Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 > فکشنیات کے نئے تخلیقیت افروز سنگِ میل

نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022

فکشنیات کے نئے تخلیقیت افروز سنگِ میل
Authors

ARI Id

1695778069724_56118337

Access

Open/Free Access

Pages

۱۸

نئے ہزارہ کے ربع اول کے عالمی، قومی اور مقامی مابعد جدید تناظر میں نئے عہد کی ناولاتی تخلیقیت کا جشن عالیہ قائم ہے۔ گو بڑے ناول نہ سہی، لیکن اچھے، سچے، اہم اور معنی خیز ناول لکھے جا رہے ہیں۔ بڑے بڑے ناول روز روز وجود میں نہیں آتے۔ اِس ضمن میں فکشن کی شعریات زیادہ تر فکری اور فنی دُشواریاں پیدا کرتی رہی ہے۔ تاہم عالمی ناولاتی تخلیقیت میں بالزاک کے پہلو بہ پہلو مارسل پُروست، جیمس جوائس، ورجینیاولف، الزبیٹھ بوون، کے چشمہئئ شعور کے ناولوں کے علاوہ روب گرئیے، مائیکل بوتر اور مادام ستراط کے ”نو ؤ رو ماں“ میں اور دوسروں کازو اُواِشی گورو (KAZOO ISHIGURO) سیمول بیکٹ، بورہس (بورخیز غلط ہے) گبریل گار شیامار کیز (مارخیز غلط ہے) اِٹالو کالونیو اور امرتوایکو کے یہاں بھی شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ ناولاتی فکشن ان دُوگروپوں (مثلاً فاکنر، گریسیا مار کو ئیز، میلان کندیرا، جُو لیو کور تیزار، رینالڈ وار نیاز، اِنجیلا کارٹر اور جنیٹ ونٹرس، ٹونی ماریسن، سلمان رشدی، گنٹر گراس اور میلکم لاوی وغیرہ کے درمیان ایک پیچیدہ لا متناہی مکالمہ قائم و دائم ہے جو دنیا سے ہم رشتگی کے باوجود شدید انفرادی ردّ عمل سے وجود پذیر ہوتا ہے اور مختلف و متنوع ناولاتی رنگ و آہنگ اختیار کرلیتا ہے۔

انتظار ح”ہندوستانی قومی اور مقامی تجربہ“ ”یوروپی تجربہ“ سے مختلف ہے تو ہندوستانی ناول کی بوطیقا یوروپی ناول کی بوطیقا سے مختلف ہوگی۔ وہ ہمارے معاشرتی، تہذیبی، ثقافتی تجربہ، ہماری یاد، ہماری ذہنی کنڈیشنگ، وقت اور ارتقا کی بابت ہمارے فطری ذہنی رویہ اور عمل برتاؤ کے مطابق ہوگی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم اردو ناولوں کی صحیح قدر و قیمت کس بوطیقائی کسوٹی پر متعین کرتے ہیں؟ جب تک ہم اِس فکشنی شعریاتی کسوٹی کے لئے کھری فکریاتی کسوٹی نہیں ڈھونڈتے۔ خود ناول کی صنف اور اپنے انفرادی قومی اور مقامی تجربات کے درمیان فاصلے کو نہیں پرکھتے۔اُس وقت تک اچھے ناولوں کی گنتی کروا کر ہم خوش فہمی میں مبتلا ہولیں۔ ہم وقہیں رہیں گے جہاں آج ہیں۔ اِس ناولیاتی کسوٹی کے فقدان کے باعث ہم یقینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس پہلی صنف میں قرۃ العین حیدر، آج اکیسویں صدی کے مابعد جدید سیاق میں ہم نے تخلیقی ناول کو تقریباً کھودیا ہے۔ تخلیقی ناول کی جائے پیدائش تنہا فرد تھا۔ نئے عہد کی تخلیقیت میں اِس تنہا فرد نے جس غیر ارضی مقام پر بُود و باش اختیار کی ہے، وہ اِٹالوکالونیو کے زاویہئ نگاہ سے محض ”قرأت کی جنگ“ ہے۔ یہ اختیاری خلوت، محشر خیالی، خاموشی، ذہنی آزادی اور آفاقی درد مندی کی آماجگاہ ہے اور مطلق العنان سیاست گزیدگی سے نجات پاکر ایک حاصل کردہ جمہوری ماڈل ہے جو مارسل پُروست کے ”بہشت کے ایک خواب جیسا“ ہے۔یہاں میرا عندہ یوروپی ناول اور اُس کی ناولاتی شعریات کا تجزیہ کرنے کا نہیں۔ میرا محتاط اشاریہ صرف ایک خاص تہذیب و ثقافت کی طرف ہے جس میں یوروپی ناول کی ساخت و بافت کی تشکیل ہوئی تھی۔ اِس ساخت و بافت کے اندر وقت کی اپنی متعین اور منظم معنی خیز تنظیم تھی۔ واقعات کے ذریعہ انسانی شعور کا ارتقا ہوتا تھا اوراپنی باری آنے پر خود یہ انسانی شعور واقعات کی تعریف، توجہ اور تنویر میں کوشاں ہوتا تھا۔ یہ فطری انسانی شعور فنکارانہ معروفیت کے ساتھ خود کفیل تھا۔ شدید طور سے بیدار اور خود مختار تھا۔ ایسی خود بیداری اور خود مختاری میں اُس کا گہرا کرب، کشمکش اور خود احتسابی ناول کے فارم کے فنی شعور و آگہی کے ساتھ شامل تھی۔ بورژوا آدمی میں اپنی بابت اِس اُمید، ناامیدی، یقین اور تشکیک کے امتزاج سے وہ خود کشی، تذبذب اور مُہلک گُو مگُو کی کیفیت پیدا ہوئی تھی جو گستاؤ فُلو بیر سے فرانز کافکا تک مادام سراط سے بورہس، کلود سمون، گبریل گارشیا مارکیز کزنتز ا کی اور اٹالو کالو نیو کی مٹیا فکشنی (فوق متنی) حقیقت نگاری تک نئے ناولوں میں چلی آتی ہے۔ یہ انتہائی حیرت انگیز صداقت ہے کہ ہم نے اپنی بیانیہ نثر اور فکشنی آفاق کے لئے ناول جیسی تخلیقی صنف کو منتخب کیا ہے جس کی نشو نما اور ارتقا بالکل مختلف تہذیبی، ثقافتی، عمرانی، جمالیاتی اور تجربی منطقہ میں ہوئی تھی۔ یہ کچھ ایسا ہی تھا کہ ہم ایک ایسے بنے بنائے مکان میں رہنے لگیں جو دوسروں نے اپنی ضرورتوں، شرطوں، خوابوں، یادوں اور واہموں کے مطابق بنایا تھا جو ان کی جغرافیائی، تواریخی اور معاشرتی آب و ہوا اور داخل فضا کا مطالبہ تھا۔ اُس میں ہم نہ صرف جبراً رہنے لگے بلکہ کبھی اُس میں اپنی داخلی اور خارجی تقاضوں کے مطابق تبدیلی کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔

سین، عبداللہ حسین، جوگندر پال اور قاضی عبدالستار ہیں یا اُن کے بعد کی نسل کے الیاس احمد گدی، پیغام آفاقی، عبدالصمد، غضفر، شموئل احمد، حسین الحق، سید محمد اشرف، مشرف عالم ذوقی، یعقوب یاور، ترنم ریاض، ثروت خاں، صادقہ نواب سحر، نورالحسن، شفق سوپوری، مناظر عاشق ہرگانوی اور نئی نسل کے رحمٰن عباس، شائستہ فاخری اور صغیر رحمانی وغیرہ ہیں۔ اِس میں کرشن گوپال عابد، دت بھارتی، وحشی سعید، نور شاہ، ابن صفی، سراج انور، اظہار اثر اور گلشن نندہ کو کیوں نظر انداز کیا جائے؟ یہی نہیں، ہم آگے بڑھ کر ایک عجیب من مانی فکشنی کسوٹی تیار کرتے ہیں، جس کو لے کر موضوعی اور معروضی ناولوں کے درمیان فرق بھی طے کرتے ہیں اور معروضی کو حقیقت پسند ناول تسلیم کرتے ہیں جیسے خود زندہ شخص کے بہر خلاف مردہ شے حقیقت کے زیادہ قریب ہو۔ یہ شعریاتی کسوٹی باہر نہ ہو کر خود ناولاتی صنف کی تخلیقیت کے اندر ہے۔

ہم یہ کہہ کر ناول کی تنقید نہیں کرسکتے کہ وہ زندگی کے کتنے قریب ہے۔ (کون سی زندگی، کیسی زندگی؟) اُس کے واقعات کتنے اعتبار آگیں ہیں (اعتبار آگیں کبھی ادب کی کسوٹی نہیں رہی۔ ورنہ شکپیر سب سے زیادہ کامیاب ڈراموں کے خالق ہوتے) یہ ناول کے کردار کتنے حقیقت آگیں ہیں؟ (حقیقت کوئی بجلی کا بلب نہیں جس کے پاس جا کر کوئی ادبی صنف چمک جاتی ہو اور دُور جا کر دھندلا جاتی ہو۔ ادبی، جمالی و سماجی قدر اور اخباری قدر میں ایک طویل پیچدار فاصلہ ہے تاہم ناولاتی متن کو تواریخی، سیاسی، سماجی، تہذیبی اور ثقافتی معنویات کیترجمانی سے الگ تھلگ نہیں سمجھا جاسکتا۔ کیونکہ ناولاتی متن بھی آئیڈولوجی کی تشکیل ہے بلکہ ہر نظریہئ زندگی، ہر نظریہئ قدر کسی نہ کسی آئیڈولوجی کا موہون منت ہے۔ ناول کی ناولیت اور معنویت محض کو ری کاری اوگھڑ اور اَن گھڑ صھافتی حقیقت میں نہیں بلکہ اُس کو سمیٹنے کے فنی عمل، اُس کی جمالیاتی تشکیل و تنظیم اور ”داخلی نفسیاتی متحرک قوت“ میں پوشیدہ ہے۔ اُس وقت کسی صنف کے اندر ایک خاص ہیئت و بنت تخلیقی سطح پر رونما ہوتی ہے جو سمیٹنے کے فنی عمل کی ہر لَے، ہر سُر، ہر تال، ہر سطح اور ہر ارتعاش و اہتزاز کی ڈسپلن کرتی ہے۔ ایسے ناولاتی عرصہ (SPACE) کا افتتاح کرتی ہے جہاں تجربہ کی زندہ، متحرک اور نامیاتی ناولاتی زندگی شروع ہوتی ہے۔ حقیقی ناولیت کی پوری بہار آفریں کھلاوٹ ہوتی ہے۔

             ہم اکثر ادبی صنف (GENRE) اور ہیئت (FORM) کو آپس میں الجھا دیتے ہیں۔ اول الذ کر پہلے دقیا نوسی اور فرسودہ رسم و طریق تھی۔ لیکن اب صنفی سرحدیں ٹوٹ گئیں۔ وہ ٹھوس کے بجائے سیال ہوچکی ہیں۔ صنف منجمد نہیں حرکی وجود رکھتی ہے۔ ثانی الذکر اُس کو توڑ کر اپنی تخلیقی لہر کو ڈھونڈنے کی تخلیقیت افروز کاوش ہے۔ اگر اِس ضمن میں ہم صحیح طور پر تخلیقی اور فنی تمیز کرسکنے کے اہل ہوتے تو یورپ کی مخصوص تہذیب و ثقافت کی زائیدہ اور پروردہ صنف کو اپناتے وقت اُس کی ہیئت و بنت کو بھی جُوں کا تُوں اپنا ضروری نہ سمجھتے۔

            آزادی پسند قالب آزادی پسند باطن کا امین ہوتا ہے۔ نئی ناولاتی ہیئت و ساخت نئی ناولاتی تخلیقیت کا جمالیاتی مظہر ہوتی ہے۔ نئے تناظر میں نئی ناولیاتی جمالیات نئی قدریات سے منسلک ہوتی ہے۔ ناولیاتی ہیئت و ساخت کی یہ تلاش کوئی ہوائی ِ خلائی محض جمالیاتی تلاش نہیں ہے۔ اِس کا براہ راست رشتہ تہذیبی و ثقافتی تجربہ کی اُس نامیاتی لہر سے ہے جس میں ہماری ذہنی کنڈیشنگ، اوہام، یاد، تصور، خواب، وقت، زندگی، تہذیب، اصولِ حقیقت، موت اور مابعد موت کا وجدان و شعور شامل ہے۔ اگر ان سب منفرد ثقافتی نکات کی بابت ہمارا رُخ، ہمارا رویہ، ہماری نگاہ، ہماری تخلیقی بصیرت اور تخلیقی آگہی مختلف اور جُدا گانہ رہی ہے۔ اگر وقت کی بابت ہمارا شعور اُس تواریخی زماں سے بالکل علاحدہ رہا ہے جس کو یورپی ناول نے اپنا محور تصور کیا تھا۔ اگر ہم بین اختلافات کے اِن سب مختلف ثقافتی نکات کو یکسر نظر انداز نہ کرتے تو ہم ایک ایسی ہیئت و ساخت کی تلاش میں کامیاب ہوسکتے تھے جو اوپری فکشنی صنف کے طور پر ناول کے مانند ہوتی۔ لیکن جس کی حاوی بنیادی نفسیاتی محرک قوت، مغربی ناولاتی صنف سے یکسر مختلف اور جُداگانہ ہوتی اور روسی، چینی اور جاپانی ناول کے مانند مختلف اور جُداگانہ قومی اور مقامی باولیاتی شعریات کی حامل نظر آتی۔ لیکن اپنے ذاتی تجربہ کے تخلیقی تناظر میں ناول بحیثیت صنف اُس کی ناولیات، شعریات، بیانیات اور بوطیقا کی از سرِ نو معروضی جانچ پرکھ تو دُور کی بات تھی۔ برسا برس سے انہوں نے جس صنف کو اپنی سماجیاتی، ثقافتی، فلسفیاتی، نفسیاتی اور مابعد نفسیاتی حقائق کی تعبیر، تفسیر، تجربہ و تحلیل کا فنی آلہ تسلیم کیا۔ کبھی اُس جمالیاتی آلہ کی صلاحیت اور کارِ کردگی کی معروضی جانچ پڑتال کی شدید ضرورت کا بے محابا سامنا نہ کیا، جیسا کہ فرانس میں مارسل پُروست، روب گریئے اور انگریزی ادب میں ورجیناولف نے کیا۔ افسانہ کی شعریات کے ضمن میں گوپی چند نارنگ اور شافع قدوائی نے افسانوی بیانیات (NARRATOLOGY) کی بابت خیالات انگیز مقالات قلم بند کئے ہیں۔ لیکن اُردوئی ناولیاتی بوطیقا کے سلسلہ میں ابھی تک کوئی کام نہیں ہوا ہے۔ ہمارے لئے فی زمانہ اُردوئی ناولیاتی شعریات، ناولیاتی فکریات اور ناولیاتی بوطیقا کی تخلیق، تشکیل و تعمیر ناگزیر ہے۔

            یہی نہایت حیرت کی بات ہے کہ ناول ہی وہ شعبہ ہے جہاں ہم نے اِس نفسیاتی دباؤ کا سب سے زیادہ انکار کیا ہے۔اُردو زبان میں مختلف نوعیت کے ناول لکھے گئے ہیں۔ اکیسویں صدی کے مابعد جدید تناظر میں بھی ہر سال لکھے جا رہے ہیں۔ رومانی ناول، جاسوسی ناول، سائنسی ناول، قصباتی ناول، سوانحی ناول، تواریخی ناول، مابعد تواریخی ناول اور فوق المتنی ناول، لیکن خود ناول کے بوطیقاتی مسئلہ پر غور و فکر اُس کے قومی اُردوئی فارم (ہیئت و بنت) کی پُر خلوص اُردو زبان میں ”نہیں“ کے مترادف ہے۔ اِس لئے بیشتر اُردوئی ناول کے فارم (بیئت و بنت) کی فنکارانہ رائیگانی اور فکشنی شعریاتی لاغری کا عالم خاصہ مسئلہ انگیز ہے۔ اِس سطح پر ناول کا مسئلہ ہماری پوری ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے تجربہ سے وابستہ ہے۔ یہاں ہمیں اپنی زندہ روایت اور یاد میں الجھے آدمی اور آدمی کے درمیان رشتوں کے غیر مرئی لاتعداد دھاگوں کو ٹٹولنا ہوگا جو مغرب کے آہن پوش بورژوا جدلیاتی اور برف پوش ثقافتی و تواریخی رشتوں سے بہت الگ تھلگ ہیں۔ اِن سنگلاخ حقائق کو نظر انداز کرکے برسوں سے ہم ایک ایسی متعار صنف سے چپکے ہوئے ہیں جو ابتدا سے ہی ہمارے تہذیبی و ثقافتی تجربہ، ہماری یاد، ہماری یاد، خواب و خیال، ہماری ذہنی مشروطیت وقت اور ارتقا کی بابت ہمارے فطری رویہ اور برتاؤ کے خلاف ہے۔

           بوطیقائی نظریہ سے اگر ہم مزید غور و فکر کی جسارت کریں۔ ہم اکثر پریم چند کے ناول ”گؤدان“ کی بابت والہانہ عقیدت سے کہتے ہیں کہ وہ ناولاتی شاہکار! لیکن۔۔۔۔! بیسویں صدی سے اکیسویں صدی کی دوسری دہائی تک ہم اِس ذو معنی ”لیکن“ کے آگے اپنے مبہم عدم تسکین کی وجوہات ڈھونڈھتے آئے ہیں حتیٰ کہ ”گؤ دان“ کے انگریزی اور فرانسیسی ترجمے میں مجبوراً متعدد ایسے کردار، عوامل اور واقعات کو ترجمانی زاویہئ نگاہ سے چھوڑنا مناسب سمجھا گیا جو ناول کی اساسی کہانی کو کمزور کرتے ہیں۔ اُس کی فطری روانی میں چٹان آساسد راہ ہوتے ہیں۔ لیکن اِس نوعیت کی مدیرانہ ترجمانی، تراش وخراش سے ناول کی بنیادی کمزوری رفع نہیں ہوگئی۔ کیونکہ وہ کمزوری غیر ضروری واقعات اور کرداروں میں نہ ہو کر خود ”گؤدان“کی پوری ناولاتی تخلیقیت کی روح میں کارفرما ہے۔ (یہ کمزوری اُسی فارم، ہیئت اور بنت میں پوشیدہ ہے جو پریم چند نے ہوری جیسے زندہ، اپنے غم و مسرت میں ہمیشہ متحرک کردار پر منطبق کی ہے۔ ایک طرف پریم چند کی گہری انسانی بصیرت ہے جو ”گؤدان“ کے کرداروں سے انہیں عطا کی ہے۔ (دوسری طرف ایک پہلے سے تراشیدہ اور آز مودہ صنف اور اُس کی ہیئت و بنت کو اپنانے کی غیر معمولی مقلدانہ سہولیت پسندی ہے۔ جس کا ان ہندوستانی علاقائی اور مقامی کرداروں کے دیہی و علاقائی تہذیبی و ثقافتی تجربات، توہمات، نفسیاتی تعصبات، تاثرات اور شخصیات کے خانے اور تہہ خانے سے کوئی زندہ، نامیاتی اور متحرک رشتہ نہیں ہے۔) اُن کی زندگی کی زیریں لہر سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یہ ایک بوطیقائی چیلنج تھا جب پریم چند بھی عظیم رُوسی، چینی اور جاپانی ناول نگاروں کے مانند اپنی تخلیقی بصیرت اور فکریاتی ادراک و عرفان کے باعث انیسویں صدی کے روایت گزیدہ یورپی ناولاتی ساخت و بافت کو چھوڑ کر یا اُس کو بدل کر ایک ایسے بیانیہ کی جستجو کرتے جو ہوری کی تقدیر اور اخلاقیات، اُمید و یاس کے مطابق اپنے ہیئتی، ساختیاتی، فنی اور جمالیاتی عرصہ (SPACE) کو متعین کرسکتا جس کے باعث فطری ناولیت طلوع ہوتی۔ یہ اس لئے بھی ضروری تھا کیونکہ واقعات کی بابت ہوری کا رشتہ ویسا جذباتی اور زمانی پابندی کا حامل نہیں ہے جیسا مغرب کے ناولاتی کرداروں کا عموماً ہوتا ہے۔

            جب ہم پہلی بار ناول میں ہوری کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک جھلک میں ہی اُس کی پوری تقدیر کا احساس ہوجاتا ہے۔ ایک رزمیہ کردار کے مانند اُس کی تقدیر ایک جملہ، ایک اشارہ، ایک سرسری ردّعمل میں پوشیدہ ہے۔ کتنا مختلف ہے ہوری کا کردار، مغربی کلاسیک ناولاتی کرداروں سے جو ایک واقعہ سے دوسرے واقعہ کی طرف بڑھتے ہوئے اپنے کو منکشف کرتے ہیں۔ ایک ڈائمنشن کو چھوڑ کر خوبی کے اعتبار سے یکسر نئے اور مختلف بعد کو قبول کرتے ہیں۔ اِس کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ پورے ناول میں ہوری بدلتا ہی نہیں یا مختلف مواقع پر اُس کے ردّاعمال نہیں بدلتے۔ لیکن یہ تبدیلی، یہ الگ ردّ اعمال درحقیقت ایک جامد کردار کے مختلف اظہارات ہیں۔ وہ کردار نہیں بدلتا۔ اُس کی تصویر بدلتے ہوئے بھی ایک بعدی محور پر قائم رہتی ہے۔ ایک ایک ایسے درخت کے مانند جو ہوا کے جھونکوں سے کبھی جھکتا ہے، کبھی سراٹھاتا ہے۔ لیکن اپنی زمین نہیں چھوڑتا۔ وہ کردار جس کی زندگی کسی مغربی ناول میں نہیں دستیاب ہوتی۔ کیا یہ پہلے سے میکانکیت گزیدہ مغربی ناول کی صنف اُس کی زندگی کے لئے موزوں تھی؟

             کیا یہی وجہ نہیں ہے کہ برسوں سے ہم ”گؤدان“ کو ایک غیر معمولی فخر تاہم زودپشیما فی کے ایک عجیب ملے جُلے ردّعمل کے ساتھ پیش کرتے رہے ہیں۔ ایک ناولاتی شاہکار۔۔۔۔۔۔ لیکن! اِس آکٹوپسی ”لیکن“ سے پیدا ہونے والی یہ نفسیاتی اور فنی گُتھی قرۃ العین حیدر کے سامنے بھی اُس وقت اُبھری تھی جب وہ ”آگ کا دریا“ کا ترجمہ کرنے لگی تھیں۔ قرۃ العین حیدر نے انگریزی ترجمے میں خود تقریباً ڈیڑھ سو صفحات ایڈٹ کئے ہیں۔ لیکن نفسیاتی طور پر اکثر یہ گُتھی اُن کو ہمیشہ پریشان کرتی رہتی تھی۔ اس ضمن میں نہایت معروضیت سے سخت قطع پُرید کے ساتھ ”امراؤ جان ادا“ کا ترجمہ کرنے والے خوشونت سنگھ نے اُن کو نیک مشورہ دیا تھا کہ اُن کے ناول میں ابھی بھی غیر ضروری طوالت ہے۔ بہتر ہوتا کہ وہ کسی دوسرے سے ترجمہ کرواتیں۔ ”فکشن کی سچائی“ کے بیان کنندہ شمس الرحمٰن فاروقی کے غیر معمولی طوالت گزیدہ ناول ”کئی چاند تھے سر آسماں“ کے ساتھ بھی اِس آکٹوپسی ”لیکن“ کا مسئلہ انگیخت ہوتا ہے۔ استاد ِجہاں اور زبان کے لاثانی جادو گر داغ دہلویؔ کی جہاں دیدہ اور آزمودہ کارماں وزیر خانم اور راجستھانی مصوری کی لامثل ”بنی ٹھنی“ اِمَن مُوہنی کی بیکراں جنسی شور انگیز بدنیات افروزی اور جنسیات گزیدگی کے آٹھ سو صفحاتی امیر حمزائی افسانہ گوئی کے رطب و یالبس کی قطع بُرید کر اُس کو چار سو صفحات میں آسانی سے سمیٹا جاسکتا تو یہ زیادہ تراشیدہ، موثر اور تخلیقیت افروز ناول ہوتا۔ عتیق اللہ نے اس کی بیجا طوالت سے سہم کر ہی اس کو ”مہا بیانیہ“ METANARRATIVEسے موسوم کیا ہے۔ فی زمانہ مابعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت کے تناظر میں مہابیانیہ کو قطعاً متروک اور مردود قرار دیا گیا ہے۔ عتیق اللہ کی غیر تنقیدی مدّاحی یا تہہ نشین ملاحی خاطر نشان ہو۔  ”فاروقی کا ناول بلاشبہ اپنے طرزو تکنیک کے اعتبار سے ایک منفرد ترین گڑھا ہوا اور ایک عہد سازمہابیانیہ METANARRATIVEہے۔“(سہ ماہی تفہیم، ص ۶۳)یہ فکشن کی تنقید ہے یہ خور نیمروزی صداقت ہے۔ فی زمانہ اردو ادب میں غیر معمولی ’’تہذیبی بازیافت“ کے امین ناولاتی حسن پارے اور صداقت پارے ”خواب سراب“(انیس اشفاق)”آخری سواریاں“ (سید محمد اشرف) ”نعمت خانہ“(خالد جاوید) ’’تِلک الایام“ (نور الحسن) ”سانسوں کا سنگیت“ (رتن سنگھ) ”اماوس میں خواب“ (حسین الحق) ”مرگ انبوہ“ (مشرف عالم ذوقی) منظر عام پر آئے ہیں۔

           اردو ناول میں تانیثی مخاطبہ کا حقیقی مقاومت انگیز رزمیہ ناول ”مکان“ میں بھی خود کلامی، داخلی خود کلامی اور یا ناتنقید ہے۔

         شمس             اِس ”گڑھے ہوئے عہد ساز بیانیہ“ کا انگریزی ترجمہ The Beautyبھی ہر جگہ سے انعام و نام کے بغیر بے رنگ واپس آگیا ہے۔ یہ نہ Mirror Of باز تخلیق اور نہ نو تخلیق بن سکا۔ فرانسیسی اور ایرانی زبان میں کہا جاتا ہے۔ (TRADITORE TRADTIORE) ”ترجمہ داری خراب کاری“ اُردو زبان میں ”ترجمہ کاری خراب کاری“ ہے۔الرحمٰن فاروقی کا یہ نیا بلند بانگ دعویٰ ہے کہ ”کئی چاند تھے سر آسماں“ معاصر ناولاتی ادب میں اکلوتی ”تہذیبی بازیافت“ ہے۔ (انٹرویو ”کاروان ادب“، بھوپال)

         قدم قدم پر فلسفیانہ مباحث کا وفور ہے جو اُس کی ناولیت کو مجروح کرتا ہے۔ پیغام آفاقی کے اس اہم اور معنی خیز مقاومتی ناول کا بھی انگریزی میں ترجمہ ہوا ہے۔ ترجمانی زاویہئ نگاہ سے اِس آکٹوپسی ”لیکن“ کا مسئلہ وہاں بھی انگیخت ہوا ہوگا۔

              اِس آکٹوپسی ”لیکن“ کے آگے ہم پھر اُس فکریاتی پر لوٹ آتے ہیں جہاں سے ہر صنف کی تخلیقیت آگیں جانچ پرکھ ہوتی ہے۔ یہ ایک تخلیقی بوطیقائی مہم ہے کیونکہ ایک ایسا نازک لمحہ آتا ہے جب تجربہ اور صنف کے درمیان داخلی تضاد کو کسی سہولیت انگیز ”مفاہمت“ سے نہیں سُلجھایا جاسکتا۔ ناول کے شعبہ میں یہ تخلیقی فکریاتی مُہم اور بھی تیز تر ہوجاتی ہے۔  کیونکہ وہ تواریخ اور شاعری کے درمیان ایک ایسے تخلیقی عرصہ (SPACE) کی تلاش ہے جہاں منطبق پسند، خود آگاہئ شعور، چوبی افکار و عائد کی بھرمار کے ذریعہ نہیں بلکہ یادوں، خوابوں اور تہذیبی و ثقافتی تجربوں میں سانسیں لیتا ہے۔ شاعری کے مانند وہ زبان اور امیجز میں اتنا ہی ڈوبا ہے جتنا ڈوبنے کے بعد باہر وقت میں اپنے تجربوں کے تجربہ، تحلیل اور تعریف کو متعین کرنے کے لئے مضطرب ہے۔

            اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے فکشنی منظر نامہ میں تمام معتبر اور موقر ناول نگاروں کے لئے یہ تخلیقیت آفریں، ناولیت پرور اور معنی خیز مُہم اور بھی زیادہ دُشوار گزار ہے۔ ناول جیسی تخلیقی صنف کے لئے اُس کو ایک مغربی ناول نگار کے مانند خود آگاہ اور منطبق پسند ہونا ہوگا تو ہی پیغام آفاقی کے مانند وہ روایتی اُردو ناول کی مُردہ روایت کی تہ میں

”پلیتہ“ لگا سکے گا۔ لیکن اس صنف کی سرحد پر اُس کو ایک غیر شخص، غیر تواریخی اور اسطوری یادوں کو اُجاگر کرنا ہوگا۔ اُن کو فروزاں کرنے کے لئے خود اس اساطیری اندھیرے کے سمندر میں غضنفر کے ”مم“ کے کردار بے نظیر اور ”مانجھی“ کے مانند ڈوبنا ہوگا تو ہی ہر نوعیت کے مگر مچھوں کے پیروں کے نیچے سے نئی ناولیاتی بوطیقا کا نیا پانی دستیاب ہوگا جو زندگی کی آگ، محبت کی لَو اور سرسوتی آسا نور آگیں انسانی شعور و آگہی کا آب ِ حیات ہوگا۔ یہ تخلیقی ناولاتی مُہم کسی تنقیدی، عقلی اور منطقی تنظیم کے ذریعہ نہیں خالص تخیلی تجربوں کے درمیان سر ہوگی۔ ہیئت (فارم) کی تعمیر نہیں تخلیقی ہوتی ہے بقول زولاں بارت:

                                        (FORM IS CREATION NOT CONSTRUCTION)  

            اِسی تخلیقی تخیل کی بنیاد پر طالسطائے اور دستو فسکی رُوسی معاشرہ اور ثقافت کے دراک آئینہ گر بنے تھے۔ اپنے تاریخی اور منطقی واقفیت یا صحافیانہ شور و شر آگیں رپٹ نویسی کے سبب نہیں۔ اُن کا صحیح تر ابلاغی ناولاتی پیکر ان کی غیر معمولی تخلیقی بصیرت، تخیلی قوتِ ہرواز، فنی لوازم اور بوطیقائی شعور و آگہی کا مرہونِ منت تھا۔ اکیسویں صدی کے اُردوئی تناظر میں نئی ناول نگاری کے آفاق کی کار گہہ شیشہ گری میں ترنم ریاض کے ”برف آشنا پرندے“ اور مشرف عالم ذوقی کا ناول ”لے سانس بھی آہستہ“ کا نازک کام نو حسن آرا اور نو معنی آرا ہے۔ اُن کے ناولاتی آئینہ خانہ میں آزادیئ دید سے سنجیدہ اور حساس قاری خود کو پاتا ہے۔ یہ حقیقی ناولیت سے روشن اور منور بھی ہیں۔ نئی ناولاتی تخلیقیت افروز نسل کے رحمٰن عباس کی قابلِ ذکر و فکر ہنگامہ خیز وجود شکن اور ساخت شکن کاوش ”خدا کے سائے میں آنکھ مچولی“ اور ”روحزن“ تک قائم و دائم ہے۔

             خصوصی طور پر قابلِ ذکر و فکر اِدھر۹۱۰۲ء میں شائع شدہ نئے عہد کی فکشنی تخلیقیت کے تیسرے انقلاب کے نقیب دو معرکہ آرا ناول ”فائرنگ رینج! کشمیر ۰۹۹۱“ (شفق سوپوری) اور ”مرگِ انبوہ“ (مشرف عالم ذوقی) نئے تخلیقیت افروز سنگ ِ میل بن گئے ہیں۔ ”فائرنگ رینج! کشمیر ۰۹۹۱“ تہذیبی نگاہ خانہ ئ رقصاں کشمیر کا روحانی زلزلہ پیما اور ثقافتی خرابہ کا ناولاتی انا طوفیا (DISTOPIA) ہے۔ یہ بیکراں دل شکستہ انسانی دُکھ اور شکستہ و ریختہ انسانی عظمت آگیں کشمیریت کے پس منظر و پیش منظر میں یکتا مقاومتی، مزاحمتی اور احتجاجی موضوع، مواد، ہیئت، طُرفہ اسلوب اور مخصوص ہمہ گیر انسانیت افروز زاویہئ نگاہ کا امین ہے۔ اِس کا بیک وقت برجستہ اور شدید جمالیاتی اور قدرتی انداز پیشکش شفق سوپوری کی یکسر تازہ کار اور نادرہِ کارہ موسیقیانہ شعری تخیل کی اضافی ناولاتی تخلیقیت، معنویت، معاصریت،وفنیت اور اُس کی تخلیق کردہ انیلی سجیلی لسانیاتی، اسلوبیاتی اور ساختیاتی کائنات کی رفیع اور وسیع ترنگ مالا کا تخلیقی ترجمان ہے۔ اِس کا قابلِ غور و فکر نو ناولاتی بیانیات (NARRATOLOGY) ”ذہنی جنت شکن“ ہے جو زیر زمین اور بالائے زمین غیر انسانی جبر و تشدد، دہشت انگیزی اور روح کُش غیر انسانی صورت ِ حال کا زلزلہ پیما ہے۔ تاہم ناولاتی خوش خوابیہ کے مرکزی کردار منظور احمد شاہ، خواجہ احمد قدوس، نور الدین شاہ اور قادر کانچی کے ساتھ ترلوک ناتھ کول اور کرتار سنگھ کی گنگا جمنی پیش کشی نہایت انسانیت افروز ہے۔ شفق سوپوری کے بہار آفریں فکاہیہ رنگ و آہنگ سے اس بڑے المیہ ناول کو ابدی معنویت و اہمیت عطا کردی ہے۔ اس کی ناقابلِ تسخیر زندہ، تابندہ اور پائدہ کشمیریت اور ہمہ گیر انسانیت کی روح کو اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے خاتمہ پر ”گوبر پٹی“ کے لاکھوں فاشست لنچر میں بھی فنا نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ تو پوری اکیسویں صدی کو اپنی انسانیت نواز باہوں میں بے اختیارانہ سمو کر ہمہ عالم انسانیت کے لئے ہمہ رخی روشنی کا مینار بننے کی اہل ہے۔

            نئے ہزارہ کی دوسری دہائی میں فکشن کی ”ناول صدی“ کا آغاز صحیح معنوں میں مشرف عالم ذوقی کے اِس ناولاتی شاہکار ”مرگِ انبوہ“ سے ہوتا ہے۔ یہ غیرمعمولی احتجاجی، مزاحمتی اور مقاومتی نو تخلیقیت افروز اور نو معنویت پرور اکسراتی ناول بی مشن کے خانہ اور تہہ خانہ فاشستی نظام کے ہلاکت آفریں غیر انسانی منصوبوں کو برافگندہ غیاب کردیتا ہے۔ قومی اور مقامی فسطائی سیاست گری کے سربراہ شعبدہ گر، بازیگر بلکہ صحیح معنوں میں جادو گر کے سحر آگیں لرزہ خیز خونی نماشوں کی نہایت فنی طور پر ردّ تشکیل کر بے محابا برافگندہئ حجاب کردیتا ہے۔عالمی نئے ناولاتی ادب میں آرویل کے ۷۴۹۱ء کے بعد یہ خار اشگاف نو انقلاب آفریں ناول ”مرگ ِ انبوہ“ وجود میں آیا ہے جو آج نیند میں چلنے والی قوم کا سنگین ترین اعلانیہ ہے۔ یہ نخشتمثالی (ARCHTYPAL) ناول ہے۔ جہاں گیر مرزا، سارہ جہاں گیر اور پاشا مرزا معاصر تناظر کا ارتقاع کر نخشتمثالی آفاقی معنویت اور قدر و قیمت کے امین ہوگئے ہیں۔ یہ صرف ایک باپ، ایک ماں اور ایک بیٹے کی جنریشن گیپ کا ہی ناول نہیں ہے اور نہ یہ صرف تصور ِ جبلت ِ حیات (EROS) اور تصورِ جبلت مرگِ حیات (THANATOS) کا ناولاتی مکاشفہ ہے۔ اِس کے باوجود اِس کے وسیع اور رفیع تر کینوس میں بی مشن کے مخفی محافظ محانہ کے محفوظات اور فسطائی کرداری مخفیات کی ساخت شکنی کرتے ہوئے اپنے معاصر منظر نامہ کے سب سے بڑے انسان کُش، زندگی کُش اور آدرش کُش ”اَنا طوفیائی جھوٹ“ سے ٹوٹنے اور توڑنے کے عمل میں کہیں وسیع الامکان خورشید نیمروزی نئے عہد کی تخلیقیت، معنویت اور صداقت سے جڑنے اور جوڑنے کی بیکراں شدید آرزو مندی پوشیدہ ہے جو نیند شکن اور نو انقلاب افروز ہے۔ نئی جنریشن کے ”پاشا مرزا کی کہانی کا آخری حصہ“ نو مستقبل آفریں، نو مستقبل پہرور اور نو مستقبل ساز ہے۔

 ”کیا ڈیڈ حقیقت میں نیند میں چلتے تھے؟”شاید ہاں“

                       ”میرا خیال ہے نہیں۔“

                       ”کیوں؟“

                       ”وہ نیند میں چلنے والوں کے لئے لڑ رہے تھے۔“       (صفحہ ۸۲۴)

        ”نیند“ اور ”بیداری“ ہی نخشتمثال (ARCHTYPE) ہے۔

   ”مرگِ انبوہ“ میں جاں گُسل فرقہ واریت، دہشت گردی، استعماریت اور روز افرزوں روح شکن تشدد آگیں منظر نامہ سب سے اذیت ناک، دلگزار اور جاں گزار منظر نامہ ہے۔ تاہم اُس کا سب سے بڑا نو معنویت پرور ”نخشتمثالی چیلنج“ ہمہ گیر انسانیت کی آزادی، بوقلمونی اور انسانی تکثیرت کا تحفظ و بقا ہے۔ معاصر اضافی ناولاتی تخلیقیت، معنویت، معاصریت اور نئی فنیت و جمالیت میں ”مرگ ِ انبوہ“ کے جدلیاتی مخاطبہ (DISCOURCE) کی گہری معنویت، اُس کی بے لوثی، وسیع المشربی اور ہمہ گیر تخلیقی بصیرت کی آزادگی اور کُشادگی کی انسانیاتی اور جمالیاتی قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے۔ یہ مشرف عالم ذوقی کی غیر معمولی خود آگہی، تخلیقی عرفان، بیک وقت وجودیاتی اور سماجیاتی ذمہ داری، جدلیاتی فکریات اور جمالیات کا عظیم تر منبع زندگی،محبت اور نور ہے جو قابلِ قدر اور قابلِ فخر ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...