Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 > جمیل احمد عدیل کی: سخن وری اچھی لگی

نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022

جمیل احمد عدیل کی: سخن وری اچھی لگی
Authors

ARI Id

1695778069724_56118339

Access

Open/Free Access

Pages

۲۸

اردو بازار، مال روڈ، انار کلی، ٹولینٹن مارکیٹ وغیرہ میں اکثر میرزا صاحب سے ملاقات ہو جاتی۔ میں ان کا بیگ اٹھا لیتا اور ان کے ساتھ ساتھ رہتا۔ گھر کی چھوٹی موٹی چیزیں وہ خود خریدتے تھے اور خوب بھاؤ تاؤ کرکے۔ ایک روز وہ شاپنگ وغیرہ کر چکے تو میں انھیں ویگن پر بٹھانے کے لیے انارکلی سٹاپ پر آیا۔ اس دن ویگنوں میں کچھ زیادہ رش تھا۔ میں نے کہا بھی، رکشے پر چلے جائیں مگر وہ حسبِ سابق نہیں مانے۔بڑی مشکل سے: پچیس(۵۲)نمبر ویگن میں انھیں جگہ ملی اور وہ بھی ڈرائیور کی پچھلی سیٹ(پھٹے) پر،دروازے کے بالکل ساتھ۔ انھیں بیٹھنے میں ذرا دشواری ہوتی تھی، بڑھاپے کی وجہ سے بھی اور ٹانگ میں خم کے سبب بھی۔ انھیں سوار ہونے میں قدرے تاخیر سی ہو گئی تو کنڈکٹر نے ان کا بازو سختی سے پکڑا اوریہ کہتے ہوئے ویگن میں گھسیٹ لیا: ”کیہہ بابا توں نخرے ای کری جانا ایں، جلدی کر!“اتنے میں ویگن چل پڑی اور میں وہاں کھڑا تادیر سوچتا رہا، اب: پچیس (۵۲)نمبر ویگن کے اس کندہ ناتراش کنڈکٹر کو کیا معلوم کہ یہ بابا کون ہے؟

یہ پیراگراف جمیل احمد عدیل کے ادبی کالموں کے مجموعے: ”سخن وری اچھی لگیسے لیا گیا ہے۔ اس میں انھوں نے میرزا ادیب کی یادوں اور باتوں پر ایک کالم تحریر کیا ہے۔ جمیل احمد عدیل نے میرزا ادیب کے انتقال پر تحریر کردہ اس کالم میں اُن کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں کو اجاگر کیاہے۔ اس کالم کا ایک ایک لفظ دل میں اُتر جانے والا ہے اور جس حساسیت کے ساتھ درج بالاپیراگراف تحریر کیا ہے، اُس نے ہمیں بھی رُلا دیا ہے!!

جمیل احمد عدیل سے میری پہلی ملاقات جولائی ۴۱۰۲ء کو عیدالفطر کے دن اُس وقت ہوئی جب وہ بورے والا تعطیلات پر آئے ہوئے تھے۔ میں معمول کے مطابق عید کی نماز کے بعد عارف بازار میں واقع اخبارات، کتب و رسائل کی پرانی دکان طاہر نیوزایجنسی پر گیا تاکہ عید کا اخبار لیا جائے کیونکہ عید کے اگلے دو دن یعنی ٹرو اور مرو کو اخبارات کی چھٹی ہوتی ہے۔ برسوں سے طبیعت ایسی ہو گئی ہے کہ اخبار نہ پڑھیں تو بے چینی سی رہتی ہے۔ نیوزایجنسی پہ دکان والے صاحب تو نہ تھے مگر جمیل صاحب کاؤنٹر والی کرسی پر براجمان رسائل کی ورق گردانی کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ گاہکوں کو اخبار بھی فروخت کیے جا رہے تھے۔ باتوں کے دوران میں نے اپنا تعارف کرایا تو وہ فوراً پہچان گئے اور کہنے لگے کہ اخبارات اور مختلف جرائد میں آپ کی تحریریں نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔ میں نے ان کے کالموں جوروزنامہ: ”دنمیں تواتر سے شائع ہوتے رہے تھے، کا ذکر کیا اور بتایا کہ آپ کے کالموں کی ایک کتاب: ”برجستہمیرے پاس ہے، تو انھوں نے تفصیل سے بتایا کہ میرے نثر کے ایک درجن سے زائد مجموعے آ چکے ہیں۔ جن میں سے چار کالمز پر مشتمل ہیں۔ انھوں نے اپنا تازہ مجموعہ: ”سخن وری اچھی لگیدینے کا بھی وعدہ کیا۔ جمیل احمد عدیل ایک خوش شکل، خوش گفتار اور نفیس شخصیت کے مالک انسان ہیں۔ دھیمے مزاج کے ساتھ انھیں گفتگو کا قرینہ آتا ہے، اس لیے وہ جو کچھ بولتے ہیں، مخاطب کے دل میں اُتر جاتا ہے۔ حکمت سے بات کرنے اور دل جیت لینے کا فن وہ خوب جانتے ہیں!! اس مختصر سی ملاقات کے بعد انھیں فوراً لاہور جانا تھا۔ ہم دو دن بعد چیچہ وطنی روڈ پر واقع ان کے آبائی گھر گئے۔ اُن کے بھائی سے ملے اور اُنھوں نے کالموں کا مجموعہ ہمارے سپرد کر دیا۔ یہ مجموعہ ہم اسی آئس فیکٹری سے لے کر آئے تھے، جہاں برسوں پہلے ان کے ادبی رسالے:”زہابکا دفتر قائم تھا اور جس کے متعلق معروف محقق مشفق خواجہ نے ایک دلچسپ خط لکھا تھا۔ اس خط کا ذکر جمیل صاحب نے مشفق خواجہ کے متعلق لکھے گئے اپنے کالم: ”مشفق خواجہ تارک الدنیا تھے متروک الدنیا نہیں،میں بھی کیاہے، جو اس کتاب کا حصہ ہے۔ مشفق خواجہ اپنے اس مکتوب میں رقم طراز ہیں:

عزیز مکرم! سلام مسنون! یہ خط مجھے بہت پہلے لکھنا چاہیے تھا مگر صحت کی خرابی کی وجہ سے صرف نیت بخیر رہی۔ تاب تواں مفقود! بہرحال اس دوران: ”زہابسے دل بہلاتا رہا۔ پہلا کام تو یہ کیا کہ لغت میںزہابکے معنی دیکھے۔ شکرگزار ہوں کہ آپ کی وجہ سے میرے محدود ذخیرہئ الفاظ میں ایک اضافہ ہوا۔ آپ نے کیسی کیسی عمدہ تحریریں جمع کر دی ہیں! تحریریں ہی نہیں، تصویریں بھی قابلِ دید ہیں! مونچھوں کے ایسے ایسے اسٹائل نظر آئے کہ آدمی دیکھتا ہی رہ جائے! اس سے خیال آتا ہے کہ ہمارے تخلیق کار اُردو میں لکھ کر نہ سہی، مونچھوں کے عالمی مقابلے میں شریک ہو کر تو عالمی شہرت حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ بات اس لیے بھی ذہن میں آئی کہ آپ نے اداریہ شہرت ہی کے نازک موضوع پر لکھا ہے۔ یہ درست ہے کہ ایک مقام ایسا آتا ہے جب شہرت کے ڈانڈے رسوائی سے جا ملتے ہیں مگر جو لوگ شہرت کے خواہاں ہیں! آپ ان کی خوشی کیوں چھیننا چاہتے ہیں؟ جو جس طرح خوش رہنا چاہے اُسے اسی طرح خوش رہنے دیجیے۔ آپ کی ہمت کی داد دیتا ہوں کہ آپ نے ایک ایسے زمانے میں ادبی رسالہ جاری کیا ہے، جب ادبی خدمت کرنا سراسر خسارے کا سودا ہے۔ سوائے ادبی تخلیقات کے رسالے کی تیاری میں کام آنے والی ہر چیز مہنگی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ خریدار دُور دُور تک نظر نہیں آتے۔ آپ کے نقصان کو کم کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ رسالہ کسی کو مفت نہ دیا جائے۔ ایسی صورت میں غیرفروخت شدہ رسالے رکھنے کے لیے جگہ کا مسئلہ پیدا ہوگا لیکن آپ اس مسئلے کو باآسانی حل کر لیں گے کہ آپ کا دفتر ایک آئس فیکٹری میں ہے، جہاں کولڈ اسٹوریج بھی ہے۔ ادبی کتابیں اور رسالے رکھنے کے لیے کولڈ اسٹوریج سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ خریدار بنانے کے نیک کام کا آغاز مجھ سے کیجیے۔ اگلاشمارہ وی پی پی سے بھیج دیجیے اور پہلے شمارے سے مجھے خریدار بنا لیجیے۔ آپ نے میری تحریروں کو پسند کیا ہے۔ یہ میری عزت افزائی ہے اور خوش قسمتی بھی کہ آپ نے ایسے زمانے میں مجھے پسند کیا ہے۔ جب میں لکھنا چھوڑ چکا ہوں۔ انشاء اللہ اب آپ کی رائے تبدیل نہیں ہو گی۔ مئی1997ء سے میں نے عہد کیا ہے کہ اب صرف اپنے نامکمل تحقیقی کاموں کو مکمل کروں گا۔ اب تک اس عہد پر قائم ہوں۔ آپ بھی دعا کیجیے کہ میں صراطِ مستقیم پر چلتا رہوں! آپ کے رسالے کی کامیابی کے لیے دعا کرتاہوں!!

)خیر اندیش: مشفق خواجہ:28/جولائی 2005ء(

جمیل احمد عدیل نے: ”موم کی مریمسے 1991ء میں جو سفر شروع کیا تھا وہ اپنے منفرد اور سحرانگیز طرزِ تحریر کی وجہ سے نہ صرف جاری و ساری ہے بلکہ انھوں نے اپنے فن کا لوہا بھی منوالیا ہے!! افسانوی و علامتی ادب کے ساتھ ساتھ کالم نگاری بھی ان کا ایک مضبوط حوالہ ہے۔ زیرِنظر مجموعے:”سخن وری اچھی لگیمیں انھوں نے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا ہے جنھیں کبھی زوال نہیں!! پندرہ بیس سال پہلے لکھے گئے کالمز آج بھی اتنی ہی دلچسپی سے پڑھے جائیں گے۔ یہ مجموعہ تاثراتی ادبی کالمز،معروف شخصیات، اُن کی تخلیقات اور مختلف کتابوں کے جامع تبصروں پر مشتمل ہے۔ شخصیات میں میرزا ادیب اور مشفق خواجہ کے ساتھ ساتھ: ڈاکٹر سلیم اختر، عطاء الحق قاسمی، ڈاکٹر شبیہ الحسن، کرنل ابدال بیلا، ثمینہ راجہ، سعود عثمانی، قاسم جلال، اشفاق احمد ورک، ممتاز مفتی، سعید احمد، احمد فراز اور خواجہ افتخار شامل ہیں۔ معروف مزاح نگار، اشفاق احمد ورک کے حوالے سے: ”اشفاق احمد ورک کی خاکہ مستیاںکالم کتاب کا حصہ ہے۔ جمیل احمد عدیل اور اشفاق احمد ورک یونیورسٹی کے زمانے کے گہرے اور بے تکلف دوست ہیں اور آج ان دونوں کا شمار پاکستان کے صف اول کے لکھاریوں میں ہوتا ہے۔ اپنے اپنے آبائی شہروں میں تدریسی فرائض انجام دینے کے بعد اب یہ دونوں صاحبان لاہور میں نہ صرف طلبا کی علمی پیاس بجھا رہے ہیں بلکہ ادبی حوالے سے بھی نسلوں کی آبیاری میں مصروف ہیں۔ جہاں اشفاق احمد ورک نے اپنی اولین تخلیق: ”قلمی دشمنیمیں جمیل احمد عدیل کا خاکہ: ”گفتار کا غازیلکھ کر خوب شہرت سمیٹی تو وہیں جمیل احمد عدیل نے اپنی کتاب: ”نایاب لمحےمیں اپنے اس یارِنجدکا طویل اور بے باک خاکہ: ”مزاح کے بازار میں یوسفی ثانیلکھ کر بہت پہلے حساب بے باق کر دیاتھا!!

اردو نعتیہ شاعری ادبی و فنی محاسن سے معمور ہے۔ نعت کیا ہے؟ نعت راز و نیاز کے پردوں میں آنکھ کھولتی ہے اور سوزوگداز میں ڈھل کر تسلیم و رضا کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنھیں اس پُرآشوب دور میں بھی مدحتِ رسالت مآبؐ کا شرف حاصل ہے اور جواس مقدس صنف کو قرآن و حدیث اور سیرتِ طیبہ سے سیراب کرتے رہتے ہیں۔ جمیل احمد عدیل کے اس مجموعے میں تین خوبصورت نعتیہ کتابوں پر بھی تحریریں شامل ہیں۔جمیل احمد عدیل ایک وسیع المطالعہ شخص ہیں۔ کتاب سے دوستی و رابطہ اُن کی شخصیت کا اہم ترین حصہ ہے۔ ہر ماہ کتابوں کی خریداری اُن کی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ کتاب سے یہ محبت زمانہئ طالب علمی سے ہی اُن کے ساتھ ساتھ ہے۔ اس کا ایک حوالہ خواجہ افتخار پر لکھے اُن کے کالم سے بھی ملتا ہے۔ ایف سی کالج میں اُن کے ایک کلاس فیلو، اسداللہ بھون تھے۔ جمیل احمد عدیل لکھتے ہیں:”یہ کالج کے انھی دنوں کی بات ہے۔ اسد نیچے اخبار کے سٹینڈ پر جھکا ہوا تھا، مکمل منہمک! ہم اوپر اسی کے کمرے کی پرائیویسی میں براجمان تھے۔ واپس آیا تو پوچھا: کیا خیر کی خبر تھی، جو اس قدر گم تھے؟ بڑے جوش سے بولا:”چل سائیکل اُٹھا! فیروز سنز چلتے ہیں:’جب امرتسرجل رہاتھاکے مصنف خواجہ افتخار کی نئی کتاب چھپی ہے:’دس پھول ایک کانٹا، ابھی اخبار میں اسی کے اقتباسات پڑھ کر آ رہا ہوں اور ہم دیوانے دو پیڈل مارتے ہوئے فیروزسنز پر پہنچے اور ایک ایک نسخہ مذکورہ کتاب کا خرید کر واپس آئے اور پھر پہلی ترجیح اسی کے مطالعے کو دی۔ اسد زبانی کلامی تھا جبکہ ہمارا جنون اس لحاظ سے سوا تھا کہ لکھنے کا عارضہ تب بھی لاحق تھا۔ خیر دن رات ایک کرکے: دو سو اڑتالیس(۸۴۲)صفحات پر مشتمل اس تاریخی دستاویز کا لفظ بہ لفظ مطالعہ کیا اور پھر کئی دن اسی کے مندرجات کے اعتبارات سے ہم دونوںدانشورخیالات کا تبادلہ کرتے رہے۔ متذکرہ تصنیف اس عاجز کے سر پر کچھ اس طرح سوار ہوئی کہ ایک سہ پہر بارش کے باوصف سائیکل اٹھائی اور جا ۵۳۔نسبت روڈ پہنچے، بیل دی۔ جو صاحب باہر آئے انھیں پہچاننے میں ہمیں ذرا دِقت نہ ہوئی کہ مطبوعہ تصویر سے ان کی نسبت دور کی نہیں تھی۔ جیسا کسی کشمیری کو خوبصورت ہونا چاہیے تھا، خواجہ افتخار ویسے ہی سوہنے تھے۔ اب بی۔ اے کا طالب علم، معمولی سا لڑکا، کیااپنا تعارف کراتے!؟! بہرقصّہ انھیں بتایا کہ آپ کی کتاب تازہ تازہ پڑھی ہے۔ بس جذبے کا وفور آپس ے ملاقات کے لیے کھینچ لایا ہے۔ خواجہ صاحب بے حد تپاک سے ملے! بیٹھک کا دروازہ کھولا اور ہمیں بٹھایا۔ خود باہر سے کولڈڈرنک لے کر آئے۔ کتاب کے حوالے سے انھوں نے عمداًایسی استفہامیہ گفتگو کی تاکہ انھیں یقین آ جائے کہ واقعتاہم نے کتاب کا مطالعہ کر رکھا ہے، کہیں بوتل پینے کے شوق میں تو نہیں چلے آئے اور وہ اعتبار انھیں جلد ہی آ گیا۔

سخن وری اچھی لگیجمیل احمد عدیل کے اظہارِ بیاں اور فکری کاوشوں کا خوبصورت مجموعہ ہے۔ انھوں نے جو سوچا، سمجھا اور محسوس کیا، اُسے الفاظ کا روپ دے دیا۔ انھوں نے اپنے پڑھنے والوں کو احساس کا درد دیا کہ رشتے خون سے زیادہ احساس کے ہوتے ہیں۔ جمیل احمد عدیل کے یہ کالم جہاں اپنے عہد کے رویوں کے عکاس ہیں وہیں اپنی اقدار اور تہذیب سے بھی جُڑے ہوئے ہیں۔ یہ کالم اپنی شخصیات کی طرح اُجلے، کھرے اور صاف و شفاف ہیں۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر عبیداللہ خان پر لکھے تعزیتی کالم میں انھوں نے زندگی کی اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے، جس کے بارے میں ہم گفتگو کرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں:

کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اُٹھ کر چپ چاپ

ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں

انھوں نے صحیح لکھا کہ زندگی موت کے حوالے سے کسی سے استثنائی معاملہ نہیں کرتی: ”سمجھ زیرِ زمیں اس کو جو بالائے زمیں آیا!!“

آخر میں دل کی بات کہتا ہوں؛جمیل احمد عدیل کی یہ کتاب پڑھتے ہوئے اپنی والدہ کی یاد آئی؛خاص طور پر کتاب کے پہلے صفحہ پر جمیل صاحب کے ہاتھ سے میرے لیے لکھے الفاظ اور___ تاریخ___ والدہ بھی اسی سال اسی دنیا سے چلی گئی تھیں۔ کالم: ”سخن اور سخن ورمیں شامل سعود عثمانی کا شعر پڑھا:

مجھے بھی اُس سے بچھڑ کر کوئی نہ راس آیا

اُسے بھی میری طرح کا مِلا نہیں کوئی!!

تو آنکھیں پُرنم ہو گئیں!! والدین اوراولاد کا رشتہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کا نعم البدل کبھی نہیں ملتا! ڈاکٹر نیر صمدانی پر لکھا گیا کالم: ”کانچ کے آدمی کی مٹی میں تدفینبھی آنکھیں بھگونے کے لیے کافی ہے! موت ایک اٹل حقیقت ہے، جو بالآخر ہم سے ہمارے پیاروں کو چھین کر لے جاتی ہے! کہیں رئیس فروغ کا شعر پڑھا تھا:

لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اُتر جاتے ہیں

اک بُرائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...