تاکہ قرآن فہمی میں مدد مل سکے۔

۲- مدارس میں طلباء کو دوران تفسیر استفہامی آیات اور ان کے اسلوب کے بارے میں آگاہی فراہم کی جائے۔

۳- سوال سے تجسس اور توجہ کا جزبہ بیدار کیا جاسکتا ہے کیونکہ  حدیث سے بھی ہمیں سوال کرنے کے بارے میں متعدد احادیث ملتی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے سوال فرما کر ان کی متوجہ کرتے تھے۔

۴- مناظرہ، مکالمہ ان  چیزوں میں بھی استفہام کے ذریعے سے اپنے نقطعہ نظر کے بہتر اظہار کے لئے  استعمال کیا جاسکتا ہے۔

۵- قرآن مجید میں آیاتِ استفہام کی تعداد سے سوال کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کیونکہ قرآن کا اسلوب ایک منفرد اسلوب ہے ۔

۶- آیاتِ استفہام کی اہمیت کو مختلف تفاسیر کے روشنی میں واضح کرنے کا مقصد بھی یہ ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اس اسلوب سے روشناس کرایا جا سکے۔

۷- استفہام کے ذریعے تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور طلباء کے مابین ایک خوشگوار اور تحقیقی فضا قائم کی جا سکتی ہے۔

۸- اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو عقل عطا فرمائی ہے سوچنے کے صلاحیت دی ہے انسان کو چاہیے قرآن میں تفکر کر کے اپنے مقصد حیات کو سمجھے، اور اپنے معبود برحق کے عبادت کرے۔

۹- قرآن حکیم میں متعدد اسلوب بیان کئے گئے ہیں علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں میں ان اسالیب کو عام کریں تاکہ قرآن فہمی میں مدد حاصل ہو۔

۱۰- نئے اسالیب سے مقصود آیاتِ الہی کی تفہیم ہے جو کہ ہم پر فرض ہے اور یہ ہمیں زندگی گزارنے کے لئے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...