Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 > خطۂ سیالکوٹ میں اردو شاعری کی روایت

نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022

خطۂ سیالکوٹ میں اردو شاعری کی روایت
Authors

ARI Id

1695778069724_56118336

Access

Open/Free Access

Pages

۸

سیالکوٹ ایک تاریخی اور ادبی خطہ  رہا ہے۔ اس کی تاریخ پانچ ہزار سال پر محیط ہے۔یہ خطہ  جغرافیائی لحاظ سے اس مقام پر واقع ہے جہاں کئی آبی گذرگاہیں ہیں۔ کشمیر اور پنجاب کے دیگر تجارتی شہروں سے اس کا قریبی رابطہ ہے۔ سیالکوٹ تاریخی، ثقافتی، سماجی، تہذیبی، علمی اور ادبی لحاظ سے لاہور اور دوسرے ادبی، ثقافتی، تہذیبی، تاریخی اور علمی شہروں سے کسی طور پر بھی کم نہیں۔ اس شہر کی ثقافت توانائی اور رنگا رنگی لیے ہوئے ہے۔ یہاں کے میلے ٹھیلے، روایتی تہوار اور دیگر ثقافتی سرگرمیاں اس  خطے  کو  ہمیشہ ممتاز کرتی رہی ہیں۔ 

سیالکوٹ کو اقبال و فیض کے مولد ہونے کا  لا زوال فخر حاصل ہے۔  یہ ایک صنعتی شہر ہے ۔اس کی آبادی  تقریباً تیس  لاکھ سے  زیادہ نفوس پر مشتمل ہے سر زمین  سیالکوٹ صدیوں  کی انسانی تہذیب و تمدن اور ادب و ثقافت کا عظیم الشان گہوارہ ہے۔ اس دھرتی کے تاریخی آثار  مدت سے مورخین و ماہرین آثار قدیمہ کی دلچسپی کا سامان بھی رہے ہیں۔ یہاں کی تہذیب ٹیکسلا اور موہنجو ڈارو کی تہذیبوں کے ہم پلہ ہے۔

   سیالکوٹ  کی مٹی بڑی زرخیز اور مردم خیز ہے۔سرزمین سیالکوٹ نے علم و ادب اور فنون لطیفہ  کے  میدانوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ اس خطے کے باشندوں  نے پاکستان کی صنعتی  و اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ علم و فن کی خدمت بھی جاری رکھی۔ ماضی میں ملا کمال کشمیری، ملا عبدالحکیم  سیالکوٹی،  امین حزیں سیالکوٹی، اثر صہبائی، مرزا ریاض  اور غلام الثقلین نقوی نے علمی وادبی  حوالے سے سیالکوٹ کا نام روشن کیا۔ مولوی میر حسن، مولوی ابراہیم  میر، ڈاکٹر جمشید راٹھور اور یوسف سلیم چشتی نے علم کی پیاس بجھائی۔ڈاکٹر  وحیدقریشی سیالکوٹ کے ادبی ماحول کے بارے میں رقمطراز ہیں۔

”دینی کے علاوہ ادبی لحاظ سے بھی سیالکوٹ کی شعری روایت اہمیت رکھتی ہے۔ داغ دہلوی کے کئی شاگردسیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ یہ شہر کشمیر سے آنے والی  آبادی کا بھی مرکز ہوا۔ جموں بھی  یہاں سےزیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔  سری نگر کی   طرف جانے والے  راستے  بھی  جہلم کے بعد گجرات  کے آس پاس سے نکلتے تھے۔ اس لیے  ان  علاقوں کی ادبی سرگر  میوں کی  دھمک  سیالکوٹ میں  صاف  سنائی دیتی تھی۔ 

دیگر فنون کے ساتھ ساتھ شاعری میں بھی سیالکوٹ کسی شہر سے پیچھے نہیں رہا۔اقبال کے ہم عصر شاعر شجر طہرانی کا تعلق بھی سیالکوٹ سے تھا۔ آپ کی شاعری پر غالب، داغ اور اقبال کے اثرات  کو  دیکھا جا سکتا ہے۔  جب آپ میڈیکل کالج لکھنو میں طالب  علم تھے تو اُسی دور میں آپ کو حضرت داغ دہلوی  کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ اس دور میں  انہوں نے باقاعدہ ادبی زندگی کاآغاز  کیا۔ شجر  اپنا کلام  داغ دہلوی کو دکھایا کرتے تھے۔ شجر نے 80سال  متحرک ادبی زندگی گذاری  اور تقریباً ایک لاکھ شعر کہے۔ آج ان کے  رشتہ داروں کے پاس ۲۲مسودے محفوظ ہیں لیکن ان کے اکثر مسودے  نایاب ہیں اور گُم ہو گئے ہیں۔شجر کا  پہلا مجموعہ  ”صبر جمیل“ (مثنوی)۸۱  اگست ۸۲۹۱ء کو شائع ہوا۔ دوسرا شعری مجموعہ ”زبان فطرت“ نظموں پر مشتمل ہے۔ یہ مجموعہ ۹۲۹۱ء کو شائع ہوا۔  شجر نے  اس مجموعے میں خاور گل، نسیم و بہار، شام و سحر،  روزوشب، نوروز ظلمات کے تعلق اور الفاظ سے واقعات عالم اور فناو بقا کے مسائل کو  دلچسپ اور دلآویز پیرائے میں حل فرمایا  ہے۔  ”جہاں گرد“ شجر کا تیسرا شعری مجموعہ ہے جو  توحید و رسالت، اخلاقیات، نفسیات، تجلیات، شخصیات ، اعمال، وطنیت اور عید کے تحت  ترتیب دیا گیا ہے۔ شجر محبت سے بھرپور دل کے مالک تھے۔وہ احترام  انسانیت کے قائل تھے ان کی شاعری میں  انسانی محبت کے نمونے  جا بجا  بکھرے  پڑے ہیں۔ غالب، مومن اور ذوق کے بعد دبستان دہلی کے جس شاعر نے اپنے معاصرین اور بعد میں آنے والے شعراکی ایک بڑی تعداد کو اپنے فن اور شاعری سے متاثر کیا وہ مرزا داغ دہلوی  ہے۔ داغ دہلوی کا رنگ تغزل اور اسلوب اس قدر مقبول ہوا کہ پورے ہندوستان کے نوجوان شعرا  اس کی طرف کھنچے چلے آئے۔   شجر کے پھوپھی زاد کے داغ کے ساتھ مراسم تھے۔ داغ کے حضور حاضر ہو کر شجر اپنا کلام سنایا کرتے تھے  ایک شعر داغ نے پسند بھی کیا اور  اپنا شاگرد بنا لیا۔ شجر ے  دو  سال داغ سے اصلاح لی۔

ہر مخلص اور باشعور شاگرد اپنے اُستاد سے محبت کرتا ہے۔ شجر نے اُستاد داغ کو بڑے مخلصانہ  الفاظ میں نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے۔داغ کا کوئی بھی شاگرد  ان کے رنگ، اسلوب  اور شاعری  سے بچ نہ سکا۔ اقبال جیسا صاحب طرز اور صاحب اسلوب شاعر بھی داغ کے اثر سے بچ نہ سکا۔  شجر کی بھی متعدد غزلیں اپنے اُستاد کے رنگ میں بھیگی ہوئی ہیں۔ ان غزلوں میں داغ  کا عکس نظر آتا ہے۔ شجر  نے داغ کی زمینوں میں غزلیں لکھی ہیں۔ ان غزلوں کا لب و لہجہ اور زبان داغ کی زبان سے لگا کھاتی ہے۔ صنائع بدائع اور تشبیہ و استعارات کے استعمال نے اُن کی شاعری کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔ شجر کی تشبیہ زندگی  سے مربوط ہے اور استعارے بھی ہمارے سامنے کے ہیں۔  غیر مانوس تشبیہ اور استعارات سے گریز کیا گیا ہے شجر کی شاعری میں ضرب المثل، تلمیحات اور محاورات کا بھرپور استعمال  ملتا ہے۔ شجر نے غزل میں مشکل اور لمبی ردیفوں سے غزل کو سنوارا ہے۔ شجر کے مسودے”نوائے سروش“ میں ایک غزل دو قافیوں میں موجود ہے۔

 مولانا ظفر علی خان کو بھی شجر کی طرح حیدر آباد  میں داغ دہلوی کی صحبت میسر آئی  لیکن  علامہ شبلی نعمانی کی نصیحت پر داغ کا رنگ اختیار نہ کیا۔ شعرو شاعری کے ساتھ ساتھ آپ ایک بے باک اور نڈر  صحافی بھی تھے آپ نے ”زمیندار“ اور ”ستارہ صبح“ کے علاوہ بہت زیادہ اخبارات و رسائل نکالے جن کی شہرت سارے برصغیر میں پھیلی۔  ظفر علی خان کا پہلا مجموعہ ”بہارستان“  کے نام سے 1934ء میں شائع ہوا۔اس میں اُن کا ابتدائی اُردو اور فارسی کلام ہے۔ ترتیب کے اعتبار سے یہ مجموعہ حسب ذیل طریقہ پر مرتب کیا گیا ہے۔حمد باری تعالیٰ، نعت، اسلام، اسلامی روایات، ستارہ صبح کے دور کی نظمیں، نوحے اور مرثیے۔  دوسرا مجموعہ نگارستان ہے۔ اس مجموعہ کلام میں سیاسی و فلسفیانہ شاعری طنزیہ نگاری اور صحافتی شاعری کے ساتھ ساتھ ادبی مرصع کاری کے شاہکار بھی نظر آتے ہیں۔ تیسرے مجموعے ”چمنستان“ میں اہم ترین نظمیں اور قطعات ہیں جن کی اہمیت  سیاسی، اسلامی اور معاشرتی لحاظ سے ہے۔

چوتھا مجموعہ کلام  ”خیالستان“ ہے جو سیاسی و ادبی غزلوں کے علاوہ نعت پر مشتمل ہے۔ پانچواں مجموعہ  ”حبسیات“ نظر بندی اور اسیری کے دوران مکمل ہوا۔ اس مجموعہ  میں حمد، نعت، اخلاق، سلف صالحین، اخلاق مرتضوی، انسان کی آزادی، اسلامی تصور، صلیب وہلال کی آویزش، ایمان کی شناخت، برطانوی  سیاست پرچوٹیں جیسے ”آزادی کا بل“، ”تخت یا تختہ“، ”کلیسا سے عیسوی“ اور”گاندھی“ اہم نظمیں و قطعات ہیں۔ چھٹا مجموعہ ”ارمغان قادیاں“ ہے جو قادیانیت کے خلاف نظموں پر مشتمل ہے۔ مسلم قومیت کے جس شعور کو حالی، شبلی اور اکبر نے واضح کیا ظفر علی خان اور اقبال کی شاعری اس شعور، احساس کی نمائندگی  اپنے اپنے انداز میں کرتی ہے۔ اسلامیان ہند جہاں  اپنے ا ور دوسرے ہم وطنوں کے ساتھ آزادی کی جدوجہد میں حصہ لے رہے تھے وہاں ان کے جذبات عالم اسلام کی دھڑکنوں سے بھی ہم آہنگ تھے۔ وہ یہ احساس رکھتے تھے کہ ان کے کچھ اپنے ملی خصائص ہیں جو انہیں برصغیر میں  صدیوں تک رہنے اور اس سرزمین کو اپنی مادر وطن سمجھنے  کے باوجود ایک عالمگیر نظام اخوت سے بھی وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ دھرتی پوجا ان کے عقیدے اور مسلک کے  بھی خلاف تھی۔ یہی جذبہ و احساس مولانا حالی کے ہاں مرثیے کی شکل میں اقبال کے ہاں فکر کے رنگ میں اور ظفر علی خاں کے ہاں رجز کے انداز میں ظاہر ہوا ہے۔ ظفر علی خان کی نظم ”مسلم کی شان“ میں مسلم قومیت کی اسی مقامی اور آفاقی حیثیت کو واضح کیا گیا ہے۔

 اقبال اور ظفر علی خان کے شعری دبستان کی یہ خاص اہمیت ہے کہ ان بڑے شاعروں نے اپنی شاعری میں سیاسی، تہذیبی، معاشرتی اور معاشی مسائل کو موضوع سخن بنانے کے ساتھ ساتھ غیر معتدل رومانی رجحانات پر تنقید کرکے  ادب اور زندگی کے رشتوں کو جوڑنے کی کوشش کی ہے۔  اقبال کی طرح ظفر علی خان نے بھی  اس نقطہ نظر کو ”سخنوران عہد سے خطاب“ میں بیان کیا ہے۔ ظفر علی خان کا شعری اسلوب ان کی صحافت اور خطابت سے بہت متاثر ہے۔ صحافت اور خطابت کے ان تقاضوں نے ظفر علی خان میں بدیہہ گوئی کے وصف کو خوب اُجاگر کیا جس کے لیے وہ اُردو شاعری کی تاریخ میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ سنگلاخ زمینوں، مشکل قوافی سے عہدہ برآ ہونے کے علاوہ بندش الفاظ، روز مرے اور محاورے کا جس فنی مہارت سے التزام کیا اس کی مثال میدان سخن میں کم ہی ملے گی۔  اظہار خیال کے لیے ظفر علی خان جہاں نئے نئے الفاظ لائے ہیں، نئی  نئی تراکیب وضع کی ہیں۔نئے نئے استعارے اور تشبیہات دریافت کی ہیں وہاں محاورات کے استعمال میں بھی بڑی جدت دکھائی  ہے۔  تمام محاوروں کو  نئے اور انوکھے طریقوں سے  باندھ کر ان میں جاذبیت  اور دلکشی پیدا کی ہے۔

 امین حزیں سیالکوٹی کومولوی میر حسن جیسے اُستاد اور عربی و فارسی کے عالم سے مادر  علمی حضرت اقبالؒ میں اکتساب فیض کا موقع ملا۔ اُن کی تربیت نے اُن کے شعور کو اجاگر کیا اور ان کی باطنی  صلاحیتوں کو چار چاند لگا دیئے۔ امین حزیں کی پہلی غزل لکھنؤ کے ”پیام یار“ رسالے میں چھپی۔ ابتدامیں شعر گوئی میں مولانا ظفر علی خان اور مولانا جوہر کے  رنگ سے متاثر تھے۔ بعد ازاں  حضرت اقبال  کو پسند  کرنے لگے اور یہ رنگ کچھ ایسا بھایا کہ پھر کسی اور کا نقش نہ جم سکا۔ اُردو، عربی، ہندی، سنسکرت، انگریزی، پشتو اور دیگر  علاقائی زبانوں پر انہیں عبور حاصل تھا۔ اُن کے  کلام کو گل و بلبل،لیلیٰ و  مجنوں،وامق و عذر اور شب ہجراں کے افسانہ ہائے دراز سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ خدائے بزرگ و برتر  کی عظمت اور رسولؐ کی عقیدت  کا ان کی زندگی  اور  شاعری  پر گہرا اثر تھا۔”امین حزیں کا کلام مقبول ادبی رسائل ”پیام یار“، ”مخزن“، ’ساقی“ اور ”ہمایوں“ میں چھپتا رہا۔ 

امین حزیں کے تین شعری مجموعے   ”گلبانگ حیات“، ”نوائے سروش“ اور ”سرودسرمدی“ الفیصل ناشران و تاجران لاہور ے  شائع ہو چکے ہیں۔ امین حزیں کی شاعری کے آٹھ مسودے ابھی تک شائع  نہیں ہو سکے جو اُن کے عزیز واقارب کے پاس موجود ہیں۔  امین حزیں ایک مشاق  اور قادر الکلام سخن ور تھے۔  انہوں نے تقریباً ہر صنف  سخن میں طبع آزمائی کی۔  اُن کی  نظموں میں مفکرانہ  انداز، بلندی نظر، وحدت فکر اور رفعت تخیل کا عمدہ تناسب و توازن ملتا ہے۔ آپ نے  زیادہ تر اخلاقی، قومی اور ملی موضوعات کو اپنی شاعری  میں پیش کیا۔ لیکن  اس کے ساتھ ساتھ حسن، خودی، عقل و عشق، تصور ابلیس  اور فلسفہ ایقان کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ امین حزیں کی  شاعری کا ایک بہت بڑا اہم موضوع”عورت“ہے۔ خصوصاً نظموں میں آپ  نے عورت کے متعلق اپنے خیالات و افکار کا اظہار تفصیلاً کیا  ہے۔ اقبال کی طرح امین حزیں کے فلسفہ  حیات  اور کائنات میں تصور خود ی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ آپ کا تصور عشق و عقل بھی اقبال کی طرح ہے۔ خودی  اور تصور عشق و عقل  کے حوالے سے  اُن کی نظمیں ”خودی خدائے  خودی کے حضور میں“ اور ”عشق باقی باقی“ ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

 ہر بڑے  شاعر کی طرح امین حزیں بھی فطرت کے شائق ہیں۔ ان کی نظر قدرت کے مختلف مناظر کو پسند کرتی ہے اور اُن کے حسن سے متاثر ہوتی ہے۔ اُن کی بہت سی نظموں میں حسین مناظر کی دلکش تصویر کشی موجود ہے۔ ”کوہستان قراقرم کی ایک وادی“، کشمیر کی صبح بہار“ اور ”حسن کی رُت“ داد طلب نظمیں ہیں۔ ان نظموں کے علاوہ ”گلبانگ حیات“ اور ”سرودسرمدی“ میں  شامل ان کی متعدد نظمیں فطرت سے اُن کے  لگاؤ اور دل بستگی کی غماز ہیں۔

 امین حزیں کی شاعری میں خصوصاً انسان اور مرد مومن کا ذکر جا بجا ملتا ہے۔ کبھی وہ مقام  مرد مومن طے کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی انسان کا شاندار مستقبل دکھاتے ہیں۔ ”مقام مرد مومن“ امین حزیں کی ایک شاہکار نظم ہے۔ جس میں  وہ مختلف استعاروں مثلاً رند، مے، جام اور عنقا جیسی تراکیب استعمال کرتے ہوئے مردمومن کے مقام کا تعین کرتے ہیں۔ اقبال کی طرح امین حزیں کے نزدیک بھی بدی یا شرانسانی فطرت کا جزو لاینفک ہے۔  یہ ایک ایسی محرک قوت  ہے جو انسان کو جہد حیات میں عمل پر اُکساتی ہے۔ دنیا میں شر کی نمائندگی  ابلیس کرتا ہے۔ ابلیس اُن کی نظموں کا ایک متحرک کردار ہے۔ اس حوالے سے اُن کی نظمیں ”یقین“ اور ”شکوہ شیطان“ ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ امین حزیں کی نظموں میں بے شمار ایسی نظمیں موجود ہیں جو قومی  و ملی نظموں کے زمرے میں شامل ہوتی ہیں۔ امین حزیں کی طبیعت پر غالب رنگ اقبال کا تھا مگر اس کے باوجود انہوں نے بعد میں اپنے لیے اقلیم سخن میں نئی راہیں بھی تلاش کیں اور نئے  افکار سے بھی اپنے  اشعار کو مزین کیا جس سے اُن کے شاعرانہ کمال اور ناموری میں اضافہ ہوا۔

 امین حزیں  سیالکوٹی کے ایک ہم عصر شاعر سید صادق حسین تھے۔ اُن کا ایک مجموعہ کلام ”برگ سبز“ کے نام سے۷۷۹۱ء کو شائع ہوا۔ اُن کا ایک شعر جس کی وجہ سے انہیں شہرت ملی، بعض حضرات   علامہ اقبالؒ سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ شعر اخواجہ عبدالسمیع پال  نے اثر صہبائی کے نام سے شہرت پائی جو  امین حزیں سیالکوٹی کے حقیقی بھائی تھے۔ اثر صہبائی برصغیر کے صف اول کے شعرا میں سے تھے جن کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف  اکثر ناقدین  نے کیا ہے۔  شروع میں شعری اظہار کے لیے انہوں نے  رباعیات اور قطعات کو وسیلہ بنایا  اور ان اصناف سخن پر اتنا عبور حاصل کر لیا کہ وہ خیام العصر مشہور ہو گئے۔ اپنی رباعیات اور قطعات میں انہوں نے انسانی مسائل اور فلسفیانہ نکات کو عمدگی اور خوبی سے بیان کیا ہے۔ اُن کی رباعیات اور قطعات کے مجموعے ”جام طہور“ اور ”جام صہبائی“ کے  ناموں سے شائع ہو چکے ہیں۔ ”خمستان“ ان کی غزلوں، نظموں اور رباعیات  کا پہلا مجموعہ  ہے۔ جس کا پہلا ایڈیشن1933؁ء میں آزاد بک ڈپو  سیالکوٹ سے شائع ہوا۔ اس مجموعے میں ”راحت کدہ“ بھی شامل تھا لیکن بعد میں ”راحت کدہ“ علیحدہ شعری کلام کی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔  پانچواں شعری مجموعہ ”روح صہبائی“  کے نام سے راج محل پبلشرز جموں سے شائع ہوا۔ ”بام رفعت“ اُن کا چھٹا شعری مجموعہ ہے۔ ابھی اُن کے کلام کے کئی مجموعے مسودوں کی صورت میں  ہیں  جنہیں وہ اپنی زندگی  میں طبع نہ کرا یا جاسکا۔

اثر صہبائی  کے ابتدائی کلام میں ایک خاص انداز اور بڑا لطیف جذبہ کار فرما ہے۔  پاکیزگی جذبات  اُن کے کلام کا ایسا  جوہر ہے جواُن کے کلام کاحسن بن گیا ہے۔ کیف و سرور ان کا مستقل موضو ع  رہا ہے۔ جس  شراب سے حافظ و خیام کے خمکدے  روشن تھے ایسی صہبائے رنگین  کی کیفیت ان کے بیشتر کلام پر طاری ہے۔ ان کے کلام میں حسن و عشق کے لطیف جذبات کے علاوہ فکر و نظر کی کارفرمائی بھی ہے۔  اثر صہبائی کی رفیقہ حیات  راحت اُن سے  انتیس سال کی عمر میں بچھڑ گئیں جس کا اثر اُن کی زندگی و دماغ اور اعصاب پر ساری عمر رہا۔  اس کسک نے اُن کی شاعری میں سوزوگدازپیدا کیا۔ ان کی اکثر نظموں میں یہ تاثرات نظر آ تے ہیں۔ کشمیر صہبائی کا آبائی وطن تھا اور ملازمت کے دوران آپ نے عمر کا بیشتر حصہ بھی وہاں گذارا۔ قیام کشمیر  کے دوران تحریک آزادی کشمیر زوروں پر تھی۔ کشمیری مسلمانوں پر ظلم و استبداد کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے۔ مسلمانوں کی بے چارگی اور مظلومیت کا صہبائی کو گہرا احساس تھا۔ سرمایہ داری، سرمایہ دارانہ نظام حکومت اور غیر ملکی تسلط سے انہیں شدید نفرت تھی۔ اس حوالے سے اُن کی نظم ”عزائم“ ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اثرصہبائی نے اپنی متعدد نظموں میں  کشمیر کی بہاروں، روح پرورفضاؤں، موسموں اور قدرتی حسن کی منظر کشی  بھی پیش کی۔ مناظر قدرت کا یہ دل دادہ شاعر جب تک کشمیر میں مقیم رہا، کشمیر کی بہاروں اور خزاؤں کے گیت گاتا  رہا۔اثر صہبائی  نے اپنے آپ کو ملی شاعری کے لیے  بھی وقف  کیا۔”سرودسفر“ نظم اُن کی قومی شاعری کا ایک نمونہ ہے۔ اثر صہبائی کی زندگی کا آخری دور مدحت رسولؐ سے شروع  ہو کر اس پر ختم ہو جاتاہے۔ 

خواجہ عبدالحمید عرفانی سکول کے زمانے میں مولانا حالی اور مرزا غالب سے حد درجہ  متاثر تھے۔ عرفانی کی قومی موضوعات پر لکھی گئی نظموں میں حالی کا انداز نظر آتا ہے۔ انہوں نے غالب کی زمینوں میں بھی غزلیں کہی ہیں۔ ڈاکٹر عرفانی کی”کلیات عرفانی“ میں غزلیات،  مانو لاگ کے تراجم،  مکالمے اور قومی نظموں کے متفرق اشعار شامل ہیں۔ ڈاکٹر عرفا نی کی  اکثر  غزلیں چھوٹی بحروں میں ہیں۔  اُن کی غزل میں عارفانہ رنگ غالب نظر آتا ہے۔عرفانی کی غزلیات میں سوزو گداز، غنائیت، موسیقیت، تکرا ر  لفظی اور فارسیت کا غلبہ بھی نظر آتا ہے۔ اُن کا کمال یہ ہے کہ وہ فارسی  تراکیب کو اُردو روزمرہ سے اس طرح پیوست کرتے ہیں کہ بیگانگی اور اجنبیت کا شائبہ تک  نہیں ہوتا۔ بحیثیت  مجموعی عرفانی کی غزل میں درد کا صوفیانہ رنگ، میر کا سوزوگداز، اصغر کا نشاطیہ انداز، غالب  کی جدت پسندی  اور اقبال کی فلسفہ طرازی کا رنگ واضح طور پر جھلکتا ہے۔ عرفانی  زودگوشاعر ہیں۔ اس کا ثبوت اُن کا فارسی کلام ہے۔ ایرانی  تو انہیں بہترین فارسی شعرا میں شمارکرتے ہیں۔  انہیں اردو شاعری پر زیادہ توجہ دینے کا موقع نہ مل سکا۔ اُن کے اردو کلام سے پتہ چلتا ہے کہ اگر وہ پختگی کے دور میں شعر کہنا   ترک نہ کرتے تو ان کا شمار  صف اول کے شعرا میں ہوتا۔

 عظیم شاعر  فیض احمد فیض کی شاعری میں شہرت  نہ صرف ملکی سطح پر ہے۔  بلکہ ترقی پسند تحریک سے تعلق اور عالمگیر  فکر کی وجہ  سے فیض دیگر ممالک میں بھی  جانے پہچانے جاتے ہیں۔  اُن کی شاعری کا جائزہ لیاجائے تو واضح ہوتا ہے کہ وہ مارکسزم کے فلسفہ، مقاصد اور معتقدات کے اندھے  مقلد نہیں تھے۔ انہوں نے ترقی پسند تحریک کی  نظریاتی وابستگی سے کبھی منہ نہ موڑا۔  فیض اپنے سینے میں درد مند دل رکھتے تھے اور انسانوں پر مظالم، استحصالی رویوں کو بڑے دکھ کے ساتھ محسوس کرتے تھے۔ فیض معاشرے میں ایسا انقلاب برپا کرنے کے خواہش مند تھے جو  استحصالی نظام کو بدل کر رکھ دے۔ وہ غیر طبقاتی نظام کے قائل تھے۔ ترقی پسند شاعر ہونے کے باوجود اپنی شاعری کو انقلابی نعروں سے بچاتے ہوئے  فیض نے اسے رومانی پیرایہ میں خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعری دوامی  ہے۔ فیض نے غزل میں کلاسیکی انداز کو قائم رکھا اور نئے مضامین بھی پیش کیے۔فیض ایک منفرد لہجے  اور جمالیاتی و رومانی انداز کا شاعر ہے۔  وہ بیسویں صدی کا ایسا انقلابی  شاعر ہے جس کے ہاتھوں  پر رومانیت اور سماجیت کے چراغ فروزاں  ہیں۔  اُن کے غنائی لہجے میں اتنی تاثیرتھی کہ انہیں ہیئتی تجربوں کی ضرورت بالکل محسوس نہ ہوئی۔  فیض کے ہاں رومان اور انقلاب  ان کی فکر کی دوئی نہیں بلکہ یکجائی کی دلیل ہے۔  فیض نے اپنی شاعری میں وطن کی محبت، مظلوم انسانوں سے محبت کا ذکر خالص اور رومانی لہجے میں کیا ہے۔ اُن کے ہاں جس محبوب کا ذکر ملتا ہے اس کی ایک ہتھیلی پر حنا اور دوسری ہتھیلی پر لہو کی چمک نظر آتی ہے۔ فیض کی شاعری کا بڑا موضوع محبت اور زندگی  کی اجتماعی  جدو جہد کی واردات ہے۔

فیض نے اپنی شاعری  میں علامتوں کے انفرادی اور اجتماعی مفہوم کو اکٹھا کر دیا ہے۔ آپ نے استحصالی طبقے کے لیے واعظ، شیخ،محتسب، ناصح، مدعی،  عدو، اہل ستم،صیاد، گل چیں، اہل ہوس، اغیار، رہزن، فقہیہ شہر، اہل حرم، قاتل اور جلاد جیسی علامتیں استعمال کی ہیں۔ پرانی علامتوں کونئے مفاہیم عطا کیے اور کئی نئی علامتیں بھی تخلیق کی ہیں۔ جمالیاتی سحر کا سماں پیدا کرنے کے لیے سحر لہو، دید ۂ تر، فصل گل، مے خانہ اور صبح سخن جیسی علامتیں تخلیق کی ہیں۔ فیض نے اپنی شاعری میں اعلیٰ فکر کے ساتھ ساتھ فنی تقاضوں کو بھی مدنظر رکھا۔ فیض کا فن تاریخی شعور کی مدد سے زندگی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے بلکہ اس  سے بھی آگے۔

محمد طفیل نام اور شہرت طفیل ہوشیارپوری کے نام سے ہوئی۔  ”میرے محبوب وطن“ طفیل کے ملی نغمات پر مشتمل پہلی  شعری  کتاب ہے۔  طفیل کا ناطہ فلمی دنیا سے بھی رہا اور انہوں نے فلموں کے لیے اُردو اور پنجابی میں اڑھائی سو کے قریب گیت لکھے۔ دوسری کتاب ”جام مہتاب“ ہے جو قطعات و رباعیات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب۰۸۹۱ء میں شائع ہوئی۔ ”ساغر خورشید“، ”شعلہ جام“ اور ”تجدید شکوہ“ غزلوں  اور نظموں پر مشتمل تین شعری مجموعے  ہیں۔ ”رحمت یزدان“ طفیل کا نعتیہ مجموعہ کلام ہے ۔

طفیل نے اگرچہ تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے  لیکن غزل کا طواف ایک مدت تک کرتے رہے۔ انہوں نے غزل کے مزاج، رنگ و آہنگ اور ہئیت وانداز کو ایک پرستار کی حیثیت سے اپنایا ہے جس کی وفاداری شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ شروع میں طفیل نے شاعری میں کسی اُستاد فن سے اصلاح نہیں لی لیکن سیالکوٹ آمد کے بعد امین حزیں سیالکوٹی اور مولانا توحید کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے۔ اس کے علاوہ مولانا تاجور نجیب آبادی نے بھی اُن کو شاعری میں گرانقدرمشورے دیئے۔ آپ کی غزلیں ”ادبی دنیا“ میں شائع ہوتی رہیں۔ طفیل ایک روایت پسند شاعر ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ  پرانی روایات کو سراہا اور پسند کیا ہے۔ انہوں نے کلاسیکی شعرا سے اثر قبول کیا لیکن ان تمام اثرات کے باوجود غزل میں اپنے  لیے ایک الگ  راستہ  بنایا ہے۔ وہ غزل  میں سیدھا سادا اسلوب اظہار اختیار کرتے ہیں جو اپنی اثر انگیزی کی بنا پر  سننے اور پڑھنے والوں کے ذوق و معیار پر پورا اُترتا ہے۔ اُن کا شعور اُن کے داخلی و خارجی مشاہدات  کو اُن کی ذات کے حوالے سے اظہار کے صاف ستھرے اور رواں دواں سانچے فراہم کرتا ہے  اور وہ ان سانچوں کو فن کی آنچ میں شائستہ کر کے سخن کر لیتے ہیں۔ طفیل کا کلام خود کلامی، خداکلامی، رسولؐ کلامی اور لوک کلامی پر مشتمل ہے۔ معانی کے حوالے سے دیکھا جائے تو انہوں نے اس دیرینہ روایت کی تجدید کی ہے جس کا تاروپود سراسر اخلاقی قدروں کا مرہون منت ہے۔ اُن کی آخری دور کی شاعری  میں مذہبی  اور اخلاقی رجحان زیادہ نمایاں ہے۔ اُن کے قطعات اور رباعیات، نظم اور غزل میں سعدی کی سحربیانی، رومی کی دولت وجدانی، حافظ کا عرفان، حسانؓ کا جذبہ مدحت رسولؐ، عرفی کا حسن بیان، اقبال کا دل بیدار، میرو غالب کا سوز سخن اور امیر خسرو کا گداز پایا جاتا ہے۔

طفیل کی شاعری میں موضوعات  اور فن کے اعتبار سے وہ سب کچھ موجود ہے جو اچھی شاعری  میں ہونا چاہیے۔ طفیل نے روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے حسن و عشق کے معاملات  کا اظہار بڑے خوبصورت اور پاکیزہ انداز میں کیا ہے۔ طفیل کی شاعری کا سب سے بڑا اور پھیلا ہوا موضوع غم و حوادث ہے۔  انہوں نے اپنی شاعری اور خصوصاً غزلوں میں اپنے ذاتی غم و آلام کو دل کھول کر بیان کیا ہے۔  یادوں اور ماضی کے حوالے سے طفیل نے  آنسوؤں کا بہت ذکر کیاہے۔ معاشرے میں موجود طبقاتی تضاد بھی طفیل کی نگاہ میں بہت کٹھکتا ہے۔ اُن کی شاعری کا ایک نمایاں وصف علامتی انداز ہے۔ اُن کے ہاں علامتی انداز سیدھا سادا ہے۔ علامتی انداز نے کچھ چھپایا نہیں ہے۔ انہوں نے پرانی تعلیمات کو استعمال کرتے ہوئے ان میں نئی معنویت  پیدا کر دی ہے۔ فنی لوازمات اور صنعتوں کو بھی بڑے خوبصورت انداز میں استعمال کیا ہے۔ آپ کی تراکیب عام فہم ہیں۔ تشبیہات و استعارات کو بڑے خوبصورت انداز میں شعروں میں استعمال کیا ہے جس سے شعروں کی تاثیر میں اضافہ ہو گیا ہے۔

جابر علی سید نہ صرف ایک اچھے  شاعر بلکہ ایک اچھے انسان، ادیب، محقق، نقاد،  ماہر  لسانیات و عروض اور مشفق اُستاد بھی تھے۔ جابر علی سید کی وفات  کے بعد  حمید اختر فائق نے اُن کے کلام کو ”موج آہنگ“ کے نام سے1999میں مرتب کر کے شائع کیا۔ آپ نے اُردو  غزل میں ہئیت اور بحر کے نئے نئے تجربے کیے اس لیے کہ وہ علم عروض سے گہری دلچسپی رکھتے  تھے۔ آپ نے اُردو میں بعض بحروں کو روشناس کروایا جن کا پہلے  سے اُردو میں رواج نہیں تھا۔ آپ شروع سے ہی مشکل پسند تھے۔ مشکل کام کر کے انہیں خوشی ہوتی  تھی۔ اسی سبب سے انہوں نے غزلوں میں نوع بہ نوع تجربے کیے۔ نئے الفاظ، نئے محاورے اور نئی ترکیبیں استعمال کیں۔ اُن کی غزلوں میں  اُن کی شخصیت کی بہت سی داخلی کیفیات اور ان کے شعور  و  لا شعور میں اُٹھنے والے ہنگاموں اور طوفانوں کا پتہ چل جاتا ہے۔ اُن کا کلام حسن صوری اور جمال معنوی کا اعلیٰ نمونہ ہے۔  غزلوں میں صوتی آہنگ کے ساتھ ساتھ تفریح کا بھی بڑا خیال رکھتے ہیں کیونکہ تغزل ہی غزل کو صحیح معنوں میں غزل بناتا ہے۔

  اصغر سودائی بنیادی  طور پر غزل گو شاعر ہیں۔ انہوں نے نعتیں بھی کافی تعداد میں لکھی ہیں۔ بطور نعت گو وہ اُردو شاعری میں ایک  منفرد مقام  رکھتے ہیں۔ آپ نے پاکستان  کو ”نعرہء پاکستان“ دیا جو آپ  کے ایک ترانے میں موجود ہے۔  آپ کا پہلا شعری مجموعہ ”شہ ِ دوسرا“ بزم رومی و اقبال نے 1989ء میں شائع کیا۔ دوسرا شعری مجموعہ ”چلن صبا کی طرح“ صدیقی پبلی کیشنز لاہور نے 1999ء میں شائع کیا۔ ”کرن صدا کی طرح“ اصغر کا تیسرا شعری مجموعہ ہے۔

اُن کا نعتیہ مجموعہ ”شہ دوسرا“ تعجب انگیز اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اصغر نے نعت کہنے کے لیے غزل کا پیرایہ استعمال کیا ہے۔ اپنی نعتوں سے اصغر نے مسلمانوں کی اصلاح کا کام بھی کیا ہے۔  اصغر اپنی شاعری میں حضورؐ کے نام  لیوا عظیم ہستیوں کی صفات بھی بیان کرتے ہیں َ یہاں اقبال کے مرد مومن کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔  اصغر کی نعت جدید و قدیم کا خوبصورت امتزاج ہے۔ جدید موضوعات کے ساتھ وہ قدیم روایات کا دامن بھی نہیں  چھوڑتے۔ اصغر سودائی کے کلام پر اقبال، حفیظ اور حالی کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔  اصغر  کے نعتیہ اسلوب میں عربی لفظوں، آیتوں کے ساتھ ساتھ تلمیحات اور حوالے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اصغر کی نعتوں کا ایک اہم عنصران کی فارسی  تراکیب کا استعمال اس لیے زیادہ ہے کہ حافظ  کا دیوان ہمیشہ اُن کے زیر مطالعہ رہا۔اُن کی نعت میں صنعتوں  کا استعمال بھی نظر آتا ہے۔ سب سے زیادہ انہوں نے صنعت تضاد کو استعمال کیا ہے جو نمایاں اور دلکش نظر آتی ہے۔

 اصغر کو وطن سے بے پناہ محبت ہے۔ وطن کے لیے قربانیاں دینے والوں میں اصغر خود بھی شامل  تھے۔ وطن کے لیے محبت اور قربانیوں کا اظہار اُن کی غزلوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اصغر کی غزل میں ذاتی کرب کے پس پردہ معاشرتی زندگی، اس  کی کشمکش،زندگی کے تضادات اور اس میں پائی جانے والی پیچیدگی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ غزلیہ اسلوب کی وجہ سے اصغر کی تمام نعتیں قافیہ بندی کے حوالے سے عمدہ مثا لیں ہیں۔ آپ کی لمبی بحر کی نعتوں میں روانی، تسلسل، آہنگ،  لے اور نغمگی پائی جاتی ہے۔ ایک طرف فارسی آمیز لہجہ اور دوسری طرف ہندی زبان کا اثر بھی اُن کی غزل میں موجود ہے۔ اُن کی غزل میں بہت زیادہ ہندی الفاظ بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

احسان اللہ ثاقب کا اُردو ادب میں بڑا کارنامہ  یہ ہے کہ  انہوں  نے اپنے اولین  مجموعہ  کلام ”شہر غزل“ میں بیس بحور کے چھیاسی اوزان میں بڑی خوبصورتی سے طبع آزمائی کی ہے۔  آج اردو شاعری میں کوئی بھی قد آور شاعر اتنی تعداد میں بحور اور اوزان میں شعر نہیں  کہہ سکا۔ مزید یہ کہ انہوں نے ایک نئی بحر کا اضافہ بھی کیا ہے اور ”اسے بحر مترنم“ کا نام دیا ہے۔یہ بحر تمام عروضی تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔

  ریاض حسین چود ھری نے نعت کے ساتھ ساتھ  دیگر اصناف سخن میں بھی  طبع آزمائی کی ہے۔  لیکن اُن کی پہچان صرف  اور صرف نعت گو شاعر  کے طور پر ہی ہے۔ آپ نے نعتیہ شاعری  کو آزاد اور پابند  نظموں کے وسیع امکانات کے ذریعے  نئے آفاق دکھائے  ہیں اور غزلیہ انداز  کی نعتوں کو جدید اسا لیب سے  ہم آہنگ کر کے بنیاد  و  وقار عطا کیا ہے۔ آپ کا  پہلا شعری مجموعہ ”خون رگ جاں“ ہے جو ملی و قومی نظموں پر مشتمل ہے۔ آپ کے سات شعری مجموعے  ”زر معتبر“، رزق ثنا‘،”تمنائے حضوری“، ”متاع قلم“، ”کشکول آرزو“، ”سلام علیک“ اور ”خلد سخن“ نعت پر مشتمل  ہیں۔ ”رزق ثنا“، نعتیہ مجموعے پر انہیں  صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ”سلام علیک“ شعری مجموعہ اکیسیویں صدی کی پہلی طویل نعتیہ نظم ہے۔ ریاض حسین کی نعتیہ غزلیں اُن کی جولانی طبع کی بدولت ایک طرف  قصیدہ بنتی نظر آتی ہیں تو دوسری طرف اُن میں نظم کا تسلسل در آیا ہے۔ نو بہ نو ردیفیں اور زمینیں اس پر مستزاد ہیں۔ریاض کی کائنات  نعت میں گھر اور وطن کا استعارہ ایک جاندار اور توانا اکائی کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ ریاض کی نعت میں استغاثے کا انداز نمایاں ہے۔ وہ اپنے  انفرادی اور اجتماعی دکھ حضورؐ کی عدالت عظمیٰ میں پیش کرکے نظر کرم کا ملتجی ہے۔ریاض حسین  چود ھری کی نعت کے تمام استعاروں کا خمیر دین و آئین رسالتؐ کے ساتھ ساتھ، عہد  جدید کے معتبر حوالوں سے اُٹھا ہے اور اُن میں تقدس بھی  ہے اور تازہ کاری بھی۔ اُس کا اسلوب اُردو شاعری کی تمام ترجمالیات سے مستیز ہے اور اسے جدت و شائستگی کا معیار دیا جا سکتا ہے۔

یوسف نیر نے  کافی  لمبا عرصہ مرے کالج میں بطور اُستاد گذارا۔  آپ مرے کالج کی مجلس سخن اور مجلس اقبال کے انچارج رہے۔مرے کالج کے علمی وادبی مجلہ ”الفیض“ کے نگران رہے اور مرے کالج سے ”اقبال نمبر“ اور ”غالب نمبر“ بھی شائع کیے۔۸۸۹۱ء میں آپ پاکستان رائٹرز گلڈ کے مرکزی صدر منتخب ہوئے۔ پنجابی ادبی سنگت لندن نے انہیں ۰۰۰۲ ء کا ادبی ایوارڈ لندن میں ایک مشاعرے کے بعد پیش کیا۔ ”روشنی کا پہلا دن“ یوسف نیر کا شعری مجموعہ ہے۔یوسف نیر کا بہت سا شعری سرمایہ   مسودوں کی صورت میں اُن کے پاس موجود ہے ۔معاشرتی جبر اور گھٹن، آواز حق، غم جاناں و غم دوراں، جد جہد، اجتماعی شعور، بھوک وافلاس، امن و آشتی، روحانی فضا، تصور، و طنیت اور انسانی زندگی کی ترجمانی یوسف نیر کی شاعری  کے موضوعات ہیں۔ آپ نے  متنوع اصناف سخن میں شعر کہے ہیں لیکن  غزل  آپ کی محبوب صنف سخن ہے۔ نیر کی غزل اور نظم میں فن محاسن کا بھی خوبصورت استعمال ہے۔ آپ سیدھے سادے بیانیہ اسلوب میں اپنے تجربات و مشاہدات بیان کرتے ہیں۔ اور سادہ دلوں پر اثر کرنے والی زبان استعمال کرتے ہیں۔  اُردو غزل کو نئے تجربات اور اسالیب سے آشنا کرنے والے شعرا میں یوسف نیر کا نام سرفہرست ہے۔ آپ نے حسن و عشق اور جنسی تجربات کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے لیکن روایتی شعرا کی طرح  گیسو، لب و رخسار میں گم  رہتے نظر  نہیں آتے۔

جس سرزمین نے اقبال اور فیض پیدا کیے اس زمانے میں صابر ظفر پیدا کیا ہے۔ صابر کے  لکھے ہوئے دل میں اُتر جانے والے  گیتوں اور نظموں کے بول، چھوٹی بحروں میں جدید رویوں کی ضمانت غزلیں اکثر سامعین ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر سنتے رہتے ہیں۔ آپ کا پہلا شعری مجموعہ ”ابتدا“ ہے جسے التحریر ادارہ لاہور نے شائع کیا۔ ”دھواں اور پھول“، ”پاتال“،”جتنی آنکھیں اچھی ہوں گی“،”دریچہ بے صدا کوئی نہیں“، ”لہو ترنگ“، ”دکھوں کی چادر“، ”بارہ دری میں“، ”اک تری یاد رہ گئی باقی“،”عشق میں روگ ہزار“، ”بے آہٹ چلی آتی ہے موت“، ”صابر ظفر کی مزاحمتی شاعری“،”چین اک پل نہیں“، ”پل دوپل کی چاہت میں“،”اُڑان“، ”محبت کا نیل کنٹھہ“، ”کوئی لو چراغ قدیم کی“،”نامعلوم“ اور ”ترے عشق نے مالا مال کیا“۔صابر ظفر کے شہرہ آفاق شعری مجموعے ہیں۔ اب تک  تیس کے قریب اُن کے شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور کچھ مسودوں کی صورت میں اُن کے پاس موجود ہیں۔

سیالکوٹ مذہبی  تحریکوں کا بھی ایک اہم مرکز رہا ہے۔ اقبال سمیت یہاں کے اکثر شعرا نے مذہب کو اپناموضوع بنایا ہے۔ اقبال و فیض کے شعری دبستا صابر ظفر جدید غزل گو شاعر ہیں۔ اُن کے ہاں جبر کے خلاف شدید تلخی پائی جاتی ہے اور انصاف کشی پر انہیں طیش آتا ہے۔ صابر ظفر نے اپنی غزل میں داخلیت اور خارجیت کی پرانی بحث کو بالکل  ختم  کر دیا ہے۔ اور یہ ثابت کیا ہے کہ داخلیت خارجیت سے متاثر ہوتی ہے اور خارجیت کے بغیر بلاغت سے محروم رہ جاتی ہے۔ آپ نے اپنی غزل  میں حقائق حیات کی ترجمانی کی ہے۔ صابر ظفر تخیل کے ریلے میں تعقل سے کبھی دست کش نہیں رہتا۔ وہ خارجی آنکھ کھولے رکھتا ہے تا کہ اس کی باطنی آنکھ کی بصارت دھندلا نہ جائے۔ تغزل میں شعور کی آمیزش، جس کا  آغاز غزل میں  غالب   نے کیا اور جسے فراق نے اعتبار بخشا، صابر ظفر کے ہاں حسن کاری اور حقیقت نگاری کا ایک دلآویز سنگھم بن کر نمودار ہوئی ہے۔ صابر ظفر کی غزل یقیناً غزل کی کلاسیکی روایت سے  پھوٹی ہے  مگر اس  نے دوسرے ہم سفروں کی طرح اس روایت میں اپنی شخصیت، اپنا منفرد رویہ اور اپنے عصر کی روح شامل کر کے ایک نئی روایت کی داغ بیل پڑنے کا امکان  بھی پیدا کر دیا ہے۔ مذکورہ بالا شعرا کی شاعری کے تحقیقی و تنقیدی جائزے کے بعد  میری را ے ئ یہ ہے کہ سیالکوٹ کی اردو  شاعر ی  عالمی   اردو  شاعر ی کے ہم پلہ ہے ۔ سیالکوٹ کی  شاعر  ی کے اپنے موضوعات اور اسالیب بھی ہیں اور  عالمی  اردو  شاعر ی کے موضوعات اور اسالیب کو  بھی  سیالکوٹ کی  شاعر  ی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سیالکوٹ کی  شاعر  ی پر دبستان دہلی اور لاہور کی شعری روایت کے اثرات بھی  رہے ہیں۔سیالکوٹ کی شاعری پر کشمیر کے حالات و واقعات کے اثرات کے ساتھ ساتھ تقسیم ہند کے بھی اثرات رہے۔ادبی،سیاسی ا ور مذہبی تحریکوں نے بھی یہاں کی شاعری کو متاثر کیا ہے۔جنہوں نے بھی سیالکوٹ کی شاعری پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔موجودہ دور کے شعرا بھی مذکورہ بالا سیالکوٹ کی شعری روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

 

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...