Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 > سرِ شام: ایک مختصرتاثر

نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022

سرِ شام: ایک مختصرتاثر
Authors

ARI Id

1695778069724_56118338

Access

Open/Free Access

Pages

۲۶

 عارفہ ثمین اختر نے دور طالب علمی میں تحقیق و تنقید اور شعر گوئی سے بیک وقت اپنا شغف ظاہر کیا تھا؛ لیکن عمدہ دسترس کے باوصف اول الذکر سے ان کا ناتا نصابی مدار تک محدود رہا جبکہ ثانی الذکر سے وابستگی سرمدی ثابت ہوئی؛ یوں تخلیق سے منسوب ثروت ایک بار پھر اپنی فوقیت کا اثبات کرانے میں با مراد ٹھیری۔ یہ درست ہے کہ انھیں عہد طفولیت ہی سے ادبی علمی فضا میسر آئی مگر اس معاونت کا دایرہ اثر تحدید کی تقدیر اپنے ہمراہ لاتا ہے۔ فرد اگر اپنی ذات میں اساسی تخلیقی جوہر نہیں رکھتا تو محض ماحول قلب ماہیت کا اعجاز نہیں دکھا سکتا۔

 عارفہ کی مذکورہ وہبی استعداد کا اعتراف ان کی غیر موجودگی میں اکثر سننے میں آتا رہا اور انھیں سننے کے بلا واسطہ مواقع بھی ملے۔ اس کے بعد ایک ایسا طویل وقفہ آیا کہ سچی بات ہے وہ رفت گزشت ہو گئیں کیونکہ وہی لکھنے والے قاری کے حلقہ ء نظر میں رہتے ہیں جو اس کے آئینہ ء ابصار تلک رسائی کا اہتمام بلکہ تردد کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اس دوران میں ادبی جراید یا سوشل میڈیا کے توسط عارفہ کے سخن قرطاس یا اسکرین پر نہیں ابھرے۔ اب کوئی تین دہائیوں کی گزران کے بعد یکایک ان کا شعری مجموعہ: ”سر شام“ کے عنوان سے سامنے آیا ہے تو خوشگوار حیرت نے اپنے حصار میں لے لیا ہے! مسرت اس لیے ہوئی کہ عارفہ نے اپنے وجود کی مناسبت سے عرفان آگہی کی آن کو حرز جان بنائے رکھا اور اس انمول خوبی کی اضاعت کا سانحہ نہیں ہونے دیا وگرنہ کڈھب مسائل حیات ان گنت دلنشیں تخلیق کاروں کو نگل گئے!

”سر شام“ کی غزلوں اور نظموں میں ضو ریز شاعری خود متکلم ہے کہ اس سارے عرصے میں شمع فروزاں رہی ہے، اس لیے کہ جذبوں کی تہذیب اور فکری ارتقا کے موثر ہونے کی شہادت خود متن سے طلوع ہو رہی ہے۔ عارفہ ثمین اختر کو پڑھتے ہوئے یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس مجموعے میں ایک محدود عہد نے اسارت کے لیے جتن کیا ہے۔ ہاں! یہ صحیح ہے کہ شاعر / شاعرہ بعض اوقات اپنی رضا سے کسی سنہری سمے کا تقید قبول کر کے خود کو دہرانے میں لذت محسوس کرنے لگتے ہیں، لیکن بالعموم یہ داخلی میلان ایسی صورت حال پر منتج ہوتا ہے جو قرات اور قاری سے فاصلے کا خسارا نصیب کر دیتا ہے۔ طرز اظہار کی یکسانیت بھی ایک عیب ہے مگر خیال و مضمون کی تکرار زیادہ بڑے درجے کا نقص ہے۔ عارفہ کے شعری مجموعے کی خواندگی اوراق کے پلٹنے سے آگے نہیں بڑھتی بلکہ جذبہ و احساس کی تازہ اطراف اور فکر و نظر کی نئی جہات کی وساطت سے ذہنی اور وجدانی رقبوں کو توسیع سے ہمکنار کرتی ہے۔ واضح رہے اس عالم نو کی نظارت تناقض کی مرہون منت نہیں بلکہ ہم رشتگی کو محور مان کر علاحدہ سمتوں کو دریافت کرنے کی جدوجہد سے تعبیر ہونے کا امکان ہے۔ جس کی ایک مثال ان کی دو نظمیں ہیں:

l  خواب مرتے نہیں  اور

l خواب مر بھی جاتے ہیں

  اب یہ دونوں نظمیہ متون پہلو بہ پہلو لائے گئے ہیں، جو شاہد ناطق ہیں کہ لکھنے والی کے ہاں دو رخوں کی جدا جدا اکائیوں کو بیان کرنے پر کس درجہ قدرت موجود ہے۔ شاعری dichotomy  کے بوجھ کو سہارنے کی بھلے ہی شکتی رکھتی ہو لیکن یہ شاعر ہے جو متعارض سمتوں میں اڑان بھرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ عین یہی وہ مقام ہے جہاں منشور کے قیدی کا سانس پھولنے لگتا ہے جبکہ ’کلٹ‘ سے طبعاً گریزاں شاعر اپنی آزادہ روی کے باعث سمتوں کو منہا کرنے پر قادر ٹھیرتا ہے۔ اس طرح متخالف احوال کا پیش کار منظرنامہ اضافی قرار پا جاتا ہے۔ عارفہ نے اس کرشمہ زائی کو فکری اعماق کی ترجمانی کے لیے اور جگہوں پر بھی ذریعہ بنایا ہے۔ البتہ انھوں نے کہیں بھی ایسی سخنوری کو ’نافذ‘ نہیں کیا جو تخیل کی نفاست اور شبدوں کی ملائمت سے دستبرداری کا عندیہ فراہم کرے۔ وہ اس کوملتا کی برابر پاسبان رہی ہیں جو خاص طور پر ہماری روایتی غزل نے اپنے لیے مختص رکھی ہے۔ یہی ہنر ہوتا ہے کہ زیست کی ہر ناہمواری شعر کے پیکر میں بھی ڈھلے، ہر نظری پیچیدگی سخن کے قالب میں بھی منتقل ہو لیکن کہیں اکھڑ اکھر مسلط نہ ہونے پائیں۔ خود شاعرہ بھی ادراک رکھتی ہیں:”جو لوگ مجھے جانتے ہیں؛ انھیں علم ہے کہ مشکل پسندی، تکف، تصنع، کبھی بھی میری ذات کا حصہ نہیں رہے۔“ بہرنوع ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اظہار کی یہ کمیاب سہولت کسی ریاضت کا صلہ ہے یا خلقی انعام ہے؟ تاہم جو بھی ہے ”سر شام“ کے مطالعے میں سرور موج زن ہے! امید کا سبکبار جھونکا ہے جو قاری کا استقبال کرتا ہے:

خزاں میں لپٹی تم اپنی ہستی کے زرد پتے اتار پھینکو

کبھی تو آئے گا موسم گل مہکتے پھولوں کے باغ لے کر

 کٹھنائیوں کو محیط مسافرت، جس بسیط بصیرت کی متقاضی رہی ہے، اس کی لطافت متذکرہ شعری مجموعے میں فراوانی سے ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کلام نرم و نازک میں حزن اور ملال نے بھی کہیں لاوڈ ہونا گوارا نہیں کیا۔ کہیں پہ بھی ' مچ ' نہیں، بس سلگنے کی کیفیت ہے۔ اسی دھیمی آنچ میں شاعری کا وہ جوہر مضمر ہے جو نعرے کی صداقت کش گونج کے قریب سے گزرنا بھی اپنی عصمت کے منافی یقین کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے ہم تجزیہ کاری کے خوگر شاعری کو بھی جراحی کے سپرد کرنے سے باز نہیں آتے وگرنہ captivation سے متصف شعری سطور میں تو وہ کیمیا پنہاں ہے جو روح کو شانت کر سکتا ہے!

 آخر میں ایک اعتذار! اس ارتجالی تاثر میں شاعرہ کا نام:

’عارفہ ثمین اختر‘ لکھا گیا ہے۔ وہ ’اختر‘ سے ’طارق‘ ہو گئی ہیں، یہ یاد ہی نہ رہا۔۔۔ خیر! شعر و ادب کا یہ ستارہ چمکتا رہے!! بس یہ دعا ہے!!

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...